﴿ جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے وجوبِ تعظیم اور اُنہیں لعن طعن کی سخت ممانعت ﴾
1. قَالَ الْقَاضِي فِي ‹‹شَرْحِ الْمَوَاقِفِ›› فِي الْمَقْصِدِ السَّابِعِ: تَعْظِيْمُ الصَّحَابَةِ كُلِّهِمْ:
إِنَّهُ يَجِبُ تَعْظِيْمُ الصَّحَابَةِ كُلِّهِمْ وَالْكَفِّ عَنِ الْقَدْحِ فِيْهِمْ لِأَنَّ اللهَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَظَّمَهُمْ وَأَثْنَى عَلَيْهِمْ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كِتَابِهِ كَقَوْلِهِ: ﴿وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلۡأَوَّلُونَ مِنَ ٱلۡمُهَٰجِرِينَ وَٱلۡأَنصَارِ﴾ [التوبة، 9/100]، وَقَوْلِهِ: ﴿يَوۡمَ لَا يُخۡزِي ٱللَّهُ ٱلنَّبِيَّ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ نُورُهُمۡ يَسۡعَىٰ بَيۡنَ أَيۡدِيهِمۡ﴾ [التحريم، 66/8]، وَقَوْلِهِ: ﴿وَٱلَّذِينَ مَعَهُٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ تَرَىٰهُمۡ رُكَّعٗا سُجَّدٗا يَبۡتَغُونَ فَضۡلٗا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضۡوَٰنٗاۖ ﴾ [الفتح، 48/29]، وَقَوْلِهِ: ﴿لَقَدۡ رَضِيَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ إِذۡ يُبَايِعُونَكَ تَحۡتَ ٱلشَّجَرَةِ﴾ [الفتح، 48/18]، إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الآيَاتِ الدَّالَّةِ عَلَى عِظَمِ قَدْرِهِمْ وَكَرَامَتِهِمْ عِنْدَ اللهِ. وَالرَّسُوْلُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَدْ أَحَبَّهُمْ وَأَثْنَى عَلَيْهِمْ فِي أَحَادِيْثَ كَثِيْرَةٍ، مِنْهَا قَوْلُهُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: خَيْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، وَمِنْهَا قَوْلُهُ: لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدًا أَنْفَقَ مِثْلَ أَحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ، وَمِنْهَا قَوْلُهُ: اللهَ اللهَ فِي أَصْحَابِي لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللهَ، وَمَنْ آذَى اللهَ فَيُوْشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ. إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْأَحَادِيْثِ الْمَشْهُوْرَةِ فِي الْكُتُبِ الصِّحَاحِ.
ثُمَّ إِنَّ مَنْ تَأَمَّلَ سِيْرَتَهُمْ وَوَقَفَ عَلَى مَآثِرِهِمْ وَجِدِّهِمْ فِي الدِّيْنِ وَبَذْلِهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَأَنْفُسَهُمْ فِي نُصَرَةِ اللهِ وَرَسُوْلِهِ لَمْ يتَخَالَجْهُ شَكٌّ فِي عِظَمِ شَأْنِهِمْ وَبَرَائَتِهِمْ عَمَّا يَنْسِبُ إِلَيْهِمُ الْمُبْطِلُوْنَ مِنَ الْمَطَاعِنِ، وَمَنَعُهُ ذَلِكَ أَيْ تَيَقُّنُهُ بِحَالِهِمْ عَنِ الطَّعْنِ فِيْهِمْ فَرَأَى ذَلِكَ مُجَانِبًا لِلإِْيْمَانِ، وَنَحْنُ لَا نُلَوِّثُ كِتَابَنَا بِأَمْثَالِ ذَلِكَ وَهِيَ مَذْكُوْرَةٌ فِي الْمُطَوَّلَاتِ مَعَ التَّقَصِّي عَنْهَا، فَارْجِعْ إِلَيْهَا إِنْ أَرَدْتَ الْوُقُوْفَ عَلَيْهَا، وَأَمَّا الْفِتَنُ وَالْحُرُوْبُ الْوَاقِعَةُ بَيْنَ الصَّحَابَةِ.... وَالَّذِي عَلَيْهِ الْجُمْهُوْرُ مِنَ الْأُمَّةِ هُوَ أَنَّ الْمُخْطِيءَ قَتَلَةُ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ وَمُحَارِبُو عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ لِأَنَّهُمَا إِمَامَانِ فَيَحْرُمُ الْقَتْلُ وَالْمُخَالَفَةُ قَطْعًا، إِلَّا أَنَّ بَعْضَهُمْ كَالْقَاضِي أَبِي بَكْرٍ ذَهَبَ إِلَى أَنَّ هَذِهِ التَّخْطِئَةَ لَا تَبْلُغُ إِلَى حَدِّ التَّفْسِيْقِ، وَمِنْهُمْ مَنْ ذَهَبَ إِلَى التَّفْسِيْقِ كَالشِّيْعَةِ وَكَثِيْرٍ مِنْ أَصْحَابِنَا.
قاضی شریف الجرجانی نے ’’شرح المواقف‘‘ کے ساتویں مقصد: تعظیم الصحابة کلهم (تمام صحابہ کی تعظیم) میں کہا ہے:
بے شک تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم اور ان کے بارے میں طعن و تشنیع سے باز رہنا واجب ہے، کیونکہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں کئی مقامات پر ان کی تعظیم اور ان کی تعریف بیان فرمائی ہے، جیسا کہ اس کا فرمان ہے: (جس دن اللہ (اپنے) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور اُن اہلِ ایمان کو جو اُن کی معیّت میں ہیں رسوا نہیں کرے گا، اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کے دائیں طرف (روشنی دیتا ہوا) تیزی سے چل رہا ہوگا)۔ اور اس کا فرمان ہے: (اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں )۔ اور اس کا فرمان ہے: (بے شک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے)۔ اس کے علاوہ بہت سی آیات جو ان کی قدر و منزلت اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں ان کی عزت و عظمت پر دلالت کرتی ہیں، اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سی احادیث میں ان کی تعریف بیان فرمائی ہے، ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ’سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر جو اُن کے بعد ہوں گے اور پھر جو اُن کے بعد ہوں گے‘۔ اور یہ فرمان بھی ہے: ’میرے صحابہ کو گالی مت دو، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو پھر بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا‘۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے: ’میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ سے ڈرنا اور میرے بعد ان کو اپنی تند و تیز گفتگو کا نشانہ مت بنانا، کیونکہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا، اور جس نے ان کو تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اس کی گرفت ہوئی‘۔ اس کے علاوہ کتب صحاح میں کئی مشہور احادیث ہے (جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل کو بیان کرتی ہیں )۔
پھر جو شخص ان کی سیرتوں پر غور کرتا ہے اور ان کے کارناموں اور دین میں ان کی محنت اور اﷲ اور اس کے رسول کی مدد و نصرت کی خاطر اپنی جان و مال کو لٹانے پر واقفیت حاصل کرتا ہے تو اس کے دل و دماغ میں ان کی بلندیِ شان کی نسبت کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ بعض مطاعن جو لوگ ان کی طرف نا جائز طور پر منسوب کرتے ہیں، وہ اُن سے ان کی براء ت کرتا ہے اور ان کے احوال کا تعین اسے ان میں طعن و تشنیع سے باز رکھتا ہے، وہ ان کے حق میں طعن و تشنیع کو ایمان سے دوری کا باعث سمجھتا ہے، ہم اس طرح کی اشیاء سے اپنی کتاب کو آلودہ نہیں کرنا چاہتے اور یہ اشیاء پوری تحقیق کے ساتھ بڑی بڑی کتابوں میں موجود ہیں، لہٰذا اگر آپ ان سے واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کتب کی طرف رجوع کیجئے۔
رہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان واقع ہونے والی جنگیں اور حوادث۔ ۔۔ تو جس موقف پر جمہور اُمت ہمیشہ سے قائم ہے وہ یہ ہے کہ خطا کار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل تھے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے والے تھے، کیونکہ دونوں امام برحق تھے۔ لہٰذا ان کو قتل کرنا اور ان کی مخالفت کرنا قطعی طور پر حرام ہے۔ مگر یہ کہ علماء میں سے بعض جیسے قاضی ابوبکر اس طرف بھی گئے ہیں کہ ان کو خطا کا سزاوار ٹھہرانا انہیں فاسق کہنے کی حد میں داخل نہیں کرتا، جبکہ بعض علماء ان کو فاسق قرار دینے کی طرف بھی گئے ہیں جیسا کہ شیعہ حضرات اور ہمارے بہت سے اصحاب (یعنی احناف و اہلِ سنت)۔
الشريف الجرجاني في شرح المواقف/643-644
2. وَقَالَ السَّعْدُ التَّفْتَازَانِيُّ فِي ‹‹شَرْحِ الْعَقَائِدِ النَّسَفِيَّةِ››: وَيُكَفُّ عَنْ ذِكْرِ الصَّحَابَةِ رضی اللہ عنہم إِلَّا بِخَيْرٍ لِمَا وَرَدَ مِنَ الْأَحَادِيْثِ الصَّحِيْحَةِ فِي مَنَاقِبِهِمْ وَوُجُوْبِ الْكَفِّ عَنِ الطَّعْنِ فِيْهِمْ.
ثُمَّ فِي مَنَاقِبِ كُلٍّ مِنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَغَيْرِهِمْ مِنْ أَكْابِرِ الصَّحَابَةِ رضی اللہ عنہم أَحَادِيْثُ صَحِيْحَةٌ وَمَا وَقَعَ بَيْنَهُمْ مِنَ الْمُنَازَعَاتِ وَالْمُحَارَبَاتِ فَلَهُ مَحَامِلُ وَتَأْوِيْلاَتٌ، فَسَبُّهُمْ وَالطَّعْنُ فِيْهِمْ إِنْ كَانَ مِمَّا يُخَالِفُ الْأَدِلَةَ الْقَطْعِيَّةَ فَكُفْرٌ كَقَذْفِ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا وَإِلاَّ فَبِدْعَةٌ وَفِسْقٌ، وَبِالْجُمْلَةِ لَمْ يُنْقَلْ عَنِ السَّلَفِ وَالْمُجْتَهِدِيْنَ وَالْعُلَمَاءِ الصَّالِحِيْنَ جَوَازُ اللَّعْنِ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَأَحْزَابِهِ لِأَنَّ غَايَةَ أَمْرِهِمُ الْبَغْيُ وَالْخُرُوْجُ عَلَى الإِمَامِ وَهُوَ لَا يُوْجِبُ اللَّعْنَ.
امام سعد الدین تفتازانی اپنی کتاب ’’شرح عقائد نسفی‘‘ میں لکھتے ہیں: اور روکا جائے گا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر کرنے سے مگر بھلائی کے ساتھ۔جیسا کہ احادیث صحیحہ میں اُن کے مناقب بیان ہوئے ہیں اور اُن کے متعلق اپنی (زبانوں کو) طعن و اعتراض سے روکنا واجب ہے۔
پھر سیدنا ابو بکر صدیق،سیدنا عمر،سیدنا عثمان،سیدنا علی، سیدنا حسن، سیدنا حسین رضی اللہ عنہما ان تمام کے مناقب اور ان کے علاوہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے (مناقب) احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہیں، جو لڑائیاں اور مشاجرات ان کے درمیان ہوئے ان کے لیے ایسے اسباب اور تاویلیں موجود ہیں جن پر انہیں محمول کیا جائے گا، ان کی وجہ سے کسی صحابی کو سب و شتم اور طعن و تشنیع کا مورد بنانا، جو کہ اگر ادلہ قطعیہ کے مخالف ہے تو کفر ہے۔ جیسے قذفِ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ، ورنہ بدعت اور فسق ہے۔ اور جملہ طور پر سلف صالحین، مجتہدین اور علماء صالحین میں سے کسی سے بھی نقل نہیں کیا گیا کہ انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر پر لعنت بھیجنے کو جائز قرار دیا ہو۔ اس لیے کہ اس معاملے میں ان کا انتہائی اقدام سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت اور خروج تھا اور یہ معاملہ لعن کو واجب نہیں کرتا۔
ذكره السعد التفتازاني في شرح العقائد النسفية/157-158
3. وَقَالَ السَّعْدُ التَّفْتَازَانِيُّ فِي شَرْحِ الْمَقَاصِدِ: إِنَّ مَا وَقَعَ بَيْنَ الصَّحَابَةِ مِنَ الْمُحَارَبَاتِ وَالْمُشَاجَرَاتِ عَلَى الْوَجْهِ الْمَسْطُوْرِ فِي كُتُبِ التَّوَارِيْخِ، وَالْمَذْكُوْرِ عَلَى أَلْسِنَةِ الثِّقَاتِ، يَدُلُّ بِظَاهِرِهِ عَلَى أَنَّ بَعْضَهُمْ قَدْ حَادَ عَنْ طَرِيْقِ الْحَقِّ، وَبَلَغَ حَدَّ الظُّلْمِ وَالْفِسْقِ. وَكَانَ الْبَاعِثُ لَهُ الْحِقْدَ وَالْعِنَادَ، وَالْحَسَدَ وَاللِّدَادَ، وَطَلَبَ الْمُلْكِ وَالرِّيَاسَةِ وَالْمَيْلَ إِلَى اللَّذَّاتِ وَالشَّهَوَاتِ. إِذْ لَيْسَ كُلُّ صَحَابِيٍّ مَعْصُوْمًا وَلَا كُلُّ مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِالْخَيْرِ مَوْسُوْمًا إِلَّا أَنَّ الْعُلَمَاءَ لِحُسْنِ ظَنِّهِمْ بِأَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذَكَرُوْا لَهَا مَحَامِلَ وَتَأْوِيْلَاتٍ بِهَا تَلِيْقُ، وَذَهَبُوْا إِلَى أَنَّهُمْ مَحْفُوْظُوْنَ عَمَّا يُوْجِبُ التَّضْلِيْلَ وَالتَّفْسِيْقَ صَوْنًا لِعَقَائِدِ الْمُسْلِمِيْنَ عَنِ الزَّيْغِ وَالضَّلَالَةِ فِي حَقِّ كِبَارِ الصَّحَابَةِ، سَيَّمَا الْمُهَاجِرِيْنَ مِنْهُمْ وَالْأَنْصَارَ، وَالْمُبَشِّرِيْنَ بِالثَّوَابِ فِي دَارِ الْقَرَارِ.
امام سعد الدین التفتازانی ’’شرح المقاصد‘‘ میں فرماتے ہیں: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین جو جنگیں اور جھگڑے واقع ہوئے وہ کتبِ تاریخ میں مرقوم ہیں اور ثقہ راویوں کی زبان سے روایت ہوئے ہیں۔ یہ واقعات بظاہر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان میں سے بعض لوگ راہِ حق سے ہٹ گئے اور ظلم و فسق کی حد تک پہنچ گئے تھے۔ اس کا سبب (بعض کادوسروں كے ساتھ طبعی) بغض و حسد، عناد و عداوت، حکومت و اقتدار کی طلب اور دنیاوی لذات و خواہشات کی طرف میلان تھا۔ جب کہ ہر ايك صحابى (انسان ہونےكے ناطے) نہ توا ن امور سےكليتًا معصوم تھا، اور نہ ہی ہراس شخص كو جس كى حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات تھى مكمل طور پر خیر سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ کہ علماء نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسنِ ظن کی بنیاد پر ايسے معاملات میں محامل اور تاویلات بیان کى ہیں جو ان كے لائق ہوتى ہیں، اور وہ اس رائے كى طرف گئے ہیں کہ صحابہ كرام رضی اللہ عنہم ان اُمور سے محفوظ ہوتے ہیں جو كسى كو گمراہ اور فاسق قرار دینے کو واجب کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ مسلمانوں کے جو عقائد اكابر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہیں، انہیں خرابى اور گمراہی سے بچایا جاسکے، خاص طور پر ان میں سے جو مہاجرین، انصار اور جنت کی خوش خبری پانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما ہیں۔
التفتازاني، شرح المقاصد (5/310-311)
4. وَقَالَ الشَّيْخُ عَبْدِ الْعَزِيْزِ الدِّهْلَوِيُّ: وَلِهَذَا قُلْنَا: لَا يَجُوْزُ اللَّعْنُ عَلَى مُعَاوِيَةَ، ِلِأَنَّ حَسَنًا صَالَحَ مَعَهُ وَلَوْ كَانَ مُسْتَحِقًّا لِلَّلعْنِ لَكَانَ لَا يَجُوْزُ الصُّلْحُ مَعَهُ.
شیخ عبدالعزیز دہلوی بیان کرتے ہیں: اسی لیے ہم نے کہا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر لعن کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ امام حسن علیہ السلام نے ان سے صلح کی تھی اور اگر وہ لعنت کے مستحق ہوتے تو ان کے ساتھ صلح ہرگز جائز نہ ہوتی۔
حاشية شرح العقائد النسفية/158
5. وَقَالَ السَّعْدُ التَّفْتَازَانِيُّ فِي ‹‹شَرْحِ الْمَقَاصِدِ››: وَأَمَّا فِي حَرْبِ الْجَمَلِ وَحَرْبِ صِفِّيْنَ وَحَرْبِ الْخَوَارِجِ، فَالْمُصِيْبُ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ، لِمَا ثَبَتَ لَهُ مِنَ الْإِمَامَةِ وَظَهَرَ مِنَ التَّفَاوُتِ، لَا كِلْتَا الطَّائِفَتَيْنِ عَلَى مَا هُوَ رَأْيُ الْمُصَوِّبَةِ وَلَا إِحْدَاهُمَا مِنْ غَيْرِ تَعْيِيْنِ عَلَى مَا هُوَ رَأْيُ بَعْضِ الْمُعْتَزِلَةِ. وَالْمُخَالِفُوْنَ بُغَاةٌ لِخُرُوْجِهِمْ عَلَى الْإِمَامِ الْحَقِّ لِشُبْهَةٍ، لَا فَسَقَةٌ أَوْ كَفَرَةٌ عَلَى مَا يَزْعُمُ الشِّيْعَةُ جَهْلًا بِالْفَرْقِ بَيْنَ الْمُخَالِفَةِ وَالْمُحَارِبَةِ بِالتَّأْوِيْلِ وَبِدُوْنِهِ. وَلِهَذَا نَهَى عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ عَنْ لَعْنِ أَهْلِ الشَّامِ، وَقَالَ: إِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَيْنَا، وَقَدْ صَحَّ رُجُوْعُ أَصْحَابِ الْجَمَلِ عَلَى أَنَّ مِنَّا مَنْ يَقُوْلُ: إِنَّ الْحَرْبَ لَمْ تَقَعْ عَنْ عَزِيْمَةٍ. وَإِنَّ قَصْدَ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا لَمْ يَكُنْ إِلَّا إِصْلَاحَ ذَاتِ الْبَيْنِ.
امام سعد الدین تفتازانی نے ’’شرح المقاصد‘‘ میں کہا ہے: بہر حال جنگ جَمل، جنگ صِفین او رجنگِ خوارج (جنگ نہروان) میں جو بندہ حق پر تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، کیونکہ آپ کی امامت ثابت شدہ تھی اور آپ کا دوسروں کی نسبت تفاوت بالکل واضح اور ظاہر تھا۔ دونوں گروہ حق پر نہیں تھے، جیسا کہ دونوں کو صحیح قرار دینے والوں کی رائے ہے، اور نہ ہی بغیر تعین کیے، یہ کہنا کہ ایک حق پر تھا جیسا کہ بعض معتزلہ کی رائے ہے۔ حق یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخالفین باغی ہیں، امام حق کے خلاف شبہ کی بنا پر خروج کرنے کی وجہ سے وہ فاسق اور کافر نہیں ہیں۔ جیسا شیعہ گمان کرتے ہیں، مخالفت کرنے والوں اور تاویل اور بغیر تاویل کے جنگ کرنے والوں کے درمیان فرق کو نہ جانتے ہوئے۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل شام پر لعنت بھیجنے سے منع فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی ہے، اصحاب جَمل کا رجوع کر لینا بھی ثابت ہے، اور ہم میں سے بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنگ جمل ارادتاً نہیں ہوئی، بلکہ غیر ارادی تھی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قصد صرف لوگوں کے درمیان صلح کا تھا۔
قَاتَلَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ ثَلَاثَ فِرَقٍ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ عَلَى مَا قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: إِنَّكَ تُقَاتِلُ النَّاكِثِيْنَ وَالْمَارِقِيْنَ وَالْقَاسِطِيْنَ.
مزید یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کے تین فرقوں کے ساتھ قتال کیا، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما رکھا تھا: (اے علی!) بے شک تو ناکثین، مارقین اور قاسطین سے قتال کرے گا۔
أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/150، الرقم/4675
فَالنَّاكِثُوْنَ هُمُ الَّذِيْنَ نَكَثُوْا الْعَهْدَ وَالْبَيْعَةَ، وَخَرَجُوْا إِلَى الْبَصْرَةِ....
وَالْمَارِقُوْنَ هُمُ الَّذِيْنَ نَزَعُوْا الْيَدَ عَنْ طَاعَةِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ بَعْدَمَا بَايَعُوْهُ وَتَابَعُوْهُ فِي حَرْبِ أَهْلِ الشَّامِ زَعْمًا مِنْهُمْ أَنَّهُ كَفَرَ حَيْثُ رَضِيَ بِالتَّحْكِيْمِ. وَذَلِكَ أَنَّهُ لَمَّا طَالَتْ مُحَارَبَةُ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ وَمُعَاوِيَةَ بِصِفِّيْنَ وَاسْتَمَرَّتْ، اتَّفَقَ الْفَرِيْقَانِ عَلَى تَحْكِيْمِ أَبِي مُوْسَى الْأَشْعَرِيِّ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی اللہ عنہما فِي أَمْرِ الْخِلَافَةِ، وَعَلَى الرِّضَا بِمَا يَرَيَانِهِ، فَاجْتَمَعَ الْخَوَارِجُ عَلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ وَهْبٍ الرَّاسِبِيِّ وَسَارُوْا إِلَى النَّهْرَوَانِ، وَسَارَ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ بِعَسْكَرِهِ وَكَسَرَهُمْ، وَقَتَلَ الْكَثِيْرَ مِنْهُمْ، وَذَلِكَ حَرْبُ الْخَوَارِجِ وَحَرْبُ النَّهْرَوَانِ.
ناکثین: وہ لوگ ہیں جنہوں نے عہد و پیماں اور بیعت کو توڑ دیا تھا اور بصرہ کی طرف خروج کیا تھا۔
مارقین: وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے اور اہل شام کے ساتھ جنگ میں ان کی اتباع کرنے کے بعد ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بزعم خویش کہ انہوں نے تحکیم پر راضی ہو کر (معاذ اﷲ) کفر کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگ صفین طول پکڑ گئی اور کافی عرصہ جاری رہی تو دونوں فریق امرِ خلافت کے فیصلے کے لیے حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی امر خلافت کے بارے میں تحکیم پر راضی ہو گئے تھے۔ (یہ صورت حال دیکھ کر) خوارج عبداﷲ بن وہب راسبی کی قیادت میں اکٹھے ہو گئے اور نہروان کی طرف چل دیے۔ (ادھر) حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اپنے لشکر کے ساتھ ان کی طرف نکلے اور ان کی جمعیت کو توڑ دیا اور ان میں سے بہت ساروں کا خاتمہ کر دیا۔ یہی جنگ خوارج اور جنگ نہروان ہے۔
وَالْقَاسِطُوْنَ مُعَاوِيَةُ وَأَتْبَاعُهُ الَّذِيْنَ اجْتَمَعُوْا عَلَيْهِ، وَعَدَلُوْا عَنْ طَرِيْقِ الْحَقِّ الَّذِي هُوَ بَيْعَةُ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ وَالدُّخُوْلُ تَحْتَ طَاعَتِهِ، ذَهَابًا إِلَى أَنَّهُ مَالَأَ عَلَى قَتْلِ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ حَيْثُ تَرَكَ مُعَاوَنَتَهُ وَجَعَلَ قَتَلَتَهُ خُوَّاصَهُ وَبِطَانَتَهُ، فَاجْتَمَعَ الْفَرِيْقَانِ بِصِفِّيْنَ، وَهِيَ قَرْيَةُ خَرَابٍ مِنْ قُرَى الرُّوْمِ عَلَى غَلْوَةٍ مِنَ الْفُرَاتِ، وَدَامَتِ الْحَرْبُ بَيْنَهُمْ شُهُوْرًا، فَسُمِّي ذَلِكَ حَرْبُ صِفِّيْنَ، وَالَّذِي اتَّفَقَ عَلَيْهِ أَهْلُ الْحَلِّ وَالْعَقْدِ. وَظَهَرَ مِنْ تَفَاوُتٍ إِمَّا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمُخَالِفِيْنَ سِيَّمَا مُعَاوِيَةُ وَأَحْزَابُهُ، وَتَكَاثَرَ مِنَ الْأَخْبَارِ فِي كَوْنِ الْحَقِّ مَعَهُ، وَمَا وَقَعَ عَلَيْهِ الْاِتِّفَاقُ حَتَّى مِنَ الْأَعْدَاءِ إِلَى أَنَّهُ أَفْضَلُ زَمَانِهِ. وَأَنَّهُ لَا أَحَقُّ بِالإِْمَامَةِ مِنْهُ. وَالْمُخَالِفُوْنَ بُغَاةٌ لِخُرُوْجِهِمْ عَلَى الإِْمَامِ الْحَقِّ بِشُبْهَةٍ هِيَ تَرْكُهُ الْقَصَاصَ مِنْ قَتَلَةِ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ وَلِقَوْلِهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِعَمَّارٍ: تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ. وَقَدْ قُتِلَ يَوْمَ صِفِّيْنَ عَلَى يَدِ أَهْلِ الشَّامِ. وَلِقَوْلِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ : إِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَيْنَا، وَلَيْسُوْا كُفَّارًا وَلَا فَسَقَةً وَلَا ظَلَمَةً لِمَا لَهُمْ مِنَ التَّأْوِيْلِ وَإِنْ كَانَ بَاطِلًا. فَغَايَةُ الْأَمْرِ أَنَّهُمْ أَخْطَأُوْا فِي الْاِجْتِهَادِ. وَذَلِكَ لَا يُوْجِبُ التَّفْسِيْقَ، فَضْلًا عَنِ التَّكْفِيْرِ. وَلِهَذَا مَنَعَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ أَصْحَابَهُ مِنْ لَعْنِ أَهْلِ الشَّامِ، وَقَالَ: إِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَيْنَا. كَيْفَ وَقَدْ صَحَّ نَدَمُ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ رضی اللہ عنہما وَانْصِرَافُ الزُّبَيْرِ رضی اللہ عنہ عَنِ الْحَرْبِ. وَاشْتَهَرَ نَدَمُ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا. وَالْمُحِقُّوْنَ مِنْ أَصْحَابِنَا عَلَى أَنَّ حَرَبَ الْجَمَلِ كَانَتْ فَلْتَةً مِنْ غَيْرِ قَصْدٍ مِنَ الْفَرِيْقَيْنِ، بَلْ كَانَتْ تَهْيِيْجًا مِنْ قَتَلَةِ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ حَيْثُ صَارُوْا فِرْقَتَيْنِ، وَاخْتَلَطُوْا بِالْعَسْكَرَيْنِ، وَأَقَامُوا الْحَرْبَ خَوْفًا مِنَ الْقِصَاصِ، وَقَصْدُ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا لَمْ يَكُنْ إِلَّا إِصْلَاحَ الطّائِفَتَيْنِ وَتَسْكِيْنَ الْفِتْنَةِ، فَوَقَعَتْ فِي الْحَرْبِ.
قاسطین: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے وہ پیروکار ہیں، جو ان کی قیادت میں جمع ہو گئے تھے اور راہ حق جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اور ان کی اطاعت میں داخل ہونے کا نام تھا، سے ہٹ گئے تھے، یہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہ انہوں نے قتل عثمان میں (معاذ اللہ) قاتلوں کی مدد کی، بایں طور کہ حصولِ قصاص میں معاونت ترک کر دی اور ان کے قاتلوں کو اپنے خاص لوگوں میں شامل کیا اور اپنا ہم راز بنایا (یہ الزامات اہلِ شام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج و بغاوت کے جواز کے لئے گھڑے تھے)۔ لہٰذا دونوں گروہ صفین کے مقام پر جمع ہوئے، اور صفین روم کی بستیوں میں سے ایک ویران بستی کا نام ہے جو دریائے فرات سے تین سے چار سو ہاتھ کے فاصلے پر واقع ہے، اُن کے درمیان جنگ کئی ماہ تک جاری رہی، اور اس جنگ کو جنگ صفین کا نام دیا گیا۔ الغرض جس شے پر ارباب حل و عقد کا اتفاق ہوا تھا، اور آپ اور آپ کے مخالفین خاص طور پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کے درمیان جو تفاوت ظاہر و باہر تھا، اور آپ رضی اللہ عنہ کے حق پر ہونے میں کثرت سے روایات وارد ہوئیں تھیں، اور جس شے پر آپ کے دشمن تک متفق ہیں وہ یہ کہ آپ (یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ) اپنے زمانہ کے لوگوں میں سب سے افضل و برتر تھے۔ اور یہ کہ آپ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر امامت کا کوئی حقدار نہ تھا (ان سب امور کو مخالفوں اور باغیوں نے نظر انداز کر کے خروج و بغاوت کا راستہ اختیار کر لیا)۔ سو آپ رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرنے والے باغی ہیں کیونکہ انہوں نے شبہ کی بناء پر امامِ برحق کے خلاف خروج کیا اور وہ شبہ یہ تھا کہ آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص ترک کر دیا تھا اور وہ اس لیے بھی باغی ہیں کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ صفین والے دن اہل شام کے ہاتھوں قتل ہوئے، اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول: ’ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کر دی‘ کی بنا پر بھی باغی ٹھہرے۔ لیکن وہ کافر، فاسق اور ظالم نہیں ہیں اس لیے کہ انہوں نے یہ سب کچھ تاویل کی بنا پر کیا، اگرچہ وہ باطل ہی کیوں نہ تھی۔ انتہائی بات یہ ہے کہ انہوں نے اجتہادی خطا کاارتکاب کیا۔ یہ ایسی شے ہے جو کسی کو فاسق قرار دینا واجب نہیں کرتی چہ جائیکہ اسے کافر قرار دیا جائے۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب کو اہلِ شام پر لعنت بھیجنے سے روک دیا تھا اور کہا تھا: ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کر دی ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو، حالانکہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کی ندامت اور افسردگی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا (تائب ہو کر) جنگ سے واپس چلے جانا بھی ثابت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی افسردگی بھی مشہور ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے درست رائے رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ بے شک جنگ جمل اچانک پیش آئی، فریقین کے قصد کے بغیر، بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں نے اسے بھڑکایا، بایں طور کے وہ (سازشی منصوبہ بندی کے تحت) دو گروہوں میں بٹ گئے تھے اور دونوں لشکروں میں جا گھسے تھے، اور قصاص کے ڈر کی وجہ سے انہوں نے جنگ چھیڑ دی تھی، جبکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قصد صرف دونوں گروہوں میں مصالحت اور فتنے کو ٹھنڈا کرنا تھا مگر اچانک جنگ چھڑ گئی۔
التفتازاني في شرح المقاصد، 2/304-305
6. وَقَالَ السَّعْدُ التَّفْتَازَانِيُّ فِي ‹‹شَرْحِ الْمَقَاصِدِ›› فِي وُجُوْبِ تَعْظِيْمِ الصَّحَابَةِ رضی اللہ عنہم: اتَّفَقَ أَهْلُ الْحَقِّ عَلَى وُجُوْبِ تَعْظِيْمِ الصَّحَابَةِ، وَالْكَفِّ عَنِ الطَّعْنِ فِيْهِمْ. اَللهَ اَللهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِي.
امام سعد الدین تفتازانی اپنی کتاب ’’شرح المقاصد‘‘ میں تعظیم صحابہ کے وجوب کے ضمن میں لکھتے ہیں: اہلِ حق تعظیم صحابہ کے واجب ہونے اور ان پر طعن و تشنیع کرنے سے باز رہنے پر متفق ہیں (جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے:) میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اﷲ سے ڈرو! اور میرے بعد انہیں تنقید کا نشانہ مت بنانا۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/87، الرقم/16849، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب في من سبّ أصحاب النّبي، 5/696، الرقم/3862، والروياني في المسند، 2/92، الرقم/882، والبخاري في التاريخ الكبير، 5/131، الرقم/389، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 8/287
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالرُّوْيَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْكَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ.
لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ.
اسے امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ سے، رویانی نے اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اسے حدیث حسن غریب قرار دیا ہے۔
(اسی طرح ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:) میرے صحابہ کو سب و شتم مت کرو۔ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ (اجر میں ) ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي: لو كنت متخذا خليلا، 3/1343، الرقم/3470، وأبو داود في السنن، كتاب السنة، باب في النهي عن سب أصحاب رسول الله، 4/214، الرقم/4658، والترمذي في السنن، كتاب المناقب، باب: (59)، 5/695، الرقم/3861
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ.
خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ.
اسے امام بخاری، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
(اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان:) میری اُمت کا سب سے بہتر زمانہ، میرا زمانہ ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أصحاب النبي، 3/1335، الرقم/3450، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4/151، والطيالسي في المسند، 1/113، الرقم/841، وابن الجعد في المسند، 1/196 الرقم/ 1289
وَلَوْ كَانُوْا فَسَدُوْا بَعْدَهُ لَمَا قَالَ ذَلِكَ، بَلْ نَبَّهَ. وَكَثِيْرٌ مِمَّا حُكِيَ عَنْهُمُ افْتِرَاءَاتٌ، وَمَا صَحَّ فَلَهُ مَحَامِلُ وَتَأْوِيْلَاتٌ.
يَجِبُ تَعْظِيْمُ الصَّحَابَةِ وَالْكَفُّ عَنْ مَطَاعِنِهِمْ، وَحَمْلُ مَا يُوْجِبُ بِظَاهِرِهِ الطَّعْنَ فِيْهِمْ عَلَى مَحَامِلِ وَتَأْوِيْلَاتِ سِيَّمَا لِلْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَأَهْلِ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ، وَمَنْ شَهِدَ بَدْرًا وَأُحُدًا وَالْحُدَيْبِيَةَ، فَقَالَ: انْعَقَدَ عَلَى عُلُوِّ شَأْنِهِمُ الإْجْمَاعُ وَشَهِدَ بِذَلِكَ الآيَاتُ الصُّرَاحُ، وَالْأَخْبَارُ الصِّحَاحُ، وَتَفَاصِيْلُهَا فِي كُتُبِ الْحَدِيْثِ وَالسَّيْرِ وَالْمَنَاقِبِ. وَلَقَدْ أَمَرَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بِتَعْظِيْمِهِمْ وَكَفِّ اللِّسَانِ عَنِ الطَّعْنِ فِيْهِمْ حَيْثُ قَالَ: «أَكْرِمُوْا أَصْحَابِي فَإِنَّهُمْ خِيَارُكُمْ».
اگر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد فساد ہی کرنا ہوتا تو یقینا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا نہ فرماتے بلکہ تنبیہ فرماتے۔ لہٰذا بہت سی باتیں جو ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بیان کی جاتی ہیں وہ من گھڑت ہیں اور اگر ان میں سے کوئی صحیح بھی ہے تو اس کے محامل اور تاویلات ہیں۔
الغرض! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم اور ان کے بارے میں سب و شتم اور طعن و تشنیع سے باز رہنا واجب ہے، جب شے کا ظاہر ان کے بارے میں طعن و تشنیع کو واجب قرار دیتا ہو اسے دیگر تاویلات پر محمول کیا جائے گا، خاص طور پر وہ بات اگر مہاجرین و انصار، اہل بیعتِ رضوان، اور ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق ہو جو غزوہ بدر، احد اور صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے اور فرمایا: صحابہ کی بلندیِ شان پر اُمت کا اجماع منعقد ہو چکا ہے اور اس کی گواہی واضح آیات اور صحیح احادیث دے چکی ہیں جن کی تفاصیل کتب حدیث و سیر اور کتب مناقب میں ملتی ہیں۔ بلاشبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کی تعظیم اور ان کے بارے میں طعن و تشنیع سے زبان کو بند رکھنے کاحکم دیا ہے اور فرمایا ہے: ’’میرے صحابہ کی عزت بجا لاؤ کیونکہ وہ تم سب سے بہترین ہیں‘‘۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved