ہر دور میں انسانی علم کا موضوع حقیقت تک رسائی رہا ہے۔ انسان نے اپنے حواس اور عقل سے حقیقت تک پہنچنے کی ہر ممکن جد و جہد بھی کی لیکن وہ ہر موقع پر ناکام ہوا۔ اس لیے کہ وہ محدود اور ناقص ذرائع سے لامحدود حقیقت کو پہچاننے اور اس تک رسائی کی طاقت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس طلب اور علمی تشنگی کو ختم کرنے کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے وحی کی شکل میں حقیقی علم کی نعمت عطا فرمائی اور اس سلسلے کی آخری کڑی حضور نبی اکرم ﷺ پر کائناتِ انسانی کے لیے علم بالوحی پر مشتمل کتاب نازل فرمائی۔ اس حوالے سے قرآن مجید عظمت کی کئی جہات کا حامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے علم بالوحی یعنی قرآن مجید کی اہمیت و فضیلت کے متعلق ارشاد فرمایا ہے:
وَلَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِکِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰی عِلْمٍ هُدًی وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَo
الأعراف، 7: 52
اور بے شک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل (یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
اس آیت کریمہ میں قرآن مجید کو کائناتِ انسانی کے لیے علم و ہدایت اور معرفت و رحمت کے حصول کا ذریعہ بناتے ہوئے قرآنی فضیلت کے درج ذیل تین اہم پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدکو تفصیلی علم کا منبع و سرچشمہ بنایا اور اس کا تعارف کرواتے ہوئے اسے کتابِ علم قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں علم پر تاکید (emphasis) فرمائی کہ آپ ﷺ کے قلبِ اطہر پرنازل ہونے والے کلام کی شان یہ ہے کہ یہ علم پر ایک مفصّل، جامع اور مبسوط کتاب ہے۔ اگر قرآنی الفاظ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فَصَّلْنٰهُ عَلٰی عِلْمٍ فرما کر ایک طرف قرآن مجید کو علم کی کتاب قرار دیتے ہوئے علم کی فضیلت کو بھی آشکار فرما دیا اور دوسری طرف علم پر اسے مفصّل بھی قرار دے دیا۔ گویا دونوں معانی اس کی شان میں شامل ہیں۔
قرآن مجید کو علم کی ایک جامع کتاب قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس آیت کریمہ میں قرآنی علم کی شان بھی بیان کی گئی ہے کہ یہ کتاب جہاں علم عطا کرتی ہے وہاں خود ہدایت کی روشنی سے نوازتی بھی ہے۔ یعنی قرآنی علم انسانیت کو حقیقت تک پہنچاتا ہے۔ اِس علم کے بعد وہم، تشکیک اور ظن ختم ہو جاتا ہے، انسان حقیقی منزلِ علم تک پہنچتا ہے اور یہی حقیقی علم اسے ہدایت کا نور عطا فرماتا ہے۔ معلوم ہوا کہ وہی علم معتبر، معتمد اور حاصل کئے جانے کے قابل ہے جو انسان کو ہدایت عطا کرے۔ علم اور ہدایت کو باہم متعلق کر دیا گیا کہ جس علم سے ہدایت نہ ملے وہ علم بے کار ہے اور علمِ نافع نہیں ہے۔ نیز ہدایت کے لیے بھی لازم ہے کہ علمِ صحیح میسر آئے۔
دنیاوی علم کا بھی ایک اصول ہے خواہ وہ سائنس کا علم ہو یا ٹیکنالوجی، آرٹس، social sciences، human sciences، space sciences، medical sciences؛ الغرض کوئی بھی دنیاوی علم ہو، اگر وہ علم ہمیں ایک خاص منزل، شعور اور معرفت عطا نہ کرے تو علم کا وہ سارا عمل (process) بے کار ہے۔ اگر دنیاوی علوم کے لیے اصول ہے کہ اُن سے بھی اُن کا مقصود حاصل ہو تو وہ علم جو علمِ کامل، علمِ نافع اور قرآنی علم ہے، کس طرح ممکن ہے کہ وہ سراپا ہدایت نہ ہو۔ جب دنیاوی علوم دنیا کے امور میں خاص مقاصد اور منزل کا شعور دیتے ہیں تو قرآنی علم انسان کو وہ ہدایت دیتا ہے جو بندے کو اللہ کی معرفت عطا کر دے۔
ہدایت اور علم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر بات ہدایت سے علم کی طرف کی جائے تو پھر معنیٰ یہ ہے کہ ہدایت علم سے ہی ملتی ہے۔ ہدایت کے طلب گار اگر قیاس آرائیوں، اپنی ذاتی رائے، عقل کے گھوڑے دوڑانے اور اپنے گمان کی کوشش سے ہدایت چاہیں گے تو ایسا ممکن ہی نہیں۔ ہدایت کے لیے علمِ کامل، علمِ نافع، علمِ صحیح میسر ہو، تب جا کر ہدایت ملتی ہے۔ اگر بات علم سے ہدایت کی طرف کی جائے تو پھر معنی یہ ہے کہ علم کے لیے لازمی ہے کہ وہ صحیح ہو، تبھی اس کا نتیجہ ہدایت کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ گویا ہدایت کے لیے لازمی ہے کہ اس کے حصول کے لیے علم کی شرط پوری ہو اور اسی علم کا صلہ بصورتِ ہدایت میسر آئے گا جو علم، علمِ صحیح ہوگا۔
قرآنی علم کی تیسری شان یہ ہے کہ یہ علم اور ہدایت کے ساتھ ساتھ رحمت بھی عطا کرتا ہے۔ جب قرآنی علم سے انسان ہدایت کے نور تک پہنچتا ہے تو پھر قرآن مجید اُس کے لیے رحمت بن جاتا ہے۔ قرآن مجید کے انسانیت کے لیے رحمت ہونے کے متعلق ایک اور جگہ ارشاد گرامی ہے:
وَنُـنَـزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.
بني إسرائیل، 17: 82
اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔
مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ سے عظمتِ قرآن کی تین جہات قرآن کا کتابِ علم ہونا، قرآنی علم کا سراپا ہدایت ہونا اور قرآنی علم کا باعثِ رحمت ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ علم کی اہمیت اور فضیلت کا تذکرہ فرمایا اور خصوصاً بنیادی فرائض کے علم کے حصول کو مسلمانوں پر فرض اور لازم ٹھہرایا ہے۔ جبکہ دینی علوم میں تخصّص اور مہارت و پختگی کے حصول کو فرضِ کفایہ قرار دیا ہے۔
سورۃ التوبہ میں ارشاد فرمایا:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّةً ط فَلَوْلَا نَفَرَمِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَo
التوبة، 9: 122
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔
اس قدر بنیادی ضرورت کے علم کا حصول فرضِ عین ہے جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی توحید کا علم میسر آئے، حضور نبی اکرم ﷺ کے خاتم النبیین ﷺ ہونے کا علم ہو، آخرت کا پتہ چلے، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کے بنیادی فرائض معلوم ہوں۔ اس فرض کا تارک گناہ گار ہوگا۔ اس قدر بنیادی علم کے حصول میں کہیں بھی رہنے والے کسی بھی شخص کو کوئی رعایت و معافی نہیں ہے۔
یہ اسلام کے آسانی اور رحمت پر مبنی ہونے کا ایک اظہار ہے کہ الله تعالیٰ نے بنیادی دینی علم کے حصول کو تو ہر ایک پر فرض قرار دیا مگر علومِ دین میں بالتفصیل فہم و بصیرت حاصل کرنے، ماہر ہونے اور اس میں تخصّص حاصل کرنے کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے مومنین پر فرضِ عین قرار نہیں دیا۔ اس لیے کہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ تمام مسلمان جملہ دنیوی معاملات اور ذمہ داریوں کو خیرباد کہتے ہوئے دینی علوم میں ماہر بننے اور دین میں تخصّص (specialization) کرنے لگ جائیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایسے ناقابلِ عمل اور ناممکنات امر کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ فرمایا:
فَلَوْ لَانَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ.
التوبة، 9: 122
ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں۔
یعنی معاشرے کے ہر گروہ، طبقہ اور ہر قبیلے میں سے ایک جماعت حصولِ علم میں کمال پانے اور دین میں تفقہ اور دینی علوم میں معرفت و بصیرتِ تامہ حاصل کرنے کے لیے ضرور نکلے۔
مذکورہ آیت کریمہ میں دینی علوم کا حصول اور اس میں تفقہ اور دین کی گہری سمجھ بوجھ حاصل کرنے کو فرض قرار دیا گیا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے ہر شخص (every single individual) کے لیے اسے لازم نہیں قرار دیا بلکہ فرمایا کہ ہر ایک کے لیے دین میں تفقہ حاصل کرنا ممکن نہیں، لہٰذا معاشرے میں سے ایک طبقہ ایسا ہو جو اس حوالے سے اس فریضہ کی تکمیل کرے۔ اس آیت کریمہ کے ان دو حصوں کے ربط سے ثابت ہوگیا کہ تفقہ فی الدین یعنی علمِ دین میں مہارت کا حصول فرضِ عین نہیں بلکہ فرضِ کفایہ ہے۔
اگر معاشرے کے کچھ لوگ علمِ دین میں مہارت حاصل کر لیں تو سب کی طرف سے یہ فرض ادا ہو جائے گا۔ جیسے نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے۔ اگر کچھ لوگ پڑھ لیں تو سب کی طرف سے فرض کی ادائیگی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف بھی سنتِ کفایہ ہے۔ اگر محلے کے کچھ لوگ مسجد میں اعتکاف بیٹھ گئے تو وہ سنت پورے محلے کی طرف سے ادا ہو جائے گی اور بقیہ اَہلِ محلہ کے ذمہ گناہ نہیں رہے گا۔
اگر کوئی معاشرہ ایسا ہے کہ اس کا کوئی گھرانہ بھی اپنے بچوں کو دین کے لیے مختص نہیں کرنا چاہتا بلکہ ہر شخص دنیاوی علوم میں لگا ہوا ہے اور التفقہ فی الدین کے لیے کوئی اپنے بچے کو وقف نہیں کر رہا تو قرآن مجید نے واضح کر دیا کہ پورا معاشرہ فرض کے تارک ہونے کی بناء پر گناہ گار ہوگا اور اس پر سخت مواخذہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے علم دین میں تخصّص کے مقاصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَo
التوبة، 9: 122
اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔
یعنی اگرکچھ لوگ علمِ دین میں تخصّص (specialization) کر لیں گے اور صاحبانِ بصیرت بننے کے بعد جب پلٹ کر اپنے علاقوں میں آئیں گے تو اب اُن کی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ اپنی قوم کو دوزخ کے عذاب سے ڈرائیں، آخرت کا خوف دلائیں، اللہ کی طرف راغب کریں، ان کو گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے بچائیں، گناہ و بدی اور ثواب و نیکی کے بارے میں آگاہی دیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول اور ناپسندیدہ کاموں کے مابین فرق بتائیں۔ الغرض لوگوں کو فہم و بصیرت دینا اور راہ راست پر لانا علم دین میں تخصّص کے مقاصد میں سے اہم ترین مقصد ہے۔
اِس آیت کریمہ سے بھی دیگر آیات کی طرح واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک علم وہی صحیح، معتبر اور مقبول ہے جس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت نصیب ہو۔ جو علم صاحبِ علم اور متعلمین و طالبانِ علم ( جسے پہنچایا جا رہا ہے) دونوں کے لیے ہدایت کا باعث نہ بنے تو وہ علم بے کار ہے۔ ایسا شخص یہ سمجھے کہ گویا اس نے علمِ صحیح حاصل ہی نہیں کیا۔
معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ نے لِیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ کے الفاظ کے ذریعے دو مقاصد بیان فرما دیئے کہ لوگ دین میں تفقہ حاصل کریں اور اس معرفت کے حصول کے بعد لوگوں کی ہدایت کا سامان مہیا کریں۔ ان دونوں احکام کو لامِ تعلیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے یعنی اس کی علّت اور سبب بیان کیا جا رہا ہے۔ گویا علم کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ وہ محرومِ ہدایت لوگوں کو رُشد و ہدایت سے نوازتا ہے۔
قرآنی علم ہمیں ہدایت اور رحمت کے حصول کی ضمانت عطا کرتا ہے لیکن کیا قرآن ہر ایک کو ہدایت عطا کرتا ہے؟ کیا قرآن مجید سے علمِ ہدایت اور رحمت پانے کے کچھ تقاضے بھی ہیں؟ آئیے اسے سمجھنے کے لیے ہم سورۃ البقرہ کی پہلی آیات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
الٓمّٓo ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَ ج فِیْهِ ج هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo
البقرة، 2: 1-2
الف لام میم (حقیقی معنی الله اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)۔ (یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں پہلے قرآن کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کتاب منبعِ علم ہے اور اس میں کوئی رَیب و شک نہیں ہے۔ یہ کتاب حق سے آشنا کراتی ہے۔ جس طبیعت، من، روح اور دل پر یہ کتاب اور اس کے انوار وارد ہو جائیں، اس سے شک کی گرد کو نکال دیتی ہے اور اس میں تشکیک و شبہات کا اندھیرا نہیں رہنے دیتی۔
اس کے بعد آیت کریمہ نے دوسرے سوال کی وضاحت کر دی کہ یہ کتاب کن لوگوں کو ہدایت عطا کرتی ہے۔ فرمایا:
هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo
(یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔
یعنی اس کتاب سے ہدایت ان ہی کو میسر آئے گی جو صاحبانِ تقویٰ ہوں گے۔
آئیے! اب ہم اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ تقویٰ کیا ہے؟
تقوی، ہدایت اور خوف کی درمیانی منزل ہے
تقویٰ کا لفظ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ تقویٰ کا معنی سمجھنے کے لیے ہمیں انسانی زندگی کی دو کیفیات کو سمجھنا ہوگا:
1۔ ایک ایسا بے خوف شخص جو پے در پے گناہ، بے حیائی، ظلم اور نافرمانیوں کا مرتکب ہو رہا ہے اور اسے احساس و فکر ہی نہیں ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں اور میرا انجام کیا ہوگا؟
2۔ دوسری کیفیت یہ ہے کہ کسی کو شعور مل جائے اور وہ دیکھ لے کہ میں تو بڑی بربادی و ہلاکت میں ہوں، میرا انجام تو بہت برا ہوگا، میں نے خسارے کا سودا کیا ہے۔ جب یہ احساس اُسے ہونے لگے، آلودہ زندگی کے انجام اور اُخروی ہلاکت و بربادی کا خیال دل میں آئے تو اس کے نتیجے میں اس کے اندر خیر کی طرف توجہ اور توبہ کی طلب پیدا ہو جائے گی۔ اُسے یہ احساس ستانے لگے گا کہ میں گناہوں کی اس زندگی سے کنارہ کشی اختیار کروں۔ طبیعت میں اس تبدیلی، ہیجان، تڑپ اور طلب کا پیدا ہونا تقویٰ کہلاتا ہے۔
لہٰذا یہ امر واضح ہو گیا کہ قرآن مجید ہر پڑھنے والے، بحث و مناظرہ کرنے والے اور دِل کی گہرائیوں کے بجائے صرف حلق سے پڑھنے والے کے لیے ہدایت کا باعث نہیں ہوگا۔ وہ شخص جو اُسے اپنی ذاتی آراء، خواہشات، دشمن کے ساتھ لڑنے اور اسے دلائل کے لیے استعمال کرے، اس کے لیے یہ کتاب ہدایت کا باعث نہیں ہوگی۔ بلکہ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کے مصداق وہ لوگ جو اپنی موجودہ پس ماندگی اور گناہوں کی زندگی کا انجام دیکھ کے ڈر گئے، یہ اُن کے لئے ہدایت ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کے اندر ایک خوف اور تڑپ پیدا ہوگئی اور اس تڑپ نے ان کے اندر ایک طلب اور رغبت پیدا کر دی کہ یہ ہم کیا کر بیٹھے ہیں؟ ہمیں اب راستہ بدلنا ہے، ہمیں حق کی طرف جانا ہے، ہمیں رجوع اِلی الله کرنا ہے۔ جن کی طلب اور تڑپ اس طرح صادق ہوگئی اور جو اخلاص کے ساتھ اس امر کی طرف متوجہ ہوگیا کہ میں ہدایت لوں، مجھے کوئی ہدایت دے تاکہ میں ـتاریک رات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر اُجالوں کی طرف سفر کا آغاز کروں، میں گناہوں کی آلودہ زندگی چھوڑ کر اس کی اطاعت و پیروی اختیار کروں، اللہ کی دوری چھوڑ کر اس کی قربت کا راستہ تلاش کروں، دوزخ کے اِمکانات سے نکل کر جنت کے اِمکانات کو اپنے لیے روشن کروں۔ جس بندے کے اندر یہ طلب پیدا ہوگئی، وہی متقی ہے اور ایسی ہی سچی طلب کرنے والوں کے لیے قرآن ہدایت ہے۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ قرآن ہر ایک کی جھولی میں ہدایت نہیں ڈال دیتا بلکہ اپنے پڑھنے والے کے دل کو دیکھتا ہے کہ کیا اس کے باطن میں حصولِ ہدایت کی سچی تڑپ ہے اور یہ ہدایت و رحمت کے حصول کے کتنے تقاضے پورے کرتا ہے؟ اگر تقاضے پورے کیے ہوں، طلب اور تڑپ سچی ہو تو پھر قرآن اسے ہدایت کی دولت سے نوازتا ہے۔ قرآنِ مجید نے نہ صرف متقین کے لئے اپنا ہدایت ہونا بیان فرمایا بلکہ ہدایت یافتہ اور متقین کی علامات بھی بیان کر دی ہیں۔ ارشاد فرمایا:
اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَo
البقرة، 2: 3
جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے معیار، تقاضے اور پیمانے بھی بیان فرما دیے۔ ان تقاضوں سے واضح ہوتا ہے کہ کس میں ہدایت کے لیے کتنی سچی طلب اور تڑپ ہے۔ الغرض پورے قرآن مجید میں ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو علم کا نتیجہ قرار دیا اور علم کو قرآن کے ساتھ جوڑا ہے۔ گویا علمِ قرآنی کو ہدایت کے حصول کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو معجزات عطا فرمائے جن کے ذریعے انہوں نے انسانی عقل کو عاجز کیا اور خالق کائنات کی وحدانیت اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو سراپا معجزہ بنایا۔ حضور نبی اکرم ﷺ معراج پر گئے، آپ ﷺ نے چاند کو دو ٹکڑے کیا، ڈوبے سورج کو واپس پلٹایا، مُردے زندہ فرمائے، آپ ﷺ کے ہاتھوں میں پتھر بھی بول اٹھے۔ یہ سب کچھ ہوا مگر تمام معجزات میں آقا ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے۔ قرآنِ حکیم کے بعد آپ ﷺ کا دوسرا بڑا معجزہ معراج ہے جس کا ذکر قرآن نے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے جب بھی کفار ومنکرین کو چیلنج کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ کے عالمِ خارج کے بے شمار معجزات میں سے کسی بھی حسی معجزے کے ساتھ چیلنج نہیں کیا بلکہ فرمایا:
قُلْ فَاْتُوْا بِکِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللهِ هُوَ اَهْدٰی مِنْهُمَآ اَتَّبِعْهُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo
القصص، 28: 49
آپ فرما دیں کہ تم اللہ کے حضور سے کوئی (اور) کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو (تو) میں اس کی پیروی کروں گا اگر تم (اپنے الزامات میں) سچے ہو۔
کفار اس چیلنج کا جواب دینے سے عاجز آ گئے تو پھر چیلنج کیا کہ اگر تمہیں شک ہے کہ میرا محبوب جو کلام لے کر آیا ہے، یہ حق نہیں تو پھر اس جیسی دس سورتیں ہی لے آؤ۔ ارشاد فرمایا:
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰهُ ط قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo
هود، 11: 13
کیا کفار یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے، فرما دیجیے: تم (بھی) اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور الله کے سوا (اپنی مدد کے لیے) جسے بھی بلا سکتے ہو بلالو اگر تم سچے ہو۔
پھر تیسری بار چیلنج کیا اور فرمایا: چلو ایک سورت ہی لے آؤ:
اَمْ یَقُوْلُوَنَ افْتَرٰهُ ط قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo
یونس، 10: 38
کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے رسول (ﷺ) نے خود گھڑ لیا ہے، آپ فرما دیجیے: پھر تم اس کی مثل کوئی (ایک) سورت لے آؤ، (اور اپنی مدد کے لیے) اللہ کے سوا جنہیں تم بلا سکتے ہو بلا لو، اگر تم سچے ہو۔
سورۃ البقرۃ میں بھی یہی چیلنج دیا۔ فرمایا:
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ.
البقرة، 2: 23
اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔
الغرض تین بار چیلنج کیا اور تینوں بار قرآن کی مثل کلام بنا نے کا چیلنج دیا۔
قرآن مجید کی سب سے بڑی شان اس کا مفصّلِ علم ہونا ہے۔ ارشاد گرامی ہے:
وَلَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِکِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰی عِلْمٍ هُدًی وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَo
الأعراف، 7: 52
اور بے شک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصّل(یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
یعنی وہ لوگ جو آپ ﷺ اور اس کتاب قرآن کے منکر ہیں اور اس بارے شک میں مبتلا ہیں، آپ ﷺ کی نبوت اور قرآن کی حقانیت پر ثبوت مانگتے ہیں، ان کے لیے الله تعالیٰ نے قرآن کو علم کی مفصل کتاب بنا کر دلیل بنایا کہ یہ اس قدر عظیم کتاب ہے کہ اس جیسی ایک سورۃ بنانا بھی ساری انسانیت کے لیے ممکن نہیں ہے۔ قرآن مجید کے مفصلِ علم ہونے پر اس کی متعدد آیات شاہد ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1. تَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْئٍ.
الأعراف، 7: 145
ہر ایک چیز کی تفصیل لکھ دی (ہے)۔
2۔ سورۃ النحل میں قرآن مجید کے بیان کی وسعت کے بارے میں ارشاد فرمایا:
تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ.
النحل، 16: 89
ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔
3۔ سورۃ الانعام میں قرآنی علوم کی وسعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
لَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍo
الأنعام، 6: 59
نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔
4۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعے انسان کو علم مفصل عطا کرتے ہوئے فرمایا:
اَلرَّحْمٰنُo عَلَّمَ الْقُرْاٰنَo خَلَقَ الْاِنْسَانَo عَلَّمَهُ الْبَیَانَo
الرحمن، 55: 1-4
(وہ) رحمن ہی ہے۔ جس نے (خود رسولِ عربی ﷺ کو) قرآن سکھا یا۔ اُسی نے (اِس کامل) انسان کو پیدا فرمایاo اُسی نے اِسے (یعنی نبیِ برحق ﷺ کو مَا کَانَ وَمَا یَکُون کا) بیان سکھایا۔
5۔ اسی طرح قرآن مجید کی پہلی وحی میں حضور نبی اکرم ﷺ کو علم عطا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍo اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْo
العلق، 96: 1-5
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
یعنی قرآن مجید رسول الله ﷺ کی نبوت کی صداقت کا سب سے بڑا معجزہ ہے اور قرآن کے معجزہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل اور شان اس کا مفصّلِ علم ہونا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو علم کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور ہر نبی کو علم کے ذریعے ہی اس کی اُمت پر فضیلت اور مقام و مرتبہ عطا فرمایا:
1۔ سیدنا آدم علیہ السلام کی فضیلتِ علم کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَةِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰٓؤُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo قَـالُوْا سُبْحٰنَکَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُo قَالَ یٰـاٰدَمُ اَنْبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ ج فَـلَمَّآ اَنْبَاَهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّـکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لا وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَo
البقرة، 2: 31-33
اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔ فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بے شک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے۔ اللہ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم (علیہ السلام) نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔
2۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی فضیلتِ علم کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
فَفَهَمْنٰهَا سُلَیْمٰنَ ج وَکُلًّا اٰ تَیْنَا حُکْمًا وَّعِلْمًا.
الأنبیاء، 21: 79
چنانچہ ہم ہی نے سلیمان (علیہ السلام) کو وہ (فیصلہ کرنے کا طریقہ) سکھایا تھا اور ہم نے ان سب کو حکمت اور علم سے نوازا تھا۔
3۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی فضیلتِ علم کو مشترکہ طور پر یوں بیان فرمایا:
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ عِلْمًا ج وَقَالَا الْحَمْدُ ِللهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَo
النمل، 27 : 15
اور بے شک ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو (غیر معمولی) علم عطا کیا، اور دونوں نے کہا کہ ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے۔
4۔ حضرت نوح علیہ السلام کی فضیلتِ علم کے حوالے سے قرآن حکیم فرماتا ہے:
اُبَـلِّـغُـکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنْصَحُ لَکُمْ وَاَعْلَمُ مِنَ اللهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo
الأعراف، 7: 62
میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا رہا ہوں اور تمہیں نصیحت کر رہا ہوں اور الله کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
قَالَ وَمَا عِلْمِیْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo
الشعراء، 26: 112
(نوح علیہ السلام نے) فرمایا: میرے علم کو ان کے (پیشہ وارانہ) کاموں سے کیا سروکار؟۔
5۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلتِ علم کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ تَمَامًا عَلَی الَّذِیْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِیْـلًا لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّهُدًی وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَo
الأنعام، 6: 154
پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی اس شخص پر (نعمت) پوری کرنے کے لیے جو نیکوکار بنے اور (اسے) ہر چیز کی تفصیل اور ہدایت اور رحمت بنا کر (اتارا) تاکہ وہ (لوگ قیامت کے دن) اپنے رب سے ملاقات پر ایمان لائیں۔
6۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْکَ وَعَلٰٓی اٰلِ یَعْقُوْبَ کَمَآ اَتَمَّهَا عَلٰٓی اَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِیْمَ وَاِسْحٰقَ ط اِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo
یوسف، 12: 6
اسی طرح تمہارا رب تمہیں (بزرگی کے لیے) منتخب فرما لے گا اور تمہیں باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی خوابوں کی تعبیر کا علم) سکھائے گا اور تم پر اور اولادِ یعقوب پر اپنی نعمت تمام فرمائے گا جیسا کہ اس نے اس سے قبل تمہارے دونوں باپ (یعنی پردادا اور دادا) ابراہیم اور اسحاق (علیہما السلام ) پر تمام فرمائی تھی۔ بے شک تمہارا رب خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو مقامِ نبوت کے لیے منتخب فرمانے کا تذکرہ کرنے کے بعد علم کی نعمت کے عطا کیے جانے کا ذکر فرمایا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ جنہیں وہ منتخب کرتا اور برگزیدہ بناتا ہے تو انہیں سب سے پہلے علم کی نعمت عطا فرماتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنہیں بزرگی اور عظمت عطا فرمانا چاہتا ہے تو اُنہیں عزت و تکریم اور فضیلت علم کے نور سے ہی عطا فرماتا ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو الله تعالیٰ نے علمِ تعبیر الرؤیا عطا فرمایا۔ یہ علم حقائق و اسرار اور مثال کی حقیقتوں کا علم ہے۔ یہ علم ذہانت و فطانت اور بصیرت و حکمت کے علوم کا مجموعہ ہے۔ حقائق اور اسرار کے علم تک پہنچے کے لیے انسان کو کئی علوم کی منازل سے گزرنا پڑتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ کے الفاظ کے ذریعے حضرت یوسف علیہ السلام کو علم کی نعمت کی کثرت اور وسعت عطا کئے جانے کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔
سورۂ یوسف میں ہی دوسرے مقام پر آپ کو علم عطا فرمانے کا اظہار کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے علم کی عطا کو نیکو کاروں کے لیے اپنی بارگاہ سے صلہ اور اجر قرار دیا۔ ارشاد فرمایا:
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗٓ اٰتَیْنٰهُ حُکْمًا وَّعِلْمًا ط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَo
یوسف، 12: 22
اور جب وہ اپنے کمالِ شباب کو پہنچ گیا (تو) ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علم (تعبیر) عطا فرمایا، اور اسی طرح ہم نیکوکاروں کو صلہ بخشا کرتے ہیں۔
گویا علم کی اتنی عظیم شان ہے کہ جہاں ہر نبی کی نعمتِ نبوت کا ذکر کیا وہاں نعمتِ علم کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ افسوس آج ہم علم سے کوسوں دور ہیں اور بغیر علم کے ہدایت و بزرگی اور کرامت کے طلب گار ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد گرامی کا تذکرہ بھی علم کے ساتھ ہی فرمایا۔ ارشاد گرامی ہے:
وَاِنَّهٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَo
یوسف، 12: 68
اور (اس خواہش و تدبیر کو لغو بھی نہ سمجھنا تمہیں کیا خبر) بے شک یعقوب (علیہ السلام) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا مگر اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے۔
الغرض الله تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر بھی نبوت اور علم کے ساتھ فرمایا اوراسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کا ذکر بھی نبوت اور علم کے ساتھ فرمایا۔
الله تعالیٰ نے نہ صرف نبوت اور علم کو باہم متعلق کیا بلکہ درجات کی بلندی کو بھی علم کے ساتھ مشروط فرمایا ہے:
نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌo
یوسف، 12: 76
ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں۔ اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اِس آیت مبارکہ میں دو مضامین بیان فرمائے ہیں:
1۔ ہم لوگوں کو درجہ بدرجہ بلندیاں، رتبے اور درجات عطا کرتے ہیں۔
2۔ ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہوتا ہے۔
آیت کریمہ کے اِن دونوں حصوں کو ملانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ درجات کی بلندی بھی علم کی بلندی کے ساتھ ہے۔ گویا درجات کی بلندی کا سبب بھی علم ہے۔
یہاں ذہن میں ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ عبادت، نوافل، روزے اور نیک اعمال سے بھی تو درجات بلند ہوتے ہیں، پھر علم سے بلندیِ درجات حاصل ہونا منفرد کیسے ہوا؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تمام اَعمالِ صالحہ، اَخلاقِ حسنہ اور اُمورِ خیر سے درجات بلند ہوتے ہیں لیکن درجات کی بلندی میں بھی درجہ بندی ہے کہ کس عمل سے محض درجہ بلند ہوتا ہے اور کس عمل سے درجات بہت زیادہ بلند ہوتے ہیں۔ تمام اَعمالِ صالحہ سے درجات بلند ہوتے ہیں مگر علمِ صحیح کے ذریعے درجہ سب سے زیادہ بلند ہوتا ہے۔ اسی لیے مرتبۂ نبوت کو ہر جگہ علمِ صحیح اور علمِ نافع کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ چونکہ کائنات میں نبوت سے بڑھ کر کوئی درجہ نہیں ہے، اس لئے سب سے اونچے درجے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ علم کو جوڑا ہے۔
یہاں ضمناً ایک ضروری نکتہ واضح کرتے چلیں کہ اللہ تعالیٰ جسے علم کی نعمت عطا فرماتا ہے اسے وسعتِ مال کی نعمت عطا نہیں فرماتا، بلکہ ہمیشہ علم کے ساتھ فقر کو جمع فرماتا ہے۔ وہ لوگ جو علم اور خصوصاً علمِ دین حاصل کر رہے ہیں اور خدمتِ دین کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں یا اساتذہ و معلمین ہیں، وہ اس بات پر غم زدہ نہ ہوا کریں کہ ان کے ہاں دنیا داروں کی طرح مال کی فراوانی نہیں ہے۔ یہ نہ سوچا کریں کہ وہ اتنے متمول نہیں جتنے صنعت کار، تاجر، دنیا دار، سیاست دان یا دیگر پیشوں سے وابستہ لوگ ہیں۔ اہلِ علم ہر وقت پریشان رہتے ہیں، کبھی قرض اُٹھاتے ہیں، مشکل حالات میں زندگی گزارتے ہیں حتیٰ کہ اُنہیں اکثر اوقات اچھے کپڑے، سواری اور گھر بھی میسر نہیں آتا۔ اہلِ علم کو چاہیے کہ اس فقر کا ذکر کبھی دل اور زبان پر نہ لائیں کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِي.
فقر میرا فخر ہے۔
ایک مقام پر ہے:
إِنَّ الْفَقِیْرَ الصَّابِرَ خَیْرٌ مِّنَ الْغَنِيِّ الشَّاکِرِ.
بے شک صبر کرنے والا فقیر شکر کرنے والے غنی سے بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جنہیں سب سے زیادہ علم عطا کیا، ان کو فقر کے ساتھ جوڑا ہے۔ علم اور فقر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ علم اور فقر میں گہری دوستی ہے۔ اس ضمن میں مستثنیات بہت کم ہوتی ہیں، مگر عام قاعدہ یہ ہے کہ علم اور فقر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے لوگ کہتے تھے کہ آپ کے دسترخوان پر تو روکھی سوکھی ملتی ہے، لیکن اگر دمشق (شام) جائیں تو وہاں دسترخوان پر بہت اعلیٰ کھانے ملتے ہیں اور وہاں کے ملازم بھی بڑے زرق برق لباسوں میں ہوتے ہیں مگر آپ کے ہاں ایسا نہیں۔ آپ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ علم اور فقر کو جوڑتا ہے، علم اور مال کو بہت کم اکٹھا کرتا ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف چند انبیاء کرام مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کو بادشاہت ملی؛ بقیہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام تو ہجرتیں ہی کرتے رہے ہیں۔ اپنی اپنی قوم کی طرف سے انہیں ظلم و ستم کا شکار ہونا پڑا، فاقے برداشت کرنا پڑے، حتیٰ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی شہادتیں تک ہوتی رہیں۔ الغرض انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیاں تو فقر کے ساتھ گزری ہیں۔
قاعدہ یہ ہے کہ علم اور فقر کی گہری دوستی ہے جب کہ علم اور مال و دولت کی آپس میں بہت کم بنتی ہے۔ حضور ﷺ نے فقر پر فخر فرمایا ہے۔ اگرچہ اِس روایت پر جرح بھی کی گئی ہے لیکن معناً درست ہے اور کثیر ائمہ کرام و صوفیاء عظام نے اسے اپنی کتب میں درج کیا اور اس سے استشہاد کیا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی فقر پر فخرکریں۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنے کی روش کو اپنائیں۔ چند روزہ آزمائش اور مشکلات ضرور ہیں مگر علم کے ذریعے جو عزت اور قربِ الٰہی میسر آتا ہے وہ مال میں ہرگز نہیں ہے۔
1۔ امام مالک فرماتے ہیں:
لَایَبْلُغُ أَحَدٌ مَا یُرِیْدُ مِنْ هٰذَا الْعِلْمِ حَتّٰی یَضُرَّ بِهِ الْفَقْرُ، وَیُؤْثِرَهٗ عَلٰی کُلِّ حَاجَةٍ.
کوئی شخص اُس علم میں سے جو کچھ چاہتا ہے اسے حاصل نہیں کر سکتا، جب تک کہ فقر اُسے متاثر نہ کرے اور جب تک وہ اپنی ہر ضرورت پر اس علم کو ترجیح نہ دے۔
2۔ امام شافعی بیان کرتے ہیں:
لَا یَصْلُحُ طَلَبُ الْعِلْمِ إِلَّا لِمُفْلِسٍ. قِیْلَ: وَلَا لِغَنِيٍّ مَکْفِيٍّ؟ قَالَ: لَا.
طلبِ علم مفلس شخص کو ہی زیب دیتا ہے۔ عرض کیا گیا: اور کیا مال دار شخص کو یہ زیب نہیں دیتا؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔
3۔ امام شافعی فرمایا کرتے تھے:
لَا شَيْئَ أَزْیَنَ بِالْعُلَمَاءِ مِنَ الْفَقْرِ وَالْقَنَاعَةِ وَالرِّضَا بِهِمَا.
شعراني، الطبقات الکبری: 77
علماء کو فقر و قناعت اختیار کرنے اور ان دونوں پر خوش رہنے سے زیادہ کوئی چیز زیب نہیں دیتی۔
4۔ اسی طرح یہ بھی منقول ہے کہ امام محمد بن ادریس شافعی فرمایا کرتے تھے:
لَا یُدْرَکُ الْعِلْمُ إِلَّا بِالصَّبْرِ عَلَی الضُّرِّ.
خطیب بغدادی، الفقیه والمتفقه، 2: 186
علم نقصان و تکلیف پر صبر سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
5۔ امام شافعی نے یہ بھی فرمایا ہے:
فَحَقٌّ عَلٰی طَلَبَةِ الْعِلْمِ بُلُوْغُ غَایَةِ جُهْدِهِمْ فِي الاسْتِکْثَارِ مِنْ عِلْمِهٖ، وَالصَّبْرُ عَلٰی کُلِّ عَارِضٍ دُوْنَ طَلَبِهٖ، وَإِخْلَاصُ النِّیَّةِ ِللهِ فِي اسْتِدْرَاکِ عِلْمِهٖ نَصًّا وَاسْتِنْبَاطًا، وَالرَّغْبَةُ إِلَی اللهِ فِي الْعَوْنِ عَلَیْهِ.
طالبانِ علم پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے علم میں اضافہ کرنے کے لیے غایت درجہ محنت کریں، اور اس کی طلب میں آنے والی ہر رکاوٹ پر صبر کریں، اور اپنے علم کو نصاً اور استنباطاً حاصل کرنے میں نیت کو الله تعالیٰ کے لیے خالص رکھیں۔ اور اس کام میں مدد حاصل کرنے کے لیے الله تعالیٰ کی طرف رغبت رکھیں۔
6۔ امام ابراہیم آجری بیان کرتے ہیں:
مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ بِالْفَاقَةِ وَرِثَ الْفَهْمَ.
خطیب بغدادی، الفقیه والمتفقه، 2: 186
جس نے فقر و فاقہ کے ساتھ علم طلب کیا وہ فہم کا وارث بنا۔
7۔ امام شقیق بلخی فرمایا کرتے تھے:
إِذَا کَانَ الْعَالِمُ طَامِعاً، وَلِلْمَالِ جَامِعاً فَبِمَنْ یَقْتَدِي الْجَاهِلُ؟
شعرانی، الطبقات الکبری: 115
جب عالم دین طمع کرنے والا اور مال جمع کرنے والا ہو تو جاہل کس کی پیروی کرے؟
8۔ امام ابو الحسن شاذلی فرمایا کرتے تھے:
أَرْبَعٌ لَایَنْفَعُ مَعَهُمْ عِلْمٌ: حُبُّ الدُّنْیَا، وَنِسْیَانُ الْآخِرَةِ، وَخَوْفُ الْفَقْرِ وَخَوْفُ النَّاسِ.
شعراني، الطبقات الکبری: 309
چار چیزوں کے ہوتے ہوئے علم نفع نہیں دیتا: دنیا کی محبت، آخرت کی فراموشی، تنگ دستی کا خوف اور (ملامت کرنے والے) لوگوں کا ڈر۔
لہٰذا اہلِ علم اپنے اندر صبر، شکر اور قناعت پیدا کریں۔ فقر کے خوف، لوگوں کی ملامت کے ڈر اور معاشرے میں عزت کے حصول میں دشواری کے سبب لوگ علمِ دین کی راہ پر نہیں آتے اور والدین بچوں کو دین نہیں پڑھاتے کہ پیسے نہیں ملتے، گزارہ نہیں ہوتا اور تنخواہ بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ یہ بات درست ہے مگر علم اور مال کو اللہ تعالیٰ نے بہت کم باہم جوڑا ہے جبکہ علم، فقر اور آخرت کو زیادہ آپس میں زیادہ ملایا ہے اور یہ اُلوہی فیصلہ ہے۔
سب سے بڑا منبعِ علم وحیِ الٰہی ہے جس کے ذریعے انبیاء کرام علیہم السلام کو علم نصیب ہوا۔ اسی لیے نبی کو دنیا میں کسی استاد کے پاس پڑھنے کی حاجت نہیں ہوئی۔ انبیاء کرام علیہم السلام نہ کسی مدرسے اور سکول گئے اور نہ ہی کسی استاد کے پاس زانوئے تلمذ تہہ کیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا لقب مبارک بھی اُمّی ہے یعنی دنیا میں کسی استاد سے نہیں پڑھے۔ بعض لوگ نادانی، جہالت اور بدعقیدگی کی بناء پر ’اُمی‘ کا ترجمہ معاذ الله ’اَنْ پڑھ‘ کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے امّی کا معنی ’ان پڑھ‘ کرنا بہت بڑا ظلم، گمراہی اور گستاخی ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے تو براہ راست اللہ تعالیٰ سے پڑھا ہے۔ تمام انسان اپنے جیسے انسانوں سے پڑھتے ہیں جبکہ اللہ کا نبی صرف اللہ سے ہی پڑھتا ہے۔
کتنے ظلم کی بات ہے کہ انسان انسانوں سے پڑھ کر علم والے ہو جائیں اور جس نے الله تعالیٰ سے براهِ راست یا جبریل امین علیہ السلام کے واسطے سے پڑھا ہے، ان کو ہم اَن پڑھ کہیں؟ ایسا کہنا بذاتِ خود اَن پڑھوں، احمقوں اور جاہلوں والی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو خود پڑھایا ہیجس کا ثبوت یہ ارشاد ربانی ہے:
وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ.
النساء، 4: 113
اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے۔
جب قرآن مجید میں الله تعالیٰ خود یہ اعلان کر رہا ہے کہ اے میرے محبوب! اللہ نے آپ کو تعلیم دی ہے تو اس اعلان کے بعد کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آپ کو اَن پڑھ کہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا معلّمہے اور اس نے براهِ راست اپنے حبیب مکرم ﷺ کو تعلیم دی ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo
البقرة، 2: 151
اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔
جو ہستی انسانیت کو کتاب کا علم عطا فرمائے، ان کو ہم کیسے اَن پڑھ کہہ سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰنیحضور نبی اکرم ﷺ کو علمِ کامل سے نوازا ہے۔ اس حوالے سے قرآن نے ایک اور مقام پر بھی ارشاد فرمایا:
عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰیo
النجم، 53: 5
ان کو بڑی قوّتوں و الے (ربّ) نے (براهِ راست) علمِ (کامل) سے نوازا۔
الغرض اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو کمالِ علم سے سرفراز فرمایا اور پھر انبیاء کو انسانیت کا معلم بناکر انہیں تعلیم دینے کا فریضہ سونپا۔
جس طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے علم ضروری ہے، اسی طرح اولیاء کے لیے بھی علم ناگزیر ہے۔ علم کے بغیر ولایت نہیں ملتی۔ نبوت اور ولایت کے ذرائعِ علم الگ الگ ہو سکتے ہیں مگر نبوت و ولایت دونوں کے لئے علم کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ اولیاء اکثر مروجہ ذرائع یعنی سکول، مدرسہ، ادارہ، اساتذہ اور نصابات کے ذریعے علم حاصل کرتے ہیں۔ تمام اولیاء علماء ہوتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں علمِ لدنی عطا کرتے ہوئے اپنی بارگاہ سے براهِ راست علم عطا کر دیتا ہے، اُن کے سینوں اور ارواح میں اپنا چشمۂ علم کھول دیتا ہے اور القاء کے طریق سے علم عطا فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات میں علم کی خیرات تقسیم فرمائی ہے۔ کسی کو تخلیق کے ساتھ یعنی فطری علم عطا کرتا ہے تو کسی کو مروجہ دنیاوی ذرائع علم سے گزارتا ہے۔ کسی کو براهِ راست علمِ لدنی سے سیراب کرتا ہے تو کسی کو وحی اور کتاب کے ذریعے علم کی نعمت عطا کرتا ہے اور کسی خوش نصیب کو اپنے سامنے بٹھا کر براهِ راست علم عطا فرماتا ہے۔
قرآن مجید میں مذکور علمِ نبوت کی حامل ہستی حضرت موسی علیہ السلام اور علمِ لدنی کی حامل ہستی حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ سے بھی اسی جانب رہنمائی ملتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کے ذریعے علم عطا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کوهِ طور پر بلا کر اَلواح (تختیاں) عطا فرمائیں جبکہ سیدنا خضر علیہ السلام کو نبوت کے مرتبے کے بغیر براهِ راست اپنے خزانہ خاص سے علمِ لدنی عطا فرمایا ہے۔ (خِضْر اور خَضِرْ دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے۔)
حضرت خضر علیہ السلام کے پاس الہامی علم تھا، کتابی (intellectual) اور مکتبی (institutional) علم نہیں تھا۔ وہ حواسِ خمسہ، وجدان، تجربات، عقل کے ذریعے حاصل ہونے والا علم نہیں رکھتے تھے۔ چونکہ وہ نبی بھی نہیں تھے، لہٰذا وحی کا علم بھی ان کے پاس نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی بارگاهِ خاص سے وہبی اور الہامی علم عطا فرمایا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ملاقات کے دوران حضرت خضر علیہ السلام سے کہا:
هَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًاo
الکهف، 18: 66
کیا میں آپ کے ساتھ اس (شرط) پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے (بھی) اس علم میں سے کچھ سکھائیں گے جو آپ کو بغرضِ ارشاد سکھایا گیا ہے۔
گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کو حاصل علم لدنی کو نہ صرف علم مان رہے ہیں بلکہ اس علم کو ذریعۂ رشد و ہدایت ماننے کے ساتھ ساتھ اس میں سے حصہ بھی مانگ رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی اس ملاقات کے تناظر میں علم کے درج ذیل مزید نکات بھی سامنے آتے ہیں:
قرآنِ مجید نے اس مقام پر علم اور علماء کو حاصل مقام و مرتبہ کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ فرما دیا ہے کہ ایک نبی بھی حصولِ علم کے لیے سفر کر رہے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ حصولِ علم کا یہ سفر اپنے سے کم مرتبہ کے حامل ایک ولی کی طرف ہے۔ بلاشبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مرتبہ حضرت خضر علیہ السلام سے افضل ہے۔ ان کے تشریف لے جانے سے ثابت ہوا کہ بعض اوقات افضل کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ مفضول (اپنے سے کم فضیلت والے) سے علم لینے جائے۔ گویا بڑا اپنے سے چھوٹے سے بھی علم حاصل کر سکتا ہے اور یہ سنتِ انبیاء ہے۔ ضروری نہیں کہ ہمیشہ چھوٹا ہی بڑے سے لے یا مفضول ہی افضل سے لے۔ کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین سے بھی اکتساب کرتے اور تابعین، اتباع التابعین سے بھی اکتساب کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول کا درجہ اونچا ہے مگر چونکہ حضرت خضر علیہ السلام کو علمِ لدنی( علم خاص) ملا ہے۔ لہٰذا اس کو لینے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس گئے۔
اس کی مزید وضاحت اس مثال سے بھی ہوتی ہے کہ بڑے اونچے عہدے پر فائز ایک شخص اگر طب (ڈاکٹری) کا علم لینے کے لیے طبیب کے پاس جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس طبیب (ڈاکٹر) سے درجے میں نیچے چلا گیا۔ ایک بڑے اونچے درجے کا عالم اگر کسی خاص ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والے کے پاس جائے، یا کسی ماہر کے پاس کوئی خاص مضمون (subject) سمجھنے کے لیے جائے تو اس سے افضل اور مفضول کا تعین نہیں ہوتا۔ جب اللہ کا نبی اپنے سے کم مرتبہ والے کے پاس جاتا ہے تو یہ اُمت کے لیے ایک سنت بنتی ہے۔ اس واقعہ سے مزید برآں یہ بھی ثابت ہوا کہ علم کی تلاش میں صاحبِ علم کے پیچھے جانا، ان سے اکتسابِ علم کرنا اور ان کی مجلسِ علم میں بیٹھنا سنتِ انبیاء ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنی ذات کی دلیل اور نشانی بنایا ہے۔ لہٰذا ان کے وجود سے اپنی قدرت کے اظہار کے لیے انہیں معجزات عطا فرماتاہے۔ اسی طرح ہر ولی اپنے نبی کی دلیل اور نشانی ہوتا ہے اور اس ولی کی کرامت نبی کے معجزات کا تسلسل ہوتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ؛ الغرض کسی بھی نبی کی اُمت کا ولی ہو، اس کی ساری کرامات اس کے نبی کے معجزات کا تسلسل ہوں گی۔ اولیاء اللہ کی کرامات سے اس نبی کے معجزات کا ثبوت ملتا ہے۔ ہر ولی کی کرامت نبی کے معجزے کے تابع اور اس کا تسلسل ہوتی ہے۔
اُمت محمدی ﷺ کے تمام اولیاء کی کرامات معجزاتِ محمدی ﷺ کا تسلسل ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزات اگر درخت ہیں تو اُمت محمدی ﷺ میں قیامت تک آنے والے جمیع اولیاء کی کرامات حضور ﷺ کے معجزات کے درخت کی شاخیں اور اس کے پتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اولیاء کی کرامات معجزاتِ محمدی ﷺ کا تسلسل ہیں تو پھر ان اولیاء سے صادر ہونے والی سب سے بڑی کرامت کیا ہے؟ عرف عام میں پانی پر چلنا، ہواؤں میں اڑنا، پتھر توڑ دینا، دلوں میں پیدا ہونے والی خواہشات اور خیالات کو جان لینا اور مردے زندہ کر دینا بہت بڑی کرامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی فرماتے ہیں:
یہ تمام اعمال بڑی کرامات نہیں ہیں، اس لیے کہ ہواؤں میں اڑنا بڑی کرامت ہوتی تو مکھیاں اور پرندے سب سے بڑے ولی ہوتے۔ پانی پر چلنا بڑی کرامت ہوتی تو مچھلیاں سب سے بڑی ولی ہوتیں۔ لہٰذا اولیاء کی سب سے بڑی کرامات یہ نہیں بلکہ ان کی سب بڑی کرامت علمِ صحیح ہے۔
ابن عربی، الفتوحات المکیة، 4: 23
پس جب کراماتِ اولیاء معجزات انبیاء کا تسلسل ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے جو کتابِ علم ہے، تو اُمت محمدی ﷺ کے اولیاء کی سب سے بڑی کرامت علمِ نافع ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی امام و سلطان الاولیاء ہیں، غوث الثقلین ہیں، وہ اس مرتبہ قطبیت اور غوثیت تک پہنچنے کا اپنا حال بیان فرماتے ہیں:
دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرْتُ قُطْبًا
وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَوْلَی الْمَوَالِي.
عبد القادر جیلانيِ، القصیدة الغوثیة
(سچی طلب اور تڑپ کے ساتھ) علم کے حصول نے مجھے مقامِ قطبیتِ کبریٰ پر فائز کر دیا اور میرے مولی سے مجھے علم کے نور کے سبب سارے رتبے نصیب ہو گئے۔
حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں:
طَرِیْقُنَا مُقَیّدٌ بِالْعِلْم: عِلْمُ الْکِتَابِ وَالسُّنَّةِ.
ابن القیم، مدارج السالکین، 2: 100
ہمارا طریق علم کے ساتھ مقید ہے: یعنی کتاب و سنت کا علم۔
سلوک، ادب، ولایت، تصوف، طریقت اور طریقِ معرفت پر مبنی ہمارا طریق جس سے اولیاء بنتے ہیں، یہ طریق علم کے بغیر طے نہیں ہوتا اور وہ علم کتاب و سنت کا علم ہے۔ گویا علم ناگزیر ہے، جس کے بغیر طریقِ ولایت بھی طے نہیں ہوتا اور نبوت بھی بغیر علم کے نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے علم دینے کے ذرائع محدود نہیں ہیں جب کہ انسان خود اور اس کے ذرائع محدود ہیں۔ اللہ چونکہ خود غیر محدود ہے، لہٰذا اس کی عطائیں اور ان کے ذرائع بھی غیر محدود ہیں۔ وہ اپنی نعمتیں مختلف ذرائع اور طرق سے عطا فرماتا رہتا ہے۔ وہ جسے چاہے جس طرح چاہے علم عطا کر دے۔ کسی کو سوئے ہوئے، کسی کو جاگے ہوئے، کسی کو چلتے پھرتے، کسی کو پڑھتے ہوئے، کسی کو مراقبہ کرتے ہوئے اور کسی کو سلوک کے طریقے پر چلتے ہوئے علم کی منزل پر پہنچا دے۔ یہ سب اُس کا اپنا فیصلہ اور عطا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
اللهُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَیَهْدِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُo
الشوریٰ، 42: 13
اللہ جسے (خود) چاہتا ہے اپنے حضور میں (قربِ خاص کے لیے) منتخب فرما لیتا ہے اور اپنی طرف (آنے کی) راہ دکھا دیتا ہے (ہر) اس شخص کو جو (اللہ کی طرف) قلبی رجوع کرتا ہے۔
یعنی کسی کو اللہ چن لیتا ہے اور خود منزل پر پہنچا دیتا ہے اور کسی کو اللہ اپنا راستہ دکھا دیتا ہے کہ یہ میرا راستہ اور میرے قرب کا طریقہ ہے، مجھ تک پہنچنا ہے تو اس طریقے پر بڑھتے آؤ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا.
العنکبوت، 29: 69
اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔
یعنی کسی کو اپنی معرفت و قربت کا ایک راستہ اور کسی کو کئی اور راستے دکھا دیتا ہے۔ نبی اپنی محنت، نوافل، عبادات، مشقتوں، ریاضتوں اور تزکیہ نفس کے ذریعے نبی نہیں بنتا، یہ ناممکن ہے بلکہ یہ مرتبہ خاص وہبِ الٰہی ہے، اس نے جسے چن لیا، اسے نبی بنا دیا جبکہ ولایت میں وہب بھی ہے اور کسب بھی ہے۔
الله تعالیٰ کے ذرائعِ علم کے برعکس انسانی ذرائعِ علم محدود ہیں۔ یہ ہماری نادانی ہوتی ہے کہ ہم محدود عقل رکھنے والے لامحدود کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں اورجب ہمیں سمجھ نہیں آتی تو پریشان ہو جاتے ہیںاور کہتے ہیں: ’یہ بات میری عقل میں نہیں آتی۔‘ یہ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ انسان کی عقل میں بہت ساری چیزیں بالکل نہیں آتیں جبکہ ہم اُنہیں تسلیم بھی کرتے ہیں۔ مثلاً: کسی انسان کا اپنے ماں باپ کی حلالی اولاد ہونا عقل میں نہیں آتا۔ یہ بھی ہم نشانات، علامات اور بیانات سے معلوم کرتے ہیں۔ ماں باپ نے بتایا کہ ہمارے بیٹے ہو تو سارے مانتے ہیں کہ فلاں کا بیٹا ہے۔ گھرانے والوں نے بتایا کہ تم ان کے بیٹے ہو، اس تصدیق اور گواہی پر مان لیا۔ محلے داروں نے بھی تصدیق کر دی کہ ان کے بیٹے ہو، بس مان لیا۔ یہ سب شہادتیں اور گواہیاں ہیں۔
ماضی میں DNA کی سائنس تو نہیں تھی اور آج بھی ہر کوئی DNA کا ٹیسٹ نہیں کرواتا کہ اپنی ولادت اور نسب کی تحقیق کرائے۔ سائنس تو آج چلی ہے مگر صدیوں سے لوگ نسب کو مانتے چلے آ رہے ہیں کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے۔اس نسبت کی تصدیق کا علم سماعت و علامات اور نشانات کے ذریعے آیا۔ یہ سمعی چیز ہے۔ انسان کا اپنا نسب بھی عقل میں نہیں آتا مگر پھر بھی وہ تسلیم کیے ہوئے ہے۔ جب ہم عقل میں نہ آنے کے باوجود نشانات اور علامات سے اپنے نسب کو مانتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں تو پھر دیگر چیزیں جو عقل میں نہیں آتیں اُنہیں ماننے میں کیا تامل ہے؟ لہٰذا ہمیں جتنی عقل ہے اتنا ہی اس پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
ہم اگر بیس کلو وزن اٹھا سکتے ہیں تو بیس کلو ہی اٹھانا چاہیے، اپنے اوپر چالیس کلو گرام کا بوجھ نہ ڈالیں۔ ضرورت سے زیادہ بوجھ اٹھانے پر ہم اپنے آپ کو ہی ہلاکت اور نقصان میں ڈالیں گے۔ ہر ایک کی صلاحیت و طاقت محدود ہے۔ ہر شے کی طرح عقل کی بھی ایک حد ہے۔ کچھ چیزیں اس کے دائرۂ ادراک میں آسکتی ہیں جبکہ کچھ نہیں آسکتیں۔ اگر عقل کے ادراک میں نہ آنے والی چیزوں کو بھی عقل کے پیمانے سے جانچنا چاہیں گے یا عقل کو وہاں لے جانا چاہیں گے تو گڑبڑ ہو جائے گی۔ یہ اللہ کا ایک نظام ہے، جس کی پیروی میں ہی نجات ہے۔
اِس تمام بحث کا مقصود یہ ہے کہ الله تعالیٰ کی لامحدود عطائیں اور لامحدود ذرائع اگر ہماری عقل و فہم میں نہیں آتے تو اُن کا کلیتاً انکار نہ کریں، کیونکہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ یہ الله تعالیٰ کی عطا اور فضل ہوتا ہے کہ وہ اپنے چنیدہ بندوں کو نبوت و ولایت کے ذریعے ایسے لامحدود کمالات، معجزات اور کرامات عطا فرماتا ہے، جن تک انسانی عقل کی رسائی ناممکن ہوتی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved