﴿حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں جنگ میں شرکت نہ کر سکنے والوں کی ندامت اور افسردگی﴾
وَقَدْ وَرَدَ عَنْ بَعْضِ الصَّحَابَةِ مِمَّنْ قَاتلُوْا عَلِيًّا وَمِمَّنْ لَمْ يَنْصُرُوْهُ فِي قِتَالِهِ، الرُّجُوْعُ عَنْ ذَلِكَ. فَقَدْ صَحَّ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما أَنَّهُ نَدِمَ لِعَدَمِ خُرُوْجِهِ لِلْقِتَالِ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ.
بعض ایسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے جنہوں نے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا یا جنہوں نے آپ کی مدد نہیں کی تھی کہ اُنہوں نے اپنی اس غلطی سے رجوع کر لیا تھا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ جنگ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت میں نہ نکلنے پر افسردہ ہوئے تھے۔
1. قَالَ الْقُرْطُبِيُّ فِي ‹‹التَّذْكِرَةِ››: وَرُبَّمَا نَدِمَ بَعْضُهُمْ عَلَى تَرْكِ ذَلِكَ كَعَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما، فَإِنَّهُ نَدِمَ عَلَى تَخَلُّفِهِ عَنْ نُصْرَةِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہ فَقَالَ عِنْدَ مَوْتَهِ: 'مَا آسِيْ عَلَى شَيْءٍ مَا آسِيْ عَلَى تَرْكِي قِتَالَ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ' يَعْنِي فِئَةَ مُعَاوِيَةَ، وَهَذَا هُوَ الصَّحِيْحُ أَنَّ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ إِذَا عُلِمَ مِنْهَا الْبَغْيُ قُوْتِلَتْ.
امام قرطبی نے بھی اپنی کتاب ’’التذکرة في أحوال الموتى وأمور الآخرة‘‘ میں فرمایا ہے: بسا اوقات بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس ترکِ حمایت پر افسردہ ہوتے تھے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدد و نصرت سے پیچھے رہ جانے پر افسردہ ہوئے تھے، اپنی وفات کے وقت انہوں نے کہا تھا: مجھے کسی چیز پر اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا افسوس باغی گروہ یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے خلاف جنگ نہ کرنے پر ہوا ہے۔ یہ وہ صحیح دلیل ہے کہ جب کسی گروہ کی بغاوت معلوم ہو جائے تو اُس سے قتال کیا جائے گا۔
القرطبي فى التذكرة/637
2. ذَكَرَ ابْنُ سَعْدٍ: قَدْ نَدِمَ عَلَى التَّخَلُّفِ عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ فِي حُرُوْبِهِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ السَّلَفِ، كَمَا رُوِيَ مِنْ وُجُوْهٍ عَنْ حَبِيْبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما أَنَّهُ قَالَ: ‹‹مَا آسِي عَلَى شَيْءٍ إِلَّا أَنِّي لَمْ أُقَاتِلْ مَعَ عَلِيٍّ مَعَ أَهْلِ الْفِئَةِ الْبَاغِيَةِ››.
امام ابن سعد نے بیان کیا ہے کہ ایک سے زائد کبار سلف صالحین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ میں نہ نکلنے پر افسردہ ہوئے تھے۔ اسی طرح کی ایک یہ حدیث بھی ہے جو مختلف طرق سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن حبیب بن ابی ثابت اپنے والد ابو ثابت رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’میں اپنے دل میں کسی دنیوی معاملہ کے بارے میں حسرت نہیں رکھتا، سوائے اِس کے کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیتے ہوئے باغی گروہ کے خلاف لڑائی نہ کر سکا‘‘۔
ذكره ابن عبد البر في الاستيعاب،3/1117، وابن سعد في الطبقات الكبرى، 4/187، وابن الأثير الجزري في أسد الغابة، 3/612، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 3/231-232، ومحب الدين الطبري في الرياض النضرة، 3/229
3. وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: مَا مَاتَ مَسْرُوْقٌ حَتَّى تَابَ إِلَى اللهِ تَعَالَى عَنْ تَخَلُّفِهِ عَنِ الْقِتَالِ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ كَمَا فِي ‹‹أُسْدِ الْغَابَةِ فِي مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ››.
امام شعبی فرماتے ہیں: حضرت مسروق بن اجدع رضی اللہ عنہ نے قبل از وفات جنگ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کاساتھ نہ دینے پر اﷲ تعالیٰ سے توبہ کی تھی۔ جیسا کہ یہ روایت ’أسد الغابة في معرفة الصحابة‘ میں مذکور ہے۔
ذكره ابن الأثير في أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4/33
4. وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي 'الْاِسْتِيْعَابِ' بَعْدَ ذِكْرِهِ لِهَذَيْنِ الْأَثَرَيْنِ: 'وَلِهَذِهِ الأَخْبَارِ طُرُقٌ صِحَاحٌ قَدْ ذَكَرْنَاهَا فِي مَوْضِعِهَا'.
حافظ ابن عبد البر نے ’الاستیعاب‘ میں یہ دوقول نقل کرنے کے بعدلکھاہے: اِن آثارکے متعدد طرق صحیح ہیں جنہیں ہم اُن کے مقام پر ذکرکرچکے ہیں۔
ابن عبد البر في الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 3/1117
5. وَأَخْرَجَ الْحَاكِمُ فِي 'الْمُسْتَدْرَكِ': كِتَابُ التَّفْسِيْرِ، وَصَحَّحَهُ؛ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي السُّنَنِ، كِتَابُ قِتَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما أَنَّهُ قَالَ: مَا وَجَدْتُّ فِي نَفْسِي مِنْ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ هَذِهِ الْآيَةِ - يَعْنِي ﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ﴾ [الحجرات، 49/9]، - إِلَّا مَا وَجَدْتُ فِي نَفْسِي أَنِّي لَمْ أُقَاتِلْ هَذِهِ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ كَمَا أَمَرَنِيَ اللهُ تَعَالَى.
امام حاکم نے ’’المستدرک (کتاب التفسیر)‘‘ میں صحت کے ساتھ اور امام بیہقی نے ’’السنن (کتاب قتال أهل البغي)‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک طویل حدیث میں نقل کیا ہے: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے آیت: ﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ﴾ سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اس کو جو اب دینے سے گریز کیا، لیکن اُس کے اوجھل ہو جانے کے بعد اپنے ہم مجلس لوگوں سے کہا: اس آیت میں مجھے اپنی ذات کی نسبت سے کوئی چیز اتنی گراں نہیں گزری جتنی یہ بات کہ میں باغی گروہ (یعنی خلیفۃ المسلمین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف خروج کرنے والے گروہ) کے ساتھ قتال کرنے میں اُس طرح عمل نہیں کرسکا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاتھا۔
أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/125، الرقم/4598، والبيهقي في السنن الكبرى، 8/172، الرقم/16483، وذكره العيني في عمدة القاري، 24/192
قَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِأَسَانِيْدَ وَأَحَدُهَا رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں: اِس حدیث کو امام طبرانی نے کئی سندوں سے روایت کیا ہے اور ان کی بعض سندوں کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں۔
ذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/242
لِمَاذَا صَدَرَتْ مِثْلَ هَذِهِ الْكَلِمَاتِ الْمُؤْسِفَةِ مِنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما عِنْدَ وَفَاتِهِ؟ ذَلِكَ لِأَنَّ الْقِتَالَ لِأَجْلِ الْحَقِّ عِنْدَهُ أَفْضَلُ مِنَ الْقُعُوْدِ فِي الْبَيْتِ. لِذَا سَأَل رَجُلٌ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رضی اللہ عنہما عَنِ الْحُرُوْبِ الرَّاهِنَةِ آنَذَاكَ فَقَالَ: كَفَفْتُ يَدَيَّ فَلَمْ أَقْدُمْ، وَالْمُقَاتِلُ عَلَى الْحَقِّ أَفْضَلُ.
سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے وقتِ وفات افسردگی بھرے یہ الفاظ کیوں صادرہوئے؟ اس لیے کہ اُن کے نزدیک حمایتِ حق میں قتال کرناگھرمیں بیٹھے رہنے سے افضل تھا۔ چنانچہ جب ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہاں حاضر ہو کر حالیہ جنگوں سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: میں نے اپنے ہاتھوں کوروکے رکھا، آگے نہیں بڑھایا حالانکہ حق کی خاطر قتال کرنے والا افضل ہے۔
أخرجه الحاكم في المستدرك، 3/643، رقم/6360، وذكره ابن سعد في الطبقات الكبرى، 4/164، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3/951
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved