(اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی واقعہ جمل پر افسردگی)
وَثَبَتَ أَيْضًا نَدَمُ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا عَلَى مَا فَعَلَتْ، وَهُوَ أَنَّهَا مَكَثَتْ فِي الْعَسْكَرِ الَّذِي كَانَ ضِدَّ عَلِيٍّ مَعَ كَوْنِهَا لَمْ تَخْرُجْ بِنِيَّةِ قِتَالِهِ وَلَمْ تُقَاتِلْهُ.
اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کابھی اپنے اقدام پر افسردہ ہوناثابت ہے، وہ اُس لشکر میں آکرٹھہری تھیں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں آیاتھا، حالانکہ وہ نہ تو قتال کی نیت سے نکلی تھیں اور نہ ہی اُن کے حکم سے قتال کیا گیا تھا۔
1. قَالَ الْبَاقِلَّانِيُّ فِي كِتَابِهِ 'تَمْهِيْدِ الْأَوَائِلِ' مَا َنصُّهُ: وَمِنْهُمْ مَنْ يَّقُوْلُ: إِنَّهُمْ تَابُوْا مِنْ ذَلِكَ، وَيُسْتَدَلُّ بِرُجُوْعِ الزُّبَيْرِ وَنَدَمِ عَائِشَةَ إِذَا ذَكَرُوْا لَهَا يَوْمَ الْجَمَلِ وَبُكَاءِهَا حَتَّى تَبُلَّ خِمَارَهَا وَقَوْلِهَا: وَدِدْتُ أَنْ لَوْ كَانَ لِي عِشْرُوْنَ وَلَدًا مِنْ رَّسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كُلُّهُمْ مِثْلُ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ الْحَرِثِ بْنِ هِشَامٍ وَأَنِّيْ ثَكِلْتُهُمْ وَلَمْ يَكُنْ مَا كَانَ مِنِّيْ يَوْمَ الْجَمَلِ. وَقَوْلِهَا: لَقَدْ أَحْدَقَتْ بِي يَوْمَ الْجَمَلِ الأَسِنَّةُ حَتَّى صِرْتُ عَلَى الْبَعِيْرِ مِثْلَ اللُّجَّةِ. وَأَنَّ طَلْحَةَ قَالَ لِشَابٍّ مِنْ عَسْكَرِ عَلِيٍّ وَهُوَ يَجُوْدُ بِنَفْسِهِ: اُمْدُدْ يَدَكَ أُبَايِعْكَ لِأَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ. وَمَا هَذَا نَحْوَهُ، وَالْمُعْتَمَدُ عِنْدَهُمْ فِي ذَلِكَ قَوْلُ النَّبِيِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: عَشْرَةٌ مِّنْ قُرَيْشٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعَدَّ فِيْهِمْ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ، قَالُوْا: وَلَمْ يَكُنْ لِيُخْبِرَ بِذَلِكَ إِلَّا عَنْ عِلْمٍ مِّنْهُ بِأَنَّهُمَا سَيَتُوْبَانِ مِمَّا أَحْدَثَاهُ وَيُوَافِيَانِ بِالنَّدَمِ وَالإِقْلَاعِ.
امام باقلانی نے اپنی کتاب ’’ تمهید الأوائل‘‘ میں بیان کیا ہے: بعض علماء نے کہا ہے کہ اُن میں سے بعض نے توبہ کرلی تھی، اور اُنہوں نے حضرت زبیر کے پلٹ جانے اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی افسردگی سے اس امر پر دلیل اخذ کی ہے۔ جب بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے لوگ جنگ جمل کاتذکرہ کرتے تو آپ رو پڑتیں یہاں تک کہ آنسوؤں سے اپنی اوڑھنی تر کر دیتیں اور فرماتیں: کاش! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میرے بیس بیٹے ہوتے، جو سب کے سب عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کی مانند ہوتے اور میں سب کو کھو کر اُن پر رو چکی ہوتی، پھر بھی وہ صدمہ مجھ پر جنگ جمل کے دن سے زیادہ بھاری نہ ہوتا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا یہ قول کہ جنگ جمل کے دن نیزہ برادروں نے مجھے اس طرح حصار میں لے رکھا تھا کہ میں اونٹ پر سوار گرداب کی مانند ہو چکی تھی (گویا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں اور باغیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو اس طرح گھیر لیا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملنا، تبادلۂ خیال کرنا اور صورتحال پر مشورہ کرنا بھی ناممکن بنا دیا گیا تھا)۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے جنگ جَمل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ایک نوجوان سے کہا جبکہ آپ جاں بلب تھے کہ ہاتھ آگے بڑھاؤ تاکہ میں تمہارے ہاتھ پر امیرالمومنین کی بیعت کر لوں۔ اس طرح کی متعدد روایات ہیں، اور علماء کرام کے نزدیک اس مسئلہ میں سب سے زیادہ معتمد بات یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے دس افراد کو جنتی قرار دیا تھا، اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کو بھی اُن میں سے ذکر فرمایا تھا۔ علماء نے بیان کیا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اس لیے فرمایا تھا کہ آپ کو علم تھا کہ وہ دونوں عنقریب اُس غلطی سے رجوع کر لیں گے جو اُن سے سرزد ہو گی، اور ندامت و افسردگی اور کنارہ کشی سے اپنے کیے کی تلافی کرلیں گے۔
ذكره الباقلاني في تمهيد الأوائل وتلخيص الدلائل/552
2. وَقاَلَ الْحَافِظُ الذَّهَبِيُّ فِي ‹‹سِيَرِ الْأَعْلَامِ النُّبَلَاءِ››: وَلَا رَيْبَ أَنَّ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا نَدَمَتْ نَدَامَةً كُلِّيَّةً عَلَى مَسِيْرِهَا إِلَى الْبَصْرَةِ وَحُضُوْرِهَا يَوْمَ الْجَمَلِ وَمَا ظَنَّتْ أَنَّ الأَمْرَ يَبْلُغُ مَا بَلغَ، فَعَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَمَّنْ سَمِعَ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا إِذَا قَرَأَتْ: ﴿وَقَرۡنَ فِي بُيُوتِكُنَّ﴾ [الأحزاب، 33/33]، بَكَتْ حَتَّى تَبُلَّ خِمَارَهَا.
حافظ ذہبی ’’سیر أعلام النبلاء‘‘ میں فرماتے ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بصرہ کی طرف اپنے خروج اور جَمل میں اپنی موجودگی پر کلیتاً افسردہ ہوئی تھیں، کیونکہ اُنہیں یہ گمان نہیں تھاکہ معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گاجہاں پہنچاتھا۔ حضرت عمارہ بن عمیراُس شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا تھاکہ جب وہ یہ آیت تلاوت فرماتیں: ﴿وَقَرۡنَ فِي بُيُوتِكُنَّ﴾ ’اور اپنے گھروں میں سکون سے قیام پذیر رہنا‘ تواس قدر روتی تھیں کہ دوپٹہ تر کر لیتی تھیں۔
ذكره الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2/177
3. وَذَكَرَ مِثْلَ ذَلِكَ الْقُرْطُبِيُّ فِي 'الْجَامِعِ لِأَحْكَامِ الْقُرْآنِ' وَأَبُوْ حَيَّانَ فِي تَفْسِيْرِهِ 'اَلْبَحْرِ الْمُحِيْطِ'، قَالَ: وَكَانَتْ عَائِشَةُ رضی اللہ عنہا إِذَا قَرَأَتْ هَذِهِ الآيَةَ. يَعْنِي آيَةَ ﴿يَٰنِسَآءَ ٱلنَّبِيِّ﴾ ]الأحزاب، 33/32[ بَكَتْ حَتَّى تَبُلَّ خِمَارَهَا، تَتَذَكَّرُ خُرُوْجَهَا أَيَّامَ الْجَمَلِ تَطْلُبُ بِدَمِ عُثْمَانَ رضی اللہ عنہ.
ایسا ہی امام قرطبی نے ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ اور ابو حیان نے ’’البحر المحیط‘‘ میں ذکر کیا ہے، اُنہوں نے کہا ہے کہ جب وہ یہ آیت ﴿يَٰنِسَآءَ ٱلنَّبِيِّ﴾ تلاوت فرماتیں تو اُنہیں جنگ جَمل کے ایام میں اپنا خروج اور قصاصِ عثمان کامطالبہ یاد آجاتا، پھر وہ اتنا روتیں کہ اپنی اوڑھنی کو تر کر دیتیں۔
ذكره القرطبي في الجامع لأحكام القرآن، 14/180، وأبو حيان في البحر المحيط، 7/223
4. وَفِي كِتَابِ دَلَائِلِ النُّبُوَّةِ لِلْبَيْهَقِيِّ مَا نَصُّهُ: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خُرُوْجَ بَعْضِ نِسَائِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِيْنَ فَضَحِكَتْ عَائِشَةُ رضی اللہ عنہا فَقَالَ: انْظُرِيْ يَا حُمَيْرَاء، أَنْ لَّا تَكُوْنِيْ أَنْتِ' ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فَقَالَ: يَا عَلِيُّ، إِنَّ وُلِّيْتَ مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا فَارْفُقْ بِهَا.
امام بیہقی دلائل النبوۃ میں لکھتے ہیں: اُم المومنین سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمہات المومنین میں سے بعض کے خروج کا ذکر فرمایا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہنس پڑیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے حمیراء! خیال کرنا کہیں وہ تم ہی نہ ہو۔ پھر آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اگر یہ معاملہ تمہارے ہاتھ میں آئے تو اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔
أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6/411
5. وَفِيْهِ بِسَنَدِهِ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: ‹‹لَوَدِدْتُّ أَنِّي مُتُّ وَكُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيًا››.
اور دلائل النبوۃ میں ہی امام بیہقی ہشام سے، وہ عروہ سے، اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کاش اس واقعہ سے پہلے ہی میری وفات ہو چکی ہوتی اور میں بھولی بسری ہو چکی ہوتی۔
أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 6/412
6. وَرَوى ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ بِسَنَدِهِ، قَالَ: 'أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا عِيْسَى بْنُ دِيْنَارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا فَقَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللهَ لَهَا، أَمَا عَلِمْتَ مَا كَانَتْ تَقُوْلُ: يَا لَيْتَنِيْ كُنْتُ شَجَرَةً، يَا لَيْتَنِي كُنْتُ حَجَرًا، يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَدَرَةً، قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ مِنْهَا، قَالَ: تَوْبَةٌ.
امام ابن سعدنے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں اپنی سندکے ساتھ فضل بن دُکین سے روایت کیا ہے کہ اُنہوں نے کہا: ہمیں عیسیٰ بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے امام ابو جعفر (محمد الباقر) سے اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے متعلق سوال کیا تو اُنہوں نے فرمایا: میں اُن کے لیے اللہ تعالیٰ سے رفعِ درجات کی دعا کرتا ہوں، تمہیں معلوم ہے وہ کیا فرمایا کرتی تھیں: اے کاش! میں ایک درخت ہوتی، اے کاش! میں ایک پتھرہوتی اور اے کاش! میں مٹی کا ایک ڈھیلا ہوتی۔ میں نے پوچھا: اس سے اُن کا کیا مطلب تھا؟ فرمایا: توبہ۔
ذكره ابن سعد في الطبقات الكبرى، 8/74
7. وَرَوَى ابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ فِي 'مُصَنَّفِهِ' بِإِسْنَادِهِ عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا أَنَّهَا قَالَتْ: ‹‹وَدِدْتُّ أَنِّيْ كُنْتُ غُصْنًا رُطَبًا، وَلَمْ أَسْرِ مَسِيْرِيْ هَذَا››.
امام ابن ابی شیبہ نے ’’المصنَّف‘‘ میں اپنی سندکے ساتھ اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیاہے کہ اُنہوں نے فرمایا: میری آرزو ہے، کاش! میں ایک تر ٹہنی ہوتی اور میں نے یہ قدم نہ اُٹھایا ہوتا۔
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7/544، الرقم/37818
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved