سلسلہ تعلیمات اسلام 5: طہارت اور نماز (فضائل و مسائل)

تیمم

سوال نمبر 54: تیمم کسے کہتے ہیں اور اس کے کرنے کے بارے میں قرآن حکیم کا کیا حکم ہے؟

جواب: تیمم کا لغوی معنی ’’قصد اور ارادہ‘‘ کرنا ہے۔ شرعی اصطلاح میں تیمم کے معنی ’’چہرے اور کہنیوں سمیت بازوؤں پر پاک صاف مٹی کے ساتھ ہاتھ پھیرنا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاک مٹی پر ہاتھ رکھا جائے اور پھر اس ہاتھ کو چہرہ اور ہاتھوں پر پھیر لیا جائے۔ شرع میں تیمم کا حکم اُس وقت ہے جب نماز اور دیگر امور کی بجاآوری کے لیے پانی دستیاب نہ ہو۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْعَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْهُ.

المائدۃ، 5: 6

’’اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت سے (فارغ ہوکر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔‘‘

سوال نمبر 55: تیمم کا مسنون طریقہ کیا ہے؟

جواب: تیمم کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کشادہ کر کے زمین پر یا کسی ایسی چیز پر ماریں جو زمین کی قسم سے ہو پھر اس سے ہاتھ ہٹا لیں اور زیادہ گرد لگ جائے تو جھاڑ لیں، اس سے سارے چہرے کا مسح کریں پھر اسی طرح دوسری دفعہ بھی ہاتھ زمین پر یا زمین کی قسم پر مار کر دونوں ہاتھوں کا ناخنوں سے کہنیوں تک مسح کریں۔

سوال نمبر 56: تیمم میں کتنی چیزیں فرض ہیں؟

جواب: تیمم میں تین چیزیں فرض ہیں:

  1. نیت کرنا کہ میں پاکی حاصل کرنے کی نیت سے تیمم کرتا / کرتی ہوں یہ لفظ زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں دل میں ارادہ ہی کافی ہے۔ جس پر غسل فرض ہو۔ اس پر وضو کے لیے علیحدہ تیمم کی ضرورت نہیں بلکہ غسل کا تیمم ہی کافی ہے اگر کوئی شخص معذوری کی وجہ سے خود تیمم نہ کر سکتا ہو تو دوسرا شخص اسے تیمم کرا دے مگر نیت وہی شخص کرے گا جو تیمم کر رہا ہے۔
  2. پورے منہ پر اس طرح ہاتھ پھیرنا کہ کوئی معمولی سا حصہ بھی باقی نہ رہے۔
  3. دونوں ہاتھوں پر کہنیوں تک ہاتھ پھیرنا کہ کوئی حصہ باقی نہ رہے۔

عورتوں کو چاہیے کہ اگر وہ چوڑیاں یا زیور پہنے ہوئے ہوں تو اسے ہٹا کر تیمم کریں اور جو شخص انگوٹھی پہنے ہوئے ہو وہ بھی اسے اتاردے یا جگہ سے ہٹا کر ہاتھ پھیرلے۔

تیمم میں نیت شرط ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وضو پانی سے کیا جاتا ہے۔ پانی اپنی خلقت کے اعتبار سے پاک کرنے والا ہے اس لیے نیت کی ضرورت نہیں جبکہ مٹی بذاتِ خود پاک کرنے والی نہیں ہے لہٰذا جب اس سے طہارت حاصل کرنا ہو تو نیت کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ طہارتِ حکمی ہے۔

سوال نمبر 57: تیمم کس چیز سے کرنا جائز ہے؟

جواب: تیمم جنس زمین میں سے کسی پاک چیز کے ساتھ کیا جائے مثلاً مٹی، پتھر اور ریت سے کرنا جائز ہے۔

جنس زمین سے مراد وہ چیز ہے جسے آگ میں ڈالنے سے نہ تو وہ پگھلے اور نہ ہی جل کر راکھ ہو۔ سونے اور چاندی سے تیمم جائز نہیں کیونکہ وہ پگھلتی ہیں اور لکڑی سے تیمم اس لیے جائز نہیں کہ وہ جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر سونے چاندی یا لکڑی پر گرد و غبار ہو تو پھر جائز ہے۔

سوال نمبر 58: تیمم کن حالتوں میں جائز ہے؟

جواب: تیمم درج ذیل حالتوں/صورتوں میں جائز ہے:

  1. ایسی بیماری جس میں وضو کرنے یا غسل کرنے سے اضافہ ہو یا پانی استعمال کرنے کی صورت میں دیر سے ٹھیک ہونے کا خدشہ ہو۔
  2. پانی دستیاب نہ ہو یا پانی کے استعمال کرنے پر قدرت نہ ہو۔
  3. چاروں طرف ایک ایک میل تک پانی ملنے کی توقع نہ ہو۔
  4. پانی پر کسی دشمن کا قبضہ ہو جس کے باعث اسے حاصل کرنے میں جان جانے کا یا بے عزت ہونے کا خطرہ ہو۔
  5. پانی پر کوئی موذی جانور قابض ہو یا راستے میں موذی جانور ہو۔
  6. وضو یا غسل کرنے کے دوران عید کی نماز رہ جانے کا خدشہ ہو۔
  7. غیر ولی کو یہ خوف ہو کہ نمازِ جنازہ رہ جائے گی یعنی چاروں تکبیریں جاتی رہیں گی۔

ان تمام حالتوں میں تیمم جائز ہے جبکہ پانی دستیاب ہونے یا پانی پر قادر ہونے یا مریض کے تندرست ہونے پر تیمم جائز نہیں۔

سوال نمبر 59: کن چیزوں سے تیمم ٹوٹتا ہے؟

جواب: جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا یا غسل واجب ہوتا ہے ان سے ہی تیمم بھی ٹوٹ جائے گا۔ جونہی پانی مل جائے اور استعمال کرنا ممکن ہو، تیمم ختم ہو جائے گا۔

سوال نمبر 60: پانی تلاش کیے بغیر تیمم سے نماز ہوگی یا نہیں؟

جواب: تیمم وہاں جائز ہے جہاں چاروں طرف ایک ایک میل تک پانی میسر نہ ہو۔ اگر پانی تلاش کیے بغیر تیمم کرکے نماز پڑھ لی اور بعد میں تلاش پر پانی مل جائے تو اسے چاہیے کہ نماز کو دہرائے، بصورتِ دیگر نماز ہو جائے گی۔

سوال نمبر 61: پانی ایک میل کے فاصلے پر موجود ہے مگر نماز کا وقت کم رہ جائے تو پانی حاصل کرکے وضو کرے یا تیمم کرے؟

جواب: فرض نمازوں کے لیے واجب یہ ہے کہ آخر وقت تک پانی تلاش کرے۔ اگر ایک میل کے فاصلے پر پانی کی موجودگی کا یقین ہو تو (چاہے وقت کم ہو اور نماز قضا ہوجائے) تو پانی حاصل کرکے وضو کرے اور پھر نماز ادا کرے۔ ایک میل تک پانی کی موجودگی کا یقین ہوتے ہوئے وقت نکل جانے کے خوف کی بنا پر تیمم جائز نہیں ہے۔ البتہ نمازِ عیدین اور نمازِ جنازہ غیر ولی کے لیے جائز ہے لیکن میت کے ولی کے لیے جائز نہیں۔ اگر خدشہ ہو کہ وضو کرنے کی وجہ سے نماز عیدین یا نماز جنازہ نکل جائے گی تو تیمم کرکے یہ نمازیں ادا کر لے کیونکہ ان نمازوں کی قضا نہیں ہے۔

سوال نمبر 62: متیمّم کو نماز پڑھنے کے دوران اگر پانی میسر آجائے تو پھر کیا کرے؟

جواب: متیمّم پر نماز پڑھنے سے پہلے نہ صرف پانی تلاش کرنا بلکہ قریبی اعزاء و اقارب اور (ساتھیوں) سے پانی مانگنا بھی واجب ہے بشرطیکہ یہ گمان ہو کہ وہ مانگنے پر دے دیں گے۔ بغیر مانگے تیمم کرنا درست نہیں اگر اس شبہ کی بناء پر کہ وہ پانی نہ دیں گے، تیمم کر کے نماز شروع کر دی اور دورانِ نماز ہی پانی میسر آجائے تو وضو کر کے نماز دوبارہ دہرانا ہو گی۔

سوال نمبر 63: متیمّم کو اگر نماز ادا کرنے کے بعد پانی مل جائے تو پھر اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب: اگر نماز پڑھنے سے پہلے پانی تلاش کیا ہو اور قریبی دوستوں نے بھی پانی دینے سے انکار کیا ہو، متیمم کے نماز ادا کرلینے کے بعد پانی دستیاب ہو جائے تو پھر نماز دہرانے کی ضرورت نہیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved