ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
(التوبہ، 9 : 60)
’’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کے لئے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے۔
قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہوجائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہوجائے گا۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے۔
’’فقیر اور مسکین دونوں ہی مالی ضروریات کے لئے دوسروں کے مالی تعاون کے محتاج ہیں دونوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے فقیر سے بڑھ کر مسکین خستہ حال ہوتا ہے فقیر تنگدست ہوتا ہے تہی دست نہیں ہوتا مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے مگر ضروریات زندگی اس سے پوری نہیں ہوتیں‘‘ بدائع الصنائع 2 : 43۔ ۔ ۔ فتاویٰ عالمگیری 188 تفسیر کبیر 107 طبع ایران۔ ۔ ۔ احکام القرآن للحبصاص 3 : 122۔ ۔ ۔ روح المعانی 15 : 120۔ ۔ ۔ ہدایہ : 163۔ ۔ ۔ الجامع الاحکام القرآن للقرطبی 7 : 157)
وہ لوگ جو زکوٰۃ وعشر جمع کرنے پر مامور ہوں، ان سب کو زکوٰۃ فنڈ سے اجرت یا تنخواہ دی جائے گی خواہ امیر ہوں خواہ غریب
ان مایستحقه العامل انما یستحقه بطریق العمالته لابطریق الزکاة بدلیل ان یعطی وان کان غنیا بالا جماع ولو کان ذلک صدقته لما حلت للغنی
’’عامل جو زکوٰۃ لینے کا مستحق ہے وہ صرف اپنے کام کی بناء پر اس کا حقدار ہے نہ کہ زکوٰۃ کی حیثیت سے دلیل یہ ہے کہ اسے تنخواہ ملے گی گو غنی وامیر ہو اس پر امت کا اجماع ہے اگر یہ صدقہ ہوتا تو امیر کے لئے جائز نہ ہوتا۔ ‘‘
(بدائع الصنائع 2 : 44 ۔ ۔ ۔ فتح القدیر 2 : 204 ۔ ۔ ۔ تفسیر کبیر 16 : 115)
امااخذ طلمه زماننا من الصدقات والعشور والخراج والجبایات و المصادرات فالا صح انه یسقط جمیع ذلک عن ارباب الاموال اذا نوواعند الدفع التصدق علیھم
’’رہا ہمارے دور کے ظالم حکمرانوں کو زکوٰۃ وعشر خراج جزیہ اور محصولات لینا تو صحیح تر یہ ہے کہ مالدار لوگ ان کو مال دیتے وقت ان پر صدقہ کی نیت کرلیں، تو ان سے شرعی مالی واجبات ساقط ہوجائیں گے‘‘۔
(فتاویٰ عالمگیری، 1 : 190)
گویا ان کو دوبارہ ادا نہیں کرنا پڑے گا جیسے آج کل حکومت زبردستی زکوٰۃ بینکوں سے کاٹ لیتی ہے اور افسر شاہی شیر مادر سمجھ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہمراہ ڈکار لئے بغیر سب کچھ ہڑپ کرجاتی ہے۔ اسی لئے حقیقت شناس لوگ بینکوں پر بھروسہ نہیں کرتے اپنے طور پر زکوٰۃ کی رقم اس کے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ ہی احسن طریقہ ہے۔
مال دو طرح کا ہے ایک ظاہری جیسے مویشی غلہ مال تجارت وغیرہ اس کی زکوٰۃ اسلامی حکومت وصول کرتی ہے۔ دوسرا باطنی یا پوشیدہ مال جیسے زیورات یا نقدی اس کی زکوٰۃ ہر شخص خود ادا کرتا ہے۔
فی زمانہ چونکہ زکوٰۃ وعشر کا نظام حکومت کی طرف سے شرعی اصول کے مطابق نہیں اور چونکہ اس سے ضرورت مندوں، محتاجوں، مسکینوں کی کفالت عامہ کی ذمہ داری بھی حکومت نہیں لیتی نہ اس کے شرعی مصارف میں صرف کرتی ہے۔ بلکہ دوسرے شعبوں کی طرح اس شعبہ میں بھی لوٹ مار اور افسر شاہی کے اللوں تللوں کی بھرمار ہے۔ نہ وصولی میں شرعی اصولوں کی پابندی ہے نہ صرف کرنے میں اس لئے محتاط مسلمان اپنے طور پر اپنے مالوں کی زکوٰۃ مناسب مصارف میں خود صرف کرتے ہیں یہ بالکل جائز ہے۔ حالانکہ زکوٰۃ امراء سے لیکر فقراء پر صرف کرنے کے لئے فرض کی گئی ہے تاکہ غریب ومسکین حاجت مندوں کی باعزت کفالت ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ کبھی خود اپنی ذات پر مال زکوٰۃ صرف کیا نہ اپنے خاندان بنی ہاشم پر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان بنی ہاشم پر زکوٰۃ وعشر کا مال حرام فرمادیا۔ حضور بھی زکوٰۃ کی وصولی وتقسیم کا کام بلامعاوضہ کرتے تھے اور اپنے خاندان کے لئے بھی یہ حکم تھا کہ ان میں سے جو کوئی بلامعاوضہ یہ خدمت کرنا چاہے کرے، لیکن زکوٰۃ میں سے معاوضہ لے کریہ خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ ہاں زکوٰۃ کے محکمہ میں کام کرنے والا ہاشمی زکوٰۃ فنڈ کے علاوہ تنخواہ پائے تو یہ جائز ہے۔ البتہ زکوٰۃ کے علاوہ ان تحائف دیئے جاسکتے ہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری 1 : 188)
زکوٰۃ وعشر کاچوتھا مصرف مؤلفتہ القلوب ہیں یعنی وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہے تالیف قلب کا مطلب ہے دل موہ لینا، مائل کرنا، مانوس کرنا۔ اس حکم خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں اور مال دے کر ان کی مخالفت ختم کی جاسکتی ہے یا ایسے نادار کافر جن کی مالی امداد کرکے ان کو اسلام کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے جس کے نتیجہ میں پہلے ان کا جوش عداوت ٹھنڈا ہوگا اور بالاخر وہ اسلام میں داخل ہوسکتے ہیں۔ یا وہ لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوں اور ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو امکان ہے کہ وہ اپنی کسمپرسی اور کمزوری کی بناء پر پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو و قتی عطیات یا مستقل وظائف مال زکوٰۃ سے دے کر ان کو اسلام کا مطیع وفرماں بردار یا کم ازکم بے ضرر دشمن بنالیا جائے ایسے لوگوں کو مال زکوٰۃ دینا جائز ہے خواہ وہ غریب ہوں خواہ مالدار اس بات میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ قرآن کریم میں زکوٰۃ وعشر کے جو آٹھ مصارف ذکر کئے گئے ہیں ان میں ’’مؤلفتہ القلوب‘‘ کا حصہ بھی شامل ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤلفتہ القلوب کو اپنی حیات ظاہری میں مالی وظائف دیا کرتے تھے۔ مثلاً خاندان بنی امیہ میں سفیان بن حرب، نبی مخزوم میں حارث بن ہشام، عبدالرحمن بن یربوع، نبی جمح میں صفوان بن امیہ، بنی عامر بن لوئی میں سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزیٰ، بنی اسد بن عبدالعزیٰ میں حکیم بن حزام، بنی ہاشم میں ابوسفیان بن الحارث بن عبدالمطلب، فزارہ عینیہ بن حصن، بنی تمیم میں اقرع بن حابس، بنی نصر میں مالک بن عوف، بنی سلیم میں عباس بن مرد اس، ثقیف میں علاء بن حارثہ، بنی حارثہ، بنی سہم میں عدی بن قیس، ان میں سے بعض کو 100 اونٹ اور بعض کو 50 ملے۔
لیکن جب خلافت صدیقی میں عینیہ بن حصن اپنا حصہ لینے آئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی ’’الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ‘‘ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے سو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے‘‘ دوسری روایت میں ہے عینیہ اور اقراع، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس زمین مانگنے آئے۔ آپ نے ان کو تحریر لکھ دی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے چاک کردیا، اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں یہ کچھ اس لئے دیتے تھے کہ تم اسلام سے مانوس ہو جاؤ۔ اب اللہ نے اسلام کو غلبہ دے دیا ہے اور اسے تم لوگوں سے مستغنی کردیا ہے، اسلام پر قائم رہوگے تو ٹھیک، ورنہ ہمارے تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کریگی وہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر آئے اور کہنے لگے آپ خلیفہ ہیں یا عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت کی اور کسی صحابی نے انکار نہیں کیا۔‘‘
(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 114 ۔ ۔ ۔ بدائع الصنائع 2 : 45 ۔ ۔ ۔ فتح القدیر 1۔ 200 ۔ ۔ ۔ تفسیر کبیر 16 : 111)
امام رازی لکھتے ہیں۔
الصحیح ان هذا الحکم غیر منسوخ وان للامام ان یتألف قوما علی هذا الوصف ویدفع الیهم سهم المؤلّفة
’’صحیح یہ ہے کہ حکم منسوخ نہیں اور امام کا حق ہے کہ ایسے لوگوں کو اسی طرح مانوس کرتا رہے اور ان کو مؤلّفتہ القلوب کا حصہ دیتا رہے‘‘۔
(کبیر 16 : 111)
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے مصارف زکوٰۃ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مصرف مؤلّفتہ القلوب کا مقرر فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مد میں زکوٰۃ وعشر کی آمدنی خرچ فرمائی۔ اور کبھی اسے منسوخ نہ فرمایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان تمام حضرات کے وہ وظائف بند کردیئے جو تالیف قلب کے طور پر وہ اس سے پہلے وصول کرتے تھے۔ بعض ائمہ کرام (جیسے احناف) کا موقف یہ ہے کہ مؤلّفتہ القلوب کا حصہ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور تمام صحابہ کرام کے سامنے ایسا ہوا اور کسی نے اس پر اختلاف یا انکار نہ کیا پس معلوم ہوا کہ اس مصرف کے سقوط پر اجماع صحابہ ہے اور چونکہ اجماع دلیل قطعی ہے۔ لہٰذا قرآن کا نسخ اس سے جائز ہے بعض ائمہ نے فرمایا پہلے تالیف قلب کی ضرورت تھی لہٰذا یہ مصرف بحال رہا۔ جب اسلام کو قوت حاصل ہوگئی تو کسی کی تالیف قلب کی ضرورت نہ رہی پس حکم جاتا رہا۔ ہمارے نزدیک تالیف قلب کی آج بھی اتنی ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے جتنی ابتدائے اسلام میں۔ آج بھی ضرورت اس امرکی ہے کہ اس فنڈ میں سے غریبوں کی مدد کرکے ان کے عقیدہ کو بچایا جائے۔
مسلمانوں کو مال کی لالچ میں مرتد ہونے سے اور غیر مسلم غریبوں کی مالی اعانت کرکے انہیں مسلمان کیاجائے۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ غیر مسلم امیر ممالک اور ان کی ایجنسیاں غریبوں کو مرتد کرنے پر اربوں ڈالر اور بعض پٹرول کی دولت سے مالا مال شرق اوسط کے ممالک لوگوں کو بدعقیدہ کرنے پر پانی کی طرح پیسہ بہارہے ہیں۔ پختہ صحیح العقیدہ صاحبانِ ثروت مسلمانوں کو اپنی دولت اورعشروزکوٰۃ غریب وفادار غیرمسلموں کی اصلاح پر خرچ کرنی چاہیے۔ بیروزگار وبیمار لوگوں کی مالی اعانت کرنی چاہیے۔ یونہی نادار ومفلس مسلم وغیر مسلموں کے بچوں کی تعلیم وتربیت پر زکوٰۃ وعشر کی رقوم خرچ کرناچاہیے نیز ذمی شہریوں سے جزیہ وخراج وصول کرکے ذمی طلباء وغربا کی ہرطرح کی مالی اعانت کی جائے اور ان کو ضروریات زندگی مہیا کی جائیں۔ یہ سب اسلامی فلاحی حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے۔
امیروں اور ڈانواں ڈول لوگوں پر خرچ کرکے ان کو مخالفین اسلام کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچایا جائے۔ نومسلموں کی مالی اعانت کرکے ان کو اسلام کی طرف مائل ومانوس کیاجائے۔ مال کے خواہش مندوں کو مالی مدد دیکر اسلام پر کار بند کیا جائے۔ دشمن قوتوں کی مالی اعانت کرکے ان کے شر سے ملک وملت کو بچایا جائے غیر مسلم قوتیں مال دے کر مسلمانوں کے عقیدے خراب کرتی اور ان کو مرتد کرتی ہیں۔ اسلام بھی ان پر مال خرچ کرکے ان کو مسلمان ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ صحابہ کرام کا اجماع اس بات پر ہوا تھا کہ اس دور میں مؤلّفتہ القلوب کو کچھ دینے کی ضرورت نہ رہی تھی۔
آج بھی ضرورت نہ ہوتو آپ کو کسی نے مجبور نہیں کیا کہ ضرور مؤلّفتہ القلوب کا مصرف پیدا کریں۔ لیکن ضرورت ہوتو پھر آپ اس مد میں زکوٰۃ صرف کرسکتے ہیں۔ جیسے دوسری مدات ہوں تو زکوٰۃ صرف کریں کوئی مدنہ ہو تو چھوڑ دیں بیت المال میں مال جمع کرا دیں۔ یہ قرآنی حکم کا نسخ نہیں بلکہ علت نہ رہنے سے حکم ختم ہوگیا، جیسے تیمم اس وقت تک کرسکتے ہیں جب تک پانی استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو۔ جونہی پانی پر قدرت حاصل ہوئی تیمم کا حکم ختم۔ حکم علت کے ساتھ رہا۔ ہمیشہ کیلئے منسوخ ہوا نہ ہر صورت میں نافذ! یہی معاملہ ہے مؤلّفتہ القلوب کا جہاں جب ضرورت ہو صرف کریں ضرور ت نہ ہو مت کریں۔ جیسے آئمہ احناف نے فرمایا ان المقصود بالدفع الیهم کان اعزاز الاسلام لضنعفه فی ذلک الوقت لغلبه اهل الکفر فکان الاعزازیه فی الدفع فلما تبدل الحال بغلبته اهل الاسلام صار الااعزاز هو المقصود وهو باق علی جاله فلم یکن نسخا کالمتیم. . . الخ فتح القدیر شرح ہدایہ لابن الھمام ہے الکفایہ (للخوارزمی 2 : 201) اس وقت اسلام کمزور تھا لہٰذا مؤلّفتہ القلوب کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا۔ کیونکہ کافر غالب تھے پس اعزاز اسلام ان کو زکوٰۃ دینے کا مقصد اسلام کو قوت دینا تھا۔ اہل اسلام کے غلبہ سے جب صورت حال بدل گئی اب غلبہ اہل اسلام ان کو زکوٰۃ نہ دینے میں ہوگیا پس اس (ابتدائی ) زمانہ میں ان (مؤلّفتہ القلوب) کو دینا اور اس پچھلے دور میں نہ دینا (جیسے عمر رضی اللہ عنہ نے کیا) غلبہ دین کے بمنزلہ ذریعہ و وسیلہ ہوا۔ اصل مقصود غلبہ دین ہے اور وہ اسی طرح اب بھی باقی ہے۔ پس نسخ نہ ہوا۔ جیسے تیمم (کہ مجبوری کے وقت جائز ہوگیا اور مجبوری نہ رہی تو ختم ہوگیا نہ ہمیشہ کے لئے جائز نہ منسوخ) (شرح ہدایہ، للخوارزمی فتح القدیر شرح ہدایہ لعلامہ ابن ہمام 2 : 201 طبع پاکستان)
گردنیں چھڑانے میں اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا، کمزور، نادار، اور پسماندہ انسانوں کو طاقتور لوگ اپنا غلام بنالیتے تھے۔ یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم، مغلوب قوم کو اپنا غلام بناکر ان کے گھر بار زمین جائیداد یہاں تک کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی اسلام نے انسانی غلامی کو جرم قراردیا جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً واخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا۔ جس کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہوگئی جو مالک اپنے غلاموں لونڈیوں کو بلا معاوضہ آزاد کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ان کو مالی معاوضہ دے کر غلاموں کو آزادی دلائی گئی۔ مالک اپنے مملوک سے آزادی کے لئے جو مالی معاوضہ طلب کرے اسے بدل کتابت کہاجاتا ہے غلام مطلوبہ رقم ادا کرکے آزادی سے ہمکنار ہوسکتا ہے اور وہ رقم مال زکوٰۃ سے دی جاسکتی ہے۔ یونہی جو مسلمان آج کل ظالم وغاصب کافروں سے اپنی اپنی آئندہ نسلوں کی بقاء وآزادی کی جنگ لڑرہے ہیں وہ محکوم ومظلوم مسلمان بھی مال زکوٰۃ کے مستحق ہیں۔ اور اس قرآنی مصرف میں شامل ہیں۔
’’والغارمین‘‘ اور قرضداروں کو یعنی مال زکوٰۃ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کئے جاسکتے ہیں۔
’’اور اللہ کے راستے میں‘‘ امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہدین مراد لئے ہیں اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ عازمین حج جو راستے میں مالی مدد کے محتاج ہوں۔ کچھ علماء کے نزدیک طالب علم مراد ہیں۔ امام کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ وہ ’’فی سبیل اللّٰه ‘‘ عبارة عن جمیع القرب فید خل فیه کل من سعی فی طاعة اللّٰه و سبیل الخیرات اذا کان محتاجا‘‘ فی سبیل اللہ سے مراد ہے تمام نیکی کے کام، اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ ودو کرے۔ جب کہ (زکوٰۃ کا) حاجت مندہو۔ (بدائع الصنائح، 2 : 45۔ ۔ ۔ تفسیر روح المعانی، 10 : 123۔ ۔ ۔ درمختار مع ردالمختاری للشامی، 2 : 343)
امام رازی فرماتے ہیں۔ ان ظاهر اللفظ لایو جب القصر علی کل الغزاة ظاہر لفظ مجاہدین پر حصرلازم نہیں کرتا‘‘ (تفسیر کبیر16 : 113 طبع بیروت)
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ساتواں مصرف قرآن کریم میں فی سبیل اللہ بیان فرمایا گیا ہے۔ بعض فقہاء کرام نے اس سے حج اور جہاد پر جانے والے وہ لوگ مراد لئے ہیں جو سفر اور متعلقہ ضروریات کے سلسلہ میں مالی تعاون کے طالب ہیں ان پر زکوٰۃ صرف کی جاسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ کتاب وسنت میں براہ راست یہ وضاحت نہیں کی گئی۔ لہٰذا مجاہدین سے مراد اگر عام معنی مرادلیاجائے تو زیادہ مناسب ہے یعنی وہ لوگ جو دین اسلام کی سربلندی کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں خواہ وہ جہد فوجی میدان میں ہو خواہ تعلیمی میدان میں، خواہ تبلیغی وتربیتی میدان میں جہاد کا مفہوم قتال وغزاء سے عام ہے۔ پس جو لوگ ان محاذوں پر مصروف کار ہیں اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں تو زکوٰۃ سے ان کے وقتی یا مستقل وظائف مقرر کئے جاسکتے ہیں۔
زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف مسافر ہے۔ خواہ گھر میں مالدار ہو مگر سفر میں تنگدست ہوجائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو، تو زکوٰۃ سے اس کی مالی مدد کی جائے گی المراد الذی انقطعت به الاسباب فی سفره عن بلده ومستقره وماله فانه یعطی منها وان کان غنیا فی بلده اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے وسائل واسباب گھر ٹھکانہ اور مال سے دور سفر میں ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ اس کو مال زکوٰۃ سے دیاجائے گا اگرچہ اپنے شہر میں امیر ہو۔
(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی 8 : 119 بدائع الصنائع کاسانی 2 : 46)
ہدایہ مع فتح القدیر لعلامہ ابن الھمام 2 : 204 ردالمختار شامی ج 2 : 343)
زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ فرد یا جماعت کو زکوٰۃ کا مالک بنادیا جائے تاکہ مالدار کادینا اور حقدار کا لینا ثابت ہوجائے۔
اسے تملیک یعنی مالک بنانا کہتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے یہ شرط ہے۔ (عامہ کتب فقہ)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved