(حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی ندامت اور توبہ)
1. رَوَى الْإِمَامُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي ‹‹الِاسْتِيْعَابِ›› فِي مَسْأَلَةِ خُرُوْجِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہما مَعَ الَّذِيْنَ كَانُوْا ضِدَّ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہ بِسَنَدِهِ قَالَ: ‹‹قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمَرٍو رضی اللہ عنہما: مَا لِي وِلِصِفِّيْنَ، مَا لِي وَلِقِتَالِ الْمُسْلِمِيْنَ، وَاللهِ، لَوَدِدْتُّ أَنِّي مِتُّ قَبْلَ هَذَا بِعَشَرِ سِنِيْنَ››. ثُمَّ يَقُوْلُ: ‹‹أَمَا وَاللهِ، مَا ضَرَبْتُ فِيْهَا بِسَيْفٍ وَلَا طَعَنْتُ بِرُمْحٍ وَلَا رَمَيْتُ بِسَهْمٍ، وَلَوَدِدْتُّ أَنِّي لَمْ أَحْضُرْ شَيْئًا مِنْهَا، وَأَسْتَغْفِرُ اللهَ مِنْ ذَلِكَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ››. إِلَّا أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ كَانَتْ بِيَدِهِ الرَّايَةُ يَوْمَئِذٍ فَنَدِمَ نَدَامَةً شَدِيْدَةً عَلَى قِتَالِهِ مَعَ مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ وَجَعَلَ يَسْتَغْفِرُ اللهَ وَيَتُوْبُ إِلَيْهِ.
امام ابن عبد البر ’’ الاستیعاب‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کے اُس خروج کے ذکر میں جو اُنہوں نے مخالفینِ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہمراہ کیا تھا، اپنی سندکے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا ہے: میراصفین کے ساتھ کیا تعلق؟ میرا مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنا کیسا؟ اللہ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میں اس سے دس برس قبل مر چکا ہوتا۔ پھر فرمایا: خدا کی قسم! میں نے اُس جنگ میں تلوارچلائی، نہ خنجرچلایااور نہ کوئی تیر پھینکا اور میں نے یقیناً چاہا کہ کاش میں اُس جنگ کے کسی معاملہ میں حاضر نہ ہوا ہوتا، میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا طلب گارہوں اور اُس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ ہاں اُنہوں نے اتنا ذکر کیا کہ اُس دن اُن کے ہاتھ میں ایک پرچم تھا۔ پھر وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمراہی میں اس جنگ میں شرکت پر شدید نادم اور افسردہ ہوئے اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے استغفار اور توبہ میں لگ گئے۔
ذكره ابن عبد البر في الاستيعاب، 3/958
2. وَقَالَ أَبُوْ مَنْصُوْرٍ الْبَغْدَادِيُّ فِي كِتَابِهِ ‹‹أُصُوْلِ الدِّيْنِ›› مَا نَصُّهُ: أَجْمَعَ أَصْحَابُنَا عَلَى أَنَّ عَلِيًّا رضی اللہ عنہ كَانَ مُصِيْبًا فِي قِتَالِ أَصْحَابِ الْجَمَلِ، وَفِي قِتَالِ أَصْحَابِ مُعَاوِيَةَ بِصِفِّيْنَ، وَقَالُوْا فِي الَّذِيْنَ قَاتَلُوْهُ بِالْبَصْرَةِ: إِنَّهُمْ كَانُوْا عَلَى الْخَطَأِ، وَقَالُوْا فِي عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا وَفِي طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ رضی اللہ عنہما: إِنَّهُمْ أَخَطَؤُوْا وَلَمْ يَفْسُقُوْا، لِأَنَّ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَصَدَتِ الْإِصْلَاحَ بَيْنَ الْفَرِيْقَيْنِ فَغَلَبَهَا بَنُوْ ضَبَّةَ وَبَنُو الأَزْدِ عَلَى رَأْيِهَا، فَقَاتَلُوْا عَلِيًّا فَهُمُ الَّذِيْنَ فَسَقُوْا دُوْنَهَا. وَأَمَّا الزُّبَيْرُ رضی اللہ عنہ فَإِنَّهُ لَمَّا كَلَّمَهُ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ يَوْمَ الْجَمَلِ عَرَفَ أَنَّهُ عَلَى الْحَقِّ فَتَرَكَ قِتَالَهُ وَهَرَبَ مِنَ الْمَعْرِكَةِ رَاجِعًا إِلَى مَكَّةَ، فَأَدْرَكَهُ عَمْرُو بْنُ جَرْمُوْزٍ بِوَادِي السِّبَاعِ فَقَتَلَهُ، وَحَمَلَ رَأْسَهُ إِلَى عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، فَبَشَّرَهُ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ بِالنَّارِ. وَأَمَّا طَلْحَةُ رضی اللہ عنہ فَإِنَّهُ لَمَّا رَأَى الْقِتَالَ بَيْنَ الْفَرِيْقَيْنِ هَمَّ بِالرُّجُوْعِ إِلَى مَكَّةَ، فَرَمَاهُ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ بِسَهْمٍ فَقَتَلَهُ، فَهَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةُ بَرِيْئُوْنَ مِنَ الْفِسْقِ، وَالْبَاقُوْنَ مِنْ أَتْبَاعِهِمُ الَّذِيْنَ قَاتَلُوْا عَلِيًّا فَسَقَةٌ، وَأَمَّا أَصْحَابُ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُمْ بَغَوْا، وَسَمَّاهُمُ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بُغَاةً فِي قَوْلِهِ لِعَمَّارٍ: «تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» وَلَمْ يَكْفُرُوْا بِهَذَا الْبَغْيِ.
امام ابو منصور البغدادی اپنی کتاب ’’أصول الدین‘‘ میں صراحت فرماتے ہیں: ہمارے تمام ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اصحابِ جَمل کے ساتھ قتال میں اور صفّین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال میں حق بجانب تھے۔ علماء کرام نے اُن لوگوں کے بارے میں جنہوں نے بصرہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کیا، کہا ہے کہ وہ خطا پر تھے، اور اُنہوں نے سیدہ عائشہ اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے بارے میں کہا ہے کہ وہ خطا وارتھے، مگر فاسق نہیں تھے، کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فریقین کے مابین اصلاح کا قصد کیا تھالیکن اُن کی رائے پر بنو ضبّہ اور بنو اَزد غالب آگئے، اور اُنہوں نے فتنہ انگیزی کے طور پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اچانک جنگ چھیڑ دی تھی، وہ سیدہ کو چھوڑ کر فاسق ہو گئے۔ رہے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ تو اُن کے ساتھ جمل کے روز سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بات چیت کی، اُن پر عیاں ہو گیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں، وہ اسی وقت ارادۂ جنگ سے باز آگئے اور انہوں نے میدان چھوڑ کر مکہ مکرمہ کا رُخ کر لیا، لیکن عمر بن جرموز نے اُنہیں وادئ سباع میں جا لیا اور قتل کر دیا، پھر اُن کا سر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا، جس پر آپ نے اُسے دوزخ کی و عید سنائی۔ باقی رہے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ تو اُنہوں نے بھی جب فریقین کے درمیان جنگ کودیکھاتومکہ مکرمہ کی طرف پلٹنے کا ارادہ کیا، اس پر مروان بن الحکم نے اُنہیں تیر مار کر شہید کر دیا۔ لہٰذا یہ تینوں حضرات فسق سے بری ہیں اور ان کے باقی پیروکار جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کی وہ فاسق ہوگئے۔ رہے اصحابِ معاویہ تو اُنہوں نے بغاوت کی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے ’’تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ‘‘ اُنہیں باغی قرار دے دیا تھا، مگر اس بغاوت سے وہ کافر نہیں ہوئے۔
ذكره أبو منصور البغدادي في أصول الدين/315
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved