اِس دور میں نام نہاد پیروں نے تصوف کے نام پر دکان داری چمکا رکھی ہے اور اُن کے پیکروں میں تصوف کی معمولی جھلک تک نظر نہیں آتی۔ اُن کے طرزِعمل نے یہ مغالطہ پیدا کر دیا ہے کہ شاید تصوف کا دِین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تصوف ہی اَصلِ دین ہے۔ دین کے تین گوشے ہیں۔ ایک گوشے کی اَصل ’اِیمان‘ ہے، دُوسرے گوشے کی اَصل ’اِسلام‘ ہے اور تیسرے گوشے کی اَصل ’اِحسان‘ ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے، جسے ’حدیثِ جبرئیل‘ بھی کہتے ہیں۔
اُس حدیث کے مطابق جبرئیل اَمین حاضر ہوئے اور سوال کیا: ’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اِیمان کیا ہے؟ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ، اُس کے رسولوں، کتابوں، فرشتوں اور قیامت پر اِیمان لانے کو بیان فرما دیا۔
اُس کے بعد جبرئیل اَمین نے پوچھا: ’’حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اِسلام کیا ہے؟‘‘ اُس سوال کے جواب میں رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’اَرکانِ اسلام‘ کو بیان فرمایا۔
اگر دِین کی بات فقط عقیدے اور عمل پر ختم ہوجاتی تو جبرئیل امین بھی اپنی گفتگو یہاں ختم کر دیتے ہیں، مگر اُنہوں نے تیسرا سوال بھی کیا اور وہ یہ تھا: ’’یا رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اِحسان کیا ہے؟‘‘
جبرئیلِ اَمین کے اِن تین سوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ دِین محض ’عقیدہ‘ اور ’عمل‘ سے ہی عبارت نہیں، بلکہ اُس کے ساتھ ’اِحسان‘ کو شامل کر کے مکمل ہوتا ہے۔ عقیدے اور عمل کی درُستگی کے بعد اُن دونوں کے اُوپر دِین کا تیسرا زِینہ یہی ہے، جسے جبرئیل اَمین نے ’اِحسان‘ کے نام سے پوچھا۔ اُس کے جواب میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اِحسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت و بندگی یوں (اِختیار) کرو کہ گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو۔ اور (ایمان کا اَدنیٰ درجہ یہ ہے کہ) اگر تم اُسے نہیں دیکھتے تو (یہ پختہ یقین رکھو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
صحیح مسلم، 1 : 36، رقم: 908
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیسرے سوال کا جو جواب دیا دراصل یہ ایک قلبی کیفیت کا بیان ہے، اِسی کو تصوف کہتے ہیں۔
اللہ کو تسلیم کرنا عقیدے میں آچکا اور اللہ کی عبادت کرنا عمل میںآچکا ہے۔ اَب اِس حال میں عبادت کرنا کہ اللہ کا جلوہ آنکھوں کے سامنے ہو یا کم از کم اِس کیفیت میں عبادت کرنا کہ اللہ بندے کو دیکھ رہا ہو، یہ ایک ایسی قلبی کیفیت ہے جسے تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’اِحسان‘ قرار دیا۔ اَب ہوا یہ کہ کلاسیفکیشن کا دَور آیا تو دِین کی مختلف شاخیں مرتب ہوئیں۔ دِین کے اِیمانی پہلو کا علمی نام ’’علم العقائد‘‘ ہوگیا، دِین کے عملی پہلو کا علمی نام ’’علم الاحکام‘‘ ہوگیا اور دِین کے باطنی و قلبی پہلو کا نام ’’علم الاخلاص‘‘ ہوگیا۔
قلبی، روحانی اور باطنی کیفیات عقائد یا اَحکام کی کتابوں میں نہیں ملتی۔ اِن کیفیات نے جب علم کا روپ دھارا تو اُس کا نام علم الاخلاص یا علم الطریقت پڑگیا۔ جب علماء نے ان تینوں اَجزائے دین پر مزید کام کیا، اُن کے لئے دلائل و براہین فراہم کئے، اُنہیں علم سے فن میں بدلا اور اُن پر کتابیں لکھی گئیں تو اُن پر کام کرنے والے علماء کے طبقے بن گئے۔ علم العقائد جب فن بنا تو ’’علم الکلام‘‘ کہلایا اور علم الکلام پر کام کرنے والے ’’متکلمین‘‘ کہلائے۔ علم الاحکام جب فن بنا تو ’’الفقہ‘‘ کہلایا اور اُس میں دسترس رکھنے والے ’’فقہاء‘‘ کہلائے۔ جب علم الاخلاص فن بنا تو اُسے ’’التصوف‘‘ کہا گیا اور اُس پر کام کرنے والے ’’صوفیائ‘‘ کہلائے۔ یہ تینوںطبقے مل کر دِین کی مِن حیثُ الکل خدمت کر رہے ہیں، لہٰذا بات یوں واضح ہوئی کہ تصوف دِین کی فروع میں سے ایک فرع ہے۔ اِیمان، اِسلام اور اِحسان دِین کی اَیسی تین جزئیات ہیں کہ اگر اُن میں سے کسی ایک کو الگ کر دیں تو دِین نامکمل رہ جاتا ہے۔
بعض نادان لوگ تصوف کو رہبانیت قرار دیتے ہیں حالاں کہ تصوف ہرگز رہبانیت نہیں ہے۔ تصوف اِسلام کی ایک متحرک حقیقت ہے اور رہبانیت قدیم مذاہب کا ایک ایسا جامد تصور ہے جس کا اِسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا رَهْبَانِيَةَ فِی الْاِسْلامِ
’’اِسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔‘‘
قرطبی، 18 : 87
دُوسری طرف سرورِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے:
الاحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَ اﷲَ کَأَنَّکَ تَرَاه فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاه فَاِنَّه يَرَاکَ
’’اِحسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت و بندگی یوں (اِختیار) کرو کہ گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو۔ اور (اِیمان کا اَدنیٰ درجہ یہ ہے کہ ) اگر تم اُسے نہیں دیکھتے تو (یہ پختہ یقین رکھو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
صحیح بخاری، 1 : 27، رقم : 50
اِس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبان مبارکہ سے جس شے کو ’’اِحسان‘‘ سے تعبیر فرما رہے ہیں، اُسی کو ہم اپنی زبان میں ’’تصوف‘‘ کہتے ہیں۔ اِس کی سادہ مثال نماز اور روزہ کی ہے۔ قرآن و سنت میں اُن کے لئے بالترتیب ’صلوٰۃ‘ اور ’صوم‘ کا لفظ آیا ہے، جب کہ ہم اُنہیں نماز اور روزہ کہتے ہیں۔ چنانچہ واضح ہوا کہ لفظ بدل جانے سے اُس کا اِطلاق نہیں بدل جاتا۔ تصوف کو زبردستی رہبانیت ثابت کرنا منکرینِ تصوف کا کام ہے، جو ’حدیثِ جبرئیل‘ میں وارِد ہونے والے حکم ’’اِحسان‘‘ کو کلیتاً ردّ کرتے ہیں۔
اِسی حدیثِ مبارکہ کے حوالے سے مولانا عبدالماجد دریا آبادی فرماتے ہیں کہ تصوف یہ ہے کہ جب آپ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوں تو آپ نے جسم پاک کر لیا، کپڑے پاک کر لئے، قبلہ رُخ منہ کر لیا، باجماعت نمازپڑھ لی تو شریعت اور فقہ کی رُو سے آپ کی نماز مکمل ہو گئی۔ دُوسری طرف ممکن ہے کہ وہ تصوف کی رُو سے اَبھی ادھوری ہو۔ تصوف تقاضا کرتا ہے کہ جس طرح ہمارا چہرہ کعبے کی طرف تھا اُسی طرح ہمارا دِل بھی ربِ کعبہ کی طرف ہو، ورنہ نماز کامل نہ ہو گی۔ تصوف دراصل تکمیلِ اِیمان و اِسلام ہے۔ حسنِ نیت اور حسنِ اِخلاص کے ساتھ اِسلام کے جملہ اَوامر کو بجا لانے کا نام ’تصوف‘ ہے۔
آج کے اِس پڑھے لکھے دَور میں بیشتر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جس تصوف کا آپ ذِکر کرتے ہیں وہ تو صرف کتابوں میں بند ہے۔ معاشرے میں عملی طور پر جو تصوف نظر آتا ہے وہ تو محض رسوم و رواج تک محدود ہے۔ حتیٰ کہ تصوف کے نام پر بہت سی غیرشرعی رسمیں بھی جاری ہیں۔ اَیسے میں ایک عام مسلمان تصوف کو غیراِسلامی شے سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تصوف کوئی غیراِسلامی شے نہیں، بلکہ اَلمیہ یہ ہے کہ ہم نے تصوف کی اَصل روح کو چھوڑ کر اُسے محض رسومات کی انجام دہی تک محدود کر دیا ہے۔
ایک طویل عرصے سے سلاسلِ تصوف، خانقاہیں اور ہمارے معمولات اَز اوّل تا آخر مراسمِ تصوف کی انجام دہی میں زیادہ مشغول ہو گئے ہیں اور حقیقتِ تصوف کی اپنی تعلیمات، اپنے اُصولی اَعمال اور اَحوال کے ساتھ اُتنے زور سے اور اُتنی وسعت سے اِشاعت نہیں کی جا رہی اور اِس عمل کو ایک طوِیل زمانہ گزر گیا ہے۔ پچھلی دو تین نسلوں سے ایسا وتیرہ جاری ہے، جس سے موجودہ نسل نے تصوف کی صرف رسمی حالت عرس، حاضری مزارات وغیرہ کو دیکھا ہے اور اُسے حقیقتِ تصوف کی خبر نہیں۔ اُن کے خیال میں شاید سارا تصوف اِنہی رسومات کا مجموعہ ہے، چنانچہ وہ مطلقاً تصوف کا ہی اِنکار کر دیتے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ تصوف کے نام پر رواج پانے والی رسومات میںجہاں اچھی رسوم ہیں وہاں غیراِرادی طور پر عوامی ذوق و شوق کے تحت ناجائز رسوم بھی داخل ہو چکی ہیں۔ بہت سی بدعات خرافات بھی تصوف میں داخل ہو گئی ہیں اور گدی نشینان اِصلاح اور روک ٹوک کی فکر نہیں کر رہے۔ عوامی روَا روِی کے تحت عرس میلے بن گئے اور مختلف علاقوں میں لوگوں کا جو ذوق چاہتا ہے وُہی کچھ تصوف کے نام پر رواج پا گیا ہے۔ ایسی جگہیں جہاں اَولیاء اللہ مدفون ہیں، وہاںکبھی عرس ہوا کرتے تھے، جن میں اُن کی تعلیمات کا بیان ہوتا تھا۔ اَب وہاں میلے ہوتے ہیں، رِیچھ کتوں کی لڑائیاں ہوتی ہیں، دنگل ہوتے ہیں اور عام ثقافتی میلوں جیسی ساری خرافات اَب وہاں تصوف کے نام پر ہوتی ہیں۔
مزارات کی تعظیم و تکریم کے لئے جو چادریں آتی ہیں، اُن کا رواج بھی سنگین نوعیت اِختیار کر گیا ہے۔ اَب کئی میلوں دُور سے گھنگرو باندھ کر، ڈھول بجاتے ہوئے مرد و عورتیں بھنگڑے ڈالتے ہوئے آتے ہیں اور راہ گیر تماشا دیکھتے ہیں اور چادروں میں پیسے پھینکتے ہیں۔ کسی کا وضو ہوتا ہے اور نہ نماز کی پابندی۔
اَیسے قلیل مقامات بھی میرے ذاتی مشاہدے میں ہیں، جہاں جاہل لوگ مزارات پر سجدے بھی کرتے ہیں۔ تعظیماً قدم بوسی یا چوکھٹ کو چومنا تو الگ بات ہے کہ وہ جائز ہے، مگر میں نے اپنی آنکھوں سے بعض مقامات پر سجدے ہوتے دیکھے ہیں۔میں نے اپنی آنکھوں سے بعض لوگوں کو مزارات کا طواف کرتے بھی دیکھا ہے۔ میری جوانی کا طوِیل عرصہ عشاء سے فجر تک مزارات پر حاضری اور مراقبوں میں گزارا۔ یہ سب میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔
تصوف کے منکرین و مخالفین کو بدنام کرنے کے لئے چند نمونے کافی ہوتے ہیں۔ اگر ہم آج اِس کی اِصلاح نہیں کریں گے تو ہماری آنے والی نسلیں تصوف کے نام سے بھی دُور بھاگیں گی۔
اکثر مقامات اچھے ہیں، جہاں نہ صرف یہ کہ اَیسی خرافات موجود نہیں بلکہ وہاں سلاسلِ طریقت کا پرچارہوتا ہے اور تعلیماتِ تصوف پر توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن وہاں بھی بوجوہ صوفیاء کرام کے اَعمال، اَحوال، اَخلاق، صوفیاء کی تعلیمات اور درُوس و حلقات کے نظام پر محنت کم ہے اور رسومات پر زیادہ زور ہے۔
اگرچہ رسومات اور مراسم بھی دِین کا حصہ ہوتے ہیں۔ حج سارا مراسم کا ہی مجموعہ ہے، جنہیں مناسک کا نام دیا جاتا ہے، اُن سے اِنکار نہیں ہوتا۔ مگر جب رسومات پر توجہ زیادہ ہو جائے اور اُن کی روح پر، تعلیمات اور عملی مظاہر پر، اَعمال و اَحوال پر زور نہ رہے تو پھر نتیجہ واضح ہے کہ جن سلاسل کے ساتھ کبھی بے شمار مریدین منسلک ہوا کرتے تھے مگر اُن کی اگلی نسلیں صرف اَدب تک محدود رہیں اور مرید نہ ہوئیں۔ جب وہ جوان ہوئے تو ملنا بھی چھوڑ گئے۔
دُوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تصوف اور صوفیاء کا اِنکار کرنے والوں کے مداراس کی تعداد سوادِاعظم کے مدارس سے کہیں زیادہ ہے اور اُن کے مدارس میں ہمارے مدارس کی نسبت علم پر محنت بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ وہ اپنے عقیدے و مسلک کی اِشاعت کے لئے زیادہ مؤثر مبلغین تیار کرتے ہیں۔ اُن کے تبلیغی سلسلے بھی ہیں اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُدھر نام ہے ہمارے ہاں کام ہے۔
خواجہ نظام الدین اولیائ کے مزار کی طرف جائیں تو بستی نظام الدین میں پہلی گلی میں تبلیغی جماعت کا مرکزی ہیڈکوارٹر ہے، جہاں وہ صبح و شام اپنی تقریروں میں اِعلان کرتے ہیں کہ صوفیاء کا نام اُدھر ہے کام اِدھر ہے۔
اِس وقت ضرورت ہے کہ ہم تصوف کی اَصل تعلیمات کی طرف لوٹ جائیں اور محض رسم و رواج تک محدود رہنے کی بجائے صوفیاءِ کرام کی اُن تعلیمات کو فروغ دیں، جن کی بدولت اَوائل دور میں برعظیم پاک و ہند کے کروڑوں لوگوں کو اِیمان کا نور نصیب ہوا تھا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1080)
اللہ ربّ العزت کے نیک بندوں کا اَدب و اِحترام نہ صرف جائز بلکہ ایک مستحسن اَمر ہے۔ قرآن و حدیث میں کوئی نص اِس کی حرمت و ممانعت پر موجود نہیں ہے۔ اِس عمل کو شرک جیسے قبیح گناہ سے ملانا محض جہالت ہے۔ یہ اَیسا عمل ہے جو کسی طور بھی داخلِ عبادت نہیں۔
عبادت اُس اِنتہا درجے کی تعظیم کو کہتے ہیں، جس میں ’تذلل‘ ہو۔ جب کہ کسی بزرگ شخصیت کے سامنے آدمی پشت کئے بغیر پیچھے ہٹ گیا، یا اَدباً اُس کے ہاتھ یا پاؤں چوم لئے، یا کوئی بزرگ اُستاد آیا ہے تو آپ اِحتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں، یہ سارے اَدب و محبت کے عوامل ہیں، جنہیں زبردستی عبادت سے ملاتے ہوئے شرک قرار دینا بدنیتی کے سوا کچھ نہیں۔
بنیادی بات ذہن نشین رکھیں کہ شرک اُس وقت قرار پاتا ہے جب کسی اِنسان کے لئے وہ عمل کیا جائے جو صرف اللہ ربّ العزت کے لئے خاص ہو۔ جو عمل اللہ کے لیے خاص نہیں، وہ داخلِ عبادت قرار نہیں پا سکتا۔
اَللہ ربّ العزت کے برگزیدہ بندوں کو پشت نہ کرنے کے علاوہ اُن کے ہاتھ پاؤں چومنا بھی اِسی ضمن میں آتا ہے اور یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنت سے ثابت ہے۔ اِختصار کے پیش نظر یہاں صرف ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
لَمَّا قَدِمنَا المَدِينةَ فَجَعَلنَا نَتَبَادَرُ مِن رَوَاحِلِنَا، فَنُقَبّلُ يَدَ رَسُولِ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم وَرِجْلِه
’’جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو اپنی سواریوں سے کود کر حضور نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اَقدس اور پاؤں مبارک چومنے لگے۔‘‘
سنن ابوداؤد، 4:357
تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمینِ مبارکہ چومنے کے حوالے سے صحاحِ ستہ سے پیش کردہ مذکورہ حدیثِ مبارکہ درجنوں طرق سے مختلف کتبِ حدیث میں وارِد ہوئی ہے، جو اِس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اَللہ کے برگزیدہ بندوں کے ہاتھ پاؤں چومنا نہ صرف جائز بلکہ سنتِ صحابہ ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 894)
تا شعارِ مصطفی اَز دَست رفت
قوم را رَمزِ بقاء اَز دَست رفت
زوالِ کے اُس دور میں جب علامہ اِقبال ملتِ اسلامیہ کے عروقِ مُردہ میں عشقِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کے ذریعے نئی رُوح پھونک کر اُسے تباہی اور ہلاکت سے بچانے کی فکر میں تھے، تب اِسلام دُشمن اِستعماری طاقتیں منظم ہو کر مسلمانوںکے دِلوں میں عشقِ رسالت کی شمع بجھا دینے کا سوچ رہی تھیں۔ اُنہیں معلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دِل رِسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت سے خالی ہوگئے تو پھر دُنیا کی کوئی طاقت بھی اُنہیں اپنی کھوئی عظمتِ رفتہ واپس دلا سکتی ہے اور نہ اِصلاح و تجدید کی ہزاروں تحریکیں اُنہیں اپنی منزلِ مراد تک پہنچا سکتی ہیں۔ یہ محض ایک مفروضہ یا خیالِ خام نہیںبلکہ ایک روشن حقیقت ہے۔ مغربی اِستعمار کی اِسی سازش کی طرف علامہ اِقبال نے اِشارہ فرماتے ہوئے کہا تھا:
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمد اُس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات
اِسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
چنانچہ اِسی مقصد کے تحت اہلِ عرب نے یہ فکری میدان اِسلامی تحقیق کے نام پر بعض متعصّب یہودی اور عیسائی مستشرقین کے سپرد کر دیا، جنہوں نے اِسلام کی تعلیمات اور بانی اِسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور سیرت پر اِس اَنداز سے تحقیق کر کے لاتعداد کتب تصنیف کیں کہ اگر ایک خالی الذہن سادہ لوح مسلمان نہایت نیک نیتی کے ساتھ بھی اُن تصانیف کا مطالعہ کرتا ہے تو اُس کے ذِہن میں رسولِ اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصور سے دُور کا بھی واسطہ باقی نہیں رہتا۔ اُن مستشرقین نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ذِہنوںکو مسموم کرنے کا محاذ سنبھال رکھا ہے، جس سے وہ اپنے مطلوبہ نتائج کافی حد تک حاصل کر رہے ہیں۔ دُوسری طرف بعض مسلم مفکرین ہی کے ہاتھوں نادانستہ طور پر یہی کام سرانجام پانے لگا۔ وہ اس طرح کہ جب دَورِ جدید میں مسائلِ حیات بدلے اور نئے نئے تقاضوں نے جنم لیا تو کئی مفکرین نے اِسلام کی تعلیمات اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے مختلف گوشوں کو اِس اَنداز سے پیش کرنا شروع کیا کہ عصرِ حاضر کے چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکے۔ ہرچند کہ یہ علمی کوششیں نہ صرف درست تھیں بلکہ تقاضائے وقت کے پیش نظر ضروری بھی تھیں لیکن اُن مفکرین کے سامنے مسلمانوںکو درپیش مسائل کا صرف ایک ہی رُخ رہا اور دُوسرا نظروں سے اوجھل رہا۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس شخصیت کے دو پہلو ہیں، جو اپنی جگہ علیحدہ اور مستقل بھی ہیں اور لازم و ملزوم بھی۔ اُن میں سے کسی ایک پہلو کو بھی نظراَنداز کرنا اِسلام کے لئے سخت نقصان دِہ ثابت ہو سکتا ہے۔
حسی پہلو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بشری و اِنسانی اَوصاف و کمالات پر مشتمل ہے، جس کے مطالعہ سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی اَیسی جامع و مانع تصویر سامنے آتی ہے کہ اِنسانِ کامل اور اُسوہ حسنہ کا صحیح نقشہ ذِہن پر رقم ہوجاتا ہے۔ اس سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ اَخلاق، حسنِ معیشت، شجاعت و بسالت، صبر و تحمل، صداقت و اَمانت، جود و سخا، رحمت و مؤدّت، تدبر و بصیرت، عدالت و فقاہت جیسے عظیم خصائل و اَوصاف کا علم حاصل ہوتا ہے اور ہر قاری آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو ایک عظیم مصلح و رہنما، مدبر و منتظم، عادِل قاضی و منصف، مثالی قائد و سپہ سالار، دیانت دار تاجر، مثالی شہری، معیاری خاوند اور سربراہِ خاندان، کامیاب سربراہِ ریاست غرض یہ کہ ایک عظیم اِنسان کے رُوپ میں دیکھتا ہے۔
سیرت النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس پہلو کی اَہمیت و اِفادیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن بعض مسلم مفکرین و مصنفین نے جناب رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل کے بیان کو صرف اِسی حسی پہلو تک محصور کر دیا اور وہ رُوحانی و معجزاتی پہلو جو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلند و بالا کمالاتِ نبوت اور فضائل و شمائل پر مشتمل تھا اُسے یہ کہہ کر نظر اَنداز کردیا گیا کہ جدید تعلیم یافتہ نسل کا اُن معاملات سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو محض صوفیاء اور عرفاء کے لئے ہے۔ مزید برآں اُن ظاہری فضائل کا بیان بھی عقیدت و محبت کی چاشنی اور تعظیم و تکریم کے رنگ سے اِس بناء پر عارِی رکھا گیا کہ یہ آدابِ تحقیق کے منافی ہے لہٰذا اِس غلو سے اپنی تحریروں کو مبرا ہی رکھنا چاہئے، نتیجتاً وہ قلبی عقیدت اور والہانہ اُنس و محبت جو رفتہ رفتہ عشق میں بدل جایا کرتی ہے اِس نسل کے دِلوں سے ناپید ہوگئی۔ عشق کی کیفیت جس کا تعلق عقل و خردسے نہیں خالصتاً دِل کی دُنیا سے ہوتا ہے بالخصوص دُوسرے پہلو کے ساتھ وابستہ تھی، جسے جدید دَور کے تقاضوں کے پیشِ نظر غیرضروری سمجھ کر ترک کر دیا گیا تھا۔ محض حسی پہلو کے فضائل کے بیان سے فکری و نظری مباحث کی صورت میں تعقل پسند طبقے کے اِعتراضات کا جواب دِیا جا سکتا ہے، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات کو نئے سے نئے حالات میں قابلِ عمل اور نتیجہ خیز بھی ثابت کیا جاسکتا ہے، مگر مسلمانوں کے دِلوں میں ختمی مرتبت حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کا چراغ روشن نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کے سینوں میں آقائے دوجہاں کی دِیوانہ وار اُلفت و عقیدت کا وہ طوفان بپا کیا نہیں جا سکتا جس کی قوت سے وہ کفر و طاغوت کے خلاف ٹکرا جائیں اور ناموسِ دینِ مصطفوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اِس طرح اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دیں کہ ’اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَہُمْ‘ کی حقیقی تصویر دُنیا کے سامنے آ جائے۔
اِس دَور میں اِحیائے اِسلام اور ملت کی نشاۃ ثانیہ کا مقصد لئے جس قدر علمی و فکری تحریکیں منصہ شہود پر آئی ہیں اُن سب کی تعلیمات سے جو تصور مسلمانوں کی نوجوان نسل کے ذِہنوں میں پیدا ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ اِسلام کو بحیثیت نظامِ حیات قبول کر لینا چاہئے اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی کمالِ اِیمان اور محبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس اِتباع سے جناب رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات سے خاص قسم کا قلبی اور جذباتی لگاؤ جسے والہانہ عشق و محبت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جس کی علامات و اَحوال سے اَہلِ دِل بخوبی واقف ہیں، مقصودِ اِیمان ہے نہ تعلیمِ اِسلام، بلکہ یہ جاہلانہ شخصیت پرستی کی ایک صورت ہے جو توحیدِ خالص کے منافی ہے۔
اِس نام نہاد روشن خیالی سے ہماری حیاتِ ملّی پر جو مُضِر اَثرات مرتب ہوئے وہ محتاجِ بیان نہیں ہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَصل تصور کو قرآن و حدیث اور سنتِ صحابہ کے آئینے میں اِس طرح اُجاگر کیا جائے کہ آج کی نوجوان نسل۔۔۔ جو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں ہے۔۔۔ اِس آفاقی حقیقت سے باخبر ہوکر پھر سے اپنے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت کا وہ تعلق اُستوار کر لے کہ اُس کی نظروں کو دانشِ افرنگ کے جلوے کبھی خیرہ نہ کر سکیں اور اُنہیں دینِ حق کی اِس کامل تعبیر کی صحیح معرفت نصیب ہو، جسے علامہ اِقبال نے یوں بیان کیا ہے:
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دِیں ہمہ اُوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است
’’خود کو مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی دہلیز) تک لے جاؤ کہ دینِ کامل وُہی (ذات) ہے۔ اگر اُن تک نہ پہنچ پائے تو (تمہاری) سب (کوششیں محض) دین دشمنی ہیں۔‘‘
تحریکِ منہاج القرآن کا آغاز 1980ء میں ہوا اور وہ اُس وقت سے دعوت و تبلیغِ حق، اِصلاحِ اَحوالِ اُمت، تجدید و اِحیائے دِین اور تروِیج و اِقامتِ اِسلام کے مقاصد پر عمل پیرا ہے۔
سب سے پہلے دینی و مذہبی کام کے ضمن میں اِسلامی تعلیمات اور رُوحانی اَقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ اِسلام کی عملی تعبیر کے ذریعہ معاشرے کو ایک زندہ حقیقت کے روپ میں بدلنے پر محنت کی جا رہی ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ’اِسلام کی سائنسی تعبیر‘ اور مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان مکالمہ کے کلچر کو فروغ دیتے ہوئے ’بین المذاہب رواداری‘ کے فروغ میں بھی تحریک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
دُوسرے نمبر پر تعلیمی پہلو ہے، جس کے تحت ’منہاج یونیورسٹی‘ کے نام سے ایک ٹاپ لیول کی چارٹرڈ یونیورسٹی قائم کی گئی، جس میں تمام مروجہ مضامین بشمول کمپیوٹر سائنسز اور مینجمنٹ سائنسز بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ مذہبی حوالے سے اُس کا اِلحاق مصر کی جامعہ الازہر کے ساتھ بھی ہے۔ تعلیمی پہلو میں دُوسرا اہم قدم ’منہاج ایجوکیشن سوسائٹی‘ کے تحت ملک کے طول و عرض میں تمام صوبوں اور شہروں میںچھ سو سے زائد سکولوں کا قیام ہے، جہاں بچوں اور بچیوں کو سرکاری ایجوکیشن بورڈز کی طرف سے طے شدہ نصاب کے ساتھ ساتھ اَخلاقی و رُوحانی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اِنگلش میڈیم سکولوں کا الگ نظام بھی موجود ہے۔ اُن تمام سکولوں کے لئے مرکزی سطح پر ایک اِمتحانی نظام بھی بنایا ہے اور تمام سکولوں کے نتائج ’منہاج ایجوکیشن سوسائٹی‘ کی ویب سائٹ پر بھی شائع کئے جاتے ہیں۔
تیسرے نمبر پر فلاحی پہلو ہے، جس کے تحت ’منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن‘ سرگرمِ عمل ہے۔ قدرتی آفات کے متاثرین کی بحالی، یتیم بچوں کا اِدارہ آغوش، نادار بچیوں کے لئے جہیز، اِجتماعی شادیاں، غریب طلبہ کے لئے سپانسرشپ سکیم اور اِس قسم کے کئی پراجیکٹس پر بیک وقت کام جاری ہے۔
اِس کے علاوہ تحریکِ منہاج القرآن کا ایک بھرپور بین الاقوامی نیٹ ورک موجود ہے۔ سو کے قریب ممالک میں تنظیمات موجود ہیں، جہاں تارکینِ وطن پاکستانیوں کے علاوہ مقامی آبادی کو بھی اِسلامی تعلیمات اور تہذیب و ثقافت سے رُوشناس کرانے کے لئے کلچرل اینڈ ایجوکیشنل سنٹرز قائم کئے گئے ہیں۔ یورپی کلچر میں رہتے ہوئے بھی نئی نسل کی زِندگی میں اِسلامی حوالے سے مثبت تبدیلی عمل میں آ رہی ہے۔ پاکستان کے علاوہ اِنڈین اور بنگلہ دیشی سوسائٹی کے لوگ بھی ہمارے مراکز سے اِستفادہ کرتے ہیں، عرب اور اَفریقی ممالک کے لوگ بھی منسلک ہیں۔
تحریکِ منہاج القرآن بین الاقوامی سطح پر اِسلام کو دِینِ اَمن کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ مغربی میڈیا پر اِسلام کے خلاف جاری پروپیگنڈا کے باوُجود تحریکِ منہاج القرآن بجا طور پر اِسلام کا کیس ایک مثبت اَنداز سے اُجاگر کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف فتویٰ کے ذرِیعے اِسلام کے خلاف پروپیگنڈا کو نہ صرف بند کیا گیا، بلکہ مغربی اَقوام کے غیرمسلم عوام کو پروپیگنڈا پر یقین کرنے کی بجائے اِسلام کو براہِ راست پڑھ کر سمجھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے، جس کے خاطر خواہ نتائج نکل رہے ہیں۔ اُن مراکز میں غیرمسلم بھی آتے ہیں، حتیٰ کہ عیسائی پادری بھی آتے ہیں اور اِسلام کے حوالے سے کلیئر ہو کر جاتے ہیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: انٹرویو شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1002)
سیدنا ابوہریرہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ اﷲ يَبْعَثُ لِهٰذِهِ الأُمَّةِ عَلَی رَاْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَها
’’بیشک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر کسی کو اِس اُمت کے لئے دِین کی تجدید کا فریضہ دے کر بھیجے گا۔‘‘
سنن ابوداؤد، رقم: 4291
جب دین کی قدریں پامال ہونے لگیں اور اُمت کا بڑا طبقہ گناہوں اور نافرمانیوں کی دلدل میں دھنسنے لگے، جب دین کے نام لیواؤں کو اَغیار کے طعنوں کا سامنا ہو اور اُمت کے اَحوال دِگرگوں ہو جائیں تب اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر کسی ایسی ہستی کو مبعوث کرتا ہے، جو اُن کے اَندر پھر سے نورِ اِیمان اور نورِ محبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا کرے۔ اللہ ربّ العزت نے فرمایا کہ مبارک ہو میں نے محبوب کی اُمت کے لئے یہ بندوبست بھی ہر صدی کے سرے پر کر دیا ہے کہ ہر صدی کے شروع میں دِین کو زِندہ کرنے والے لوگوں کو بھیجا جائے گا۔ ہر صدی کے شروع میں ایک شخص آئے گا، جو مٹی ہوئی اَقدار کو پھر سے بحال کر دے گا، دِین کے بھولے بسرے سبق کو پھر سے یاد دِلا دے گا، دِین کی راہ سے ہٹتی ہوئی اُمت کو پھر سے دِین کی راہ پر گامزن کر دے گا، پژمردہ رُوحوں کے اندر تازگی ڈال دے گا، آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کٹے ہوئے تعلق کو جوڑ دے گا، اللہ کی بندگی کے سبق کو تازہ کر دے گا۔ علماءِ کرام نے کہاکہ ہر صدی کے شروع میں جو مجدد آئے گا وہ مجدد کی ذات بھی ہو گی اور وہ پوری جماعت بھی ہو گی، جس کے ذرِیعے اللہ تعالیٰ تجدیدِ دین کا کام لے گا۔ اُس جماعت کے سارے کارکن تجدید کے کام میں شریک ہوں گے، اور وہ کارکن جو اُس تجدید کے کام میں شریک ہوں گے اُن سب کو جو برکت اور ثواب ملے گا وہ تجدید کا ثواب ہو گا۔ اُن کے اِیمان کی حفاظت بھی ہو گی اور وہ اُمت کے اِیمان کی حفاظت کا باعث بھی بنیں گے اور اُن کی خدمات کے سبب اللہ ربّ العزت کے عذاب کے ٹل جانے کی سبیل بھی پیدا ہو گی۔
تاریخ گواہ ہے کہ پانچویں صدی ہجری میں جب عالم اِسلام بالعموم اور اَہلِ بغداد بالخصوص اَخلاقی و رُوحانی زوال کا شکار تھے اور علماءِ کرام مذہبی موشگافیوں و مناظروں میں کھو چکے تھے تو اَللہ ربّ العزت نے سیدنا عبدالقادر جیلانی کو چھٹی صدی ہجری کے لئے مجدد بنا کر بھیجا، جن کی وِلادت باسعادت 471 ہجری میں ہوئی۔
دسویں صدی ہجری میں جب ہندوستان کے بادشاہ اکبر نے اپنی ہندو بیویوں کے زیراثر اِسلام کو ہندومت میں ضم کرنے کے لئے ’دینِ الٰہی‘ اِیجاد کیا اور اُس کے اکثر وزراء اور معاشرے کی مؤثر شخصیات اِسلام ترک کر کے ’دینِ الٰہی‘ کو اَپنانے لگیں تو اﷲ ربّ العزت نے اُس کے مقابلے کے لئے حضرت مجدد الف ثانی کو گیارہویں صدی ہجری کے لئے مجدد بنا کر بھیجا، جن کی وِلادت باسعادت971ہجری میں ہوئی۔
اِسی طرح چودھویں صدی ہجری میں جب دَورِ فتن کا آغاز ہوچکا تھا، دِینی اور روحانی قدریں دُھندلا رہی تھیں، عقائد مسخ ہورہے تھے، اِنتہا پسندی بڑھ رہی تھی، اِیمان متزلزل ہورہے تھے اور اِسلام کو مساجد اور خانقاہوں میں بند کرنے کی سازشیں زور پکڑ رہی تھیں تو اﷲ ربّ العزت نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو پندرہویں صدی ہجری کے لئے مجدد بنا کر بھیجا، جن کی وِلادت باسعادت 1371ہجری (19فروری 1951) کو ہوئی اور اُنہوں نے اگلی صدی کے راس پر (یعنی 1400ہجری بمطابق1980ء کو) اِدارہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھ کر اپنی تجدیدی کاوِشوں کا آغاز کر دیا، اور صرف 30سال کے عرصہ میں ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیئے کہ عقل دَنگ رہ جاتی ہے۔ یوں پندرہویں صدی ہجری میں تجدید دین کا فریضہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ذِمہ ہے اور تحریکِ منہاج القرآن اِس صدی کی تجدیدی تحریک ہے۔
اِس تحریک کے آغاز سے قبل ہر سُو بدعقیدگی کا غلبہ تھا، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان پر گستاخی تھی، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کا نام لینا بدعت اور شخصیت پرستی تصور ہوتا تھا، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد بدعت تصور ہوتا تھا، آقا کی نعت حضور کے ترانے پڑھنا، حضرت حسان بن ثابت کا طریق، صحابہ کی سنتیں، سب بدعت قرار دی جا رہی تھیں، حضور کے نام کے نعرے بلند کرنے کی جرات نہیں تھی، عقائد میں ہر صحیح عقیدے پر شرک و بدعت کی تہمتیں تھیں، صحیح العقیدہ لوگ علم و عمل میں کمزور ہونے کی وجہ سے دب گئے تھے اور طعنہ دینے والے چھا گئے تھے، صحیح العقیدہ لوگ چھپتے پھرتے تھے اور اُن میں دفاع کے لئے جرات نہ تھی، قرآن کا علم کم ہو گیا تھا اور محض حکایتیں بیان ہونے لگی تھیں، صرف کرامتوں اور حکایتوں کے بیان پر زور تھا، قرآن و حدیث کی دلیل کم ہو گئی تھی، بدعقیدہ لوگ سمجھتے تھے کہ وُہی قرآن و سنت کے وارِث ہیں اور صحیح العقیدہ لوگوں کو اُن کی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے قرآن و سنت سے دُور جاہل تصور کیا جانے لگا تھا۔
تحریکِ منہاج القرآن کی شرق تا غرب بیس پچیس سال کی جدوجہد سے وہ لوگ جو میلاد کو بدعت کہتے تھے وہ خود میلاد کے نام سے ربیع الاول میں کانفرنس کرتے ہیں، جو نعرہ رسالت کو بدعت کہتے تھے وہ اَب خود نعرہ رسالت لگاتے ہیں، جو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت خوانی کو بدعت کہتے تھے وہ آج اسٹیج پر نعت خوانی کرتے ہیں، اِس محنت سے صحیح العقیدہ لوگ پھر سے آگے نکل گئے اور وہ دِفاعی پوزیشن میں چلے گئے،الحمدللہ عقیدہ صحیحہ کو اِتنا عروج، قوت، عظمت اور فروغ ملا کہ اَب دُوسرے سر چھپاتے پھرتے ہیں اور اُن کے پاس سوائے تہمت لگانے کے جواب دینے کا کچھ نہیں، عرب و عجم میں جواب دینے والا کوئی نہیں، حق کو ردّ کرنے والا اَب کوئی نہیں، حق نکھر کر اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہو گیا، اَب گلی گلی کوچے کوچے میں میلاد کی محفلیں ہیں، جن میں ہزاروں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں، شرق تا غرب جب میلاد کا موسم آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے بہارمیں ہر طرف پھول کھل جاتے ہیں، ہر گلی میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کے پھول کھلتے ہیں۔ ذرا بیس پچیس سال پیچھے جھانک کر دیکھیں کہ کیا حال ہو گیا تھا، محفلیں اُجڑ گئی تھیں، اَب اَلحمدللہ ردّ کوئی نہیں کرتا، علمی طور پر خاموشی ہو گئی، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کی نسبت کو قوت مل گئی، کتب کے ذریعے علمی قوت ملی، سمندر کی طرح مواد ملا، ہر موضوع پر کتابیں ہیں اور ہر کتاب میں قرآن و حدیث ہی ہے کوئی تیسری بات نہیں، دُنیا کا کوئی شخص اِن دلائل کو ردّ کرنے کی جرات نہیں کر سکتا، ہر مسئلہ پر قرآن و حدیث کی نص، آقا کی اُمت کو عقیدہ صحیحہ کے لئے علم صحیح میسر آ گیا۔
قرآن و سنت کے علمی دلائل کے ذریعہ عقیدہ صحیحہ کے فروغ کے ساتھ ساتھ رُوحانی ذوق کی بھی تجدید ہوئی، اِصلاحِ اَحوال اُمت کا کام ہوا، پچھلے بیس پچیس سال میں جھانک کر دیکھیں، اِتنے ہزاروں کی تعداد میں کہاں لوگ اِعتکاف بیٹھتے تھے، تحریکِ منہاج القرآن کے پوری دُنیا کے مراکز میں جتنے جوان، جتنی عورتیں اور مرد کثرت سے اِعتکاف بیٹھتے ہیں رُوئے زمین پر کسی اور کے ہاں مثال نہیں، رُوحانیت کا ذوق زِندہ ہو گیا، خلوت و عزلت کا ذوق زِندہ ہو گیا، روحانی تربیت کا ذوق زِندہ ہو گیا، اللہ سے تعلق جوڑنے کے زمانے پھر آ گئے، موسم سہانے پھر آ گئے، اللہ کے عشق و محبت کے ترانے آ گئے، تصوف اور سلوک کی اَصل روح کے ساتھ اُس کی تعلیم عام ہونے لگی، لوگوں کا شعور بیدار ہونے لگا۔
توحید کا تصور نکھرا، شرک و بدعت کے جھوٹے اِلزام ردّ ہوئے، رسالت کی عظمت کا تصور نکھرا، تصوف و سلوک کا تصور نکھرا، اَدبِ صحابہ و محبتِ اَہلِ بیت کو اِس تحریک نے یکجا کر دیا، خارجیت کے زیراثر اُمت میں پھوٹ پڑ گئی تھی، ٹکڑے ہو گئے تھے اور خارجیوں کے ڈر سے اَہلِ بیت کی عزت اور اُن کا نام لینے سے لوگ ڈر گئے تھے، اَیسا ماحول بن گیا تھا کہ جو اَہلِ بیت کا نام لیتا وہ شیعہ کہلاتا، ایک اَیسا ماحول بنا دیا گیا تھا کہ لوگ خارجیت کے اَثرات کے تحت ڈر گئے تھے، تحریک نے خوف و خطر کے اِس میدان کو پار کیا اور دوبارہ جرات کے ساتھ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَہلِ بیت کے ساتھ تعلق کو پھر زِندہ کر دیا، مگر اِس طرح کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عزت بھی اُسی طرح بلند رہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ بیت کی نسبت کو یکجا کیا، اَولیاء کی نسبت کو یکجا کیا، اَولیاء کی تعلیمات کو اَصل رُوح کے ساتھ پھر سے زندہ کیا۔
اِسی طرح تحریکِ منہاج القرآن کی کاوِشوں سے نوجوان نسل کے حالات بدلے، اُن کے ذِہن کے تقاضے پورے کئے، اُن کے قلب و رُوح کے تقاضے پورے کئے، اِسلام کی سائنسی تعبیر پیش کی، اِسلام کی رُوحانی تعبیر پیش کی، اِسلام کی عملی تعبیر پیش کی، اِسلام کا نفسیاتی پہلو اُجاگر کیا، اِسلام کے تصور کی فلسفیانہ تشریح کی، سوشل کلچرل پہلو سے اِسلام کا تصور پیش کیا، قدیم اور جدید کو یکجا کیا، جس طرح کا طلب گار آیا اُسے اِس دسترخوان پر وُہی ڈش مل گئی، جو عقل کے راستے سے دِین سمجھنا چاہتا تھا اُس کے لئے عقل کی نہریں رواں ہیں، جو دِل کے راستے سے سمجھنا چاہتا تھا اُس کے دِل کے چشمے اللہ اور اُس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھول دیئے، جو عملی طریق سے دین کو سمجھنا چاہتا تھا اُس کے لئے عملی نمونے دے دیئے، جو ذوق و شوق سے سمجھنا چاہتا تھا اُس کے لئے ذوق و شوق کے منابع قائم کر دیئے، دعوت اِلیٰ القرآن کے مراکز بن گئے، پورے ملک میں بیک وقت دروسِ قرآن کے چار سو حلقات ہو رہے ہیں، عورتوں کے الگ مردوں کے الگ، گوشہ درود قائم ہو گئے، چوبیس گھنٹے ایک منٹ اِنقطاع کے بغیر تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درودِ پاک پڑھا جانے لگا، ملائکہ کی سنت زمین پر عام کر دی گئی۔
تحریکِ منہاج القرآن سے یہ سب کام اللہ اور اُس کے رسول نے لیا، ہم تو بس ناکارہ لوگ ہیں، ہم تو بس سگ تھے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور اُنہوں نے جو چاہا اپنے سگوں سے کام لیا، مولا نے اپنے عاجز گناہ گار بندوں سے جو چاہا کام لے لیا، لینے والا کرنے والا سب وہ ہے، مگر مبارک باد ہے تحریکِ منہاج القرآن کے کارکنوں کے لئے کہ اللہ نے اِس کام کے لئے اُنہیں چنا اور یہ شرف اُن کے حصے میں آیا، اِس صدی میں پورے خطے میں دِین کی تجدید تحریکِ منہاج القرآن کے ذرِیعے ہو رہی ہے، اور پھر اِس کا فیض صرف پاکستان پر ہی نہیں بلکہ ہندوستان اور بنگلہ دیش تک بھی پہنچا، صرف عجم تک ہی نہیں بلکہ اَب عالمِ عرب بھی اِس سے فیض پا رہا ہے، اور مغربی دُنیا کے نوجوانوں کے عقائد کی اِصلاح ہوئی، دِین سے دُور بھاگنے والے پلٹ کے واپس دِین کی طرف آ گئے۔ الحمدللہ
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: سی ڈی نمبر: 1294)
گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی اَذِیت ناک لہر نے اُمتِ مسلمہ کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص بدنام کر رکھا ہے ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں مسلمان مجموعی طور پر دہشت گردی کی مذمت اور مخالفت کرتے ہیں اور اِسلام کے ساتھ اُس کا دُور کا رشتہ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، وہاں کچھ لوگ اُس کی خاموش حمایت بھی کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ اُس کی کھلم کھلا مذمت و مخالفت کی بجائے موضوع کو خلطِ مبحث کے ذریعے اُلجھا دیتے ہیں۔ دہشت گردی کے قومی، علاقائی اور بین الاقوامی اَسباب میں عالمی سطح پر بعض معاملات میں مسلمانوں کے ساتھ نااِنصافی، بعض خطوں میںبالادست طاقتوں کے دُہرے معیارات اور کئی ممالک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لئے طوِیل المیعاد جارِحیت جیسے مسائل بنیادی نوعیت کے ہیں۔
اِسی طرح دہشت گردوں کی طرف سے مسلح فساد انگیزی، اِنسانی قتل و غارت گری، دُنیا بھر کی پُرامن اِنسانی آبادیوں پر خودکش حملے، مساجد، مزارات، تعلیمی اِداروں، بازاروں، سرکاری عمارتوں، ٹریڈ سنٹروں، دِفاعی تربیتی مرکزوں، سفارت خانوں، گاڑیوں اور دیگر پبلک مقامات پر بم باری جیسے اِنسان دُشمن، سفاکانہ اور بہیمانہ اِقدامات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ لوگ آئے دِن سیکڑوں ہزاروں جانوں کے بے دریغ قتل اور اِنسانی بربادی کے عمل کو جہاد سے منسوب کرتے ہیں اور یوں پورے اِسلامی تصورِ جہاد کو خلط ملط کرتے رہتے ہیں۔ اِس سے نوجوان نسل کے ذِہن بالخصوص اور کئی سادہ لوح مسلمانوں کے ذِہن بالعموم پراگندہ اور تشکیک و اِبہام کا شکار ہو رہے ہیں، کیوں کہ اَیسے اِقدامات کرنے والے مسلمانوں میں سے ہی اُٹھتے ہیں، اِسلامی عبادات و مناسک کی انجام دہی بھی کرتے ہیں اور اُن کی ظاہری وضع قطع بھی شریعت کے مطابق ہوتی ہے۔ لہٰذا عام مسلمان ہی نہیں بلکہ بیشتر علماء اور دانش وَر بھی ایک مخمصے میں مبتلا ہیں کہ اَیسے اَفراد اور گروہوں کے اِس طرح کے طرزِ عمل، طریقہ کار اور اِقدامات کے بارے میں شرعی اَحکامات کیا ہیں؟
علاوہ ازیں مغربی دُنیا میں میڈیا عالمِ اِسلام کے حوالے سے صرف شدت پسندی اور دہشت گردی کے اِقدامات و واقعات کو ہی highlight کرتا ہے اور اِسلام کے مثبت پہلو، حقیقی پُرامن تعلیمات اور اِنسان دوست فلسفہ و طرزِ عمل کو قطعی طور پر اُجاگر نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ خود عالمِ اِسلام میں دہشت گردی کے خلاف پائی جانے والی نفرت، مذمت اور مخالفت کا سرے سے تذکرہ بھی نہیں کرتا۔ جس کے نتیجے میں منفی طور پر اِسلام اور اِنتہاء پسندی و دہشت گردی کو باہم بریکٹ کر دیا گیا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اِسلام کا نام سنتے ہی مغربی ذِہنوں میں دہشت گردی کی تصویر اُبھرنے لگتی ہے ۔ اِس سے نہ صرف مغرب میں پرورش پانے والی مسلم نوجوان نسل اِنتہائی پریشان، متذبذب اور اِضطراب انگیز ہیجان کا شکار ہے بلکہ پورے عالمِ اِسلام کے نوجوان اِعتقادی، فکری اور عملی لحاظ سے متزلزل اور ذِہنی اِنتشار میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
اِن تمام حالات کے نتیجے میں دو طرح کے ردِعمل اور نقصانات پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک نقصان اِسلام اور اُمتِ مسلمہ کا اور دُوسرا نقصان پوری اِنسانیت کا۔ اِسلام اور اُمتِ مسلمہ کا نقصان تو یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی نوجوان نسل، جو اِسلام کی حقیقی تعلیمات سے شناسا نہیں، وہ میڈیا سے متاثر ہو کر اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کو (معاذ اللہ) دِین و مذہب کے اَثرات یا دِینی اور مذہبی لوگوں کے رویوں کی طرف منسوب کر دیتی ہے اور یوں اپنے لئے لادِینیت یا دِین گریزی کی راہ میں بہتری سمجھنے لگتی ہے۔ یہ غلط طرزِ فکر اُسے رفتہ رفتہ بے دِین بنا رہا ہے جس کا نقصان پوری اُمتِ مسلمہ کی اگلی نسلوں کو ہو گا۔ اِس کے برعکس دُوسرا نقصان، عالمِ مغرب اور بالخصوص پوری اِنسانیت کے لئے یہ ہے کہ مذکورہ بالا پالیسیوں اور منفی سرگرمیوں کا کئی مسلم نوجوانوں پر منفی ردِعمل ہو رہا ہے۔ وہ اِسے عالمِ مغرب کے بعض مؤثر حلقوں کی اِسلام کے خلاف منظم سازِش اور عداوت قرار دے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ ردِعمل کے طور پر راہِ اِعتدال (moderation) چھوڑ کر نفرت و اِنتقام کا جذبہ لے کر ’اِنتہاء پسند‘ (extremist) اور پھر ’شدت پسند‘ اور پھر بالآخر ’دہشت گرد‘ بن رہے ہیں یا بنائے جا رہے ہیں۔ گویا مغربی پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو مزید نئی کھیپ اور نئی اَفرادی قوت میسر آتی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ لامتناہی ہوتا دِکھائی دے رہا ہے۔ سو دونوں صورتوں میں نقصان عالمِ اِنسانیت کا بھی ہے اور عالمِ اِسلام کا بھی۔
مزید یہ کہ اَیسے حالات عالمِ اِسلام اور عالمِ مغرب کے درمیان تناؤ اور کشیدگی میں مزید اِضافہ کرتے جا رہے ہیں اور دہشت گردی کے فروغ سے مسلم ریاستوں میں مزید دخل اَندازی اور اُن پر دباؤ بڑھائے جانے کا راستہ بھی زیادہ سے زیادہ ہموار ہوتا جارہا ہے۔ پھریہ خلیج عالمی سطح پر اِنسانیت کو نہ صرف بین المذاہب مخاصمت کی طرف دھکیل رہی ہے بلکہ عالمی اِنسانی برادری میں اَمن و سکون اور باہمی برداشت و رواداری کے اِمکانات بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
آج مسلم دُنیا کے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد دہشت گردوں کے چنگل میں پھنس چکی ہے یا پھر خود کش بننے کے لیے تیار ہو چکی ہے ۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا، اِسلامی حکومتوں کا دِینی فریضہ ہے، خواہ اِس کام کے لیے اُنہیں فوجی آپریشن کرنا پڑیں۔ حکومت اُس وقت تک فوجی کارروائی کو نہ روکے جب تک دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ نہ ہو جائے۔ دینِ اِسلام کے دُشمن اور خارجی عناصر کو فوری مکمل قوت کے ساتھ کچل دیا جائے، جس سے دہشت گردی جڑ سے ختم ہو جائے گی۔
(برائے مزید مطالعہ ملاحظہ ہو تصنیف شیخ الاسلام: ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘)
دہشت گردی کا سب سے پہلا زینہ ’تنگ نظری‘ ہے، جب بندہ صرف اپنی رائے کو اِسلام کی رائے قرار دے اور اُس رائے سے اِختلاف کرنے والوں کو کافر و مشرک قرار دے تو وہ اُس راستے کا مسافر بن جاتا ہے جس کی منزل دہشت گردی ہے۔ تنگ نظری کا تعلق صرف اِسلام سے نہیں، یہ رویہ ہر مذہب کے ماننے والوں میں ملتا ہے۔ اِسلام کی تعلیمات تو تنگ نظری سے منع کرتی ہیں، مگر کچھ لوگوں کی فطرت ہی تنگ نظری ہوتی ہے۔ اِسی طرح سیاسی لوگ جو لسانیات کی جنگ لڑتے ہیں وہ بھی تنگ نظری ہی کی پیداوار ہیں۔ اِسی ’تنگ نظری‘ سے ’اِنتہاپسندی‘ جنم لیتی ہے۔ ایسا شخص جب بھی فتویٰ دے گا تو دُوسروں کو کافر، مشرک، بدعتی اور اِسلام سے خارج کرے گا۔ اُس کا سارا زور دُوسروں کو اِسلام میں داخل کرنے کی بجائے اِسلام سے خارج کرنے پر ہوگا۔ اُس کے فتاویٰ سخت شدید ہوں گے۔ تیسرا درجہ ’عسکریت پسندی‘ ہے، اگر تنگ نظری کو کنٹرول نہ کیا جائے تو وہ ’اِنتہاپسندی‘ کو جنم دیتی ہے، اسی طرح اگر ’اِنتہاپسندی‘ کو قابو نہ کیا جائے تو اُس سے’ عسکریت پسندی‘ جنم لیتی ہے، جو بالآخر ’دہشت گردی‘ کا موجب بنتی ہے۔ گویا یہ چار مدارج ہوئے:
یوں ’دہشت گردی‘ تک پہنچنے سے پہلے ہر دہشت گرد ’تنگ نظری‘، ’اِنتہا پسندی‘ اور’ عسکریت پسندی‘ کے زِینے طے کرتا ہے۔ اور اگر کسی کو شروع میں ہی روک لیا جائے تو وہ دہشت گرد بننے سے بچ سکتا ہے۔ مگر وہ لوگ جو بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں وہ صرف آخری درجے یعنی دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہیں اور اُن تین درجات کو چھوڑ دیتے ہیں جہاں سے دہشت گردی کو اِیندھن مہیا ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے تن آور درخت کا بیج یہ تین درجات ہیں۔ وہ ہمیشہ پھل اور شاخ کو کاٹنا چاہتے ہیں مگر تنے کو کبھی نہیں کاٹتے۔ وہ شاخ کاٹتے ہیں تو اُس درخت کی نئی شاخیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک ختم نہ ہونے والی جنگ بن چکی ہے۔ وہ تنے کو پانی بھی دیتے ہیں، ہوا بھی دیتے ہیں، پالتے بھی ہیں، بین الاقوامی سطح پر بھی اور مقامی ملکوں کی ایجنسیوں کے ذریعے بھی اِمداد دیتے ہیں۔ دہشت گردی کا اُس وقت تک خاتمہ نہیں ہو سکتا جب تک اِنتہا پسندی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ دُنیا کا کوئی بھی مذہب نفرتیں نہیں سکھاتا۔ مذاہب محبتیں بانٹتے ہیں۔ صرف اِسلام ہی نہیں، عیسائیت، یہودیت اور بدھ مت سب بنیادی طور پر اَمن و محبت کے مذاہب ہیں۔ مذاہب کا کام لوگوں کو جوڑنا ہے۔ مذاہب لوگوں کی نفرتیں مٹانے کے لئے آتے ہے۔ مذاہب لوگوں کو قریب کرنے کے لئے آتے ہیں دُور بھگانے کے لئے نہیں آتے۔ یہ سراسر ِاسلام کی غلاط تشریح ہے، بعض لوگ جنہوں نے ہتھیار اُٹھا لیے اور اپنے تئیں مجاہد اور مفتی بن بیٹھے، اُنہوں نے اِسلام کو بدنام کر دیا۔ دہشت گردی کی جنگ میں دُہرا کردار اَدا کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اِس حقیقت کو بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ نام نہاد مجاہدین وُجود میں کہاں سے آئے؟ کیا اِسلام نے اُنہیں جنم دِیا یا دُوسری طاقتوں نے اپنے سیاسی اور جنگی مقاصد کے لئے اُنہیں پیدا کیا، اُنہیں ہتھیار دیئے اور اُنہیں سپانسر کیا۔ کسی جگہ اُن کی پنیری لگائی اور بعد میں دُوسرے ملکوں کے خلاف لڑایا، اور اِتنے ہتھیار دیئے کہ وہ اَب اَژدہا بن گئے۔ یہ ایک بہت بڑی بین الاقوامی سیاسی چال ہے۔ اگر اِسے پاکستان یا اِسلام کے ساتھ منسوب کیا جائے تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔ اِسے بین الاقوامی حالات اور تاریخی تناظر میں دیکھنا چاہیئے کہ یہ دہشت گرد کہاں سے پیدا ہوئے، کیوں پیدا ہوئے اور آج تک ختم کیوں نہیں ہوئے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اُنہیں ختم کرنے والے ہی اُنہیں باقی رکھ رہے ہوں؟ اُن سے جنگ کرنے والے ہی اُنہیں ہتھیار مہیا کر رہے ہوں، تاکہ اپنے مزموم مقاصد حاصل کر سکیں اور اِسلام کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھ سکیں!!!
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: انٹرویو شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1002)
دُنیا میں اِنتہاء پسندی اور دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر نے عالمی اَمن کو تباہ کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گردوں کی اِن کارروائیوں کو اِسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نتھی کیا جا رہا ہے۔ یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خودکش حملے کرنے والے اور نوجوانوں کو برین واشنگ کے ذریعے اِس قبیح عمل کی ترغیب و تربیت دینے والے قطعی طور پر اِسلام سے خارج ہیں۔ اِنتہاء پسند عناصر نوجوانوں کے ناپختہ ذِہنوں کو برین واش کر رہے ہیں۔ جو نوجوان جنت کی خواہش ذِہن میں رکھ کر دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں، وہ حقیقت میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق خود کو اِسلام سے خارج سمجھیں۔ نیت کے اِعتبار سے دہشت گردی میں کوئی فرق نہیں۔ دہشت گردی ہر صورت میں دہشت گردی ہی ہے، خواہ وہ کسی بھی نیت سے ہو۔ کسی اچھی نیت کے تحت کئے جانے والے برے کام کو اچھا نہیں کہا جا سکتا۔ نیت کیسی بھی ہو، دہشت گردی اور خود کش بمباری کفر اور حرام ہے اور اِسلام میں قطعاً اُس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اِسلامی تعلیمات ہمیشہ سے اَمن، اِحسان اور محبت کے پیغام پر مشتمل ہیں، لیکن آج اُنہیں تروڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اِسلام نے تو دورانِ جنگ بھی آداب مقرر کر رکھے ہیں۔ اِسلام نے جنگ میں بھی بوڑھوں، عورتوں، بچوں، مریضوں، تجارتی مراکز، سکولوں اور ہسپتالوں کو پوری طرح تحفظ فراہم کیا ہے۔
اِسلام کو بزور شمشیر پھیلانے والوں کا تعلق ’خوارج‘ سے ہے، جنہوں نے حضرت علی کے اَمن مذاکرات سے بغاوت کرتے ہوئے اپنا باغی دہشت گرد گروپ قائم کیا تھا۔ موجودہ دَور کے دہشت گرد بھی اُسی گروہ سے ہیں۔ اُن کے حلئے، اُن کی شکلیں ایک دُوسرے سے ملتی جلتی ہیں اور وہ ساری علامات حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَحادیثِ مبارکہ میں بیان فرما دی تھیں۔ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر اِسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے اِسلام کے سب سے بڑے دُشمن ہیں۔ اگر اُنہیں جہاد کرنا ہی ہے تو ملک میں تعلیم کی فراوانی کے لیے کریں۔ اِس کے علاوہ بدکاری، معاشرتی برائیوں کے خاتمہ، رِشوت، مہنگائی اور غربت کے خلاف جہاد کریں، جو اِسلامی تعلیمات کے عین مطابق بھی ہے۔ نظامِ خلافت کے نام پر من مانی تعبیریں پیش کرنے والے جمہوریت کے مخالفین کو سوچنا چاہیئے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے جمہوری نظام کے داعی ہیں۔
(برائے مزید مطالعہ ملاحظہ ہو تصنیف شیخ الاسلام: ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘)
ملتِ اِسلامیہ کے ہمہ گیر زوال کی وجہ سے اِسلامی تہذیب کا رُوئے اَرض پر کوئی کامل نمونہ دِکھائی نہیں دیتا، اُس کے باوُجود بچی کھچی اِسلامی تہذیب کو لادِینیت پر مبنی تہذیبوں کی یلغار کا سامنا ہے۔ اِنٹرنیٹ، ٹی وی چینلز اور موبائل فون جیسے ذرائع نے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے اور دُنیابھر کے معاشرے تیزی سے ایک دوسرے پر اثرانداز ہونے لگے ہیں۔ دُنیا ایک گلوبل وِیلیج بن چکی ہے اور کمیونیکیشن اِتنی وسیع اور تیز رفتار ہو گئی ہے کہ اُس کی وجہ سے کوئی بھی خبر سیکنڈز کے اندر پوری دُنیا میں پھیل جاتی ہے۔ یوں تہذیبوں کے ایک دُوسرے پر اَثرات بھی تیزتر ہو گئے ہیں۔ بیسویں صدی سے شروع ہونے والا ٹیکنالوجی کا حالیہ عروج دُنیا کو گلوبل وِیلیج بنا چکا ہے۔ جو کچھ آج کل امریکہ و یورپ میں ہو رہا ہے لاہور میں بیٹھا شخص اُس کا فوری اثر لے رہا ہے۔ ذرائع اِبلاغ، الیکٹرانک میڈیا، ٹی وی، کمپیوٹر، اِنٹرنیٹ اور موبائل تیزی سے مشرق و مغرب کو باہم ملا رہے ہیں اور دُنیابھر کی تہذیبیں ایک دُوسرے پر اَثرانداز ہو رہی ہیں۔
دُوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہبی معاشرے خود اپنی تہذیب کے اَخلاقی پہلوؤں سے دامن چھڑا چکے ہیں اور لادِین معاشرے اُن کی اَخلاقی اَقدار کو اپنا چکے ہیں۔ اِمیگریشن کے ذریعے یورپ اور امریکہ میں جا بسنے والے مسلمان جہاں اُن قوموں سے مرعوب ہیں وہاں وہ اپنی دینی و ثقافتی روایات کا اَثر کسی حد تک اُن پر بھی چھوڑ رہے ہیں اور اُنہیں مسلمانوں کے عمل اور طرزِ عمل سے اِسلام کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔
اِسلامی تہذیب ہمیشہ سے فطرت کے اُصولوں پر کاربند ہے اور اِسلامی نظریہ کے مطابق اچھائی ہمیشہ اچھائی اور برائی ہمیشہ برائی رہتی ہے، ساری دُنیا مل کر بھی کسی برائی کو اچھائی کہنے لگے تو وہ اچھائی نہیں بن سکتی۔ دُوسری طرف مغربی معاشرہ کی اَقدار اُن کے کلچر پر منحصر ہوتی ہیں، یعنی جس عمل کو اُن کا معاشرہ اچھا کہے وُہی اچھا قرار پاتا ہے۔ کھرے و کھوٹے کی پہچان کے لئے قانونِ فطرت اور آفاقی سچائیاں اُن کے نزدیک بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ یوں اُن کی غیرفطری اَقدار اُن کے معاشروں کی زبوں حالی کا باعث بن رہی ہیں۔
دُوسری طرف اُنہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ دینِ فطرت کے پیروکار ہونے کے ناتے ممکنہ طور پر مسلمان علم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اُن کے وارِث ثابت ہو سکتے ہیں۔ اِس لئے مغربی دُنیا کا ایک شدت پسند طبقہ مغرب میں قبولِ اِسلام اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے خوفزدہ ہو کر یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں کو مسلمانوں سے مسلسل خوف زدہ کرنے میں مصروف ہے اور دُنیا کو ایک ہمہ گیر تہذیبی تصادُم کی طرف دھکیل رہا ہے۔
اَیسے نامساعد حالات کے باوُجود اِسلام کی فطرت میں قدرت نے وہ لچک دی ہے کہ یورپ میں مقیم (ساڑھے پانچ کروڑ) مسلمانوں کے ذریعے وہاں کے عوام تک کسی حد تک اِسلام کا عملی پیغام پہنچ رہا ہے۔ اِسلام کے خلاف پروپیگنڈا کی وجہ سے یورپی عوام اِسلام بارے تجسس میں مبتلا ہیں اور جوں جوں کسی کو اِسلام کی پُرامن تعلیمات کی خبر ہوتی ہے وہ اِسلام کی طرف کھنچا چلا آتا ہے۔
اِس تہذیبی کشمکش میں تارکینِ وطن کو تین کڑی آزمائشوں کا سامنا ہے اور دینِ فطرت کے نام لیوا ہونے کے ناتے اگر مسلمان اِن آزمائشوں میں سرخرو ہوئے تو کامیابی یقینا اُن کا مقدر ہوگی۔ اِن شاءاللہ
مغربی معاشرے کے شدت پسند طبقے کی اِشتعال انگیزی سے بچنے اور مسلم نوجوانوں کو تنگ نظری، اِنتہاپسندی اور دہشت گردی کی آگ سے محفوظ رکھنے کے لئے اِسلام کی اَمن و اِعتدال پسندانہ تشریح ضروری ہے، جو نئی نسل کو اُس طبقے کی شرانگیزی سے تحفظ فراہم کر سکے۔ علاوہ ازیں اِشتعال انگیزی کا سبق دینے والے نام نہاد مسلمان گروہوں (خوارِج) سے بھی بچنے کی اَشد ضرورت ہے، جو اِسلام کو ایک دہشت گرد مذہب ثابت کرنے میں اِسلام دُشمنوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ (اِس ضمن میں ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔) یہ اِس لئے بھی ضروری ہے تاکہ مغربی دُنیا کے پُراَمن عوام اِسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ ہوں اور اِسلام کے حوالے سے پھیلائی گئی اَفواہوں کو بے نقاب کیا جائے۔
تارکینِ وطن کے لئے ضروری ہے کہ یورپی اَقوام کے رنگ میں رنگے جانے کی بجائے اپنی اَقدار اور اَخلاق کو اچھے انداز میں قائم رکھتے ہوئے مغربی سوسائٹی میں integrate ہوں اور اُنہیں غیرمحسوس طریقے سے اپنے قریب لانے کی کوشش کریں۔ اِسلام کو اپنے کردار و عمل کے ذریعے پُراَمن اور آج کے جدید سائنسی دَور میں بھی قابلِ عمل دین ثابت کریں تاکہ مقامی آبادی کو اِسلام کے خلاف پھیلائے گئے نفرت آمیز پروپیگنڈا کی حقیقت معلوم ہو اور اِسلام کا حقیقی رُوپ نظر آ سکے۔ یہی تبلیغِ دین کا وہ طریقہ ہے جو دورِ حاضر میں مغربی ممالک میں قابلِ عمل ہے۔ (اِس ضمن میں دو تصانیف ’’اِسلام میں اِنسانی حقوق‘‘ اور ’’اِسلام اور جدید سائنس‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔) اِس نہج پر عمل کیا جائے تو عقیدہ تثلیث (trinity) کی غیرعقلی مُوشگافیوں سے متنفر عیسائی قوم خودبخود اِسلام کے پیغامِ توحید و رسالت کی طرف کھنچی چلی آئے گی۔
تارکینِ وطن کے لئے سب سے اہم آزمائش یہ ہے کہ اپنے بچوں کے اِیمان کی حفاظت کے لئے خاص بندوبست کریں۔ دُنیا کماتے کماتے بچوں کا اِیمان غارت نہ کر بیٹھیں۔ روزِمحشر آپ سے آپ کی اَولاد کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔ قرآنِ حکیم میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے:
يَا اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوْا اَنفُسَکُمْ وَاَهلِيکُمْ نَارًا
’’اَے اِیمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اَہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ۔‘‘
القرآن، التحريم، 66: 6
یاد رکھیں! اگر آپ نے اُن کی دینی تعلیم و تربیت کے اِہتمام سے غفلت برتی تو آپ کے بچوں کے صرف نام ہی مسلمانوں جیسے ہوں گے جب کہ فکر و عمل میں وہ مکمل طور پر غیرمسلم بن چکے ہوں گے، پھر خواہ وہ ترقی کرتے کرتے سربراہِ مملکت ہی کیوں نہ بن جائیں، اِسلام اور اَہلِ اِسلام کو اُن سے کوئی فائدہ نہ ہو سکے گا۔ تحریکِ منہاج القرآن بڑی کامیابی کے ساتھ تارکینِ وطن کے بچوں کی دِینی تعلیم و تربیت کے لئے بذریعہ اِنٹرنیٹ آن لائن کورسز کروا رہی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: www.equranclass.com
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved