اسلام اور جدید سائنس

انسانی زندگی کا حیاتیاتی ارتقاء

اِنسانی زندگی کے حیاتیاتی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی ایک مسلسل اِرتقائی عمل ہے، جس میں واضح طور پر اللہ ربُّ العزت کے نظامِ ربوبیت کی جلوہ آرائیاں نظر آتی ہیں۔ یہ اِرتقائی مرحلے ربوبیتِ الٰہیہ کے فیض سے بطنِ مادر کے نہاں خانوں میں اِس طرح طے پاتے ہیں کہ چشمِ اِنسان کو اُن کا گمان تک بھی نہیں ہو سکتا۔ سائنس صدیوں کی تحقیق کے بعد اُن اِرتقائی مراحل کا کھوج لگانے میں آج کامیاب ہوئی ہے مگر یہ مراحل جس ربِّ کریم کے نظامِ ربوبیت کے مظاہر ہیں وہ آج سے چودہ صدیاں قبل۔۔ ۔ جب سائنسی شعور نے دُنیا میں آنکھ بھی نہیں کھولی تھی۔۔ ۔ واضح طور پر بیان فرما چکا ہے۔ اگر حیاتیاتی اِرتقاء کے اُن مراحل کا جائزہ اِنسانی زندگی میں کارفرما نظامِ ربوبیت کے حوالے سے لیا جائے تو اُس کے 2 دَور معلوم ہوتے ہیں، ایک کا تعلق رحمِ مادر میں خلیاتی تقسیم (celluler division) اور اُس کے نظام کے ساتھ ہے اور دُوسرے کا تعلق جسمانی تشکیل اور اُس کے اِرتقاء کے ساتھ۔

رحمِِ مادر میں خلیاتی تقسیم (Mitotic division in uterus)

اِنسان کے حیاتیاتی اِرتقاء کا پہلا قرآنی اُصول یہ ہے کہ اُس کی تخلیق نفسِ واحدہ سے ہوتی ہے۔ قرآنِ مجید اِس ضابطے کو متعدّد مقامات پر صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

اِرشاد فرمایا گیا :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ.

(النساء، 4 : 1)

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری تخلیق ایک جان (single life cell) سے کی۔

دُوسرے مقام پر اِس کی تصریح اِن الفاظ میں کی گئی ہے :

وَهُوَ الَّذِيَ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ.

(الانعام، 6 : 98)

اور وُہی (اللہ) ہے جس نے تمہاری (حیاتیاتی) نشوونما ایک جان سے کی۔

یہی اُصول سورۃُ الزمر کی آیت نمبر 6 میں بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ سورۂ لقمان میں اِس اُصول کو مزید زور دار انداز میں اِن الفاظ میں واضح کیا گیا ہے :

مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ.

(لقمان، 31 : 28)

تمہیں پیدا کرنا اور تمہیں دوبارہ اُٹھانا بالکل اُسی طرح ہے جیسے ایک جان سے اِنسانی زندگی کا آغاز کیا جانا۔

اُس نفسِ واحدہ کو جدید اِصطلاح میں Zygote یا fertilized ovum کہتے ہیں۔ یہی ایک سیل حیاتِ اِنسانی کے اِرتقاء و نشوونما کے لئے مکمل یونٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اِس حقیقت کا اِشارہ بھی واضح طور پر قرآنِ مجید میں کر دیا گیا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے :

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًاO

(الدهر، 76 : 2)

بیشک ہم نے اِنسان کو مخلوط نطفے (mingled fluid) سے پیدا کیا۔ پھر ہم اُسے مختلف حالتوں میں پلٹتے اور جانچتے ہیں، حتیٰ کہ اُسے سننے دیکھنے والا بنا دیتے ہیںo

اِس آیتِ کریمہ میں نظامِ ربوبیت کے اِس حسنِ انتظام کا بیان ہے کہ ذاتِ حق نے اُسی ایک جان کے اندر بنیادی طور پر مکمل سننے دیکھنے اور سوچنے سمجھنے والا اِنسان بننے کی تمام صلاحیتیں (potentialities) ودِیعت کر دی ہیں۔

نطفۂ اَمشاج (Mingled fluid) کا مفہوم

اِنسان کے حیاتیاتی اِرتقاء کے سلسلے میں دُوسری اہم چیز نطفۂ اَمشاج ہے جس کا تعلق fertilization کے نظام سے ہے۔ اس کا ذکر قرآنِ مجید میں کم وبیش گیارہ مقامات پر کیا گیا ہے۔ اُنہی میں نطفۂ اَمشاج کا بیان بھی آتا ہے۔ قرآنِ حکیم سے fertilizing liquid کے سلسلے میں درج ذیل تفصیلات کا پتہ چلتا ہے :

1۔ منی یُمنٰی (Sperm)

اِس کا بیان قرآنِ حکیم میں اِن الفاظ کے ساتھ آیا ہے :

أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىO ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً.

(القيامه، 75 : 37، 38)

کیا وہ اِبتداءً محض منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکا دیا گیاo پھر وہ لوتھڑا بنا۔

اِس میں نُطْفَۃً مِّنْ مَنِیٍّ یُّمْنٰی سے مراد وہ spermatic liquid یا sperm ہے جو تخلیقِ انسانی کا باعث بنتا ہے۔

2۔ ماء دافق (A liquid poured out)

اِس کا بیان قرآنِ مجید میں اِس طرح ہے :

فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَO خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍO يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِO

(الطارق، 86 : 5 - 7)

پس انسان کو غور (و تحقیق) کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہےo وہ قوت سے اُچھلنے والے پانی (یعنی قوِی اور متحرک مادۂ تولید) میں سے پیدا کیا گیا ہےo جو پیٹھ اور کولہے کی ہڈیوں کے درمیان (پیڑو کے حلقہ میں) سے گزر کر باہر نکلتا ہےo

اُسی جوہر میں اِنسانی تخلیق کی تمام صلاحیتیں رکھی گئی ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ میں صُلْب اور تَرَآئِب دو چیزوں کا ذکر ہے۔ تَرَآئِب، تَرْبِیَۃ کی جمع ہے۔ عربی ادب میں سینے کی ہڈی کو تربیۃ اور سینے کی دائیں اور بائیں طرف کی چار چار پسلیوں کو تَرَآئِب کہتے ہیں۔ اِس لئے مترجمین نے بالعموم اِس کا ترجمہ ’’ماؤں کے سینوں‘‘ کیا ہے۔ مگر دورِ جدید کی تحقیق اور سائنسی اِصطلاح کے مطابق صُلْب کو sacrum اور تَرَآئِب کو symphysis pubis کہا جاتا ہے، جو کولھے کی ہڈیوں کا جوڑ ہے۔

عصرِحاضر کی اناٹومی نے اِس امر کو ثابت کیا ہے جیسا کہ میڈیکل سائنس کی کتابیں بیان کرتی ہیں :

The seminal passage in the plevic cavity lies between the anterior and posterior segments of the pelvic girdle.

مرد کا پانی جو semen پر مشتمل ہوتا ہے اُسی صلب اور ترائب میں سے گزر کر رحمِ مادر کو سیراب کرتا ہے۔ یہ اُصول ساتویں صدی عیسوی میں۔۔ ۔ جب علمِ تشریح الاعضاء (anatomy) کا کوئی وُجود نہ تھا۔۔ ۔ قرآنِ مجید صراحت کے ساتھ بیان کر چکا ہے۔

بہرحال لفظِ ترائب سینوں سے اِستعارہ ہو یا کولھوں کی ہڈیوں کے جوڑ سے، پہلی صورت میں وہ خلیاتی تقسیم سے قبل کے مرحلے کا بیان کرتا ہے اور دُوسری صورت میں سیمنز پر مشتمل مرد کے پانی کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔

3۔ ماء مھین (A despised liquid)

اِس موضوع پر قرآنِ مجید کا اِرشاد ہے :

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِن سُلَالَةٍ مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ.

(السجده، 32 : 8)

پھر اُس کی نسل کو ایک حقیر پانی کے نطفہ سے پیدا کیا جو اس کی غذاؤں کا نچوڑ ہےo

4۔ نطفہ امشاج (Mingled fluid)

اس کا ذکر قرآنِ مجید میں یوں آیا ہے :

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ.

(الدهر، 76 : 2)

بیشک ہم نے اِنسان کو مخلوط نطفے (mingled fluid) سے پیدا کیا۔

نطفۂ اَمشاج کی اِصطلاح سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مادّہ کئی رطوبات کا مرکب اور مجموعہ ہے، اِس لئے قرآنِ مجید نے اُسے مخلوط کہا ہے۔ اِس امر کی تائید بھی عصرِ حاضر کی سائنسی تحقیق نے کر دی ہے۔

سائنسی تحقیق کے مطابق spermatic liquid بعض رطوبات (secretions) سے بنتا ہے، جو درج ذیل غدُودوں (glands) سے آتی ہیں :

1. Testicals
2. Seminal vesicles
3. Prostate glands
4. Glands of urinary tract

خلیاتی تقسیم (Mitotic division)

قرآنِ مجید نے اِس باب میں ربِّ کائنات کے نظامِ ربوبیت کا تیسرا اُصول یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس حیاتیاتی خلئے (fertilized ovum) کو مزید دو حصوں میں تقسیم فرماتا ہے۔ اِسی طرح اُنہیں مزید تقسیم کیا جاتا ہے حتیٰ کہ تمام مردوں اور عورتوں کی تخلیق اِسی خلیاتی تقسیم کے نظام کے تحت عمل میں آتی ہے۔ دورِ جدید کی سائنس نے اِس نظامِ تقسیم کو mitotic division سے تعبیر کیا ہے۔

ارشادِ ایزدی ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً.

(النساء، 4 : 1)

اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جو تمہاری تخلیق ایک جان (single life cell) سے کرتا ہے، پھر اُسی سے اُس کا جوڑ پیدا فرماتا ہے، پھر اُن دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلاتا ہے۔

دُوسرے مقام پر اِرشاد ہوتا ہے :

خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا.

(الزمر، 39 : 6)

اُس (ربّ) نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اُسی میں سے اُس کا جوڑ نکالا۔

اِن آیاتِ کریمہ میں تین اُمور واضح طور پر بیان کر دیئے گئے ہیں :

  1. اِنسانی تخلیق کا نفسِ واحدہ (zygote) سے وُجود میں آنا۔
  2. اُس نفسِ واحدہ کا اِبتداءً دو میں تقسیم ہونا۔
  3. پھر اُن دو cells کا مزید تقسیم ہو کر کثیر تعداد میں پھیلنا، حتیٰ کہ تمام مردوں اور عورتوں کی تخلیق کا یہی ذریعہ بننا۔

یہی mitotic division ہے جو علمُ الحیاتیات کی رُو سے درج ذیل چار مراحل میں سے گزرتی ہے :

1. Prophase
2. Metaphase
3. Anaphase
4. Telophase

یوں اِنسان کی حیاتیاتی زِندگی، عمودی (vertically) اور اُفقی (horizontally) دونوں طرح اِرتقاء پذیر رہتی ہے۔

نفسِ واحدہ (Single life cell) کی اوّلیں تخلیق

یہ امر سائنسی مسلمات میں سے ہے کہ mitosis سے پہلے بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے جسے meiosis کہتے ہیں۔ اُس میں مردانہ اور زنانہ جسیمے (cells) مرد اور عورت کے جسموں میں سے آتے ہیں جو maturity سے پہلے بالترتیب testicular cells اور ovarian cells کہلاتے ہیں۔ یہاں meiosis کے مرحلے میں سے گزرنے کے بعد spermatozoa اور ova کی تشکیل ہوتی ہے اور وہ fertilization کے ذریعے اُس نفسِ واحدہ میں بدلتے ہیں جسے zygote کہا جاتا ہے۔

انڈے کی رحمِ مادر (Uterus) میں منتقلی

جب sperm اور ovum کا ملاپ ہو جاتا ہے تو انڈا رحم (uterus) میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اُسے مرحلے کو implantation of egg کہتے ہیں۔

قرآنِ مجید اُس مرحلے کا ذِکر اِن اَلفاظ میں کرتا ہے :

وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى.

(الحج، 22 : 5)

اور ہم جسے چاہتے ہیں (ماؤں کے) رحموں میں ایک مقررہ مدّت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں۔

یہ انڈا (egg) رحم مادر میں بڑھتا ہے اور اس کی زمین کے اندر جڑوں کی طرح لمبائی میں پھیل جاتا ہے اور رحم کے موٹاپے سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے۔

علقہ (Hanging mass) کی اِبتداء

رحمِ مادر میں پرورش پانے والا نطفہ رحم کے ساتھ معلّق ہو جاتا اور جم جاتا ہے۔ اُس کے معلّق ہونے کی کیفیت کو قرآنِ مجید نے پانچ مختلف مقامات پر عَلَقَۃ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے :

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO

(العلق، 96 : 1، 2)

اپنے رب کے نام سے پڑھیئے جس نے پیدا کیاo اُس نے اِنسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح ’’معلّق وُجود‘‘ سے پیدا کیاo

اِسی طرح دُوسری جگہ اِرشاد ہوتا ہے :

ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍO ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً.

(المومنون، 23 : 13، 14)

پھر ہم نے اُسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحمِ مادر) میں رکھاo پھر ہم نے اس نطفہ کو (رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود بنا دیا۔

عَلَقَۃ کے مندرجہ بالا معنی پر بحث آگے آئے گی۔ اِس وقت صرف اِتنی بات ذِہن نشین کرانا مقصود ہے کہ قرآنِ مجید نے حیاتِ انسانی کے اِرتقاء کے جملہ مرحلوں پر روشنی ڈالی ہے اور اُس وقت اِن حقیقتوں کو بیان کیا جب سائنسی تحقیق اور embryology جیسے سائنسی مضامین کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ کیا یہ سب کچھ قرآن اور اسلام کی صداقت و حقانیت کو تسلیم کرنے کے لئے کافی نہیں؟ آخر ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ قرآن اُس ربّ کی نازل کردہ کتاب ہے جس کے نظامِ ربوبیت کے یہ سب پرتَو ہیں۔ اِس لئے اُس سے بہتر اِن حقائق کو اور کون بیان کر سکتا تھا! بات صرف یہ ہے کہ سائنس جوں جوں چشمِ اِنسانی کے حجابات اُٹھاتی جا رہی ہے قرآنی حقیقتیں توں توں بے نقاب ہو کر سامنے آتی جا رہی ہیں۔

رحمِِ مادر میں اِنسانی وُجود کا اِرتقاء

قرآنِ مجید میں رحمِ مادر کے اندر اِنسانی وُجود کی تشکیل اور اُس کے اِرتقاء کے مختلف مرحلے بیان کئے گئے ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ ربِّ کائنات کا نظامِ ربوبیت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بطنِ مادر کے اندر بھی جلوہ فرما ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی زندگی کے نقطۂ آغاز سے لے کر اُس کی تکمیل اور تولد کے وقت تک پرورش کا ربانی نظام انسان کو مختلف تدرِیجی اور اِرتقائی مرحلوں میں سے گزار کر یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اِنسانی وُجود کی داخلی کائنات ہو یا عالمِ ہست و بود کی خارجی کائنات، ہر جگہ ایک ہی نظامِ ربوبیت یکساں شان اور نظم و اُصول کے ساتھ کارفرما ہے۔ قرآنِ مجید کے بیان کردہ اِن مراحلِ اِرتقاء کی تصدیق بھی آج کی جدید سائنسی تحقیق کے ذرِیعے ہو چکی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

1. وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍO

اور بیشک ہم نے اِنسان کی تخلیق (کی اِبتدا) مٹی کے (کیمیائی اجزا کے) خلاصہ سے فرمائیo

2. ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍO

پھر ہم نے اُسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحمِ مادر) میں رکھاo

3. ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً.

پھر ہم نے اس نطفہ کو (رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود بنا دیا۔

4. فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً.

پھر ہم نے اُس معلّق وُجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے۔

5. فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا.

پھر ہم نے اُس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا۔

6. فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا.

پھر ہم نے اُن ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے۔

7. ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَO

(المومنون، 23 : 12 - 14)

پھر ہم نے اُسے تخلیق کی دُوسری صورت میں (بدل کر تدرِیجاً) نشوونما دی، پھر (اُس) اللہ نے (اُسے) بڑھا کر محکم وُجود بنا دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہےo

ان آیات میں انسانی تشکیل و اِرتقاء کے سات مراحل کا ذِکر ہے۔ جن میں سے پہلے کا تعلق اُس کی کیمیائی تشکیل سے ہے اور بقیہ چھ کا اُس کے بطنِ مادر کے تشکیلی مراحل سے۔ مذکورہ بالا آیات میں بیان کردہ اِنسانی اِرتقاء کے مراحل (developmental stages of human embryo) درج ذیل ہیں :

  1. سُلٰلۃ من طین Extract of clay
  2. نطفہ Spermatic liquid of sperm
  3. علقہ Hanging mass clinging to the endometrium of the uterus
  4. مضغہ Chewed lump of chewed substance
  5. عظام Skeletal system
  6. لحم Muscular system
  7. خلقِ آخَر New creation

پھر اُس تخلیق میں باری تعالیٰ نے نظامِ سماعت کو نظامِ بصارت اور نظامِ عقل و فہم پر مقدّم رکھا ہے۔

اِرشاد فرمایا گیا :

ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَO

(السجده، 32 : 9)

پھر اُسے (اعضائے جسمانی کے تناسب سے) درُست کیا اور اُس میں اپنی طرف سے جان پھونکی اور تمہارے لئے (سننے اور دیکھنے کو) کان اور آنکھیں بنائیں اور (سوچنے سمجھنے کے لئے) دِماغ، مگر تم کم ہی (اِن نعمتوں کی اہمیت اور حقیقت کو سمجھتے ہوئے) شکر بجا لاتے ہوo

اِسی طرح ایک دُوسرے مقام پر اِرشادِ ربانی ہے :

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًاO

(الدهر، 76 : 2)

بیشک ہم نے انسان کو مخلوط نطفے (mingled fluid) سے پیدا کیا۔ پھر ہم اُسے مختلف حالتوں میں پلٹتے اور جانچتے ہیں، حتیٰ کہ اُسے سننے والا (اور) دیکھنے والا (انسان) بنا دیتے ہیںo

یہاں بھی اِس امر کی بخوبی صراحت ہے کہ اِنسانی ایمبریو (embryo) کی نشوونما میں اِنسان کے نظامِ سماعت کو پہلے وُجود میں لایا جاتا ہے اور نظامِ بصارت بعد میں تشکیل پاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں درج اِس تخلیقی عمل کی تصریح اور تائید آج ایمبریالوجی (embryology) کی جدید تحقیق نے کر دی ہے۔ کینیڈا کی ٹورانٹو یونیورسٹی (University of Toronto) میں شعبۂ اناٹومی کے پروفیسر ڈاکٹر کیتھ ایل مُور (Dr Keith L. Moore) اس سلسلے میں رقمطراز ہیں :

Primordium of the internal ears appears before the beginning of the eyes and the brain (the site of understanding) differentiates last. This part of Sura 32 : 9 indicates that special senses of hearing, seeing and feeling develop in this order, which is true.

ترجمہ : ’’کانوں کے اندرونی عضوِیات آنکھوں کی اِبتدا سے پہلے ظاہر ہوتے ہیں اور پھر دِماغ (سمجھنے کی صلاحیت) اُسے ممتاز کرتی ہے۔ سورۃالسجدہ کی آیت نمبر 9 کا یہ حصہ اِس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مخصوص حسِ سامعہ، حسِ باصرہ اور حسِ لامسہ بالترتیب نمو پاتی ہیں، اور یہی حقیقت ہے‘‘۔

تخلیقِ انسانی کے بارے میں یہ وہ سائنسی حقائق ہیں جنہیں قرآنِ مجید آج سے چودہ سوسال پہلے منظرِ عام پر لایا اور آج جدید سائنس نے اُن کی تصدیق وتائید کر دِی ہے۔ اِس سے باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کی عظمتوں اور رِفعتوں کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید کی حقانیت اور نبوتِ محمدی کی صداقت و قطعیت کی ایسی عقلی دلیل بھی میسر آتی ہے جس کا کوئی صاحبِ طبعِ سلیم اِنکار نہیں کر سکتا۔

بطنِ مادر میں اِنسان کے حیاتیاتی نشوونما کے یہ مدارج معلوم کرنے کا باقاعدہ سائنسی نظام سب سے پہلے 1941ء میں سٹریٹر (Streeter) نے اِیجاد کیا جو بعد ازاں 1972ء میں O' Rahilly کے تجویز کردہ نظام کے ذریعے زیادہ بہتر اور صحیح شکل میں بدلا گیا اور اَب اِکیسویں صدی کے آغاز تک یہ نظام مرحلہ وار تحقیق کے بعد بھرپور مستحکم ہو چکا ہے، مگر قرآنِ مجید کا اِسی صحتِ ترتیب کے ساتھ آج سے 14 صدیاں قبل اِن مدارج کو بیان کرنا جس کی تصدیق آج اناٹومی اور ایمبریالوجی کی جدید تحقیقات کے ذریعے ہوئی ہے، ایک ناقابلِ اِنکار معجزہ ہے، جسے غیر مسلم دُنیا بھی اپنے تمام تر تعصبات کے باوُجود تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔

جنین (Embryo) کی بطنِ مادر میں تین پردوں میں تشکیل

اِسی طرح بطنِ مادر میں نظامِ ربوبیت کے محیر العقول کرشموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باری تعالیٰ بچے کی حیاتیاتی تشکیل کے یہ تمام مرحلے ماں کے پیٹ میں تین پردوں کے اندر مکمل فرماتا ہے۔ یہ بچے کی حفاظت کا کس قدر خوشگوار اِہتمام ہے۔

اِرشادِ ربانی ہے :

يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ذَلِكُمُ الله رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُونَO

(الزمر، 39 : 6)

وہ تمہیں ماؤں کے پیٹ میں تاریکیوں کے تین پردوں کے اندر ایک حالت کے بعد دُوسری حالت میں مرحلہ وار تخلیق فرماتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا ربّ (تدرِیجاً پرورش فرمانے والا) ہے۔ اُسی کی بادشاہی (اندر بھی اور باہر بھی) ہے۔ سو اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، پھر تم کہاں بہکے چلے جاتے ہو!o

17ویں صدی عیسوی میں Leeuwen Hook نے خوردبین (microscope) اِیجاد کی۔ صاف ظاہر ہے اِس سے پہلے اندرونِ بطن اُن مخفی حقیقتوں کی صحیح سائنسی تعبیر کس کو معلوم ہو سکتی تھی! آج سائنس اُن پردوں کی حقیقت بھی منظرِ عام پر لے آئی ہے۔ جس کی رُو سے اس امر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ واقعی ہی بطنِ مادر میں بچے کے یہ اِرتقائی مرحلے تین پردوں میں تکمیل پذیر ہوتے ہیں۔ جنہیں قرآنِ مجید نے ظُلُمٰتٍ ثَلاَثٍ (three veils of darkness) کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔

اُن پردوں کے نام یہ ہیں :

1. Anterior abdominal wall
2. Uterine wall
3. Amnio-chorionic membrane

or

Extra-embryonic membranes

قرآنِ مجید نے ظُلُمٰت (veils of darkness) کا لفظ اِستعمال کیا ہے، جو layers کے لئے نہیں بلکہ opacities (تاریکیوں) کے معنی میں مستعمل ہے۔ چونکہ ہر پردے کے اندر مزید کئی تہیں (layers) ہیں، اِس لئے ربِّ کامل نے اُنہیں ظُلُمٰت کے لفظ کے ذرِیعے واضح فرمایا ہے۔ ظُلُمٰتٍ ثَلاَثٍ کی ایک اور متبادل سائنسی تعبیر بھی درج ذیل ہے :

1. Chorion
2. Amnion
3. Amniotic fluid

تاہم ڈاکٹر کیتھ مُور (Dr Keith L. Moore) کی تحقیق کی رُو سے پہلی تعبیر زیادہ صحیح اور مناسبِ حال ہے۔ یہاں اُن کی اصل انگریزی تحریر کا اِقتباس درج کیا جاتا ہے :

Keith L. Moore, Ph D, FIAC

Statements referring to human reproduction and development are scattered throughout the Qur'an. It is only recently that the scientific meaning of some of these verses has been appreciated fully. The long delay in interpreting these verses correctly resulted mainly from inaccurate translations and commentaries, and from a lack of awareness of scientific knowledge.

Interest in explanations of the verses of the Qur'an is not new, people used to ask the Prophet Muhammad all sorts of questions about the meaning of verses referring to human reproduction. The Apostle's answer form the basis of the Hadith literature.

The translations of the verses from the Qur'an which are interpreted in this paper were provided by Sheikh Abdul Majid Zendani, a professor of Islamic Studies in King Abdulaziz University in Jeddah, Saudi Arabia.

"He makes you in the wombs of your mothers, in stages, one after another, in three veils of darkness."

This statement is from sura 39. We do not know when it was realized that human beings underwent development in the uterus (womb), but the first known illustration of a fetus in the uterus was drawn by Leonardo de Vinci in the 15th century. In the 2nd century AD, Galen described the placenta and fetal membranes in his book On the Formation of the Foetus. Consequently, doctors in the 7th century AD likely knew that the human embryo developed in the uterus. It is unlikely that they knew that it developed in stages, even though Aristotle had described the stages of development of the chick embryo in the 4th century BC. The realization that the human embryo develops in stages was not discussed and illustrated until the 15th century.

After the microscope was discovered in the 17th century by Leeuwen Hook, descriptions were made of the early stages of the chick embryo. The staging of human embryos was not described until the 20th century. Streeter (d.1941) developed the first system of staging which has now been replaced by a more accurate system proposed by O'Rahilly (d.1972).

"The three veils of darkness" may refer to : (1) the anterior abdominal wall; (2) the uterine wall; and (3) the amnio-chorionic membrane. Although there are other interpretations of this statement, the one presented here seems the most logical from an embryological point of view.

"Then we placed him as a drop in a place of rest." This statement is from sura 23 : 13. The drop or nutfah has been interpreted as the sperm of spermatozoan, but a more meaningful interpretation would be the zygote which divides to form a blastocyst which is implanted in the uterus (a place of rest). This interpretation is supported by another verse in the Qur'an which states that "a human being is created from a mixed drop." The zygote forms by the union of a mixture of the sperm and the ovum (the mixed drop).

"Then we made the drop into a leech-like structure." This statement is from sura 23 : 14. The word alaqa refers to a leech or bloodsucker. This is an appropriate description of the human embryo from days 7-24 in which it clings to the endometrium of the uterus, in the same way that a leech clings to the skin. Just as the leech derives blood from the host, the human embryo derives blood from the decidua or pregnant endometrium. It is remarkable how much the embryo of 23-24 days resembles a leech. As there were no microscopes of lenses available in the 7th century, doctors would not have known that the human embryo had this leech-like appearance. In the early part of the fourth week, the embryo is just visible to the unaided eye because it is smaller than a kernel of wheat.

"Then of that leech-like structure, We made a chewed lump." This statement is also from sura 23 : 14. The Arabic word Mudghah means chewed substance or chewed lump. Toward the end of the fourth week, the human embryo looks somewhat like a chewed lump of flesh. The chewed appearance results from the somites which resemble teeth marks. The somites represent the beginnings or primordia of the vertebrate.

"Then we made out of the chewed lump, bones and clothed the bones in flesh." This continuation of sura 23 : 14 indicates that out of the chewed lump stage, bones and muscles form. This is in accordance with embryological development. First the bones form as cartilage models and then the muscles (flesh) develop around them from the somatic mesoderm.

"Then we developed out of it another creature." This next part of sura 23 : 14 implies that the bones and muscles result in the formation of another creature. This may refer to the human-like embryo that forms by the end of the eighth week. At this stage it has distinctive human characteristics and possesses the primordia of all the internal and external organs and parts. After the eighth week, the human embryo is called a fetus. This may be the new creature to which the verse refers.

"And He gave you hearing and sight and feeling and understanding." This part of sura 32 : 9 indicates that the special senses of hearing, seeing, and feeling develop in this order, which is true. The primordial of the internal ears appear before the beginning of the eyes, and the brain (the site of understanding) differentiates last.

"Then out of a piece of chewed flesh, partly formed and partly unformed." This part of Sura 22 : 5 seems to indicate that the embryo is composed of both differentiated and undifferentiated tissues. For example, when the cartilage bones are differentiated, the embryonic connective tissue or mesenchyme around them is undifferentiated. It later differentiates into the muscles and ligaments attached to the bones.

"And We cause whom we will to rest in the wombs for an appointed term." This next part of sura 22 : 5 seems to imply that God determines which embryos will remain in the uterus until full term. It is well-knwon that many embryos abort during the first month of development, and that only about 30% of zygotes that form, develop into fetus that survive until birth. This verse has also been interpreted to mean that God determines whether the embryo will develop into a boy or girl, and whether the child will be fair or ugly.

This interpretation of the verses in the Qur'an referring to human development would not have been possible in the 7th century AD, or even a hundred years ago. We can interpret them now because the science of modern embryology affords us new understanding.

Undoubtedly there are other verses in the Qur'an related to human development that will be understood in the future as our knowledge increases.

References :

1. Arey, L.B, Development Anatomy : A textbook and Laboratory Mannual of Embryology, revised 7th ed., Philadelphia, W.B.Sanders Co., 1974.
2. Moore, K.L, The Developing Human Clinically Oriented Embryology, 3rd ed. Philadelphia, W.B. Sanders Co., 1982.
3. Moore, K.L, Highlights of Human Embryology in the Qur'an and the Hadith. Proceedings of the Seventh Saudi Medical Meeting, 1982.
4. Moore, K.L, Before We are Born, Basic Embryology and Birth Defects, 2nd ed., Philadelphia, W.B.Sanders Co, 1983.
5. O' Rahilly, R, Guide to the Staging of Human Embryo
6. Streeter, G.L, Developmental Horizons in Human Embryos.

اِنسانی تکوِین و تشکیل میں حسنِ نظم

اِنسانی جسم کی حیاتیاتی تشکیل میں قدم قدم پر ربوبیتِ الٰہیہ کے حسّی اور معنوِی لاتعداد مظاہر کارفرما ہیں۔ ہر جگہ حسنِ نظم اور حسنِ ترتیب کی آئینہ داری ہے۔ ہر کام اور مرحلے کے لئے مخصوص مدّت اور طریقِ کار متعین ہے۔ ایک مرحلے کے جملہ مقتضیات خود بخود پورے ہو رہے ہیں۔ جو کام اِنسان کے جسمانی پیکر سے بعد میں لیا جانے والا ہے اُس کی تمام تر ضرورتیں رحمِ مادر میں پوری کی جا رہی ہیں۔ ہر مرحلے پر نہ صرف اُن ضرورتوں کی کفالت ہو رہی ہے بلکہ بہرطور اُن کی حفاظت و نگہداشت کے بھی تمام اِنتظامات ساتھ ساتھ ہو رہے ہیں۔ اللہ ربُّ العزت کی شانِ خلّاقیت کا نظارہ اِس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ مکمل اِنسان کے لئے مطلوبہ تمام صلاحیتوں کا جوہر ایک نطفہ کے اندر پیدا کر دیاگیا ہے۔ پھر اُس کے خواص و آثار اور علامات کو اپنے اپنے مقررہ اَوقات پر پورا کر کے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اِس اُصول کو نظامِ ربوبیت کے تحت ’تقدیر‘ کے عنوان سے واضح کیا گیا ہے۔ ’تقدیر‘ کے معنی اَندازہ کرنے کے ہیں، خواہ یہ کسی شے کے وُجود میں ہو یا ظہور میں، کمیّت میں ہو یا کیفیت میں، مدّتِ پرورش میں ہو یا تکمیل میں۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًاO

(الفرقان، 25 : 2)

اور اُسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے، پھر اُس (کی بقا و اِرتقاء کے ہر مرحلہ پر اُس کے خواص، اَفعال اور مدّت الغرض ہر چیز) کو ایک مقرّرہ اندازے پر ٹھہرایا ہےo

باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کے اِس حسنِ تقدیر نے کائنات کے ظاہر وباطن میں ایک عجیب نظم و ترتیب، مطابقت و یگانگت اور توازُن و اِعتدال پیدا کر دیا ہے۔ یہی رنگ ہم بچے کی تشکیل و اِرتقاء کے جملہ مراحل میں کار فرما دیکھتے ہیں۔

اِس خاص موضوع پر اِرشادِ ربانی ہے :

مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُO مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُO ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُO ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُO ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُO

(عبس، 80 : 18 - 22)

اللہ نے اُسے کس چیز سے پیدا فرمایا ہے؟o نطفہ میں سے اُس کو پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اُس کا (خواص و جنس کے لحاظ سے) تعیّن فرما دیاo پھر (تشکیل، اِرتقاء اور تکمیل کے بعد بطنِ مادر سے نکلنے کی) راہ اُس کے لئے آسان فرما دیo پھر اُسے موت دی، پھر اُسے قبر میں دفن کر دیا گیاo پھر جب وہ چاہے گا اُسے (دوبارہ زندہ کر کے) کھڑا کر لے گاo

اِنسانی وُجود کی تکوِین کے چار مراحل

قرآنِ مجید نے اِنسانی تخلیق کے ضمن میں پیش آنے والے چار مراحل کا ذِکر کیا ہے، جو یہ ہیں :

  1. تخلیق Creation
  2. تسوِیہ Arrangement
  3. تقدیر Estimation
  4. ہدایت Guidance

اِن مراحل کا ذِکر سورۃ الاعلیٰ میں یوں کیا گیا ہے :

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَىO الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىO وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىO

(الاعلیٰ، 87 : 1 - 3)

اپنے ربّ کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہےo جس نے (کائنات کی ہر چیز کو) پیدا کیا، پھر اُسے (جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ) درُست توازُن دیاo اور جس نے (ہر ہر چیز کے لئے) قانون مقرّر کیا، پھر (اُسے اپنے اپنے نظام کے مطابق رہنے اور چلنے کا) راستہ بتایاo

ہم دیکھتے ہیں کہ تکوینِ وُجود کے تمام مرحلے نظامِ ربوبیت کی پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ تکمیل پذیر ہوتے ہیں۔ ہر مرحلے کو ایک خاص حکمت و تدبر اور نظم کے ساتھ مکمل کیا جاتا ہے۔

یہ بحث بڑی تفصیل کے ساتھ پہلے گزر چکی ہے کہ کس طرح اِنسانی وُجود نطفے سے باقاعدہ خلق کے مرتبے تک پہنچتا ہے۔ ہر مرحلے میں اُس کی ایک مدّت مقرر ہے جس میں بعض خاص اُمور کی تکمیل ہوتی ہے، پھر اُسے اگلے مرحلے میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔

اِرشادِ الٰہی ہے :

أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍO فَجَعَلْنَاهُ فِي قَرَارٍ مَّكِينٍO إِلَى قَدَرٍ مَّعْلُومٍO فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَO

(المرسلات، 77 : 20 - 23)

کیا ہم نے تمہیں ایک بے قدر پانی سے پیدا نہیں فرمایاo پھر ہم نے اُسے ایک محفوظ جگہ (رحمِ مادر) میں رکھاo ایک معلوم ومعین انداز سے (مدت) تکo پھر ہم نے (اگلے ہر ہر مرحلے کے لئے) اندازہ فرمایا، پس ہم کیا ہی اچھے قادر ہیںo

قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا گیا ہے :

وَهُوَ الَّذِيَ أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَO

(الانعام، 6 : 98)

اور وہی (اللہ) ہے جس نے تمہیں ایک جان (یعنی ایک خلیہ) سے پیدا فرمایا ہے پھر (تمہارے لئے) ایک جائے اقامت (ہے) اور ایک جائے امانت (مراد رحمِ مادر اور دنیا ہے یا دنیا اور قبر ہے)۔ بیشک ہم نے سمجھنے والے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیںo

اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ قابل توجہ ہیں : مُسْتَقَر اور مُسْتَودَع۔

مُسْتَقَرّ : قرار، اِسْتَقَرَّ سے ہے۔

اور مُسْتَوْدَع : ودع، اِسْتَوْدَعَ سے ہے۔

’’مستقر‘‘ میں عارضی طور پر ایک مقام پر ایک حالت میں رہنے کی طرف اِشارہ ہے جبکہ ’’مستودع‘‘ میں وہاں اپنا وقت گزارنے اور اگلی حالت میں منتقل ہونے کی طرف اِشارہ ہے۔ اِنسانی تکوِینِ وُجود کے مرحلۂ تخلیق میں سپرم (sperm) باپ کی پشت سے آتا ہے اور رحمِ مادر کے اندر اووم (ovum) سے اپنا رابطہ قائم کرتا ہے۔

یہاں نظامِ ربوبیت کا کیسا شاندار اِہتمام ہے کہ ایک اوسط درجے کے آدمی کا ایک بار خارج شدہ مادۂ تولید اپنے اندر 40,00,00,000 سپرم (sperm) رکھتا ہے جس سے چالیس کروڑ عورتوں کے حمل واقع ہو سکتے ہیں، مگر نظامِ قدرت کی کرشمہ سازیاں دیکھئے کہ جب پہلا سپرم (sperm) عورت کے رحم میں اووم (ovum) سے پیوست ہوتا ہے تو اُسی وقت اووَم (ovum) پر ایک جھلی (membrane) آ جاتی ہے، جو دُوسرے sperm کو اُس میں داخل ہونے سے روک دیتی ہے۔ اُسے fertilizing membrane کہتے ہیں۔ چنانچہ اُن دونوں کے ملاپ سے تکوینِ وُجودِ انسانی کے کام کا آغاز ہو جاتا ہے، جس کا ذِکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔

بعدازاں مختلف تخلیقی مرحلوں میں سے گزر کر embryo وُجود میں آتا ہے۔ ربِّ کریم کی شانِ پروردگاری دیکھئے کہ اُس کے ہر مرحلے کے لئے خاص مدت مقرر ہے، جس میں بعض تخلیقات وُجود میں آتی ہیں، جن کے اندر تدریجاً اِرتقاء ہوتا رہتا ہے اور وہ embryo یکے بعد دِیگرے مختلف مرحلوں اور حالتوں میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اُس کی حالت میں ہفتہ وار تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اُس کے اعضاء کا تخلیقی اور تکوِینی عمل جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ چھ ہفتے کے بعد بچے کی سی شکل دِکھائی دینے لگتی ہے۔ پھر اُس میں نظامِ اُستخوان (skelton system) اور بعد ازاں گوشت پوست کے ساتھ نظامِ اَعصاب (muscular system) کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ مقامِ خلق کو پا لیتا ہے اور هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ (وہ تمہیں ماؤں کے رحموں کے اندر ہی جسمانی شکل و صورت اور اندازِ ساخت عطا کر دیتا ہے، جیسے وہ چاہتا ہے) کے مراتب اور مدارج سے گزرتا ہوا لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (بیشک ہم نے اِنسان کو بہترین (اِعتدال اور توازُن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے) کی شان کے ساتھ منصہ شہود پر جلوہ گر ہو جاتا ہے۔

قرآنی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحلۂ تقدیر کی رحمِ مادر کے اندر مزید تین قسم کی تفصیلات ہیں :

  1. تعدیل (equalization)
  2. تصویر (personification)
  3. ترکیب (methodical formation)

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِO الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَO فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَO

(الانفطار، 82 : 6 - 8)

اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِّ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیاo جس نے (رحمِ مادر کے اندر ایک نُطفہ میں سے) تجھے پیدا کیا، پھر اُس نے تجھے (اعضاء سازی کے لئے) درُست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایاo جس صورت میں بھی چاہا اُس نے تجھے ترکیب دے دیاo

اِس آیتِ کریمہ میں تخلیق و تسوِیہ کے بعد مذکورہ بالا تینوں مراتب کا ذِکر ہے۔ تعدِیل، تصویر اور ترکیب۔ یہ تمام مرحلۂ تقدیر ہی کی تفصیلات ہیں۔

باری تعالیٰ نے آغازِ حمل سے اِختتامِ ضرورتِ رضاعت تک کا عرصہ بھی مقرر فرما دیا ہے، جو کم از کم 30 ماہ پر مشتمل ہے۔ جس طرح بچہ رحمِ مادر میں پرورش پا کر عالمِ آب و گل میں رہنے کے قابل ہو جائے تو اُسے تولّد کے ذرِیعے دُنیا میں منتقل کر دیا جاتا ہے اِسی طرح بچے کا معدہ عام غذاؤں کو ہضم کرنے کی اِستعداد حاصل کر لے تو تدریجاً ماں کا دُودھ خود بخود خشک ہونے لگتا ہے اور یہ تبدیلی اِس امر کی طرف اِشارہ ہوتا ہے کہ اَب بچے کو رضاعت کی ضرورت نہیں رہی، اُسے دُوسری غذاؤں کی طرف منتقل کیا جائے۔

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا.

(الاحقاف، 46 : 15)

اُس کی ماں نے اُسے تکلیف اٹھا کر پیٹ میں رکھا اور اِس طرح تکلیف سے جنا اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت (کم از کم) تیس ماہ ہے۔

دورانِ حمل نظامِ ربوبیت کے مظاہر

جب تک بچہ رحمِ مادر میں اپنے تشکیلی اور تکوینی مراحل طے کرتا ہے باری تعالیٰ کا نظامِ ربوبیت اُس کی جملہ ضروریات کی کفالت کے ساتھ ساتھ درج ذیل چار اُمور کا بڑے حسن وخوبی سے اِنتظام کرتا ہے۔ اِس کا ایک ایک پہلو ہمیں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی نشانیوں میں غوروفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

1۔ تغذِیہ (Nourishment)

بچے کی نشوونما کے لئے ہر قسم کا ضروری مواد رحمِ مادر میں فراہم ہوتا ہے۔

2۔ حفاظت (Protection)

ماں کو پیش آنے والے جسمانی صدمات اور ضربات وغیرہ کے اثر سے بالعموم اُس کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ اُسے چوٹ نہ آئے۔

3۔ نقل و حرکت (Movement)

رحمِ مادر میں اُس کے مناسبِ حال ضروری نقل و حرکت کا اِنتظام کر دیا جاتا ہے۔

4۔ تکیّفِ حرارت (Control of temperature)

طبی ضرورت کے مطابق رحمِ مادر کے اندر بچے کو مطلوبہ حرارت (temperature) مہیا ہوتی رہتی ہے۔

ماں کے خون میں سے جو مواد بچے کے لئے مفید اور ضروری ہے اُسے خودبخود میسر آتا رہتا ہے اور جو مواد مضر اور نقصان دہ ہو وہ خود بخود ضائع ہو جاتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک خلّاقِ عالم اور قادرِ مطلق کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر یہ سب کچھ ایک نظم و ترتیب کے ساتھ کیسے ممکن ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved