جواب: شرعی اعتبار سے مسافر وہ شخص ہے جو کم از کم 54 میل (86 کلومیٹر) مسافت کے ارادے سے اپنے علاقے سے باہر سفر پر روانہ ہو چکا ہو۔ اس پر واجب ہے کہ فقط فرض نماز میں قصر کرے یعنی چار رکعت فرض والی نماز میں دو فرض پڑھے۔
جواب: سفرمیں چار رکعت فرائض والی نمازوں (ظہر، عصر، عشائ) کو نصف کرکے پڑھنا قصر کہلاتا ہے۔
ہیثمی، مجمع الزوائد، 1: 353
اس طرح ادا کی جانے والی نماز کو نمازِ قصر کہتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًاo
النساء، 4: 101
’’اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) اگر تمہیں اندیشہ ہے کہ کافر تمہیں تکلیف میں مبتلا کر دیں گے۔ بے شک کفار تمہارے کھلے دشمن ہیں۔‘‘
مسافر اگر ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں قصر نہ کرے اور پوری رکعات پڑھے تو وہ گنہگار ہوگا، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی ظہر کی چھ رکعات فرض پڑھے تو بجائے ثواب کے اسے گناہ ہوگا۔ لیکن اگر مسافر لاعلمی میں قصر کرنا بھول گیا اور اُس نے دو کی بجائے چار رکعات پڑھ لیں اور نماز ختم ہونے سے پہلے یاد آیا اور دوسری رکعت کے آخری قعدہ میں التحیات پڑھنے کی مقدار بیٹھ گیا اور سجدہ سہو کر لیا تو اس کی دو رکعات فرض ہو جائیں گی اور دو نفل۔ اور اگر دوسری رکعت میں نہ بیٹھا تو چاروں رکعات نفل ہوگی، لہٰذا فرض نماز دوبارہ پڑھے گا۔
جواب: نماز قصر کرنے کا طریقہ حضرت ابنِ عمر ص سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حضر اور سفر میں نمازیں پڑھی ہیں میںنے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر چار رکعت پڑھی اس کے بعد دو رکعت سنت اور سفر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ظہر دو رکعت پڑھی اور اس کے بعد دو رکعت سنت ادا کی۔ اور (سفر میں) عصر کی نماز دو رکعت ادا کی اس کے بعد آپ نے کچھ نہ پڑھا مغرب کی نماز سفر اور حضر میں تین رکعتیں ادا کیں اور آپ سفر و حضر میں مغرب کے فرائض تین سے کم ادا نہیں فرماتے تھے اور یہ دن کے وتر ہیں اور اس کے بعد دو رکعت ادا فرماتے۔ وتر اور سنتوں میں قصر نہیں۔
ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب السفر، باب ما جاء فی التطوع فی السفر، 1: 554، رقم: 552
کسی مسافر کی دوران سفر اگر نمازیں قضا ہو جائیں تو گھر پہنچ کر تب بھی چار رکعات والی نمازوں کی دو دو رکعات قصر کے ساتھ قضا پڑھے اور اگر سفر سے پہلے ان میں سے کوئی نماز قضا ہوئی تو سفر کی حالت میں چار رکعات قضاء پڑھے (دونوں صورتوں میں عشاء میں تین وتر بھی پڑھے)۔
جواب: امام ابو حنیفہ کے نزدیک مدتِ قصر پندرہ دن تک ہے اگر کوئی شخص پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کا ارادہ کرلے تو اس کو پوری نماز پڑھنی ہو گی۔ جبکہ ائمہ ثلاثہ (امام شافعی، امام مالک اور امام احمد) کے نزدیک مدتِ قصر چار روز تک ہے۔ اگر کوئی شخص چار روز یا اس سے زیادہ قیام کا ارادہ کرے گا تو اس کو پوری نماز پڑھنی ہوگی۔
جواب: سنتوں میں قصر نہیں بلکہ پوری پڑھی جائیں گی۔ البتہ خوف اور ایسی کسی مجبوری مثلًا گاڑی کے نکلنے کا اندیشہ وغیرہ ہو تو اس حالت میں سنتیں چھوڑ سکتا ہے۔ معاف ہیں لیکن سنت کی قصر نہیں کرسکتا۔
ائمہ ثلاثہ کے نزدیک سفر میں سنن مؤکدہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ احناف کے نزدیک روانگی اور سفر کی حالت میں نہ پڑھے اور رخصت پر عمل کرے۔ البتہ صبح کی سنتیں پڑھ لے کیونکہ وہ واجب کے قریب ہیں اور جب حالت قیام میں ہو جیسے چند روز کے لیے کسی جگہ ٹھہرے تو سنن مؤکدات پڑھ لے۔
نووی، شرح صحیح مسلم، 2: 383
جواب: فجر، مغرب اور وتر میں قصر نہیں بلکہ پوری پڑھی جائیں، صرف ظہر، عصر اور عشاء کے فرضوں میں قصر ہے۔
جواب: تمام ائمہ اس پر متفق ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد اہلِ مکہ کے ساتھ بحیثیت امام کے چار رکعات والی نماز پڑھی اور دو رکعات کے بعد سلام پھیر دیا پھر لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:
أتمو صلاتکم فأنا قوم سفر.
ابو داود طیالسی، المسند: 113، 115، رقم: 840، 858
’’تم لوگ اپنی اپنی نمازیں پوری کرو، میں مسافر ہوں۔‘‘
مقیم کو چاہیے کہ مسافر کے پیچھے دو رکعت نماز ادا کرے اور جب امام سلام پھیر دے تو مقیم مقتدی کھڑا ہو جائے اور اپنی باقی دو رکعتیں پڑھ لے۔ ان دو رکعتوں میں قرات بالکل نہ کرے بلکہ اتنی دیر چپ کھڑا رہے جتنی دیر سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ امام ہی کی اقتداء میں ہوتا ہے۔
جواب: مسافر جب مقیم کے پیچھے نماز پڑھے گا تو قصر نہیں کرے گا بلکہ پوری نماز پڑھے گا خواہ ایک یا اس سے کم رکعت پائے لیکن نماز کا وقت نکل جانے کے بعد کسی مسافر کا مقیم کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں کیونکہ وقت نماز ختم ہونے کے بعد اس کا فرض دو کی بجائے چار رکعت نہ ہوگا بلکہ اس کے ذمہ مستقل دو رکعت فرض عائد ہوتے ہیں۔
حضرت عبدالله بن عمر ص (سفر میں مقیم) امام کے ساتھ چار رکعت پڑھتے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تو دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔
مسلم، الصحیح، کتاب صلٰوۃ المسافرین وقصرھا، باب قصر الصلاۃ، 1: 482، رقم: 694
جواب: اگر مسافر کی آبائی جگہ پر اپنی حقیقی و اصلی رہائش نہ ہو تو وہ قصر نماز ادا کرے گا مکمل نہیں پڑھے گا۔
1۔ جو عورت شادی کے بعد مستقلاً سسرال رہنے لگی تو اب اس کا اصلی گھر سسرال ہے۔ اگر وہ میکے آئے جو تین دن کی مسافت (54 میل کے فاصلے) پر ہے تو قصر نماز پڑھے گی جب تک کہ وہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے۔
2۔ جو عورت اپنے شوہر کے ساتھ سفر میں ہو وہ شوہر کی تابع رہے گی۔ اگر شوہر نے کسی جگہ پندرہ دن قیام کی نیت کرلی تو عورت بھی نمازیں پوری پڑھے اگر شوہر کی پندرہ دن کی نیت نہ ہو تو عورت بھی قصر کرے۔ عورت کی نیت کا اعتبار نہیں۔
3۔ اگر کوئی عورت شوہر کی اجازت سے تین دن کی مسافت (54 میل) پر واقع میکے گئی اور ارادہ پندرہ سے کم ٹھہرنے کا ہو تو مسافر رہے گی اور قصر پڑھے گی، مثلاً ہفتہ دس دن کے لئے گئی پھر روزانہ یہ نیت ہو کہ کل روانہ ہوں گی پرسوں روانہ ہوں گی مگر حالات کی بناء پر پندرہ دن سے زیادہ دن گزر گئے تو بھی قصر کرے گی۔
جواب: جس راستے سے مسافر چلے گا اسی راستے کا حکم اس پر جاری ہوگا۔
جواب: مقررہ اوقات میں پڑھی جانے والی نماز ادا کہلاتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے فرمایا:
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْکُرُوا اللهَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ ج فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ج اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًاo
النساء، 4: 103
’’پھر (اے مسلمان مجاہدو!) جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو، پھر جب تم (حالتِ خوف سے نکل کر) اطمینان پالو تو نماز کو (حسبِ دستور) قائم کرو۔ بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے۔‘‘
اور وقت گزرنے کے بعد پڑھی جانے والی نماز قضا کہلاتی ہے۔ حضرت انس بن مالک ص بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ نَسِیَ صَـلَاۃً أَوْ نَامَ عَنْھَا، فَکَفَّارَتُھَا أَنْ یُّصَلِّیَھَا إِذَا ذَکَرَھَا.
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ، 1: 477، رقم:684
’’جو شخص کسی نماز کو بھول جائے یا نماز پڑھے بغیر سو جائے تو اس کا یہی کفارہ ہے کہ جب یاد آئے تو پڑھ لے (یعنی نماز قضا پڑھے)۔‘‘
جواب: اگر کسی شخص کی بہت سی نمازیں قضاہو چکی ہوں جن کے بارے میں اسے علم نہ ہو کہ کس وقت کی نمازیں زیادہ قضا ہوئیں اور کس وقت کی کم تو اسے چاہیے کہ اوقات ممنوعہ کے علاوہ بقیہ اوقات میں ان نمازوں کو ادا کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوافل و سنن کی بجائے صرف فرض رکعتیں ادا کرے۔ اسی کو قضائے عمری کہتے ہیں۔
بعض لوگوں میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ کو ایک دن کی پانچ نمازیں بمع وتر پڑھ لی جائیں تو ساری عمر کی قضا نمازیں ادا ہو جائیں گی۔ یہ قطعاً باطل خیال ہے۔ رمضان کی خصوصیت، فضیلت اور اجر و ثواب کی زیادتی اپنی جگہ لیکن ایک دن کی قضا نمازیں پڑھنے سے ایک دن کی ہی نمازیں ادا ہوں گی ساری عمر کی نہیں۔
جواب: اگر کسی شخص نے بلوغت کے کافی عرصہ گزر جانے کے بعد نمازپڑھنا شروع کی ہو یا کبھی پڑھتا ہو اور کبھی چھوڑ دیتا ہو تو اس پر لازم ہے کہ زندگی سے متعلقہ ضروری کاموں کے علاوہ سب کام چھوڑ کر نمازوں کی قضا شروع کر دے۔ وہ اسوقت تک قضاء نمازیں ادا کرتا رہے جب تک اس کے غالب گمان کے مطابق تمام قضا نمازیں ادا نہ ہو جائیں۔ اگر اس دوران اس کو موت آگئی۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ اس کی بخشش ہو جائے گی۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُهَاجِرًا اِلَی اللهِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللهِ ط وَکَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo
النساء، 4: 100
’’اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے پھر اسے (راستے میں ہی) موت آپکڑے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہوگیا، اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اور اگر کوئی شخص ایسا نہ کرسکے تو اس سے کم درجہ یہ ہے کہ ہر نماز کے ساتھ ایک یا جس قدر ممکن ہو، قضا نماز پڑھتا رہے، قضا نمازوں کے صرف فرائض اور وتر ادا کرے۔
مثلاً پورے دن کی قضا نمازیں ادا کرنی ہوں تو پھر کل بیس رکعات اس طرح ادا کرے دو فرض فجر، چار فرض ظہر، چار فرض عصر، تین فرض مغرب ، چار فرض عشاء بمع تین وتر۔ اس طرح نیت کرے: مثلا میں اپنی گذشتہ فجر کو ادا کرنے کی نیت کرتا ہوں جس کا میں نے وقت پایا اور ادا نہیں کی۔ ہر قضاء نماز کی اسی طرح نیت کر یعنی دل میں ارادہ کرے، زبان سے کہنا بہتر ہے ضروری نہیں۔
جواب: حالتِ جنون یا مرض (جس میں اشارہ سے بھی نماز نہ پڑھی جا سکے) مسلسل چھ نمازوں کے وقت میں رہا یا جو شخص معاذ الله مرتد ہو گیا پھر اسلام لایا تو زمانہ اِرتداد کی نمازیں، ان تمام صورتوں میں نماز کی قضا نہیں ہوگی، یہ نمازیں معاف ہیں۔
جواب: شرعی عذر کے ساتھ نماز قضا کر دینے کا حکم یہ ہے کہ اگر نمازی کسی وقت کی نماز بھول گیا یا بے خبر سو گیا یا دشمن نے پڑھنے کی مہلت نہ دی یا اتنا شدید بیمار ہوا کہ اشارے سے بھی نہ پڑھ سکا۔ ان تمام صورتوں میں نماز قضا تو ہو گی مگر وقت پر نہ پڑھنے کا کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
اگر کسی کی نمازیں سفر میں قضا ہوگئیں تو گھر پہنچ کر بھی چار رکعت والی نمازوں (ظہر، عصر اور عشائ) کی دو دو رکعتیں قصر کے ساتھ قضا پڑھے۔ اور اگر سفر سے پہلے ان میں سے کوئی نماز قضا ہو گئی تھی تو سفر کی حالت میں چار رکعتیں قضا پڑھے (اور دونوں صورتوں میں عشاء میں تین وتر بھی پڑھے)۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved