جواب: تیمم کا لغوی معنی ’’قصد اور ارادہ‘‘ کرنا ہے۔ شرعی اصطلاح میں تیمم کے معنی ’’چہرے اور کہنیوں سمیت بازوؤں پر پاک صاف مٹی کے ساتھ ہاتھ پھیرنا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاک مٹی پر ہاتھ رکھا جائے اور پھر اس ہاتھ کو چہرہ اور ہاتھوں پر پھیر لیا جائے۔ شرع میں تیمم کا حکم اُس وقت ہے جب نماز اور دیگر امور کی بجاآوری کے لیے پانی دستیاب نہ ہو۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْعَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْهُ.
المائدۃ، 5: 6
’’اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت سے (فارغ ہوکر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔‘‘
جواب: تیمم کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کشادہ کر کے زمین پر یا کسی ایسی چیز پر ماریں جو زمین کی قسم سے ہو پھر اس سے ہاتھ ہٹا لیں اور زیادہ گرد لگ جائے تو جھاڑ لیں، اس سے سارے چہرے کا مسح کریں پھر اسی طرح دوسری دفعہ بھی ہاتھ زمین پر یا زمین کی قسم پر مار کر دونوں ہاتھوں کا ناخنوں سے کہنیوں تک مسح کریں۔
جواب: تیمم میں تین چیزیں فرض ہیں:
عورتوں کو چاہیے کہ اگر وہ چوڑیاں یا زیور پہنے ہوئے ہوں تو اسے ہٹا کر تیمم کریں اور جو شخص انگوٹھی پہنے ہوئے ہو وہ بھی اسے اتاردے یا جگہ سے ہٹا کر ہاتھ پھیرلے۔
تیمم میں نیت شرط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وضو پانی سے کیا جاتا ہے۔ پانی اپنی خلقت کے اعتبار سے پاک کرنے والا ہے اس لیے نیت کی ضرورت نہیں جبکہ مٹی بذاتِ خود پاک کرنے والی نہیں ہے لہٰذا جب اس سے طہارت حاصل کرنا ہو تو نیت کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ طہارتِ حکمی ہے۔
جواب: تیمم جنس زمین میں سے کسی پاک چیز کے ساتھ کیا جائے مثلاً مٹی، پتھر اور ریت سے کرنا جائز ہے۔
جنس زمین سے مراد وہ چیز ہے جسے آگ میں ڈالنے سے نہ تو وہ پگھلے اور نہ ہی جل کر راکھ ہو۔ سونے اور چاندی سے تیمم جائز نہیں کیونکہ وہ پگھلتی ہیں اور لکڑی سے تیمم اس لیے جائز نہیں کہ وہ جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر سونے چاندی یا لکڑی پر گرد و غبار ہو تو پھر جائز ہے۔
جواب: تیمم درج ذیل حالتوں/صورتوں میں جائز ہے:
ان تمام حالتوں میں تیمم جائز ہے جبکہ پانی دستیاب ہونے یا پانی پر قادر ہونے یا مریض کے تندرست ہونے پر تیمم جائز نہیں۔
جواب: جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا یا غسل واجب ہوتا ہے ان سے ہی تیمم بھی ٹوٹ جائے گا۔ جونہی پانی مل جائے اور استعمال کرنا ممکن ہو، تیمم ختم ہو جائے گا۔
جواب: تیمم وہاں جائز ہے جہاں چاروں طرف ایک ایک میل تک پانی میسر نہ ہو۔ اگر پانی تلاش کیے بغیر تیمم کرکے نماز پڑھ لی اور بعد میں تلاش پر پانی مل جائے تو اسے چاہیے کہ نماز کو دہرائے، بصورتِ دیگر نماز ہو جائے گی۔
جواب: فرض نمازوں کے لیے واجب یہ ہے کہ آخر وقت تک پانی تلاش کرے۔ اگر ایک میل کے فاصلے پر پانی کی موجودگی کا یقین ہو تو (چاہے وقت کم ہو اور نماز قضا ہوجائے) تو پانی حاصل کرکے وضو کرے اور پھر نماز ادا کرے۔ ایک میل تک پانی کی موجودگی کا یقین ہوتے ہوئے وقت نکل جانے کے خوف کی بنا پر تیمم جائز نہیں ہے۔ البتہ نمازِ عیدین اور نمازِ جنازہ غیر ولی کے لیے جائز ہے لیکن میت کے ولی کے لیے جائز نہیں۔ اگر خدشہ ہو کہ وضو کرنے کی وجہ سے نماز عیدین یا نماز جنازہ نکل جائے گی تو تیمم کرکے یہ نمازیں ادا کر لے کیونکہ ان نمازوں کی قضا نہیں ہے۔
جواب: متیمّم پر نماز پڑھنے سے پہلے نہ صرف پانی تلاش کرنا بلکہ قریبی اعزاء و اقارب اور (ساتھیوں) سے پانی مانگنا بھی واجب ہے بشرطیکہ یہ گمان ہو کہ وہ مانگنے پر دے دیں گے۔ بغیر مانگے تیمم کرنا درست نہیں اگر اس شبہ کی بناء پر کہ وہ پانی نہ دیں گے، تیمم کر کے نماز شروع کر دی اور دورانِ نماز ہی پانی میسر آجائے تو وضو کر کے نماز دوبارہ دہرانا ہو گی۔
جواب: اگر نماز پڑھنے سے پہلے پانی تلاش کیا ہو اور قریبی دوستوں نے بھی پانی دینے سے انکار کیا ہو، متیمم کے نماز ادا کرلینے کے بعد پانی دستیاب ہو جائے تو پھر نماز دہرانے کی ضرورت نہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved