اگر جسم ایک متنفس غزل ہے تو جبیں اس کا مطلعِ اَوّل ہے۔ امامِ قبلتین، وسیلۂ دارین اور مالک حسنِ کونین ﷺ کی پیشانی مبارک روشن اور کشادہ تھی۔ شارحین اور علم القیافہ کے ماہرین اس پر متفق الرائے ہیں کہ ’کشادہ پیشانی حُسنِ خَلق پر دلالت کرتی ہے‘۔ روایات میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی طرف وحی بھیجی کہ نبیِ آخرالزماں ﷺ کشادہ پیشانی والے ہوں گے۔ صبحِ صادق یا شام کے اوقات میں آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا ان کی مجلس کی جانب تشریف لاتے اور ان کی پہلی نگاہِ مشتاق آپ ﷺ کے وجیہ وصبیح اور جمیل چہرۂ مبارک پر پڑتی تو ان کی چشمِ جمال جُو کو آپ ﷺ کی پیشانی مبارک کی طاق میں جگمگاتے چراغ کی طلائی لوئیں جھلملاتی دکھائی دیتیں۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ صرف آپ ﷺ کی جبینِ مبارک ہی مطلعِ اَنوار نہ تھی بلکہ آپ ﷺ کی پیشانی سے ٹپکنے والے پسینہ مبارک سے بھی بارشِ اَنوار ہوتی۔
79. عَنْ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَاسِعَ الْجَبِیْنِ([81]). وَرُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ نَحْوُهُ([82]).
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی پیشانی مبارک کشادہ تھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
80. وَعَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ ﷺ أَجْلَی الْجَبِیْنِ إِذَا طَلَعَ جَبِیْنُهُ مِنْ بَیْنِ الشَّعَرِ، إِذَا طَلَعَ فِي فَلْقِ الصُّبْحِ أَوْ عِنْدَ طِفْلِ اللَّیْلِ أَوْ طَلَعَ بِوَجْهِهِ عَلَی النَّاسِ تَرَاءُوْا جَبِیْنَهُ کَأَنَّهُ ضَوْءُ السِّرَاجِ الْمُتَوَقِّدِ، قَدْ یَتَلَأْلَأُ([83]).
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی پیشانی مبارک جب بالوں کے درمیان میں سے نمودار ہوتی تو سب سے زیادہ روشن ہوتی، آپ ﷺ جب بھی صبح صادق یا شام کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس کی طرف تشریف لاتے تو انہیں آپ ﷺ کی پیشانی مبارک یوں دکھائی دیتی جیسے روشن چراغ چمک رہا ہے (یا جیسے نقرئی طاق میں کافوری شمعیں جھلملا رہی ہوں)۔
81. أَوْحَى اللهُ عَزَّ وَجَلَّ، إِلَى عِيْسَى بْنِ مَرْيَمَ علیہما السلام : أَنَّهُ ﷺ الصَّلْتُ الْجَبِيْنِ([84]).
اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام کی طرف وحی فرمائی کہ وہ (آخری نبی ﷺ ) کشادہ پیشانی والے ہوں گے۔
82. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا، قَالَتْ: كُنْتُ قَاعِدَةً أَغْزِلُ وَالنَّبِيُّ ﷺ يَخْصِفُ نَعْلَهُ، فَجَعَلَ جَبِيْنُهُ يَعْرَقُ وَجَعَلَ عَرَقُهُ يَتَوَلَّدُ نُوْرًا، فَبُهِتُّ، فَنَظَرَ إِلَيَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ، بُهِتِّ؟ قُلْتُ: جَعَلَ جَبِيْنُكَ يَعْرَقُ، وَجَعَلَ عَرَقُكَ يَتَوَلَّدُ نُوْرًا. وَلَوْ رَآكَ أَبُوْ كَبِيْرٍ الْهُذَلِيُّ لَعَلِمَ أَنَّكَ أَحَقُّ بِشِعْرِهِ. قَالَ: وَمَا يَقُوْلُ أَبُوْ كَبِيْرٍ الْهُذَلِيُّ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: يَقُوْلُ:
فَإِذَا نَظَرْتَ إِلَى أَسِرَّةِ وَجْهِهِ
بَرَقَتْ كَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَهَلَّلِ([85])
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں سوت کات رہی تھی اور حضور نبی اکرم ﷺ اپنے نعلین مبارک مرمت فرما رہے تھے۔ اچانک آپ ﷺ کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہنے لگا اور اس سے نور پھوٹنے لگا۔ میں اس (حسین) منظر سے نہال و بے خود ہوگئی، رسول اللہ ﷺ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: اے عائشہ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم مبہوت سی ہوگئی ہو؟ میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کی پیشانی مبارک سے پسینہ ٹپک رہا ہے اور پسینے سے نور پھوٹ رہا ہے۔ اگر (عرب کا مشہور شاعر) ابو کبیر ہذَلی اِس وقت آپ کو دیکھ لیتا تو وہ جان جاتا (اور اقرار کر لیتا) کہ اس کے شعر کی اصل مصداق آپ ہی کی ذاتِ اکمل و احسن ہے۔ آپ ﷺ نے استفسار فرمایا: اے عائشہ! ابوکبیر ہذَلی کیا کہتا ہے؟ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: وہ کہتا ہے:
’جب تو اس کے چہرے کے (منوّر) نقوش دیکھے تو (تجھے محسوس ہوگا) گویا عارضِ تاباں ہے جو چمک رہا ہے‘۔
([81]) أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدیة/37، الرقم/8، وابن حبان في الثقات، 2/145-146، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/155-156، الرقم/414، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/154-155، الرقم/1430، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/422، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/338، 343، 348، وذکره الهیثمي في مجمع الزوائد، 8/273.
([82])أخرجه البیهقي في دلائل النبوة، 1/214، وابن کثیر في البدایة والنهایة (السیرة)، 6/17، والسیوطي في الخصائص الكبری، 1/125.
([83]) أخرجه البیهقي في دلائل النبوة، 1/302، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/359.
([84]) ذكره ابن عساکر في تهذیب تاریخ دمشق الکبیر، 1/345، والبیهقي في دلائل النبوة، 1/378، وابن کثیر في البدایة والنهایة (السیرة)، 2/78، أيضا في، 6/62.
([85]) أخرجه البيهقي في السنن الكبرى، 7/422، الرقم/15204، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2/46، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 13/252- 253، الرقم/7210، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 3/307-309، 59/424، والمزي في تهذيب الكمال، 28/319، وذكره السيوطي في الخصائص الكبرى، 1/76.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved