شرک ایک عظیم گناہ اور ناقابل معافی جرم ہے۔ شرک کا مطلب ہے اللہ کی ذات، صفات اور افعال میں کسی کو اس کا ہمسر بنانا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں، خواہ بتوں کو اللہ کا شریک بنایاجائے یا اس کے محبوب و مقرب بندوں کو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءَ ج وَ مَنْ یُشْرِکْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰی اِثْمًا عَظِیْمًاO
(النساء، 4 : 48)
بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس نے زبردست گناہ کا بہتان باندھا۔
اسی طرح ایک اور مقام پر شرک کو بہت بڑی گمراہی قرار دیا گیا ہے۔
وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا م بَعِیْدًاO
(النساء، 4 : 116)
اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ واقعی دور کی گمراہی میں بھٹک گیا۔
سورۃ آل عمران میں شرک کی اور صورت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَاداً لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ.
(آل عمران، 3 : 79)
پھر وہ لوگوں سے یہ کہنے لگے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔
قرآن حکیم کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو خود بخود سمجھ آجائے گا کہ شرک کیا ہے؟ اور ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی سمجھ آجائے گا کہ شرک کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ ساری نعمتیں انسان کو اللہ کی طرف سے عطا ہوئی ہیں اور وہ نعمتیں عطائی ہیں ذاتی نہیں تو یہ شرک نہیں بلکہ توحید ہی ہے اور تمام قدرت و طاقت کا مالک اللہ ہی ہے۔ اس نے اپنی حقیقتِ شہادت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدًاO
(الاحزاب، 33 : 55)
بے شک اللہ ہر شے سے خوب آگاہ ہے۔
مگر ایک اور مقام پر حضور ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا :
وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط
(البقرۃ، 2 : 143)
اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول تم پر گواہ ہو
دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھیں تو بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ نے لفظ شھید اپنے لئے بھی استعمال کیا ہے اور اپنے حبیب ﷺ کے لئے بھی، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اللہ کی صفت اور شان ذاتی ہے جبکہ حضور ﷺ کی یہ شان اور صفت عطائی ہے ذاتی نہیں۔ اب اگر کوئی آپ ﷺ کے لئے شھید ِحقیقی ہونے کا عقیدہ رکھے تو یہ شرک ہوگا کیونکہ یہ صرف اللہ کی شان ہے اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ آپ ﷺ کی یہ شان آپ کو بارگاہ ِالٰہی سے ملی ہے تو یہ شرک نہیں بلکہ عین توحید ہے۔
اسی طرح یہ نکتہ بھی سمجھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات اور تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے کہ اگر اس کی رحمت نہ ہو تو کوئی شئے وجود میں آہی نہیں سکتی۔ جبکہ اللہ تعالی نے حضور ﷺ کی شانِ رحمت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَO
(الانبیائ، 21 : 107)
اور (اے رسول محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت-
اب یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالی بھی تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے اور حضور ﷺ بھی تمام جہانوں کے لئے رحمت، تو کیا یہ شرک ہوگیا؟ (معاذ اللہ) ہرگز نہیں اس لئے کہ اللہ کی شانِ رحمت ذاتی ہے جبکہ آپ ﷺ کی یہ شان عطائی ہے۔ ہاں اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ آپ ﷺ کی صفتِ رحمت ذاتی ہے تو یہ شرک ہوگا۔
اسی طرح اللہ نے اپنی نسبت ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌO
(البقرہ، 2 : 143)
بے شک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے۔
جبکہ حضور نبی اکرم ﷺ کی نسبت باری تعالی کا ارشاد ہے:
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌO
(التوبہ، 9 : 128)
(وہ) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔
دونوں میں رؤف اور رحیم ہونے کی صفت پائی جاتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ اللہ کی صفت ذاتی ہے جبکہ حضور ﷺ کی یہ صفت عطائی ہے۔
پس شرک کے لئے لازم ہے کہ آپ جس چیز کو شرک کہہ رہے ہیں سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ یہ توحید کے کس اعتقاد اور کس شان سے متعلق ہے جس کی وجہ سے اس کا غیر کے لئے ثابت کرنا شرک ہے۔ اس لئے ضروری ہوگا کہ پہلے توحید کی حقیقت معلوم کی جائے اور یہ جانا جائے کہ اللہ کے لئے کیا ثابت ہے؟ اور کس طرح ثابت ہے؟ جب ایک بار یہ طے ہو جائے کہ یہ صفات، اقوال اور خصوصیات اللہ کے لئے خاص ہیں تو اس چیز کو غیر کے لئے ثابت کرنا شرک ہوگا۔ اسی قاعدے کے تحت کسی بھی غیر کو شریک ٹھہرا نے سے منع فرمایا گیا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا۔
فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَO
(البقرہ، 2 : 22)
پس تم اللہ کے لئے شریک نہ ٹھہرا ؤ حالانکہ تم (حقیقت حال) جانتے ہو۔
توسل یعنی وسیلے کا مسئلہ قرآن و سنت سے ثابت شدہ ہے۔ اس کے شرعی جواز سے انکار، آیاتِ قرآنی سے انکار کے برابر ہے جس کا کوئی صحیح العقیدہ مسلمان تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ وسیلہ درحقیقت بندے کا اللہ کی بارگاهِ بے کس پناہ میں اپنی دعا کی قبولیت اور حاجت برآری کے لئے اپنی عاجزی اور بے کسی کے اعتراف کے ساتھ کسی مقبول عمل یا مقرب بندے کا واسطہ پیش کرنا ہے تاکہ گنہگار بندے کی دعا جلد قبول ہو اور اللہ رب العزت اپنے اس مقرب بندے کی خاطر اس کی حاجت پوری فرمائے۔
کسی کو بطور وسیلہ پیش کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ مقبول و مقرب بندہ جس کا وسیلہ دیا جا رہا ہے وہ بذات خود دعا قبول کرے گا، یا وہ اللہ کی ذات کو (معاذ اللہ) اس بات پر مجبور کردے گا کہ فلاں کام ہونا چاہئے یا فلاں بندے کی بخشش و مغفرت لازمًا کردی جائے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو بعض لوگوں کے ذہنوں میں پائی جاتی ہے۔ دراصل وسیلہ پیش کرتے وقت سائل کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ جب میں اپنی عاجزی‘ بے بسی اور نیاز مندی کا اظہار کر کے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد اس کے کسی مقبول اور مقرب بندے کا نام بطور وسیلہ پیش کروں گا تو اللہ تعالیٰ اپنے اس اطاعت گزار مقبول اور مقرب بندے کا حیاء فرماتے ہوئے ضرور میری حاجت پوری فرمائے گا۔ یہ تصور بھی وسیلہ کرنے والے کے ذہن میں ہرگز نہیں ہوتا ہے کہ وہ صالح بندہ (معاذ اللہ) خدائی میں شریک ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ توسُّل کی حقیقت کو سمجھا جائے اور درج ذیل باتوں کو ذہن میں رکھا جائے۔
1۔ سب سے اہم بات جو ذہن نشین کرنی ضروری ہے وہ یہ کہ وسیلہ کرنا محض دعا کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے اور اس میں مقصودِ حقیقی صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے جس کے حضور وسیلہ پیش کیا جارہا ہے، جبکہ وہ شخص جس کو بطور وسیلہ پیش کیا جانا مقصود ہے اس کی حیثیت محض ایک واسطہ کی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ اسی تعلق اور قربِ خاص کی وجہ سے اللہ جل مجدہٗ قبولیتِ دعا کے باب میں اس کا لحاظ اور حیاء کرتے ہیں۔
2۔ دوسری بات جو ذہن میں رہنی چاہئے یہ ہے کہ وہ بندہ جس کو کوئی اپنا وسیلہ بناتا ہے اس بناء پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس مقرب بندے سے بے حد محبت ہوتی ہے اور وہ بھی اللہ کو اپنا محبو ب رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ محض اللہ کے لئے کسی سے محبت رکھنا بذات ِ خود عمل صالحہ ہے۔ یہی بات وسیلے کی بنیاد ہے جس سے کسی کو اختلاف نہیں اور درست عقیدہ بھی یہی ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ عقیدہ رکھتا ہے تو وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ٖکے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ وہ بذاتِ خود اللہ جل شانہ کی طرح نفع و نقصان کا مالک ہے تو وہ شخص اس گمراہ کن عقیدے کے باعث ایمان سے خارج ہوجائے گا۔
3۔ قبولیتِ دعا کے بارے میں یہ کوئی ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دعا قبول کرنا محض وسیلے ہی پر موقوف ہے، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ إِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ.
(البقرہ، 2 : 186)
اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلِ ادْعُو اللهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ط أَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْأَسْمَآءُ الْحُسْنٰی ج
(الاسراء، 17 : 110)
فرمادیجئے کہ اللہ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو، (سب) اچھے نام اسی کے ہیں۔
لہٰذا اگر کسی کے ذہن میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ وسیلہ جبر و اِکراہ کا نام ہے تو وہ اب دور ہوجانی چاہئے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جو شخص وسیلہ بنتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو اس امر پر مجبور کر دے گا کہ وہ متعقلہ فرد کے بارے میں مانگی جانے والی دعا کو ضُرور شرفِ قبولیت سے نوازے۔ ہمارے نزدیک اس چیز کا وسیلے سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ محض اللہ جل شانہ کا انعام و اکرام اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے بعض صالح بندوں کو اپنی محبت‘ اطاعت اور فرمانبرداری کی وجہ سے یہ مقام عطا فرمایا کہ ان کے وسیلہ سے گناہ گار خطاکار اور عاجز و مسکین بندوں کو اپنی دعاؤں کی قبولیت کی زیادہ امید لگ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ ان نیک صالح بندوں سے منسوب چیزوں کی بھی حیا کرتا ہے۔ اسی لئے متبرک مقامات اور اشیاء کا وسیلہ بھی اسے پیش کیا جاتا ہے تاکہ دعا کی قبولیت کی امید اور بڑھ جائے۔
جمہور اہلِ اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اعمالِ صالحہ یعنی صوم و صلوۃ اور حج و زکوٰۃ، تلاوتِ قرآن اور دیگر اعمال کو وسیلہ بنانا جائز ہے۔ اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ البتہ توسُّل بغیرِ عمل جیسے’ توسُّل بالنبی ﷺ ‘، ’توسُّل بالصالحین‘، ’توسُّل بالاولیاء‘ اور’ توسُّل بالآثار‘ کا بعض لوگ انکار کرتے ہیں جبکہ انسان کسی بھی شخص کو صرف اس کی محبت کی وجہ سے وسیلہ بناتا ہے۔ کیونکہ یہ وسیلہ بنانے والا اس کے بارے میں حسنِ ظن کی بنا پر ہی اس کی بزرگی و فضیلت پراعتقاد رکھتا ہے یا پھر یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ پاک اس شخص سے محبت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ.
(المائدہ، 5 : 54)
(اللہ) ان سے محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔
بعض لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگتے ہوئے ہچکچاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید وسیلے سے دعا مانگنا عقیدے کے رو سے صحیح نہیں اور یہ کہ جو مانگنا ہے براهِ راست اللہ سے مانگنا چاہیے۔ وہ قرآن مجید کی ان آیات کو حوالہ کے طور پر پیش کرتے ہیں جن میں کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرائے جانے کا حکم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان آیات کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا (معاذ اللہ) کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانے کے برابر ہے۔ یہ تصور ہی در اصل بہت بڑی نادانی اور جہالت کی پیداوار ہے۔ ہمیں اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ انبیاء علیھم السلام یا اللہ تعالیٰ کے کسی صالح بندے اور کسی صالح عمل کو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے وسیلے کے طور پر پیش کرنا نہ تو کسی قسم کا شرک ہے اور نہ ہی اللہ سے براهِ راست مانگنے کے خلاف عمل ہے۔
کسی کو وسیلہ بنانے کے باوجود صحیح عقیدہ یہی ہے کہ مانگا اللہ ہی سے جاتا ہے نہ کہ صاحبِ وسیلہ سے۔ شرک کا ارتکاب تو تب ہو گا جب اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی اور کو اللہ تعالیٰ کی طرح نفع و نقصان کا مالک، قادرِ مطلق اور دعائیں سننے اور قبول کرنے والا سمجھا جائے اگر یہاں سرے سے ایسا معاملہ ہی نہیں۔ دعا فقط اللہ تعالیٰ ہی سے مانگی جاتی ہے اور اس سے اپنی حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہوئے حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس یا کسی ایسے مقرب بندے یا نیک عمل کا واسطہ دیا جاتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کو محبت ہو اور جس کا وہ عام مخلوق سے کہیں بڑھ کر حیاء اور لحاظ فرماتا ہو۔ سو ایسا وسیلہ پیش کرنے سے جہاں کلماتِ دعا کی برکت اور تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے وہاں اس کی بارگاهِ عالی میں شرفِ قبولیت پانے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ اب اس بندے کی التجا کے ساتھ اللہ کے اس بندے کی اللہ کے ساتھ محبت بھی شامل ہو جاتی ہے، جس کا وسیلہ دیا جارہا ہے۔ یہ بہرحال ذہن میں رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعائوں کی قبولیت کے لئے وسیلہ شرط نہیں مگر مفید اور کارگر ضرور ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ خود نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو اپنے وسیلہ سے دعا مانگنے کی تعلیم فرمائی تھی جیسا کہ ایک صحیح حدیث جس کے راوی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ ہیں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے انہیں دعا کے کلمات تلقین فرمائے تھے۔ محدثین کی کثیر تعداد نے اسے روایت کیا ہے۔ وہ کمات یہ ہیں۔
’’اے اللہ میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں اور تیری طرف حضرت محمد ﷺ نبی رحمت کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ پوری ہو جائے۔ اے اللہ ! میرے حق میں آپ ﷺ کی شفاعت قبول فرما۔
(المستدرک للحاکم، 1 : 27۔ 526) (مسند احمد بن حنبل، 4 : 138)
وسیلے کا جائز ہونا خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ثابت ہے جس میں حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے بارش کی دعا مانگنے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک مرتبہ جب مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑ گیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر اہلِ مدینہ کو حضور ﷺ کی طرف وسیلے کے طور پر بھیجا اور اس کی برکت سے موسلادھار بارش ہوئی (یہ روایت امام دارمی نے سنن کے مقدمے میں نقل کی ہے)
یہ مبارک عمل دیگر انبیاء کرام کے علاوہ خود دورِ نبوی ﷺ ، دورِ صحابہ اور تابعین سے لے کر موجودہ زمانے تک بطور صحیح عقیدہ جاری ہے اور اگر بعض لوگ دین کی صحیح سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے اعتراض کرنے لگے ہیں اور اسے توحید کے مقابلے شرک سمجھتے ہیں تو انہیں اپنے عقیدے کو درست کر لینا چاہیے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ احکامِ شریعت کی حقیقی روح کو سمجھیں اور اپنی کم علمی اور ناواقفیت کی وجہ سے دینی تصورات کا حلیہ نہ بگاڑیں۔
حضور ﷺ کے وسیلے سے امت سے عذاب کے ٹل جانے کے بارے میں رب کریم خود قرآنِ حکیم میں اس طرح ہماری رہنمائی فرماتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَ أَنْتَ فِیْھِمْ ط وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَO
(الانفال، 8 : 33)
اور (در حقیقت بات یہ ہے کہ ) اللہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیب مکرم!) آپ بھی ان میں (موجود ) ہوں اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی وجہ سے اپنے نظام کو بدل کے رکھ دیا۔ پہلی قوموں کے لوگ جب اللہ کی نافرمانی میں تمام حدیں پارکر جاتے تو انہیں فوراًعذابِ الہٰی کی گرفت میں لے لیا جاتا۔ اس کی کئی مثالیں قرآن حکیم میں درج ہیں۔ مگر جب حضور ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون و ضابطہ ہی تبدیل کر دیا۔ چنانچہ آپ ﷺ کے وسیلے سے نہ صرف امتِ اجابت (مومنین و مسلمین) بلکہ امتِ دعوت (کفار و مشرکین) سے بھی دنیاوی عذاب اٹھالئے گئے۔ یہ عذاب کا اٹھایا جاناکسی خاص وقت اور زمانے کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے۔ اب اس وقت تک عذابِ الہٰی نہیں آئے گا جب تک آپ ﷺ کی نبوت و رسالت موجود رہے گی اور بلاشبہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت قیامت تک جاری و ساری رہے گی۔
ہم ذیل میں امت کے برگزیدہ اماموں اور علماء کرام کے خیالات و نظریات درج کر رہے ہیں، جو وسیلہ کے بارے میں ہمارے لئے سند کا درجہ رکھتے ہیںاور ان سے بات واضح ہوگی کہ وسیلہ پکڑنے کا عقیدہ قرآن و سنت کے عین مطابق ہے۔
آپ نے اپنے جدِ امجد حضورِ رحمت عالم ﷺ کی بارگاهِ اقدس میں شعروں کی صورت میں جو کچھ عرض کیا ہے۔ اس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔
٭ اے رحمت للعالمین! آپ گنہگاروں کی شفاعت کرنے والے ہیں، کل روزِ قیامت اپنے جودوکرم اور فضل و احسان سے ہمیں بھی شفاعت کی عزت بخشیں۔
٭ اے تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آنے والے ! زین العابدین کی بھی دستگیری کیجئے جو (اپنے ہی اوپر) ظلم و ستم کرنے والی جماعت میں گھرا ہوا ہے۔
چار فقہی اماموں میں آپ نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ایک دفعہ خلیفہ ابو جعفر منصور مدینہ منورہ آیا اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا۔
’’کیا میں دعا کرتے وقت اپنا رُخ نبی اکرم ﷺ کی طرف کروں اور پشت قبلہ کی جانب ہو۔ اس پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا : ’’اے خلیفہ تم حضور نبی اکرم ﷺ کی جانب سے منہ کیوں پھیرتے ہو؟ حالانکہ وہ تمہارے اور تمہارے جدِ امجد حضرت آدم علیہ السلام کے لئے روزِ قیامت وسیلہ ہیں، تمہیں چاہئے کہ آپ ﷺ کی جانب متوجہ ہو کر آپکی شفاعت کے طلبگار ہوں تاکہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے تمہاری شفاعت فرمائیں۔ اس پر انہوں نے سورۃ نساء کی آیت نمبر 64 کا حوالہ دیا۔ اس واقعہ کو قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے ’’الشِفاء‘‘ میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔
انہوں نے اپنی تصنیف’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں سورہ النساء کی آیت نمبر 64 کی تفسیر میں توسل کے عقیدے کو جائز قرار دیا ہے۔
امام حاکم نے اپنی کتاب’’المستدرک‘‘ میں توسلِ آدم علیہ السلام کا ذکر کرکے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں حضرت آدم علیہ السلام کا بنی اکرم ﷺ کو وسیلہ کرنے والی روایت کا ذکر کیا ہے اور انہوں نے اپنی کتاب میں اس بات کا خاص اہتمام کیا ہے کہ اس میں کوئی موضوع روایت ذکر نہ ہونے پائے۔ امام موصوف نے عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت بھی نقل کی ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بھی درج کی ہے جس میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش طلب کرنے کا واقعہ درج ہے۔
انہوں نے ’’الشفاء‘‘ میں صحیح احادیث کے ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کا نبی اکرم ﷺ سے توسل بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنی کتاب کے بہت سے ابواب میں حضور نبی اکرم ﷺ کے خصائص وفضائل کا ذکر کیا ہے۔
انہوں نے اپنی کتاب ’’الایضاع‘‘ کے چھٹے باب میں توسل کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی کتاب ’’الاذکار‘‘ میں ایسی دعائیں نقل کی ہیں جن سے توسل کا جائز ہونا ثابت ہے۔
انہوں نے اپنی کتاب ’’قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ‘‘ میں یہ ارشاد بارتی تعالیٰ نقل کیا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ.
(المائدہ، 5 : 35)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے حضور تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو۔
وہ لکھتے ہیں ’’اللہ جل شانہ‘ کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا حضور ﷺ پر ایمان اور آپ ﷺ پر اتباع کی وجہ سے ہے اور اسی وجہ سے یہ توسل آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ اور آپ ﷺ کے وصال کے بعد ظاہراً و باطناً فرض ہے لہذا کسی بھی حال میں کسی فرد واحد سے آپ ﷺ پر ایمان و اطاعت کی وجہ سے کسی بھی عذر کے بنا ء پر یہ ساقط نہیں ہوتا اور اللہ کی رحمت تک پہنچنے اور اس کی گرفت سے بچنے کے لئے صرف اور صرف آپ ﷺ پر ایمان اور آپ ﷺ کی اطاعت کو وسیلہ بنانا ہی صحیح عقیدہ ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ مقامِ محمود پر فائز اور مخلوق کی شفاعت کرنے والے ہیں مقام محمود پر فائز اور آپ پر رشک کریں گے اور نبی اکرم ﷺ کا مرتبہ اللہ کے دربار میں سب سے عظیم ہے اور تمام شفاعت کرنے والوں میں سے سب سے بلند ہے۔
حضرت محمد مصطفی ﷺ تمام انبیاء سے عظیم المرتبہ ہیں لیکن آپ ﷺ کی شفاعت اور دعا سے صرف اس شخص کو نفع ملے گا جس کے لئے آپ ﷺ شفاعت اور دعا فرمائیں گے اور یہ کرم اس پر ہوگا جو آپ ﷺ کی شفاعت اور دعا کو وسیلہ بنائے گا جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بنایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا ’’کیا نبی اکرم ﷺ کو وسیلہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے جواب میں آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا آپ سے توسل کرنے اور آپ کے وصال مبارک کے بعد صحابہ کا بارش کے لئے آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل کرنے کا بطورِ خاص ذکر کیا۔
9۔ علامہ علی بن عبدالکافی سبکی رحمۃ اللہ علیہ : انہوں نے اپنی کتاب ’’شِفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام‘‘ میں نہایت تفصیل کے ساتھ وسیلہ کے عقیدہ پر بحث کی ہے اور اس کو جائز ہونا ثابت کیا ہے:
10۔ حافظ امام عماد الدین ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ : آپ نے اپنی کتاب ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں سورۃ النساء کی آیت نمبر 64 کی تفسیر میں توسل کا ذکر کیا ہے۔ اور اس کے علاوہ اپنی کتاب ’’البدایۃ و النہایۃ‘‘ میں حضرت آدم علیہ السلام کا وسیلہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے اس روایت کے موضوع ہونے کا کوئی حکم بھی نہیں لگایا۔ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعے کا ذکر بھی کیا ہے جس میں ایک شخص نے حضور ﷺ کی قبر مبارک پر آکر آپ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کی جس کو آپ نے صحیح روایت قرار دیا۔ اپنی کتاب میں انہوں نے یہ بیان بھی کیا ہے کہ جنگِ یمامہ میں مسلمانوں کا جنگی نعرہ ’یا محمداہ‘ (اے محمد ! مدد فرمائیے) تھا۔
11۔ حا فظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ : انہوں نے اپنی کتب ’’الاصابتہ فی تمیز الصحابۃ‘‘ اور فتح الباری میں اس آدمی کا ذکر کیا ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے مزار اقدس پر آپ ﷺ کا وسیلہ پکڑنے کے لئے حاضر ہوا تھا۔
12۔ مولانا عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ : شعر و ادب، علم و حکمت اور حدیث میں آپ کو جو مقام حاصل ہے اسے سارا زمانہ اچھی طرح جانتا ہے۔ مگر آپ کی شخصیت کا جو نمایاں پہلو تھا وہ آپ کا حضور ﷺ کی ذات سے والہانہ عشق ہے، جس کی تڑپ اور کسک آپ کے بے شمار اشعار میں جھلکتی نظر آتی ہے۔ توسل کے بارے میں آپ کا یہ شعر زبان زد عام و خواص ہے۔
(’’اگر حضرت آدم علیہ السلام محمد ﷺ کے نام کا وسیلہ درمیان میں نہ لاتے تو ان کی توبہ قبول نہ ہوتی اور نہ نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان میں غرق ہونے سے بچتی‘‘)
13۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ : آپ نے حضرت آدم ؑ کی توسل والی حدیث اپنی کتاب ’’الدر المنثور‘‘ اور الخصائص الکبری‘‘ کے علاوہ ’’الریاض الانیقہ‘‘ میں بھی بیان کی ہے جہاں وہ لکھتے ہیں کہ امام بیہقی نے اسے صحیح حدیث قرار دیا ہے۔
14۔ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ : علامہ قسطلانی اولیاء کرام کے خاص گروہ کے اوصاف و کمالات کے تذکرے جو مختلف حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب المواہب اللدنیہ میں لکھتے ہیں۔ ’’جب عام لوگ کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو سب سے پہلے نقباء دعا کرتے ہیں پھر باری باری نجباء، ابدال، اخیار اوراگر ان کی دعا قبول ہو جائے تو فبھاورنہ غوث دعا کرتے ہیں اور دستِ طلب دراز کرنے سے پہلے ہی ان کی دعا قبول کر لی جاتی ہے۔ یہ ایک طرح کا اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص کرم ہوتا ہے۔
15۔ امام ابن حجر ہیثمی مکی رحمۃ اللہ علیہ : آپ فقہا و محدثین میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے حضرت ابو عبداللہ قرشی رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب یہ واقعہ اپنی کتاب الفتاوی الحدیثیہ میں نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ مصر شدید قحط سالی میں مبتلا ہوگیا۔ لوگ سخت بھوک اور پیاس کی مصیبت سے دو چار ہوگئے لیکن باوجود دعا واستغفار کے قحط کا عذاب ختم نہ ہوا۔ آگے امام مکی کچھ یوںلکھتے ہیں۔
’’جب میں نے ملک شام کی طرف سفر کیا اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کے مزار مبارک کے نزدیک پہنچا تو آپ ؑمجھے آکر ملے۔ میں نے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسول میں آپ کے پاس مہمان کی حیثیت سے آیا ہوں۔ آپ میری ضیافت میں مصر والوں کے حق میں دعا فرما دیں۔ چنانچہ حضرت خلیل اللہ ؑ نے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے قحط دور فرما دیا۔ اس تذکرے میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کی جس ملاقات کا حال بیان ہوا ہے اس کی وضاحت میں حضرت امام یا فعی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : ’’حضرت ابو عبداللہ قرشی کا یہ کہنا کہ حضرت خلیل اللہ ؑ مجھ سے ملے بالکل برحق ہے اس لئے کہ اس کا انکار فقط وہی جاہل کرسکتا ہے جو اولیاء کرام کے احوال و مقامات سے بے خبر ہو۔ کیونکہ یہ لوگ زمین و آسمان کا مشاہدہ فرماتے ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام کو بالکل زندہ حالت میں دیکھتے ہیں۔
16۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ : حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فتوح الغیب کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اولیاء کرام جب فنائے بشریت کی حد سے گزر کر معرفت کی وادیوں میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں حق تعالیٰ سے خاص صلاحیت اور قوت عطا کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ظاہری اسباب کے بغیر کئی افعال سرزد ہونے لگتے ہیں اور وہ عالمِ فناء سے عالمِ بقا میں اللہ کی تجلیات کا مظہر بن جاتے ہیں۔ اس طرح سے انہیں دنیا میں وہ شان حاصل ہو جاتی ہے جو عام مومنین کو جنت میں جاکر حاصل ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْٓا أَنْفُسَھُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللّٰہَ وَ اسْتَغْفَرَلَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاO
(النساء 4 : 64)
اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضور نبی کریم ﷺ کا مقام اور مرتبہ اتنا عظیم ہے کہ انسان کی محدود اور ناقص عقل اس کا اندازہ بھی نہیں لگاسکتی۔ اوپر درج کردہ آیت کے مفہوم سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس طرح آپ ﷺ کی ظاہری حیات میں آپ سے وسیلہ کرنا جائز تھا اسی طرح آپ کے وصال فرماجانے کے بعد بھی ایسا کرنا شریعت کے حکم کے عین مطابق ہے۔ کوئی شرعی و عقلی دلیل ایسی نہیں جو بعداز وصال آپ سے وسیلہ پکڑنے کو ناجائز قرار دیتی ہو۔ سوچنے سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب ہم اپنے اعمال جیسے تیسے بھی وہ ہیں ان کو اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بنانا جائز سمجھتے ہیں تو پھرنبی کریم ﷺ کی ذات کو اس کے حضور بطور وسیلہ پیش کرنا اور بھی زیادہ جائز عمل ہونا چاہیے، اور ایسا کیوں نہ ہو؟ جبکہ ہم آپ ﷺ کے ارشاداتِ عالیہ پر عمل کرتے ہوئے جو نیک اعمال کرتے ہیں وہ سنتِ رسول ﷺ کہلاتے ہیں۔ پھر جب سنت سے وسیلہ کرنا جائز ہوا تو اس ذات سے کیوں نہیں جس نے ہمیں یہ سنت عطا کی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ آپ ﷺ تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ افضل ہیں اور ہمیں جو نیک اعمال کی توفیق ملی ہے وہ آپ ﷺ ہی کی ہدایت سے نصیب ہوئی ہے۔ یہ بات ہمارے پیشِ نظر رہنی چاہیے اور ہمارے نزدیک صحیح عقیدہ بھی یہی ہے کہ جب ہم آپ ﷺ کی ذات ِ اقدس، اللہ کے محبوب اولیاء صالحین یا اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنا کر اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں تو ان تمام صورتوں میں ہم ہرگز ان کو اللہ کا شریک یا اس کے برابر نہیں سمجھتے۔ اعمال اورجس ذات کا وسیلہ دیا جارہا ہوتاہے تو وہ محض ذریعہ ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات وسیلہ قبول کرنے والی اور وحدہ‘ لاشریک ہے، کوئی رسول، نبی، ولی اور کوئی زندہ یا مردہ اس کی ذات و صفات میں اس کا ساجھی اور برابر ہو نہیں سکتا۔ گویا وسیلہ کی تمام صورتوں میں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس کے ہاتھ وسیلہ اور دعا قبول کرنے کی باگ ڈور ہے۔
بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ ہر کسی کی دعا اور پکار کو بغیر وسیلہ کے براهِ راست سن لے اور وسیلے کے بغیر قبول بھی کرلے، مگر اتنا ضرور ہے کہ وسیلہ سے قبولیت کی امید بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے ان ہستیوں کا وسیلہ پکڑ کر ہم درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کر رہے ہوتے ہیں اور ہماری التجاء وپکار اور مناجات اسی کے حضور ہوتی ہیں، اس امید کے ساتھ کہ اس کی ذاتِ کریمی اپنی مخلوق میں سے محبوب اور مقرب بندوں اور ان پسندیدہ اعمال کے صدقے سے جن کی توفیق اس نے ہمیں عطا فرمائی ہماری دعائوں اور التجاؤں کو ضرور شرفِ قبولیت سے نوازے گی، مشکلات اور مصائب و آلام میں ہماری حاجتیں اور مرادیں پوری فرمائے گی اور ہمارے تمام گناہوں پر اپنے حبیب ﷺ کے وسیلے سے عفو و درگزر کی قلم پھیر دے گی۔
سورۃ النساء کی اس آیتِ کریمہ کو صرف حضور نبی اکرم ﷺ کی ظاہری حیات ہی سے منسوب نہیں کر لینا چاہیے جیسا کہ بعض لوگوں کا نظریہ ہے۔ ایسا کرنا قرآنی ارشاد کا غلط معنی مراد لینا ہے۔ اور یہ تاویل اس بات کی دلیل ہے کہ وہ شخص جو آیت کا یہ مفہوم لے رہا ہے۔ قرآن کی روح سے آشنا نہیں۔ مفسرین اور محدثین نے اس آیت کی تفسیر اور شرح کرتے ہوئے اسے توسلِ مطلق قرار دیا ہے۔
امام حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ سورۃ النساء کی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مشہور حکایات کی کتاب ’’الحکایات المشہورہ‘‘ میں درج واقعہ کا حوالہ دیا ہے۔ جسے عتبی نے بیان کیا کہ میں حضور ﷺ کی قبر انور کے پاس بیٹھا تھا تو ایک اعرابی آیا اور اس نے السلام علیک یا رسول اﷲ کہہ کر وہی آیت پڑھی اور عرض کیا کہ میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوں اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بنا کر حاضر ہوا ہوں۔ پھر اس نے کچھ نعتیہ اشعار پڑھے اورلوٹ گیا۔ کچھ دیر بعد مجھے نیند آگئی اور خواب میں نبی اکرم ﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، جا اس اعرابی کو خوشخبری سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں۔
علمِ غیب انبیاء علیہم السلام کے لئے ثابت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور انبیاء کو علمِ غیب عطاء نہ ہوتا تو نبوت کا کوئی معنی ہی نہ رہتا کیونکہ نبوت کا معنی ہی علمِ غیب پر مطلع کرنا ہے اور نبی اس ہستی کو کہتے ہیں جس کو اللہ غیب کی خبریں دے۔
علمِ غیب کا انبیاء علیہم السلام کے لئے تسلیم کرنا ضروری ہے مگر علمِ غیب ثابت کرکے اس کی بنیاد پر ان میں سے کسی کو عالم الغیب کہنا درست نہیں کیونکہ عالم الغیب فقط اللہ تعالی کی ذات ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔
عَالِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَۃِ ط وَ ھُوَالْحَکِیْمُ الْخَبِیْرِO
(الانعام، 6 : 73)
(وہی) ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے اور وہی بڑی حکمت والا خبردار ہے۔
اور اللہ تعالیٰ اپنے علم میں سے اگر چاہے تو اپنے رسولوں کو بھی عطا فرما دیتا ہے۔
عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدَاO اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَسُوْلٍ.
(الجن، 72 : 26، 27)
اللہ تعالی غیب کو جاننے والا ہے پس وہ اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا بجز اس رسول کے جس کو اس نے (غیب کی تعلیم کے لئے) پسند فرما لیا ہو
غیب جاننے والا رب جب اپنے رسول ﷺ کو علمِ غیب پر مطلع فرما دیتا ہے تو پھر اس کے ساتھ اسے یہ اذن بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی غیب کی خبریں پہنچائے اور یہ وہ فریضۂ نبوت ہے جس میں آپ ﷺ کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔ اس لئے ارشاد فرمایا:
وَ مَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنَ.
(التکویر، 81 : 24)
اور وہ غیب کی بات بتانے میں ذرا بخل نہیں کرتے
یعنی وہ رسولِ مقبول ﷺ نہ صرف یہ کہ عطا کئے جانے پر خود غیب جانتے ہیں بلکہ اسے بتانے میں ذرا بھر بخل نہیں کرتے۔ یہ سیدھی سی بات ہے کہ جس کے پاس غیب کی باتیں ہوں گی وہی انہیں دوسروں کو پہنچائے گا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہی نہ ہو اور وہ غریب و مفلس ہو اور کسی کو کچھ نہ دے تو اس کے بارے میں کوئی نہیں کہے گا کہ وہ بخیل ہے، بخیل تو اسے کہا جائے گا جسے اللہ نے دولت دے رکھی ہو اور وہ اسے دوسروں سے چھپا کر رکھے۔ جب قران مجید کہہ رہا ہے کہ میرا رسول علم غیب کی دولت بانٹنے میں بخیل نہیں ہے تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنہیں وہ بانٹنے میں بخل سے کام نہیں لیتا بلکہ جو ان کا حقدار ہوتا ہے انہیں دیتا رہتا ہے۔
قرآنِ حکیم کی اوپر والی دونوں آیتیں حق ہیں۔ ان میں کوئی تضاد اور فرق نہیں۔ ان کا مفہوم یہ ہے کہ جب خدا کے غیب جاننے کی بات ہوگی تو بالذات جاننے کی بات ہوگی اور معنی یہ ہوگا کہ بتائے بغیر اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ اور جب اللہ کے محبوب کے غیب جاننے کی بات ہوگی تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے ان کو بتا دیا ہے، اس کے بتانے سے وہ غیب جانتے ہیں اور جو حق جاننا چاہتے ہیںانہیں حق بتانے میں وہ بخل نہیں کرتے۔
قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا ایک خاصہ ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی کو اس میں سے کچھ ہی عطا نہیں کرتا۔ بلکہ یہ وہ عام صفت ہے جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو ذاتی کہلائے گی اور جب اس کے محبوب بندوں میں سے کسی کی طرف ہو تو وہ عطائی کہلائے گی۔
یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ اذنِ الٰہی سے جو کسی کو عطا ہوتا ہے وہ ہرگز شرک نہیں۔ شرک تب ہوگا جب اللہ کے سوا کسی اور کے لئے علم ذاتی ہونے اور اس کے علم کے ذاتی تصرف کو ثابت کیا جائے، لیکن اس کے برعکس اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ اس کا اپنا اذن نہیں بلکہ اذنِ الہٰی ہے جو اس کے ہاتھ اور زبان سے جاری ہورہا ہے تو یہ ہرگز ہرگز شرک نہیں ہوگا۔ اس کی تصدیق ایک حدیث قدسی سے ہوتی ہے جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے۔
ولایزال عبدی یتقرب الیّ بالنوافل حتی فاذا احببتہٗ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ و بصرہ الذی یبصرہ بہ و یدہ التی یبطش بھا و رجلہ التی یمشی بھا وان و سالنی لا عطینہ.
صحیح البخاری، 2 : 963، کتاب الرقاق، رقم حدیث : 6137
میرا بندہ مسلسل نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں پھر اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے، اسکی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھے سوال کرے تو میں ضرور اسے عطا فرماتا ہوں۔
یہ مقام جس کا اس حدیث مبارکہ میں ذکر ہوا ہے صاف ظاہر ہے کسی کافر اور مشرک کو میسر نہیں ہوسکتا بلکہ انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام اور اولیاء عظام ہی کو نصیب ہوتا ہے کیونکہ وہ نفلی عبادت اور اطاعت کرتے کرتے اللہ کے اتنے قریب ہو جاتے ہیں کہ اللہ ان سے محبت کرنے لگتا ہے اورپھر اس مقام پر ان سے جو کچھ صادر ہوتا ہے وہ اللہ کے اذن اور اس کی عطا سے ہوتا ہے۔
علمِ غیب نبوت کے خصائص میں سے ایک خصوصیت ہے۔ حضور ﷺ کی یہ خصوصیت کمال درجے کی ہے اور آپ ﷺ کی ذات علمِ غیب عطائی کی بلند ترین مثال ہے۔ آپ کو جو شان عطا ہوئی اس تک انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں۔ تاہم یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ ساری کائنات کا علم حضور نبی اکرم ﷺ کے علم کے مقابلے میں ایک جز کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے روح کی حقیقت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو یہ جواب ارشاد فرمایا
قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا.
(بنی اسرائیل‘ 17 : 85)
فرما دیجئے روح میرے رب کے امر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو جو علوم عطا کئے ہیں وہ بہت قلیل ہیں لیکن حضور ﷺ کو علم کی جس دولت سے نوازا گیا ہے اس کی وسعت کا اندازہ اس قول سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس علم کے ذریعے مشرق سے مغرب تک کائنات کی تمام چھپی ہوئی حقیقتوں کو جان لیا۔ آپ ﷺ کے علمِ غیب پر قرآن و حدیث شاہد ہیں۔ ہم یہاں دلیل کے طور پر قرآن حکیم کی ان آیات کا حوالہ درج کریں گے جن میں حضور ﷺ کے علمِ غیب پر مطلع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔
تِلْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَا اِلَیْکَ.
(ھود‘11 : 49)
یہ بیان ان غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں امام خازن رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہاںنبی اکرم ﷺ سے خطاب کیا گیا ہے کہ ہم نے آپ کو حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کی قوم کے جس واقعے کی خبر دی ہے وہ غیب کی خبروں میں سے ہے۔ ہم نے اس غیب سے آپ کو آگاہ فرمادیا ہے۔
حضور ﷺ کے علم غیب کے بیان میں سورۃ نساء کی اس آیت کریمہ میں نہایت جامع انداز اختیار کیا گیا ہے۔
وَ عَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَیْکَ عَظِیْمًاO
(النساء‘4 : 113)
اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کردیا جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔
2۔ اس آیت کی تفسیر میں علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے مراد مخفی امور اور دینی احکام کا علم ہے۔ اسی طرح امام اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وحی کے ذریعے غیب اور پوشیدہ باتوں کا وہ علم عطا فرمادیا تھا جو آپ اس سے پہلے نہیں جانتے تھے۔
(تفسیر البیضاوی، 1 : 380)
3۔ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کہ حضور ﷺ اپنے اس فرضِ منصبی کو بطریقِ احسن ادا کرتے ہیں قرآن حکیم یوں بیان فرماتا ہے۔
وَمَا هُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍO
(التکویر‘81 : 24)
اور وہ (نبی اکرم)غیب (کے بتانے ) پر بالکل بخیل نہیں ہیں۔
امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ آپ ﷺ علم وحی اور غیبی امور کی تعلیم و تبلیغ کے بارے میں بخل نہیں فرماتے۔ اس لئے یہ بات ذہن میں رہے کہ بخیل اسے کہتے ہیں جس کے پاس دولت ہو اور وہ اس میں سے خرچ نہ کرے بلکہ اسے چھپا چھپا کر رکھے۔ مگر وہ جو خود مفلس اور نادار ہو اور کسی کو دے یا نہ دے اسے بخیل نہیں کہا جاسکتا۔ لہذا رسول کریم ﷺ کے غیب بتانے میں بخیل نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنہیں وہ اپنے آپ خود تک محدود نہیں رکھتے۔ اب رہا یہ سوال کہ ہمارے آقا و مولا ﷺ کتنا غیب جانتے ہیں اور کتنا نہیں جانتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ اتنا غیب جانتے ہیں کہ کوئی جو چاہے پوچھ لے آپ غیب بتانے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ وہ غیب حقیقی کی بھی خبر دیتے ہیں اور غیب اضافی کی بھی۔ اگر آیت میں مذکور غیب سے قرآن مراد لیا جائے تب بھی یہ بات ثابت ہے کہ قرآن بھی حضور ﷺ کے علوم میں شامل ہے اور اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔ اس لیے یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ ہر نبی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیب کے بارے میں خبریں دی جاتی ہیں اور حضور ﷺ کا معاملہ تو تمام انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر ہے۔ حضور ﷺ کے علم غیب کے بارے میں تفسیرِ خازن میں ہے کہ محمد ﷺ آسمانی خبر یںاور واقعات جن پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دی بغیر کسی کمی بیشی کے بیان فرما دیتے ہیں۔ وہ یہ بیان کرتے ہوئے بخل نہیں فرماتے اور کچھ بھی چھپا کر نہیں رکھتے۔
آج کل لوگ حضور ﷺ کے علمِ غیب سے متعلق ’’کُل‘‘ اور’’ جز‘‘ کے جھگڑے میں گرفتار نظر آتے ہیں، ان کے مناظرے اور جھگڑے ختم ہونے کو نہیں آتے۔ کوئی علمِ مصطفیٰ ﷺ کو ’’کُل‘‘ کہتا ہے اور کوئی ’’جز ‘‘کہتا ہے حالانکہ اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو یہ نکتہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ گویا اس جھگڑے کے حل کے لئے یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہر ’’کُل‘‘ ایک نسبت سے کل اور دوسری نسبت سے جز ہے یعنی کسی شئے کو کُل یا جز قرار دینا موازنہ اور تقابل کے بغیر ممکن نہیں۔ لہذا ہمیں سب سے پہل اس امر کا تعین کرنا ہوگا کہ جزئی اور کُلی ہونے کا ہم نے جو معیار قائم کر رکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی کوئی شے اپنے مدمقابل کے حوالے سے ’’کُل‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے اور جب مقابل بدل جائے تو کسی دوسرے مقابل کے حوالے سے اسی شے کی حیثیت جزئی ہو جاتی ہے۔
ایک عام مثال کے حوالے سے اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ آپ کے محلے کی مسجد کے محراب اور بام و در میں اگر محراب و مسجد کا موازنہ کریں تو محراب اور مسجد کے اندر کے صحن کے حوالے سے مسجد ’’کُل‘‘ اور محراب اس کا جز ہوگا۔ اب اسی مسجد کا موازنہ محلے سے کریں تو وہ مسجد جو محراب کے مقابلے میں ’’کُل‘‘ تھی محلے کے مقابلے میں ’’جز‘‘ قرار پائے گی جبکہ محلہ اس کے مقابلے میں ’’کُل‘‘ کی حیثیت کا حامل ہوگا۔ اسی طرح محلے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ جز ہے اور شہر کل ہے اور شہر کو ملک کے مقابلے میں لیا جائے تو شہر جز ہوگا اور ملک ’’کُل‘‘، اسی طرح ملک کو اگر دنیا کے مقابلے میں دیکھا جائے تو یہ بھی جز بن جاتا ہے پس معلوم ہوا کہ’’ جز‘‘ اور’’ کُل‘‘ ایک اضافی رشتہ ہے اورجس کو ختم کرنے کے لئے کوئی حد متعین نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے کہ ہر’’ کُل‘‘ دوسرے اعتبار سے جز ہوتا ہے۔
اس بارے میں کوئی اور بات نہیں کہی جاسکتی سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں حضور نبی کریم ﷺ کا علم جزئی قرار پائے گا لیکن اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے علم کا موازنہ ہم بنی نوع انسان اور جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کے حوالے سے کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ تمام مخلوق کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کا علم ’’کُلی‘‘ ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں علم جزئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو جو علم عطاء فرمایا ہے وہ ساری کائنات پر حاوی ہے۔ ساری کائنات کا علم مل کر حضور ﷺ کے علم کے مقابلے میں ایسے ہی ہے جیسے سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ۔ مگر آپ ﷺ کے علم کا مقابلہ اللہ تعالی کے علم سے کرنا چاہیں تو یہ بڑی نادانی اور جہالت کی بات ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی علم کی کوئی حد ہی نہیں جبکہ حضور ﷺ کا علم محدود ہے لیکن اس علم کی حدیں کہا ں ختم ہوتی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
قرآنِ حکیم کی متعدد آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام میں سے بالخصوص حضور ﷺ کو اللہ رب العزت نے علم غیب عطائی میں سے حصہ وافر عطا کیا ہے۔ چند آیات بطور خاص نمونہ کے طور پر درج کی جاتی ہیں۔
1۔ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلَّا بِمَاشَآءَ.
(البقرہ، 2 : 255)
اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر جس قدر وہ چاہے۔
یہ آیت کریمہ بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہرشے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور مخلوق میں کسی کی مجال نہیں کہ علم الٰہی کا احاطہ کرسکے مگر یہ کہ وہ اپنے خاص بندوں میں سے جسے چاہے اور جس قدر چاہیے علم عطا فرما دے۔
2۔ وَمَا کَانَ اللهُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلَکِنَّ اللهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآء.
(آل عمران، 3 : 179)
اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ اسے (عام لوگو!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لئے) چن لیتا ہے۔
حضور ﷺ خلائق میں سے افضل ہیں۔ اس لئے یہ امر یقینی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو اپنے علوم غیب میں سے جس قدر چاہا عطا کر دیا۔
3۔ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰی غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ۲۶ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ.
(الجن، 72 : 26 - 27)
(وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی (عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتاo سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
اس امر میں اب شک رہا ہی نہیں کہ حضور ﷺ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ پسندیدہ اور مرتضیٰ و مجتبیٰ رسول ہیں۔ اس لئے یہ بات قطعی طور پر نصِ قرآن سے ثابت ہوگئی کہ مطلع علیٰ الغیب ہونے میں آپ ﷺ کا مقامِ گروہ انبیاء میں سب سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ لہذا حضور ﷺ کے علم غیب کو بحث و تکرار اور مناظروں کا موضوع بنانا تحصیلِ لا حاصل کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔
شریعت کی اصطلاح میں بدعت کی تعریف یوں کی گئی ہے۔
’’ہر وہ نیا کام جس کی کوئی اصل بالواسطہ یا بلاواسطہ قرآن میں ہو نہ سنت ِ رسول ﷺ میں اور اس کو ضروریات دین میں شمار کرتے ہوئے دین میں شامل کرلیا جائے۔‘‘ یاد رہے کہ ضروریات ِ دین ان چیزوں کو کہتے ہیں جن میں سے کسی ایک کا انکار کرنے سے کفر لازم ہو جاتا ہے۔
ایسی بدعت جو اس تعریف کے زمرہ میں آتی ہے ’’بدعت سیئہ‘‘ یا ’’بدعت ضلالہ‘‘ کہا گیا ہے اور حضور ﷺ کے ارشاد ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ سے یہی مراد ہے کہ ہر بدعت ضلالت یعنی گمراہی کے ذیل میں آتی ہے۔
لیکن رہا یہ سوال کہ کیا ہر نیا کام ناجائز ہے ؟ اس حوالے سے جواب طلب ہے کہ ایسے نئے امور جن کی اصل قرآن و سنت میں نہ ہو اپنی اصل کے اعتبار سے تو بدعت ہی شمار کئے جائیں گے، لیکن اگر شرعی اصول کے مطابق اس کلیے کو معیار تسلیم کر لیا جائے تو دین کی تعلیمات کا کم و بیش ستر سے اسی فیصد حصہ بدعت اور اجتہاد کی ساری صورتیں اور شکلیں ناجائز قرار پاتی ہیں کیونکہ دینی علوم سیکھنے کے لئے اصولِ تفسیر و حدیث، فقہ و اصول ِ فقہ، صرف، نحو، منطق و فلسفہ اور دوسرے تمام معاشرتی و معاشی علوم جو دین کو سمجھنے کے لئے ضروری ہیں ان کا سیکھنا سکھانا حرام تصور ہو گا، کیونکہ ان کی تصدیق و توثیق نہ تو قرآن سے ہوتی ہے نہ حدیث سے اور نہ ہی صحابہ کرام کے عمل سے کوئی تائید ملتی ہے، کیونکہ اگر ہر نیا کام بدعت ٹھہرے تو پھر درسِ نظامی کی تعلیم و تدریس کا سارا نظام ہی گمراہی قرار پائے گا۔
بدعت کا یہ تصور جو بعض ذہنوں میں پایا جاتا ہے اسے صرف ایک مغالطہ اور غلط فہمی ہی کہا جائے گا۔ بدعت کا حقیقی تصور جس سے یہ واضح ہو کہ بدعت کا حقیقی اطلاق کن کن بدعتوں پر ہوتا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کے مفہوم کو سمجھنا ہو گا جس میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من احدث فی امرنا ھٰذا ما لیس منہ‘ فھو ردّ.
صحیح البخاری، 1 : 371، کتاب الصلح، رقم حدیث : 2550
جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں نہ ہو تو وہ رد کی جاتی ہے۔
اس حدیث مبارکہ کو صحیح مسلم کی اس روایت کی روشنی میں دیکھنا ہو گا جس میں آقا ﷺ نے فرمایا ’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی امر موجود نہیں تو وہ مردود ہے‘‘ اس سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ کوئی بھی کام چاہے وہ نیک ہی کیوں نہ ہو۔ جیسے ایصالِ ثواب، میلاد النبی ﷺ اور دیگر اخلاقی، روحانی و معاشرتی امور پر قرآن و حدیث سے کسی نص کے موجود نہ ہونے سے وہ کام حرام ہو جاتا ہے تو پھر شریعت کے ان بے شمار کاموں کا کیا بنے گا، جن کو مباح قراردیا گیا ہے کیونکہ مباح تو کہتے ہی اس کو ہیں جس کے کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو۔
روایتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا صحیح اطلاق اس صورت میں ہو گا کہ کوئی ایسی مثال یا دلیل نہ بن جائے جس کا کسی جہت اور طریق سے کوئی تعلق دین کے ساتھ نہ ہو اور وہ مثال یا دلیل دین کے مخالف اور متضاد نہ ہو اور نہ ہی قرآن و سنت کے کسی حکم کو توڑنے والی ہو۔
واضح ہو کہ بدعت کا اطلاق دراصل دو باتوں پر ہوتا ہے، ایک شرعی، دوسرا اصطلاحی۔ شرعی بدعت کو حضور ﷺ نے ان امور سے خاص کر دیا ہے جنہیں ’’محدثات‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ محدثات وہ فتنے تھے جو حضور ﷺ کے وصال کے فوراً بعد خلافت ِ راشدہ کے دور میں اختلافاتِ کثیر کی صورت میں ظاہر ہو گئے تھے اور ان فتنوں سے بچنے کی خاطر آپ نے تلقین فرمائی تھی کہ امت کو چاہئے کہ وہ میری اور میرے خلفاءِ راشدین کی سنت پر چلتی رہے۔ چنانچہ تاریخِ اسلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ خلفائے راشدین کے زمانے میں جھوٹے مدعیانِ نبوت، منکرینِ زکوٰۃ، ارتداد اورخوارج کے فتنے پیدا ہوئے، جنہوں نے اسلامی ریاست کے وجود کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا تھا۔ یہ بدعت کی اتنی خطرناک مثالیں تھیں کہ خلیفۂ وقت کو ان فتنوں کو دبانے کے لئے جنگیں لڑنی پڑیں۔
اس بناء پر محدثات ان فتنوں کو کہا جاتا ہے جن کی وجہ سے امت میں کثیر اختلافات پیدا ہوئے اور امت میں کئی گروہ پیدا ہو گئے، جنگیں ہوئیں اور ہزاروں افراد شہید ہوئے۔ اس ضمن میں صحیح مسلم کی ایک روایت جس کے راوی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہیں، میں مذکور ہے کہ جب کچھ لوگوں کو جہنم کی طرف کھینچ کر لے جایا جارہا ہو گا تو حضور ﷺ اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے ’’اے میرے رب یہ تو میرے صحابی ہیں، اس پر جواب ملے گا۔ ’’انک لا تدری ما احدثو بعدک‘‘ (اے میرے حبیب ﷺ آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا احداث یعنی بدعتیں ایجاد کی تھیں۔)
تو اس حدیث میں بدعت کے حوالے سے بعد میں آنے والی امت کی نہیں بلکہ ان مرتدین کا بیان ہے جو حضور ﷺ کے دور میں داخل اسلام ہوئے اور بعد میں مرتدین، منکرین زکوٰۃ، جھوٹے مدعیانِ نبوت اور خارجی بن گئے۔
اس ضمن میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ وہ کام جو ہو تو نیا لیکن شرعاً ممنوع نہ ہو اور نہ ہی واجب کی طرح ضروری ہو بلکہ عام مسلمان اسے ثواب سمجھ کر کریں اور جو نہ کرے وہ شرعاً گنہگار بھی نہ ہو مگر کرنے والے کو ثواب ملتا رہے۔ جیسے مسافر خانے، سرائے اور مدرسے کی تعمیر جیسے سینکڑوں امور جن میں محافلِ میلاد، محافل عرس بھی آجاتے ہیں جو عام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اور ان میں کوئی نہ شامل ہوسکے تو وہ گنہگار نہیں ہوتا ایسے سب کام بدعتِ حسنہ میں شمار ہوتے ہیں جن کے بارے میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔
مارای المسلمون حسنا فھو عنداللّٰہ حسن و ماراٰی المسلمون سئیا فھو عند اللہ سیئی.
(المستدرک، 3 : 87)
جس کو (بالعموم) مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مسلمان برا جانیں وہ خدا کے نزدیک برا ہے۔
شفاعت جمہور مسلمین کا وہ عقیدہ ہے جو قرآن حکیم کی متعدد آیاتِ مقدسہ، احادیثِ مبارکہ اور اجماعِ امت سے قطعی طور پر ثابت ہے اور اس پر ایمان رکھنا ضروریات دین میں شامل ہے۔ شفاعت کے وجود کا مطلقاً انکار کفر ہے۔ لہذا ہمیں یہ کہنے میں ذرہ بھر تامل نہیں کہ شفاعت کا منکر دین کی مسلمہ باتوں کا منکر ہے اور اس کے انکار کو اس کی ازلی بدبختی اور شقاوت ہی سمجھا جائے گا۔
شفاعت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو یہ مقام و مرتبہ عطاء فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے اذن سے اس کے گناہگار بندوں کی شفاعت کریں اور وہ ذاتِ کریم اپنے بے پایاں فضل و کرم سے ان کی شفاعت کو قبول فرما لے گا اور اسی شفاعت کے نتیجے میں اللہ تعالی روزِ محشر حساب و کتاب بھی جلدی شروع فرمائے گا اور اپنے گنہگار بندوں کی بخشش فرما کر انہیں جنت عطا فرمائے گا۔
امتِ مسلمہ پر اللہ تعالی کا یہ بے انداز ہ احسان ہے کہ اس نے اس میں وہ جلیل القدر اور عظیم المرتبت رسول بھیجا جو تمام مخلوقات میں سب سے بڑھ کر افضل و اعلیٰ اور محبوبیت کے مقام پر فائز ہیں اور روز قیامت شفاعتِ عظمیٰ کا اعزاز حضور نبی اکرم ﷺ ہی کو بخشا جائے گا اور آپ ﷺ ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کی امت کے بے شمار گناہگاروں کو معاف فرما دے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ:
لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ…
(الفتح، 48 : 2)
(اے محبوب تاکہ) اللہ تعالیٰ تمہاری خاطر بخش دے ان کو جو آپ کے تابع ہوگئے خواہ آپ سے پہلے گزر گئے یا بعد میں آئیں گے۔
اس آیت کریمہ کے ذریعے قرآن نے دو ٹوک انداز میں یہ بنیادی نکتہ کھول کر بیان کر دیا ہے کہ امتِ مسلمہ کی بخشش اور مغفرت کا دارو مدار نسبتِ رسالت کے استحکام پر ہے اور اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ عاصیوں کی مغفرت کا مرکز و محور حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات کریمانہ ہے اور جب تک اس نسبت کو پختہ اور محکم نہ کیا جائے اسلام میں بخشش اور مغفرت کا کوئی تصور نہیں۔
بلاشبہ حضور ﷺ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا گیا اور آپ کی رحمتیں اور شفقتیں اس امت پر اتنی ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ آپ ﷺ کی شانِ رحمت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی گناہگار امتی اپنی بخشش کا پروانہ حاصل کرنا چاہے تو قرآن حکیم کے مطابق اسے مصطفی ﷺ کی چوکھٹ پر آکر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہوگی اور اس سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا :
وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَلَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُو اللّٰہَ تَوَّابَا رَّحِیْمًاO
(النساء، 4 : 64)
اور (اے حبیب) اگر وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ پر ( آپ کی نافرمانی کرکے ) ظلم کیا تھا آپ کے پاس (نادم ہوکر ) آتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (یعنی آپ بھی) ان کے لئے معافی طلب فرماتے تو (یہ لوگ) اللہ کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے۔
سورہ الفتح کی آیہ کریمہ میں ’’ذنبک‘‘ کے معانی کے بارے میں ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے۔ بعض نادان لا علمی اورادب رسالت سے ناواقف ہونے کے باعث ذنب سے مراد فقط گناہ لیتے ہیں اور اس کا اطلاق معاذ اللہ حضور کی ذات گرامی پر کرنے لگتے ہیں۔ انہیں آگاہ ہونا چاہیے کہ یہاں ’’ذنب‘‘ سے مراد آپ کے گناہ ہرگز نہیں ہے اور بفرض محال ایک لمحہ کے لے اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو گناہ کا وجود ہی نہیں بنتا کیونکہ گناہ سے توبہ کی صورت میں گناہ پہلے ہوتا ہے اور مغفرت اس کے بعد ہوا کرتی ہے اور اس مغفرت کی وجہ سے گناہ کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب گناہ کے وجود سے بھی پہلے حضور کو معصوم عن الخطاء قرار دے کر مغفرت عطا فرما دی گئی تو وہاں گناہ کا گزر کیونکر ہوگا۔
اب یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ گناہوں سے بخشش حضور ﷺ ہی کے صدقے سے نصیب ہوتی ہے اور اگر کوئی بخشش و مغفرت کی خیرات چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ آپ کی شفاعت حاصل کرنے کے لئے آپ ﷺ کی غلامی کا پٹہ اپنے گلے میں ڈال لے۔ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ بخشش و مغفرت اللہ تعالیٰ کی عطائے خاص ہے جو صرف آپ ﷺ ہی کا حق ہے اور امت کو آپ ﷺ کے صدقے سے عطا کی جاتی ہے۔ اس حق کو پورا کرنے کے لئے ہی آپ کو اذنِ شفاعت دیا گیا ہے اور ارشاد باری تعالیٰ
وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیO
(الضحیٰ، 93 : 5)
اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔
اس آیت کا مصداق آپ ﷺ ہی کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ میں اپنے محبوب پر اپنی عطاؤں کا دروازہ کھلا رکھوں گا اور آپ ﷺ کی شفاعت کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھوں گا جب تک میرا محبوب راضی نہ ہو جائے گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ رحمت للعالمین ہیں اور امت پر آپ ﷺ کی عنایات اور کرم نوازیاں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا شمار بھی مشکل ہے۔ حضور ﷺ خود ارشاد فرماتے ہیں :
اذاً والله لا ارضی و واحد من امتی فی النار.
(تفسیر قرطبی، 10 : 96)
خدا کی قسم میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گا جب تک میرا ایک بھی امتی دوزخ میں ہو۔
اور آپ ﷺ ہی کو شفاعتِ کبریٰ کا وہ مقام عطا کیا گیا جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا.
(الاسراء، 17 : 79)
عنقریب آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود (یعنی مقام شفاعت عظمیٰ) پر فائز فرمائے گا۔
اور شفاعت کا یہی وہ بلند مقام ہے جہاں پر حضور اکرم ﷺ اپنی امت کے باب میں جو کچھ عرض کریں گے اسے شرفِ قبولیت بخشا جائے گا۔
بلاشبہ حضور ﷺ جملہ مخلوقات میں سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں۔ وہ آپ ﷺ کو بہت سے ایسے امتیازات عطا فرمائے گا جو آپ کے سوا کسی اور نبی کے حصے میں نہیں آئے۔ ان میں سے ایک شفاعت بھی قابلِ ذکر ہے۔ صحیح البخاری اور صحیح لمسلم کی ایک متفق علیہ حدیث میں اس کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
جامع الترمذی اور حدیث کی دیگر کتابوں میں حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ میرے پاس اللہ کا پیغام آیا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ میری آدھی امت کو جنت میں داخل کر دے یا مجھے شفاعت کا عام حق دے دیا جائے، میں نے شفاعت کو اختیار کر لیا اور یہ شفاعت ہر اس مسلمان کے لئے ہے جو شرک پر نہیں مرے گا‘‘۔
حضور نبی اکرم ﷺ رؤف و رحیم ہیں، اپنی امت کی بھلائی چاہنے والے اور ان پر نہایت شفیق ہیں۔ آپ ﷺ کی رحمت و شفقت کے حوالے سے قرآن حکیم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمُO
(التوبہ، 9 : 128)
بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک با عظمت) رسول تشریف لائے تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔
اس آیت کریمہ میں آپ ﷺ کو مومنوں کے لئے نہایت شفیق اور بے حد رحم فرمانے والا قرار دیا گیا اور اسی رحمت و شفقت کی وجہ سے آپ ﷺ نے امت کے لئے شفاعت کو اختیار فرمایا کیونکہ روایت کے مطابق اگر آپ ﷺ نصف امت کو بخشوانے کا اختیار لیتے تو باقی نصف امت میں سے کسی خطاکار اور گنہگار امتی کے لئے جو آپ ﷺ سے التجا کرتا کہ حضور ﷺ ہم پر بھی نظر کرم کیجئے تو عدم اختیار کی وجہ سے آپ کیسے بارگاہ الٰہی میں اس کی بخشش کی درخواست کرتے؟ لہٰذا آپ ﷺ نے شفاعت کو ترجیح دی۔ دوسری وجہ شفاعت اختیار کرنے کی یہ تھی کہ رب تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنی امت کے احوال جو بعد میں پیش آنے والے تھے وہ پہلے ہی دکھلا دیئے تھے جیسا کہ اس حدیث پاک میں ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
مجھے وہ احوال دکھائے گئے جو میرے بعد میری امت کو پیش ہوں گے بالخصوص ان کا ایک ودسرے کو قتل کرنا اور اس امر کا حتمی و قطعی فیصلہ علم الٰہی میں ہو چکا تھا جیسا کہ پہلی امتوں سے متعلق عذاب کے حتمی فیصلے علمِ الٰہی میں ہو چکے تھے۔ لہٰذا میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کی کہ وہ مجھے میرے امت کے حق میں قیامت کے دن حقِ شفاعت عطا فرما دے۔ پس اللہ تعالی نے ایسا ہی کیا اور میری التجا قبول فرمائی۔ (المستدرک، کنزالعمال)
ایک اور روایت جسے امام حاکم نے نقل کیا ہے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا : میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا کہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد کو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار کو داخل کرے گا۔ نیز اللہ تعالی اپنی مٹھیوں میں سے تین مٹھیاں بھی جنت میں ڈال دے گا۔
اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کی ہے جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ امت کی ایک کثیر تعداد کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ یہ حضور اکرم ﷺ کا خاص اعزاز ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی خاطر آپ کی امت میں سے اتنی کثیر تعداد میں لوگوں کو جنت میں داخل کرنے کا وعدہ فرمایا۔ وہ ذات خود بھی کریم ہے اور اس کا محبوب بھی کریم ہے۔ خدا خود حضور رحمت عالم ﷺ کی رضا چاہتا ہے جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا :
وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیO
(الضحیٰ، 93 : 5)
اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔
آپ ﷺ کی اسی رضا کی خاطر اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کی کثیر تعداد کو بلا حساب و کتاب جنت میں داخل کرنے کا وعدہ فرمایا:
صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے پہلے میں جنت کی شفاعت کروں گا۔ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کی اتنی تصدیق نہیں کی گئی جتنی میری تصدیق کی گئی ہے۔ انبیاء میں بعض نبی تو ایسے گزرے ہیں کہ ان کی امت میں ایک شخص کے علاوہ اور کسی نے تصدیق نہیں کی۔ (صحیح مسلم)
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ پہلے شفیع اور سب سے زیادہ آپ ﷺ ہی کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان فضیلتوں اور عطاؤں سے نوازا ہے کہ جن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ اس کے باوجود یہ آپ ﷺ کا انکسار اور شان بے نیازی ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں فخر نہیں کرتا۔ یہ امت مسلمہ پر اللہ تعالی کا انعامِ عظیم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ آپ ﷺ کے امتی ہونے کے شرف پر ناز کریں اور امید رکھیں کہ آپ ﷺ ضرور روز قیامت ہماری شفاعت فرمائیں گے۔
شفاعت برحق ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ حشر کے دن تمام انبیاء علیھم السلام اور اللہ کے صالح بندے گنہگاروں کی شفاعت فرمائیں گے جبکہ حضور سیدِ عالم ﷺ شفاعتِ کبریٰ کے اس مقام پر ہوں گے جس کا ذکر قرآن مجید میں ’’مقامِ محمود‘‘ سے کیا گیا ہے۔ شفاعت عاصیوں کی بخشش و مغفرت کے لئے اللہ تعالی کا اس امت پر خاص انعام ہے۔ حضور ﷺ نے اپنی ظاہری حیات میں بھی بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ کی شفاعت فرمائی اور انہیں جنت کی ضمانت دی۔ میدانِ حشر میں انبیاء کرام علیھم السلام اپنی امتوں کے ہمراہ بارگاهِ محمدی ﷺ میں جمع ہو کر آپ کو اللہ تعالی کے حضور اپنا شفیع بنائیں گے۔ یہ متفق علیہ ایمان افروز حدیث جو صحیح البخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں درج ہے قارئین کی نذر ہے:
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے احوالِ آخرت بتاتے ہوئے فرمایا : قیامت کے روز لوگ دریا کی موجوں کی مانند بے قرار ہونگے تو وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے‘ وہ فرمائیں گے‘ میں اس کام کے لئے نہیں ہوں تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ!کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ پس وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے جس پر وہ فرمائیں گے کہ میں اس کے لئے نہیں ہوں تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں‘ پس وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے‘ وہ فرمائیں گے کہ میں اس کام کے لئے نہیں ہوں‘ لیکن تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ کیونکہ وہ روح اللہ اور اس کا کلمہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے وہ فرمائیں گے میں اس کام کے لئے نہیں تم حضرت محمد مصطفے ﷺ کے پاس جاؤ‘ پس وہ میرے پاس حاضر ہوجائیں گے‘ تو میں کہوں گا کہ ہاں!یہ تومیرا کام ہے۔ پس (سب سے پہلے) میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی اور مجھے ایسے حمدیہ کلمات الہام کئے جائیں گے جن کے ساتھ میں اللہ کی حمد و ثنا کروں گا وہ اب مجھے مستحضر نہیں ہیں۔ پس میں ان محامد سے اس کی تعریف و توصیف بیان کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس مجھے کہا جائے گا کہ اے محمد اپنا سر اٹھاؤ اور کہو کہ تمہاری سنی جائے گی‘ مانگو کہ تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔
میں عرض کروں گا اے میرے رب! میری امت‘میری امت پس فرمایا جائے گا کہ جاؤ اور جہنم سے اسے نکال لو جس کے دل میں جو کے برابر بھی ایمان ہو پس میں جاکر یہی کرونگا۔ پھر واپس آکر محامد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرونگا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا پھر کہا جائے گا کہ اے محمد ﷺ اپنا سر اٹھاؤ اور کہو کہ تمہاری سنی جائیگی ‘ مانگو کہ تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کرونگا اے میرے رب! میری امت ‘ میری امت! پس فرمایا جائے گا کہ جاؤ اور جہنم سے اسے بھی نکال لو جس کے دل میں ذرے کے برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جاکر ایسے ہی کرونگا پھر واپس آکر انہی محامد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کروں گا اور پھر اس کے حضور سجدے میں چلا جاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا اے محمد ﷺ! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو کہ تمہاری سنی جائے گی‘ مانگو کہ تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا اے میرے رب میری امت‘ میری امت۔ پس فرمایا جائے گاکہ جاؤ اور اسے بھی جہنم سے نکال لو‘ جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم ایمان ہو۔ پس میں خود جاؤں گا اور جاکر ایسا ہی کروں گا۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں : میں چوتھی دفعہ واپس لوٹوں گا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرونگا‘ پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پس اللہ فرمائے گا اے محمد اپنا سر اٹھاؤ اور کہو کہ تمہاری سنی جائے گی اور مانگو کہ تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کرونگا اے رب ! مجھے ان کی (شفاعت کی) اجازت بھی دیجئے‘ جنہوں نے لاالہ الا اللّٰہ کہا ہے پس وہ فرمائے گا مجھے اپنی عزت و جلال اور اپنی کبریائی وعظمت کی قسم! میں انہیں ضرور دوزخ سے نکال دوں گا۔ جنہوں نے فقط لا الہ الا اللّٰہ کہا ہے۔‘‘
صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک میں آپ ﷺ نے ذات باری تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ نیک صالح مومن اپنے دوسرے بھائیوں کی شفاعت کریں گے، وہ بطور ناز اللہ تعالیٰ سے ایسا جھگڑا کریں گے جیسا کوئی شخص اپنے حق کیلئے بھی نہیں کرتا۔ ذیل میں اس ایمان افروز حدیث پاک کا متعلقہ حصہ ملاحظہ کریں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا :
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو مومن نجات پاکر جنت میں چلے جائیں گے وہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کو جو جہنم میں پڑے ہوں گے جہنم سے چھڑانے کے لیے (بطور ناز ) اللہ تعالیٰ سے ایسا جھگڑا کریں گے جیسا جھگڑا کوئی شخص اپنا حق مانگنے کے لیے بھی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کریں گے اے ہمارے رب یہ لوگ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ حج کرتے تھے، ان سے کہا جائے گا جن لوگوں کو تم پہچانتے ہو ان کو دوزخ سے نکال لو، ان لوگوں پر دوزخ کی آگ حرام کردی جائے گی۔ پھر جنتی مسلمان کثیر تعداد میں ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے جن میں سے بعض کی نصف پنڈلیوں کو اور بعض کو گھٹنوں تک دوزخ کی آگ نے جلا ڈالا تھا، پھر جنتی لوگ کہیں گے اے اللہ اب ان لوگوں میں سے کوئی باقی نہیں بچا جن کو جہنم سے نکال لانے کا تو نے حکم دیا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر جاؤ اور جس کے دل میں ایک دینار کے برابر نیکی ہے اس کوبھی جہنم سے نکال لاؤ، پھر جنتی لوگ کثیر تعداد میں لوگوں کو دوزخ سے نکال لائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کریں گے ’’اے اللہ! جن لوگوں کو تو نے جہنم سے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا‘‘، اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا : ’’جاؤ جس کے دل میں نصف دینار کے برابر بھی نیکی ہو اس کو جہنم سے نکال لاؤ‘‘ جنتی لوگ پھر جائیں گے اور کثیر تعداد میں لوگوں کو جہنم سے نکال لائیں گے اور پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے : ’’اے ہمارے رب جن لوگوں کو تو نے دوزخ سے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا : ’’جس شخص کے دل میں تم کو ایک ذرے کے برابر بھی نیکی ملے اس کو جہنم سے نکال لاؤ‘‘، جنتی لوگ پھر جائیں گے اور جہنم سے بہت بڑی تعداد میں خلقِ خدا کو نکال لائیں گے پھر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے : ’’اے اللہ اب دوزخ میں نیکی کا ایک ذرہ بھی نہیں۔ ‘‘ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر تم میری اس بیان کردہ حدیث کی تصدیق نہیں کرتے تو قرآن کریم کی اس آیت کو پڑھو۔ (بیشک اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے دوگنا کردیتا ہے اور اپنے پاس سے بڑا درجہ عطا فرماتا ہے)۔
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’بیشک میری امت میں سے کچھ لوگ ایک گروہ کی شفاعت کریں گے اور کچھ ایک قبیلے کی اور کچھ ایک جماعت کی شفاعت کریں گے اور کچھ ایک شخص کی حتیٰ کہ وہ سب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ حدیث حسن ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگ صفیں بنائیں گے تو دوزخیوں میں سے ایک شخص جنتیوں میں سے ایک شخص کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا : ’’اے فلاں! تو یاد کر ایک دن تو نے پانی مانگا تھا اور میں نے تجھے پانی پلایا تھا۔ ‘‘ پس وہ جنتی اس دوزخی کے لئے شفاعت کرے گا۔ ایک اور آدمی دوسرے آدمی کے پاس سے گزرے گا پس وہ کہے گا : ’’تو یاد کر میں نے ایک دن تجھے صفائی کے لئے پانی دیا تھا۔ ‘‘ چنانچہ وہ اس کے لئے شفاعت کرے گا۔ ایک اور آدمی کہے گا : ’’اے فلاں : تو یاد کر ایک دن تو نے مجھے اس اس کام کے لئے بھیجا تھا چنانچہ میں تیری خاطر چلاگیا تھا۔ ‘‘ پس وہ اس کے لئے شفاعت کرے گا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved