جواب: حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے نماز سے پہلے مسواک کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرمایا:
تَفْضُلُ الصَّلَوةُ الَّتِی یُسْتَاکُ لَهَا عَلَی الصَّلٰوةِ الَّتِی لَا یُسْتَاکُ لَھَا سَبْعِیْنَ ضِعْفًا.
بیہقی، السنن الکبری، 1:38، رقم: 158
’’جس نماز کے وضو میں مسواک کی گئی ہو اُس کی فضیلت اُس نماز پر ستر درجہ زیادہ ہے جس کے وضو میں مسواک نہیں کی گئی۔‘‘
مسواک کرنا حضور نبی اکرمﷺ کا پسندیدہ اور دائمی عمل تھا۔ حضرت شریح بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے پوچھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ گھر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے کیا کام کرتے تھے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے فرمایا:
’’مسواک کرتے تھے۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب السواک، 1:220، رقم: 253
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’اگر میری امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب السواک، 1: 220، رقم: 252
جواب: جی ہاں! مسواک کی جگہ منجن یا ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کرنا سنت کے دائرہ میں آتا ہے جس کی دلیل ہمیں مندرجہ ذیل احادیث سے ملتی ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
تُجْزِی الاَصَابِعُ مَجْزَی السِّوَاکَ.
بیہقی، السنن الکبری، 1: 41، رقم: 178
’’انگلیاں مسواک کے قائم مقام ہیں۔‘‘
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول الله! آپ نے ہمیں مسواک کرنے کی ترغیب دی ہے، کیا اس کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’تمہارے وضو کے وقت تمہاری دو انگلیاں مسواک ہیں جن کو تم اپنے دانتوں پر پھیرتے ہو۔ بغیر نیت کے کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا اور ثواب کی نیت کے بغیر کوئی اجر نہیں ہوتا۔‘‘
بیہقی، السنن الکبری، 1:41، رقم: 179
ان احادیث سے ثابت ہوا ہے کہ مخصوص لکڑی سے دانت صاف کرنا اسلام کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے فرامین کا اصل مقصود یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے دانت صاف رکھے۔ اس لیے منجن اور ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کر لیے جائیں تب بھی حضور ں کے حکم پر عمل ہوتا ہے اور اس سے سنت کا ثواب ملتا ہے۔
جواب: درج ذیل امور کی بناء پر وضو مکروہ ہو جاتا ہے:
جواب: وضو توڑنے والی چیزیں درج ذیل ہیں:
ترمذی، السنن، کتاب ابواب الطہارۃ، باب ما جاء فی الوضوء من النوم، 1:111، رقم: 77
لیکن اگر وہ بیٹھا رہا اور اس کے کولہے جگہ سے نہیں ہٹے تو وضو نہیں ٹوٹا۔
جواب: درج ذیل امور سے وضو نہیں ٹوٹتا:
جواب: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے بغیر وضو کسی شخص کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ وضو نہ کر لے۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب وجوب الطھارۃ للصلاۃ، 1:204، رقم: 225
پس وضو کرنے کے دوران اگر وضو ٹوٹ جائے تو وضو دوبارہ کرے۔
جواب: وضو کرنے کے دوران کسی عضو کے دھونے میں شک واقع ہو جائے اور یہ زندگی کا پہلا واقعہ ہو تو اس عضو کو دھو لیں اور اگر اکثر اس قسم کا شک ہوتا ہو تو اس کی طرف توجہ نہ کرے، البتہ وضو میں حقیقتاً کوئی عضو دھونے سے رہ گیا مگر معلوم نہیں کہ وہ کون سا تھا تو بایاں پاؤں دھولے۔
جواب: پھولوں کے عرق سے وضو کرنا جائز نہیں کیونکہ کوئی پانی مُطَہِّر (پاک کرنے والا) ہوتا ہے اور کوئی پانی صرف طاہر (پاک) ہوتا ہے۔ طاہر پانی کی تعریف یہ ہے کہ وہ پانی جو استعمال میں آچکا ہو لیکن نجس نہ ہو، ایسا پانی معمول کے کاموں مثلاً پینے اور پکانے وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے، عبادت کے کاموں مثلاً وضو یا غسل میں استعمال کرنا صحیح نہیں۔ لہٰذا پھولوں کا عرق طاہر ہے مُطَہِّر نہیں۔
جواب: مصنوعی دانت لگوانے کی دو صورتیں ہیں: ایک ایسے دانت جو مستقل لگا دیے جائیں اور پھر آسانی سے نہ نکالے نہ جا سکیں، ایسے مصنوعی دانت اصل دانت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کا حکم اصل دانتوں کا ہی ہوگا۔ وضو اور غسل میں ان دانتوں تک پانی پہنچانا فرض ہے لیکن دانت نکالنے اور تہہ تک پانی پہنچانے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے ایسے دانت جو مستقل تو نہ لگائے جائیں بلکہ جنہیں حسبِ ضرورت نکالا یا لگایا جا سکے۔ اِس صورت میں اُس وقت تک وضو اور غسل درست نہ ہوگا جب تک ان دانتوں کو نکال کر اصل جڑوں تک پانی نہ پہنچ جائے۔
جواب: جی نہیں! اگر ناخن اتنے بڑھے ہوئے ہوں کہ ان کی جڑ تک پانی نہ پہنچ سکے تو وضو نہیں ہوتا کیونکہ پانی ناخنوں کی جڑ تک پہنچانا ضروری ہے۔ ناخنوں کی جڑ سے مراد وہ حصہ ہے جو انگلیوں کے گوشت سے جڑا ہوا ہو، اگر ناخن اتنا بڑھا ہوا ہے کہ ناخن کے نیچے میل کچیل جمع ہو تو ناخنوں کا کاٹنا ضروری ہے تاکہ پانی جڑ تک پہنچ جائے بصورتِ دیگر وضو نہ ہو گا۔
جواب: الله تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُوْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ.
المائدۃ، 5: 6
’’اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز لے لیے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لیے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔‘‘
قرآنی ارشاد میں مذکور جو چار فرائضِ وضو ہیں ان میں سے ایک فرض ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا ہے۔ اگر ناخن پالش لگی ہو تو فرض پورا نہ ہونے کی وجہ سے وضو نہیں ہوگا کیونکہ نیل پالش لگانے سے ناخنوں کی جلد پر ایک تہہ جم جاتی ہے جس سے پانی ناخنوں تک نہیں پہنچتا۔ لہٰذا فرض ساقط ہونے کے باعث وضو نہ ہوا اور اگر حالتِ جنابت ہو تو اس صور ت میں سارے جسم کا دھونا فرض ہوگا، ناخن پالش کی وجہ سے نہ وضو ہوگا نہ غسل۔ اسی طرح اگر مہندی کی تہہ ناخنوں اور ہاتھوں پاؤں وغیرہ پر جمی ہو تو اس کا اتارنا واجب ہے، مگر مہندی کا رنگ پانی پہنچنے میں مانع نہیں۔ ناخنوں، ہاتھوں وغیرہ پر مہندی کا صرف رنگ ہونے کی صورت پانی جلد تک پہنچ جاتا ہے، اس لیے وضو ہو جاتا ہے۔
جواب: بے وضو کا قرآن حکیم کو ہاتھ لگانا حرام اور ناجائز ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ
الواقعہ، 56: 79
’’اس کو پاک (طہارت والے) لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھوئے گا۔‘‘
البتہ اگر زبانی پڑھ لیا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
جواب: ہاتھ، منہ اور پاؤں کے علاوہ عورت کا تمام بدن جس میں سر کے بال بھی شامل ہیں کا چھپانا فرض ہے۔ وضو کرتے ہوئے اگر عورت کو دیگر لوگ دیکھ رہے ہوں تو اس صورت میں سر پر دوپٹہ اوڑھ کر ہی وضو کرنا ضروری ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی دیکھنے والا نہیں تو پھر بغیر دوپٹہ کے بھی کرسکتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہوگا جیسے غسل کرتے ہوئے بالعموم انسان برہنہ ہوتا ہے مگر اس کا وضو ہو جاتا ہے اور اس سے نماز ادا کرنا صحیح ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved