(حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کی ندامت اور افسردگی)
1. رَوَى الْحَاكِمُ فِي الْمُسْتَدْرَكِ، كِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ: عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ إِيَاسٍ الضَّبِّيِّ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: كُنَّا مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ يَوْمَ الْجَمَلِ فَبَعَثَ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ أَنِ الْقَنِي، فَأَتَاهُ طَلْحَةُ رضی اللہ عنہ فَقَالَ: نَشَدْتُكَ اللهَ هَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَقُوْلُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ، وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَلِمَ تُقَاتِلُنِي؟ قَالَ: لَمْ أَذْكُرْ، قَالَ: فَانْصَرَفَ طَلْحَةُ.
امام حاکم نے ’’المستدرك، كتاب معرفة الصحابة‘‘ میں رفاعہ بن ایاس الضبی سے اور انہوں نے اپنے باپ کے طریق سے اپنے دادا سے روایت کیاہے کہ اُنہوں نے کہا: جنگ جَمل کے دن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھاکہ اُنہوں نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ وہ آپ سے ملاقات کریں۔ جب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ آئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! جو اُسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اس سے دشمنی کرے تو اُس سے دشمنی کر؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ فرمایا: پھرتم مجھ سے جنگ کیوں کر رہے ہو؟ اُنہوں نے کہا: مجھے یہ حدیث یاد نہیں رہی تھی۔ پھر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ سے رجوع کرتے ہوئے) واپس لوٹ گئے۔
أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/419، الرقم/5594
2. وَذَكَرَ الْحَاكِمُ فِي ‹‹الْمُسْتَدْرَكِ››، وَابْنُ سَعْدٍ فِي ‹‹الطَّبَقَاتِ›› وَصَاحِبُ الْعِقْدِ الثَّمِيْنِ، وَغَيْرُهُمْ. وَرَوَى الْحَدِيْثَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ فِي ‹‹الْمَطَالِبِ الْعَالِيَةِ››. وَقَالَ أَبُوْ عُمَرَ بْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي ‹‹الْاِسْتِيْعَابِ››: لَا تَخْتَلِفُ الْعُلَمَاءُ الثِّقَاتُ فِي أَنَّ مَرْوَانَ قَتَلَ طَلْحَةَ. وَرَوَى ابْنُ سَعْدٍ فِي ‹‹الطَّبَقَاتِ›› سِتَّ رِوَايَاتٍ يَثْبُتُ بِهَا أَنَّ مَرْوَانَ هُوَ قَاتِلُ طَلْحَةَ.
امام حاکم نے ’’ المستدرک‘‘ میں، امام ابن سعدنے ’’ الطبقات الکبری ‘‘ میں، ’’العقد الثمین‘‘ کے مصنف اور دوسرے علماء کرام نے ذکرکیاہے، نیز حافظ ابن حجرنے ’’ المطالب العالیۃ ‘‘ میں روایت کیاہے، اور امام ابن عبد البر نے ’’ الاستیعاب‘‘ میں کہاہے کہ جملہ معتبر علماء کرام کے مابین اس امر پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو مروان (جو کہ باغی گروہ کا ایک سرگرم فرد تھا) نے قتل کیا تھا۔ امام ابن سعد نے ’’ الطبقات الکبری‘‘ میں چھ روایات سے ثابت کیا ہے کہ مروان ہی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا قاتل ہے (جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ دورانِ جنگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخالف لشکر سے الگ ہو چکے تھے)۔
ذكره ابن عبد البر في الاستيعاب، 2/766
3. وَقَالَ الْبَاقِلَّانِيُّ فِي كِتَابِهِ ‹‹تَمْهِيْدِ الْأَوَائِلِ››: أَنَّ طَلْحَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ لِشَابٍّ مِنْ عَسْكَرِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ وَهُوَ يَجُوْدُ بِنَفْسِهِ: ‹‹اُمْدُدْ يَدَكَ أُبَايِعْكَ لِأَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ››.
امام باقلانی اپنی کتاب ’’تمہید الاوائل ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ایک نوجوان کو دیکھا جبکہ وہ خود جاں بلب تھے آپ نے اس وقت اُس سے فرمایا: اپنا ہاتھ آگے بڑھاؤ تاکہ میں تمہارے ہاتھ پر (اپنی موت سے پہلے) امیر المومنین (حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کی بیعت کر لوں۔
ذكره الباقلاني في تمهيد الأوائل/552
كَمَا ذَكَرَ الْحَاكِمُ فِي الْمُسْتَدْرَكِ فِي كِتَابِ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ مَجْزَأَةَ قَالَ: ‹‹مَرَرْتُ بِطَلْحَةَ ابْنِ عُبَيْدِ اللهِ يَوْمَ الْجَمَلِ وَهُوَ صَرِيْعٌ فِي آخِرِ رَمْقٍ، فَوَقَفْتُ عَلَيْهِ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: إِنِّيْ لَأَرَى وَجْهَ رَجُلٍ كَأَنَّهُ الْقَمَرُ مِمَّنْ أَنْتَ، فَقُلْتُ: مِنْ أَصْحَابِ أَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِيٍّ فَقَالَ: اُبْسُطْ يَدَكَ أُبَايِعْكَ فَبَسَطْتُ يَدِي وَبَايَعَنِي، فَفَاضَتْ نَفْسُهُ، فَأَتْيْتُ عَلِيًّا فَأَخْبَرْتُهُ بِقَوْلِ طَلْحَةَ، فَقَالَ: اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، صَدَقَ رَسْوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، أَبَى اللهُ أَنْ يُدْخِلَ طَلْحَةَ الْجَنَّةَ إِلَّا وَبَيْعَتِي فِي عُنُقِهِ››.
جیسا کہ امام حاکم نے ’’ المستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ ‘‘ میں ثور بن مجزأہ سے روایت کیاہے کہ اُنہوں نے کہا: میں جَمل کے دن حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے قریب سے گزرا جبکہ وہ آخری لمحات کی غنودگی میں تھے۔ میں اُن کے پاس کھڑا ہوا تو اُنہوں نے سر اٹھاتے ہوئے فرمایا: میں ایساچہرہ دیکھ رہاہوں گویا وہ چاند ہے، تم کون ہو؟ میں نے کہا: امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے ہوں۔ فرمانے لگے: ہاتھ بڑھاؤ تاکہ میں تمہاری بیعت کروں، میں نے ہاتھ بڑھایاتو اُنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی، پھر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آ کر حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس معاملے کی خبر دی تو اُنہوں نے فرمایا: اللہ اکبر، اللہ اکبر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا تھا (کہ طلحہ جنتی ہے) اور اللہ تعالیٰ طلحہ کو جنت میں داخل نہ فرماتا اگر اُس کی گردن میں میری بیعت نہ ہوتی۔
أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/421، الرقم/5601
4. فَقَدْ رَوَى الْحَاكِمُ فِي الْمُسْتَدْرَكِ، كِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ لِلزُّبَيْرِ: أَمَا تَذْكُرُ يَوْمَ كُنْتُ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَقِيْفَةِ قَوْمٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ لَكَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: أَتُحِبُّهُ؟ فَقُلْتَ: مَا يَمْنَعُنِي؟ قَالَ: أَمَا إِنَّكَ سَتَخْرُجُ عَلَيْهِ وَتُقَاتِلُهُ وَأَنْتَ ظَالِمٌ' قَالَ: فَرَجَعَ الزُّبَيْرُ.
امام حاکم نے ’’المستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ‘‘ میں حضرت قیس بن ابوحازم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اُنہوں نے بیان کیا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو فرمایا: کیاآپ وہ دن یاد ہے، جب میں اور آپ انصار رضی اللہ عنہ کے ایک سقیفہ میں موجودتھے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو فرمایا تھا: کیا آپ اس سے (یعنی علی سے) محبت کرتے ہو؟ آپ نے عرض کیا تھا: مجھے اس سے محبت میں کیا چیز مانع ہوسکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: عنقریب تم اس کے خلاف خروج کروگے، اور اس سے قتال کرو گے اور تم ہی ظلم کے مرتکب ہو گے۔ قیس بن ابوحازم کہتے ہیں: اس بات کی یاد دہانی پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ سے) رجوع کر لیا۔
أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/412، الرقم/5573
5. وَفِي رِوَايَةٍ لِلْحَاكِمِ أَنَّ عَلِيًّا قَالَ لَهُ: ‹‹أَنْشُدُكَ اللهَ هَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَقُوْلُ: «تُقَاتِلُهُ وَأَنْتَ لَهُ ظَالِمٌ»؟›› فَقَالَ: لَمْ أَذْكُرْ، ثُمَّ مَضَى الزُّبَيْرُ مُنْصَرِفًا››.
امام حاکم کی ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اُنہیں فرمایا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ آپ اس (علی رضی اللہ عنہ ) سے قتال کریں گے اور آپ ہی ظلم کرنے والے ہوں گے؟ اُنہوں نے کہا: میں یہ بات بھول چکا تھا۔ پھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ واپس پلٹ آئے (یعنی اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج سے رجوع کر لیا)۔
أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/413، الرقم/5574
6. وَرَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَى فِي مُسْنَدِهِ بِنَحْوِهِ: قَالَ عَلِيٌّ لِلزُّبَيْرِ: ‹‹أَنْشُدُكَ اللهَ أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَقُوْلُ: «إِنَّكَ تُقَاتِلُ وَأَنْتَ ظَالِمٌ لِي»؟›› قَالَ: نَعَمْ، وَلَمْ أَذْكُرْ إِلَّا فِي مَوْقِفِي هَذَا، ثُمَّ انْصَرَفَ.
اسی طرح امام ابویعلیٰ نے اپنی المسندمیں روایت کیا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تمہیں خداکی قسم! کیاتم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ آپ میرے ساتھ لڑیں گے اور مجھ پر ظلم کرنے والے ہوں گے؟ اُنہوں نے عرض کیا: ہاں، لیکن میں بھول چکا تھا، ابھی کھڑے کھڑے اسی مقام پر مجھے یاد آیا ہے، پھروہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف) قتال سے کنارہ کش ہو گئے۔
أخرجه أبو يعلى في المسند، 2/29، الرقم/666؛ و ذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/235؛ وابن حجر العسقلاني في المطالب العالية، 18/150، الرقم/4410
7. قَالَ صَاحِبُ الْعِقْدِ الثَّمِيْنِ: وَكَانَ الزُّبَيْرُ رضی اللہ عنہ قَدِ انْصَرَفَ عَنِ الْقِتَالِ نَادِمًا.
’’ العقد الثمین ‘‘ کے مصنف نے لکھاہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ شرمندہ اور افسردہ ہو کر قتال سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔
ذكره ابن عبد البر في الاستيعاب، 2/515
8. وَقَالَ الْمُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ، عَنِ السُّدِّيِّ: شُهِدَ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ يَوْمَ الْجَمَلِ مِائَةٌ وَثَلَاثُوْنَ بَدْرِيُّوْنَ وَسَبْعُ مِائَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. وَقَالَ قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ: رَأَيْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ حِيْنَ رَمَى طَلْحَةَ يَوْمَئِذٍ بِسَهْمٍ، فَوَقَعَ فِي رُكْبَتِهِ، فَمَا زَالَ يَسِيْحُ حَتَّى مَاتَ.
مُطّلِب بن زیاد نے سُدِّی سے روایت کیا ہے کہ جنگِ جمل میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سوتیس [130] بدری اور سات سو دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شرکت کی تھی۔ قیس بن ابوحازم بیان کرتے ہیں کہ میں نے جَمل کے دن مروان بن حَکم کو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ پر تیر اندازی کرتے ہوئے دیکھا تھا، تیر اُن کے گھٹنے میں لگا، وہ مسلسل درد سے کراہتے رہے حتیٰ کہ واصل بحق ہوگئے۔
ذكره الذهبي في سير أعلام النبلاء، 1/35، وأيضًا في تاريخ الإسلام، 3/484، والعاصمي في سمط النجوم العوالي، 2/560
9. وَقَالَ يَزِيْدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: انْصَرَفَ الزُّبَيْرُ يَوْمَ الْجَمَلِ عَنْ عَلِيٍّ، وَهُمْ فِي الْمَصَافِّ، فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللهِ: جُبْنًا جُبْنًا، فَقَالَ: قَدْ عَلِمَ النَّاسُ أَنِّي لَسْتُ بِجَبَانٍ، وَلَكِنْ ذَكَّرَنِي عَلِيٌّ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فَحَلَفْتُ أَنْ لَّا أُقَاتِلُهُ، ثُمَّ قَالَ: تَرْكُ الأُمُوْرِ الَّتِي أَخْشَى عَوَاقِبَهَا.... فِي اللهِ أَحْسَنُ فِي الدُّنْيَا وَفِي الدِّيْنِ.
یزیدبن ابی زیاد نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے روایت کیاہے کہ جب حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جَمل کے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ سے پلٹ کر جانے لگے جبکہ لوگ صفوں میں موجود تھے تو اُنہیں اُن کا بیٹا عبد اللہ کہنے لگا: یہ بزدلی ہے، یہ بزدلی ہے۔ اس پر اُنہوں نے فرمایا: تمام لوگ جانتے ہیں کہ میں بزدل نہیں ہوں، لیکن علی رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک ایسی چیز یاد کرا دی ہے جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا تھا (مگر میں بھول چکا تھا)، میں نے قسم کھا لی ہے کہ میں اُن کے خلاف جنگ نہیں کروں گا، پھر فرمایا: ایسے امور کو ترک کر دینا جنہیں بجا لانے میں عاقبت کی خرابی کا اندیشہ ہو۔۔ ۔۔ وہ دین اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بہت بہتر ہوتا ہے۔
أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 1/91، وذكره ابن عساكر في تاريخ مدينه دمشق، 18/411، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 1/60
10. قَالَ الذَّهَبِيُّ فِي كِتَابِهِ ‹‹سِيَرِ أَعْلَامِ النُّبَلَاءِ›› عَنْ أَبِي وَائِلٍ، سَمِعَ عَمَّارًا يَقُوْلُ:۔۔۔۔۔۔ لَتَتَّبِعُوْهُ أَوْ إِيَّاهَا.
امام ذہبی نے ’’ سیر أَعلام النبلاء ‘‘ میں بیان کیا ہے، حضرت ابو وائل نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:۔۔ ۔۔ تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی پیروی کرتے ہو یا اس معاملے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذاتِ گرامی کی۔
ذكره الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2/178
11. وَعَنْ أَبِي جَرْوٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا وَالزُّبَيْرَ حِيْنَ تَوَاقَفَا، فَقَالَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ : يَا زُبَيْرُ، أَنْشُدُكَ اللهَ أَسَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَقُوْلُ: إِنَّكَ تُقَاتِلَنِي وَأَنْتَ لِي ظَالِمٌ؟ قَالَ: نَعَمْ وَلَمْ أَذْكُرْهُ إِلَّا فِي مَوْقِفِي هَذَا. ثُمَّ انْصَرَفَ.
ابو جرو مازنی بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ملاقات کرتے دیکھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اُنہیں فرمایا: اے زبیر! آپ کو اللہ کی قسم! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ آپ میرے ساتھ قتال کرنے والے اور مجھ پر ظلم کرنے والے ہوں گے؟ اُنہوں نے عرض کیا: ہاں، اور میں یہ بات بھول چکا تھا۔ ابھی اسی مقام پر یاد آیا ہے، پھر وہ جنگ چھوڑ کر واپس چلے گئے۔
ذكره الذهبي في سير أعلام النبلاء، 1/59
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved