ہجرتِ مدینہ کے بعد اسلام کو یہودیوں سے سابقہ پڑا یثرب کے اصلی باشندے گو انصار تھے۔ لیکن عملا اس علاقے کے اقتدار پر یہود کا قبضہ تھا۔ تجارت و زراعت پر انہی کا تسلط تھا۔ تعلیمی اور معاشرتی اعتبار سے بھی یہ زیادہ مستحکم تھے۔ الغرض مذہب، معیشت اور سیاست کے میدان میں یہود کا سکہ رواں تھا۔ یہ بنیادی طور پر کافر نہ تھے بلکہ اہل کتاب میں سے تھے۔ لیکن موسی علیہ السلام کے زمانہ کو اس وقت تقریبا 19 سو سال گزر چکے تھے۔ تورات لفظاً و معناً ہر طرح محرف ہو چکی تھی بلکہ اس سے پہلے اور بعد کی آسمانی کتابیں اور صحیفے بھی تحریف کا شکار ہو چکے تھے۔ سب کے عقائد مسخ ہو گئے تھے۔ ان میں غیر الہامی، باطل خیالات کی آمیزش ہو گئی تھی۔ دینِ حق اور نبوت کو انہوں نے نسل اسرائیل کی وراثت سمجھ رکھا تھا۔ یہودیت پر انہیں بہت ناز تھا۔ اور اسی نسلی تفاخر اور متعصبانہ زعم نے انہیں گمراہی سے ہمکنار کر دیا تھا۔ جو تعلیمات الہیہ جس قدر بھی صحیح صورت میں موجود تھیں ان کا اخفاء اور خود تراشیدہ تاویلات کے ذریعے ان کی معنوی تحریف ان کا شیوہ تھا۔ مزید برآں ان کے علماء اور سردار بھی اعتقادی گمراہی کے علاوہ عملی تباہی اور گراوٹ کی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ حق پوشی، خود پسندی اور مفاد پرستی کے باعث نہ وہ اپنی اصلاح کے لئے تیار تھے اور نہ ہی کسی ہادی و رہنما کی بات سننے کو، بلکہ راہِ حق کی طرف بلانے والوں کا تمسخر، ان کی مخالفت و مزاحمت اور ان کے خلاف سازش و کینہ پروری ان کی سیرت کا جزو لا ینفک بن چکی تھی۔ فی الحقیقت یہ ایک ایسی بگڑی ہوئی اُمت تھی جس کی اعتقادی اور عملی اصلاح کی کوئی صورت ظاہراً نظر نہیں آتی تھی۔ کیونکہ یہ لوگ اپنی تمام علمی، اعتقادی، عملی اور اخلاقی خیانتوں کے باوجود خود کو سب سے بڑا دین دار، دانش مند، ہدایت یافتہ اور بخشش کا مستحق طبقہ تصور کرتے تھے۔ حالانکہ انہوں نے خدا کے انعام کو ٹھکرا کر اس کے غضب کو دعوت دی تھی اور نتیجۃً تمام نعمتوں سے محروم ہو چکے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سب سے پہلے ان کی اصلاح اور انکے اعتقادی اور عملی بگاڑ کے اثرات کو زائل کرنا تھا۔ کیونکہ مدینہ میں سب سے زیادہ ذی اثر اور ذی حیثیت لوگ یہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ بقرہ کی تعلیمات کا بیشتر حصہ یہود ہی سے متعلق ہے۔ عامۃ الناس اور ملت اسلامیہ کے لئے بھی ان مخصوص تعلیمات کی اہمیت کچھ کم نہیں کیونکہ یہودیت صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مستقل ذہنیت بن چکی ہے جس کا مشاہدہ ہم آج بھی مختلف کرداروں کے روپ میں کر سکتے ہیں۔
مدنی دور میں منافقین کا طبقہ بھی نمایاں طور پر معرضِ وجود میں آ گیا تھا۔ اسلام کو کھلی مخالفت و مزاحمت کا سامنا تو آغازِ دعوت کے وقت سے ہی تھا اور اہلِ اسلام اس سلسلے میں بے پناہ مصائب و شدائد برداشت کرتے چلے آئے تھے۔ لیکن ہجرت مدینہ کے بعد ایک نئی طرز کی مخالفت بھی بڑے زور و شور سے شروع ہو گئی اور یہ تھی ‘‘منافقت’’ کچھ لوگوں نے زبان سے اقرار کر لیا، ظاہراً اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئے اور مسلمانوں کے ہمراہ اسلامی تحریک میں شامل ہونے کا دعویٰ کرنے لگے لیکن یہ لوگ فی الحقیقت ‘‘منافق’’ تھے اور منافقین بھی کئی اقسام کے تھے:
پہلی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے برحق ہونے کے قائل تھے لیکن اس کی خاطر نہ اپنے مفادات کی قربانی کے لئے تیار تھے اور نہ مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے لئے لہذا کچھ خود غرضی و مفاد پرستی اور کچھ بزدلی ان کے سچا مسلمان ہونے کے راستے میں حائل تھی۔
دوسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو دل سے قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض سازش اور فتنہ و شر کے لئے اسلامی صفوں میں گھس آئے تھے۔ یہ اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔
تیسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے اقتدار و حکومت کے باعث مفاد پرستانہ خواہشات کے تحت اسلام سے وابستہ ہو گئے تھے۔ لیکن مخالفینِ اسلام سے بھی اپنا تعلق بدستور قائم رکھے ہوئے تھے تاکہ دونوں طرف سے حسبِ موقع فوائد بھی حاصل کر سکیں اور دونوں طرف کے خطرات سے بھی محفوظ رہیں۔
چوتھی قسم ایسے منافقین کی تھی جو ذہنی طور پر اسلام اور کفر کے درمیان متردد تھے۔ نہ انہیں اسلام کی حقانیت پر کامل اعتماد تھا اور نہ وہ اپنی سابقہ کفر یا جاہلیت پر مطمئن تھے وہ اوروں کی دیکھا دیکھی مسلمان ہو گئے تھے لیکن اسلام ان کے اندر راسخ نہیں ہوا تھا۔
پانچویں قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو حق سمجھے ہوئے دل سے اس کے قائل تو ہو چکے تھے لیکن پرانے اوہام و عقائد اور رسم و رواج کو چھوڑنے، دینی اور اخلاقی پابندیوں کو قبول کرنے اور اوامر و نواہی کے نظام پر عمل پیرا ہونے کے لئے ان کا نفس تیار نہیں ہو رہا تھا۔
چھٹی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو توحید، احکامِ الٰہی اور آخرت وغیرہ پر ایمان لانے کی حد تک تو تسلیم کرتے تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور وفاداری سے گریزاں تھے۔ نہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و سیادت دل سے ماننے کو تیار تھے اور نہ آپ کی حاکمیت و شفاعت۔ اس میں وہ اپنی ہتک اور ذلت محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ وہ تعلق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ذاتِ ربانی تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو تمام منافقین کی پہچان کروانا چاہتا تھا تاکہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود رہ کر اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں۔ اس لئے سورہ بقرہ نے اس سلسلے میں اہم اشارات فراہم کئے تاکہ حق و باطل میں امتیاز کا صحیح شعور پیدا ہو سکے۔ اس کا دوسرا رکوع اس ضمن میں بطورِ خاص نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔
ارشاد ہوتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَo يُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَo فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً وَلَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَo وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَo أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـكِن لاَّ يَشْعُرُونَo وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـكِن لاَّ يَعْلَمُونَo وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِيـْنِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَo اللّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَo أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَo مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَo صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَo أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَo يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo
البقرة، 2: 8.20
‘‘اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی) ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیںo وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہےo ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھےo اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیںo آگاہ ہو جاؤ! یہی لوگ (حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیںo اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (تم بھی) ایمان لاؤ جیسے (دوسرے) لوگ ایمان لے آئے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم بھی (اسی طرح) ایمان لے آئیں جس طرح (وہ) بیوقوف ایمان لے آئے، جان لو بیوقوف (درحقیقت) وہ خود ہیں لیکن انہیں (اپنی بیوقوفی اور ہلکے پن کا) علم نہیںo اور جب وہ (منافق) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقینا تمہارے ساتھ ہیں، ہم (مسلمانوں کا تو) محض مذاق اڑاتے ہیںo اللہ انہیں ان کے مذاق کی سزا دیتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جا پہنچیں) سو وہ خود اپنی سرکشی میں بھٹک رہے ہیںo یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی لیکن ان کی تجارت فائدہ مند نہ ہوئی اور وہ (فائدہ مند اور نفع بخش سودے کی) راہ جانتے ہی نہ تھےo ان کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے جس نے (تاریک ماحول میں) آگ جلائی اور جب اس نے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا اب وہ کچھ نہیں دیکھتےo یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گےo یا ان کی مثال اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے برس رہی ہے جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے تو وہ کڑک کے باعث موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں، اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہےo یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اچک لے جائے گی، جب بھی ان کے لئے (ماحول میں) کچھ چمک ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کر لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہےo’’
سورہ بقرہ کے پہلے رکوع میں دو گرہوں کا بیان تھا۔ ایک مومنین و متقین کا اور دوسرا کفار و منکرین کا۔ پہلا گروہ دل و دماغ اور قول و عمل ہر طرح سے ایمان لانے والوں پر مشتمل تھا۔ جب کہ دوسرا گروہ ظاہراً و باطناً ہر طرح سے اسلام کا انکار کرنیوالوں پر۔
یہاں سے تیسرے گروہ کا بیان شروع ہو رہا ہے جو گروہ منافقین ہے۔ مدینہ میں موجود منافقین کی مختلف اقسام کا ذکر ہم اس کتابچہ کی ابتدا میں پہلے ہی کر چکے ہیں۔
یہاں منافقین کے وجود کا مختصر تاریخی پس منظر واضح کرنا ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اہلِ ایمان اور اہل کفر کے علاوہ اہلِ نفاق کا تیسرا گروہ کیوں معرض وجود میں آ گیا تھا۔
اہلِ مدینہ کے قبیلہ خزرج کا ایک بہت بڑا سردار عبد اللہ ابن ابی تھا۔ اُسے اس کے اثر و رسوخ کے باعث مدینہ کا حکمران بنایا جا رہا تھا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے صورتِ حال میں زبردست تبدیلی آ گئی۔ یہودیوں سمیت تمام اقوام نے متفقہ طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ کا حاکم تسلیم کر لیا۔ جس سے عبداللہ بن اُبی اور اُس کے محض ساتھیوں کے مزعومہ مفادات کو سخت نقصان پہنچا۔ چنانچہ وہ اس دن سے اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف مخفی کاروائیوں اور پس پردہ سازشوں میں مصروف ہو گیا۔ یہ طبقہ اسلام کے خلاف کھلی مخالفت و مزاحمت کی جرات نہ کر سکا۔ لہٰذا ظاہرًا اسلام سے وابستگی کا لبادہ اوڑھ کر مختلف قسم کی فتنہ انگیزیوں کاجال بچھانے لگا۔ قرآن مجید نے اس طبقے کی نشاندہی اس قدر جامع اور ہمہ گیر انداز میں کی ہے کہ نہ صرف عہد رسالت کے منافقین کی واضح تصویر سامنے آ جاتی ہے بلکہ ہر دور میں منافقت کے مختلف روپ بے نقاب ہوتے چلے جاتے ہیں۔
یہاں منافقوں کی علامات اور ان کی نفسیات کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت میں یہی خرابی اہلِ اسلام کی ذلت و رسوائی کا باعث بنی ہے۔ اگر اس کی صحیح قرآنی پہچان سامنے رہے اور اس کا علاج بھی قرآن و سنت کے مطابق جرات مندی کے ساتھ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان زوال و انحطاط کی حالت سے نجات نہ پا سکیں۔
آیت نمبر 8، 9 میں منافقت کی دو علامات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
ان آیات کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان لانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ان پر ایمان نہیں رکھتے۔ کیونکہ ان کا قول ایمان زبان کے اقرار کی حد تک ہے مگر دل کی تصدیق سے محروم ہے۔ اس بیان سے یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ جو بات محض زبان سے کہی جائے دل اس کی تصدیق و تائید نہ کر رہا ہو تو یہ منافقت کی سب سے پہلی پہچان ہے۔ خواہ کہی ہوئی بات خدا و آخرت پر ایمان لانے کی ہی کیوں نہ ہو۔ جب ایسی پاکیزہ بات کا، جو اسلام اور ایمان کا اصل الاصول ہے صرف زبان سے ادا ہونا خدا کے ہاں منافقت ہے تو زندگی کے عام معاملات میں باہمی گفتگو اور تعلقات کا یہ انداز منافقت کیوں نہ قرار پائے گا۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے شب و روز کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم جس کسی سے جو کچھ بھی کہتے ہیں کیا دل سے کہتے ہیں یا محض زبان سے۔ اگر دل کی کیفیت ہماری زبان کی ہمنوا نہ ہو تو زبان میں تاثیر کہاں سے آئے اور اس منافقانہ رویہ زندگی میں برکت و نتیجہ خیزی کہاں سے پیدا ہو؟
دوسری علامت جس کا اشارہ ان آیات کے ظاہر عبارت سے ملتا ہے وہ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سوء ظن ہے کیونکہ منافقین کے دعوی ایمان کی طرف جو الفاظ منسوب ہوئے ہیں ان میں صرف ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا ذکر ہے۔ ایمان بالرسالت کا نہیں کیونکہ منافقین کو اصل عداوت اور بغض و عناد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے تھا جس کے باعث ان کے مفاد پرستانہ عزائم خاک میں مل گئے تھے۔ اس لئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا ظاہری اعلان بھی کرتے تو اس انداز سے کہ گویا خدا اور آخرت پر ایمان ہی مسلمان ہونے کے لئے کافی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان غیر ضروری تصور کرتے تھے۔ اس لئے یہاں قرآن مجید میں ان کے دعوی ایمان کے مذکورہ الفاظ ایمان بالرسالت کے ذکر سے خال ہیں جب کبھی یہ منافقین حضور علیہ السلام کی رسالت کا ظاہراً اقرار بھی کرتے تو یہ اقرار بھي سچا نہ ہوتا بلکہ دل کے انکار اور تعصب و عناد کے باعث سراسر جھوٹ ہوتا۔ جس کا ذکر سورہ منافقین کی پہلی آیت میں یوں آیا ہے:
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ.
المنافقون، 63: 1
‘‘(اے حبیبِ مکرّم!) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یقینا آپ اُس کے رسول ہیں، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقینا منافق لوگ جھوٹے ہیںo’’
اس اعلان خداوندی سے یہ بات واضح ہو گئی کہ منافق فی الواقع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے قائل نہ تھے اور جو کوئی ثبوت ان کے اقرار رسالت کی نسبت ملتا ہے وہ قرآنی وضاحت کے مطابق محض جھوٹ اور مکر و فریب تھا۔ اس جگہ بھی رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو گھٹاتے بلکہ نظر انداز کرتے ہوئے وہ اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعوی کر رہے ہیں جس کا جواب قرآن نے وَمَاهُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ کے الفاظ میں دیا ہے کہ جو لوگ پیکر رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صحیح ایمان کے بغیر خدا و آخرت پر ایمان لانے کی بات کرتے ہیں، ان کا دعوی ایمان باطل اور مردود ہے اور وہ منافق ہیں۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی پر کامل ایمان کے بغیر وہ کس خدا اور کس یوم آخرت کو مانتے ہیں جب کہ خدا اور آخرت کی معرفت و شناسائی بھی انسانیت کو نبی اور رسول کی ذات ہی کے توسط سے ہوتی ہے جب اُس ذات پر ایمان نہ رہا تو باقی عقائد کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے؟ اس لئے ایمان بالرسالت کے بغیر باقی دعوی ایمان کو منافقت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں منافقت کی یہ صورت ذات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت کے فقدان یا کمی کی شکل میں بھی دیکھی جا سکتی ہے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کے انکار کی شکل میں بھی۔
یہ منافقین کی تیسری علامت ہے جسے مخادعت سے تعبیر کیا گیا ہے یُخٰدِعُوْنَ، خدع سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی چھپانا اور اصطلاحی معنی دھوکہ دینا ہے۔ (1) خادع کسی کو دھوکہ دینے کے ارادے میں بھی بولا جاتا ہے اور یہی معنی یہاں مراد ہے۔ منافقین زبانی اقرار اور قلبی انکار کے ذریعے یہ خیال کئے ہوئے تھے کہ ہم خدا اور اہل ایمان سے اپنی حقیقی فکر اور باطنی حالت چھپا کر انہیں فریب اور غلط فہمی میں مبتلا کر رہے ہیں، حالانکہ یہ ان کی خود فریبی اور نا سمجھی تھی۔ یہاں یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ منافقین کی مخادعت بزعم خویش ذات خداوندی سے نہ تھی۔ بلکہ یہ تو وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ہم اپنی باطنی حالت خدا سے چھپا سکتے ہیں۔ ان کی دھوکہ دہی کی کوشش درحقیقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت تھی جن کے بارے میں وہ علیحدگی میں کہتے بھی تھے کہ کیسا رسول ہے، ہم دل سے اس کے ساتھ نہیں ہیں، اس پر ایمان بھی نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود اسے ہماری حالت کی خبر نہیں اور ہمیں بدستور مسلمان سمجھتا ہے۔ حضرت سدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(1) ابن منظور، لسان العرب، 8: 63
عرضت علی اُمتی فی صورها فی الطين، کما عرضت علی آدم واعلمت من يؤمن بی و من يکفر بی، فبلغ ذالک المنافقين، فقالوا: استهزاء زعم محمد انه يعلم من يؤمن به و من يکفر ممن لم يخلق بعد ونحن معه و ما يعرفنا. فبلغ ذالک رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، فقام علی المنبر، فحمد اﷲ تعالی و اثنی عليه، ثم قال: ما بال اقوام طعنوا فی علمی، لا تسئلونی عن شیء فيما بينکم و بين الساعة إلا نبأتکم به.
بغوی، معالم التنزيل، 1: 140
‘‘مجھ پر میری تمام اُمت اپنی حالت خمیر میں پیش کر دی گئی ہے۔ جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام پر اشیاء پیش کی گئی تھیں۔ چنانچہ میں نے ہر ایک کو جان لیا ہے کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد منافقین تک پہنچا تو انہوں نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ گمان کرتا ہے کہ جو لوگ ابھی پیدا نہیں ہوئے میں ان سے بھی مومن و کافر کو پہچانتا ہوں۔ حالانکہ ہم ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہماری منافقت سے باخبر نہیں ہے۔ منافقین کا یہ طعنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں آ گیا۔ آپ اسی وقت منبر پر تشریف فرما ہوئے اور باری تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمانے لگے۔ ان لوگوں کی تباہی کا کیا عالم ہو گا جو میرے علم کی وسعت پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ تم اس وقت سے لے کر قیامت تک جو بات چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ میں تمہیں اس کی خبر دیتاہوں۔’’
اس موقعہ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بعض مخفی نوعیت کے سوالات بھی ہوئے جن کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برجستہ جواب دیا۔ بالآخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی درخواست پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے ہوئے خاموش ہو گئے:
فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنo
‘‘کیا تم (ان شر انگیز باتوں سے) باز آؤ گے۔’’(2)
(1) المائدة، 5: 91
(2) ابن ابی حاتم رازی، تفسير القرآن العظيم، 2: 389
مذکورہ بالا حدیث سے یہ امر واضح ہو گیا کہ منافقین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی حالتِ نفاق سے بے خبر سمجھ کر دھوکہ دینا چاہتے تھے اور ان کا یہی خیال اہل ایمان کی نسبت بھی تھا۔ جس حقیقت کو قرآن نے یوں واشگاف طور پر بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخادعت، حقیقت میں خدا سے مخادعت ہے جس طرح خود قرآن مجید نے کئی اور مقامات پر یہ اعلان کیا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا خدا کو اذیت دینا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و غلامی خدا کی اطاعت و غلامی ہے۔ اس لئے ارشاد فرمایا گیا : ‘‘يُخٰدِعُوْنَ اﷲَ’’ (وہ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں)، جس سے یہ صاف طور پر واضح ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں معمولی سا سوء ظن اور ادنیٰ سی گستاخی یا بے ادبی بھی خود شان اُلوہیت میں بے ادبی و گستاخی ہے منافقین کی اس نفسیات کو بیان کرتے ہوئے انہیں بتایا گیا کہ تم خدا اور رسول اور اہل ایمان کو کسی قسم کے دھوکے میں مبتلا نہیں کر سکتے۔ بلکہ تم اس غلط خیال سے خود کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہو اور تمہاری نا سمجھی و نادانی کا یہ عالم ہے کہ تم اپنی اس خود فریبی سے بھی آگاہ نہیں۔ اس آیت کریمہ نے یہ عمومی اصول بھی واضح کر دیا ہے کہ دوسروں سے دھوکہ دہی کی نفسیات حقیقت میں منافقت بھی ہے اور نادانی بھی جو لوگ چرب زبانی اور چالاکی و عیاری سے اپنے ظاہر و باطن کے تضاد پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دوسروں کو بے وقوف بنا لیا ہے وہ منافق تو ہیں ہی لیکن ساتھ ساتھ خود ناسمجھ اور نادان بھی ہیں۔ کیونکہ ملمع پرستی، تصنع، بناوٹ اور منافقت کچھ عرصہ کے لئے تو مخفی رہ سکتی ہے، ہمیشہ کے لئے نہیں یہ حقیقت بالآخر بے نقاب ہو کر رہتی ہے۔ اسلئے ان مصنوعی طریقوں سے دوسروں کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس اصول کی روشنی میں ہمیں اپنے کردار کا بھی دیا نتدارانہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس نوعیت کی عملی منافقت کس حد تک ہماری زندگی کا جزو لا ینفک بن چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگی اور تعلقات کا بیشتر حصہ اسی قسم کی عملی منافقت سے عبارت ہے۔ ہر شخص دوسرے کو دھوکہ دینے میں مگن ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس عمل کے نتیجے میں فی الواقع وہ خود دھوکہ کھا رہا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
المکر والخديعة والخيانة فی النار.
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 4: 650، رقم: 8795
‘‘دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور بددیانتی سب جہنم کا باعث ہیں۔’’
اس حدیث نبوی کے مطابق کیا ہم معاشرتی سطح پر جہنمی زندگی بسر نہیں کر رہے؟
یہاں منافقت کو دل کی بیماری سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اگر منافقت جیسی بیماری قلب و باطن کو لگ جائے تو اس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ منافق کا ہر قول و فعل سراسر جھوٹ بن جاتا ہے کیونکہ جو کچھ وہ کہتا یا کرتا ہے، اس کا محرک اس کے دل کا خبث اور بدنیتی ہوتی ہے۔ بالآخر اس کی ساری زندگی جھوٹ جیسے گناہ کبیرہ سے آلودہ ہو جاتی ہے۔ اور وہ دردناک عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ آیت مندرجہ سے یہ حقیقت بھی آشکار ہو گئی کہ جس طرح انسانی جسم مختلف امراض کا شکار ہوتا ہے۔ اور جسمانی بیماری یا معدے کی خرابی کے باعث اچھی غذا بھی جسم پر بہتر نتائج مرتب نہیں کر سکتی، اسی طرح انسانی قلب و باطن اور روح بھی مختلف امراض سے دوچار ہوتی ہے۔ اگر دل بیمار پڑ جائے تو بہتر سے بہتر نصیحت بھی اثر نہیں کرتی۔ یہ باطنی بیماریاں جو منافقت سے جڑ پکڑتی ہیں، بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ان کا علاج وعظ و نصیحت اور مطالعہ کتب سے نہیں بلکہ اہل نظر کی نظر سے ہوتا ہے جیسا کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
اِقبال، کلیات (بال جبریل): 54
جو لوگ اپنے باطنی امراض کی اصلاح کے لیے بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتے تھے، ان کے قلب و باطن کو وہ صحت و تندرستی اور صفائی و نورانیت میسر آتی تھی کہ وہ آگے بھی ہزاروں بیماروں کو تندرست زندگی بخش سکتے تھے۔ کیونکہ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهِ وَ يُزَکِّيْهِمْ کے مطابق انہیں تزکیہ و تصفیہ خود نگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے عطا ہوتا تھا کچھ لوگ بغض و عناد اور حسد و عداوت رکھتے تھے بلکہ جب بھی انہیں ان کی بہتری کے لیے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نیاز مندی کے ساتھ آنے کی دعوت دی جاتی تھی تو وہ غرور و تکبر کے ساتھ اپنا سر جھٹک دیتے جیسا کہ خود قرآن ان الفاظ میں شہادت مہیا کر رہا ہے:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُؤُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ.
المنافقون 63: 5
‘‘اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے لیے مغفرت طلب فرمائیں تو یہ (منافق گستاخی سے) اپنے سر جھٹک کر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ تکبر کرتے ہوئے (آپ کی خدمت میں آنے سے) گریز کرتے ہیںo’’
جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسد و عداوت اور منافقت کا یہ عالم ہو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے اپنی بہتری بھی پسند نہ کرتے ہوں تو ان کی بیماریوں کی اصلاح کیونکہ ممکن ہو سکتی ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا:
فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌلا فَزَادَهُمُ اﷲُ مَرَضاًج وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌم بِمَا کَانُوْا يَکْذِبُوْنَo
البقرة، 2: 10
‘‘ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھےo’’
یہاں تک کہ وہ اپنے جھوٹ کی پاداش میں دردناک عذاب کو جا پہنچتے ہیں۔ ان منافقین کی زندگی کو جھوٹ کے معمول سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ جب ان کے دل میں ذاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کی نسبت اس قدر بغض اور حسد و عداوت کار فرما ہے تو ان کا نام لینا، اسلام سے وفاداری کا دم بھرنا، نمازیں پڑھنا اور دیگر فرائض دینی کی ظاہری ادائیگی کا اہتمام کرنا سب جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔
اسی آیت نمبر 10 میں جھوٹ کو علامتِ نفاق کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مقام پر منافق کی چار علامتیں بیان فرمائیں جن میں سے ایک جھوٹ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إذا حدث کذب.
بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب علامة المنافق، 1: 21، رقم: 33
‘‘منافق جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔’’
یہاں جھوٹ کو درد ناک عذاب کا باعث بھی کہا گیا ہے۔
اس لفظ کا مادہ عَذْب ہے۔ شیریں اور عمدہ پانی کو مائٌ عَذْبٌ کہتے ہیں۔ (1) قرآن حکیم میں ہے:
ابن منظور، لسان العرب، 1: 583
هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ.
الفرقان، 25: 53
‘‘یہ (ایک) نہایت میٹھا شیریں ہے۔ ‘‘
عذب کا دوسرا معنی سخت دکھ ہے۔ اس مفہوم کی بنیاد یہ ہے کہ عَذَبَ الرَّجُلُ کے معنی آتے ہیں کہ ‘‘اس نے کھانا پینا ترک کردیا۔’’(3) لہٰذا تعذیب اصل میں کھانے پینے اور آرام و سکون یعنی زندگی کی راحتوں اور آسائشوں سے محروم کر دینے کا نام ہے۔ گویا تعذیب ازالہ عذب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ تمریض، ازالہ مرض کے معنی میں۔ چنانچہ وہ کیفیت جس میں لذاتِ حیات اور آرام و سکون سے محروم کر دیا جائے اور اسی وجہ سے انسان کو دکھ اور اذیت کا احساس ہو ‘‘عذاب’’ کہلاتی ہے۔ اسی وجہ سے عذاب دنیوی بھی ہوتا ہے اور اخروی بھی۔ اگر عذاب مقدار (quantity) کے اعتبار سے زیادہ ہو تو اسے عَذَابٌ عَظِيْمٌ کہا جاتا ہے، اور اگر کیفیت و ماہیت (quality & nature) کے اعتبار سے زیادہ درد ناک اور اذیت ناک ہو تو اسے عَذَابٌ اَلَيْمٌ کہتے ہیں۔ اب آپ غور فرمائیں آیت 7 میں کفار کے لیے عذاب عظیم کی وعید ہے۔ جب کہ یہاں منافقین کے لیے عذاب الیم کی۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ منافقت کفر سے بھی زیادہ تباہ کن اور اذیت ناک عذاب کا باعث ہوتی ہے۔
(3) ابن منظور، لسان العرب، 1: 583
ان آیات میں منافقت کی ایک اور علامت اور منافقت کا ایک نیا روپ بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ ہے نام نہاد اصلاح کے پردے میں فساد انگیزی۔ اِمام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
الفساد: خروج الشئ عن الإعتدال.
اصفهانی، مفردات ألفاظ القرآن، 1: 1114
‘‘فساد کسی چیز کے اعتدال کی حد سے گزر جانے کو کہتے ہیں۔’’
خواہ افراط کی صورت میں ہو یا تفریط کی۔ لہٰذا کسی شخص کا ہر وہ عمل جو خلافِ عدل ہو فساد سے تعبیر کیا جائے گا۔ جب کہ عدل کی تعریف ہے:
وضع الشی فيْ موضعهِ.
جرجانی، التعريفات: 130
‘‘کسی شے کو اپنے صحیح مقام پر رکھنا۔’’
اگر کوئی شے اپنے اس مقام سے ہٹا دی جائے جس کی وہ مستحق تھی یا کسی شے کو ایسے مقام پر رکھ دیا جائے جس کی وہ مستحق نہ تھی تو ان دونوں حالتوں کا نام فساد اور ظلم ہے۔ ایسے ہی ہر عمل کو خلافِ عدل یا بے اعتدالی کہتے ہیں۔ چنانچہ فساد فی الارض ایسی جامع اصطلاح ہے کہ اس میں ہر ظلم و زیادتی، بے اصولی، نا انصافی، حق تلفی و استحصال، اثم وعدوان، گمراہی و ضلالت، شر انگیزی و فتنہ پروری، منافقت و منافرت، تخریبی و سازشی کارروائیاں اور منفی انداز فکر و عمل شامل ہیں۔ عقائد و نظریات اور اعمال و افعال کے جس نظام سے ارضی زندگی اور انسانی سوسائٹی میں عدل و انصاف اور صداقت و شرافت کی اقدار قائم رہیں بلکہ فروغ پاتی رہیں اور ہر حقدار کو اس کا صحیح حق ملتا رہے وہ نظام حق پر مبنی ہوتا ہے۔ اور اسی حالت کو صلاح و فلاح کہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی عمل سے اس نظام حق عدل کے فروغ میں تعطل پیدا ہو یا حصول فلاح کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو تو اسے فساد فی الارض سے تعبیر کیا جائے گا۔ قرآن حکیم جملہ منافقین کی نسبت یہ واضح اعلان کر رہا ہے کہ ان کا اندازِ فکر و عمل ہمیشہ مفسدانہ، منفی، تخریبی اور استحصالی ہوتا ہے، جو انسانی سوسائٹی کے لیے ضرور کسی نہ کسی طور پر نقصان دہ ہوتا ہے۔ طُرّہ یہ کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد کرنے والے نہ بنو تو وہ اپنے آپ کو کبھی مفسد تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، وہ خود کو پورے معاشرے میں نہ صرف سب سے بڑا صالح بلکہ واحد مصلح تصور کرتے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں، یہی حق ہے اور اسی سے معاشرے کی اصلاح ممکن ہے۔ چنانچہ اس نام نہاد صالحیت اور مصلیحت کے زعم میں مبتلا ہو کر فساد انگیزی جاری رکھتے ہیں۔ قرآن حکیم انکے زعم باطل کو رد کرتے ہوئے برملا اعلان کر رہا ہے کہ ان کی مصلحانہ نعرہ بازی اور نیی کی ظاہری دعوت دیکھ کر کہیں انہیں مخلص رہنما اور قومی مصلح تصور ہی نہ کر لیا جائے بلکہ آگاہ ہو جاؤ! یہی لوگ حقیقت میں فساد برپا کرنے والے ہیں، یہی لوگ فتنہ و شر کا منبع و سرچشمہ ہیں۔ ان کی تمام نام نہاد اصلاحی کاروائیاں منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ پھر ان کی بدبختی کی انتہا یہ ہے کہ یا تو انہیں اپنے مفسدانہ عمل کا علم و شعور ہی نہیں ہوتا اور اصلاح کی خوش فہمی میں ہی فساد بپا کرتے چلے جاتے ہیں۔ یا وہ اپنے منافقانہ مفادات میں اس قدر حریص ہو چکے ہوتے ہیں کہ جانتے ہوئے بھی اپنے عمل کو فساد انگیزی تصور نہیں کر سکتے۔ گویا یہ احساس ان کی لوح قلب و دماغ سے مٹ چکا ہوتا ہے کہ کیا ہم بھی فساد کا باعث ہو سکتے ہیں؟ قرآن مجید نے منافقت کی یہ ایسی اہم علامت بیان کی ہے کہ جس کا صدور و ظہور ہر دور میں یکساں ہوتا چلا آ رہا ہے۔ آپ تاریخ اسلام کا مطالعہ فرما لیجئے۔ مسلمانوں میں جس قدر باطل فرقے، الحادی تحریکیں، متشدد سازشی جماعتیں اور متکبر قیادتیں معرض وجود میں آئی ہیں ان کا ہمیشہ یہی دعویٰ اور نعرہ رہا ہے کہ ہم مسلمانوں کی اصلاح چاہتی ہیں۔ مسلمان اپنے عقائد و اعمال کے لحاظ سے تباہ ہو چکے ہیں اس لیے ہماری کاوش انہیں اعتقادی اور عملی گمراہیوں سے نجات دلا کر صحیح اسلامی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ کسی نے بھی خود سے بڑھ کر کسی اور کو مصلح تصور نہیں کیا۔ نتیجتاً ایسی تحریکیں کئی مسلمانوں کو اصلاح احوال کے دلکش اور دلفریب نعروں کی جاذبیت کے باعث اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور دین حق کی صحیح راہ سے بہکانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کی عمومی اعتقادی اور عملی حالت اصلاح طلب ہے اور اصلاح طلب رہتی ہے۔ چنانچہ ان کی اصلاح کا فریضہ بھی اہل علم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ بلکہ اہل اقتدار بھی جنہیں فی الواقع مصلح کا کردار ادا کرنا چاہیے اکثر اوقات خود اصلاح کے ضرورت مند ہوتے ہیں اور یہ کام بھی معاشرے کے زعماء و علماء کے ذمے ہوتا ہے۔ لہٰذا کئی سمتوں سے اصلاح احوال کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ یہاں وہ نازک منزل آتی ہے جہاں اہل اسلام کو حق پرستانہ اور منافقانہ نعروں میں امتیاز کرنا ہوتا ہے کیونکہ اس امتیاز کو پیش نظر رکھے بغیر اگر ہر قیادت اور ہر دعوت کی پیروی شروع کر دی جائے تو احوال سنورنے کی بجائے اور بگڑتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ کوئی ظاہراً دعوت اصلاح دے رہا ہو تو حق و باطل میں امتیاز کا معیار کیا ہو گا؟ قرآن حکیم کی یہ آیات اسی معیار امتیاز کو واضح کر رہی ہیں۔ قرآن منافقت کے مختلف روپ چن چن کر بے نقاب کر رہا ہے۔ اگر سب علامات کو سامنے رکھ کر اسی قرآنی معیار پر حق پرستی اور منافقت کی پرکھ کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دھوکہ و فریب کی گنجائش باقی رہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم قرآنی معیار حق کی بات تو کرتے ہیں لیکن عملاً اس معیار پر کھوٹے اور کھرے کی پرکھ نہیں کرتے پرکھ کے لیے ہم نے اپنے ذہنی معیارات اور مفاد پرستانہ پیمانے قائم کر رکھے ہیں اگر قرآن ان پر پورا اترے تو اسے مانتے ہیں ورنہ اس کی بھی تاویل کر لیتے ہیں۔
یہاں منافقین کی ایک اور توجہ طلب نفسیاتی علامت بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ اپنے سوا دوسرے مسلمانوں کو بے وقوف، کم فہم اور کم عقل سمجھنا۔ بلکہ دوسروں کو اپنی نام نہاد عقل و دانش اور فہم و فراست کے مقابلے میں اس قدر ہلکا تصور کرنا کہ ان کی ڈگر کو بے عقلی اور گمراہی تصور کرنا۔
یہ سفیہ کی جمع ہے سفہ کے اصل معنی خفت، کمزوری، ردی پن اور ہلکا پن کے ہیں۔ ہلکے اور کمزور جسم والے کو سفیہ البدن اور گھٹیا کپڑے کو ثَوْبٌ سفیہٌ کہتے ہیں۔ (1) چوں کہ کم عقلی انسان کا سب سے ہلکا پن ہے۔ اس لیے عام استعمال میں سفیہ کا معنی بے وقوف اور کم عقل کیا جاتا ہے۔ اقتصادی نظم و نسق کی سوجھ بوجھ میں کمی کے باعث بعض لوگوں کی نسبت قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
فيروز آبادی، القاموس المحيط، 1: 1609
وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى حَتَّى إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَى بِاللّهِ حَسِيبًا.
النساء، 4: 6
‘‘اور یتیموں کی (تربیتہً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو، اور ان کے مال فضول خرچی اور جلد بازی میں (اس اندیشے سے) نہ کھا ڈالو کہ وہ بڑے ہو (کر واپس لے) جائیں گے، اور جو کوئی خوشحال ہو وہ (مالِ یتیم سے) بالکل بچا رہے اور جو (خود) نادار ہو اسے (صرف) مناسب حد تک کھانا چاہئے، اور جب تم ان کے مال ان کے سپرد کرنے لگو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو، اور حساب لینے والا اللہ ہی کافی ہےo’’
عہد رسالت میں جب منافقوں سے یہ کہا جاتا کہ تم بھی دوسرے لوگوں کی طرح دل سے ایمان لے آؤ اور اسلام کے خلاف خفیہ فتنہ و سازش بند کر دو تو وہ جواب دیتے کہ دوسرے لوگ تو بیوقوف اور کم عقل ہیں جنہوں نے دل سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اختیار کر لی ہے اور اسلام کی خاطر ہر طرح کی جانی و مالی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ کیا ہم بھی ان کی طرح بے وقوف ہو جائیں اور دنیوی منفعتوں کو نظر انداز کر دیں۔ ہمیں کیا پڑی کہ ان بے وقوفوں کی طرح ہر کسی سے مخالفت مول لیتے پھریں۔ اپنی رشتہ دار یا دیرینہ دوستیاں اور سابقہ تعلقات بگاڑ لیں۔ پھر اسلام کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر ہر قسم کی قربانی دیں۔ جنگوں میں حصہ لیں، دن کی مصروفیات اور رات کے آرام و سکوں کو قربان کریں۔ اپنی سرداریاں چھوڑیں اور ایک شخص کے حلقہ غلامی میں آ جائیں۔ دراصل ان منافقین کے سامنے اسلام کا اصلی روپ اور حقیقی روح تھی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیکر تسلیم و رضا بنتے دیکھا تھا۔ ان پر حقیقت ہر وقت روزِ روشن کی طرح عیاں تھی کہ:
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
جب اہلِ مدینہ کا ایک وفد بیعت عقبہ ثانیہ کے موقعہ پر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس ہاتھوں میں اپنے ہاتھ دے کے قبولِ اسلام کا حلف اٹھا رہا تھا تو اس وقت حضرت عباس بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر برملا یہ اعلان کیا:
اِنَّکُمْ تبايعونهُ علٰی حرب الأحمر والأسود من الناس.
1. طبری، تاريخ الأمم والملوک، 1: 563
2. ابن هشام، السيرة النبوية، 2: 295
تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک پر فی الحقیقت اس امر کی بیعت کر رہے ہو کہ اسلام کی خاطر دنیا کے ہر سرخ و سیاہ انسان سے جنگ کرو گے۔’’
جس پر سب نے بیک آواز لبیک کہا یہ تھی وہ بنیادی روح جو ایمان لاتے ہی عالمِ کفر و طاغوت کی بے پناہ مخالفتوں اور عداوتوں کی وجہ سے ہر مسلمان کے لیے لازمہ حیات بن جاتی ہے۔ اس کے بغیر کسی کا مسلمان ہونا ہی نا مکمل رہتا تھا۔ منافقین کی سوچ کیونکہ خالصتاً مادہ پرستی پر مبنی تھی، وہ ہر چیز کو دنیوی سودوزیاں کے مزعومہ پیمانے پر پرکھتے تھے۔ سابقہ آرام کی زندگی کو چھوڑ کر اس مسلسل انقلابی زندگی کو اپنا لینا انہیں اپنی نظر میں کم عقلی نظر آتا تھا وہ خود کو عقل مند تصور کرتے تھے۔ قرآن ان کی نام نہاد عقلمندی کو بے سمجھی اور کم فہمی سے تعبیر کر رہا ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ اس قربانی کی زندگی میں سب سے بڑا نفع مضمر ہے۔ آخرت کا نفع تمام دنیوی منافع سے اعلیٰ اور برتر ہے۔ وہ خود چار روزہ زندگی کی ظاہری منفعت کو دیکھ کر اُخروی زندگی کی دائمی اور ابدی منفعت کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ بے سمجھی اور بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ باری تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے:
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی.
النساء، 4: 77
‘‘آپ انہیں فرما دیجئے کہ دنیا کا مفاد بہت تھوڑا (یعنی معمولی شے) ہے اور آخرت بہت اچھی (نعمت) ہے، اس کے لیے جو پرہیز گار بن جائے۔’’
قرآنِ مجید نے منافقت کی یہ علامت ایک مستقل مادہ پرستانہ ذہنیت کے طور پر نمایاں کی ہے۔ آج ہم میں سے کتنے ہیں جو اس ذہنیت سے کلیہً پاک ہیں؟ اگر کوئی خوش نصیب دینِ حق کی راہ میں معمولی سی قربانی کے لیے بھی تیار ہوتا ہے تو اس کے اعزا و اقرباء اور دوست و احباب کیا اسے اپنے وقت، مال و دولت اور دیگر آسائشوں کے زیاں کا طعنہ نہیں دیتے؟ اگر یہ سچ ہے اور یقینا سچ ہے تو اندازہ فرمائیے کہ منافقت کس حد تک ہمارے رگ و ریشے میں رچ بس چکی ہے۔ ہم دین کو صرف اسی حد تک اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ جس حد تک جانی و مالی مفادات پر زدنہ پڑتی ہو۔ جہاں دینِ حق کو جان و مال اور وقت کی قربانی مطلوب ہو۔ ہم اس حد میں داخل ہونے کو بے وقوفی سمجھتے ہیں۔ یہ ہے منافقت کی وہ اصل جو دین کی احیاء کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یاد رکھیئے کہ دین سراسر قربانی کا نام ہے اگر زندگی اس جذبے اور عمل سے خالی ہو تو کوئی بھی شخص جس قدر دین داری کا چاہے ڈھنڈورا پیٹتا رہے قرآن کی نظر میں اس کا نام منافقت ہے۔ ایسی منافقت کے ساتھ ادا کی جانے والی نمازیں بھی ریا کاری تصور ہوتی ہیں، جن پر بجائے ثواب کا مستحق ہونے کے سخت اذیت ناک عذاب کی وعید آئی ہے۔ سورۃ الماعون اس حقیقت کی واضح عکاسی کرتی ہے۔
اہل مدینہ میں سے اکثر افراد اسلام قبول کر چکے تھے۔ جب کہ منافقین کی تعداد ان کے مقابلے میں خاصی کم تھی۔ یہاں قرآنِ مجید نے ایک اصولی انداز کو اپنایا ہے۔ منافقین سے کہا جا رہا ہے:
اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ.
البقرة، 2: 13
‘‘(تم بھی) ایمان لاؤ جیسے (دوسرے) لوگ ایمان لے آئے ہیں۔’’
قاعدہ یہ ہے:
لِـلْاکْثَرِ حکم الکلّ.
1. سرخسی، المبسوط، 4: 183
2. مقدسی، الفروع، 1: 350
‘‘اکثر کے لیے کُل ہی کا حکم ہوتا ہے۔’’
یہاں بھی الناس سے مراد اکثر الناس ہیں۔ کیونکہ سارے لوگ تو صاف ظاہر ہے کہ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے۔ ان میں اکثر افراد نے ہی یہ شرف حاصل کیا تھا۔ یہاں قرآنی استددلال یہ ہے کہ جب اکثر افراد نے ہی یہ شرف حاصل کیا تھا۔ یہاں قرآنی استدلال یہ ہے کہ جب اکثر افراد اُمّت دل و جان سے حلقہ بگوش اسلام ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اختیار کر چکے ہیں تو تم اقلیت میں ہوتے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت کے مخالفت کیوں کر رہے ہو؟ تم بھی اپنی عقل و دانش کے فیصلے پر ڈٹے رہنے کی بجائے اہلِ اسلام کی اکثریت کی پیروی کر لو اور ایمان لے آؤ۔ اس پر منافقین یہ جواب دیتے تھے کہ وہ تو سب کے سب کم فہم، کم علم بے عقل ہیں۔ وہ تو گمراہ ہو چکے ہیں بھلا ہم ان بے وقوفوں کے پیچھے کیوں لگ جائیں۔ قرآن مجید نے اس اندازِ فکر کو منافقت سے تعبیر کرتے ہوئے یہ واضحی کیا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو گمراہ اور بے عقل تصور کرنا خود بے عقلی اور گمراہی کی بات ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی سوسائٹی کے چند افراد یا کوئی ایک آدھ شخص خود کو ہی صاحبِ عقل و فہم اور راست فکر کا حامل تصور کرتے ہوئے اپنی رائے اور تحقیق کو صحیح اور باقی امتِ مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ قرار دینے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کی اکثریت کبھی گمراہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اہلِ اسلام کی اکثریتی جماعت پر خدا کی حفاظت کا ہاتھ رہتا ہے۔ یہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت اور برکت کے توسط سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے خصائص میں سے ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِنَِّ اﷲ لا يجمع امتی علٰی ضلالة، ويد اﷲ علی الجماعة، من شذ شذ فی النار.
ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب الفتن، باب ماجاء فی لزوم الجماعة، 4: 466، رقم: 2167
‘‘اﷲ تعالیٰ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر اکٹھا نہ ہونے دے گا۔ جماعت پر اﷲ تعالیٰ کی حفاظت کا ہاتھ ہے، جو کوئی اس سے جدا ہو گا، دوزخ میں جائے گا۔’’
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُمّت کے جمع ہونے سے کیا مراد ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس امر کی وضاحت یوں فرمائی ہے:
اثنان خير من واحدٍ وثلاثةٌ خيرٌ من اثنين واربعة خيرٌ من ثلاثةٍ، فعليکم بالجماعة، فإن اﷲ لن يجمع أمتی إلّا علٰی هدًی.
احمد بن حنبل، المسند، 5: 145، رقم: 21331
‘‘کسی مسئلے پر دو کا ایک کے مقابلے میں جمع ہونا بہتر اور محفوظ ہے۔ اسی طرح تین دو کے مقابلے میں بہتر ہیں اور چار، تین کے مقابلے میں تم پر اکثریتی جماعت کی پیروی لازم ہے۔ بیشک اﷲ تعالیٰ میری امت کو سوائے ہدایت کے کسی غلط بات پر جمع نہیں ہونے دے گا۔’’
حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
تشاوروا فی أمرکم، فإن کان اثنان واثنان، فارجعوا فی الشوریٰ، فإن کان أربعة واثنان، فخذوا صنف الأکثر.
1. ابن سعد، الطبقات الکبری، 3: 61
2. هندی، کنز العمال، 5: 905، رقم:14250
‘‘اپنے امور میں باہمی مشورہ کیا کرو، اگر کسی مسئلے پر رائے دو اور دو افراد میں مساوی تقسیم ہو جائے تو پھر اُسے شوریٰ میں لے جاؤ۔ اگر رائے کی تقسیم چار اور دو میں ہو جائے تو اکثریتی رائے کو اپنا لو۔’’
اُمتِ مسلمہ کی اکثریتی رائے کی تمام اُمت یا کل جماعت مسلمہ کی رائے اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ ہر مسئلے پر فی الواقع سو فی صد اتفاق رائے عقلاً و نقلاً ناممکنات میں سے ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفاء راشدین کا عمل بھی یہی تھا کہ مشاورت میں اکثریتی رائے کا احترام فرماتے۔ خلفاء راشدین کے اِستخلاف میں بھی جہاں ضرورت پڑی اسی اصول کو اپنایا گیا بلکہ اکثریتی رائے کے اقلیتی رائے پر فائق ہونے کا اصول پوری دنیا کے مسلمات میں سے ہے جس پر اہلِ اسلام اور غیر اہلِ اسلام میں سے کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ قرآن مجید نے یہاں منافقین کے اقلیتی گروہ کو کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ کہہ کر اکثریتی طبقے کی راہ کو اپنانے کا استدلال اختیار کیا۔ جس پر ان کا جواب تھا کہ ‘‘ہم کیسے ان لوگوں کی طرح ایمان لے آئیں۔ وہ تو عقل و شعور اور فہم وبصیرت سے عاری ہیں۔’’ باری تعالیٰ نے اس اندازِ فکر کو منافقت سے تعبیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اپنی رائے اور تحقیق کو اکثریتی رائے اور تحقیق پر فائق سمجھنا اور مسلمانوں کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا، خود گمراہی، بے عقلی اور بے بصیرتی ہے۔ ‘‘ گویا اس اصول کے بیان سے قرآنِ حکیم نے امتِ مسلمہ کے اندر نام نہاد اصلاح و تجدید کے نام پر آئے دن پیدا ہونے والے چھوٹے چھوٹے فکری اور اعتقادی فتنوں اور متجدّدانہ تحریکوں کا سدِّباب کیا ہے جو ہمیشہ اُمتِ مسلمہ کے اکثریتی طبقے کو گمراہ، کافر و مشرک، بدعتی اور بے وقوف قرار دیتی ہیں۔ اس تصور کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسلمانوں کے اکثریتی طبقے میں کوئی خرابی یا بگاڑ پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ بگاڑ اور خرابیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمیشہ پیغمبرانہ تعلیمات کے مطابق اکثریتی طبقے کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے یعنی سوادِ اعظم سے منسلک رہتے ہی اُمت کی اصلاح کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اہلِ ایمان کے سودِاعظم کو گمراہ قرار دیے کر یا اس سے خارج ہو کر اپنے لیے نئی راہ بنانا یہی حقیقت میں گمراہی اور منافقت ہے اور اسی سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اس مفہوم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
الزموا السواد الاعظم فان يد اﷲ علی الجماعة وايّا کم والفرقة فانّ الشّاذ من الناس للشيطان کما انّ الشّاذ من الغنم للذئب.
نهج البلاغه: 383
‘‘اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے بڑے گروہ سے منسلک ہو جاؤ کیونکہ اﷲ کی حفاظت کا ہاتھ اس جماعت پر ہے اور اس اکثریتی طبقے سے الگ ہونے یعنی فرقہ بندی کرنے سے گریز کرو۔ بے شک جو لوگوں کے اکثریتی گروہ سے الگ ہوتا ہے شیطان کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے جیسے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیے کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے۔’’
اس آیت کا مبداء استدلال یہ بھی ہے کہ اُمت کی اکثریت کا کسی مسئلے پر متفق ہو جانا خود بھی شرعی دلیل قرار پاتا ہے۔ اس پر عمل ضروری اور اس سے انحراف حرام ہوتا ہے۔ کیونکہ قرآنِ مجید نے بالعموم اہلِ ایمان کی راہ کی پیروی نہ کرنے کو براہِ راست رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت اور گمراہی قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا.
النساء، 4: 115
‘‘اور جو شخص رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہےo’’
لہٰذا آیت زیر مطالعہ، آیتِ متذکرہ اور مندرجہ بالا احادیث سب اجماعِ اُمت کے واجب ہونے کی متقاضی ہیں۔ اس لیے اہلِ اسلام کے نزدیک متفقہ طور پر قرآن و سنت کے بعد ‘‘اجماع’’ کو تیسرے ماخذِ شرعی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اجماع اُمت یا مسلمانوں کے اکثریتی طبقے کے اتقاقِ رائے سے مراد امت کے جہلاء اور محض عوام ہی کے اکثریت کا بغیر دلیل کے کسی مسئلے پر مجتمع ہونا نہیں ہے۔ کیونکہ عوام کو ازخود مسائل کا صحیح علم بھی نہیں ہوتا جب اُمت کا اکثریتی طبقہ کسی دینی موقف پر متفق ہوتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد علماء راسخین اور مجتہدینِ اُمت کی تحقیق و تصریح یا اہلِ علم کا تعامل و تواتر ہی ہوتا ہے۔ اہلِ علم کے قبولِ عام کی بنا پر اس شرعی مؤقف کو امتِ مسلمہ کی اکثریت بھی قبول کر لیتی ہے۔
لہٰذا اس مسئلے پر ذہن با لکل صاف ہونا چاہیے کہ اُمّتِ مسلمہ کے اکثریتی طبقے کا اجماع ازخود واقع نہیں ہو جاتا بلکہ یہ اجماع ہمیشہ اہلِ علم و اجتہاد کی اکثریت کے نزدیک کسی مسئلے پر ‘‘تلقی بالقبول’’ کی بنا پر واقع ہوتا ہے یہی وجہ ہلے کہ اجماعِ امت یا سوادِ اعظم پر مبنی مذہب کو شریعت نے مذہبِ حق قرار دیا ہے۔
عہدِ صحابہ میں بھی تمام صحابہ معروف بالعلم والاجتہاد نہ تھے۔ رسوخ فی العلم اور اجتہادی بصیرت تو بعض صحابہ کو ہی حاصل تھی۔ جب کہ باقی صحابہ اس دور کے عوام الناس کے زمرے سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اجماعِ صحابہ یا صحابہ کے اکثریتی طبقے کا اتفاق رائے اس لیے آج بھی شرعاً حجت ہے کہ اس کی بنیاد بھی اہلِ علم صحابہ کا اجتہاد ہوتا تھا۔ جو ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں واقع ہوتا۔ جب اسے تمام یا اکثر صحابہ قبولِ عام ہو جاتا تو وہی اجتہاد، اجماع قرار پاتا۔ اور اسی کو سوادِاعظم کا مسلک کہا جاتا تھا تعاملِ صحابہ یا آثارِ تابعین کے متعدد نظائر و شواہد اسی طور واقع ہوئے ہیں۔
لہٰذا اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکثریتی طبقے کو قرآن و سنت کے خلاف اور گمراہ تصور کرنا دراصل اپنی آمریت کو قرآن و سنت یا اسلام کا نام دے کر دوسروں پر مسلط کرنے کی خواہش ہے۔ اس لیے اسے قرآن مجید نے منافقت قرار دیا۔
یہاں منافقین کی ایک اور علامت بیان کی گئی ہے اور وہ ہے، کردار کا دوغلا پن اسی کو ظاہر و باطن کا تضاد کہتے ہیں۔ منافقین کا رویہ بزدلانہ تھا۔ وہ اپنے اندر کے کفر کو مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے باعث ظاہر کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی اپنا تعلق اپنے وڈیروں اور سرمایہ داروں سے منقطع کرنا چاہتے تھے۔ ان کا وطیرہ اس دوغلے کردار کی غمازی کرتا تھا۔ یعنی:
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
اپنی طرف سے ان کا یہ طریقِ کار نہایت مخفی اور راز دانہ تھا۔ لیکن قرآن ان کا منافقانہ نفسیات اور بزدلانہ روشِ زندگی کو بے نقاب کر رہا ہے کہ جب غلامانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتے ہیں۔ تو انہیں کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں یعنی ہم مسلمان ہیں اور سابقہ حالتِ کفر سے تائب ہو چکے ہیں۔ اور جب اپنے کفر کے رؤسا و قائدین کے پاس علیحدگی میں جاتے ہیں تو انہیں اپنی وفاداری اور کفر سے وابستگی کا یقین دلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے راہ و رسم اور ملنا جلنا انہیں بے وقوف بنانے کے لیے ہے اور ان سے ہم جو اپنے مسلمان ہونے کا ذکر کرتے ہیں، وہ محض تمسخر اور استہزا ہے۔ یہ تھا ان کے کردار کا دوغلا پن جسے قرآن نے نمایاں طور پر انہی کے الفاظ میں واضح کر دیا۔
اس آیت میں منافقین کے دو اقوال کا ذکر ہے ایک قولِ ایمان، جو وہ مسلمانوں سے کرتے تھے اور دوسرا قولِ کفر، جو وہ کفر کے سرغنوں سے کرتے تھے۔ پہلے قول کے لیے
وَاِذَا لَقُوْا الَّذِيْنَ اٰمِنُوْا قَالُوْا اٰمَنَّا.
البقره، 2: 14
‘‘اور جب وہ (منافق) اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں۔’’
کے الفاظ آتے ہیں، لیکن کفر کے قول کے لیے:
اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَيٰطِيْنِهِمْ قَالُوْا اِنَّا مَعَکُمْ.
البقره، 2: 16
‘‘جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم یقینا تمہارے ساتھ ہیں۔’’
کے الفاظ آئے ہیں۔ خَلاَ فَلاَنٌ بفلانٍ کے معنٰی ہیں: وہ اس سے علیحدگی میں ملا، یا اس کے ساتھ خلوت میں ہوا۔ (3) یہاں اس امر کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے کہ منافقین کا قولِ کفر، خلوت میں ہوتا تھا۔ یعنی یہ ان کا باطن تھا۔ اور قولِ ایمان وہ ظاہر میں کرتے تھے۔ گویا ان کے ظاہر اور باطن میں تضاد تو تھا ہی لیکن اس کی یہ تھی کہ وہ ظاہراً ایمان، اسلام، نیکی اور اچھائی کی بات کرتے تھے لیکن ان کا باطن کفر اور بدی سے لبریز تھا۔ اسی نوعیت کے تضاد کو قرآن نے منافقت سے تعبیر کیا ہے۔ یہ ایسا دائمی معیار ہے کہ ہر شخص اپنے ظاہر و باطن اور جلوت و خلوت کے تضاد کو پرکھ کر یہ متعین کر سکتا ہے کہ وہ کس مقام پر کھڑا ہے۔
(3) ابن منظور، لسان العرب، 14: 237
اس آیت میں خَلَوْا اِلٰی شَيٰطِيْنِهِمْ کے دونوں الفاظ قابلِ توجہ ہیں۔ خَلَوْا کے لفظ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اہلِ حق کے خلاف ساری سازشیں اور ریشہ دوانیاں خلوت میں مخفی اور سازشی انداز میں ہوتی تھیں۔ لوگ اہلِ حق کی مخالفت کھلے انداز میں نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے ان سے خوشامدانہ رویے سے پیش آتے تھے۔ ان کے سامنے ایسے کلمات بھی کہتے جن سے انہیں ظاہراً خوش کرنا مقصود ہوتا۔ ان کی تائید کرتے اور اپنے آپ کو ان کا ہمنوا ظاہر کرتے لیکن ان کے خلاف چھپ کر اپنی مخصوص مجلسوں میں سازشیں اور گھناؤنے منصوبے تیار کرتے رہتے تھے۔ منافقت کا یہ بیان اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا ہے کہ مخفی اور سازشی انداز کی کاروائیاں اور بند کمروں کے منصوبے سب اپنی اصل کے لحاظ سے منافقت ہوتے ہیں۔ اہلِ حق، سچائی کی بات کو ہر جگہ یکساں طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ اگر دینی تقاضے کے تحت کسی کی مخالفت میں بھی مخفی سازش کا عنصر کار فرما ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کے خلاف سازش کرنا اور مخفی طریقوں سے ایک دوسرے کی مخالفت کرنا ایک عمومی رویہ بن گیا ہے۔ یہاں تک کہ مذہب کے کئی نام نہاد داعی بھی دوسروں کے خلاف سازش اور مخفی منصوبہ بندی (conspiracy, intrigue) میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ کسی کی مخالفت بھی کرتے ہیں تو چھپے انداز میں یہ منافقت بعض طبیعتوں میں اتنی عام ہوتی جا رہی ہے کہ ان کا پورا کردار اسی عمل سے عبادت ہو کر رہ گیا ہے۔ طریقِ کار کے اعتبار سے یہ حق و باطل کے درمیان امتیاز ہے۔ آپ کسی بھی فرد، طبقے، گروہ یا جماعت کے طور طریقوں سے اس امر کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کی بنیاد حق ہے یا منافقت کیونکہ قرآن کی یہ تعلیمات محض واقعات پر نہیں بلکہ ابدی اصولوں کے بیان پر مشتمل ہیں۔ اگر ہم اپنے خود تراشیدہ معیارات کے بجائے قرآنی معیارات پر جانچ کر حق و باطل کا تعین کریں تو بہت سی حقیقتیں بے نقاب ہو سکتی ہیں۔
شیطان کا لفظ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونے کے ہیں۔ اس لحاظ سے شیطان رحمت الہٰی سے دور اور محروم ہونے والے کو کہتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک شیطان، شاط یشیط سے فعلان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ جس کے معنی غضب میں جلنے کے ہیں۔ جہ جلد باز، مشتعل مزاج، متمرو مزاج شریر و سرکش کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لفظ کی مزید لغوی تحقیق اور معنوی تفصیلات و اطلاعات ہماری کتاب ‘‘تسمیۃ القرآن’’ کے حصے اعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اگر اس جگہ قرآنِ مجید نے گروہِ منافقین کو دو طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک منافقین اور دوسرے شیاطین۔
عام منافقین سے مراد وہ تمام لوگ تھے، جو زبان پر کلمہ اسلام اور دل میں کلمہ کفر رکھتے تھے۔ جن کا ذکر اس آیت کے سیاق و سباق میں چلا آ رہا ہے۔ لیکن ان کی حیثیت محض کارکنوں کی تھی۔ کفر کے اصل سرغنے تو وہ سردار اور لیڈر تھے، جو محض مجلسیں سجا کر بیٹھتے اور مسلمانوں کے خلاف محض سازشیں کرتے تھے ان کو قرآنِ مجید نے ان کے گھناؤنے کردار کی بنا پر شیاطین قرار دیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کا عمل عام منافقوں سے کہیں زیادہ قبیح تھا۔ جس کی وجہ سے انہیں شیطان کہا گیا ہے۔ یہ الفاظ منافقانہ اور سازشی کاروائیوں کی سرپرستی کرنے والے لیڈروں اور سرغنوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
مسلمانوں سے تمسخر اور استہزاء کی نفسیات بذاتِ خود منافقت ہے۔ غلط بیانی اور طعنہ زنی کا انداز بھی اسی میں شامل ہے۔ علامہ زمخشری نے استہزاء کا معنی إنزل الهوان والحقارة یعنی ذلت و حقارت کا وارد کرنا کیا ہے۔ کیونکہ استہزاء کی اصل ‘‘ہزا’’ ہے جس کے معنی کسی کا مذاق اڑانا کے ہیں۔ لہٰذا استہزاء کی اصل غرض دوسرے کی تحقیر ہے۔ ہنسنا محض ایک ذریعہ ہے جس سے تحقیر کی جاتی ہے۔ تحقیر کے بغیر ہنسنا استہزاء نہیں کہلاتا۔ یہاں منافقین کی مخصوص ذہنیت اور عادت کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ ان کے پیش نظر مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر تھی۔ وہ ہر وقت اسی فکر میں لگے رہتے تھے۔ استہزاء ان کی اسی سوچ کا مظہر تھا۔ اس سے یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ وہ اہل حق کو حقیر اور خود کو اعلیٰ وفائق تصور کرتے تھے۔ اسی لیے تو ان کے نزدیک مسلمانوں کے استہزاء کا جواز نکلتا تھا۔ یہی سوچ بدقسمتی سے آج ہمارے ہاں حاوی ہوتی جا رہی ہے بہت سے لوگ عامۃ المسلمین کو حقیر، بے وقعت اور ناسمجھ جان کر انہیں قابل التفات نہیں سمجھتے بلکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ان کا تمسخر اور استہزاء کرتے ہیں۔ مستزاد یہ کہ کسی بھی معاشرے کے عوام کو اسی سوچ کے تحت حقیر جان کر نظر انداز کرنا از روئے قرآن مذموم اور علامات منافقت میں سے ہے۔ اس بیان سے یہ تعلیم بھی حاصل ہوتی ہے کہ طنز، تمسخر اور استہزاء کا انداز عام گفتگو میں بھی ہرگز روا نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ بات اسلام کے آداب گفتگو کے صریح خلاف ہے۔ آداب گفتگو کا تقاضا یہ ہے کہ جو بات بھی کہی جائے، اس کا منشاء و مراد اپنے ظاہر و باطن کے لحاظ سے متضاد نہیں ہونا چاہیے۔
زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 1: 104
سزائے فعل کا ذکر اسی فعل سے کرنا اسلوبِ قرآن ہے
عربی زبان بلکہ خود قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ بعض اوقات کسی فعل پر دی جانے والی سزا کا ذکر بھی اسی فعل کے انداز میں کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ پہلی مرتبہ وہ لفظ فعل کے مفہوم پر امام ابن جریر کہتے ہیں کہ جب ایک ہی فقرہ جواب کے طور پر ہو تو اس سے مراد فی الواقع وہ فعل نہیں ہوتا بلکہ اس فعل کی سزا ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ.
الشوریٰ، 42: 40
‘‘اور برائی کا بدلہ اسی برائی کی مِثل ہوتا ہے، پھر جِس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اُسکا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ بے شک وہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتاo’’
حالانکہ سزا تو عدل و انصاف کا عین تقاضا ہوتی ہے بری نہیں ہوتی، اسی طرح ارشاد فرمایا گیا ہے:
الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ.
البقرة، 2: 194
‘‘حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور (دیگر) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں، پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ ڈر نے والوں کے ساتھ ہےo’’
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا:
وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ.
البقره، 2: 190
‘‘اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بے شک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo’’
اسی طرح باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.
الحشر، 59: 19
‘‘اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھلا بیٹھے پھر اللہ نے اُن کی جانوں کو ہی اُن سے بھلا دیا (کہ وہ اپنی جانوں کے لیے ہی کچھ بھلائی آگے بھیج دیتے)، وہی لوگ نافرمان ہیںo’’
ایک مقام پر منافقین کا نام لے کر یہی بات یوں کہی گئی ہے:
الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُواْ اللّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.
التوبة، 9: 67
‘‘منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس) سے ہیں۔ یہ لوگ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) بند رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر دیا، بے شک منافقین ہی نافرمان ہیںo’’
حالانکہ خدا کی ذات بھولنے بھلانے سے پاک ہے۔ لیکن منافقین کے بھلانے پر جو سزا دی گئی ہے اس کو بھلانے سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ استہزاء سے پاک ہے۔ لیکن منافقین کے استہزاء پر جو سزا دی گئی اس کو بھی استہزاء سے تعبیر کر دیا گیا ہے۔ امام راغب رحمۃ اللہ علیہ نے ‘‘مفردات الفاظ القرآن (ص: 543)’’ میں اور ابن منظور نے ‘‘لسان العرب (1: 283)’’ میں اسی معنی کی تائید کی ہے۔ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان سے بھی اسی معنی کی تائید ہوتی ہے۔ (1) صاحبِ جلالین اسی کا معنی یُجَازیہم باستہزائہم (اللہ تعالیٰ ان کے مذاق پر انہیں سزا دیتا ہے) کرتے ہیں۔ (2) محاورہ عرب کا استعمال بھی اسی معنی کی تصدیق کرتا ہے۔ اس لیے کفار و مشرکین اس آیت کے نازل ہونے پر کوئی اعتراض نہ کر سکے۔ اہل علم پر نہایت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسے الفاظ کے استعمالات پر تحقیق کر کے صحیح ترجمہ اور مفہوم بیان کیا کریں تاکہ عربی زبان سے نا آشنا لوگ ان کے تساہل کی بنا پر کسی غلط خیالی یا بد اعتمادی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
(1) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1: 253
(2) سيوطی، تفسير الجلالين: 5
بعض منصوبوں کا کچھ دیر تک قائم رہنا ان کے حق ہونے کی دلیل نہیں
مَدَّ یَمُدُّ کے اصل معنی کھینچنا اور پھیلانا کے ہیں۔ (1) اس میں ‘‘اِمْہَال’’ یعنی مہلت اور ڈھیل کا مفہوم پایا جاتا ہے جب کوئی شخص خدا کے خلاف بغاوت اور سرکشی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اسی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔ گویا اسے ڈھیل اور مہلت دیتے ہیں کہ چاہے تو کسی وقت بھی تائب ہو کر اپنی اصلاح کر لے یا پھر اپنی گمراہی اور سرکشی کی انتہا کو پہنچ جائے تاکہ اس کی رسی دراز کیے رکھنے کے بعد اس کی گرفت ہو تو اتنی ہی شدید ہو جتنی شدید اس کی سرکشی اور بغاوت تھی۔ اس آیت سے لوگوں کے اپنے اعمال اور گمراہی و سرکشی کی راہ اختیار کرنے کی نسبت اللہ کی طرف سے عطا کردہ آزادی اور اختیار بھی ثابت ہوتا ہے۔ نہ اللہ تعالیٰ کسی کو غلط راہ پڑنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اور نہ غلط کاری کے بعد مہلت دیے بغیر کسی کی گرفت کرتے ہیں۔ چنانچہ منافقین کو بھی عہد رسالت میں ڈھیل دی گئی حتی کہ غزوہ تبوک کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کے آخری ایام میں انہیں سزا دی گئی۔
(1) ابن منظور، لسان العرب، 3: 396
یہاں تعلیم و تربیت کا یہ پہلو مضمر ہے کہ اگر اس دنیا میں کسی شریر و سرکش کو اپنی منفی اور تخریبی کاروائیاں جاری رکھنے کا کچھ موقعہ ملا رہے اور اس کے منصوبے کچھ عرصے تک قائم رہیں تو اس سے یہ مطلب نہ اخذ کیا جائے کہ وہ حق ہے کیونکہ باطل ہوتا تو نیست و نابود ہو جاتا۔ اور نہ یہ مراد لیا جائے کہ وہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ اسے زوال نہیں آ سکتا۔ یہ سب انسان کی ناقص عقل کی بھول ہے۔ حقیقت میں یہ مہلت نہ اس کی حقانیت کی علامت ہے اور نہ اس کے ہمیشہ باقی رہنے کی دلیل۔ اس میں اس کی کوئی کامیابی نہیں اسے اس مہلت پر خوش نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ باری تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل ہے تاکہ وہ اپنی گمراہی کے نقطہ عروج پر پہنچ جائے تو اس تصور کو يَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْن (انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جا پہنچیں) سو وہ خود اپنی سرکشی میں بھٹک رہے ہیں) کے الفاظ میں واضح کیا گیا ہے۔
طغی سے مشتق ہے۔ اس کے معانی نافرمانی میں حد سے گزر جانے کے آتے ہیں۔ (1) اسی لیے اس کا ترجمہ سرکشی اور بغاوت کیا جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا گیا:
(1) ابن منظور، لسان العرب، 15: 7
اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى.
طه، 20: 24
‘‘تم فرعون کے پاس جاؤ وہ (نافرمانی و سرکشی میں) حد سے بڑھ گیا ہےo’’
عَمَّہُ کے معنی ہیں:
التردد فی الأمر من التحير.
اصفهانی، مفردات ألفاظ القرآن: 1013
‘‘تحیر کی وجہ سے کسی معاملے میں متردد ہونا۔’’
علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ یہ لفظ عمی کی مانند ہے مگر فرق یہ ہے کہ عمی، اندھا پن، ظاہری نابینائی اور عقل و فکر یا رائے کی نابینائی دونوں پر استعمال ہوتا ہے۔ لیکن عمہ صرف عقل و فکر کی یعنی باطنی نابینائی پر استعمال ہوتا ہے۔ (1) اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی نافرمانی کے باعث ایسے لوگ باطنی روشنی اور صحیح فکری رہنمائی سے محروم ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ اپنی گمراہی و سرکشی میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ تاوقتیکہ اپنے تمرد اور بغاوت سے تائب ہو جائیں یا بدبختی میں اس انتہا کو پہنچ جائیں کہ پھر ان پر عذاب الٰہی کی گرفت اتنی سخت ہو کہ وہ دوسروں کے لیے عبرت بن جائے۔
(1) زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 1: 107
شری سے ہے۔ شراء کے معنی عموماً خریدنے اور بیع کے معنی بیچنے کے آتے ہیں۔ مگر کسی چیز کے عوض چیز لی جا رہی ہو تو بیع و شریٰ دونوں ایک دوسرے کے مترادف بن جاتے ہیں۔ (1) ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ کفار و منافقین نے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دی۔ یعنی انہوں نے ایمان کے بجائے کفر کو پسند کیا۔ اس لحاظ سے یہاں اِشتَروا بمعنی اِسْتَحبُّوْا استعمال ہوا ہے۔ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی معنی کی تائید کی ہے۔ (2) اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تو اپنی سابقہ کفر کی حالت کی بنا پر پہلے ہی دولت ایمان اور متاع ہدایت سے محروم تھے۔ وہ ہدایت دے کر گمراہی خریدنے کے قابل تو تب ہوتے اگر ان کے پاس پہلے متاع ہدایت موجود ہوتی۔ انہیں تو اب ہدایت کی راہ بتائی جا رہی تھی۔ اب ان کے سامنے دو راستے تھے: ایک ہدایت کا، دوسرا گمراہی کا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(1) ابن منظور، لسان العرب، 14: 427
(2) قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1: 225
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ.
البلد، 90: 10
‘‘اور ہم نے انہیں دو راستے دکھا دیے (یا وہ ہدایت قبول کر کے راہِ سنت پر آ جاتے یا اپنی گمراہی و ضلالت پر قائم رہتے)o’’
چنانچہ انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو ترجیح دی اور ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کیا۔ ان کے اس فیصلے کو باری تعالیٰ نے اِشْتَرَوُ الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰی کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔
اِشْتَرَوُ الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰی کا دوسرا معنی یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس فطری ہدایت کو۔ جو اس نے ہر انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اسے ودیعت کر دی ہے، دے کر۔ اس کے بدلے کفر اور گمراہی حاصل کر لی۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے:قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى.
طهٰ، 20: 50
‘‘(موسیٰ علیہ السلام نے) فرمایا: ہمارا رب وہی ہے جس نے ہر چیز کو (اس کے لائق) وجود بخشا پھر (اس کے حسبِ حال) اس کی رہنمائی کیo’’
چونکہ انسان اشرف المخلوقات ہونے کی بنا پر اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے کیوں نہیں؟) (1) کے ابدی وعدہ کا شرف بھی حاصل کر چکا ہے۔ لہٰذا اسے فطری ہدایت کا وہ بلند درجہ نصیب ہوا ہے جو کسی اور ارضی مخلوق کو میسر نہیں آ سکا۔ اس لیے ان کے پاس نسل بنی آدم ہونے کے باعث فطری ہدایت کی قیمتی متاع تو موجود تھی۔ جس کا تقاضا یہ تھا کہ اب وہ ہدایت ربانی پر بھی ایمان لے آتے۔ لیکن انہوں نے فطری ہدایت کی یہ بیش بہا متاع دے کر اس کے بدلے گمراہی و ضلالت کا سودا کر لیا۔ فطری ہدایت کو کسبی گمراہی سے بدل لینے کے اس فعل کو قرآن حکیم نے إشتراء یعنی إستبدال الضلالة بالهدیٰ (ہدایت کے بدلے گمراہی کو اپنایا) (2) قرار دیا ہے۔ علامہ زمخشری نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ اُنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کس طرح خریدی، حالانکہ وہ تو پہلے بھی ہدایت پر نہ تھے لکھا ہے:
(1) الأعراف، 7: 172
(2) شوکانی، فتح القدير، 1: 715
لأن الدين القيّم هو فطرة اﷲ التی فطر الناس عليها، فکل من ضل فهو مستبدل خلاف الفطرة.
زمخشری، الکشاف عن حقائق غدامض التنزيل، 1: 107
‘‘کیونکہ دین حق ہی اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تخلیق کیا ہے۔ پس ہر گمراہ شخص فی الحقیقت فطرت کی ہدایت کو ضلالت و گمراہی سے بدلنے والا ہے۔’’
اس تصور کی بنا پر گمراہی کو ہدایت کے بدلے خریدنے کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ جمہور مفسرین نے اسی معنی کو اپنایا ہے۔
انہوں نے منافقت کا وطیرہ اس لیے اپنایا تھا کہ دونوں طرف سے مفادات حاصل کر سکیں گے۔ وہ کفر سے اپنا دیرینہ تعلق قائم رکھنے کی بناء پر ادھر سے حاصل ہونے والے مفادات کو بھی ملحوظ رکھتے چاہتے تھے اور مسلمانوں سے ایمان کا تعلق ظاہر کر کے ادھر سے دنیوی منافع، اموال غنیمت اور دیگر مفادات کے حق دار بننا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ چونکہ ان کی منافقت خدا اور رسول سے مخفی نہ تھی۔ اس لیے وہ ہر ایک کے سامنے بے نقاب ہو گئے۔ یوں دنیا میں بھی ذلت اور رسوائی ان کے حصے میں آئی اور آخرت میں اذیت ناک عذاب کے مستحق قرار دیے گئے۔ ان کی یہ تجارت کسی لحاظ سے بھی سودمند اور نفع بخش ثابت نہ ہوئی۔ یہ سودا بجائے منفعت کے خود انہی کے حق میں مضرت اور نقصان کا باعث ہو گیا جو ‘‘راس المال’’ فطری ہدایت کی صورت میں ان کے پاس موجود تھا، وہ بھی گمراہی کے بدلے ضائع کر بیٹھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہدایت کے باعث جو فائدہ انہیں آخرت کی زندگی میں پہنچتا، وہ اس سے بھی محروم ہو گئے اور دین کی زندگی میں بھی مزعومہ مفادات پورے نہ ہو سکے۔ قرآن حکیم نے یہ دونوں امور اس طرح بیان کئے ہیں : فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ کہ ان کی تجارت نے نہ انہیں دنیا کا نفع پہنچایا، وَمَا کَانُوْا مُهْتَدِيْنَ اور نہ ہدایت یعنی آخرت کا نفع نصیب ہو سکا۔ اس آیت کریمہ نے منافقت کو صریح نقصان اور گھاٹے کا سودا قرار دیا ہے اور تنبیہہ کی ہے کہ کردار کا دوہرا پن کبھی بھی مطلوبہ مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کا نتیجہ بہر صورت ذلت و رسوائی ہے خواہ جلد ہو یا بدیر۔ یہاں وَمَا کَانُوْا مُهْتَدِيْنَ کا معنی یہ بھی ہے کہ جنہوں نے حصول منفعت کی خاطر ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی وہ فی الحقیقت تجارت کی صحیح راہ نہیں جانتے۔ اگر انہیں صحیح سوجھ بوجھ اور نفع و نقصان کی تمیز ہوتی تو کبھی نقصان کا سودا نہ کرتے۔
مجموعی طور پر منافق دو قسم کے تھے: ایک وہ جو دل سے کفر ہی پر قائم تھے اور صرف زبان کی حد تک دعویٰ ایمان کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے تعصب اور عناد کی بنا پر اسلام کو سرے سے قبول ہی نہ کیا تھا۔ گویا یہ قطعی منکر تھے۔ دوسرے جو ایمان تو قبول کرتے تھے لیکن اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرا کر اور اپنے مزعومہ مفادات کو معرض خطر میں دیکھ کر پھر اسلام سے دستبردار ہو جاتے۔ ان کا دل ایمان لانے کے لیے تیار ہوتا مگر ہمیشہ مفادات اور خطرات آڑے آ جاتے۔ گویا یہ تذبذب اور شک کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ اس آیت میں پہلے گروہ کی تمثیل بیان کی گئی ہے اور دوسرے گروہ کی تمثیل آگے آیت نمبر 19 میں آ رہی ہے۔ اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے حق کی آگ روشن کی اور اس کے نور سے سارا گرد و نواح منور ہو گیا۔ ہمارے خیال میں اس سے مراد جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مثلی (ومثل الناس) کمثل رجل استوقد نارا.
بخاري، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالی ووهبنا لداود سليمان نعم العبد، 2: 1260، رقم: 3244
‘‘میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی مانند ہے جس نے آگ جلائی۔’’
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کے پیغام اور نور تبلیغ سے زندگی کے تمام ماحول کو روشن کر دیا۔ حق کو باطل سے، خیر کو شر سے اور نیکی کو بدی سے نمایاں کر دیا۔ وہ ماحول حیات جو شب تاریک کی مانند ظلمتوں اور گمراہیوں کا گہوارہ تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہیا کردہ نور ہدایت سے چمک اٹھا اور ہر طرف پیغام حق کا اجالا ہو گیا جو اہل نظر اور ارباب دانش تھے، ان پر ساری حقیقتیں آشکار ہو گئیں۔ لیکن منافق جو ہوا و ہوس کی پرستش میں سب سے آگے جا چکے تھے، باوجود روشنی کے حقیقت کو نہ پا سکے۔ انہوں نے اس نور ہدایت کو ٹھکرا دیا اور تعصب و عناد کے پردے اٹھا کر حق و صداقت کا روشن چہرہ دیکھنے سے انکار کر دیا۔ جب انہوں نے از خود گمراہی کو ہدایت پر ور ظلمت کو روشنی پر ترجیح دی اور نور حق سے منہ پھیر کر کفر و ضلالت کی تاریکیوں کو پسند کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کا نور بصارت سلب کر لیا۔ یعنی انہیں حسب خواہش گمراہیوں اور ظلمتوں میں بھٹکتے رہنے کی توفیق دے دی۔ جنہوں نے اس نور سے اکتساب فیض کیا تھا، وہ منزل مراد کو پا گئے۔ اور جو اس کے منکر ہوئے تھے، وہ کفر کی ظلمات میں بھٹکتے رہے۔
صُمٌّ اصم کی جمع ہے، (1) بُکْمٌ اَبْکَم کی جمع ہے، (2) اور عمیٌ اَعْمٰی کی جمع ہے۔ (3) ان کے معانی بالترتیب گونگا، بہرا اور اندھا کے ہیں۔ ان کی گمراہی اور قبول حق سے انکار کا یہ عالم ہے کہ ان کے کان حق کی بات سننے سے قاصر ہیں۔ ان کی زبانیں حق کہنے سے عاری ہیں اور ان کی آنکھیں حق کو دیکھنے سے محروم ہیں۔ یہاں مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے مذکورہ تمثیل کی وضاحت میں خوب نکتہ بیان کیا ہے:
(1) ابن منظور، لسان العرب، 12: 342
(2) ابن منظور، لسان العرب، 12: 53
(3) ابن منظور، لسان العرب، 15: 95
‘‘جنہوں نے اِظہارِ ایمان کیا اور دل میں کفر رکھ کر اِقرار کی روشنی کو ضائع کر دیا اور وہ بھی جو مومن ہونے کے بعد مرتد ہو گئے اور وہ بھی جنہیں فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق واضح کر دیا مگر انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی۔ اور جب حق سننے، ماننے، کہنے اور راہِ حق دیکھنے سے محروم ہوئے تو کان، زبان، آنکھ سب بے کار ہیں۔’’
نعيم الدين مراد آبادی، خزائن العرفان: 798
اس جگہ منافقین کی دوسری قسم کی تمثیل بیان کی گئی ہے۔ یہاں بطور تمثیل کچھ الفاظ کا ذکر آیا ہے۔ ان کے مرادی معنی سمجھنے سے پہلے لغوی معنی پر توجہ کر لیں۔
صیب صوب سے مشتق ہے۔ صواب فی نفسہ پسندیدہ امر کو کہتے ہیں۔ چنانچہ صوب یا صیب ایسی بارش کو کہا جاتا ہے جو فائدہ مند ہو۔ صیب خود ایسے بادل کو بھی کہتے ہیں۔
ابن منظور، لسان االعرب، 1: 537
السماء ہر چیز کے اوپر کے حصے کو کہتے ہیں چنانچہ یہ لفظ محض بلندی پر بھی بولا جاتا ہے۔ سماء کے لفظ کا اطلاق زمین پر پڑنے سے پہلے بارش پر بھی ہوتا ہے اور سماء کے معنی خود ‘‘سحاب’’ یعنی بادل کے بھی ہیں۔
زبيدی، تاج العروس، 1: 242
الصواعق صاعقہ کی جمع ہے اور صعق سے مشتق ہے۔ صاعقہ اس ہولناک آواز کو کہا جاتا ہے جو گرج اور کڑک سے پیدا ہوتی ہے۔ اس سے بعض اوقات آگ، موت اور عذاب بھی مراد لیے جاتے ہیں۔ (3) لیکن امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
(3) ابن منظور، لسان العرب، 10: 198
فهو أشياء حاصلة من الصاعقه هی الصوت الشديد من الجو، وهی فی ذاتها شئ واحد، وهذه لاشياء تاثيرات مِنْهَا.
اصفهانی، مفردات ألفاظ القرآن: 281
‘‘یہ سب چیزیں فی الحقیقت صاعقہ کے نتائج اور تاثیرات ہیں۔ صاعقہ محض ہولناک آواز ہی کا نام ہے جو گرج سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے زلزلے اور آندھی میں جو ہولناک آواز آتی ہے۔ اس پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔’’
اس تمثیل میں آسمان سے برسنے والی بارش سے مراد وحی الٰہی کا نزول یا اسلام ہے۔ جو عالم انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا اندھیروں سے مراد وہ مصائب و مشکلات ہیں جنہوں نے ہر طرف سے اسلام کو گھیر رکھا تھا۔ گرج اور کڑک سے مراد اسلام کی پے در پے فتوحات اور کامیابیاں ہیں جو باوجود مشکلات اور نامساعد حالات کے مطلع کو روشن کر رہی تھیں اور ان کے باعث اہل اسلام کے دلوں کو تقویت پہنچ رہی تھی۔
اسلام بلاشک و شبہ رحمت حق کی بارش بن کر مردہ دلوں کو تازہ زندگی عطا کرتا ہے۔ جس طرح زور دار بارش کے وقت بسا اوقات تیز آندھیاں اور گھٹائیں چھا جاتی ہیں اور بادل کی ہولناک کڑک سے دل ہلنے لگتے ہیں۔ اسی طرح اسلام کی آمد کے ساتھ ہی باطل اور کفر و طاغوت کی طرف سے کھلی عداوتوں اور پوشیدہ سازشوں کا لامحدود سلسلہ جاری ہو گیا۔ اہل ہق کی راہ میں طرح طرح کی مخالفتیں اور مزاحمتیں کھڑی ہو گئیں۔ مصائب و آلام کے بادل گرجنے لگے۔
ان تمام ہولناکیوں نے مل کر عجیب وحشت کا سماں پیدا کر دیا جنہوں نے صدق دل سے نور ہدایت کو قبول کر لیا تھا۔ وہ ظاہراً ان ناسازگار حالات میں بھی ثابت قدم رہے۔ کوئی مصیبت اور مخالفت بھی ان کے پائے استقلال کو متزلزل نہ کر سکی۔ لیکن جو لوگ نیم دلی اور بزدلی کا شکار تھے۔ جن کی کیفیت تذبذب اور تحریص کی تھی، وہ اسلام کی حیات بخشی اور نفع مندی سے بھی متمتع ہونا چاہتے تھے لیکن دردمنانہ جرات و ہمت کے فقدان کے باعث مصائب و آلام کی تاریک گھٹاؤں کو دیکھ کر خوف زدہ ہو جاتے اور شدید مخالفت و مزاحمت کی ہولناک آوازوں کو سن کر ان کے دل ہل جاتے تھے۔ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر گویا وہ ان پریشان کن کیفیات سے لاتعلقی ظاہر کرتے تھے۔ یوں اسلام سے وابستگی منقطع کرنے میں وہ اپنی عافیت تصور کرتے تھے۔
یہاں ان کے حسد کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے۔ چونکہ مذکورہ بالا تمام مشکلات کے باوجود اسلام کو روز بروز ترقی اور فتح و کامرانی نصیب ہو رہی تھی۔ جنگوں میں فتوحات ہوتیں۔ اہل حق کے ہاتھ اموال غنیمت آتے۔ ان کی مالی حیثیت بھی مستحکم ہوتی اور سیاسی و معاشرتی بھی اور اس طرح لمحہ بہ لمحہ اسلام ایک عالمگیر قوت بنتا جا رہا تھا۔ جب کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوتی تو وہ حیران و ششدر رہ جاتے۔ اور اسلام کی فتح و کامرانی کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جل اٹھتے۔ ان کی اسی کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ اسلام کی فتوحات کی چمک اور دمک کہیں ان حاسدوں کی آنکھوں کی بینائی ہی سلب نہ کر لے۔ ان کامیابیوں کی روشنی کو دیکھ کر انہیں اسلام کا راستہ آسان نظر آنے لگتا تو وہ مفاد پرستی اور دنیوی منفعت کی خاطر مسلمانوں کے ساتھ ہو جاتے اور ان کے ہمراہ اسلام کی منزل کی طرف بڑھنے لگتے۔ لیکن اسی اثنا میں جنگ و قتال اور ایثار و قربانی کا کوئی مرحلہ آ جاتا تو مشکلات کی تاریکیوں میں وہی رک جاتے اور خطرات دیکھ کر مسلمانوں کو پھر چھوڑ جاتے۔ یہ تھا ان کا مفاد پرستانہ طرز عمل، کہ ظاہری منافع و مفادات کے حصول کی امید لگتی تو فائدہ اٹھانے کے لیے اہل حق کے ساتھ ہو جاتے خطرات و مصائب کے لمحات میں قربانی کا وقت آتا تو فوراً لاتعلق ہو جاتے۔
لَوْ حرف شرط ہے۔ جیسے ارشاد فرمایا گیا:
لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ.
الأنبياء، 21: 17
‘‘اگر ہم کوئی کھیل تماشا اختیار کرنا چاہتے تو اسے اپنی ہی طرف سے اختیار کر لیتے اگر ہم (ایسا) کرنے والے ہوتےo’’
یہ انداز کسی خلاف مشیت امر کے بیان کے لیے اپنایا جاتا ہے۔ اس بیان کا مقصود مذکورہ امر کی نفی ہوتا ہے۔ شَاءَ مَشِيْئَةٌ کسی چیز کو وجود میں لانے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کسی شے کی ایجاد ہے۔ جب کہ انسان کی مشیت ‘‘اصابۃ الشیی’’ یعنی کسی شے کے ارادے کا نام ہے۔ ‘‘شی’’ اصل میں ‘‘شَائَ’’ کا مصدر ہے جو بمعنی مفعول استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں ‘‘جو چیز چاہی گئی‘‘ یعنی جس چیز کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا گیا۔ بعض علماء کے نزدیک شی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو جانی جائے اور جس چیز کی خبر دی جائے۔
ما يصح إن يعلم و يخبرعنه.
زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 1: 352
یہاں اللہ تعالیٰ یہ واضح فرما رہے ہیں کہ اگر میں چاہتا تو پہلے گروہ کی طرح ان کی بصارت اور سماعت بھی سلب کر لیتا۔ اور اسلام کی طرف وقتی طور پر راغب ہونے کی بھی توفیق نہ ملتی۔ لیکن یہ مشیت الٰہی کے خلاف ہے۔ جو شخص جس قدر سننے اور دیکھنے کے لیے تیار ہو، اسے اسی قدر توفیق مرحمت فرمائی جاتی ہے۔ اس پر ذات حق اپنے فیصلے سے کسی قسم کا جبر وارد نہیں کرتی۔ پہلے گروہ نے نور ہدایت قبول کرنے سے کھلا انکار کر دیا تھا۔ اور انہوں نے تعصب کا پردہ اٹھا کر اسلام کی حقانیت کو دیکھنا ہی گوارا نہیں کیا تھا۔ اس لیے ہم نے بھی انہی کے حسب خواہش اور حسب عمل انہیں نور بصارت سے محروم کر دیا۔ یعنی انہیں توفیق ہدایت سے دور کر دیا لیکن دوسرا گروہ کبھی مفادات کی خاطر اور کبھی عظمت اسلام سے مرعوب ہو کر، الغرض کچھ نہ کچھ اور کبھی نہ کبھی تو اسلام کے قریب آتا ہی ہے۔ ہر چند کہ پھر خطرات سے گھبرا کر دور چلا جاتا ہے۔ اس لیے اس نے اسلام کی خاطر جس حد تک اپنے دیدہ و گوش کھول رکھے ہیں۔ ہماری مشیت و حکمت کا یہ تقاضا نہیں کہ انہیں ان سے بھی محروم کر دیا جائے۔ یہ بیان باری تعالیٰ کے عدل و انصاف اور انسانی اعمال میں اس کی آزادی اور اختیار پر کھلی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے مزید برآں اس میں حق کی دعوت دینے والوں کو یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ جو لو گ جس حد تک اور جس حال میں بھی حق کے قریب آنا چاہیں، انہیں اس سے روکا نہ جائے۔ ممکن ہے اسلام اور حق سے قرب کے باعث ان کی مفاد پرستی رفتہ رفتہ حق پرستی میں بدل جائے اور وہ منافقت سے تائب ہو کر بالاخر سچے مسلمان بن جائیں۔ لہٰذا یہ کہہ کر کہ یہ لوگ مفادات کے پیش نظر حق کے قریب آ رہے ہیں انہیں دور کر دینا، درحقیقت ان کے لیے حق کو صدق دل سے قبول کرنے کے امکانات کو معدوم کرنے کے مترادف ہے۔
قدرت سے ہے یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر قسم کے عجز یا کمزوری کی نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قَدِیْر کے معنی اصطلاح شرع میں یوں بیان کیے گئے ہیں:
الفاعل لما يشاء علی قدر ما تقتضِی الحکمة لا زائداً عليه ولا ناقصا عنه.
اصفهانی، مفردات ألفاظ القرآن: 1164
‘‘اس کام کا کرنے والا جسے وہ چاہے اسی قدر حکمت کا تقاضا ہے نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم۔’’
لہٰذا خدا کے قادر مطلق ہونے کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ ایسے کام اس کی قدرت کی طرف منسوب کئے جائیں جو اس کی حکمت اور مشیت کے خلاف ہوں کیونکہ قدرتِ الٰہی کے تصور میں اس کی ‘‘حکمت اور مشیت’’ بھی شامل ہیں۔ پس شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کے ہر چیز پر قادر ہونے کا یہ مفہوم ہے کہ ‘‘وہ ذات ہر وہ کام کر سکتی ہے جو وہ چاہے یعنی جو اس کی مشیت کو مطلوب ہو اور اس حد تک کر سکتی ہے جس حد تک اس کی حکمت کا تقاضا ہو۔ اس معاملے میں وہ نہ محتاج ہے اور نہ عاجز و کمزور لیکن جو امور اور افعال اس کی شان الوہیت اور مشیت و حکمت کے منافی ہوں، ان کا کرنا نہ وہ چاہتی ہے اور نہ اس کی حکمت کا مقتضی ہوتا ہے اس لیے ان کے حوالے سے اس کی قدرت مطلقہ کا بیان کرنا قطعاً نامناسب بلکہ اس کے قدیر ہونے کے خلاف ہے۔
سورۃ البقرۃ کی آیات 8 تا 20 میں منافقین کی علامات کا مسلسل بیان کیا گیا ہے جن کا تفصیلی ذکر ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں۔ یہاں ان کا خلاصہ دوبارہ بیان کیا جاتا ہے:
یہ قرآن مجید کا وہ پہلا چارٹ ہے، جہاں منافقت کی علامات کو واضح طور پر گنوایا گیاہے ہم نے انہیں تفصیل اور نظم و ضبط کے ساتھ اس لیے قلمبند کر دیا ہے کہ ان کے مطالعہ سے باقاعدہ طور پر ہر شخص اپنے احوال اور معاملات کا جائزہ لے سکے۔ اور ان کی روشنی میں اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان اور اسلام میں کامل اخلاص عطا فرمائے۔
(آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved