خدمت دین کی اہمیت و فضیلت

دعوت و تبلیغ کی فضیلت

اَلدَّعْوَةُ وَالإْبْـلَاغُ

{دعوت و تبلیغ کی فضیلت}

اَلْقُرْآن

(1) وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo

(آل عمران، 3/ 104)

اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔

(2) کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللهِط وَلَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ط مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَo

(آل عمران، 3/ 110)

تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقینا ان کے لیے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔

(3) يٰٓاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ط وَاللهُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ط اِنَّ اللهَ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِيْنَo

(المائدة، 5/ 67)

اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجیے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بے شک اللہ کافروں کو راهِ ہدایت نہیں دکھاتا۔

(4) قُلْ هٰذِهِ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللهِقف عَلٰی بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ط وَسُبْحٰنَ اللهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَo

(يوسف، 12/ 108)

(اے حبیبِ مکرم!) فرما دیجیے: یہی میری راہ ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

(5) وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْکِتٰبَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ يُّنْکِرُ بَعْضَهُ ط قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ وَلَآ اُشْرِکَ بِهِ ط اِلَيْهِ اَدْعُوْا وَاِلَيْهِ مَاٰبِo

(الرعد، 13/ 36)

اور جن لوگوں کو ہم کتاب (تورات) دے چکے ہیں (اگر وہ صحیح مومن ہیں تو) وہ اس (قرآن) سے خوش ہوتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اور ان (ہی کے) فرقوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اس کے کچھ حصہ کا انکار کرتے ہیں، فرما دیجیے کہ بس مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ (کسی کو) شریک نہ ٹھہراؤں، اسی کی طرف میں بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔

(6) اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَo

(النحل، 16/ 125)

(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو، بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔

(7) لِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا هُمْ نَاسِکُوْهُ فَـلَا يُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَ ط اِنَّکَ لَعَلٰی هُدًی مُّسْتَقِيْمٍo وَ اِنْ جَادَلُوْکَ فَقُلِ اللهُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَo

(الحج، 22/ 67-68)

ہم نے ہر ایک امت کے لیے (احکامِ شریعت یا عبادت و قربانی کی) ایک راہ مقرر کر دی ہے، انہیں اسی پر چلنا ہے، سو یہ لوگ آپ سے ہرگز (اللہ کے) حکم میں جھگڑا نہ کریں، اور آپ اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں۔ بے شک آپ ہی سیدھی (راہِ) ہدایت پر ہیں۔ اگر وہ آپ سے جھگڑا کریں تو آپ فرما دیجیے: اللہ بہتر جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔

(8) قُلْ اَطِيْعُوااللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ط وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ط وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo

(النور، 24/ 54)

فرما دیجیے: تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رُوگردانی کی تو (جان لو) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جائو گے، اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہے۔

(9) يٰـٓاَيُهَا النَّبِيُ اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًاo وَّ دَاعِيًا اِلَی اللهِ بِاِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًاo

(الأحزاب، 33/ 45-46)

اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔

(10) وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَo

(حم السجده، 41/ 33)

اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے بے شک میں (اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

(11) فَلِذٰلِکَ فَادْعُ ج وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ج وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَ هُمْ ج وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللهُ مِنْ کِتٰبٍ ج وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَکُمْ ط اللهُ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ ط لَـنَـآ اَعْمَالُـنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُـکُمْ ط لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ ط اللهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَاج وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُo

(الشوری، 42/ 15)

پس آپ اسی (دین) کے لیے دعوت دیتے رہیں اور جیسے آپ کو حکم دیا گیا ہے (اسی پر) قائم رہئے اور اُن کی خواہشات پر کان نہ دھریئے، اور (یہ) فرما دیجیے: جو کتاب بھی اللہ نے اتاری ہے میں اُس پر ایمان رکھتا ہوں، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف کروں۔ اللہ ہمارا (بھی) رب ہے اور تمہارا (بھی) رب ہے، ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث و تکرار نہیں، اللہ ہم سب کو جمع فرمائے گا اور اسی کی طرف (سب کا) پلٹنا ہے۔

اَلْحَدِيْث

1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: بَلِّغُوْا عَنِّي وَلَوْ آيَةً. وَحَدِّثُوْا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ وَلَا حَرَجَ. وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب أحاديث الأنبياء، باب ما ذکر عن بني إسرائيل، 3/ 1275، الرقم/ 3274، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 202، الرقم/ 6888، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحديث عن بني إسرائيل، 5/ 40، الرقم/ 2669، والدارمي في السنن، 1/ 145، الرقم: 542، وابن حبان في الصحيح، 14/ 149، الرقم/ 6256، وعبد الرزاق في المصنف، 10/ 312، الرقم/ 19210.

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری طرف سے (ہر بات لوگوں تک) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي قِرْصَافَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : حَدِّثُوْا عَنِّي بِمَا تَسْمَعُوْنَ، وَلَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَکْذِبَ عَلَيَّ. فَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ، وَقَالَ عَلَيَّ غَيْرَ مَا قُلْتُ، بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي جَهَنَّمَ يَرْتَعُ فِيْهِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 18، الرقم/ 2516، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 129، الرقم/ 2655، وذکره الهيثمی في مجمع الزوائد، 1/ 148، والهندي في کنز العمال، 10/ 97، الرقم/ 29178.

ایک روایت میں حضرت ابو ِقرْصَافهَ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ بھی تم مجھ سے سنتے ہو اسے بیان کیا کرو اور کسی شخص کے لیے بھی مجھ پر جھوٹ باندھنا جائز نہیں ہے۔ جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا اور میرے فرمان کے علاوہ میری طرف کچھ منسوب کیا اُس کے لیے جہنم میں گھر بنا دیا جائے گا جس میں آتشِ جہنم اُس کی غذا ہوگی۔

اس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ دَعَا إِلٰی هُدًی، کَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَالِکَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا. وَمَنْ دَعَا إِلٰی ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

2: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سدئة ومن دعا إلی هدی أو ضلالة، 4/ 2060، الرقم/ 2674، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 397، الرقم/ 9149، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب لزوم السنة، 4/ 201، الرقم/ 4609، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء فدمن دعا إلی هدی فاتبع أو إلی ضلالة، 5/ 43، الرقم/ 2674، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سدئة، 1/ 75، الرقم/ 206.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے (دوسروں کو) ہدایت کی طرف بلایا اس کے لیے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے جبکہ ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لیے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس غلطی کا ارتکاب کرنے والوں پر ہے جبکہ ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔

اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو داؤد، ترمذی اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

3. عَنْ جَرِيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيئٌ. وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيئٌ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

3: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة أو کلمة طيبة وأنها حجاب من النار، 2/ 704، الرقم/ 1017، وفي کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلی هدی أو ضلالة، 4/ 2060، الرقم/ 2674، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 358، الرقم/ 19197، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقة، 5/ 75، الرقم/ 2554، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، 1/ 74-75، الرقم/ 203، 207، والبزار في المسند، 7/ 366، الرقم/ 2963.

حضرت جَریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالی تو اس کے لیے اپنے عمل کا ثواب بھی ہے اور اُس کے بعد جو اس پر عمل کریں گے ان کا ثواب بھی ہے جبکہ ان کے ثواب میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔ (اسی طرح) جس نے اسلام میں کسی بری بات کی ابتداء کی تو اُس پر اُس کے اپنے عمل کا گناہ بھیہے اور جو اس کے بعد اُس پر عمل کریں گے اُن کا بھی گناہ ہے جبکہ اُن کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔

اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، نسائی اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔

4. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ کَمَا سَمِعَ. فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

4: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 436، الرقم/ 4157، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبليغ السماع، 5/ 34، الرقم/ 2657، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من بلغ علما، 1/ 85، الرقم/ 232، والدارمي في السنن، 1/ 87، الرقم/ 230، والبزار في المسند، 5/ 382، الرقم/ 2014، وأبو يعلی فی المسند، 9/ 198، الرقم/ 5296، وابن حبان في الصحيح، 1/ 268، الرقم/ 66.

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے (دوسروں) تک ایسے ہی پہنچایا جیسے سنا تھا کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں علم پہنچایا جائے (براہِ راست) سننے والے سے زیادہ اس کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔

اس حدیث کو امام احمد، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيْثًا فَحَفِظَهُ حَتّٰی يُبَلِّغَهُ. فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيْهٍ.

رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْدَاؤدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَدِيْثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

أخرجه أبو حنيفة في المسند، 1/ 252، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 183، الرقم/ 21630، وأبو داود في السنن، کتاب العلم، باب فضل نشر العلم، 3/ 322، الرقم/ 3660، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبليغ السماع، 5/ 33، الرقم/ 2656، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من بلغ علما، 1/ 85، الرقم/ 231.

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سن کر اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے آگے پہنچا دیا۔ بہت سے سمجھ بوجھ رکھنے والے اپنے سے زیادہ فہم و بصیرت رکھنے والے شخص کو (حدیث) پہنچاتے ہیں اور بہت سے فقہ کے حامل لوگ درحقیقت خود فقیہ نہیں ہوتے۔

اِس حدیث کو امام ابو حنیفہ، احمد، ابوداود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا: زید بن ثابت کی حدیث حسن ہے۔

5. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضي الله عنه قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْخَيْفِ مِنْ مِنًی فَقَالَ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا ثُمَّ أَدَّاهَا إِلٰی مَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا. فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَا فِقْهَ لَهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

5: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 80، الرقم/ 16800، والترمذي في السنن عن عبد اللہ بن مسعود، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبليغ السماع، 5/ 34، الرقم/ 2658، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من بلغ علما، 1/ 85، الرقم/ 231، والدارمي في السنن، 1/ 86، الرقم/ 228، والحاکم في المستدرک، 1/ 162، الرقم/ 294، وأبو يعلی في المسند، 13/ 408، الرقم/ 7413، والشافعي في المسند، 1/ 240، والطبراني فی المعجم الأوسط، 7/ 117، الرقم/ 7020، وأيضًا في المعجم الکبير، 2/ 127، الرقم/ 1544.

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ منٰی میں مسجد خیف میں کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے جس نے میری بات کو سن کر اسے یاد رکھا پھر اسے اس شخص تک پہنچا دیا جس نے اسے نہیں سنا تھا۔ پس بہت سے سمجھ بوجھ والے دراصل فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے فقیہ (میری بات کو) اس شخص تک پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فہم و بصیرت رکھتا ہے۔

اس حدیث کو امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَحْمِلُ ہٰذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلْفٍ عُدُوْلُهُ. يَنْفُوْنَ عَنْهُ تَحْرِيْفَ الْغَالِيْنَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِيْنَ وَتَأْوِيْلَ الْجَاهِلِيْنَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الرَّدِ عَلَی الزِّنَادِقَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

6: أخرجه أحمد بن حنبل في الرد علی الزنادقة والجهمية، 1/ 6، والطبراني في مسند الشاميين، 1/ 344، الرقم/ 599، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 209، الرقم/ 20700، والديلمي فی مسند الفردوس، 5/ 537، الرقم/ 9012، وابن عبد البر في التمهيد، 1/ 59، الرقم/ 215، والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1/ 128، 129، الرقم/ 134، 135، وذکره الهيثمي في المجمع الزوائد، 1/ 140.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر بعد میں آنے والے لوگوں میں سے عادل لوگ اس علم کے حامل ہوں گے۔ وہ اس علم سے غلو کرنے والوں کی تحریف، باطل پسند لوگوں کے جھوٹے دعووں اور جاہلوں کی تاویل کو ختم کریں گے۔

اس حدیث کو امام احمد نے ’الرد علی الزنادقۃ والجہمیۃ‘ میں، طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

7. عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ الدِّيْنَ لَيَأْرِزُ إِلَی الْحِجَازِ کَمَا تَأْرِزُ الْحَيَةُ إِلٰی جُحْرِهَا، وَلَيَعْقِلَنَّ الدِّيْنُ مَعْقِلَ الْأُرْوِيَةِ مِنْ رَأْسِ الْجَبَلِ. إِنَّ الدِّيْنَ بَدَأَ غَرِيْبًا. وَيَرْجِعُ غَرِيْبًا. فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاء الَّذِيْنَ يُصْلِحُوْنَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ بَعْدِي مِنْ سُنَّتِي.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

7: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء أن الإسلام بدأ غريبا وسيعود غريبا، 5/ 18، الرقم/ 2630، والطبراني في المعجم الکبير، 17/ 16، الرقم/ 11، وذکره الخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1/ 60، الرقم/ 170، والهندي في کنز العمال، 1/ 131، الرقم/ 1194.

حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (آخری زمانے میں) دین حجاز کی طرف اس طرح سمٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنے سوراخ میں سمٹ جاتا ہے۔ اور دین حجاز میں اس طرح پناہ لے گا جس طرح بکری پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لیتی ہے۔ بے شک دین کی ابتداء اجنبیت (اور تنہائی) سے ہوئی (یعنی دین کی اتباع اور پیروی کرنے والے سوسائٹی میں اجنبی لگتے تھے) اور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دین (معاشرے میں) پھر اجنبی لگے گا اور (دین کی تبلیغ کی خاطر) الگ تھلگ ہونے والوں کے لیے خوشخبری ہے جو میرے بعد میری اس سنت کی اصلاح کریں گے جسے لوگوں نے بگاڑ دیا ہو گا۔

اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: إِنَّ الدِّيْنَ (أَوْ قَالَ: إِنَّ الإِسْلَامَ) بَدَأَ غَرِيْبًا وَسَيَعُوْدُ غَرِيْبًا کَمَا بَدَأَ. فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَنِ الْغُرَبَاءُ؟ قَالَ: الَّذِيْنَ يُحْيُوْنَ سُنَّتِي وَيُعَلِّمُوْنَهَا عِبَادَ اللهِ.

رَوَاهُ الْقُضَاعِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الزُّهْدِ.

أخرجه القضاعي في مسند الشهاب، 2/ 138، الرقم/ 1052. 1053، والبيهقي في الزهد الکبير، 1/ 117، الرقم/ 205، وذکره القاضي عياض في الإلماع/ 18، والسيوطي في مفتاح الجنة، 1/ 67.

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک دین (یا فرمایا: اسلام) کی ابتداء اجنبیت سے ہوئی اور یہ دوبارہ اجنبی ہو جائے گا جس طرح کہ اس کا آغاز ہوا تھا۔ غرباء (دین کی تبلیغ کی خاطر الگ تھلگ ہونے والوں) کو مبارک ہو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! غرباء (اجنبی لوگ) کون ہیں؟ فرمایا: وہ لوگ جو میری سنت کو زندہ کرتے اور اللہ کے بندوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں۔

اس حدیث کو امام قضاعی اور بیہقی نے ’ الزھد الکبير‘ میں روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved