سلسلہ تعلیمات اسلام 6: روزہ اور اعتکاف (فضائل و مسائل)

رمضان المبارک

سوال نمبر 1: رمضان کا معنی و مفہوم کیا ہے؟

جواب: عربی زبان میں رمضان کا مادہ رَمَضٌ ہے، جس کا معنی سخت گرمی اور تپش ہے۔ رمضان میں چونکہ روزہ دار بھوک و پیاس کی حدت اور شدت محسوس کرتا ہے اس لئے اسے رمضان کہا جاتا ہے۔

ابن منظور، لسان العرب، 7: 162

ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ رمضان رمضاء سے مشتق ہے اس کا معنی سخت گرم زمین ہے لہٰذا رمضان کا معنی سخت گرم ہوا۔ رمضان کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جب عربوں نے پرانی لغت سے مہینوں کے نام منتقل کئے تو انہیں اوقات اور زمانوں کے ساتھ موسوم کر دیا۔ جن میں وہ اس وقت واقع تھے۔ اتفاقاً رمضان ان دنوں سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا۔ اس لئے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔

ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح، 4: 229

سوال نمبر 2: قرآن و حدیث کی روشنی میں رمضان المبارک کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: رمضان المبارک اسلامی تقویم (کیلنڈر) میں وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب آسمانِ دنیا پر پورے قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو الله رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍo

’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘

القدر، 97: 3

رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

  1. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُ.

’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘

بخاری، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس و جنوده، 3: 1194، رقم: 3103

رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔

  1. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ.

’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘

بخاری، الصحيح، کتاب الصلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2: 709، رقم: 1910

رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔

  1. قیامِ رمضان کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، إِيْمَاناً وَاحْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.

’’جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘

بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب تطوع قيام رمضان من الايمان، 1: 22، رقم: 37

سوال نمبر 3: حضور ﷺ رمضان المبارک کا کیسے استقبال فرماتے؟

جواب: حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہِ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔ آپ ﷺ بڑے شوق و محبت سے ماہِ رمضان کا استقبال فرماتے۔

  1. حضور نبی اکرم ﷺ اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے:

مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ؟

’’کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟‘‘

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول الله! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: پھر کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ فِی اَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ اَهْلِ الْقِبْلَةِ.

’’بے شک الله تعالیٰ ماہِ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔‘‘

منذری، الترغيب والترهيب، 2: 64، رقم: 1502

  1. حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جیسے ہی ماہ رجب کا چاند طلوع ہوتا تو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا فرماتے:

اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ.

’’اے اللہ! ہمارے لئے رجب، شعبان اور (بالخصوص) ماہِ رمضان کو بابرکت بنا دے۔‘‘

ابو نعيم، حلية الأولياء، 6: 269

  1. عَنْ اسَامَهَ بْنِ زَيْدٍ رضي الله عنهما قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَمْ اَرَکَ تَصُوْمُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ؟ قَالَ: ذَالِکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الاَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَاحِبُّ اَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَاَنَا صَائِمٌ.

’’حضرت اُسامہ بن زید رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول الله! جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اوررمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اُٹھائے جائیں۔‘‘

  1. نسائي، السنن، کتاب الصيام، باب صوم النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم بابي هو وامّي و ذکر اختلاف الناقلين للخبر في ذلک، 4: 201، رقم: 2357
  2. احمد بن حنبل، المسند، 5: 201، رقم: 21801

اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو مسلسل دو ماہ تک روزے رکھتے نہیں دیکھا مگر آپ ﷺ شعبان المعظم کے مبارک ماہ میں مسلسل روزے رکھتے کہ وہ رمضان المبارک کے روزہ سے مل جاتا۔

نسائي، السنن، کتاب الصيام، ذکر حديث ابي سلمه في ذلک، 4: 150، رقم: 2175

ماہِ شعبان ماہِ رمضان کے لئے مقدمہ کی مانند ہے لہٰذا اس میں وہی اعمال بجا لانے چاہییں جن کی کثرت رمضان المبارک میں کی جاتی ہے یعنی روزے اور تلاوتِ قرآن حکیم۔ علامہ ابن رجب حنبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’لطائف المعارف (ص: 258)‘ میں لکھتے ہیں:

’’ماہِ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن حکیم کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہِ رمضان کی برکات حاصل کرنے کے لئے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول سے اِس حکمت کی تائید بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ اکبُّوا علی المصاحِفِ فقرووها، واَخْرَجُوْا زَکَاهَ اموالهم تقوِيَةً للضَّعيفِ والمسکينِ علی صيامِ و رمضانَ.

’’شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہِ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔‘‘

ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف: 258

سوال نمبر 4: رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ کے معمولات کیا تھے؟

جواب: رمضان المبارک کے ماہِ سعید میں حضور نبی اکرم ﷺ کے معمولاتِ عبادت و ریاضت اور مجاہدہ میں عام دنوں کی نسبت بہت اضافہ ہو جاتا۔ اس مہینے الله تعالیٰ کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اور اسی شوق اور محبت میں آپ ﷺ راتوں کا قیام بھی بڑھا دیتے۔ رمضان المبارک میں درج ذیل معمولات حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا حصہ ہوتے۔

کثرتِ عبادت و ریاضت

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے:

کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إذَا دَخَلَ رَمَضَانَ لَغَيَرَ لَوْنُهُ وَ کَثُرَتْ صَلَا تُهُ، وابْتَهَلَ فِي الدُّعَاءِ، وَاَشْفَقَ مِنْهُ.

’’جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو رسول الله ﷺ کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا، آپ ﷺ کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔‘‘

بيهقی، شعب الايمان، 3: 310، رقم: 3625

سحری و افطاری

رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ﷺ اپنے روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلد افطاری سے کیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سحری کھانے کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا:

تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَةً.

’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تاکيد استحبابه…، 2: 770، رقم: 1095

ایک اور مقام پر حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فصل السحور و تاکيد استحبابه، 2: 771، رقم: 1096

قیام اللیل

رمضان المبارک میں آپ ﷺ کی راتیں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز میں کھڑے رہنے، تسبیح و تہلیل اور ذکرِ الٰہی میں محویت سے عبارت ہیں۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے اسی معمول کا حصہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا:

’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس دن وہ بطن مادر سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک تھا۔‘‘

نسائی، السنن، کتاب الصيام، باب ذکر اختلاف يحيی بن ابي کثير والنضر بن شيبان فيه، 4: 158، رقم: 2208-2210

کثرتِ صدقات و خیرات

حضور نبی اکرم ﷺ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ آپ صدقات و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سوالی آپ ﷺ کے در سے خالی واپس نہ جاتا رمضان المبارک میں آپ ﷺ کی سخاوت اور صدقات و خیرات میں کثرت سال کے باقی گیارہ مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے:

فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ کَانَ (رَسُوْلُ اللهِ) اَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِ.

’’جب حضرت جبریل امین آجاتے تو آپ ﷺ بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔‘‘

حضرت جبریل الله تعالیٰ کی طرف سے پیغامِ محبت لے کر آتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ وہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے اس لئے حضور نبی اکرم ﷺ ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔

بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب اجود ما کان النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم يکون فی رمضان، 2: 672-673، رقم: 1803

امام نووی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں مثلاً

  1. آپ ﷺ کی جود و سخا کا بیان۔
  2. رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ و خیرات کے پسندیدہ عمل ہونے کا بیان۔
  3. نیک بندوں کی ملاقات پر جود و سخا اور خیرات کی زیادتی کا بیان۔
  4. قرآن مجید کی تدریس کے لئے مدارس کے قیام کا جواز۔

نووی، شرح صحیح مسلم، 15: 69

اعتکاف

رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں آپ ﷺ کا اعتکاف کرنے کا معمول تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے:

اَنَّ النَّبِيَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّی تَوَفَّاهُ اللهُ، ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ.

’’حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ ﷺ کا وصال ہوگیا پھر آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات نے اعتکاف کیا ہے۔‘‘

بخاری، الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الا واخر والإعتکاف في المساجد کلها، 2: 713، رقم: 1922

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’حضور نبی اکرم ﷺ ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ ﷺ کا وصال مبارک ہوا، اس سال آپ ﷺ نے بیس دن اعتکاف کیا۔‘‘

بخاری، الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف في العشر الاوسط من رمضان، 2: 719، ر قم: 1939

سوال نمبر 5: رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: رمضان المبارک میں عمرہ ادا کرنا ثواب میں حج کرنے کے برابر ہے۔ حدیث مبارکہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک انصاری خاتون سے فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تو نے ہمارے ساتھ حج نہیں کیا؟ اس (عورت) نے کہا: ہمارے پاس ایک پانی بھرنے والا اونٹ تھا۔ اس پر ابو فلاں اور اس کا لڑکا یعنی اس کا شوہر اور بیٹا سوار ہوکر حج کے لئے روانہ ہو گئے اور اپنے پیچھے ایک آب کش اونٹ (خاندان کی ضرورت کے لئے) چھوڑ گئے (اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی سواری نہیں)۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: جب رمضان آئے تو عمرہ کر لینا کیونکہ رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔‘‘

بخاری، الصحيح، کتاب العمرة، باب عمرة فی رمضان، 2: 631، رقم: 1690

سوال نمبر 6: رمضان المبارک میں شیطان کے جکڑے جانے سے کیا مراد ہے؟

جواب: عام طور پر دو چیزیں گناہ اور الله تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث بنتی ہیں۔ ایک نفس کی بڑھتی ہوئی خواہش اور اس کی سرکشی، دوسرا شیطان کا مکر و فریب۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے لاؤ لشکر اور چیلوں کی مدد سے دنیا میں ہر انسان کو دین حق سے غافل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر رمضان المبارک کی اتنی برکت و فضیلت ہے کہ شیطان کو اس ماہ مبارک میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا جبکہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک منادی پکارتا ہے: اے طالبِ خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا۔ الله تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے اور ماہِ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔‘‘

ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، 2: 61، رقم: 682

رمضان المبارک میں شیطانوں کا جکڑ دیا جانا اس امر سے کنایہ ہے۔ کہ شیطان لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور اہل ایمان ان کے وسوسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کے باعث حیوانی قوت جو غضب اور شہوت کی جڑ ہے، مغلوب ہو جاتی ہے۔ غضب اور شہوت ہی بڑے بڑے گناہوں کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس قوتِ عقلیہ جو طاقت اور نیکیوں کا باعث ہے، روزے کی وجہ سے قوی ہوتی ہے، جیسا کہ مشاہدہ میں ہے کہ رمضان میں عام دنوں کی نسبت گناہ کم ہوتے ہیں اور عبادت زیادہ ہوتی ہے۔

شیطانوں کو جکڑے جانے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ گناہوں میں منہمک ہونے والے اکثر لوگ رمضان میں باز آجاتے ہیں اور توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلے وہ نماز قائم نہیں کرتے تھے، اب پڑھنے لگتے ہیں اس طرح وہ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر کی محافل میں شریک ہونے لگتے ہیں، حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔ پہلے جن گناہوں میں علی الاعلان مشغول رہتے تھے اب ان سے باز آجاتے ہیں اور بعض لوگ جن کا عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطانی وساوس ان کے شریر نفوس کی جڑوں میں سرایت کر چکے ہوتے ہیں کیونکہ آدمی کا نفس اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ زمانے میں شر تو موجود ہے اور گناہ بھی مسلسل ہو رہے ہیں تو پھر شیطان کے جکڑنے کا کیا فائدہ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان المبارک سے شیطان سرکشی اور طغیانی کی شوکت ٹوٹتی ہے اور اس کے ہتھیار کند ہو جاتے ہیں اور اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کچھ مدت کے لئے ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا بھی جانتا ہے کہ وہ کیا گل کھلاتا؟

سوال نمبر 7: رمضان المبارک میں جنت کے دروازے کھلنے اور جہنم کے دروازے بند ہونے سے کیا مراد ہے؟

جواب: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ) جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں۔‘‘

بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب صفه إبليس و جنوده، 3: 1194، رقم: 3103

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں جنت کے دروازوں کا کھولا جانا اور جہنم کے دروازں کا بند ہونا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ رمضان المبارک میں ایسے اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جو جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے بچنے کا باعث ہیں۔ ماہِ رمضان میں باقی مہینوں کی نسبت الله تعالیٰ کا فضل و کرم اور خیرات و برکات کثرت سے تقسیم ہوتی ہیں۔ پس روزہ دار گناہ کبائر سے بچتا ہے اور روزے کی برکت سے اس کے صغیرہ گناہ بھی بخش دیے جاتے ہیں۔ جس کے سبب وہ جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

حجۃ الله البالغۃ میں حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: جنت کے دروازوں کا کھولا جانا اہل ایمان کے لئے فضل ہے ورنہ کفار و مشرکین تو ان دنوں میں گمراہی و ضلالت میں پہلے سے زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں کیونکہ شعائر الله کی ہتک کرتے ہیں۔ اہل ایمان چونکہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور عبادت و ریاضت کرتے ہیں۔ اس مبارک مہینے میں نیکیوں کی کثرت کرتے ہیں اور برائیوں سے بچے رہتے ہیں۔

شاه ولی الله، حجة الله البالغة، 2: 88

اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے لئے جنت کے دروازے کھول دیے گئے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔

اور جنت کے دروازوں کے کھولے جانے کا فائدہ یہ ہے کہ ملائکہ روزہ داروں کے عمل کو اچھا جان کر ان کے لئے جنت تیار کرتے ہیں اور یہ الله رب العزت کی طرف سے روزہ داروں کی بڑی عزت افزائی ہے۔

سوال نمبر 8: اللہ تعالیٰ رمضان المبارک میں امتِ محمدی ﷺ کو کن تحائف سے نوازتا ہے؟

جواب: حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے۔

أَمَّا وَاحِدَةٌ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اللهُ تَعالی إِلَيْهِمْ وَمَنْ نَظَرَ اللهُ إِلَيْهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ أَبَدًا.

’’پہلا یہ کہ جب ماہِ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو الله تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات فرماتا ہے اور جس پر الله کی نظر پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ ‘‘

وَأَمَّا الثَّانِيَةُ فَإِنَّ خُلُوْفَ أَفْوَاهِهِمْ حِيْنَ يُمْسُوْنَ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ.

’’دوسرا یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو الله تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔‘‘

وَأَمَّا الثَّالِثَهُ فَإِنَّ الْمَلاَئِکَهَ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ.

’’تیسرا یہ کہ فرشتے ہر دن اور رات ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘

وَأَمَّا الرَّابِعَةُ فَإِنَّ اللهَ يَأْمُرُ جَنَّتَهُ فَيَقُوْلُ لَهَا: اسْتَعِدِّي وَتَزَيَنِي لِعِبَادِي أَوْشَکُوْا أَنْ يَسْتَرِيْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْيَا إِلَی دَارِي وَکَرَامَتِي.

’’چوتھا یہ کہ الله ل اپنی جنت کو حکم دیتے ہوئے کہتا ہے: میرے بندوں کے لئے تیاری کرلے اور مزین ہو جا، قریب ہے کہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔‘‘

وَأَمَّا الْخَامِسَةُ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ غُفِرَ لَهُمْ جَمِيْعًا.

’’پانچواں یہ کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ‘‘

فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ: لَا، أَلَمْ تَرَ إِلَی الْعُمَّالِ يَعْمَلُوْنَ فَإِذَا فَرَغُوْا مِنْ أَعْمَالِهِمْ وُفُّوْا أُجُوْرَهُمْ؟

’’ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ شبِ قدر کو ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تب انہیں مزدوری دی جاتی ہے؟‘‘

  1. بيهقي، شعب الإيمان، 3: 303، رقم: 3603
  2. منذري، الترغيب والترهيب، 2: 56، رقم: 1477

سوال نمبر 9: رمضان المبارک اُمتِ مسلمہ کے لیے کیا پیغام لے کر آتا ہے؟

جواب: رمضان المبارک امت مسلمہ کے لئے یہی پیغام لاتا ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، ایک دوسرے کے لئے رحمت و شفقت کا پیکر بن جائیں۔ دوسروں کی ضرورتوں کا بھی اس طرح احساس کریں جس طرح اپنی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہیں۔ افسوس کہ کئی صاحب ثروت ایسے ہیں جو روزہ ٹھنڈے دفاتر، ایئرکنڈیشنڈ گھروں اور گاڑیوں میں گزار کر شام کو انواع و اقسام کے کھانوں، رنگا رنگ پھلوں اور نوع بنوع مشروبات سے چنے ہوئے دسترخوان پر بیٹھتے وقت باہر گلیوں اور سڑکوں میں بیٹھے ہوئے غریب و مفلس روزہ دار مسلمان بھائیوں کی ضرورتوں کا احساس بھی نہیں کرتے۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے پڑوس میں کوئی خالی پیٹ پانی کے گھونٹ سے روزہ رکھ رہا ہو اور شام کو افطاری کے وقت کھانے کے لئے کسی کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہا ہو لہٰذا رمضان المبارک ہمیں اپنے نادار، مفلس، فاقہ کش، تنگ دست مسلمان بھائی جن کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ لباس و طعام خرید کر اپنا اور اپنے بچوں کا تن ڈھانپ سکیں اور ان کا پیٹ پال سکیں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہِ رمضان ہمیں ریاکاری، غیبت، عیب جوئی، مکر و فریب، بغض و حسد اور جھوٹ جیسے بے شمار معاشرتی و روحانی امراض سے بچانے کی تربیت بھی کرتا ہے۔

سوال نمبر 10: رمضان المبارک میں قیام اللیل کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: رمضان المبارک میں قیام اللیل کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ﷺ رمضان المبارک کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز، تسبیح و تہلیل اور قراتِ قرآن میں مشغول رہتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ انْ يَامُرَهُمْ بِعَزِيْمَةٍ، و يَقُوْلُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّ احْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.

’’حضور نبی اکرم ﷺ صحابہ کو فرضیت کے بغیر قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے: جس شخص نے ایمان اور احتساب (محاسبہ نفس کرنے) کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کیا اس کے پچھلے سارے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘

ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصوم، باب الترغيب في قيام رمضان وما جاء فيه من الفضل، 2: 161، رقم: 808

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ رمضان میں نمازِ تراویح بھی قیام اللیل کی ایک اہم کڑی ہے جسے قیامِ رمضان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نمازِ تراویح کے سبب جتنا قیام اس مہینے میں کیا جاتا ہے وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں نہیں ہوتا۔ اس سے منشاء ایزدی یہ ہے کہ بندہ رمضان المبارک کی راتوں کو زیادہ سے زیادہ اس کے حضور عبادت اور ذکر و فکر میں گزارے اور اس کی رضا کا سامان مہیا کرے۔ اس لئے کہ رمضان کی با برکت راتیں شب بیداری کا تقاضا کرتی ہیں کیونکہ روایات میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی راتوں کو آسمان دنیا پر نزولِ اجلال فرما کر اپنے بندوں کو تین مرتبہ ندا دیتا ہے۔

هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَاعْطِيَهُ سُؤْلَهُ، هَلْ مِنْ تَائِبٍ فَاَتُوْبَ عَلَيْهِ؟ هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاغْفِرَ لَهُ؟

’’کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اس کی حاجت پوری کروں، کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں، کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں۔‘‘

بيهقی، شعب الإيمان، 3: 335، رقم: 3695

رحمتِ پروردگار رمضان المبارک کی راتوں میں سب کو اپنے دامنِ عفو و کرم میں آنے کی دعوت دیتی ہے۔ شومئ قسمت کہ انسان رحمت طلبی اور مغفرت جوئی کی بجائے رات کی ان گراں بہا ساعتوں کو خواب غفلت کی نذر کردیتا ہے جبکہ رب کی رحمت اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر پکارتی ہے۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں

یوں بد نصیب انسان غفلت کی نیند تانے یہ ساعتیں گزار دیتا ہے۔ اور رحمتِ ایزدی سے اپنا حصہ وصول نہیں کرتا۔

سوال نمبر 11: رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن حکیم کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: قرآن حکیم وہ واحد کتاب ہے جس کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں:

مَنْ قَرَاَ حَرْفًا مِنْ کِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ اَمْثَالِهَا. لَا اَقُولُ: الم حَرْفٌ، وَلَکِنْ اَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیمٌ حَرْفٌ.

’’جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے اس کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے۔ میں نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔‘‘

ترمذی، السنن، ابواب فضائل القرآن، باب ما جاء فیمن قرا حرْفاً من القرآن، 5: 33، رقم: 2910

تلاوتِ قرآن افضل ترین عبادات میں سے ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

افْضَلُ عِبَادَةِ اُمَّتِيْ قراء ةُ الْقُرْآن.

’’میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔‘‘

بيهقی، شعب الايمان، 2: 354، رقم: 2022

یہ عظیم کتاب جس کی تلاوت کی بے پناہ فضیلت ہے رمضان المبارک کے با برکت مہینہ میں نازل ہوئی۔ اس لحاظ سے قرآن حکیم اور رمضان المبارک کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ رمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا گویا اس تعلق کو مضبوط و مستحکم کرتاہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی متعدد احادیث مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ ﷺ رمضان المبارک میں قرآن حکیم کی تلاوت فرماتے اور جبرئیل امین علیہ السلام کو سناتے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے:

کَانَ يَلْقَاهُ فِی کُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ.

’’حضرت جبرائیل امین رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے۔‘‘

بخاری، الصحيح، کتاب بدء الوحی، باب کيف کان بدء الوحی الی الرسول الله، 1: 7، رقم: 6

مزید برآں روزِ قیامت تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرنے والوں اور اس کے معانی سمجھنے والوں کی شفاعت خود قرآن حکیم فرمائے گا۔ حضرت عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کے لئے شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن کے وقت کھانے (پینے) اور (دوسری) نفسانی خواہشات سے روکے رکھا پس تو اس شخص کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا پس اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘

احمد بن حنبل، المسند، 2: 174، رقم: 6626

سوال نمبر 12: رمضان المبارک میں سحری کھانے کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: رمضان المبارک میں سحری کھانے کی فضیلت اور اس کے فیوض و برکات کا بکثرت تذکرہ ہمیں احادیث مبارکہ میں ملتا ہے۔ کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ بالالتزام روزے کا آغاز سحری کھانے سے فرماتے اور دوسروں کو بھی سحری کھانے کی تاکید فرماتے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث مبارکہ سے ثابت ہے:

  • حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِی السَّحُوْرِ بَرَکَةً.

’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تاکيد استحبابه، 2: 770، رقم: 1095

  • حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

اَلسُّحُوْرُ أَکْلُهُ بَرَکَةٌ فَـلَا تَدْعُوْهُ.

’’سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو۔‘‘

احمد بن حنبل، المسند، 3: 12، رقم: 11102

  • حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا:

فَإِنَّ اللهَ وَ مَلاَئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَأ الْمُتَسَحِّريْنَ.

’’الله تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں نازل کرتے ہیں۔‘‘

احمد بن حنبل، المسند، 3: 12، رقم: 11102

  • حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْکِتَابِ، أَکْلَةُ السَّحَرِ.

’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تاکيد استحبابه، 2: 771، رقم: 1096

  • حضرت عرباض بن ساریہ رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا:

وَهُوَ يَدْعُوْا إِلَی السُّحُوْرِ فِی شَهْرِ رَمَضَانْ، فَقَالَ: هَلُمُّوْاإِلَی الْغَدَاءِ الْمُبَارَکِ.

’’آپ ﷺ رمضان المبارک میں سحری کے لئے بلاتے اور ارشاد فرماتے: صبح کے مبارک کھانے کے لئے آؤ۔‘‘

  1. ابن حبان، الصحيح، 8: 244، رقم: 3465
  2. بيهقی، السنن الکبری، 6: 23، رقم: 7905

روزے میں سحری کو بلاشبہ اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں کام کی زیادہ رغبت پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں سحری کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ بھی ہے کیونکہ یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں الله تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کاباعث بنتا ہے۔

سوال نمبر 13: رمضان المبارک میں افطاری کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: رمضان المبارک میں افطاری کرنے کی بہت فضیلت ہے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوْا الْفِطْرَ.

’’میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تاکيد استحبابه، 2: 771، رقم: 1098

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں الله تعالیٰ فرماتا ہے:

أَحَبَّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا.

’’میرے بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں۔‘‘

ابن حبان، الصحيح، 4:558، رقم: 1670

حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ کو تین چیزیں پسند ہیں:

  1. اخیر وقت تک سحری موخر کرنا
  2. (غروب ہوتے ہی) فوراً افطار کرنا
  3. نماز میں (بحالتِ قیام) ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھنا

گویا معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں بروقت روزہ افطار کرنا نہ صرف بے شمار فضائل و روحانی فیوض و برکات کا حامل ہے بلکہ اس وقت کی فضیلت یہ بھی ہے۔

ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب: فی الصائم لاتردُّ دعوته، 2: 364، رقم: 1753

حضرت عبد الله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ افطار کے وقت روزہ دار کی دعا کو رد نہیں کیا جاتا۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved