تحریک منہاج القرآن نے اِسلام آباد لانگ مارچ کے ذریعے پاکستانی قوم کو پُراَمن احتجاج کا طریقہ سکھلا دیا ہے۔ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجات اور مظاہروں میں بالعموم بہت زیادہ افرا تفری پھیلائی اور توڑ پھوڑ کی جاتی ہے؛ دھرنا کا لفظ سنتے ہی ایک تباہی کا خاکہ ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے جب کہ بعض اوقات تو قتل و غارت گری بھی ہوتی ہے۔ لیکن تحریک منہاج القرآن کی مثالی و اَمن پسند قیادت کی 32 سالہ جدوجہد اور تربیت کے زیر نظر کارکنان نے احتجاج کی ایسی نظیر قائم کی کہ پاکستان کی پوری تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر رہی ہے۔
عالمی سطح پر پاکستان کو ایک غیر منظم اور نچلے درجے کا ملک تصور کیا جاتا ہے بلکہ گزشتہ ایک دہائی سے تو اس کا image ایک دہشت گرد ملک کا بنتا جارہا ہے جو دہشت گردی کی پیدائش و پرورش کے ساتھ ساتھ دہشت گردی برآمد بھی کرتا ہے۔ عالمی منظر نامے میں پاکستان کی شناخت بداَمن اور غیر منظم و بے ہنگم معاشرے کے طور پر کی جاتی تھی۔ لیکن تحریک منہاج القرآن کے تحت ہونے والے تاریخی لانگ مارچ نے اس تصور کی یک سر تردید کرتے ہوئے اسے جھٹلا دیا ہے۔ لانگ مارچ کے اِعلان کے وقت ہی 23 دسمبر 2012ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے فرمایا تھا کہ ہمارے لانگ مارچ میں کوئی گملا ٹوٹے گا نہ کوئی پتہ گرے گا کیونکہ یہی تحریک منہاج القرآن کی روایت اور ہماری شناخت ہے۔ ہم پُراَمن لوگ ہیں اور ہر طرح کے فتنہ و فساد اور بداَمنی اور دہشت گردی کی ہر سطح پر مذمت کرتے ہیں۔ اور پھر وقت نے گواہی دی کہ لاہور تا اسلام آباد 38 گھنٹے جاری رہنے والے لانگ مارچ اور اِسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مسلسل چار روزہ دھرنہ میں ذرہ بھر بداَمنی یا انتشار نہ پھیلا۔ لانگ مارچ اور دھرنے کے تمام شرکاء انتہائی پُراَمن اور مسلسل صبر و استقامت کے پیکر نظر آئے۔ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کا image بہتر ہوا ہے کہ یہ وہ قوم ہے جو انتہائی منظم اور پُراَمن رہ کر اپنے مطالبات کے حق میں مؤثر آواز اٹھا سکتی ہے۔
اِسلام آباد لانگ مارچ کے ذریعے عوام کی بھرپور طاقت اور قوت کا مظاہرہ بھی ہوا ہے کہ عوامی طاقت کے سامنے کوئی حکمران، کوئی بدخواہ اور کوئی دہشت گرد نہیں ٹھہر سکتا۔ یہی وہ طاقت ہے جس کا مثبت استعمال کرکے ملک سے بدامنی اور فساد انگیزی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور مہذب طریقے سے مطالبات منوائے جاسکتے ہیں۔ صوبائی و وفاقی حکمرانوں کے اوچھے ہتھکنڈوں اور دہشت گردی و موسمی اثرات سے ڈرانے دھمکانے کے باوجود عوام نے اپنے حقوق کی بحالی کے لیے بھرپور یک جہتی کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت کم مثالیں ملتی ہیں کہ حکومت عوام کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوئی ہو۔ یہ بھی اس تاریخی لانگ مارچ کا اثر ہے کہ بلند و بانگ دعوے کرنے والی حکومت ہر طرح کی مذموم کوشش میں ناکامی کے بعد بالآخر عوام کی طاقت کے آگے جھک گئی کیونکہ عوام کے مطالبات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
اِسلام آباد لانگ مارچ کے شرکاء نے نظم و نسق کے لحاظ سے بھی ایک مثال قائم کی ہے۔ لانگ مارچ اور دھرنہ میں کسی بھی مقام پر کوئی بدنظمی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ کھانے کا حصول ہو یا دیگر انسانی ضروریات کی تکمیل، ہر فرد نے انتہائی نظم و نسق کا مظاہرہ کیا اور کسی قسم کی دھکم پیل دیکھنے میں نہیں آئی۔ پاکستان میں تو یہاں تک ہوتا ہے کہ جلسے جلوسوں میں لوگ اپنے لیڈر کی تقریر سننا بھی گوارا نہیں کرتے اور از خود آگے بڑھ کر کھانے کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے چھینا جھپٹی شروع کردیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ رمضان المبارک کے بابرکت ماہ میں افطار کے وقت سے قبل ہی روزے افطار کرلیتے ہیں اور واپس جاتے ہوئے اپنی جماعتوں کی کرسیاں بھی اُٹھا لے جاتے ہیں؛ لیکن لانگ مارچ اور دھرنے میں اس طرح کی بے ہودگی اور بدنظمی کا شائبہ تک نہیں پایا گیا اور اپنے بیگانے سبھی اس حسنِ نظم کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
اِسلام آباد لانگ مارچ کے شرکاء صبر و اِستقامت کا اعلیٰ پیکر نظر آئے۔ انہوں نے لانگ مارچ اور دھرنے میں درپیش آنے والی ہر طرح کی موسمی شدت اور دیگر مشکلات کا پامردی سے سامنا کیا۔ جاڑے کی سخت سردی ہو یا یخ بستہ ہوا، حکومتی اہل کاروں کی طرف سے آپریشن کا خطرہ ہو یا دہشت گردی کا خوف، کوئی بھی شرکاء کے پاے استقلال میں لغزش پیدا نہ کر سکا۔
خواتین پاکستان کی نصف سے زائد آبادی ہیں۔ ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ یہ نصف سے زائد آبادی اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ تحریک منہاج القرآن نے ہمیشہ خواتین کے حقوق کی آواز اٹھائی ہے اور ان کے مؤثر کردار کے لیے انہیں شعور و آگہی دی ہے۔ اگرچہ لانگ مارچ ایک کٹھن اور مشکل مرحلہ تھا اور قائد تحریک نے بیٹیوں کی شمولیت پر قدغن لگائی تھی، تاہم دخترانِ وطن نے اِنقلابی خواتینِ اِسلام کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کرتے ہوئے بصد اصرار لانگ مارچ میں شمولیت کی اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ دھرتی کی بیٹیاں کھلے آسمان تلے شاہراہِ دستور پر دن رات بیٹھی رہیں بلکہ بہت سی خواتین اپنے کم عمر بچوں کے ہمراہ بھی عزمِ مصمم کے ساتھ دھرنے میں شریک رہیں۔ کیونکہ ان کے گھروں میں بجلی تھی نہ پانی تھا، گیس تھی نہ کھانا پینا میسر تھا؛ لہٰذا انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ اپنے حقوق کی خاطر میدانِ عمل میں اترا جائے اور پُراَمن طریقہ سے احتجاج کیا جائے۔ اس طرح خواتین کو اپنے حقوق سے متعلق شعور و آگہی ملی اور ملکی معاملات میں ان کی دل چسپی و مؤثریت کا عظیم منظر بھی قومی و بین الاقوامی سطح پر دیکھا گیا۔
اِسلام آباد لانگ مارچ نے ہر طبقہ زندگی میں بیداری کی لہر پیدا کردی ہے۔ ہر فرد۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک اور طبقہ اور عمر کے کسی بھی حصہ ہو۔ براہِ راست یا بالواسطہ لانگ مارچ میں شریک رہا ہے اور لوگوں کو یہ شعور ملا ہے کہ اپنے حقوق کی بحالی کے لیے ہمیں متحد ہوکر یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ زندگی آگے بڑھ کر چھینی جاتی ہے، طشتری میں رکھ کر کوئی پیش نہیں کرتا۔
اِسلام آباد لانگ مارچ کی کام یابی نے تحریک منہاج القرآن، پاکستان عوامی تحریک اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی قیادت و سیادت کا لوہا بھی منوایا ہے۔ اگر جذبات صادق ہوں اور قیادت اہل اور باکردار ہو تو قوموں کی زندگی میں کوئی بھی مسئلہ مسئلہ نہیں رہتا اور کوئی بھی مشکل مشکل نہیں رہتی۔ اس وقت ملک کی کشتی کو گرداب سے نکال کر ترقی کے سفر پر گام زن کرنے کی اہلیت و صلاحیت اگر کوئی رکھتا ہے تو وہ صرف شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی ذات ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ کسی بھی ملکی و غیر ملکی امداد کے بغیر، ہر طرح کے خطرات سے ڈرائے اور دھمکائے جانے کے باوجود ہر طرح کے لالچ سے بے نیاز رہتے ہوئے ایک عظیم، تاریخی اور کام یاب لانگ مارچ کر کے دکھایا۔ ایک طرف ملک کی تمام سیاسی و مذہبی قیادتیں تھیں جو اپنے ذاتی و جماعتی مفادات کے لیے اکٹھی ہوگئی تھیں اور دوسری طرف حکومتی مشینری تھی جو عوام کا لانگ مارچ روکنے کے لیے ہر طرح کے وسائل اور اوچھے ہتھکنڈوں سے مسلح تھی لیکن شیخ الاسلام نے کمال فہم اور مدبرانہ بصیرت سے عوام کو ان کے حقوق کے لیے نہ صرف مجتمع کیا بلکہ ان کے مطالبات تسلیم کیے جانے تک انہیں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بٹھائے رکھا اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ یہ عزم و ہمت کے پیکر اُس وقت تک وہاں جمے رہے جب تک اربابِ اِختیار عوام کی بات سننے کے لیے ایوان ہاے اِقتدار سے نکل کر خود چل کر شاہراہِ دستور پر نہ آئے۔
موجودہ جمہوری حکومت کی گزشتہ پانچ سالہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کا بڑے سے بڑا مسئلہ ہی کیوں نہ ہو تمام اپوزیشن جماعتوں کا کبھی اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ پاکستان کی داخلی و خارجی سکیورٹی کا مسئلہ ہو دہشت گردی کے خطرات ہوں، بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کا معاملہ ہو یا سرحدوں پر ہونے والی دراندازی درپیش ہو، کسی بھی اَہم قومی ایشو پر ان کا اکٹھ نہیں ہوا۔ لیکن ان کی عوام دشمنی اور اپنے حقوق کے تحفظ کا کیا کہیے کہ ایک دوسرے کو شدید برا بھلا کہنے والی تمام اپوزیشن جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اُس ’جمہوریت‘ کو بچانے کے لیے جمع ہوگئیں جو عوام کی بجائے ان کے اپنے مفادات کی محافظ تھی۔ کاش! یہ مفاد پرست سیاست دان اپنی سیاست و سیادت بچانے کی بجائے ریاست کو بچانے کے لیے متحد ہوجائیں۔
اِسلام آباد لانگ مارچ کو روکنے کے لیے صوبائی و وفاقی حکومتوں کی ساری مشینری برسرپیکار نظر آئی حالانکہ یہ مارچ عوام کے حقوق کا ترجمان تھا۔ حکومتوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ عوامی مسائل پر توجہ مرکوز رکھیں اور دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل حل کریں لیکن انہوں نے سیاسی مارشل لاء لگا رکھا ہے۔ وہ کیسے گوارا کرسکتی تھیں کہ کوئی اپنے حقوق کی بات کرے، کوئی ملکی مفادات کے تحفظ کی بات کرے جس سے ان کے vested interests پر زد پڑے۔ لہٰذا حکومتوں نے اپنے تحفظ اور اقتدار کو بچانے کے لیے تمام تر حکومتی مشینری کو استعمال کیا تاکہ یہ لانگ مارچ نہ ہو۔ لیکن عوام کے عزمِ مصمم کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا اور جب قیادت بھی جرات مند، نڈر، بے باک، صالح اور باکردار ہو تو کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی۔
اسلام آباد لانگ مارچ روکنے کے لیے حکومتی مشینری کے ذریعے بسوں کے مالکان کو ڈرایا دھمکایا گیا؛ بسوں کے رجسٹریشن پیپرز اور ڈرائیورز کے لائسنسز چھین لیے گئے؛ سرکاری اہل کاروں نے ٹرانسپورٹرز کے اڈوں پر جاکر گاڑیاں بند کردینے کی دھمکیاں دیں؛ بسوں کے مالکان کو دہشت گردی کا خوف دلایا گیا بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ اگر دھماکا ہوا تو متعلقہ بس کا مالک اور ڈرائیور و کنڈکٹر ذمہ دار ہوں گے (حالانکہ پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ بیان کبھی نہیں دیا گیا۔ تحریک منہاج القرآن کے کارکنان اور عہدے داران کو ہراساں کیا گیا اور جب ہر طرف سے ناکامی ہوئی تو لانگ مارچ میں شرکت کے لیے جانے والی بسوں کو شاہ راہوں پر روک دیا گیا اور شرکاء کو بسوں سے نیچے اتار دیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ لانگ مارچ کے راستے میں پوری جی ٹی روڈ پر تمام پٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشنز بھی زبردستی بند رکھوائے گئے تاکہ گاڑیوں کے لیے فیول ہی مہیا نہ ہو۔ لیکن بحمدہ تعالیٰ اَربابِ اِقتدار، اپوزیشن اور حاسدین و معاندین کی تمام تر سازشوں کے باوجود لانگ مارچ اتنا کام یاب ہوا کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے ببانگ دہل اس اَمر کا اِعلان کیا کہ اب کرپشن اور لوٹ مار کو ختم کرنا ہوگا ورنہ حکمرانوں کا اپنا خاتمہ ہوجائے گا۔
اسلام آباد لانگ مارچ نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے سیاست دان اور پارٹی رہنما اپنے اپنے ذاتی و جماعتی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں، ملک و قوم کے لیے کام نہیں کرتے۔ جب کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ملک و قوم کی بات کی ہے، انہوں نے عوام کی بات کی ہے، انہوں نے غریبوں کی نمائندگی کی ہے، انہوں نے مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے پیچھے صرف اور صرف عوام تھی؛ کوئی ایجنسی، کوئی حکومت یا غیر جمہوری طاقت ان کی پشت پناہ نہ تھی۔ اس طرح شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری عوامی اتحاد اور قوت کا عظیم مظہر بن کر سامنے آئے کہ جو کسی بھی لالچ اور منصب و اقتدار کی خواہش کے بغیر صرف اور صرف عوام کی خدمت کے لیے میدان عمل میں اترے۔ اُن کا عزم و ہمت، جذبہ و استقامت اور صدق و خلوص اِس اَمر کی غمازی کررہا ہے اگر انہیں خدمت کا موقع دیا گیا تو وطن عزیز ایسی ترقی کرے گا کہ دنیا اسے رشک کی نگاہ سے دیکھے گی۔
اِسلام آباد لانگ مارچ کی نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کے اختتام پر ہونے والے مذاکرات شرکاء کے سامنے مظاہرے کے اندر ہوئے۔ اس سے دو طرح کے پیغامات سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ مجمع واقعی اتنا پُراَمن اور منظم تھا کہ تمام حکومتی جماعتوں کے نمائندگان بلا خوف و خطر اس لاکھوں کے پُرجوش مجمع میں آگئے۔ دوسرا یہ کہ قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنے قول و فعل میں مطابقت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مارچ شروع ہونے سے قبل کہا تھا کہ اب مذاکرات ڈی چوک میں عوام کے سامنے ہوں گے۔ انہوں نے اپنا قول سچ کر دکھایا۔ لانگ مارچ میں بھی عوام کے ساتھ سفر کیا اور دھرنہ میں بھی مسلسل عوام کے ساتھ رہے اور پھر خود کہیں جانے کی بجائے حکومتی نمائندگان کو مذاکرات کے لیے اپنے پاس بلایا۔
ان تمام نکات، حقائق و واقعات اور اَحوال کی روشنی میں وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ بلاشبہ یہ لانگ مارچ ایک عظیم اور تاریخی نوعیت کا حامل ہے اور اس نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایسے دور رس اثرات مرتب کیے ہیں، جن کی پیروی اگرچہ بہت سوں کے لیے مشکل ہوگی لیکن ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہوگا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مارچ ایک trend setter کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس مارچ نے نہ صرف عوام کو اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کا ڈھنگ سکھا دیا ہے بلکہ پوری قوم میں بیداری کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ مارچ حقیقتاً آغازِ اِنقلاب ہے اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی سرزمین پر مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع ہوگا۔ جابر و مستبد اور ظالم حکمرانوں کے ستائے ہوئے عوام اب اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک عدل و اِنصاف اور اَمن و آشتی کا پھریرا لہرا نہیں جاتا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved