حضور ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کا مطالعہ بالعموم تین صورتوں پر مشتمل ہے : (1) بیانِ فضائل (2) بیانِ شمائل (3) بیانِ خصائل۔ موجودہ زمانے میں آپ ﷺ کے ذکرِ جمیل کی اہمیت پہلے سے کئی درجہ بڑھ گئی ہے اور اس امر کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضور ﷺ کی واقعاتی اور تعلیماتی سیرت کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے کمالات و شمائل کا تذکرہ بھی کیا جائے تاکہ قاری کے دل میں عشق و محبت کے جذبات کے ساتھ سیرت ِ محمدی ﷺ کے مطالعے کا شوق پیدا ہو اور جس سے اس کے اندر حضور ﷺ کی تعلیمات اپنانے کی عملی ترغیب پیدا ہو جائے۔ اب ہم اوپر بیان کردہ سیرت کے تین پہلوؤں کا مختصر جائزہ لیں گے۔
1۔ فضائل سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ کے بحیثیت پیغمبر وہ امتیازات و کمالات اور معجزات ہیں جو آپ ﷺ کی پیغمبرانہ زندگی میں وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہے۔ ان کے ذکر کا اولین مقصد یہ ہے کہ حضور رسالت مآب ﷺ کی عظمت کا نقش دل پر ثبت ہو جائے۔ اگر یہ تصور پختہ ہو جائے تو اس سے اسلام کی صداقت اور حقانیت کی بہت بڑی دلیل ہاتھ آجاتی ہے۔ قرآن حکیم میں انبیاء کرام کو عطا کردہ معجزات کے بیان کا بنیادی فلسفہ ہی یہی تھا کہ مسلمانوں کے اندر رسولِ آخر حضور ﷺ سے رشتۂ ادب و تعظیم کو مضبوط بنایا جائے۔
2۔ سیرتِ مصطفوی ﷺ کا دوسرا پہلو شمائل سے متعلق ہے۔ جس سے مراد حضور ﷺ کے ظاہری حسنِ سراپا کا بیان ہے۔ اس کا مدعا یہ ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ اہلِ ایمان کے جذباتِ عشق و محبت کو فروغ ملے اور وہ بے اختیار آپ کی طرف کھچے چلے آئیں۔ یہ اس لئے کہ محبتِ رسول ﷺ میں کمال درجہ کا لگاؤ اور والہانہ پن ہی اطاعت و اتباع کی حقیقی بنیاد ہے۔ اس طرح حضور ﷺ کی شخصیت، سیرت، سنت اور آپ کی ہر ہر ادا کا اثر فطری طور پر دلوں میں پیدا ہوتا چلا جاتا ہے جو فی الحقیقت مقصودِ ایمان ہے۔
3۔ خصائل کا بیان حضور ﷺ کی عادات واطوار اور افعال و اعمال سے متعلق ہے۔ جس سے آپ ﷺ کی عملی اور تعلیماتی سیرت کا پورا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ یہ گویا حضور ﷺ کے حسنِ باطن کا آئینہ ہے۔ جو امت کو اپنے اعمال کے خدوخال سنوارنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سے آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے بغور مطالعے کا موقع فراہم ہوتا ہے تاکہ اس کی روشنی میں انسان اپنے عمل کی اصلاح کر سکے اور وہ اپنی زندگی کو آنحضور ﷺ کی مقدس تعلیمات کے سانچے میں ڈھال سکے۔ سیرتِ پاک کا یہ پہلو اطاعت واتباع کی طرف راغب کرتا ہے اور اسی سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔
یہ مقامِ افسوس ہے کہ دورِ حاضر کے بعض سیرت نگاروں نے مغربی فکر کے دانشوروں اور مستشرقین کے زیرِ اثر حضور ﷺ کے اکثر معجزات و کمالات کا یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ ان روایات کا تذکرہ ثقہ کتب حدیث میں نہیں اور امام بخاری و امام مسلم جیسے ائمہ حدیث نے انہیں بیان نہیں کیا۔ لہٰذا یہ روایات صحت اور ثقاہت کے بلند معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ ہم کمال دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ قطع نظر اس سے کہ ان روایات کا فنِ حدیث میں کیا مقام ہے اور خود اُصولِ حدیث اور فن رجال کے علماء نے احادیث احکام و فضائل کے ردو قبول کے کیا کیا پیمانے اور اصول وضع کر رکھے ہیں۔ ان معجزات ِ محمدی ﷺ کی روایات کے قبول و انکار کا مسئلہ صرف روایات کے قبول اور عدم قبول کا مسئلہ نہیں بلکہ زاویۂ نگاہ کا مسئلہ ہے۔ یہ معاملہ فنی نہیں فکری ہے، تحقیقاتی نہیں، نظریاتی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ بعض علمائے دین جو اہمیت حضور ﷺ کی تعلیمات کو دیتے ہیں وہ آپ کے نبوی کمالات و فضائل کو دینے کے لئے تیار نہیں بلکہ ان کے نزدیک یہ پہلو اتنا اہم ہی نہیں کہ اس کا ذکر کیا جائے۔ وہ اہمیت فقط آپ ﷺ کی عملی وتعلیماتی سیرت کو دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہی دین و ایمان کی بنیاد ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ حبی اور قلبی تعلق رکھنے پر یقین نہیں رکھتے اور تقاضائے دین کی تکمیل کے لئے فقط آپ ﷺ کی ہدایات و تعلیمات سے ذہنی، فکری اور عملی نسبت قائم ہونے ہی کو کافی سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے قلبی، وجدانی اور حبی تعلق اور نسبت پیدا ہونا شخصیت پرستی ہے اور اس پر زور دینا ان کے اپنے خود ساختہ تصورِ توحید کے منافی ہے۔ نتیجتاً ایسی تمام احادیث اور روایات کا ذکر کرتے ہوئے جن کے ذریعے حضور ﷺ کی ذاتی عظمت اور عشقِ محمدی ﷺ کی ضرورت و اہمیت اور ادب و تکریمِ رسالت ﷺ کے تقاضوں پر روشنی پڑتی ہو ان کا نشتر تحقیق زیادہ تیزی سے چلنے لگتا ہے اور ایسی تمام احادیث اور روایات جن میں یہ بیان ہو ان کے اپنے وضع کردہ تصور دین سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اسی لئے وہ سارے کا سارا مواد جو سیرت و فضائل نبوی کے حوالے سے قدیم و مستند کتب میں ملتا ہے جن کو قلمبند کرنے والے عام مؤرخین اور سیرت نگار نہیں بلکہ بلند پایہ محدث، مفسر، فقیہ اور اکابر ائمہ دین ہیں، دورِ جدید کے اکثر سیرت نگار اسے موضوع اور باطل قرار دے کر سیرت کی کتابوں سے نکالتے جارہے ہیں تاکہ جس طرح توحید کو نسبتِ ادب نبوی ﷺ سے ’’خالص‘‘ کرنے کی مہم جاری ہے۔ اسی طرح سیرت کو بھی نسبتِ محبتِ نبوی ﷺ سے الگ کرکے ’’خالص‘‘ کیا جاسکے۔
ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کوشش ایمان کے خلاف ایک فکری سازش ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ نام نہاد دینی تعلیمات اور لٹریچر کے ذریعے امت مسلمہ کا رشتۂ محبت و غلامی اپنے محبوب و مکرم نبی ﷺ سے کمزور کرکے بالآخر کاٹ دیا جائے۔ یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ سیرتِ رسول ﷺ کے دو پہلو ہیں : تعلیماتی اور جمالیاتی۔ ان دونوں پہلوؤں کو پورے نظم اور اسلوب کے ساتھ قرآن حکیم میں اکثر مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔
اسم محمد ﷺ کا لفظ اتنا پیارا موہنا اور حسین ہے کہ جسے سنتے ہی ہر نظر خود ادب سے جھک جاتی ہے‘ ہر سر خم ہوجاتا ہے اور زبان پر درود و سلام کے ترانے جاری ہو جاتے ہیں۔ لیکن کم لوگ اس کے معنی و مفہوم سے پوری طرح آشنا ہیں۔
لفظ محمد حمد سے نکلا ہے اور حمد کے معنی تعریف اور ثنا بیان کرنے کے آتے ہیں، خواہ یہ تعریف کسی ظاہری خوبی کی وجہ سے کی جائے یا کسی باطنی وصف کی بنا پر۔ تعریف کا مفہوم ادا کرنے کے لئے شکر کا لفظ بھی بولا جاتا ہے‘ مگر شکر اور حمد میں فرق ہے۔ شکر سے مراد وہ تعریف ہے جو ممدوح (جس کی تعریف کی جائے) کی عظمت، نعمت اور کبریائی کو پیش نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔
ہم یہاں کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت میں مذکور اسمِ محمد ﷺ کی حکمت اور معنویت بیان کریں گے۔ یوں تو حضور نبی اکرم ﷺ کے بے شمار اسمائے گرامی ہیں۔ بعض محدثین کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کو بھی ننانوے ناموں سے نوازا ہے جبکہ بعض علماء کا قول ہے کہ آپ ﷺ کے تین سو مبارک نام ہیں۔ صحیح البخاری کے شارح لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کے ایک ہزار نام ہیں جن میں سے ہر نام آپ ﷺ کی سیرت و کردار کے کسی نہ کسی پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔ ان صفاتی ناموں کے حوالے سے ایک بات بالکل واضح ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ہزاروں نام ہیں مگر ذاتی نام صرف ایک ہی ہے یعنی ’’اللہ‘‘ اسی طرح سرورِ دوجہاں ﷺ کے بھی سینکڑوں نام ہونے کے باوجود ذاتی اور شخصی نام دو ہیں محمد اور احمد۔ اسم محمد ﷺ کی معارف جاننے سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اسلام کے رکن اول یعنی کلمہ طیبہ کے دو حصے ہیں : پہلا حصہ عقیدۂ توحید یعنی لاَ اِلٰهَ اِلّا الله اور دوسرا حصہ عقیدۂ رسالت رسالت یعنی مُحَمّدًا رَ سُوْلُ اللهِ۔ ان دونوں حصوں کو بظاہر الگ الگ خیال کیا جاتا ہے مگر امرِ واقع یہ ہے کہ شہادتِ توحید ایک دعویٰ ہے اور شہادت رسالت محمدی ﷺ اس دعوے کا ثبوت اور اس کی دلیل ہے۔ یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک واحد اور یکتا ہونے کا یقینی علم ہمیں صرف حضور ﷺ کی ذات اور آپ کی شہادت یعنی گواہی دینے ہی سے حاصل ہوا۔
شہادتِ توحید کے دو حصے ہیں : منفی اور مثبت، پہلے حصے میں اللہ کے ماسویٰ کسی اور کے الہٰ ہونے کی مکمل نفی اور دوسرے حصے میں اللہ کی الوہیت کا اثبات کیا گیا ہے۔ مطلق لفظ الہٰ بولا جائے تو اس کا مطلب معبود ہے اور معبود کوئی بھی ہوسکتا ہے مگر جب لفظ الٰہ میں الف اور لام کا اضافہ کردیا جائے تو ’’اللہ‘‘ بن جاتا ہے اور اس سے مراد سے صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ اسی طرح ’’حمد‘‘ کا لفظ تعریف کے لئے بولا جاتا ہے اور تعریف کسی کی بھی ہوسکتی ہے لیکن جب سے لفظ محمد ﷺ بطور اسم وجود میں آیا ہے تو اس سے مراد فقط ایک ہی ہستی‘ ایک ہی شخصیت اور ایک ہی ذات ہے، جسے خالقِ کائنات نے اپنے ہی نام کے ساتھ خاص کردیا تھا اور ازل سے عرش کے پایے پر لکھ رکھا تھا۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’الشفاء‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آج تک دنیا میں کسی شخص نے اپنی اولاد کا یہ نام نہیں رکھا۔ اس لئے یہ نام خالقِ موجودات نے آپ ﷺ ہی کی ذات کے لئے مخصوص فرما دیا تھا۔
لفظ محمد ﷺ کا ہر حرف با معنی ہے۔ اگر شروع کا ’’م‘‘ ہٹا دیا جائے تو ’’حمد‘‘ رہ جاتا ہے جس کا مفہوم تعریف و توصیف ہے۔ اگر حرف ’’ح‘‘ کم کر دیا جائے تو ’’ممد ‘‘ رہ جاتا ہے جس کا معنی مدد کرنے والا ہے۔ اگر ابتدائی ’میم‘ اور ’حا‘ دونوں الفاظ حذف کر دیئے جائیں تو باقی ’’مد‘‘ رہ جائے گا جس کا معنی دراز اور بلند ہے جو حضور ﷺ کی عظمت اور رفعت کی طرف اشارہ ہے اور اگر دوسرے میم کو بھی اڑا دیا جائے تو صرف ’’د‘‘ (دال) رہ جاتا ہے، جس کا مفہوم ہے دلالت کرنے والا۔ یعنی اسمِ محمد ﷺ اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرتا ہے۔
یہاں اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ حضور ﷺ کے بے شمار صفاتی نام ہیں مگر آپ ﷺ کے ذاتی نام صرف دو ہیں : محمد اور احمد۔ حضور ﷺ کا اپنا ارشاد ہے کہ زمین پر میرا نام ’’محمد‘‘ اور آسمان پر احمد ہے ’’احمد‘‘ کا ذکر قرآن حکم میں سورۃ الصف کی آیت نمبر 9 میں ایک جگہ آیا ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو پیغمبرِ آخر الزمان ﷺ کی آمد سے اس نام سے آگاہ کیا تھا۔ ذہن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ﷺ نے آپ ﷺ کی آمد کی خبر زمین والوں کو سنانی تھی نہ کہ آسمان والوں کو۔ انہیں اس موقع پر زمین والے نام ’’محمد‘‘ کا ذکر کرنا چاہئے تھا۔ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ﷺ گو زمین پر پیدا ہوئے اور زمین والوں میں رہے اور یہیں زندگی بسر کی مگر واقعتاً ان کی پیدائش سے لے کر آسمان پر اٹھائے جانے تک ان کے بہت سے احوال آسمان والوں سے مشابہ تھے اور ان کی پیدائش بھی انسانی طریقے سے ہٹ کر ہوئی، پھر مختصر ارضی زندگی بسر کرنے کے بعد وہ آسمانوں پر اٹھائے گئے۔ گویا ان کی زندگی بیشتر اعتبار سے آسمانی مخلوق سے مشابہت رکھتی تھی۔ یہی سبب تھا کہ حضرت عیسیٰ نے حضور ﷺ کے اسی نام کا ذکر فرمایا جس سے آپ ﷺ کو آسمانوں پر پکارا جاتا تھا۔
حضور ﷺ کے مبارک ناموں میں مادۂ حمد خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ کم از کم آپ ﷺ کے چار اسمائے مبارکہ (محمد‘ احمد‘ حامد اور محمود) میں محمد‘ احمد اور محمود ’’تعریف کئے گئے‘‘ کا مفہوم رکھتے ہیں۔ ’محمد‘ اسم مفعول اور ’احمد‘ اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور دونوں میں حمد کے معنی کی وسعت اور کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ حضور ﷺ کے یہ تینوں مبارک نام کثرت سے آپ ﷺ کی تعریف و توصیف کو ظاہر کرتے ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ حضور ﷺ کی تعریف صرف کائنات کی مخلوق یعنی جن انسان اور مقرب ملائکہ (فرشتے) ہی نہیں کرتے بلکہ خود خالقِ کائنات بھی آپ کی مدح و ثنا کرتا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا:
اِنَّ اللهَ وَمَلَآئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰا اَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.
(الاحزاب، 33 : 56)
بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی آپ ﷺ پر درود اور خوب سلام بھیجا کرو۔
یہی وجہ ہے کہ سارے کا سارا قرآن آپ کی حمد اور تعریف و توصیف سے بھرا ہوا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ حضور ﷺ کے ذاتی نام اور شخصی نام محمد اور احمد ہیں۔ محمد کا مفہوم ہے وہ ذات جس کی بار بار اور کثرت سے تعریف کی جائے۔ احمد کا معنیٰ ہے خدا کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا۔ یہاں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ تعریف ہمیشہ کسی خوبی اور کمال پر کی جاتی ہے نقص اور عیب پر نہیں۔ اس اعتبار سے حضور ﷺ کے ان دو ذاتی اسمائے مبارکہ کا مفہوم از روئے لغت یہ ہے کہ آپ ﷺ کے سیرت و کردار کا دامن ہر انسانی لغزش‘ خطا اور نقص و عیب سے مکمل طور پر پاک ہے اور آپ کی صفتِ کاملہ کا فطری طور پر موجود ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ کے ان دونوں ناموں میں آپ کے بے مثل سیرت و کردار اور خلقِ عظیم کا ہر ہر پہلو اور ہر ہر گوشہ پوری شان کے ساتھ نمایاں طور پر ظاہر ہورہا ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ کی ذات فطری اور جبلی طور پر ہر ظاہری اور باطنی نقص اور خامی سے پاک اور مبرّا ہے۔ اسی کو شاعرِ دربارِ نبوت حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنے ان دو نعتیہ اشعار میں بڑے حسن و خوبی سے بیان کیا ہے۔
وَ اَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنٌ
وَ اَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّاءً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآءٗ
ترجمہ : (آپ ﷺ سے زیادہ حسین چہرہ آج تک کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور حضور ﷺ سے زیادہ خوبصورت شخص کسی ماں نے نہیں جنا۔ آپ ہر (جسمانی و روحانی) عیب سے کلی طور پر پاک اور مبرا پیدا ہوئے تھے‘ گویا آپ ﷺ ایسے ہی پیدا کئے گئے جس طرح آپ ﷺ خود چاہتے تھے)۔
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنے اشعار میں حضور ﷺ کی جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے وہ آپ ﷺ کے اسم گرامی محمد اور احمد میں پوری طرح جھلک رہی ہیں، ان کا ذکر کسی تفصیل کا محتاج نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جس طرح حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی ہر اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے، اسی طرح آپ ﷺ کا اسم گرامی (محمد و احمد) بھی تمام ناموں میں مثالی شان رکھتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو؟ ربِ کائنات نے اپنے محبوب کے لئے ایسا نام تجویز کیا جو انتہائی جامع اور منفرد ہے اور ایسے کمالات والا انسان نہ پہلے پیدا ہوا ہے اور نہ قیامت تک پیدا ہوگا۔
حضور ﷺ کا ظاہری حسن و جمال جس کا ذکر حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے اشعار میں ہوا ہے آپ کے کمال درجہ حسن اور شخصی وجاہت سے عبارت ہے۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ حضور ﷺ سے زیادہ حسین چہرہ تمام روئے زمین پر آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔ گویا آپ حسنِ ظاہری کی یکتا مثال تھے اسی لئے روایات میں ہے کہ آپ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے۔
اَللّٰهُمَّ اَحْسِنْت خلقی فاحسن خلقی
(مسند احمد بن حنبل، 1 : 403)
اے اللہ! میری خلق (سیرت) بھی ایسی ہی حسین کردے جیسی تو نے میری خلق (صورت) حسین بنائی ہے۔
یہی سبب ہے کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ کے عاشقِ زار صحابہ آپ ﷺ کے حسنِ بے مثال کو یاد کر کے بے تاب ہوجایا کرتے تھے اور ان کی سب سے بڑی آرزو تھی کہ وہ روئے زیبا دوبارہ ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ حضور ﷺ کے حسن و جمال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ ﷺ کا چہرۂ مبارک تلوار نہیں بلکہ چاند اور سورج کی طرح چمک دار تھا۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الشفاء‘‘ میں کم از کم پندرہ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر کیا ہے، جن کی متفقہ شہادت ہے کہ حضور ﷺ جسمانی حسن و جمال کے بے مثال نمونہ تھے۔ بعض نے آپ ﷺ کو مسکراتے دیکھ کر یوں محسوس کیا گویا آپ چاند کا ٹکڑا ہیں۔
یہ حقیقت محتاجِ بیاں نہیں کہ حضور ﷺ کا جس طرح ظاہری حسن میں کوئی شریک نہیں اسی طرح وہ اپنے باطنی حسن و جمال میں بھی بے مثال ہیں اور کائنات میں ازل سے ابد تک کوئی ایسا نہیں جو ان کی ہمسری کا دعویٰ کرسکے۔ یہی سبب ہے کہ خدا وند تعالی کے بعد سب سے زیادہ تعریف و توصیف آپ ﷺ ہی کے حصے میں آئی اور اسی لئے آپ ﷺ کا نام ’’محمد‘‘ رکھا گیا جس کا معنی ہے وہ ذات جس کی بہت زیادہ تعریف کی جائے۔ اسی بنا پر کلمہ طیبہ میں جسے کلمہ توحید بھی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کے اسم گرامی محمد ﷺ کو اپنی وحدانیت کی دلیل کے طور پر لایا اور اس بات کا علی الاعلان چرچا کیا گیا کہ میرے واحد اور یکتا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ میرا محبوب اپنے حسن و جمال اور سیرت و کردار میں بے مثل اور یکتا ہے اور فرمایا کہ جن لوگوں کو میری توحید پر کوئی شہادت درکار ہو وہ میرے اس جیتے جاگتے محبوب ﷺ کو دیکھ لیں۔ ان کی سیرتِ طیبہ اور زندگی کے محاسنِ عالیہ کا مطالعہ کر لیں انہیں اس دنیا میں توحید کی سب سے بڑی دلیل ہاتھ آجائے گی۔ وہ اس امر پر غور کریں تو انہیں یہ نکتہ سمجھ میں آجائے گا کہ اگر اس جہاں رنگ و بو میں میرے محبوب ﷺ کی کوئی مثل نہیں ہے تو انہیں میری مثل کہاں سے مل سکے گی۔
اسی طرح حضور سید عالم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو خود آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی دلیل بنایا گیا۔ جب آپ ﷺ نے نعرۂ توحید بلند کیا اور اس بت پرست معاشرے میں اس بات کا اعلان کرنا چاہا کہ لوگو! خدا ایک ہی ہے اور اس کی ہستی کے سوا اور کوئی ذات نہیں جسے معبود بنایا جاسکے تو اس مقصد کے لئے قریشِ مکہ کے ایک ایک خاندان کو ’’آلِ غالب‘‘ کہہ کر کوہِ صفا کے دامن میں جمع کیا اور ان کے سامنے خدا کے ایک ہونے کے بعد اپنی نبوت و رسالت کا اعلان کیا تویہ ایک ایسا موقع تھا کہ لوگوں نے آپ ﷺ سے اپنے نبی ہونے کے بارے میں دلیل طلب کی، جسے دیکھ کر وہ اللہ کی وحدانیت اور آپ ﷺ کی نبوت پر ایمان لے آئیں۔ اس سے پہلے انبیاء کو اس طرح کی صورت حال سے دو چار نہیں ہونا پڑا تھا، جب ان کی قوم نے انہیں نبوت کی دلیل پیش کرنے کو کہا تھا۔ چنانچہ ایسے ہی موقع پر حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے قومِ فرعون کے سامنے عصا اور ید بیضا کو بطور معجزہ پیش کیا جو ان کی نبوت کی دلیل ٹھہرا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس طرح کے موقع پر مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ پیش کرکے اپنی نبوت کا ثبوت فراہم کیا۔ اگر حضور ﷺ بھی اعلان نبوت کے اس موقع پر چاہتے تو چاند کے ٹکڑے کر دیتے، ڈوبتے سورج کو دوبارہ مغرب سے طلوع کرا دیتے، درختوں کو جڑوں سمیت اپنی طرف آنے کا حکم دیتے اور پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیتے، مگر حضور ﷺ نے اس موقع پر ایسا کوئی معجزہ نہ دکھایا بلکہ توحیدِ باری تعالیٰ اور اپنی نبوت کی سب سے منفرد اور سب سے نرالی دلیل پیش کی اور قرآن کے الفاظ میں یہ فرمایا:
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُراً مِّنْ قَبْلِہٖ۔
(یونس، 10 : 16)
میں تمہارے اندر اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزار چکا ہوں (مجھے دیکھ لو یہی میری نبوت کی اور اللہ کی وحدانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے)۔
یہ بہت بڑا چیلنج تھا جو حضور اکرم ﷺ نے عالمِ کفر کو دیا۔ اپنی چالیس سالہ زندگی کو توحید و رسالت کی گواہی کے طور پر پیش کرنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ ﷺ کی سیرت کا دامن اجلی سفید چادر کی طرح بے داغ تھا اور اس پر کوئی ایسا دھبہ نہیں تھا جس پر آپ ﷺ کے مخالفین انگلی رکھ سکتے۔ باری تعالیٰ نے آپ کو تمام خوبیوں اور محاسن سے مالا مال کر بھیجا تھا۔ جس سے آپ ﷺ کا وجودِ اقدس حسنِ مطلق کی کامل دلیل بن گیا۔ آپ ﷺ کا اسم گرامی محمد ﷺ بھی آپ کے ظاہری و باطنی وجود کی طرح بے مثال تھا۔ محمد ﷺ کا مادہ حمد ہے اور محمد ﷺ کا معنی ہے ’’جس کی بہت زیادہ مدح کی جائے‘‘ حمد اللہ تعالیٰ کے کلام میں سب سے اول لفظ ہے (الحمد للہ رب العالمین) اور محمد ﷺ اللہ کی پیدا کی ہوئی مخلوق میں سب سے پہلا فرد ہے۔ گویا حمد اس کے کلام کا لفظ اول ہے اور محمد ﷺ اس کے فیضان کا نقشِ اول۔ حمدِ باری تعالیٰ کی ربوبیت کا مظہر ہے اور محمد ﷺ اس کی ربوبیت کا اعجاز۔ حمد صفاتِ باری تعالیٰ کی دلیل ہے اور محمد ﷺ ذاتِ باری تعالیٰ کی دلیل۔
اسی لئے خالقِ ارض و سماوات نے اپنے محبوب کو محمد ﷺ جیسے خوبصورت نام سے موسوم فرمایا جو آپ کی ذات اور شخصیت کی طرح بے مثل، آپ کی عظمت اور کمالات کو ظاہر کرتا ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا :
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن وہی یسین وہی فرقان وہی طہٰ
یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ جب انسان کسی ہستی کی خوبیوں اور کمالات کا قائل ہو جاتا ہے تو بے ساختہ اسے چاہنے اور پسند کرنے لگتا ہے، اس کے دل میں اس کی محبت کا پیدا ہو جانا ایک لازمی امر ہے۔ اسی لئے آنحضور ﷺ کی ذات جو مجموعۂ اوصاف و کمالات ہے کسی کے دل میں اتنا گھر کر جاتی ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے بات بات پر کسی نہ کسی بہانے محبوب کے ذکرِ جمیل کو اپنا شعار بنا لیتا ہے اور اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے اس کے ذکر کی محفلیں سجاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس ذکر میں عقلی اور قانونی تعلیم کا کوئی پہلو نہیں ہوتا بلکہ یہ سرتا سر اس کے جذبۂ محبت کا اظہار ہے جس سے وہ اپنے دل کی کھیتی کی شادابی اور سیرابی کا سامان کرتا ہے۔
اس تمہید باندھنے کا مقصد اس بات کا کھوج لگانا ہے کہ حضور ﷺ کے شمائل و فضائل کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے؟ کتب ِاحادیث میں محدثین نے اس پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن یہ دیکھنا اہلِ علم کا کام ہے کہ وہ اس کی تائید میں قرآنِ حکیم پر تحقیقی نظر ڈالے، اس لئے کہ قرآن سے بڑھ کر زیادہ مستند، معتبر ذریعہ اور حوالہ کوئی نہیں۔
قرآنِ حکیم نے سرورِ کائنات ﷺ کے سراپا مبارک اور حسنِ بے مثال کا ذکر ایسے بلیغ اور پیارے انداز سے کیا ہے کہ صاحبِ ذوق اسے پڑھ کر وجد میں آجاتا ہے اور اس کے دل میں عشقِ مصطفوی ﷺ کے ایسے چراغ روشن ہو جاتے ہیں جنہیں حادثات زمانہ کی کوئی آندھی نہیں بجھا سکتی۔ جب ہم اس ضمن میں قرآن حکیم کی ایسی آیات کا جن میں حضور ﷺ کے حسنِ سراپا کا ذکر کیا گیا ہے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے وجدان کو جلا ملتی ہے۔ قرآن حضور نبی اکرم ﷺ کو سراپا نور قرار دیتا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنَO
(المائدہ، 5 : 15)
بے شک اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ایک نور آچکا اور ایک روشن کتاب۔
اس آیہ کریمہ میں دو نوروں کا ذکر ہے۔ ایک نورِ مجسم محسنِ کائنات اور دوسرا نور کتابِ الٰہی قرآن حکیم ہے جس کے سراپا ہدایت ہونے میں کوئی شک نہیں۔
اس کی تفسیر میں متعدد ائمہ کرام نے پہلے نور سے مراد ذاتِ مصطفے ﷺ ہی کو لیا ہے۔ اس کی تفصیل جاننے کے لئے راقم کی کتاب ’’قرآن اور شمائل نبوی‘‘ کا مطالعہ ضروری ہے۔
حضور ﷺ کے سراپا حسن و جمال ہونے کو قرآنِ حکیم نے ایک اور مقام پر استعاراتی طور پر یوں بیان فرمایا ہے۔
اللهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ط مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحٌ ط اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ط
(النور 24 : 35)
اللہ (ہی) آسمان اور زمین کا نور ہے اسکانور ایک ایسے طباق جیسا ہے جس میں ایک چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے۔
اس آیۂ کریمہ میں خالقِ کل نے خود کو آسمانوں اور زمین کانور قرار دیا ہے کہ اسی کے نور نے بلاشبہ اس کائنات کے گوشے گوشے کو منور کر رکھا ہے۔ لیکن مجازاً نورِ الٰہی کی مثال ایک طاق سے دی گئی ہے جس کے اندر رکھا گیا چراغ شیشے کے فانوس میں پوری عالمِ انسانی کو جگمگا رہا ہے۔ اس میں قرآن استعارے کی زبان میں نورِ مصطفوی ﷺ کی نشان دہی کر رہا ہے اور یہی نور دراصل نورِ الٰہی کا پرتو ہے جس کی نورانی کرنوں سے زمین و آسمان کے تمام گوشے منور ہیں۔ اس کی تفصیل کے لئے بھی مذکورہ کتاب سے رجوع کیا جائے۔
قرآن حکیم میں ربِ کریم نے اپنے حبیب سے خطاب کرتے ہوئے ایک مقام پر آپ کے حسن و جمال کو روشن چراغ سے تشبیہ دی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاO وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًاO
(الاحزاب، 33 : 45۔ 46)
اے نبی! ہم نے آپ ﷺ کو گواہ (بنا کر) اور خوشخبری سنانے والااور نصیحت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور (آپ کو) اللہ کے اذن سے اللہ کی طرف بلانے والا اور ایک روشن چراغ (بنا کر بھیجا ہے)۔
محبوب کے حسنِ سراپا کو ’’سراج منیر‘‘ قرار دینا ایک قرآنی استعارہ ہے۔ عربی میں ’’سراج‘‘ سورج یا چراغ کو کہتے ہیں اور منیر اسے کہا جاتا ہے جو دوسرے کو روشن کر دے۔ گویا ذاتِ مصطفوی ﷺ کا وجود ایسے چراغ کی مانند ہے جو نہ صرف یہ کہ خود روشن ہے بلکہ چاروں طرف روشنی بانٹ رہا ہے۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اور محدث ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں جو لکھا ہے اس میں اس پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی جسے مذکورہ کتابچے میں دیکھا جاسکتا ہے۔
نورِ مصطفوی ﷺ کے بارے میں حضرت حلمیہ سعدیہ رضی اللہ عنہ کے تاثرات نقل کرتے ہوئے مشہور محدث امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔
اذا ارضعتہ فی المنزل استغنی بہ من المصباح
جن دنوں میں رسول خدا کو دودھ پلایا کرتی ان دنوں مجھے گھر میں چراغ کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔
چنانچہ ایک دن مجھ سے حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ کیا تم گھر میں رات کو آگ جلائے رکھتی ہو جس سے تمہارے گھر میں روشنی رہتی ہے میں نے جواباً کہا۔
لا والله اوقد نارا ولکنہ نور محمد ﷺ
(میلاد النبی : 54)
خدا کی قسم آگ نہیں جلاتی بلکہ یہ روشنی نور مجسم ﷺ کے نور کی ہے۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ شمائل محمدیہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔
ما کنا نحتاج الی السراج یوم اخذنا ہ لان نور وجھہ کان انور من السراج فاذا احتجنا الی السراج فی مکان جئنا بہ فتنورت الا مکنۃ ببرکتہ ﷺ
(تفسیر مظہری، 6 : 528)
جس دن سے ہم آپ ﷺ کو اپنے گھر لائے اس دن سے ہمیں گھر میں چراغ جلانے کی حاجت نہ رہی۔ کیونکہ آپ ﷺ کے چہرۂ اقدس کا نور چراغ سے زیادہ منور تھا۔ جب کبھی ہمیں کسی جگہ چراغ کی ضرورت ہوتی ہم آپ ﷺ کو اٹھا کر وہاں لے جاتے آپ ﷺ کی برکت سے تمام جگہ روشن ہو جاتی۔
حضور ﷺ کے سراپا نور ہونے کا ذکر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ ایک روایت میں ملتا ہے۔ آپ فرماتی ہیں:
انہا کانت مع رسول الله ﷺ علی فراشہ فی لیلہ مظلمۃ فسقط من یدھا ابرۃ الی الارض فکشفت عن وجہ رسول الله ﷺ فوجدتھا بنور جبینہ فرفعتھا
(جواہر البحار، 4 : 226)
ایک اندھیری رات وہ بستر پر تھیں۔ ان کے ہاتھ سے سوئی زمین پر گر گئی (وہ تلاش کر رہی تھیں) کہ اچانک رسالتمآب ﷺ کے چہرہ مبارک سے نور کی شعاعیں نکلنا شروع ہو گئیں۔ آپ ﷺ کی پیشانی کے نور کی وجہ سے مجھے گم شدہ سوئی ملی گئی۔
اس روایت میں ابن عساکر نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے:
فتبینت الابرۃ من شعاع نور وجہہ ﷺ
(ابن عساکر، 1 : 325)
آپ ﷺ کے چہرہ اقدس کی چمک کی وجہ سے سوئی نظر آئی۔
اس ضمن میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کا تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہوگا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار حضور ﷺ کی خدمتِ اقدس میں دو صحابی دور دراز کی مسافت طے کرکے حاضر ہوئے۔ انہیں باتوں باتوں میں دیر ہوگئی جب انہوں نے حضور ﷺ سے واپس جانے کی رخصت چاہی تو رات ہوگئی تھی۔ تاریکی میں ہاتھ کو ہاتھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ان کے پاس ایک عصاء کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ اس شش و پنج میں مبتلا تھے کہ اتنا لمبا سفر ہے اندھیرے میں واپس گھر کیسے پہنچیں گے؟ حضور ﷺ نے ان کی مشکل کو بھانپ لیا اور ازروئے شفقت ان کے عصا کو اپنے دست اقدس میں لے لیا۔ ایسا کرنے کی دیر تھی کہ وہ عصاء مشعل (Torch) کی طرح چمکنے لگا۔ جس کی روشنی میں وہ خیر و عافیت کے ساتھ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
ان اسید بن حضیر و عباد بن بشر رضی الله عنھما تحدثا عند النبی ﷺ فی حاجہ لہما حتی ذھب من اللیل ساعۃ فی لیلۃ شدیدۃ الظلمۃ ثم خرجا من عند رسول الله ینقلبان و بید کل واحد منھما عصبیۃ فاضاء ت عصا احدھما حتی مشیا فی ضوء ھا حتی اذا افترقت بھما الطریق اضاء ت للاخر عصاہ فمشی کل واحد منھما فی ضوء عصا حتی بلغ اھلہ
(مشکوۃ المصابیح : 544)
اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما کو آپ ﷺ کی بارگاہ میں بعض معاملات میں گفتگو کرتے ہوئے دیر ہو گئی۔ رات سخت اندھیری تھی جب دونوں گھر کو روانہ ہوئے توان کے ہاتھوں میں جو عصاء تھے ان مین سے ایک کا عصاء روشن ہوگیا جس کی روشنی میں فاصلہ طے کیا۔ حتی کہ وہ مقام آگیا جہاں ان دونوں نے جدا ہونا تھا۔ جب راستے الگ الگ ہونے لگے تو دوسرے کا عصاء بھی روشن ہوگیا لہٰذا ہر ایک اپنے اپنے عصا کی روشنی سے اپنے اہل و عیال تک پہنچ گیا۔
صاحبِ شفاء اور زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع کے تحت درج ذیل حدیث بھی نقل فرمائی ہے جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ:
’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بن نعمان ایک اندھیری رات میں جب کہ بارش ہو رہی تھی حضور اکرم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کو کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی‘‘ آگے حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
و قال انطلق بہ فانہ لیضئی لک من بین یدیک عشرا فاذا دخلت بیتک فستری سوادا فضہ بہ حتی یخرج فانہ الشیطان فانطلق فاضاء لہ العرجون حتی دخل بیتہ و وجد السواد فضربہ حتی خرج
(الشفاء، 1 : 333)
اور فرمایا اس کو لے جاؤ۔ یہ تمہارے لئے دس ہاتھ آگے اور دس ہاتھ پیچھے روشنی کرے گی اور جب تم گھر میں داخل ہوگے تو ایک سانپ دیکھو گے اس کو اتنا مارنا کہ وہ نکل جائے کیونکہ وہ شیطان ہے۔ پھر حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے اور حضور اکرم ﷺ کی دی ہوئی شاخ ان کے لئے روشن ہوگئی۔ حتی کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوگئے۔ اندر جاتے ہی انہوں نے سانپ کو پالیا اور اتنا مارا کہ وہ نکل گیا۔
اوپر درج کردہ روایات سے حضور ﷺ کے سراجِ منیر ہونے کی صفت جس کی طرف قرآن حکیم کی مذکورہ آیت میں اشارہ کیا گیا ہے واضح طور پر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ آپ کی ذات سرتاپا نور ہے۔ آپ وہ آفتابِ رسالت ہیں جس کی ضیا پاشیوں نے دنیا بھر کے اندھیروں کو اجالوں میں بدل کر رکھ دیا۔
اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء کرام بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمائے ان پر حضور ﷺ کے افضل ہونے کی شہادت خود قرآن حکیم نے دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضِ مِّنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجَاتٍ
(البقرہ، 2 : 253)
یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ان میں سے کسی سے اللہ نے (براہِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیت دی (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)
اس آیتِ کریمہ سے واضح ہے کہ تمام انبیاء اور سل نبی اور رسول ہونے میں برابر ہیں، نبوت اور رسالت کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے فضائل و کمالات اور مرتبوں میں ضرور فرق رکھا ہے۔ ایک کو دوسرے پر کسی نہ کسی لحاظ سے امتیاز بخشا گیا ہے۔ کسی کو ایک معجزہ عطا ہوا اور کسی کو دوسرا، کسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے براہ راست کلام کیا اور کوئی صاحب کتاب ٹھہرا، کہیں حسنِ یوسف علیہ السلام وجہِ امتیاز و شان ہوا اور کہیں دمِ عیسٰی علیہ السلام اور عصائے موسیٰ علیہ السلام کو باعث فضیلت قرار دیا گیا۔
مگر تمام امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ تمام فضیلتیں اور امتیازات جزوی ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ کو درجے و مرتبے میں تمام انبیاء اور رسولوں پر کلی فضیلت دی گئی ہے۔ دوسرا یہ کہ ہر کمال اور فضیلت جو حضور ﷺ کو عطاء ہوئی وہ اپنے درجے اور رتبے کے اعتبار سے اس نبی اوررسول سے جس میں وہ پہلے موجود تھی بڑھ کر ہے اور درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ذات گرامی کے فیضان سے ہی تمام نبیوں اور رسولوں کے جملہ فضائل و مراتب وجود میں آئے اور اکتسابِ فیض کا سلسلہ عالم رنگ و بو کے ظہور سے پہلے عالمِ ارواح کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ کئی احادیث سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ، امام نبہانی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ سمیت بہت سے ائمہ حدیث اور علماء کرام نے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔
اس حوالے سے کہ آنحضور ﷺ تمام انبیائے کرام ﷺ پر مطلق اور کلی فضیلت رکھتے ہیں بے شمار احادیث کتابوں میں درج ہیں۔ ہم نمونے کے طور پر صرف چند احادیث کا ترجمہ پیش کررہے ہیں تاکہ ہمارا مقصود واضح ہو جائے۔
1۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آپ کی منتظر تھی، جب آپ ان کے قریب آئے تو آپ نے سنا ایک کہہ رہا تھا : ’’تعجب ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی مخلوق سے حضرت ابراہیمں کو خلیل بنایا‘‘، دوسرے نے کہا کہ کیا یہ زیادہ عجیب بات نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا۔ ایک اور نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے کلمہ اور اس کی روح ہیں، ایک نے کہا کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو صفی اللہ بنایا۔ تب آپ ﷺ ان کے سامنے آئے اور بعد از سلام فرمایا :
’’میں نے تمہاری باتیں اور کلمات ِتعجب سنے ہیں، یہ سب سچ ہے مگر یہ بھی جان لو کہ میں اللہ کا حبیب ہوں میں یہ فخر سے نہیں کہتا۔ روزِ قیامت حمدِ الٰہی کا جھنڈا میرے ہی ہاتھ میں ہوگا یہ بھی فخر سے نہیں کہتا۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں جس کی شفاعت قبول کی جائے گی، اس پر فخر نہیں اور میں پہلا شخص ہوں جو جنت کا دروازہ کھٹکٹائے گا اور اللہ تعالی میرے لئے جنت کا دروازہ کھولے گا اور مجھے داخل کرے گا اس حال میں کہ میرے ساتھ مسلمان فقراء کی ایک جماعت ہوگی۔ اس پر بھی فخر نہیں اور میں اولین و آخرین میں سب سے زیادہ بزرگی والا ہوں مجھے اس پر بھی فخر نہیں (جامع الترمذی)
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں : ’’جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو میں سب سے پہلے آؤں گا اور جب لوگ بارگاہِ خداوندی میں اکٹھے ہوں گے تو میں ہی ان کا پیشوا ہوں گا اور جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی خطیب ہوں گا اور ان کو خوشخبری دینے والا ہوں گا، جب ان پر مایوسی طاری ہوگی اس دن بزرگی اور رحمت کی چابیاں میرے ہی ہاتھ میں ہوں گی اور میرے ہی ہاتھ میں حمد ِالٰہی کا جھنڈا ہوگا اور میں ہی اولادِ آدم علیہ السلام میں سب سے زیادہ بزرگ اور مکرم ہوں۔ میرے گرد ایک ہزار خدام طواف کر رہے ہوں گے اور وہ سفید انڈوں یا بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح لگ رہے ہوں گے۔ (جامع الترمذی)
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جنتی لباس میں سے مجھے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھرمجھے عرش کی دائیں جانب کھڑا کیا جائے گا، میرے سوا اس جگہ اور کوئی کھڑا نہ ہوگا۔ (الشفاء)
4۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ دیگر انبیاء پر مجھے چھ چیزوں کے باعث فضیلت دی گئی ہے: (1) میں جوامع الکلم سے نوازا گیا ہوں۔
(2) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے۔ (3) میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے۔ (4) میرے لئے ساری زمین پاک کر دی گئی اور اسے سجدہ گاہ بنادیا گیا۔ (5) میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ (6) میری آمد کے ساتھ انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔
(صحیح مسلم)
5۔ حضرت ابن وہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’باری تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ اے حبیب اللہ جو چاہو مجھ سے مانگو، میں نے عرض کیا کہ اے رب مانگوں تو کیا مانگوں جبکہ تونے حضرت ابراہیمں کو خلیل، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم بنایا، حضرت نوحں کو برگزیدہ کیا اور حضرت سلیمانں کو ایسی حکومت عطا فرمائی جو ان کے بعد کسی کو مرحمت نہ کی جائے گی‘‘ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہوا:
’’اے حبیب میں نے جو تمہیں عطا کیا ہے وہ ان سب سے بہتر ہے۔ میں نے تمہیں کوثر عطا کیا اور تمہارے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا دیا جس کی منادی فضاؤں میں سنی جاتی ہے اور زمین کو تمہارے لئے اور تمہاری امت کے لئے پاک قرار دیا اور تمہاری خاطر تمہارے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف کر دیئے اور تمہیں بخشش دلانے والا بنایا۔ اس سے قبل میں نے ایسا کسی کے ساتھ نہیں کیا اورتمہاری امت کے دلوں کو صحیفے بنا دیا۔ میں نے حقِ شفاعت کوصرف تمہارے لئے اٹھا رکھا اور کسی دوسرے نبی کو تمہارے سوا یہ حق نہیں دیا۔
قرآن حکیم نے پہلی امتوں کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی کسی نعمت کے عطا کئے جانے پر شکر بجالاتے تھے۔ اس سے یہ بات بخوبی ثابت ہوتی ہے کہ نعمتوں کے شکرانے کے طور پر جشن اور عید منانا خود انبیاء کی سنت ہے۔ جس پر قرآن کی آیات واضح طور پر گواہ ہیں۔ آج بھی اہلِ کتاب ’’مائدہ‘‘ جیسی عام نعمت کے ملنے والے دن کو بطورِ عید مناتے ہیں۔ اس سے کسی کے ذہن میں یہ شبہ وارد نہیں ہونا چاہیے کہ پھر تو یہ عمل غیر مسلموں کے مشابہ ہو گیا کہ جس طرح وہ نعمت کا شکر بجالاتے ہیں ہم بھی اسی طرح بجالائیں۔ نہیں ایسی بات نہیں بلکہ اس مثال سے مقصود صرف اس امر کی طرف توجہ دلانا ہے کہ وہ یہ ’’یوم عید‘‘ اپنی سابقہ روایات کے مطابق مناتے چلے آرہے ہیں اور ان کے اس عمل کا ذکر خود قرآن نے بھی کیا ہے۔
جب پہلی امتوں کو معمولی سی نعمت ملنے پر شکر بجالانے کا حکم تھا اور وہ اس کی تعمیل مذہبی فریضہ سمجھ کر کرتی تھی تو امتِ مسلمہ کی راہ میں کیا امر مانع ہے کہ وہ اپنے آقا و مولا ﷺ کی دنیا میں مبارک تشریف آوری کے دن اس عظیم ترین نعمت کا شکرانہ ادا نہ کرے۔ جب عام نعمتوں پر شکر کرنا واجب ہے تو اس سب سے بڑی نعمت کا شکریہ بجالانا تو بدرجۂ اولیٰ واجب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں کیا شک ہے کہ کائنات میں حضور ﷺ کی ذاتِ مبارکہ سے بڑی اور کوئی نعمت نہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ کائنات کو وجود ہی اس نعمت کے ذریعے سے ملا اور دنیا و آخرت کی نعمتیں حضور ﷺ کے تصدق سے عطا ہوئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں بنی نوعِ انسان پر بے حدو بے حساب احسانات، لاتعداد انعامات اور مہربانیاں فرمائیں ہیں اور یہ سلسلہ ابد تک جاری رہے گا، کیونکہ وہ رحیم و کریم ذات ہے۔ مگر اس نے اتنا کچھ عطا کرنے کے باوجود اپنی کسی نعمت کا احسان نہیں جتلایا، اس لئے کہ وہ اتنا سخی ہے کہ کوئی اسے مانے یا نہ مانے وہ سب کو اپنے کرم سے نوازتا ہے اور کسی پر اپنے احسانات نہیں جتلاتا۔
لیکن ایک نعمت عظمٰی اس کی ایسی بھی تھی کہ جب اس نے اسے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا تو اس کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ نعمتوں بھری اس کائنات میں صرف اسی نعمت کا احسان جتلایا اور اس کا اظہار بھی عام لوگوں پر نہیں مومنیں پر کیا اور احسان جتلانے سے پہلے اس کا احساس بڑی تاکید کے ساتھ دلایا۔ ارشاد فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ۔
(آل عمران، 3 : 164)
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر بڑا ہی احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔
سبحان اللہ! کیا لطیف نکتہ ہے کہ اللہ رب العزت خود فرما رہا ہے کہ اہلِ ایمان پر یہ میرا بہت بڑا احسان، انعام اور لطف و کرم ہے کہ میں نے تمہاری ہی جانوں میں سے تمہارے لئے وہ ہستی پیدا فرما دی جو میری محبوب ہے اور وہ میں نے ا س لئے تمہیں عطا کر دی کہ تمہاری بگڑی ہوئی تقدیریں بدل دے اور تمہیں ذلت و گمراہی کے گڑھے سے نکال کر عظمت و شرف انسانیت کی بلندیوں تک پہنچا دے۔ میرے کارخانۂ قدرت میں اس سے بڑی نعمت اورکوئی تھی ہی نہیں۔ جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا جس کی خاطر لوح و قلم اور اس کائنات کو وجود میں لایا گیا تو ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم ترین نعمت کا احسان جتلاؤں اور ایسا اس لئے کیا گیا کہ امتِ مسلمہ کہیں اسے عام سی نعمت سمجھتے ہوئے اس کی ناشکری نہ کرے اور اس کی قدرو منزلت سے بے نیازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ اس احسان جتلانے میں بھی امت کی بھلائی ہی کو پیشِ نظر رکھا گیا۔
قرآنِ حکیم نے اس واضح حکم کے ذریعے ہر مسلمان کو آگاہ کر دیا کہ خبردار اللہ کے اس عظیم احسان کو کبھی فراموش نہ کرنا۔ یاد رکھو کہ اگر تم احسان فراموشی کرو گے تو اس سے اللہ اور اس کے محبوب رسول ﷺ کو تو (نعوذ باللہ) کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی اس کی شان میں کوئی فرق پڑ سکتا ہے۔ اس لئے کہ تم اس احسان پر شکرانہ ادا کرو یا نہ کرو، حضور ﷺ کے ذکر کی ہرلمحہ بلندی کا وعدہ تو خدائے بزرگ و برتر نے ان الفاظ میں کر رکھا ہے۔
وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌلَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی۔
(الضحٰی، 93 : 4)
اور (اے محبوب) ہر آنے والی گھڑی تیرے لئے پہلی گھڑی سے بہتر ہے۔
اور اے محبوب! آپ کا ذکر مبارک ہر آن بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ارشادِ گرامی بھی خود خالقِ کائنات کا ہے۔
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ۔
(الانشراح، 94 : 4)
اور (اے محبوب!) ہم نے تیری خاطر تیرا ذکر بلند کر دیا ہے۔
اب اگر کوئی حضور ﷺ کا ذکر کرے گاتو اس میں اس کا اپنا فائدہ ہے اور کوئی ان کی تشریف آوری پر خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور شکرانہ خوشی منائے گا تو یہ بھی اس کے اپنے مفاد کی بات ہے۔ وہ ایسا کرکے کسی پر احسان کر رہا ہے اور نہ ہی کسی کا فائدہ بلکہ اپنا ہی توشۂ آخرت بنا رہا ہے۔
قرآن حکیم کی آیات اور متعدد احادیث سے جشنِ عیدِ میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت اور اس کی اصل غرض و غایت کا پتہ چلتا ہے اور یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضور ﷺ کی ولادت کو اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کا احسان عظیم تصور کرتے ہوئے اس کے حصول پر خوشی منانا اور تحدیثِ نعمت کے طور پر اس دن عید منانا مستحسن اور قابل تقلید عمل ہے۔ پھر یہ خوشی منانا تو سنتِ الٰہی اور خود حضور ﷺ کی اپنی سنت بھی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے معمولات سے بھی ثابت ہے اور سابقہ امتوں کے عمل سے بھی اس امر کی گواہی ملتی ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس کے جواز اور عدم جواز پر بحثیں کرے اور اس کو ناجائز، حرام اور قابلِ مذمت کہے تو اسے ہٹ دھرمی اور لاعلمی کے سوا اور کیا کہا جائے؟
جس طرح شریعتِ مطہرہ نے بہت سے معاملات کے بنیادی تصورات اور اصول بیان کر دیئے لیکن ان کی تفصیل کا معاملہ بعد کے علماء اورفقہا پر چھوڑ دیا۔ امت کے علماء حق کی اکثریت جس امر پر متفق ہو جائے وہ حضور ﷺ کے اس مبارک قول کے مطابق بالکل درست اور قرآن و سنت کے تابع ہوتا ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا:
جس کام کو (اکثر) مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہوتا ہے اور جس کو (اکثر) مسلمان برا خیال کریں وہ عنداللہ بھی برا اور ناجائز ہوتا ہے۔
(مسند احمد بن حنبل، 1 : 379)
اسی طرح ابن ماجہ کی ایک حدیث اجماعِ امت کے حق میں شہادت دے رہی ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا:
بیشک میری امت گمراہی پر ہرگز متفق نہیں ہو سکتی (بفرض محال) اگر تم کوئی اختلاف دیکھتے ہو تو تمہیں چاہئے کہ ایسی صورت میں سوادِ اعظم کی طرف رجوع کرو (امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سوادِ اعظم سے طبقۂ اہلِ سنت مراد لیا ہے اور یہی حدیث کا مدعا ہے۔ (حاشیہ سنن ابن ماجہ : 292)
ہر نئی بات کو بدعت کہہ کر رد کر دینا غیر دانشمندانہ اور غیر حقیقت پسندانہ فعل ہو گا۔ اسلامی حکومت کے قیام کا مسئلہ لے لیجئے، اس کے لئے شریعت نے یہ تو ضروری قرار دیا کہ مسلمانوں کی نمائندہ حکومت ہونی چاہیے، لیکن اس کا انتخاب کس طرح ہو، حکومت کی تشکیل کس ڈھب پر کی جائے، اس کے ادارے کس طرح وجود میں آئیں پھر ان میں اختیارات کی تقسیم کس اسلوب پر ہو؟ ان تفصیلات کے متعلق بالعموم خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ اسی طرح تعمیرِ مساجد کا مسئلہ زیر غور لائیں۔ حضور ﷺ کے ظاہری زمانۂ اقدس میں مسجد نبوی ﷺ کی شکل اور تھی۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں اس کی شکل و شباہت میں تبدیلیاں آتی رہیں؟
وجہ یہ تھی کہ اسلام کے شروع کے دور میں پختہ مکانات بنانا ناپسندیدہ خیال کیا جاتا تھا، لہٰذا مسجد کو بھی از روئے شرع پختہ بنانا ناجائز تصور کیا جاتا رہا۔ پھر ایک وقت آیا جب اسلامی سلطنت کی حدیں شرق و غرب تک پھیل گئیں، تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلیاں آگئیں، لوگوں نے اپنی رہائش کے لئے بڑے بڑے، کشادہ اور پختہ مکانات بنانا شروع کر دیئے۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے دورِ حکومت میں اوراس کے بعد مسلمانوں نے جب بلندو بالا محلات تعمیر کرنا شروع کر دیئے تو علماء نے وقت کے تقاضوں کے مطابق اللہ کے گھروں کی تعمیر کو بھی اسی طرح نہ صرف جائز کہا بلکہ عظمتِ اسلام کے پیش نظر ضروری قرار دیا۔ یہاں ایک ضروری ضمنی نکتے پر غور کرتے چلیں کہ دین کو اگر ظاہری لفظوں سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس سے (الاماشاء اللہ) گمراہی کے سوا کچھ نہیں ملتا، لیکن اگر دین کی اصل روح اور اس میں پوشیدہ حکمتوں پر غور کرکے اس کے احکام کو پرکھا جائے تو نہ صرف دین کا فہم پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ ہدایت کا باعث بھی بنتا ہے۔
اب اگر مساجد کی اس تبدیلی پر غورکیا جائے تو اس کی مصلحت سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس وقت لوگوں کے اپنے گھر کچے ہوتے تھے لہٰذا اللہ کے گھر کا کچا ہونا کسی عار کا باعث نہ تھا لیکن جب لوگوں کے اپنے مکانات پختہ محلات میں بدل گئے تو خانۂ خدا کے جاہ و جلال اور ظاہری رعب و دبدبے کے پیشِ نظر پختہ اور خوبصورت مساجد کا فتویٰ دے دیا گیا۔
مندرجہ بالا صورتحال کے پیش نظر محافلِ میلاد اور جشنِ میلاد بھی صدیوں سے تنقید کا نشانہ بنے آرہے ہیں۔ مخالفین صرف اس لئے اس کو ناجائز اور (نعوذ باللہ) حرام قرار دیتے ہیں کہ اس قسم کی محافل اور جشن کی تقاریب اسلام کے دور اول میں منعقد نہیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا ان کی نظر میں یہ بعد کی پیداوار اور سراسر بدعت ہے۔
لیکن اعتراض کرنے والوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ جہاں تک جشنِ میلادالنبی ﷺ کا تعلق ہے، اسے صرف بدعت کہہ کر اس کو ناپسندیدہ کہہ دینا محض تنگ نظری اور ہٹ دھرمی ہے اور ایسا کہنے والے مسئلہ کی اصل روح سے بے خبر ہیں۔
اگر تاریخی پس منظر میں میلاد النبی ﷺ کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو یہ اپنی اصل کے اعتبار سے بالکل حضور ﷺ کی اپنی سنت ہے۔ جس طرح ہم محفل میلاد میں حضور ﷺ کی نعت سنتے ہیں، آپ ﷺ کے فضائل و کمالات اور مختلف انداز میں سیرتِ طیبہ کے تذکرے ہوتے ہیں بالکل یہی ہمارے جشنِ میلاد کا مقصد ہے۔ اسی طرح کی محفلیں حضور ﷺ کے ظاہری زمانہ مبارک میں بھی منعقد ہوتی تھیں، آپ ﷺ محفل میں بیٹھتے تھے اور اپنی محفلِ نعت منعقد کرواتے تھے۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کو فرماتے کہ حسان ! ہم اپنی محفل میں نیچے بیٹھتے ہیں تو نعت سنا۔ چنانچہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کی شانِ اقدس میں نعتیہ اشعار کہتے۔ حدیثِ صحیح ہے کہ حضور ﷺ دعا فرماتے کہ یا اللہ جب تک حسان میری نعت پڑھتا رہے جبرائیل امین کو اس کی مدد کے لئے مقرر فرما دے۔
(صحیح بخاری، 2 : 908)
چنانچہ جشن میلاد کے وقت نعت خوانی اور ذکرِ میلاد کے علاوہ جلوس بھی نکالا جاتا ہے جس کی اصل صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ مسلم شریف میں باب الہجرت میں حضور ﷺ کے مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے جانے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے نقل کیا گیا کہ جب آپ ﷺ کی مدینہ منورہ میں آمد متوقع تھی اور ہر روز مدینہ منورہ کے لوگ (جو ایمان لا چکے تھے) مرد، عورت، بوڑھے، بچے سب جلوس کی شکل میں آپ ﷺ کا انتظار کرتے رہتے یہاں تک کہ ایک دن جب سرکار دوعالم رحمۃ للعالمین ﷺ نے ان کو شرفِ میزبانی بخشا تو اس دن ہر فرد خوشی سے مدینہ کی گلیوں میں نکل آیا۔ حضور ﷺ کی مکہ سے مدینہ میں آمد کا ایسا پرجوش جلوس دیکھنے میں آیا جس کا آج کے دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
درود و سلام کے بارے میں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ ایک ایساعمل ہے جو حکمِ خداوندی ہونے کے ساتھ ساتھ سنتِ الٰہیہ بھی ہے۔ حکم خداوندی ایک ایسی چیز ہے جس میں تبدیلی ہوسکتی ہے لیکن اللہ کی سنت ہر زمانے میں ایک ہی حالت پر قائم رہتی ہے اور وقت بدلنے کے ساتھ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے جو کبھی نہیں بدلتی۔ قرآن حکیم نے اسے یوں بیان فرمایا ہے۔
فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللهِ تَبْدِیْلًاO
(فاطر، 35 : 42)
اور تو ہرگز اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔
حکمِ الٰہی اور سنتِ الٰہی کا فرق معلوم کرنے کے لئے قرآن حکیم کی اس آیت پر غور کریں جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے :
اِنَّ اللهَ وَمَلَائِکَتَہٗ یُصَلُوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَآاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً.
(الاحزاب، 33 : 56)
بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں اے ایمان دارو! تم بھی ان پر صلوٰۃ پڑھو اور سلام بھیجو جیسا سلام بھیجنے کا حق ہے۔
تو پتہ چلا کہ نبی کریم ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہی نہیں سنت بھی ہے اور چونکہ یہ سنت ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
درود و صلوٰۃ کے اس حکم میں بڑی حکمتیں چھپی ہوئی ہیں۔ عربی زبان میں فعل مضارع، حال اور مستقبل دونوں زمانوں کے لئے آتا ہے۔ زمانہ ماضی جو گزر گیا وہ اس کے دائرے سے باہر ہے جبکہ زمانہ حال اور مستقبل میں آنے کا مطلب یہ ہے کہ فعل خواہ کسی شکل میں ہو اس کی نسبت کسی زمانے پر خاص نہیں ہوتی۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زمانہ ایک عارضی شئے ہے، مستقل نہیں کہ ہر فعل اس کے مفہوم اور معنی میں آجائے۔ آیتِ درود میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے کہ دیکھو میرا وہ فعل جو نبی اکرم ﷺ پر صلوٰۃ و سلام سے متعلق ہے جب سے زمانہ بنا ہے اس وقت سے جاری ہے اور جب تک زمانہ رہے گا تب تک صلوٰۃ وسلام کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے میں اپنے فرشتوں کو اپنے ساتھشریک کر رکھا ہے اور وہ صبح و شام اس کام میںلگے ہوئے ہیں۔ ہر عبادت کا کوئی نہ کوئی وقت ہوتا ہے اور کسی کو اجازت نہیں کہ اس وقت کے علاوہ وہ عبادت کرے، لیکن درود کے معاملہ میں کوئی پابندی نہیں اور کوئی اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا اے بندو! تم بھی اللہ اور فرشتوں کی اس سنت کو دل و جان کے ساتھ جاری رکھو اور یہ عمل جتنا کثرت سے ہوگا اتنا ہی تمہارے لئے مفید ہوگا۔
صلوٰۃ اور سلام ایک ایسا محبوب اور مقبول عمل ہے جو کسی صورت اور کسی مرحلے پر رد نہیں ہوتا اور وہ ظنی القبول نہیں یعنی اس کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ شاید قبول ہو یا نہ ہو، بلکہ وہ قطعی القبول ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ضرور قبول ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر پڑھنے والاشخص فاسق و فاجر اور گناہوں میں لت پت پر ہی کیوں نہ ہو پھر بھی جب وہ درود پڑھتا ہے قبول کرلیا جاتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ جواب یہ ہے کہ جب بندہ اللہ کی بارگاہ میں اس کے حبیب پر صلوٰۃ و سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے بندے میں تو پہلے ہی اپنے محبوب پر صلوٰۃ بھیج رہا ہوں، اس کے ذکر کو بلند ی اور اپنا قربِ خاص عطا کر رہا ہوں۔ لیکن چونکہ تو نے اپنے لئے کچھ نہیں مانگا اور اپنی کسی غرض کو بیچ میں نہیں ڈالا اور صرف میرے محبوب کے لئے صلوٰۃ و سلام اور درود بھیجنے کی درخواست کی ہے میں تیری درخواست اور دعا کو قبول کرتا ہوں۔
درود شریف کی فضیلت یہ ہے کہ وہ عبادتیں بھی جو ظنی القبول کا درجہ رکھتی ہیں اور ان کے لئے وقت نکالنا اور خاص مشقت اٹھانا پڑتی ہے درود شریف کی برکت سے اللہ کی رحمت انہیں بے آسرا نہیں چھوڑتی بلکہ اپنے خاص لطف و کرم سے انہیں قطعی القبول بنا لیتی ہے۔ اس لئے انسان کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ ہر عمل اور عبادت کے شروع اور آخر میں درود و سلام پڑھ لے، جب اسے بارگاہِ خداوندی میں پیش کیا جائے گا تو اسے ضرور قبول کرلیا جائے گا۔
نبیِ اکرم ﷺ سے محبت اور قلبی تعلق کی حقیقت کے بارے میں اہلِ علم حضرات کے مختلف اقوال ہیں۔ ہر شخص نے اپنی سوچ کے مطابق اپنا مفہوم بیان کیا ہے۔ مشہور صوفی بزرگ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ اتباعِ رسول ﷺ کا نام محبت ہے انہوں نے اپنے دعوے کی دلیل قرآن مجید کی اس آیت کو ٹھہرایا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ‘‘
بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ حُبِّ رسول ﷺ امتی کے اس اعتقاد کو کہتے ہیں جس کی رو سے وہ آپ ﷺ کی سنت کی پیروی کو اپنے لئے نہ صرف لازم جانے بلکہ سنت کے مخالفین کی مخالفت ہی نہیں بلکہ ان کو مٹانے میں دریغ نہ کرے۔ حُبِّ رسول اللہ ﷺ کا تقاضا ہے کہ ترکِ سنت کا خیال بھی دل میں نہ آئے۔
اہلِ محبت میں سے بعض نے کہا کہ ذکرِ محبوب کے دوام کا نام محبت ہے جبکہ بعض کے نزدیک محبوب پر جاں نثار کرنا محبت ہے۔ یہ ساری باتیں محبت کی علامتوں کو بیان کرتی ہیں محبت کی حقیقت کو نہیں۔ محبت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کا دل اس طرف مائل ہو جو فطرت کے عین مطابق اور موافق ہو اور محبت کے سبب فطرتِ انسانی ان چیزوں کی طرف جن سے محبت ہو جائے خود بخود مائل ہونے لگے۔ اب رہی یہ بات کہ کسی سے محبت کیوں کی جاتی ہے اس کا ایک سبب یہ ہے کہ محبوب نے محبت کرنے والے پر کوئی احسان کیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے فطرتِ انسانی کے مطابق انسان اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔
اس اعتبار سے اگر جائزہ لیا جائے تو نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی ان تمام خوبیوں اور صفتوں کا مجموعہ ہے جو محبت کا سبب بنتی ہیں۔ اسی طرح حضور ﷺ کا امت پر اتنا عظیم احسان، کرم اور شفقت ہے کہ قرآن نے آپ کو مومنوں کے حق میں رؤف و رحیم قرار دیا۔ آپ ساری کائنات کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے۔ چنانچہ آپ سے بڑھ کر انسانیت کا محسن اور کون ہوسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے لوگوں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکالا اور نجات کی راہ دکھائی، آپ کی ذات رب تک پہنچنے کا وسیلہ بنی اور انہیں، جو آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، دوزخ کے عذاب سے رہائی دلائی۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے خالص محبت کا تقاضا اور محبت کی حقیقی پہچان یہ ہے کہ محبوب کی اداؤں سے بھی محبت کی جائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر دعویِٰمحبت کو درست تسلیم نہیں ماناجائے گا۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے دل کو چھونے والے انداز سے محبت کے اس تقاضے کو بیان کیا ہے، فرماتے ہیں:
اعلم انّ من احب شیئا آثرہ و آثر موافقتہ والا لم یکن صادقا فی حبہ و کان مدّعیا.
(الشفاء‘2 : 19)
یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو شخص جس سے محبت کرتا ہے وہ اس کو اس ذات کی موافقت اور اس کے اتباع کو اپنی ذات پر لازم کرلیتا ہے۔ بصورتِ دیگر وہ اپنے دعویِٰ محبت میں صادق نہیں ہوتا۔
آپ مزید لکھتے ہیں کہ اگر آپ ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرنے والا آپ کا اتباع نہیں کرتا تو وہ محبت کے دعوے میں جھوٹا ہوگا۔
فالصادق فی حب النبی ﷺ من تظهر علامۃ ذالک علیه و اولھا الاقتداء به و استعمال سنته و اتباع اقواله و افعاله و امتثال اوامره و اجتناب نو اھیه و التادب بآدابه فی عسرۃِ و یسرۃِ و منشطه و مکرهه و شاهد هذا قوله تعالی ’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ.
(الشفاء2 : 19)
نبی کریم ﷺ کی محبت میں سچا ہونے کی بعض علامات ہیں۔ ان میں سب سے پہلے یہ کہ حضور ﷺ کی پیروی کی جائے۔ اور سنت نبوی ﷺ پر عمل کیا جائے۔ تمام اقوال و افعال میں حضور علیہ السلام کی اتباع کرے اور آپ ﷺ کے ہر حکم کی تعمیل کرے، جن افعال پر عمل کرنے کی حضور ﷺ نے ممانعت فرمائی ان سے پرہیز کرے۔ عیش و آرام اور عسرت و پریشانی میں ہی نہیں بلکہ ہر حال میں حضور علیہ السلام کے طرزِ عمل سے نصیحت و موعظت حاصل کرے۔ اس سلسلہ میں یہ آیت کریمہ شاہد ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے محبوب آپ (ﷺ) ان سے فرمادیں کہ اگر محبت الٰہی کا دعویٰ کرتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ، اللہ تمہیں اپنا دوست بنا لے گا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے ’’ محبت کا دعویٰ کرنا اور محبوب کی نافرمانی کرنا عجیب بات ہے اگر تیری محبت صادق ہوتی تو تُو اس کی اطاعت کرتا‘‘۔
دنیا کا عام اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پر ایک یا دو مرتبہ احسان کرتا ہے تو وہ اس کے گن گانے لگتا ہے، کسی کو ہلاکت یا نقصان سے محفوظ کرتا ہے تو وہ اس کا شکر گزار ہوتا ہے حالانکہ یہ نقصان عارضی ہوتے ہیں۔ لیکن وہ ذات کریم جن کے احسان ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اس کی تو بات ہی کچھ اور ہے انہوں نے امت کو جس ہلاکت سے محفوظ فرمایا وہ دائمی ہلاکت یعنی دوزخ کے عذاب سے متعلق ہے۔ لہٰذا سرکارِ دو عالم ﷺ ہی انسانیت کے محسن ہیں۔ آپ نے بنی نوعِ انسان کو تمام مصیبتوں اور دنیا آخرت کے آلام سے نجات دلاکر ابدی سکون اور اطمینان دیا۔ آپ ﷺ میں وہ سارے اوصاف اور خصلتیں موجود ہیں تو پھر آپ کیونکر محبت کے لائق نہ ہوں گے۔ اسی لئے قرآن نے حضور ﷺ کی محبت کو دین اور ایمان کی بنیاد قرار دیا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے۔
قُلْ اِنْ کَانَ آٰبَاؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفُتُمْوھَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰهُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ.
(التوبہ، 9 : 24)
(اے رسول آپ ان لوگوں سے) فرما دیجئے! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں ار تمہارے خاندان کے لوگ (معاشرے والے) اور وہ مال جو تم کماتے ہو اور وہ تجارت جس کے نقصان کا تم کو خوف ہے اور وہ مکانات جو تم پسند کرتے ہو، تم کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو تم منتظر رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے اور خوب سمجھ لو کہ اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
اس آیت کے آخری الفاظ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ خدا اور رسول ﷺ سے محبت کے بغیر ایمان و اسلام کے دعوے کرنے والوں کو اللہ کی بارگاہ سے ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو اس ہدایت سے محروم ہوتے ہیں بظاہر مسلمان ہونے کے باوجود فاسق اور گمراہ ہیں۔ حضور ﷺ نے کئی مرتبہ اپنے صحابہ کو اس بارے میں آگاہ فرمایا تاکہ امتِ مسلمہ ایمان کی حقیقت تک پہنچنے میں کسی شک و شبہ میں نہ پڑے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ثلاث من کن فیہ و جد حلاوۃ الایمان ان یکون اللہ و رسولہ احب الیہ مما سواھما و ان یحب المراء لا یحبہ الا للہ و ان یکرہ ان یعود فی الکفر کما یکرہ ان یقذف فی النار.
(صحیح البخاری، 1 : 7، کتاب الایمان، رقم حدیث : 16)
جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ حلاوتِ ایمان سے لطف اندوز ہوگا۔ (1) اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس کو سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ (2) اگر کسی سے محبت ہو تو صرف اللہ کے لئے ہو۔ (3) اور کفر پر رجوع ہونے کو اسی طرح ناپسند جانے جس طرح آگ میں ڈالے جانے کو جانتا ہے۔
حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت جس کے الفاظ ملتے جلتے ہیں اس طرح ہے:
قال رسول الله ﷺ لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین.
(صحیح البخاری، 1 : 7، کتاب الایمان، رقم حدیث : 15)
کوئی شخص اس وقت تک مومن نہ ہوگا جب تک کہ میں اس کو اس کے ماں باپ اولاد اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
اس طرح ایک بار حضور ﷺ سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ مجھے آپ میری جان کے علاوہ ہرچیز سے محبوب ہیں تو آپ ﷺ نے انہیں ایمان کا معیار بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کوئی اس وقت تک مومن ہوہی نہیں سکتا جب تک اس کے دل میں میری محبت اپنی جان سے بھی زیادہ نہ ہو۔ روایت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔
لانت احب الیّ من کل شیئ الا نفسی التی بین جنبی فقال لہ النبی لن یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من نفسہ فقال عمر‘ والذی أنزل علیک الکتاب لانت احب الیّ من نفسی التی بین جنبی فقال لہ النبی ﷺ الان یا عمر.
(الشفاء‘2 : 15)
(حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا) میرے دونوں پہلوؤں کے درمیان جو میری جان پوشیدہ ہے اس کے علاوہ آپ ﷺ مجھے سب سے زیادہ پیارے ہیں۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوں‘‘۔ یہ ارشاد سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اگر ایسا ہے تو قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ ﷺ کو حق و صداقت کے ساتھ کتاب ہدایت دے کر مبعوث فرمایا آپ ﷺ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا اے عمر اب تمہارا ایمان مکمل ہوا ہے۔
معاشرہ اور سماج زندگی کا اجتماعی روپ ہیں۔ حضور ﷺ کی معاشرتی زندگی ایثار و بے نفسی اور فیض رسانی کا اس قدر مکمل نمونہ تھی کہ اس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے معاشرے سے غربت، افلاس، فقر و فاقہ اور معاشی تعطل ختم کرنے کے لئے اپنی ساری کی ساری دولت لٹا دی۔ آپ ﷺ کے اس طرزِ عمل کا پتہ آپ کے اس ارشاد سے ملتا ہے جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یوں روایت کیا ہے۔
’’ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے اس بات پر دلی خوشی ہوگی کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اس میں سے کچھ نہ بچے سوائے اس کے جس سے میں قرض ادا کر سکوں۔‘‘ (صحیح بخاری)
یہ حضور ﷺ کی زندگی مبارکہ کا وہ اصول تھا جس پر آپ ﷺ عمر بھر عمل پیرا رہے اور یہ ہر دور کے لئے ایک نمونۂ کمال ہے۔ معاشرتی زندگی میں ان لوگوں کو فراخیاں اور آسانیاں فراہم کرنا جو بنیادی معاشی ضرورتوں سے محروم ہیں، اس کا ذکر کرتے ہوئے قرآنِ حکیم نے اہلِ ایمان کو انفاق و ایثار کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَO قُلِ الْعَفْو.
(البقرہ، 2 : 219)
آپ ﷺ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے۔ جو کچھ تمہاری ضرورتوں سے زائد ہے دوسروں کے لئے خرچ کر دو۔
اس حکم پر کس طرح عمل ہوا اس کی تفصیل جو نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو بیان فرمائی اسے ابوسعید حذری رضی اللہ عنہ نے یوں روایت کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سفر کے دوران حضور ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ ’’تم میں سے جس کے پاس ضرورت سے زائد کپڑا ہو وہ اس شخص کو لوٹا دے جسے اس کی ضرورت ہے اور جس کے پاس ضرورت سے زائد کھانا ہو وہ اس شخص کو لوٹا دے جسے اس کی ضرورت ہے (حضرت ابوسعید حذری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) حتیٰ کہ ہم نے یہ سمجھا کہ ضرورت سے زائد کسی چیز پر بھی ہمارا حق نہیں۔ (ابوداؤد)
اس ارشادِ نبوی ﷺ نے ایک ایسے نمونۂ عمل کی بنیاد فراہم کر دی جو صحیح فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کا ضامن ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم ایسے معاشرتی حالات میں دیا گیا تھا جب معاشی ناہمواریاں تھیں اور کچھ لوگ ایسے تھے جن کے پاس ضرورت سے زائد سامان بچ رہتا تھا جبکہ دوسرے لوگ ان بنیادی ضرورتوں سے محروم تھے۔ یہ صورتِ حال آنحضور ﷺ کے لئے قابلِ قبول نہیں تھی۔ اس حدیث مبارکہ میں ’’فلیعدبہٰ‘‘ کے الفاظ قابلِ غور ہیں جو روایت میں دومرتبہ آئے ہیں اور جس میں لوٹا دینے کا حکم صادر فرمایا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ ضرورت مند کو دے دو۔ لوٹایا تو اس چیز کو جاتا ہے جو اسی طرف سے آئی ہو اور اگر اس طرف سے نہ آئی ہو تو ’’لوٹانے‘‘ کا نہیں’’دینے‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ فرما کر حضور ﷺ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو اس امر کی تعلیم دے رہے تھے کہ جب معاشرے میں ا س قدر ناہمواریاں پائی جائیں تو یہ جان لینا چاہیے کہ جو کچھ کسی شخص کے پاس اس کی ضرورت سے زیادہ ہے وہ یقیناً کسی نہ کسی کا حق تھا جو اس سے چھین لیا گیا ہے۔ حق تلفی کا یہ عمل خواہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ کسی ضرورت مند کا حق تھا اور اگر وہ اسے دے دیا جاتا تو کسی کے پاس کچھ زائد نہ بچتا۔ حضور ﷺ کے فرمان میں ’’فلیعدبہ‘‘ کا جو مفہوم ہے قرآن مجید نے اس کے تصور کو یوں واضح فرمایا ہے۔
وَفِیْ اَمْوالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِلّسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْم.
اور ان دولت مندوں کے اموال میں سائلین و محرومین کا حق بھی شامل ہے۔
(المعارج، 70 : 24)
اس آیت ِکریمہ نے یہ حقیقت کھول کر بیان کر دی ہے کہ کسی کا حق ہوتا ہی اس لئے ہے کہ اسے ادا کیا جائے اور اگر اس کی ادائیگی کو روک دیا جائے تو وہ سرا سر ظلم ہو گا اور وہ دولت جس میں ظلم کی آمیزش ہو جائز نہیں ہو سکتی۔ اس لئے قرآن مجید نے ایسا منصفانہ معاشی نظام قائم کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ جس میں کسی ظلم و زیادتی اور حق تلفی کی گنجائش نہ ہو۔ ارشاد ہوتا ہے:
کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ.
(الحشر، 7)
یہ مال و دولت تم میں سے صرف امراء کے ہاتھوں میں ہی گردش نہ کرتی ہے۔
چنانچہ یہ بات قطعی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے مبارک ارشاد کی روح کو سمجھ چکے تھے اور انہوں نے جان لیا تھا کہ ضرورت سے زائد اناج کے ایک دانے پر بھی ان کا حق نہیں۔ اس بات کی توضیح ایک اور ارشاد میں آپ نے فرماد ی جسے صحیح مسلم اور جامع ترمذی میں یوں بیان کیا گیا۔
’’اے بنی آدم اگر تو اپنی ضرورت سے بچا ہوا مستحقین پر خرچ کر دے تو یہ تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو اسے بچا کر رکھے تو یہ تیرے لئے نقصان دہ ہے۔ اپنی ضرورت کے لئے بچا رکھنے پر کوئی ملامت نہیں…
حضور ﷺ نے اپنی معاشرتی زندگی میں جو نمونۂ کمال عالمِ انسانیت کے سامنے رکھا وہ یہ تھا کہ ’’اگر کوئی شخص صبح اس حال میں کرے کہ اس کے پیٹ میں ضرورت کی غذا ہواور وہ اس کے ہوتے ہوئے دن کا کھانا سنبھال کر رکھے تو وہ یہ سمجھے کہ اس نے دنیا جمع کر رکھی ہے۔ (صحیح بخاری)
حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ قیامت تک کے ہر دور کے لئے مشعلِ ہدایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں انسانیت کے لئے مکمل رہنمائی کا سامان موجود ہے انسانی زندگی کی خواہ نجی اور انفرادی سطح ہو یا عائلی‘ خاندانی‘ اجتماعی قومی یا بین الاقوامی سطح ہر ہر سطح پر آپ ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہر دور کے انسانوں کے لئے مکمل نمونۂ عمل ہے۔ آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی اسی شان کو بیان کرتے ہوئے قرآن میں ارشاد فرمایا گیا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ.
(الاحزاب‘ 33 : 21)
تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بہترین نمونۂ عمل ہے۔
انسانی زندگی کے عمل کا معیار سیرت و کردار کے اسی نمونہ سے اپنے کمال کو پہنچتا ہے جو حضور ﷺ کی ابتاع اور پیروی کی صورت میں آئینے کی طرح ہمارے سامنے ہے۔ جو شخص اپنی سیرت وکردار‘ رفتار و گفتار کو جس قدر اسوۂ مصطفوی ﷺ سے قریب کرتا چلا جاتا ہے اسی قدر وہ باکمال ہوتا چلا جاتا ہے۔
آقائے دو جہاں ﷺ نے فریضۂ نبوت کی ادائیگی کا ہر سطح پر اور ہر اعتبار سے حق ادا کر دیا۔ آپ نے کبھی قریشِ مکہ کو گلی کوچوں میں جاکر دعوتِ دی اور کبھی طائف کے بازاروں میں شرپسندوں کے پتھر کھا کر دعوتِ انقلاب کا فرض ادا کیا اور کبھی یہ کام منیٰ کے میلوں‘ دارِ ارقم کی چار دیواری اور کعبۃ اللہ کی دیواروں کے سائے میں کمال جرات و شجاعت سے سرانجام دیا۔ آپ ﷺ دعوتِ انقلاب کو ایک ایک فرد تک پہنچانے کے لئے قریہ قریہ بستی بستی گئے ‘ دور دراز علاقوں کے دورے کئے اور اپنے صحابہ کو بھی روانہ کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی عمر مبارک ابھی تقریباً 35 برس تھی کہ آپ کی طرف سے سیاسی حکمت و بصیرت کا عظیم الشان مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ یہ خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے بعد حجرِ اسود کی تنصیب کا مسئلہ تھا جس پر مختلف قبائلی سرداروں کے درمیان جھگڑا پیدا ہوگیا، ہر کوئی چاہتا تھا کہ یہ سعادت اس کے حصے میں آئے۔ معاملہ طول پکڑ گیا اور قریب تھا کہ تلواریں میانوں سے باہر نکل آتیں اور خون کی ندیاںبہہ جاتیں۔ لیکن کسی صلح کن شخص کی مداخلت سے یہ نوبت نہ آئی اور طے پایا کہ اگلی صبح جو شخص سب سے پہلے حرمِ کعبہ میں داخل ہو وہی حجر اسود اٹھا کر کعبہ کی دیوار میں رکھ دے۔
حسنِ اتفاق سے اگلے روز کعبہ میں داخل ہونے والے پہلے شخص حضور ﷺ تھے۔ آپ چاہتے تو حجرِ اسود خود دیوار کعبہ میں نصب فرما دیتے اور اس عمل سے قتل و خوں ریزی کا معاملہ وقت طور پر ٹل جاتا، لیکن آپ ﷺ کی نگاہِ بصیرت دیکھ رہی تھی کہ قبائلی عصبیت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں کجی بدستور موجود رہے گی اور نفرتیں اور کدورتیں پلتی رہیں گی۔ چنانچہ آپ ﷺ نے کمال حکمت اور دانشمندی کا مظاہرہ فرماتے ہوئے قبیلوں کے تمام سرداروں کو طلب کیا اور ایک بہت بڑی چادر کے اوپر حجرِ اسود رکھ دیا اور سرداروں سے کہا کہ وہ اس کے کونے تھام کر کعبہ کی اس دیوار کے پاس لے جائیں جہاں حجر اسود رکھنا مقصود تھا۔ جب چادر دیوارِ کعبہ کے قریب پہنچی توآپ ﷺ نے پتھر اٹھا کر مطلوبہ جگہ پر رکھ دیا۔ آپ کی اس سیاسی حکمتِ عملی سے وہ جھگڑا ختم ہوگیا اور یوں طویل عرصہ تک جاری رہنے والے اس فتنے کا سدِباب ہوگیا جس کے نتیجے میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوسکتا تھا۔
چنانچہ بعثت کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کا سینہ مبارک حکمت کے نور سے بھر دیا گیا اور وحی کی صورت میں علمِ نبوت عطا ہونا شروع ہوا تو آپ ﷺ کا قلبِ اطہر جو پہلے ہی بصیرت و فراست کا نمونہ تھا نورٌ علیٰ نور ہوگیا۔ حق بھی یہی ہے کہ انسان کے پاس حکمت کا نور ہو تو قرآن نفع دیتا ہے اور اگر اس کا سینہ اس نور سے خالی ہو تو قرآنی علم بھی نفع نہیں دیتا بلکہ وہ گمراہی کا سبب بن ہوجاتا ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا:
یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَ یَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًاO
(البقرہ، 2 : 26)
اسی کے ذریعے وہ کثرت سے لوگوں کو گمراہ بھی کرتا ہے اور کثرت سے ہدایت بھی عطا فرماتا ہے۔
یاد رہے کہ پیغمبرانہ دعوت و تبلیغ کے لئے سیاسی حکمتِ عملی کا ہونا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی کے ضمن میں آپ ﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْهُمَ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَن.
(النحل، 16 : 125)
اپنے رب کے راستے کی طرف (بندوں کو) حکمت اور موعظتِ حسنہ کے ساتھ بلائیے اور (اس جدوجہد میں اگر جھگڑے تک بھی نوبت پہنچ جائے تو) جھگڑا بھی نہایت احسن انداز میں کیجئے۔
دعوتِ دین کے سلسلے میں تین بنیادی چیزوں (1) حکمت و بصیرت (2) موعظت ِحسنہ (اچھی نصیحت) اور اس جدالِ احسن (جھگڑے میں حسن) کا ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ تاریخ اسلام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جب آپ ﷺ دینِ حق کی انقلابی دعوت کو لے کرچلے تو آپ اورآپ کے ماننے والوں پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے، انہیں مشقِ ستم بنایا گیا اور آپ ﷺ کی زندگی کے چراغ کو گل کرنے کے لئے کیا کیا سازشیں نہ ہوئیں مگر آپ نے اپنا سفر کمال سیاسی حکمت اور بصیرت سے جاری رکھا۔ اپنے جان نثاروں کی سیاسی تربیت کی یہاں تک کہ یثرب کی سر زمین جسے بعد میں مدینہ بننے کا شرف حاصل ہوا دعوتِ دین کے کام کے لئے ہموار ہوگئی اور ہجرتِ مدینہ کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کی انقلابی جدوجہد نے خاطر خواہ نتائج پیدا کرنے شروع کر دیئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہجرتِ مدینہ کا فیصلہ کوئی ہنگامی فیصلہ نہیں بلکہ ایک باقاعدہ سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ تھا۔ اس حکمتِ عملی سے ایک نئی قومیت کی بنیاد رکھی گئی اور ایک نیا تصورِ ملت حقیقت کا روپ دھار گیا اور سر زمینِ مدینہ میں باقاعدہ سیاسی و انقلابی جدوجہد کا آغاز کر دیا گیا۔
نبیٔ آخر الزماں ﷺ کے معجزات میں معجزۂ معراج خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ یوں تو اللہ رب العزت نے اپنے برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کو اپنے خصوصی معجزوں سے نوازا، ہر نبی کو اپنے زمانے، علاقے اور حالات کے مطابق معجزات عطا ہوتے رہے اور ان کا مقصد یہ تھا کہ انہیں دیکھ کر لوگوں پر نبی کی صداقت اور حقانیت آشکار ہو جائے اور وہ دولتِ ایمان سے سرفراز ہو جائیں۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت جادو میں کمال رکھتی تھی تو اس کا توڑ کرنے کے لئے اللہ نے اپنے نبی کو معجزات عطا کئے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں علمِ طب کا بہت چرچا تھا، چنانچہ وہ معجزاتی طور پر کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے اور مردوں کو بھی زندہ کر دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
جب حضور اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت کا زمانہ آیا اور آپ ﷺ کے سرِاقدس پر ختمِ نبوت کا تاج سجایا گیا تو آپ ﷺ کو ایسے معجزات سے نوازا گیا جن کا مقابلہ تمام قومیں علمی اور سائنسی ترقی کے باوجود بھی نہیں کر سکتی تھیں، اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ امتِ محمدی ﷺ کے زمانے میں انسان چاند پر قدم رکھے گا اور دوسرے ستاروں پر بھی کمندیں ڈالی جائیں گی۔
لہٰذا حضور ﷺ کو ایک ایسا معجزہ عطا کیا گیا جو کسی انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا اور جس کی بدولت آپ ﷺ مکان و لامکاں کی وسعتوں کو طے کرکے مقامِ قاب و قوسین تک پہنچے اور حسنِ مطلق کا بے نقاب جلوہ کیا، انبیائے کرام سے ملاقاتیں کیں اور جب اس سفر سے واپس لوٹے تو گھر کے دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی اور وضو کا پانی حرکت میں تھا۔ عقلِ ابوجہل و بولہب اس واقعہ کو نہ مانی کہ تشکیک کے غبار نے حقیقت کو پردے میں چھپا لیا تھا جبکہ عشقِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر حقیقت بے نقاب ہو گئی تھی اور یوں بشریت کے ارتقاء کا سفر اپنے معراج کو پہنچا اور یہ سفر جو پروازِ مصطفی ﷺ کے کمالات کی انتہا کا نام ہے عظیم ترین معجزے کی صورت میں ایک شاہکار کے طور پر ظہور پزیر ہوا۔
سفرِ معراج بیداری کے عالم میں طے ہوا۔ آج کے سائنسی دور میں جبکہ انسان زمین و آسماں کی حدیں پھلانگنے لگا ہے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں نے رات خواب میں آسمانوں کی سیر کی اور جب میں واپس آیا تو میرا بستر گرم تھا اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی تو اسے خواب کا واقعہ سمجھ کر کون ایسا ہے جو انکار کرے گا کہ خواب میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ اگر ہمارے آقا و مولا ﷺ یہ دعویٰ خواب کے حوالے سے کرتے تو ابوجہل اور ابولہب کو اس سے انکار کی مجال نہ ہوتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ چونکہ یہ دعویٰ عالمِ بیداری کی نسبت کیا گیا تھااس لئے مادیت کی پرستار عقلِ عیار اسے تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوئی۔ چونکہ جاگتے میں ایسا ہونا انسانی عقل سے بالاتر تھا۔ لہٰذا اس معجزے کو اہلِ ایمان کے لئے آزمائش قرار دیا گیا۔ قرآن مجید میں اس بارے میں ارشاد ہوا۔
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا.
(بنی اسرائیل، 17 : 1)
(کہ ہر نقص، عیب اور ناممکن کے لفظ سے) پاک ہے وہ قادرِ مطلق جو لے گیا اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرانے۔
بعض لوگ یہ سمجھے کہ رویاء چونکہ عام طور پر خواب کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ کا سفرِ معراج خواب میں ہوا۔ یہ مفہوم غلط ہے کیونکہ عربی زبان میں رویاء رات کے وقت کھلی آنکھوں سے دیکھنے کو بھی کہتے ہیں۔ اس آیت میں رویاء سے مراد حسنِ مطلق کا مشاہدہ ہے۔ جیسا کہ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے کہا:
لِنُرِیَہْ مِنْ اٰیٰتِنَا.
(بنی اسرائیل، 17 : 1)
تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔
معجزۂ معراج چونکہ کسی بھی بشر کے لئے عملاً ایک ناممکن بات تھی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی قدرتوں کا مظہر قرار دیتے ہوئے سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں اس پر اٹھنے والے انسانی عقل کے پیدا کردہ اعتراضات کو مسترد کر دیا کہ معراج اللہ تعالی کی قدرتِ کاملہ کا مظہر ہے۔ اس پر کفار و مشرکین کا ردِ عمل بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ معجزۂ معراج کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کوئی خواب بیان ہو رہا تھا، کیونکہ اگر یہ کوئی خواب ہوتا تو وہ اس سے انکار نہ کرتے اور قرآن میں اس کا ذکر اس اہتمام سے نہ ہوتا۔
سفرِ معراج تین مرحلوں پر مشتمل ہے:
پہلا مرحلہ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کا زمینی سفر ہے۔ یہ چونکہ دنیائے انسانیت کا حصہ ہے جس کی سوجھ بوجھ ذہن انسانی میں نسبتاً آسانی سے ممکن ہے، اس لئے اسے قرآن حکیم میں تفصیل سے بیان کیا گیا۔ اس مرحلۂ سفر کے واقعات اور احوال کو تفصیل سے سامنے لایا گیا ہے۔
سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک کرۂ ارضی کے اس پار عالم ملکوت و جبروت کا نورانی سفرتھا۔ یہ چونکہ عالمِ خلق کی حدود کے اندر تھا، اسے بھی بیان تو کیا گیا مگر تفصیل اس لئے نہیں دی گئی کہ یہ واقعہ پوری طرح انسانی عقل و ذہن میں آنے والا نہ تھا۔
تیسرا مرحلہ سدرۃ المنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا ہے۔ چونکہ یہ سفر محبتوں اور قربتوں کا سفر تھا اور اس میں محب اور محبوب کی ملاقاتِ خاص ہوئی لہٰذا محبت کی اس روداد کو صیغۂ راز میں رکھا گیا۔ سورۃ النجم میں راز و نیاز کی باتوں کے تذکرے فقط اشاروں کنایوں میں کئے گئے اور کوئی کیا جانے کہ کیا کیا باتیں ہوئیں؟ اس مقام پر ھوالسمیع البصیر کہہ کر بات ختم کر دی گئی۔ یہ نہیں بتایا کہ دیکھنے اور سننے والا کون ہے؟ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات بھی ہو سکتی ہے اور آقائے دوجہاں ﷺ کی ذات بھی، اس کے دو معانی ذہن میں آتے ہیں۔
1۔ اس مقامِ قرب پر فقط اللہ ہی اللہ تھا، جو پیار بھرے انوار سے اپنے محبوب کو تک رہا تھا، اور اس کی میٹھی میٹھی رس بھری زبان سے اس کی محبوبانہ گفتگو سننے میں محو تھا۔
2۔ دوسرا معنٰی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس مقام پر فقط حضور ﷺ ہی تھے جو اپنے رب تعالیٰ کے حسین بے نقاب جلوے دیکھنے اور اس کے پیار بھرے ارشادات سننے میں مشغول تھے۔
یہ وہ مقام تھا جہاں محبتوں اور عظمتوں کا سفر اپنے مقصود کو پانے والا تھا، جس کا مخلوق سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ لہٰذا اس داستانِ محبت کو بیان کرنے کے لئے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ محب و محبوب آمنے سامنے تھے، کبھی وہ سننے والا اور یہ سنانے والا تھا اور کبھی یہ دیکھنے والا اور وہ دیکھا جانے والا تھا۔
امام صاوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ معنٰی مراد لیتے ہوئے بیان کیا ہے کہ اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے محبوب کی مدح بیان ہوتاکہ مخلوق پر واضح ہو جائے کہ آپ ﷺ کا مقام کتنا بلند ہے۔
سفرِ محبت کے اس مرحلے میں دو کمانوں کا استعارہ بھی اپنے اندر کمال بلاغت اور معنوی حسن رکھتا ہے۔ محبت اپنی زبان خود تخلیق کرتی ہے اور بعض اوقات اظہارِ محبت کے لئے کوئی لفظ بھی درکار نہیں ہوتا۔ بے تاب آنکھیں سارا حال خود کہہ دیتی ہیں۔ محبت کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ تعلق کی گہرائی اور قرب کا اظہار اوردو چیزوں کا ذکر اس طرح کیا جائے جیسے ایک ہی کا ذکر ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ دوئی اور غیریت کا تصور تک مٹ جائے۔ اب رہی یہ بات کہ اللہ کس قدر قریب ہوا تو اس کا جواب اس آیت کے ذریعے دیا گیا۔
فَکاَنَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ اَدْنٰی.
(النجم، 53 : 8)
پھر دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم رہ گیا (جس کی کوئی حد معلوم نہیں)
اس تمثیل کا ایک ثقافتی پس منظر ہے۔ عربوں کے قبائلی رسم و رواج کا ایک طریقہ یہ تھا کہ جب دو قبیلے آپس میں ملتے تو فریقین اپنی کمانوں کو آپس میں بدلتے اور پھر ملا کر تیر پھینکتے تویہ تصور کیا جاتا کہ ایک کا پھینکا ہوا تیر دوسرے کا پھینکا ہوا تیر ہے۔ گویا یہ دو فریقوں کی آپس میں دوستی کی علامت اور اس بات کا اظہار تھا کہ ایک کی دشمنی دوسرے کی دشمنی ہے۔ قاب قوسین کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ وہ جو اللہ سے تعلق جوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اس کے محبوب کے دامنِ رحمت سے لپٹ جائے اور وہ جو محبوب ﷺ سے دشمنی رکھنے پر تلا ہوا ہے یہ جان لے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا دشمن بنا رہا ہے اور اس کے لئے دنیا اور عقبیٰ میں کہیں کوئی جائے اماں نہیں۔
رسولِ آخر واعظم ﷺ کے معجزات میں معجزۂ معراج انفرادی اہمیت رکھتا ہے۔ جب ہم تاریخِ انبیاء پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور نبیوں کو خصوصی معجزات سے نوازا، ہر نبی کو اپنے زمانے کے حالات کے پیش نظر معجزے عطا ہوئے جن کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں پر ان کی عظمت اور صداقت آشکار ہو جائے اور وہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہو جائیں۔ اس کی ایک مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دی جاسکتی ہے، جن کے زمانے میں لوگ جادو میں کمال رکھتے تھے۔ ہزاروں جادوگر فرعون کے دربار سے وابستہ تھے۔ چنانچہ اس کا توڑ کرنے کے لئے انہیں عصائے موسویؑ عطا کیا گیا جس نے اژدہا بن کر جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو نگل لیا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں طب اپنے عروج پر تھی۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کے اعجاز مسیحائی نے کمال دکھایا اور وہ مُردے زندہ کر دینے کی قدرت سے بھی فیضاب ہوئے اور وہ اپنے دم سے کوڑھیوں کو بھی تندرست کر دیتے تھے۔
اب جیسا کہ پہلے بیان ہوا جب نبی آخر الزمان ﷺ کی تشریف آوری کا زمانہ آیا تو ان کے سرِ اقدس پر ختمِ نبوت کا تاج سجایا گیا۔ چونکہ ان کے بعد آنے والے زمانوں میں سائنسی ترقی اپنے عروج پر پہنچنے والی تھی اور اللہ رب العزت کے علم میں تھا کہ انسان ستاروں پر بھی کمندیں ڈالنے لگیں گے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو ایسا معجزہ عطا فرمادیا، جس سے مکان ولامکاں کی وسعتیں اور بلند یاں ان کی عرش گیر پرواز سے نیچے رہ جائیں گی۔ معجزۂ معراج ایسا معجزہ ہے کہ تمام معجزات مل کر اس کی گردِپا کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔یہ حضور ﷺ کا وہ دائمی معجزہ ہے۔ جس کی عظمت میں سائنس کے نئے کائناتی حقائق منکشف ہونے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا اور ارتقاء کے سفر کی طرف اٹھنے والا ہر قدم معجزۂ معراج کی صداقت کی گواہی دے گا۔ سفرِ معراج میں وقت سرورِ کائنات ﷺ کی مٹھی میں آگیا تھا۔ آپ براق پر سوار ہو کر مکہ سے اٹھے، بیت المقدس پہنچے، وہاں سے آسمانوں سے ہوتے ہوئے عرشِ معلیٰ تک گئے اور لامکاں کی تما م وسعتوں کو طے کرتے ہوئے مقامِ قاب قوسین پر حسنِ مطلق کے بے نقاب جلوؤں سے سرفراز ہوئے، انبیائے کرام سے ملاقاتیں کیں اور بے شمار مشاہدات کئے، پھر جب لوٹے تو دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی اور غسل و وضو کا پانی حرکت میں تھا۔اس واقعے کی تصدیق یارِ غار نے کی تو صدیق کہلائے، لیکن ابولہب اور ابوجہل کی عقل آڑے آئی اور سب حقائق تشکیک کی دھند میں اوجھل ہوگئے جبکہ عشق نے میدان سر کر لیا کہ بقول اقبالؒ
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
سفرِ معراج کے بارے میں اگر کوئی شخص آج کے دور میں جو سائنسی ارتقاء کا دور ہے۔ یہ دعویٰ کرے کہ میں نے خواب میں زمین و آسماں کی وسعتوں کی سیر کی اور جب میں واپس آیا تو میرا بستر گرم تھا تو کوئی ایسا نہ ہو گا جو اس دعوے کو تسلیم نہ کرے۔ اگر حضور ﷺ بھی یہ دعوٰ یِمعراج خواب کے حوالے سے کرتے تو ابوجہل اوراس قبیل کے دوسرے لوگوں کو ماننے میں کوئی تامل نہ ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ حالتِ بیداری کی نسبت سے کیا گیا تھا، زمین اور عالم بالا کی سیر بیداری کے عالم میں ہوئی اسی لئے تعقل پرست ذہن اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ کیونکہ جاگتے میں یہ سب کچھ ہو جانا انسانی عقل و فہم سے باہر کی بات تھی لہٰذا اس معجزہ کو اہلِ ایمان کے لئے آزمائش قرار دیا گیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْ اَرَیْنَاکَ اِلَّافِتْنَۃً لِّلَّنَّاسِ.
(بنی اسرائیل،17 : 60)
اور ہم نے تو (شب معراج کے) اس نظارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے لئے صرف ایک آزمائش بنایا ہے (ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین الجھ گئے)
بعض لوگ زؤیا کے لفظ سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ سفرِ معراج خواب میں ہوا۔ عربی زمان میں رؤیا رات کے وقت کھلی آنکھوں سے دیکھنے کو بھی کہتے ہیں۔ چونکہ معراج اتنا بڑا سمجھ میں نہ آنے والا واقعہ تھا جو کسی بھی شخص کے لئے عملاً ناممکن تھا۔ اس لئے اسے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی قدرتوں کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا:
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ أَسْرٰیٰ بِعَبْدِہٖ لَیْلًا.
(بنی اسرائیل،17 : 1)
(کہ ہر نقص، عیب اور ناممکن کے لفظ سے) پاک ہے وہ قادرِ مطلق جو لے گیا اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرانے۔
کفار و مشرکین کا ردِ عمل بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ معجزۂ معراج کوئی خواب میں پیش آنے والا معمولی واقعہ نہ تھا اگر ایسا ہوتا تو ان کی طرف سے اتنا شدید ردِ عمل سامنے نہ آتا اور نہ ہی قرآن میں اس کا ذکر اس غیر معمولی انداز سے کیا جاتا۔ قاضی عیاض نے ’’الشفاء ‘‘میں اپنی تحقیق کے مطابق یہ بیان کیا ہے کہ صحابہ واقعۂ معراج کے جسمانی ہونے پر ایمان رکھتے تھے۔ اسلاف اور مسلمانوں کی اکثریت کا ایمان ہے کہ معراج جسم کے ساتھ بیداری کی حالت میں ہوا اور یہی سچا قول ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved