جواب: نماز کے درج ذیل فرائض ہیں:
جواب: نماز میں درج ذیل امور واجبات میں سے ہیں:
جواب: جو چیزیں نماز میں حضور نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں لیکن ان کی تاکید فرض اور واجب کے برابر نہیں سنن کہلاتی ہیں۔ نماز میں درج ذیل سنن ہیں:
جواب: نماز میں درج ذیل مستحبات ہیں:
جواب: جس نماز میں کوئی مکروہ تحریمی فعل واقع ہو جائے تو اس کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے، نماز میں مکروہات تحریمی درج ذیل ہیں:
جواب: تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنا جائز نہیں:
مندرجہ بالا اوقات میں نماز کی ممانعت حدیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہم لوگوں کو تین اوقات میں نماز پڑھنے یا مُردوں کو دفن کرنے (مراد نمازِ جنازہ پڑھنے) سے منع فرمایا ہے:
مسلم، الصحیح، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب الاوقات التی نہی عن الصلاۃ فیھا، 1: 568، 569، رقم: 831
جواب: درج ذیل حدیث مے مطابق سات جگہوں پر نماز پڑھنا منع ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِﷺ نَهَی أنْ یُصَلَّی فِي سَبْعَۃِ مَوَاطِنَ: فِي الْمَزْبَلَۃِ، وَالْمَجْزَرَۃِ، وَالْمَقْبَرَۃِ، وَقَارِعَۃِ الطَّرِیْقِ، وَفِي الْحَمَّامِ، وَفِیْ مَعَاطِنِ الإِبِلِ، وَفَوْقَ ظَھْرِ بَیْتِ اللهِ.
ترمذی، السنن، أبواب الصلاۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ ما یصلی إلیہ وفیہ، 1:375، رقم: 346
’’بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے سات جگہوں پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا: (1) جہاں گوبر یعنی کوڑا کرکٹ ڈالتے ہیں، (2) قصاب خانہ میں (جہاں جانوروں کو ذبح کرتے ہیں)، (3) قبرستان میں، (4) چلتے راستہ میں، (5) حمام میں (نہانے کی جگہ)، (6) اونٹوں کے باڑے میں، (7) بیت الله کی چھت پر۔‘‘
جواب: بلاعذر نماز توڑنا حرام ہے، البتہ چند حالتوں میں نماز توڑنا جائز ہے مثلاً مال کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز توڑنا مباح ہے جبکہ جان بچانے کے لیے واجب ہے، خواہ اپنی جان یا کسی مسلمان کی جان بچانا مقصود ہو نماز توڑنے کے لیے بیٹھنے کی ضرورت نہیں بلکہ کھڑے کھڑے ایک طرف سلام پھیر دینا کافی ہے۔
جواب: بعض اعمال کی وجہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اسے لوٹانا ضروری ہو جاتا ہے انہیں مفسداتِ نماز کہتے ہیں۔ نماز کو فاسد بنانے والے اعمال درج ذیل ہیں:
جواب: نماز میں قصداً ایسا کلام کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے جو نماز میں شامل نہ ہو اور اِس اِمر پر سب کا اِتفاق ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے:
’’نماز میں عام انسانی گفتگو کی گنجائش نہیں ہے، یہ تو صرف تسبیح، تکبیر اور قرآن پڑھنے کا نام ہے۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب تحریم الکلام في الصلاۃ ونسخ ما کان من إباحتہ، 1: 381، 382، رقم: 537
جس قدر کلام سے نماز باطل ہو جاتی ہے اُس کی حد یہ ہے کہ وہ کلام حروفِ تہجی میں سے کم اَز کم دو حروف پر مشتمل ہو اور وہ دو حروف کچھ مفہوم نہ رکھتے ہوں؛ یا اگر ایک ہی حرف ہو تو اس کے کچھ معنی بنتے ہوں، مثلاً عِ اگرچہ ایک ہی حرف ہے لیکن لغت میں وَعَی یَعِي سے اَمر کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے: ’’تو حفاظت کر‘‘۔
اِسی طرح نماز میں کراہنے، آہیں بھرنے، اُف کرنے یا رونے میں اگر حروف کی آواز سنائی دے تو نماز باطل ہو جائے گی؛ البتہ اگر یہ آواز الله تعالیٰ کے خوف یا کسی مرض کی شدت کے باعث ہو - جسے ضبط نہ کیا جا سکے - تو نماز باطل نہ ہوگی۔
جواب: نماز میں اگر وضو ٹوٹ جائے تو ساری نماز نہ دہرائی جائے بلکہ جس رکعت میں وضو ٹوٹا ہو تو وضو کر کے اسی سے شروع کر کے نماز مکمل کرے۔ اس عمل کو بنا کرنا کہتے ہیں، البتہ نماز دہرانا زیادہ افضل ہے۔
حدیث مبارکہ میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ اَصَابَہُ قَیئٌ اَوْ رُعَافٌ اَوْ قَلَسٌ اَوْ مَذْیٌ فَلْیَنْصَرِفْ فَلْیَتَوَضَّأْ، ثُمَّ لِیَبْنِ عَلٰی صَـلَاتِهِ وَہُوَ فِی ذَلِکَ لَا یَتَکَلَّمُ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب: إقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا، باب: ماجاء فی البناء علی الصلاۃ، 2: 87، رقم: 1221
’’جسے نماز میں قے، نکسیر، یا مذی آجائے وہ لوٹ کر وضو کرے اور جہاں نماز کو چھوڑا تھا وہیں سے شروع کر دے لیکن اس دوران کلام نہ کرے۔‘‘
جواب: جی نہیں! شیرخوار بچہ / بچی کا پیشاب نجس ہے۔ کم علمی کی وجہ سے اکثر خواتین شیر خوار بچے کے پیشاب آلود کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھ لیتی ہیں اور خیال کرتی ہیں کہ ان کے کپڑے ناپاک نہیں ہوئے۔ ایسا خیال سراسر غلط ہے۔ پیشاب آلود کپڑے کو اچھی طرح دھو کر پاک کرنا واجب ہے، بصورت دیگر نماز ادا نہیں ہوگی۔
جواب: مردوں کے لیے سونا پہننا حرام ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے مردوں کو سونا پہننے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن یہ اَمر ذہن نشین رہے کہ حُرمت کا تعلق سونا پہننے سے ہے، نماز پڑھیں یا ویسے پہنیں دونوں صورتوں میں جائز نہیں۔ سونا پہن کر بھی نماز ہوجائے گی تاہم سونا پہننے کا گناہ الگ ہوگا۔
جواب: نماز کی حالت میں ستر عورت فرض ہے۔ مرد کا ستر ناف سے لے کے گھٹنوں تک ہے اور عورت کا ستر تمام جسم ہے، صرف چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کا کھلا ہونا مستثنیٰ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے توفیق اور وسعت دی ہو تو بہتر ہے ٹوپی یا عمامہ پہن کر نماز پڑھے جیسا کہ امام بخاری، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
إِذَا وَسَّعَ اللهُ فَأَوْسِعُوْا.
بخاری، الصحیح، کتاب الصلاۃ فی الثیاب، باب الصلاۃ فی القمیص و السر اویل والتبان والقبائ، 1: 143، رقم: 358
’’جب اللہ تعالیٰ وسعت دے تو وسعت اختیار کرو۔‘‘
امام شعرانی لکھتے ہیں:
’’حضور نبی اکرم ﷺ نماز میں عمامہ یا ٹوپی کے ساتھ سر ڈھانپنے کا حکم دیتے تھے اور ننگے سر نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔‘‘
شعرانی، کشف الغمۃ، 1: 87
حضور نبی اکرم ﷺ، صحابہ، تابعین اور سلف صالحین کا طریقہ عمامہ یا ٹوپی سے سر ڈھانپ کر نماز پڑھنا تھا۔ اس لیے جب انسان کے لیے عمامہ یا ٹوپی حاصل کرنے کی وسعت ہو تو وہ ننگے سر نماز نہ پڑھے۔ عمامہ باندھ کر یا ٹوپی پہن کر نماز پڑھے۔(2) ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
نووی، شرح صحیح مسلم، 1: 1335، 1336
جواب: نمازکے دوران اگر ٹوپی گر جائے اور اٹھانے میں عمل کثیر کی ضرورت نہ پڑے تو اٹھا لینا افضل ہے اور اگر ٹوپی بار بار اٹھانی پڑے تو نہ اٹھائے، چھوڑ دے۔
جواب: اگر چادر، شلوار یا پتلون وغیرہ کو اَسراف اور تکبر سے زمین پر گھسیٹا جائے تو حرام ہے کیونکہ یہ مال ضائع کرنے اور دوسروں کو کمتر اور خود کو بڑا سمجھنے کے مترادف ہے، اور اگر عرف کی وجہ سے کپڑے لٹکائے جائیں تو حرام نہیں۔ اس سوال کا جواب واضح کرنے کے لیے ذیل میں نفسِ مضمون سے متعلقہ چند احادیث درج کی جاتی ہیں:
1۔ حضرت جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی نصیحت فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کبھی کسی کو گالی نہ دینا۔ حضرت جابر بن سلیم کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کسی آزاد، غلام، اونٹ، بکری یعنی کسی بھی مخلوق کو گالی نہیں دی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
’’کبھی کسی نیکی کو معمولی نہ سمجھنا اگرچہ اپنے بھائی سے مسکرا کر بات کرنا ہی کیوں نہ ہو! بیشک یہ بھی نیکی ہے۔ اپنا تہبند آدھی پنڈلی تک اونچا رکھو، نہیں تو ٹخنوں تک۔ اور خبردار چادر زمین پر نہ گھسیٹنا کہ یہ غرور و تکبر ہے اور اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں۔ اور اگر کوئی شخص تجھے گالی دے اور ایسی غلط بات کا تجھے عار دے جو اُس کے علم میں تیرے اندر موجود ہے، تو اُسے اُس بار پر عار نہ لگا جو تیرے علم میں اُس کے اندر موجود ہے۔ اس کے گناہ کا وبال اُسی پر ہوگا۔‘‘
ابو داؤد، السنن، کتاب الحمام، باب ما جاء في إسبال الإزار، 4: 56، رقم: 4084
2۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَـلَاءَ، لَمْ یَنْظُرِ اللهُ إِلَیْهِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
’’جس نے غرور و تکبر سے اپنا کپڑا (تہبند، چادر، شلوار، پتلون، جبہ وغیرہ) گھسیٹا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔‘‘
اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول الله! میری چادر (تہبند) کا ایک کنارہ میں پکڑے رکھتا ہوں (ورنہ لٹک جاتا ہے)؟ فرمایا:
إِنَّکَ لَسْتَ تَصْنَعُ ذَلِکَ خُیَـلَاءَ.
بخاری، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب قول النبي ﷺ، 3:1345، رقم: 3465
’’تم غرور و تکبر سے گھسیٹنے والوں میں سے نہیں۔‘‘
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص تہبند ٹخنوں سے نیچے کیے نماز ادا کر رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جاؤ! وضو کرو۔ اس نے جا کر وضو کیا، پھر حاضر خدمت ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جا کر وضو کرو۔ ایک شخص نے عرض کیا! یا رسول اللہ! آپ نے اسے وضو کرنے کا حکم کیوں دیا؟ ایک لمحہ خاموش ہونے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تہبند لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا، اور چادر لٹکانے والے کی نماز اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا۔
أبوداؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب الاسال في الصلاۃ، 1:248، رقم: 638
مندرجہ بالا احادیث نمبر 2 اور 3 میں حکم ایک جیسا نہیں دیا گیا کیوں کہ حضورنبی اکرم ﷺ بہتر جانتے تھے کہ کس آدمی میں کیا خرابی ہے اور اس پر کس انداز سے کیا تادیبی کارروائی کس قدر مؤثر ہوگی۔ اس لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے رعایت رکھی گئی کہ ان میں غرور و تکبر جیسی بیماری کا امکان نہ تھا جب کہ دوسرے شخص کی حالت کے پیش نظر اُسے الگ حکم دیا گیا۔
جواب: حالتِ نماز میں دھوتی، چادر، تہبند، جُبہ، قمیض وغیرہ کو کَس کَس کر اکھٹا کرنا یا بلا وجہ ٹانگوں میں دبانا اور سمیٹنا مکروہ ہے، لیکن نماز سے قبل کپڑوں کو ٹخنوں سے اوپر کر لینا جائز ہے۔
جواب: بعض مرد و خواتین عذرِ شرعی کے بغیر کم علمی کی بناء پر فرض، واجب نمازیں بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ اِس طرح ان کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ نماز میں قیام فرض ہے۔ اگر نمازی کسی عذر کی وجہ سے کھڑا ہونے کی سکت نہ رکھتا ہو یا حالتِ قیام میں گرنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز ہے۔ بصورت دیگر کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا فرض ہے۔ آج کل جو لوگ معمولی سی تکلیف یا تھکاوٹ کی بناء پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں ان کی نماز ناقص ہوگی۔
جواب: اگر یہ عمل بار بار نہ ہو بلکہ ایک یا دو بار ایسا کر لیا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ یہ عمل قلیل ہے۔ اس کے برعکس اگر اس نے بار بار ایسا کیا تو عمل کثیر کی بناء پر نماز فاسد ہو جائے گی۔ بہتر ہے کہ ایک ہاتھ سے موبائل فون آف کردیا جائے۔
موبائل سامنے رکھے ہونے کی صورت میں نمازی نے دورانِ نماز اگر ایک آدھ مرتبہ موبائل پر آنے والے فون کا نمبر دیکھ کر زبان سے تکلم کیے بغیر اسے بند کر دیا تو اس سے بھی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ جیسا کہ امام طحطاوی فرماتے ہیں:
(لو نظر المصلي إلی مکتوب وفهمه) سواء کان قرآنا أوغیره قصد الاستفهام أو لا أساء الأدب، ولم تفسد صلاته لعدم النطق بالکلام.
طحطاوی، مراقی الفلاح: 187
’’نمازی نے (دورانِ نماز) ارادتاً یا غیر ارادی طور پر کسی تحریر کی طرف دیکھا اور اسے سمجھ لیا خواہ وہ قرآن یا اس کے علاوہ کوئی تحریر ہے تو ادب کے خلاف ہے لیکن نطقِ کلام نہ پائے جانے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔‘‘
جواب: نمازی کے آگے سے گزرنے والا بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے جس کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَوْ یَعْلَمُ الْمَارُّ بَیْنَ یَدَي الْمُصَلِّیْ مَاذَا عَلَیْهِ لَکَانَ أَنْ یَقِفَ أَرْبَعِیْنَ خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَمُرَّ بَیْنَ یَدَیْهِ.
ترمذی، السنن، کتاب الصلوۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ المرور بین یدي المصلي، 1: 367، رقم: 336
’’اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو پتا ہو کہ اس کی سزا کیا ہے۔ تو وہ چالیس (سال یا مہینہ وہاں) کھڑا انتظار کرتا اور یہ اس کے لیے نمازی کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہوتا۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ اگر اسے گناہ کا اندازہ ہو جائے تو وہ زمین میں دھنس جانے کو اس گناہ کے مقابلے میں اپنے لیے زیادہ آسان سمجھے گا۔ نمازی کے آگے سترہ رکھا جانا ضروری ہے اگر سترہ قائم ہونے کے باوجود کوئی شخص سترہ اور نمازی کے درمیان سے گزر رہا ہے تو اسے سختی سے باز رکھنا چاہئے۔
جواب: جی ہاں! عورتوں کا زیور پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے۔
جواب: جی ہاں! نماز باجماعت بھی پڑھ سکتے ہیں اور بغیر جماعت کے الگ الگ یا اکٹھے بھی نماز ادا کرسکتے ہیں۔
جواب: ایامِ مخصوصہ یعنی حیض و نفاس کے دنوں میں عورت کو نمازیں معاف ہیں، وہ قضا ادا نہیں کرے گی، جب کہ روزہ کی قضا لازم ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
لَا تَقْضِی الْحَآئِضُ الصَّلٰوة، وَقَالَ جَابِرُ بنُ عبد اللهِ وَاَبُو سَعِیدٍ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ: تَدَعُ الصَّلٰوة.
بخاری، الصحیح، کتاب الحیض، باب لا تقضی الحائض الصلاۃ، 1: 122
’’حائضہ عورت نماز کی قضا نہ کرے، حضرت جابر بن عبد الله اور حضرت ابوسعید خدری رضی الله عنہما نے حضور نبی اکرمﷺ سے نقل کیا ہے کہ حائضہ عورت نماز چھوڑ دے (اور روزوں کی قضاء کرے)۔‘‘
جواب: جی نہیں! جس دوپٹہ یا چادر سے عورت کے جسم کا حصہ یا بال نظر آئیں اس سے نماز نہیں ہو گی جب عام حالات میں عورت کو باریک لباس اور باریک دوپٹہ اوڑھنے سے منع کیا گیا ہے تو پھر باریک دوپٹے سے نماز کیسے ادا ہو سکتی ہے؟ جیسا کہ حدیث پاک سے ثابت ہے:
عَنْ عَائِشَۃَ: أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَکْرٍ دَخَلَتْ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ (النَّبِيِّ ﷺ) وَعَلَیْهَا ثِیَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَقَالَ: یَا أسْمَاءُ إِنَّ الْمَرْأۃَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِیْضَ لَمْ یَصْلُحْ لَهَا أَنْ یُرَی مِنْهَا إِلَّا هٰذَا وَهٰذَا، وَأَشَارَ إِلَي وَجْهِهِ وَکَفَّیْهِ.
ابوداؤد، السنن، کتاب اللباس، باب فیما تبدي المرأۃ من زینتھا، 4:29، رقم: 4104
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی الله عنہما باریک کپڑے پہن کر حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے آئیں تو آپﷺ نے ان کی جانب سے رخ مبارک پھیر لیا اور فرمایا: اسمائ! عورت جب بالغ ہو جائے تو اس کے بدن کا کوئی حصہ ہرگز دکھائی نہیں دینا چاہئے، سوائے اِس کے اور اِس کے، اور آپ ﷺ نے اپنے چہرئہ اقدس اور ہتھیلیوں کی جانب اشارہ فرمایا۔‘‘
جواب: مسافر کو اترنے میں جان کا یا بیمار ہونے یا بیماری بڑھنے یا درندہ کا خطرہ ہو یا مسافر اتنا کمزور ہو کہ کسی کی امداد کے بغیر اتر نہیں سکتا یا سوار نہیں ہوسکتا یا اسے سامان کے چوری ہو جانے یا گاڑی کے چلے جانے کا خطرہ ہو تو ان صورتوں میں مسافر کے لیے چلتی گاڑی، کشتی، ہوائی جہاز، بحری جہاز اور جانور کی سواری پر نماز پڑھنا جائز ہے۔
ذہن نشین رہے کہ سواری نماز شروع کرتے ہوئے قبلہ کے رخ کا تعین کر لے بعد میں اگر گاڑی کا رخ تبدیل ہو جائے تو نمازی بھی اپنا چہرہ قبلہ کے رخ پھیر لے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو جس طرف بھی اس کا چہرہ ہے اسی طرح اپنی نماز کو مکمل کرے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved