جواب: شریعت کی رو سے غسل سے مراد ’’پاک پانی کا تمام بدن پر خاص طریقے سے بہانا ہے۔‘‘ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَرُوْا.
المائدۃ، 5: 6
’’اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ۔‘‘
جواب: غسل کی تین اقسام ہیں:
1۔ غسلِ فرض
درج ذیل صورتوں میں غسل فرض ہوجاتا ہے:
2۔ غسلِ مسنون
درج ذیل امور کی ادائیگی کے لیے غسل کرنا سنت ہے:
1۔ جمعہ کی نماز کے لیے۔
حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
اَلْغُسْلُ یَوْمَ الجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَی کُلِّ مُحْتَلِمٍ.
بخاری، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب الطیب للجمعۃ، 1: 300، رقم: 840
’’ہر بالغ پر جمعہ کا غسل لازم ہے۔‘‘
2۔ عیدین کی نماز کے لیے۔
ابن ابی شیبۃ، المصنف، 1: 500، رقم: 5771
3۔ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے۔
ترمذی، الجامع، أبواب الحج، باب ماجاء في الاغتسال عند الإِحرام، 2:181، رقم: 830
4۔ حج کرنے والوں کے لیے میدان عرفات میں زوال کے بعد۔
ابن ابی شیبۃ، المصنف، 2: 68
3۔ غسلِ مستحب
درج ذیل امور کے لیے غسل کرنا مستحب ہے:
جواب: غسل کے فرض ہونے کی درج ذیل صورتیں ہیں:
(1) اگر اس کے ودی یا مذی دونوں میں سے ایک کے ہونے کا یقین یا اِحتمال ہو تو غسل واجب نہیں۔
(2) اگر یقین ہے کہ منی یا مذی نہیں کچھ اور ہے تو غسل واجب نہیں۔
(3) اگر منی ہونے کا یقین ہے مگر مذی کا شک ہے اور اگر خواب میں احتلام ہونا یاد نہیں تو غسل ضروری نہیں ورنہ ہے۔
جواب: اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ جب غسل جنابت کرتے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر استنجاء کرتے، اس کے بعد مکمل وضو کرتے، پھر پانی لے کر سر پر ڈالتے اور انگلیوں کی مدد سے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچاتے۔ پھر جب دیکھتے کہ سر صاف ہو گیا ہے تو تین مرتبہ سر پر پانی ڈالتے، پھر تمام بدن پر پانی ڈالتے اور پھر پاؤں دھو لیتے۔
مسلم، الصحیح، کتاب الحیض، باب صفۃ غسل الجنابۃ، 1: 253، رقم: 316
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں غسل کا مسنون و مستحب طریقہ یہ ہے:
جواب: تالاب یا نہر میں غسل کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے:
آپ دریا یا نہر میں نہائیں تو پہلے کلی کریں پھر ناک میں پانی ڈال کر خوب صاف کریں اور تھوڑی دیر اس میں ٹھہرنے سے غسل کی سب سنتیں ادا ہو جائیں گی۔ اور اگر تالاب اور حوض یعنی ٹھہرے ہوئے پانی میں نہائیں تو بدن کو تین بار حرکت دینے یا جگہ بدلنے سے غسل ہو جائے گا۔
جواب: غسل کے فرائض تین ہیں:
وفرض الغسل: المضمضة والاستنشاق وغسل سائر البدن.
فتح القدیر، فصل فی الغسل، 1 :50
’’غسل کے فرائض یہ ہیں:
شاور، ٹوٹی، نل اور ٹب وغیرہ کے ذریعے غسل کرنے کے لیے اگر اچھی طرح کلی کر لی گئی اور ناک میں نرم ہڈی تک پانی ڈال لیا گیا اور پھر پورے بدن پر کم از کم ایک مرتبہ اس طرح پانی بہا لیا گیا کہ بدن کا کوئی حصہ بال برابر بھی خشک نہ رہا تو غسل کے واجبات ادا ہو جائیں گے۔ غسلِ واجب کی صورت میں جسم پر لگی ہوئی نجاست کو پہلے دھونا سنت ہے جیسا کہ ’نور الایضاح (ص: 23)‘ میں ہے:
وغسل نجاسة لوکانت بانفرادها.
’’اگر جسم پر نجاست ہو تو اُسے الگ سے دھوئے۔‘‘
جواب: اگر غسل کرنے والی عورت کے سر کی جڑوں تک پانی بالوں کو کھولے بغیر پہنچ جائے تو اس کے لیے سر کے بالوں کو کھولنا ضروری نہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث مبارکہ سے ثابت ہے:
’’حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وآلک وسلم! میں اپنے سر پر بہت کس کر مینڈھیاں باندھتی ہوں کیا میں غسل جنابت کے لیے انہیں کھول لیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں تمہارے لیے سر پر صرف تین چلو پانی بہا لینا کافی ہے۔ پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہا لو تو تم پاک ہو جاؤ گی۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الحیض، باب حکم ضفائر المغتسلۃ، 1:259، رقم: 330
جمہور فقہاء کے نزدیک اگر گوندھے ہوئے بالوں تک پانی نہ پہنچے تو پھر بالوں کا کھولنا واجب ہے۔
جواب: غسل کرتے ہوئے انسان بالعموم ننگا ہوتا ہے اس لیے اس دوران قرآنی آیات یا دیگر کوئی دعا وغیرہ پڑھنا جائز نہیں یہاں تک کہ کوئی دنیوی کلام کرنا بھی منع ہے۔ فقہاء فرماتے ہیں:
ویستحب أن لا یتکلم بکلام معه ولو دعاء، لأنه فی مصب الاقذار، ویکره مع کشف العورة.
طحطاوی، مراقی الفلاح: 57
’’مستحب یہ ہے کہ غسل کرنے والا کسی قسم کا کوئی کلام نہ کرے اگرچہ وہ دعا ہی ہو اس لیے کہ وہ گندگی کی جگہ پر ہے۔ بے پردگی کی حالت میں (کوئی کلام کرنا یا دعا پڑھنا) مکروہ ہے۔‘‘
جواب: جنبی (حالتِ جنابت میں مبتلا شخص) کے بارے میں شریعت کے احکامات درج ذیل ہیں:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
لَا تَقْرَإ الْحَائِضُ، وَلَا الجُنُبُ شَیْئًا مِّنَ الْقُرْآنِ.
ترمذی، السنن، أبواب الطھارۃ، باب ماجاء فی الجنب والحائض أنھما لا یقران القران، 1:174، رقم: 131
’’جنبی اور حائضہ قرآن مجید سے کچھ نہ پڑھے (نہ تھوڑا نہ بہت)۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا تَدْخُلُ الْمَلآئِکَةُ بَیْتًا فِیْهِ صُوْرَةٌ وَلَا کَلْبٌ وَلَا جُنُبٌ.
ابوداؤد، السنن، کتاب اللباس، باب في الصور: 4:43، رقم: 4152
’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویر یا کتا یا جنبی ہو۔‘‘
ا م ا لمؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
وَجِّهُوْا هَذِهِ الْبُیُوْتَ عَنِ الْمَسْجِدِ فَإِنِّي لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ.
ابوداؤد، السنن، کتاب الطہارۃ، باب فی الجنب یدخل المسجد، 1:98، رقم: 232
’’تم مسجد کی طرف سے گھروں کے دروازے بند کر دو کیونکہ میں حائض اور جنبی کے مسجد میں داخل ہونے کو حلال نہیں کروں گا۔‘‘
جواب: جس شخص پر نہانا فرض ہو اسے جُنب یا جُنبی کہتے ہیں اور جن اسباب کی وجہ نہانا فرض ہو اسے جنابت کہتے ہیں۔
جواب: حیض کی کم از کم مدت تین دن اور تین راتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور دس راتیں ہیں جبکہ نفاس کی کم از کم مدت کوئی نہیں اور زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہے۔
ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب الطھارۃ، باب ماجاء في کم تَمکثُ النُّفَسائ؟، 1:182، رقم: 139
جواب: ایامِ حیض میں عورت کے ہاتھ، پاؤں، منہ اور پہنے ہوئے کپڑے پاک ہوتے ہیں بشرطیکہ خشک ہوں۔ البتہ جس جگہ، بدن یا کپڑے پر خون لگ جائے وہ جگہ ناپاک ہو جاتی ہے۔ اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہے۔ حائضہ عورت کے ساتھ دوسری عورتوں کا، اس کی اولاد کا، اس کے محرموں کا اٹھنا بیٹھنا منع نہیں یہ یہودیوں اور ہندوؤں میں دستور ہے کہ حیض والی عورت کو اچھوت بنا کر چھوڑ دیتے ہیں کہ نہ وہ کسی برتن کو ہاتھ لگائے نہ وہ کسی کپڑے کو چھوئے۔ شریعت اسلامیہ میں ایسا نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو بلند مقام دیا ہے۔
حضرت فاطمہ بنت منذر رضی اللہ عنہا سے حدیث مبارکہ مروی ہے:
عَنْ أَسْمَآءَ بِنْتِ اَبِي بَکْرٍ إنَّهَا قَالَتْ: سَأَلَتْ رَّسُوْلَ اللهِﷺ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، اَرَاَیْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَهَا الدَّمُ مِنَ الْحَیْضَةِ کَیْفَ تَصْنَعُ؟ قَالَ: إِذَا أَصَابَ إِحْدَاکُنَّ الدَّمُ مِنَ الْحَیْضِ فَلْتَقْرِصْہٗ ثُمَّ لِتَنْضَحْهُ بِالْمَاءِ ثُمَّ لِتُصَلِّ.
ابوداؤد، السنن، کتاب الطھارۃ، باب المراۃ تغسل ثوبھا الذی تلبسہ فی حیضھا، 1:150، رقم: 361
’’حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک عورت حضور نبی اکرمﷺ سے عرض گذار ہوئیں: یا رسول اللہ! جب ہم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جائے تو کیا کرے؟ فرمایا: جب تم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو اسے کھرچ دے پھر اسے پانی سے دھو دے اور پھر نماز پڑھ لے۔‘‘
امام ابن عابدین شامی بیان کرتے ہیں:
’’حیض والی عورت کا کھانا پکانا، اس کے چھوئے ہوئے آٹے اور پانی وغیرہ کو استعمال کرنا مکروہ نہیں ہے۔ اس کے بستر کو علیحدہ نہ کیا جائے کیونکہ یہ یہودیوں کے فعل کے مشابہ ہے، حیض والی عورت کو علیحدہ کر دینا کہ جہاں وہ ہو وہاں کوئی نہ جائے، ایسا کرنا درست نہیں۔‘‘
شامی، رد المحتار علی در المختار، 1: 194
جواب: بحالتِ حیض و نفاس عورت قرآن حکیم کا ایک ایک کلمہ سکھائے اور کلموں کے درمیان وقفہ کرے۔ نیز قرآن کے ہجے کرانا جائز ہے۔
جواب: جی ہاں! عورت حالت حیض میں مہندی لگا سکتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ مُعَاذَةَ أَنَّ اِمْرَأَةً سَأَلَتْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: تَخْتَضِبُ الْحَائِضُ؟ فَقَالَتْ: قَد کُنَّا عِندَ النَّبِیِّ ﷺ وَنَحْنُ نَخْتَضِبُ فَلَمْ یَکُن یَنْهَانَا عَنْه.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الطہارۃ وسننھا، باب الحائض تختضب، 1: 357، رقم: 656
’’حضرت معاذہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: کیا حائضہ مہندی لگا سکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ اقدس میں مہندی لگاتیں تھیں، آپ ہمیں اس سے منع نہیں فرماتے تھے۔‘‘
جواب: اگر کسی عورت کو تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ خون آئے تو اسے اِستحاضہ کہتے ہیں۔ اِسی طرح نفاس میں چالیس دن سے زیادہ خون آئے تو اسے بھی اِستحاضہ کہتے ہیں۔ اور اگر کسی عورت کو اپنی عادت سے زیادہ دن خون آئے تو یہ بھی اِستحاضہ ہے؛ مثلاً کسی عورت کو پانچ دن خون آتا ہے اور پانچ دن اُس کی عادت بن گئی ہے، اب اگر اسے کسی وقت دس دن خون آیا تو پانچ دن حیض کے ہوں گے اور پانچ دن اِستحاضہ کے ہوں گے۔
اِستحاضہ کے اَحکام درج ذیل ہیں:
جواب: میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرمﷺ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی صاحب زادی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) کو غسل دے رہے تھے تو حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اسے پانی اور بیري کے پتوں کے ساتھ طاق غسل دو یعنی تین یا پانچ بار، اور آخر میں کافور ملا لیں۔ غسل کا سلسلہ اپنی جانب سے اور وضو کے اعضا سے شروع کریں۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب ما یستحب ان یغسل وتراً، 1: 423، رقم:1196
میت کو غسل دینے کا طریقہ یہ ہے کہ جس تخت پر میت کو نہلانے کا ارادہ ہو اس کو تین، پانچ یا سات مرتبہ دھونی دیں۔ پھر اس پر میت کو لٹاکر تمام کپڑے اتار دیئے جائیں سوائے لباس ستر کے، پھر نہلانے والا اپنے ہاتھ پہ کپڑا لپیٹ کر پہلے استنجا کرائے پھر نماز جیسا وضو کرائے لیکن میت کے وضو میں پہلے گٹوں تک ہاتھ دھونا اور کلی کرنا اورناک میں پانی چڑھانا نہیں ہے کیونکہ ہاتھ دھونے سے وضو کی ابتدا زندوں کے لیے ہے۔ چونکہ میت کو دوسرا شخص غسل کراتا ہے، اس لیے کوئی کپڑا بھگو کر دانتوں اور مسوڑھوں اور ناک کو صاف کیا جائے پھر سر اور داڑھی کے بال ہو تو پاک صابن سے دھوئیں ورنہ خالی پانی بھی کافی ہے۔ پھر بائیں کروٹ پر لٹا کر دائیں طرف سر سے پاؤں تک بیری کے پتوں کا جوش دیا ہوا پانی بہائیں کہ تخت تک پانی پہنچ جائے۔ پھر دائیں کروٹ لٹا کر بائیں طرف اسی طرح پانی بہائیں۔ اگر بیری کے پتوں کا اُبلا ہوا پانی نہ ہو تو سادہ نیم گرم پانی کافی ہے۔ پھر ٹیک لگا کر بٹھائیں اور نرمی سے پیٹ پر ہاتھ پھیریں اگر کچھ خارج ہو تو دھو ڈالیں۔ پھر پورے جسم پر پانی بہائے۔ اس طرح کرنے سے فرض کفایہ ادا ہوگیا۔ اس کے بعد اگر دو غسل اور دیئے تو سنت ادا ہوجائے گی ان کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو دوسری بار بائیں کروٹ لٹایا جائے اور پھر دائیں پہلو پر تین بار اسی طرح پانی ڈالا جائے جیسا کہ پہلے بتایا گیا۔ پھر نہلانے والے کو چاہیے کہ میت کو بٹھائے اور اس کو اپنے سہارے پر رکھ کر آہستہ آہستہ اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرے۔ اگر کچھ خارج ہو تو اس کو دھو ڈالے یہ دوسرا غسل ہوگیا۔ اسی طرح میت کو تیسری بار غسل دیا جائے تو سنت ادا ہو جائے گی۔
ابتدائی دو غسل نیم گرم پانی بیری کے پتے / صابن کے ساتھدیئے جائیں۔ تیسرے غسل میں پانی میں کافور استعمال کی جائے۔ اس کے بعد میت کے جسم کو پونچھ کر خشک کرلیا جائے اور اس پر خوشبو مل دی جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved