جواب : اسلام کا لفظ س، ل، م، سَلَمَ سے نکلا ہے۔ اس کے لغوی معانی بچنے، محفوظ رہنے، مصالحت اور امن و سلامتی پانے اور فراہم کرنے کے ہیں۔ حدیث نبوی میں اس لغوی معنی کے لحاظ سے ارشاد ہے :
الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ منْ لِّسَانِه وَيَدِه.
’’بہتر مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب المسلم من سلم المسلمون
من لسانه و يده، 1 : 13، رقم : 10
2. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب : تفاضل الاسلام و ای اموره أفصل، 1 : 65، رقم
: 40
اسی مادہ کے باب اِفعال سے لفظ ’اسلام‘ بنا ہے۔ لغت کی رو سے لفظ اسلام چار معانی پر دلالت کرتا ہے۔
1۔ اسلام کا لغوی معنی خود امن و سکون پانا، دوسرے افراد کو امن و سلامتی دینا اور کسی چیز کی حفاظت کرنا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَهْدِيْ بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَه سُبُلَ السَّلٰمِ.
’’اللہ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے۔‘‘
المائدة، 5 : 16
2۔ ’اسلام‘ کا دوسرا مفہوم ماننا، تسلیم کرنا، جھکنا اور خود سپردگی و اطاعت اختیار کرنا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
اِذْ قَالَ لَه رَبُّه اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَo
’’اور جب ان کے رب نے ان سے فرمایا : (میرے سامنے) گردن جھکا دو، تو عرض کرنے لگے : میں نے سارے جہانوں کے رب کے سامنے سر تسلیم خم کر دیاo‘‘
البقرة، 2 : 131
3۔ ’اسلام‘ میں تیسرا مفہوم صلح و آشتی کا پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا :
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً.
’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘
البقرة، 2 : 208
4۔ اسی طرح ایک بلند و بالا درخت کو بھی عربی لغت میں السّلم کہا جاتا ہے۔
مندرجہ بالا معانی کے لحاظ سے لغوی طور پر اسلام سے مراد امن پانا، سر تسلیم خم کرنا، صلح و آشتی اور بلندی کے ہیں۔
جواب : اسلام کا موضوع انسان کے اعمال و افعال ہیں جن کے علم کو اصطلاحاً ’’علم الفقہ‘‘ کہتے ہیں۔
جواب : دین ایک وسیع اور جامع اصطلاح ہے۔ دین کا معنی ہے : نظامِ زندگی، سیرت، فرمانبرداری، برتاؤ، سلوک اور حساب و احتساب، ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ برتاؤ ہو یا مخلوق کا خالق کے ساتھ معاملہ، ان سب باتوں کو دین کہا جائے گا۔ صیح بخاری میں دین کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے :
اَلدِّيْنُ : الْجَزَاءُ فِي الْخَيْرِ وَ الشَّرِّ.
’’دین خیر اور شر کی جزا کا نام ہے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب التفسير، باب ماجاء فی فاتحة الکتاب، 4 : 1623
قرآن حکیم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا ذکر کیا تو دین کا لفظ استعمال کیا :
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدٰى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَo
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کر دے خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریںo‘‘
یعنی دین اُسی نظام کو کہا جا سکتا ہے جو ہر اعتبار سے کامل و اکمل ہو اور انفرادی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو کو محیط ہو اور ہر شعبۂ حیات میں مؤثر اور قابلِ عمل رہنمائی مہیا کر سکتا ہو۔
الصف، 61 : 9
جواب : عام طور پر دین اور مذہب کو ایک دوسرے کے مترادف تصور کیا جاتا ہے، جبکہ ان دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ دین کل ہے اور کسی بھی نظام کے اصول و ضوابط کا نام ہے۔ نیز دین، دنیا و آخرت کے تمام گوشوں کو محیط ہے اس کے برعکس مذہب جزو ہے جو شرعی عبادات احکامات سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
جواب : اسلام دین ہے مذہب نہیں کیوں کہ دین میں زیادہ وسعت اور جامعیت پائی جاتی ہے۔ قرآن حکیم نے کسی بھی جگہ اسلام کو مذہب نہیں بلکہ ہمیشہ دین ہی قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا :
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ.
’’بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 19
وہ نظامِ حیات جو کمال درجہ جامعیت کی شان کے ساتھ بیک وقت دنیا اور آخرت کو محیط نہ ہو اسے مذہب یا فلسفہ اور نظریہ تو قرار دیا جا سکتا ہے، دین نہیں کہا جا سکتا جبکہ دین اسلام کل ہے جس میں معیشت، معاشرت، سیاست سب شامل ہیں۔ معروف معنوں میں مذہب بندے اور خدا کے اس تعلق کا نام ہے جسے انسان کے دنیوی معاملات سے کوئی سروکار نہیں، اسی لئے ارشاد فرمایا:
اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا.
’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطورِ) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘
المائدة، 5 : 3
جواب : اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسنديدہ دین اسلام ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا :
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ.
’’بیشک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 19
پس اسلام ایک دین ہے اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کیلئے پسند فرمایا ہے جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرے گا تو دنیا و آخرت میں ناکام و نامراد ہو گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُج وَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo
’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘
آل عمران، 3 : 85
جواب : دین کے تین درجے ہیں :
1۔ ایمان 2۔ اسلام 3۔ احسان
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک روز ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہماری محفل میں آیا۔ اس کے کپڑے نہایت سفید، بال گہرے سیاہ تھے، اس پر سفر کے کچھ اثرات نمایاں نہ تھے اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہیں تھا۔ بالآخر وہ شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھٹنے سے گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا اور اس نے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھ لیے اور عرض کیا :
يَا مُحَمَّدُ! أخْبِرْنِيْ عَنِ الْإِسْلَامِ؟
’’اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے بتائیں اسلام کیا ہے؟ ‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلإِسْلَامُ أنْ تَشْهَدَ أنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، وَتُقِيْمَ الصَّلاَة، وَتُؤْتِيَ الزَّکَاةَ، وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيْلاً.
’’(اسلام یہ ہے کہ) تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور یہ کہ تُو نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرے۔‘‘
اس جواب پر اس شخص نے عرض کیا :
صَدَقْتَ.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا۔‘‘
اس نے دوسرا سوال کرتے ہوئے عرض کیا :
أخْبِرْنِی عَنِ الايمان.
’’(یا رسول اللہ!) مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے؟‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا :
أنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلَائِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ.
’’(ایمان یہ ہے کہ) تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔‘‘
اِس پر اُس اجنبی شخص نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق فرمائی اور عرض کیا :
أخْبِرْنِيْ عَنِ الْإِحْسَانِ؟
’’(یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) مجھے احسان کے بارے میں بتائیے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أنْ تَعْبُدَ اللهَ کَأنَّکَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ.
’’(احسان یہ ہے کہ) تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (یہ مقام نہ پانے کے سبب) اسے نہیں دیکھ رہا تو (کم ازکم یہ یقین ہی پیدا کرلے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
اب تیسری بار اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق فرمائی۔ اس شخص کے جانے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : اے عمر! جانتے ہو یہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا : یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔
یہ حدیث مبارکہ دین کے لفظاً اور معناً وہ تین درجات بیان کرتی ہے، جن سے دین مکمل ہوتا ہے۔
1. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الايمان والاسلام
والاحسان، 1 : 37، 38، رقم : 8
2. بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب سوال جبريل، 1 : 27، 28، رقم : 50
جواب : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ : شَهَادَةِ أنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيْتَاءِ الزَّکَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : یہ گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور (بیت اللہ کا) حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب قول النبی صلی الله
عليه وآله وسلم : بنی الإسلام علی خمس، 1 : 12، رقم : 8
2. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب بيان أرکان الإسلام و دعائمه العظام، 1 : 45، رقم
: 16
جواب : شہادتِ توحید سے مراد ہے کہ بندہ دل و زبان سے یہ اقرار کرے کہ اس کائنات کا خالق و مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے، وہ سب پر فائق ہے، وہ کسی کی اولاد ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ کسی اور کے لئے اس سے بڑھ کر عظمت و رفعت اور شان کبریائی کا تصور بھی محال ہے۔ وہی قادرِ مطلق ہے اور کسی کو اس پر کوئی طاقت نہیں۔ اس کا ارادہ اتنا قوی اور غالب ہے کہ اسے کائنات میں سب مل کر بھی مغلوب نہیں کر سکتے۔ اس کی قوتیں اور تصرفات حدِ شمار سے باہر ہیں۔ قرآن حکیم میں ہے :
إِنَّمَا اللهُ إِلَـهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَات وَمَا فِي الأَرْضِ وَكَفَى بِاللهِ وَكِيلاًO
’’بے شک اللہ ہی یکتا معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کیلئے کوئی اولاد ہو، (سب کچھ) اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور اللہ کا کار ساز ہونا کافی ہےo‘‘
النساء، 4 : 171
جواب : شہادتِ توحید کی درج ذیل شرائط ہیں :
1۔ نفی و اثبات پر ایمان رکھنا (اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے کے معبود ہونے کی نفی کر دینا اور صرف اُسی کے معبود ہونے کا اقرار کرنا)۔
2۔ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اقرار نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے کرنا۔
3۔ صرف زبان سے اقرار ہی نہیں بلکہ دل سے سچا جاننا۔
4۔ ظاہر و باطن کو کلماتِ توحید کا پابند بنا لینا۔
5۔ شہادت کو اس طرح قبول کرنا کہ اس کے تمام تقاضے پورے ہو جائیں۔
6۔ اس (شہادت) میں مخلص ہونا۔
7۔ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کسی سے محبت اور عداوت رکھنا۔
جواب : سورۂ اخلاص کو سورۂ توحید اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا ایسا جامع تصور دیا گیا ہے جو قرآن حکیم میں کسی اور مقام پر نہیں۔ اس سورۃ میں توحید کے پانچ بنیادی ارکان بیان کیے گئے ہیں۔ اگر ان پانچ ارکان کو ملا لیا جائے تو عقيدہ توحید مکمل ہو جاتا ہے لیکن اگر ان میں سے ایک رکن کی بھی خلاف ورزی ہو جائے تو عقیدے میں شرک داخل ہو جاتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌo اَللهُ الصَّمَدُo لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْo وَلَمْ يَکُنْ لَّه کُفُوًا اَحَدٌo
’’(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجئے : وہ اللہ ہے جو یکتا ہےo اللہ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہےo نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہےo اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہےo‘‘
الاخلاص، 112 : 1 - 4
یہی عقیدۂ توحید ہے اور ان پانچ صفات میں سے کسی ایک صفت کو بھی اللہ کے سوا کسی اور کے لئے ثابت کرنا شرک ہے۔
جواب : ’’اسلام میں ذکر الٰہی کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جو بندہ ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو خود اللہ رب العزت اسے یاد رکھتا ہے اور ملاء اعلیٰ میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فَاذْکُرُوْنِيْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو‘‘
البقره، 2 : 152
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا کہ اے میرے بندو! میرا ذکر کرو، اگر تم میرا ذکر کروگے تو میں اس کے بدلے میں تمہارا ذکر کروں گا اور یہ ذکر کبھی ختم نہیں ہوگا۔ صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ وَ أنَا مَعَه إِذَا ذَکَرَنِيْ فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُه فِی نَفْسِي، وَ إِنْ ذَکَرَنِی فِي مَلَاءٍ ذَکَرْتُهُ فِی مَلَاءٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَ إِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعاً، وَ إِنْ تَقَرَّبْ إِلَيَّ ذِرَاعًا تُقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَ إِنْ أتَانِيْ يَمْشِيْ أتَيْتُهُ هَرْوَلَةً.
’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اگر وہ مجھے کسی مجمع کے اندر یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر مجمع کے اندر یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے قریب ہوجاتا ہوں، اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دونوں بازؤں کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں، اگر وہ چل کر میری طرف آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اللہ تعالیٰ
ويحذّرکم اللہ نفسه، 6 : 2694، رقم : 6970.
2. مسلم، الصحيح، کتاب الذکر والدعا، باب الحث علی ذکر اللہ تعالیٰ، 4 : 2061، رقم
: 2675
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ ذاکر جب تنہا ذکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کا ذکر تنہا کرتا ہے اور جب وہ زمین پر مخلوق کا اجتماع منعقد کر کے خود بھی ذکر کرتا ہے اور بندوں سے بھی ذکر کرواتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی عرش پر ارواحِ ملائکہ اور انبیاء علیہم السلام کی محفل میں اس کے نام کا ذکر کرتا ہے۔ جس مجلس میں بندہ ذکر کرتا ہے وہ کمتر ہے کیونکہ زمین پر یہ اجتماع ہم جیسے گنہگاروں کا ہے جبکہ عرش پر منعقد ہونے والا مجمع ذکر ملائکہ کاہوتا ہے اور وہ بلند تر ہوتا ہے۔
امام ترمذی نے ابواب الدعوات میں ذکر کی فضیلت میں حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا :
یا رسول اللہ! اسلامی احکام مجھ پر غالب آگئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں، جسے میں انہماک سے کرتا رہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا يَزَالُ لِسَانُکَ رَطَبًا مِنْ ذِکْرِ اللهِ.
’’تیری زبان ذکرِ الٰہی سے ہمیشہ تر رہنی چاہئے۔‘‘
ترمذی، الجامع، أبواب الدعوات، باب ماجاء فی فصل الذکر، 5 : 458، رقم : 3378
جواب : شرک توحید کی مخالفت اور ضد کا نام ہے۔ ایسی قوت، قدرت، ملکہ، صفت اور خاصہ جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خاص ہے، اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے ثابت کرنا شرک کہلاتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو خالق حقیقی جاننا، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے علم و اختیار کو ذاتی سمجھنا، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو عبادت کے لائق سمجھنا یہ سب شرک ہے قرآن حکیم میں ہے:
وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِه شَيْئًا.
’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘
النساء، 4 : 36
جواب : اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے پہلا اور بنیادی رکن شہادتِ توحید و رسالت ہے۔ جس کی رُو سے ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دے اور ساتھ ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا بھی اقرار کرے کیونکہ ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرایمان لا ئے بغیر مجرد توحید باری تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ لغو بے حقیقت اور محض خام خیالی ہے۔
ایمان و اتباع کے باب میں دونوں سے بیک وقت اور ایک ساتھ رشتہ قائم کرنا ہی اسلام کی اصل اور بنیاد ہے اس عقیدے کو دل و دماغ میں راسخ کرنا مبادیاتِ ایمان میں سے ہے۔ ان میں کسی ایک کا بھی انکار کفر ہے۔ نبی آخر الزمان کی بعثت کے بعد اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی واحدانیت پر ایمان لانے سے قبل رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں کیونکہ محض توحید پر ایمان لانا ایمان کی ضمانت فراہم نہیں کرتا، جیسے یہودی توحید پرست تو ہیں لیکن رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکر ہیں اس لئے کافر کہلاتے ہیں۔
جواب : شہادتِ رسالت سے مراد یہ ہے کہ زبان سے اس بات کا اقرار اور دل سے تصدیق کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف انبیاء و رسل بھیجے جو تمام برحق تھے اور ان کی نبوت و رسالت مخصوص زمانوں اور افراد کے لئے تھی، جبکہ سب سے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام جن و انس کی طرف مبعوث کیے گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ابد تک ہمیشہ کے لئے ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo وَدَاعِيًا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًاo
’’اے نبی (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)o‘‘
الاحزاب، 33 : 45، 46
شہادتِ رسالت کے ساتھ درج ذیل امور کی تصدیق کرنا لازمی اور واجب ہے :
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیبی واقعات کے بارے میں دی گئی ان تمام خبروں کی تصدیق کرنا جو گزر چکے ہیں یا آئندہ پیش آنے والے ہیں۔
2۔ ان تمام چیزوں کی تصدیق کرنا جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلال و حرام قرار دیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا.
’’اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو۔‘‘
الحشر، 59 : 7
3۔ جن چیزوں کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا انہیں بجا لانا اور جن امور سے منع فرمایا ان سے رک جانا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی خوشی اور دل جمعی سے اِتباع کرنا اور ظاہر و باطن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو اپنے اوپر واجب کرنا۔ کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ أطَاعَنِيْ فَقَدْ أطَاعَ اللهَ، وَمَنْ عَصَانِيْ فَقَدْ عَصٰی اللهَ.
’’جس نے میری اطاعت کی سو اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی سو اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الاحکام، باب قول اللہ تعالٰی : أطيعوا اللہ و أطيعوا الرسول و أولی الأمر منکم، 6 : 2611، رقم : 6718
انبیاء و رُسل کا مقصدِ بعثت ہی یہ ہے کہ ان کی لائی ہوئی شریعت پر عمل اور ان کی اطاعت کی جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ.
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
النساء، 4 : 64
مذکورہ آیات و احادیث واضح کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت فرض ہے، اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ پر نہیں چلتا، شرعی احکام کی پیروی نہیں کرتا تو وہ شخص اپنے دعویٰ میں سچا نہیں، کیونکہ ایمان بالرسالت اتباع و اطاعتِ رسول کا تقاضا کرتا ہے۔
جواب : شہادتِ رسالت کی درج ذیل شرائط ہیں :
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھنا اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی اور نبی مبعوث نہیں ہوگا۔
2۔ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اقرار نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے کرنا۔
3۔ صرف زبان سے اقرار ہی نہیں بلکہ دل سے سچا جاننا۔
4۔ ظاہر و باطن کو کلماتِ توحید کا پابند بنا لینا۔
5۔ اس شہادت کو اس طرح قبول کرنا کہ اس کے تمام تقاضے پورے ہوں۔
6۔ اس (شہادت) میں مخلص ہونا۔
7۔ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کسی سے محبت اور عداوت رکھنا۔
جواب : ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی سو سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
ارشادِ خداوندی ہے :
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo
’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہےo‘‘
الاحزاب، 33 : 40
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصب رسالت پر۔
قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشارۃً یا کنایتاً عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلہءِ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح لفظوں میں اعلان فرمایا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ.
’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرويا، 4 : 163، باب : ذهبت النبوة، رقم : 2272
اس حدیث پاک سے ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
جواب : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو کوئی بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ملعون اور ابلیس کے ناپاک عزائم کا ترجمان ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی نہ صرف نشاندہی کر دی بلکہ ان کی تعداد بھی بیان فرما دی تھی۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أنّه سَيَکُوْنُ فِيْ أُمَّتِيْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنّه نَبِیٌّ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِيْنَ لَا نَبِيَ بَعْدِيْ.
’’میری امت میں تیس (30) اشخاص کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘
ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب : ماجاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذابون، 4 : 499، رقم : 2219.
اگر کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے خواہ کسی معنی میں ہو۔ وہ کافر، کاذب، مرتد اور خارج اَز اسلام ہے۔ نیز جو شخص اس کے کفر و ارتداد میں شک کرے یا اسے مومن، مجتہد یا مجدد وغیرہ مانے وہ بھی کافر و مرتد اور جہنمی ہے۔
جواب : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا ایک مقبول ترین عمل ہے۔ یہ سنت الٰہیہ ہے اس نسبت سے یہ جہاں شانِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے مثل ہونے کی دلیل ہے وہاں اس عملِ خاص کی فضیلت بھی حسین پیرائے میں اجاگر ہوتی ہے کہ یہ وہ مقدس عملِ ہے جو ہمیشہ کے لئے لازوال، لافانی اور تغیر کے اثرات سے محفوظ ہے کیونکہ نہ خدا کی ذات کیلئے فنا ہے نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کی انتہا۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف خود اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہے بلکہ اس نے فرشتوں اور اہل ایمان کو بھی پابند فرما دیا ہے کہ سب میرے محبوب پر درود و سلام بھیجیں۔
اس لیے قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاo
’’بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیءِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo‘‘
الاحزاب، 33 : 56
اسی طرح درود و سلام کے فضائل اور دینی و دنیوی مقاصد کے حصول میں اس کی برکات مستند روایات سے ثابت ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا آیا اور عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی مجھ پر ایک بار درود شریف پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس امتی پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے دس درجے بلند کرتا ہے اس کے لئے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے۔
نسائی، السنن الکبریٰ، 6 : 21، رقم : 9892
ایک اور مقام پر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
’’میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم میں آپ پر کثرت سے درود شریف پڑھتا ہوں۔ میں کس قدر درود شریف پڑھا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہو اگر زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا ’’نصف‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا چاہو البتہ زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا دو تہائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جتنا زیادہ کرو تو بہتر ہے میں نے عرض کیا۔ میں سارے کا سارا وظیفہ آپ کے لئے کیوں نہ کرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب تیرے غموں کی کفایت ہوگی اور گناہ بخش دیئے جائیں گے۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الزهد، باب ماجاء فی صفة أوانی الحوض، 4 : 245، رقم : 2457
درود و سلام ایک ایسا محبوب و مقبول عمل ہے جس سے گناہ معاف ہوتے ہیں، شفا حاصل ہوتی ہے اور دل و جان کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے پڑھنے والے کے لئے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس و نفیس سلام کے جواب سے مشرف فرماتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ صلوٰۃ و سلام کسی صورت میں اور کسی مرحلہ پر بھی قابلِ رد نہیں بلکہ یہ ایسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ضرور مقبول ہوتا ہے اگر نیک پڑھیں تو درجے بلند ہوتے ہیں اور اگر فاسق و فاجر پڑھے تو نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں بلکہ اس کا پڑھا ہوا درود و سلام بھی قبول ہوتا ہے۔
جواب : جی ہاں! اسلام میں داخل ہونے کی نیت کے ساتھ صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینا ہی کافی ہے۔ مگر زندگی کو مکمل طور پر دائرہ اسلام میں داخل کرنے کیلئے صرف زبان سے اقرار کافی نہیں، اس بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً.
’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘
البقره، 2 : 208
یعنی محض دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے کلمۂ طیبہ کا اقرار شرط ہے اور پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان اور کفر کی جو حدود متعین کر دی ہیں، ان کے اندر رہتے ہوئے پوری زندگی میں ایمان و اسلام کا ایسا مظاہرہ کیا جائے کہ کوئی لمحہ ایسا نہ گزرے جس پر کفر اور منافقت کی چھاپ ہو۔
جواب : کلمہ طیبہ پڑھنے سے انسان دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور اسے ایمان کی دولت میسر آ جاتی ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ میں ہے : آپ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو رہے تھے۔ پس میں تیسری بار حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہو چکے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہے، اسی اعتقاد پر اس کا خاتمہ ہو جائے تو وہ جنت میں جائے گا۔
مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب من مات لا يشرک باللہ شيئًا دخل الجنة و من مات مشرکا دخل النار، 1 : 95، رقم : 94
لیکن اس حدیث میں کلمہ طیبہ پڑھنے سے مراد احوال و اعمال کی اصلاح کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا ہے۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد احوال و اعمال کی اصلاح کو نظرانداز کرنا اللہ کی گرفت کا باعث بنتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلاَ يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًاo
’’جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اور نہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگارo‘‘
النساء، 4 : 123
اگر کسی کلمہ گو شخص نے اپنے گناہوں پر توبہ کی اور اس کی توبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوگئی تو وہ کلمہ گو شخص جنت میں جائے گا۔ یا اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو پھر وہ کلمہ گو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں جائے گا۔
جواب : فقہ کا لغوی معنی ہے : ’’کسی شے کا جاننا اور اُس کی معرفت و فہم حاصل کرنا۔‘‘
قرآن حکیم میں درج ذیل مواقع پر یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے :
ابن منظور، لسان العرب، 13 : 522
1. قَالُوْا يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ کَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ.
’’وہ بولے : اے شعیب! تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں‘‘
هود، 11 : 91
2. قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللهِ فَمَا لِهَـؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًاo
’’آپ فرما دیں (حقیقۃً) سب کچھ اللہ کی طرف سے (ہوتا) ہے۔ پس اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتےo‘‘
النساء، 4 : 78
3. فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَo
’’تو اُن کے دلوں پر مُہر لگا دی گئی سو وہ (کچھ) نہیں سمجھتےo‘‘
المنافقون، 63 : 3
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی فقہ کا لفظ سمجھ بوجھ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ.
’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب العلم، باب من يرد اللہ به خيرا يفقهه
فی الدين، 1 : 39، رقم : 71
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب النهی عن المسألة، 2 : 718، رقم : 1037
اسی لئے شرعی اصطلاح میں فقہ کا لفظ علمِ دین کا فہم حاصل کرنے کے لئے مخصوص ہے۔
ابن منظور، لسان العرب، 13 : 522
امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فقہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
الفقه : معرفة النفس، مَالَهَا وما عليها.
’’فقہ نفس کے حقوق اور فرائض و واجبات جاننے کا نام ہے۔‘‘
الزرکشی، المنثور، 1 : 68
بالعموم فقہاء کرام فقہ کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
العلم بالأحکام الشرعية العملية من أدلتها التفضيلية.
’’(فقہ) شریعت کے وہ فروعی احکام جاننے کا نام ہے جو تفصیلی دلائل سے ماخوذ ہوں۔‘‘
مندرجہ بالا تعریفات واضح کرتی ہیں کہ فقۂ اسلامی سے مراد ایسا علم و فہم ہے جس کے ذریعے قرآن و حدیث کے معانی و اشارات کا علم ہو جائے اور احکامات کی مخصوص دلائل کے ذریعے معرفت حاصل ہو جیسے نماز کی فرضیت کا علم اَقِيْمُو الصَّلٰوۃ کے ذریعے حاصل ہوا، زکوٰۃ کی فرضیت کا علم اٰتُوا الزَّکٰوۃَ کے ذریعے حاصل ہوا۔
جواب : ماخذ کا معنی حاصل کرنے اور پانے کی جگہ یا ذریعہ ہے۔ اسلامی فقہ کے چار بنیادی ذرائع ہیں جہاں سے کوئی فقیہ یا مجتہد مسائل شرعیہ کو اخذ کرتا ہے ان کی ترتیب درج ذیل ہے :
1۔ قرآن حکیم 2۔ سنت 3۔ اجماع 4۔ قیاس
1۔ قرآن حکیم : فقہ اسلامی کا سب سے پہلا ماخذ اور دلیل قرآن حکیم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری الہامی کتاب ہے۔
قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل کرنا دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک مکمل اور جامع کتابِ ہدایت ہے جس میں زندگی کے ہر شعبے کے لئے رہنمائی عطا کی گئی ہے۔ ایک مجتہد یا فَقِیہہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام مسائل کو قرآن حکیم کے بیان کردہ بنیادی اصولوں کے ذریعے حل کرے۔
2۔ سنت : قرآنِ حکیم کے بعد فقہ اسلامی کا دوسرا بنیادی ماخذ سنت ہے۔ اس کا اطلاق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول (جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا)، فعل (جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا) اور ہر اس کام پر ہوتا ہے جس کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت عطا فرمائی۔ اس لحاظ سے سنت کی تین اقسام بنتی ہیں :
1۔ سنت قولی
2۔ سنت فعلی
3۔ سنت تقریری
3۔ اجماع : قرآن و سنت کے بعد فقہ اسلامی کا تیسرا بنیادی ماخذ ’’اِجماع‘‘ ہے۔ اجماع کا لغوی معنی ہے : پکا ارادہ اور اتفاق۔
أبو حبيب، القاموس الفقهی : 66
اصطلاحی طور پر اس کا معنی ہے : کسی زمانے میں اُمت محمدیہ کے مجتہدین کی رائے کا کسی شرعی مسئلے پر متفق ہو جانا۔
ابن عابدين شامی، رد المختار علی الدر المختار، 6 : 762
اجماع قرآن و سنت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر نہیں بلکہ ان سے رہنمائی لے کر کیا جاتا ہے اور جب اجماع کو قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ مضبوط کر دیا جائے تو یہ قطعی حکم بن جاتا ہے جس پر عمل کرنا لازم ہو جاتا ہے۔
4۔ قیاس : قیاس کا لغوی معنی ہے : اندازہ کرنا، کسی شے کو اس کی مثل کی طرف لوٹانا۔ جب کسی ایک شے کے اچھے اور برے دونوں پہلو سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کتاب و سنت میں موجود کسی امر شرعی کے ساتھ کیا جائے اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچا جائے تو یہ عمل قیاس کہلاتا ہے گویا کسی علت یا سبب کو بنیاد بنا کر کسی سابقہ حکم کی روشنی میں نئے مسائل کا حل نکالنا قیاس ہے۔
جواب : اجتہاد کے لغوی معنی ہیں : کسی کام کی انجام دہی میں تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا۔
أبوحبيب، القاموس الفقهی : 71
تو گویا اجتہاد اس کوشش کو کہتے ہیں جو کسی کام کی تکمیل میں مشقت برداشت کرتے ہوئے کی جائے اگر بغیر دقت اور تکلیف کے کوشش ہو گی تو اسے اجتہاد نہیں کہیں گے مثلاً عرب یوں تو کہتے ہیں : فلاں نے بھاری پتھر اٹھانے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں کہتے کہ ’’اجتہد فلان فی حمل خردلۃ‘‘ فلاں نے رائی کا دانہ اٹھانے کی کوشش کی۔
اصطلاحِ شریعت میں ’’قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میں مقررہ شرائط کے مطابق بطریقِ استنباط و استخراج، شرعی احکام اور قوانین کی تشکیل، تجدید، تفصیل، توسیع اور تنفیذ کے لئے ماہرانہ علمی کاوش کا نام اجتہاد ہے۔‘‘
جواب : اسلامی قانون سازی کے عمل میں اجتہاد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے فرمایا :
أقْضِ بالکتابِ والسُنَّةِ، إذا وجدتَهما، فَإِذَا لم تجد الحکم فيهما، اجتهد رأيکَ.
’’جب تم قرآن و سنت میں کوئی حکم پاؤ تو اس کے مطابق فیصلہ کرو، لیکن اگر تم ان میں حکم نہ پا سکو تو اپنی رائے سے اجتہاد کرو۔‘‘
آمدي، الاحکام، 4 : 43
اسی طرح جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا گیا تو ان سے پوچھا : اے معاذ! تم مسائل و مقدمات میں کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا : میں اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : اگر تم اللہ کی کتاب میں نہ پا سکے تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں سنت رسول سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم کتاب و سنت دونوں میں حل نہ پاؤ تو؟ انہوں نے عرض کیا :
أجْتَهِدُ بِرَأيِی وَلَا آلُوْ
’’میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور حقیقت تک پہنچنے میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔‘‘
یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپکا اور فرمایا :
اَلْحَمْدُِللهِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللهِ لِمَا يُرْضِی رَسُوْلَ اللهِ.
’’اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندہ کو اس بات کی توفیق بخشی جو اللہ کے رسول کو خوش کرے۔‘‘
أبوداؤد، السنن، کتاب الأقضية، باب إجتهاد الرأي فی القضاء 3 : 295، رقم : 3592
یہ احادیث واضح کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسائل و معاملات میں اجتہاد پسند فرمایا اور اس کا حکم دیا۔ اسی لئے اجتہاد فقہ اسلامی کا ناگزیر حصہ شمار ہوتا ہے اور ائمہ و فقہاء نے نئے پیش آنے والے مسائل اور ضروریات دین کو اجتہاد ہی کے ذریعے پورا کیا۔
جواب : اسلام ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اگر ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت مل جائے اور وہ اپنے مزاج و منشاء کے مطابق شرعی احکام کے بارے میں فتویٰ صادر کرنے لگے تو شریعت بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گی۔ اس لئے ائمہ و فقہاء نے اجتہاد کی شرائط مقرر کی ہیں اور مجتہد کے لئے مخصوص صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ امام شاطبی نے مجتہد کی بڑی جامع اور مختصر تعریف بیان کی ہے۔
’’اجتہاد کا درجہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو ان دو اوصاف کا حامل ہو پہلا یہ کہ وہ شریعت کے مقاصد کو مکمل طور پر سمجھتا ہو، دوسرا یہ کہ وہ ماخذ شریعت سے احکام استنباط کرنے کی مکمل استطاعت رکھتا ہو۔‘‘
مذکورہ تعریف کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجتہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کی نصوص کا عالم ہو، ان مسائل سے واقف ہو جن پر اجماع ہو چکا ہے، عربی لغت کا ماہر ہو، صرف و نحو اور بیان و معانی پر قدرت رکھتا ہو اور آیات و احادیث کے ناسخ و منسوخ سے آگاہ ہو لہٰذا جب ان تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے اجتہاد کیا جائے گا تو بارگاہِ الٰہی سے تائید و نصرت اور اجر ملے گا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتہاد کرنے والے کے متعلق فرمایا :
إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ اَصَابَ، فَلَه أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَهَدُ ثُمَّ أَخْطَاءَ فَلَهُ أَجْرٌ.
’’جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ دینے میں صحیح اجتہاد کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، اور اگر اس نے اجتہاد میں غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنه، باب أجر الحاکم
إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، 6 : 2676، رقم : 6919
2. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب بيان اجر الحاکم إذا اجتهد، فأصاب أو أخطا 3 :
1342، رقم : 1716
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved