چراغِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ستیزہ کار شرارِ بو لہبی مختلف اَدوار میں اپنے ناپاک مقاصد کے حصول اور باطل مفادات کے تحفظ کی خاطر مخالفت و مزاحمتِ حق کی مختلف صورتیں اختیار کرتا رہا ہے لیکن اس کی ایک صورت جو ہر دور میں جہدِ باطل میں یکساں طور پر کار فرما نظر آتی ہے ‘‘منافقت’’ ہے۔
منافقت ایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو، جس میں انسان کا ظاہر باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔ ہر دور کے مفاد پرست اَفراد حق کی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار ہوتا دیکھ کر ظاہراً اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں اور در پردہ اپنے باطل نظریات پر کار بند رہتے ہیں اور اس طرح حق و باطل کے ہر دو طبقات سے وابستگی کا اظہار کر کے اپنے مزعومہ مفادات کا تحفظ اور ناپاک عزائم کی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلِ یہود کے عزائم خاک میں مل گئے، جو مدینہ میں ایک بالادست سیاسی، اقتصادی اور سماجی طبقے کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے تھے اور جن کے ایک نام ور رئیس عبداللہ بن اُبی کی رسمِ تاج پوشی ادا ہونے والی تھی۔ اسلام کی شوکت و رفعت اور پیغمبر اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتی وجاہت و عظمت سے مرعوب ہو کر یہ لوگ اسلام کی کھل کر مخالفت نہ کر سکے۔ البتہ ان میں سے بعض بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہو کر غلبہ حق کی اس عالمگیرتحریک کو گزند پہنچانے میں مصروف ہو گئے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کی باطنی کیفیت سے آگاہ تھے تاہم بعض مصلحتوں کی بنا پر ابتداءً اُن کے خلاف کسی قولی یا عملی کارروائی سے اِعتراض فرماتے رہے۔ تاہم رب العزت نے ان لوگوں کے اندازِ فکر و طرزِ عمل اور فتنہ پرداز ذہنیت کو شرح و بسط کے ساتھ اہل ایمان کے سامنے رکھ دیا تاکہ وہ ان کی محض ذہنیت، قول وعمل کے تضاد اور مذموم عزائم سے باخبر رہیں اور اس طرح ان کی معاندانہ سرگرمیوں کا سدباب کیا جا سکے۔ قرآن حکیم سے منافقت کے دو بنیادی روپ سامنے آتے ہیں :
منافقت کی پہلی قسم کا تعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک کے ساتھ خاص تھا جب کہ اس کی دوسری قسم آج بھی کئی صورتوں میں اسلامی معاشرے میں موجود ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو قول و فعل کے تضاد کا شکار ہیں۔ جن کا ظاہر بڑا دل آویز نظر آتا ہے لیکن باطن نفاق کی دبیز تاریکیوں سے تیرہ و تار ہے۔ قرآنِ مجید جب بھی منافقت کی علامات کا ذکر کرتا ہے تو اس کی گونا گوں جلی و خفی اَنواع جن کے بارے میں عام ذہن نفاق کا گمان بھی نہیں کر سکتا، ہمارے سامنے واضح طور پر آ جاتی ہیں۔
یہ مختصر کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اُن ابتدائی دروسِ قرآن کا مرتبہ مجموعہ ہے جو آپ نے سورہ بقرہ کے دوسرے رکوع پر شادمان میں دیے۔ ان دروسِ قرآن میں منافقت کی حقیقت اور اس کی علامات پر گفتگو کی گئی ہے۔ موضوع کی اَہمیت کے پیش نظر اسے کتابی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ہم اپنے قول و فعل کے تضاد اور ظاہر و باطن کے تخالف کا جائزہ لے کر اپنی اپنی زندگیوں میں کار فرما منافقت کے مختلف کرداروں کا محاسبہ کریں اورصدقِ دل سے تائب ہو کر صحیح معنوں میں مومنانہ زندگی کی طرف رجوع کریں۔
(آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )
ڈاکٹر علی اکبر الازہری
ڈائریکٹر رِیسرچ فرید ملّت رح رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved