ہر دین کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک اُس کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے، اس کے بنیادی اُصول ہوتے ہیں۔ اِسلام کے بنیادی اُصول قرآن و سنت ہیں،جو نہ کبھی بدلے ہیں نہ بدلیں گے۔ جو قرآن و حدیث میں آ گیا وہ قیامت تک کے لئے ابدی ہدایت ہے۔ آسمانی ہدایت چونکہ اِنسان کا بنایا ہوا قانون نہیں ہوتا اِس لئے وہ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ جب کہ اِنسان کے بنائے گئے قوانین وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانے ہو جاتے ہیں۔ اِنسان کی بصیرت اِس بات سے آگاہ نہیں ہوتی کہ ایک سو سال بعد اِنسانی معاشرے کی ضروریات اور مؤثراتِ حیات کیا ہوں گی۔ وہ اُنہیں جاننے سے قاصر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں معاشرے میں تبدیلیاں آتی ہیں، اِنسان کے بنائے ہوئے قوانین میں تبدیلیاں آتی چلی جاتی ہیں، تاکہ اُسے بقاء مل سکے اور وہ زمانے کے تبدیل شدہ تقاضوں پر پورا اُتر سکے۔ خدا کا بنایا ہوا قانون اگر اپنی اصل حالت میں محفوظ ہو اور اُس میں تحریف نہ کر دی جائے۔۔۔ جیسے قرآن مجید اور حدیث نبوی کا ٹیکسٹ آج تک محفوظ ہے۔۔۔ تو چونکہ وہ خالقِ کائنات کی وحی پر مبنی ہوتا ہے اِس لئے وہ جب ہدایت دیتا ہے تو قیامت تک کی ضروریاتِ اِنسانی کو پہلے ہی جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے بنیادی اُصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔
دین کا دُوسرا پہلو اُس کا اِنتظامی، تعبیری و تشریحی اور معروضی پہلو ہوتا ہے۔ یعنی خدا کے قانون کی شرح کرنا، تشریح و تفسیر کرنا اور اُسے بحیثیتِ نظام زندگی میں لاگو کرنا۔ دُنیا کے مختلف ممالک، مختلف معاشروں اور مختلف زمانوں میں چونکہ زمان و مکان کے تبدیل ہونے سے حالات بدلتے رہتے ہیں اِس لئے اِنسانی زندگی مسلسل اِرتقاء میں ہے۔ معاشی، سیاسی، معاشرتی، سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی مؤثراتِ حیات میں مسلسل تبدیلی آتی رہتی ہے۔ جو دین بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ نہ کر سکے وہ آؤٹ ڈیٹ ہو جاتا ہے، اور اِسلام آؤٹ ڈیٹ ہونے والا دین نہیں۔ اِسلام جہاں قدیم ہے وہیں جدید سے جدید تر بھی ہے۔ اِسلام کی تمام تر تعلیمات اُن جدید سے جدید ضرورتوں کو بھی کفالت کرتی ہیں، جہاں آج اِنسانیت ترقی کرتے کرتے پہنچی ہے۔
اِسلام کے بنیادی اُصولِ فقہ و قانون میں قرآن و سنت کے بعد دو ایسے اُصول رکھے گئے ہیں، جو اُسے آؤٹ ڈیٹ نہیں ہونے دیتے۔ قرآن و حدیث کے بعد تیسرا مآخذ اِجتہاد کا ہے۔ پھر اُس اِجتہاد کی ایک اِجتماعی صورت ہے اور ایک اِنفرادی۔ اگر کسی دور کے باصلاحیت اُصولیین اور مجتہدین کا کسی اِجتہادی مسئلہ پر اِجتماعی طور پر اِتفاق ہو جائے تو وہ اِجماع کہلاتا ہے۔ اور اگر وہ کسی اکیلے مجتہد کی اِنفرادی رائے ہو تو وہ قیاس کہلاتا ہے۔ پھر اُس اِجتہاد کی آگے بہت سی اَقسام ہوتی ہیں، جو اِستصلاح، مصالحِ مرسلہ، اِستحسان، اِستصواب، عرف و عادہ وغیرہ کہلاتی ہیں۔ قرآن و حدیث کے بعد یہ دس ایسے گوشے شریعت نے رکھے ہیں جو تبدیل ہونے والے حالات میں تعبیر و تشریح کو بدلتے چلے جاتے ہیں۔ اِس میں اِرتقاء کی گنجائش ہے، یہی وجہ ہے کہ اِسلام ایک جامد دین نہیں ہے، بلکہ ایک متحرک زندہ حقیقت ہے۔ بدلتے ہوئے حالات میں نئی تعبیر و تشریح کی گنجائش باقی ہے، مگر ہر تبدیلی، تعبیر اور ہر شرح اور ہر نفاذ کا جو نیا ضابطہ بنے گا، اُس کے پیچھے بنیادی ہدایت قرآن و حدیث کی نص ہو گی۔ اُسے قرآن و حدیث سپورٹ کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ شروع سے ہی اِسلامی شریعت کی چار پانچ بڑی تعبیرات کو وُجود ملا۔ فقہ، اِسلامک لاء اور اِسلامی اُصول فقہ، جسے اہل السنہ میں حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کہتے ہیں اور اہل تشیع میں جعفری کہتے ہیں، ان سب فقہی مذاہب کی شریعت ایک ہے، ایک ہی قرآن ہے، ایک ہی حدیث ہے، سب کا مآخذ ایک ہے۔ مگر یہ چار مذاہب اس لئے وُجود میں آئے تاکہ اُمت کے ہر آنے والے دَور کی کفالت کی جا سکے۔ ان کی مثال ایسے ہو جاتی ہے جیسے پاکستان کا آئین ہے۔ یہ فیڈرل قانون ہے، جس سے پورا ملک چلایا جاتا ہے۔ اُس فیڈریشن کے نیچے چار پانچ صوبے ہیں، اور تمام صوبوں کی اپنی قانون ساز اسمبلیاں ہیں اور اُن صوبوں کی اپنی علاقائی صوابدید کے تحت بھی قانون سازی ہوتی ہے۔ مگر آئین اور دستور ہمیشہ سب کے اُوپر ایک ہی رہتا ہے۔ تعبیر و تشریح میں ہر صوبہ اپنے معروضی حالات اور ضروریات کے مطابق قانون سازی کا اِختیار رکھتا ہے، اور کسی صوبے کا قانون آئین سے متضاد بھی نہیں ہوتا۔ تمام صوبے آئین کی مطابقت میں چلتے ہیں۔ تعبیر و تشریح اور نفاذ کی گنجائش ہر صوبے کے لئے الگ ہے۔ اِس لئے اِجتہاد شریعتِ اِسلامیہ میں ایک ایسی ڈِیوائس ہے، جس کی وجہ سے تعمیرِ نو کی روح برقرار رہتی ہے اور کوئی اِسلامی معاشرہ کیسا ہی زوال میں کیوں نہ جا پہنچے اُس کے پھر سے زندہ ہو جانے کا اِمکان باقی رہتا ہے۔ یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جو اِسلام کو کسی دَور میں بھی پرانا دین نہیں بننے دیتا اور اِسلام ہمیشہ جدید سے جدید دَور سے آگے کھڑا نظر آتا ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: انٹرویو شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1002)
عموماً سادہ لوح مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف مسالک کی موجودگی سے فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے، لہٰذا ہمیں تمام مسالک کی نفی کر کے صرف اِسلام کے لئے کام کرنا چاہیئے۔ ایسا تصور اِسلام کے بنیادی تصورات کے منافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسالک کا وُجود اِسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی نہیں ہے۔ اِسلام میں نہ صرف مسالک کی گنجائش موجود ہے، بلکہ اُن کے وُجود کی اصل بھی قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ مثلاً سورہ فاتحہ میں ہے:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَo صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ
’’ہمیں سیدھا راستہ دکھاo اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔‘‘
الفاتحه، 1: 5، 6
یہاں اللہ ربّ العزت بندے کو سیدھی راہ مانگنے کی تلقین کرتے ہوئے اِنعام یافتہ بندوں کا راستہ اِختیار کرنے کا حکم فرما رہا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب بلاشک و شبہ اصل سیدھی راہ قرآن و حدیث کی راہ ہے تو سیدھی راہ طلب کرنے کے جواب میں اللہ اور اُس کے رسول کی راہ پر چلنے کی ہدایت کی جانی چاہیئے تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں سیدھی راہ کی وضاحت اِنعام یافتہ بندوں کی راہ کے طور پر کی۔ فرمایا:
صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ
’’اُن لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا‘‘
الفاتحه، 1: 7
سورہ فاتحہ کی ان آیات کی روشنی میں ایک اُصول واضح ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کو اُس سیدھی راہ کا طالب ہونا چاہئے، جو اللہ ربّ العزت نے اُمت کے بعض اَفراد کے حوالے سے مقرر فرمائی۔ چنانچہ تلاشِ حق کے لئے ایسے برگزیدہ بندوں کو تلاش کرنا اور اُن کی راہ پر چلنا اَمر الٰہی سے ثابت ہوا اور اِسی طرح یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ایسے لوگوں کو بھی پہچانا جائے، جن پر اللہ کا غیض و غضب نازِل ہوا تاکہ کہیں غلطی سے آدمی اُن کے پیچھے نہ چل پڑے۔
ہدایت یافتگان کی تلاش اور گمراہ لوگوں کی پہچان نے ہمیں مسلک تک پہنچا دیا۔ مختلف مسالک کے بانیان ہی دراصل اِنعام یافتہ بندے ہیں۔ اِمام اعظم ابو حنیفہ، اِمام احمد بن حنبل، اِمام شافعی اور اِمام مالک رحمۃ اللہ علیہم یہ سب اِنعام یافتہ لوگوں میں سے ہیں، اِسی طرح سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی، شیخ شہاب الدین سہروردی وغیرہ نے رُوحانی مسالک کی بنیاد رکھی۔ ہر ایک نے اپنی اپنی فیلڈ میں قرآن و سنت کے پیغام کو جمع کیا، عام مسلمان کو حکم ہوا کہ تم اِن اِنعام یافتہ بندوں کی راہ پر چلو۔ یہی مسلک کے جواز کی بنیاد ہوگئی۔
اِسی طرح حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عَلَيکُم بِسُنَّتِی وَ سُنَّةِ الخُلفاءِ الرَّاشِدِينَ المَهْدِيِّين
’’تم پر میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے۔‘‘
مستدرک حاکم، 1: 174، رقم: 329
اُن خلفاء راشدین اور اَئمہ اَربعہ نے سنتوں کو جمع کیا، ترتیب و تدوین کی، عام لوگوں نے اُس سے اِکتساب فیض کیا، اُسی کا ٹیکنیکل نام مسلک پڑگیا، مسلک اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاسْأَلُوا أَهلَ الذِّکرِ إِن کُنتُم لَا تَعلَمُون
’’سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہوo‘‘
النحل، 16: 43
اِسی طرح اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَی الرَّسُولِ وَ إِلَی أُولِی الْأَمْرِ مِنهُم لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنهُم
’’اور اگر وہ (بجائے شہرت دینے کے) اُسے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اپنے میں سے صاحبانِ اَمر کی طرف لوٹا دیتے تو ضرور اُن میں سے وہ لوگ جو (کسی) بات کانتیجہ اَخذ کر سکتے ہیں اُس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے‘‘۔
النساء، 4: 83
قرآنِ مجید میں جا بجا ایسے لوگوں کی طرف رُجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاریخ اِسلام میں ایسی کئی بڑی بڑی ہستیاں گزری ہیں، جنہوں نے دین اور شریعت کے اُصول و فروع کو جمع کیا اور یوں اُس کی مرتب شدہ صورت کو مسلک کا نام دیا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف مسالک کیوں وُجود میں آئے؟ ایک سادہ سی قابل فہم بات یہ ہے کہ یہ کوئی لازمی امر تو نہیں کہ ساری اُمت کسی ایک اِمام یا دو اِماموں سے اِتفاق کر لے۔ یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ ایک بات کسی ایک اِمام سے پوچھ لی جائے اور دُوسری کسی اور سے، یوں تو زندگی میں تضاد آجاتا اور زندگی میں نظم پیدا نہ ہوتا۔ اس لئے علماء نے ایک نظام وضع کر دیا کہ جس کو جہاں سے زیادہ اِطمینان نصیب ہو وہ اُسی اِمام سے جملہ اُمور میں رہنمائی حاصل کرے تاکہ زندگی اِنتشار و اِفتراق سے بچ جائے۔ یہ تمام مسالک دراصل ایک ہی دریا سے نکلنے والی مختلف نہریں ہیں اور جو اُن مسالک کے پیروکار تھے وہ دراصل ان نہروں سے سیراب ہونے والے لوگ تھے۔
بعض مسلمانوں کا مختلف مسالک کی موجودگی کو فرقہ واریت کا سبب سمجھنا قرین اِنصاف نہیں۔ مسلک کے نام پر آج کل جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں مگر مسلک نفرتوں اور کدورتوں کو بڑھانے کے لئے وجود میں نہیں آئے تھے۔ ایک سادہ مثال ملاحظہ ہو کہ اِمام شافعی جب اِمام ابوحنیفہ کے مزار پر حاضری دیتے اور اُن کی مسجد میں نماز اداکرتے تو رفعِ یدین نہ کرتے۔ شاگردوں میں سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! آپ نے اپنی تحقیق کے خلاف عمل کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: درست ہے، مجھے اپنی فقہی تحقیق پر اِعتماد اور اِطمینان ہے، مگر اِتنے بڑے اِمام کی بارگاہ میں آ کر اپنی تحقیق پر عمل کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ مسالک کے بانیان کے ہاں تو اِس قدر رواداری پائی جاتی ہے جب کہ اُن کے نام لیوا آپس میں مناظروں سے کم بات نہیں کرتے۔ اگر تحمل اور برداشت کا یہ عمل اُمتِ مسلمہ میں جاری رہتا تو آج حالات اِتنے دِگرگوں نہ ہوتے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 894)
بعض اوقات علمی تحقیق اور دلائل کی بناء پر اُستاد اور شاگرد کے فتویٰ اور رائے میں اِختلاف ہوتا ہے۔ علماء کا حق ہے کہ وہ جو بھی فتویٰ دیتے ہیں اپنی تحقیق اور اپنے دلائل کی بناء پر دیتے ہیں اور دُوسرے علماء کو یہ حق تو پہنچتا ہے کہ وہ بھی دلائل اور تحقیق کی بناء پر اُن سے علمی اِختلاف کریں۔ مگر چھوٹوں میں سے یہ حق کسی کو نہیں پہنچتا کہ وہ اُن کے فتویٰ کو معاذ اللہ غلط یا ناجائز قرار دیں۔ اِس سے بے ادبی کے راستے کھلتے ہیں اور علم کی ترقی رک جاتی ہے۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کی تحقیقات اور فتاویٰ بلاشبہ مبنی بر حق اور مبنی بر دیانت تھے۔
اﷲ اور اُس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم اور اُمت کے اَکابر و اَصاغر علمائ، اَئمہ و مجتہدین کی تحقیقات میں فرق ہوتا ہے۔ یہ شان اﷲ اور اُس کے رسول کی ہے کہ جو اُن سے اِختلاف کرے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ مگر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں سیدنا اِمام اعظم اِمام ابوحنیفہ سے لے کر آج تک کے اَکابر اَئمہ و مجتہدین نے اِسلام کے ہر ہر گوشے میں اپنی تحقیقات پیش کیں، اُصولی بھی فروعی بھی، ہر دو قسم کے مسائل پر فتوے دیئے اور بعض شخصیات پر بھی فتوے دیئے، مگر اُن میں سے کسی ایک نے بھی کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ کسی مسئلہ پر اُن کی تحقیق اور فتویٰ سے علمی دلائل کی بناء پر اِختلاف کرنے کا حق کسی کو نہیں۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو میرے فتوے سے اِختلاف کرے وہ کافر ہے یا سنی نہیں، یہ علم کا شیوہ ہی نہیں ہے۔ ایسا حکم حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں اِمام اَعظم سے لے کر آج کے دن تک کسی نے نہیں دیا۔ سب نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں فتاویٰ دیئے اور اُن سے اِختلاف کرنے والوں نے بھی حق پر مبنی دلائل کی بناء پر اِختلاف کیا، مگر کسی نے کسی کو باطل نہیں کہا۔ سب نے دلائل کی بناء پر اِختلاف کا راستہ کھلا رکھا۔
اگر اَکابر اہلِ سنت میں سے کسی نے شیعہ، اہل حدیث یا دیوبندیوں کو کافر قرار دیا تو اُن کی اپنی تحقیق تھی اور اُنہوں نے میسر معلومات پر اِتمامِ حجت کرنے کے بعد فتویٰ دیا۔
ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم پورے طبقے کو نہیں پکڑتے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ کی ساری اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ بجائے اِس کے کہ سارے کے سارے طبقے کو جس میں گیلا سوکھا ہر کوئی رگڑا جائے، چھوٹے بڑے سبھی رگڑے جائیں، بجائے طبقے کے ہم کیس ٹو کیس لیتے ہیں، فرد بہ فرد لیتے ہیں، پورے مسلک کو کافر نہیں کہتے۔ ہر شخص کے اِیمان کا معاملہ جدا جدا ہے اور کسی کا اِیمان کسی دُوسرے کے اِیمان پر منحصر نہیں قرار دیا جا سکتا۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تحریراً، تقریراً یا عملاً کسی بھی طرح ذرا سی گستاخی کرنے والا، حتیٰ کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلے کوچوں کی نسبت کو ذہن میں رکھ کر وہاں کے کتوں کی گستاخی کرنے والا شخص (خواہ وہ کسی بھی مسلک سے ہو) کافر، بے اِیمان اور مُرتد ہے۔ ہم اِس طرح لیتے ہیں۔ جو گستاخ ہے اُسے مرتد کہتے ہیں اور جو گستاخی نہ کرے اُس پر کیوں دھریں!!
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات، خلفائے راشدین، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سب و شتم بکنے والا، اُنہیں کافر و منافق کہنے والا اور اُن پر بہتان طرازی کرنے والا شخص (خواہ وہ کسی بھی مسلک سے ہو) کافر و بے اِیمان ہے۔ اور اگر کوئی زبان سے ایسا نہیں کہتا تو بلاوجہ کیوں دھریں کسی پہ!!
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیتِ اطہار علیہم السلام کا گستاخ اور اُن کی شان میں زبان درازی کرنے والا شخص (خواہ وہ کسی بھی مسلک سے ہو) کافر اور بے اِیمان ہے، یزید اہلِ بیت کی اِہانت ہی کی وجہ سے کافر ہوا۔ مگر اگر کوئی ایسا نہ کہے تو ہم اُس پر کفر مسلط کیوں کریں!!
ہر ایک کا اپنا عمل اور اپنا عقیدہ ہے جو اُسے مؤمن یا کافر بناتا ہے، دُوسروں کا عقیدہ اُس کے سر پر نہیں تھوپتے۔ اِس لئے دیوبندی، اہل حدیث، شیعہ من حیث الکل کسی بھی گروہ اور مسلک کو کافر و مرتد قرار نہیں دیا جا سکتا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 445)
مسالک کی موجودگی اُمت کے لئے خیر کا باعث تھی، مگر شو مئی قسمت کہ اِس پُرفتن دَور میں اُسی کو تفرقہ و اِنتشار کے لئے اِستعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔ بنیادی طور پر مسلک دین اور اِیمان کو اِنتشار و اِفتراق سے بچانے کی ایک راہ ہے۔ مثلاً اگر ایک غیرمسلم مختلف مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھے کہ وہ سب ایک ہی طرح رکوع و سجود کر رہے ہوں دُوسری جگہ وہی آدمی کچھ لوگوں کو مختلف طریقوں سے نماز پڑھتے ہوئے دیکھے تو پہلی جماعت کو وہ disciplined اور دوسری کو indisciplined قرار دے گا۔
مسلک کا بنیادی مقصد اُمت کے اندر اسی حسن کو پیدا کرنا تھا۔ اِس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کو وجہ نزاع بنایا جائے اور اُس کی بنیاد پر جھگڑے فساد کرکے ایک دُوسرے کو کافر و مشرک اور خارج از اِسلام کہہ کے اُمت کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے میرے نزدیک یہ دین اِسلام کی خدمت ہے اور نہ کسی فقہ و مسلک کی، یہ دراصل فساد فی الارض ہے۔ اِس فتنہ اور سازش کو دُور کرنا اور یکجہتی کی کوشش کرنا امرِ خیر ہے۔ اِس سلسلے میں ہماری ایک کتاب ہے ’’فرقہ پرستی کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہے‘‘ آپ ضرور اُس کا مطالعہ کیجئے۔ یہ وہ کتاب ہے جس کی وجہ سے ہم پر سب سے زیادہ فتوے لگائے گئے۔ بس یہی وجہ ہے کہ اُمت کا درد رکھنے والے بیشتر علماء فتووں کے خوف سے فرقہ پروری کی روِش کے خلاف بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔
دُوسری طرف آج کا عام پڑھا لکھا مسلمان بھی اِس بات کو محسوس کرنے لگا ہے کہ اُمت کی وحدت کی بات ہونی چاہئے تاکہ اِختلاف کم سے کم ہوتے چلے جائیں۔ میری دانست میں فرقہ پرستی کسی مسلک کا نام نہیںہے۔ یاد رکھیں! مسلک اور مسلک پرستی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مسلک کا ہونا باعثِ خیر اور ضروری ہے لیکن مسلک پرستی بصورتِ فرقہ پرستی، جو فتنہ و اِنتشار کا باعث ہو، وہ لائقِ مذمت ہے۔ یہ دراصل ایک ذہنیت ہے، جس کے حاملین صرف خود کو مبنی بر ہدایت مسلمان سمجھتے ہیں اور جو کوئی اُن کی رائے سے اِختلاف رکھے اُسے کافر و مشرک اور خارج از اِسلام جہنمی سمجھاجاتا ہے۔ جس طرح یہ تکفیری طرزِعمل اُمت کے حق میں خطرناک ہے، اِسی طرح بعض لوگ اِن حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مسالک کے وُجود کی کلیتاً نفی کرتے ہوئے براہِ راست قرآن یا حدیث سے تعلق اُستوار کرنے کی بات کرتے ہیں اور اَسلاف کی تحقیق کو کلیتاً نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ عمل بھی کھلی گمراہی کے مترادف ہے۔
اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ
’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘
المائده، 5: 3
اِس آیت سے یہ مراد لینا کہ اب دین مکمل ہوچکا ہے لہٰذا ہمیں کسی اور سے رہنمائی کی ضرورت نہیں، ایسا گمان کرنا درست نہیں۔ درحقیقت اَئمہ کی ساری تحقیق قرآن و سنت ہی کی تعلیمات پر مبنی ہے، ایک عام آدمی جو عربی سے واقف نہیں، وہ قرآن و حدیث سے براہِ راست کیوں کر صحیح مطالب و مفاہیم اَخذ کر سکتا ہے؟ البتہ مسلک کو دین پر ترجیح دینا ظلم ہے۔ مسلک دین کی خدمت کے لئے ہے، دین مسلک کی خدمت کے لئے نہیں۔ اگر ہم صرف اِس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں تو اکثر اِختلافات ختم ہوسکتے ہیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 894)
اِتحادِ اُمت کا ایک سادہ فارمولا قرآنِ مجید کی آیت کی روشنی میں پیش خدمت ہے۔ اِس آیت سے ایک قرآنی اُصول مستنبط ہوتا ہے، جس سے ہمیں بنیاد ملتی ہے کہ ہم نے کس طرح اُمت کو یکجا کرنا ہے۔ اُصولِ حدیث میں ہماری ایک عربی کتاب ہے: ’’الخطبۃ السدیدۃ فِی اُصولِ الحدیثِ و فُروعِ العقیدۃ‘‘، اِس کتاب کی یہ خوبی ہے کہ اس میں قرآنِ مجید کی آیات سے اُصولِ حدیث ثابت کئے گئے ہیں اور ہر اُصولِ حدیث سے ایک فرعِ عقیدہ ثابت کیا گیا ہے۔ اﷲ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں تین طبقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِاِذْنِ اﷲِ ذَالِکَ هُوَ الْفَضْلُ الْکَبِيْرُo جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا
’’پھر ہم نے اِس کتاب (قرآن) کا وارث ایسے لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا (یعنی اُمتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)، سو اُن میں سے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے بھی ہیں، اور اُن میں سے درمیان میں رہنے والے بھی ہیں، اور اُن میں سے اﷲ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے بھی ہیں، یہی (آگے نکل کر کامل ہو جانا ہی) بڑا فضل ہےo (دائمی اِقامت کے لئے) عدن کی جنتیں ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے۔‘‘
فاطر، 35 : 32،33
اِس آیتِ کریمہ میں اﷲ ربّ العزت نے تین طبقات کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلا وہ طبقہ جو ’’ظالم‘‘ یعنی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں، دُوسرا طبقہ ’’مُقتصِد‘‘ یعنی اَوسط درجے والے اور تیسرا طبقہ ’’سابقٌ بالخیرات‘‘ یعنی خیر میں آگے بڑھ جانے والے کامل اور اَکمل لوگوں کا ہے۔ آیتِ کریمہ میں صریحاً تین طبقات کا ذکر ہوا۔ ناقص اَعمال والے لوگ ’ظالم‘ کہلائے، درمیانے درجے کے ’مقتصد‘ کہلائے اور اعلیٰ سطح کے لوگ ’سابق بالخیرات‘ اور کامل کہلائے۔ تینوں کا ذکر کرنے سے پہلے فرمایا: یہ تینوں طبقے ہمارے بندوں میں سے ہیں، اِن تینوں طبقوں کو ہم نے چن رکھا ہے اور یہ تینوں قرآن کے وارث ہیں۔ یہ قرآن کا فیصلہ اور اﷲ کی سنت ہے کہ وہ قرآن کے وارث بھی ہیں، اﷲ کے برگزیدہ و چنیدہ بھی ہیں، ہمارے بندوں میں سے بھی ہیں اور وہ تینوں جنت میں بھی جائیں گے۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ اﷲ ربّ العزت ظالم کہہ کر بھی جب اُنہیں اپنے چنیدہ بندوں سے خارِج نہیں کر رہا تو ہمیں کس نے اِجازت دی کہ ہم اپنی سمجھ بوجھ کے تحت دُوسروں کو دِین سے خارِج کرتے پھرتے ہیں! جب اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا کہ تینوں طبقات جنت میں جائیں گے تو کسی کو جہنمی قرار دینا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے!
اﷲ نے تو ظالم کہہ کر بھی اُنہیں ’’عِبَادِنَا‘‘ یعنی اپنے بندے ہی کہا ہے، اﷲ ظالموں کو بھی اپنا کہتا ہے، تو ہم کیوں اُنہیں غیر کہتے ہیں! کیوں خارِج کرتے ہیں ایک دُوسرے کو سنیت سے اور اِسلام سے! اُس نے تو ظالموں کو بھی اپنے چنیدہ بندے کہا ہے، وہ ظالموں کو بھی چنیدہ کی صف میں شامل کرتا ہے اور قرآنِ مجید کا وارِث بناتا ہے۔ اُس نے تو اُنہیں وراثتِ قرآن سے بھی محروم نہیں کیا اور ہم اِتنے سخت ہو جائیں کہ اﷲ کی گرفت سے بھی بڑھ جائیں کہ ظالم قرار دیں اور پھر دین سے ہی خارِج قرار دے دیں۔ اﷲ نے تو ظالموں کو بھی خارِج نہیں کیا اور قرآنِ مجید میں کہا کہ یہ تینوں طبقے میرے بندوں میں سے ہیں، چنیدہ ہیں اور قرآنِ مجید کے وارِث ہیں اور یہ تینوں جنت میں جائیں گے۔ اگر ہم اِتنی نرمی کر لیں اور اِسی قرآنی قاعدے پر اِکٹھے ہو جائیں تو مسلمانوں میں شکست و ریخت نہ ہو اور سب مسالک کے مسلمان باہمی برداشت اور رواداری کے ساتھ اِکٹھے رہ سکتے ہیں۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1329)
تحریکِ منہاج القرآن کی طرف سے جاری اِتحادِ اُمت کی دعوت کو غلط رنگ دے کر بعض نادان لوگوں کو ہمارے خلاف اُکساتے رہتے ہیں، جب کہ ضرورت آج اِس امر کی ہے کہ ہم یہ غلط فہمی دُور کریں کہ جب تحریکِ منہاج القرآن کی طرف سے اِسلام کی بات ہوتی ہے تو اُس سے اہل سنت کی نفی نہیں ہوتی۔ کون بدبخت عقیدہ اہل سنت کی نفی کرے گا؟ میں پیدا عقیدہ اہل سنت پہ ہوا، میرے آباؤ اَجداد اِسی عقیدے سے تھے، میں زندہ اِسی عقیدے پہ ہوں اور میری موت اِسی عقیدے پہ آئے گی۔ آپ حنفیت کی بات کرتے ہیں! ہم اِمام اعظم کے سگ، سارا فیضان وہیں سے لیا۔ بات عقیدے کی ہے اور نہ حنفیت و تقلید کی ہے، کیس کی بات ہی نہیں ہے، کیس کی وکالت کی بات ہے۔ جو شے آج کے علماء کو سمجھ نہیں آ رہی وہ یہ ہے کہ آج کے زمانے میں اِسلام کے کیس کو پیش کیسے کیا جائے؟ زبان کیا اِستعمال کی جائے؟ دلائل کی نہج کیا ہو؟ اُسلوب و انداز کیا ہو؟ ہر دَور کے انداز جدا ہوتے ہیں۔ کچھ انداز آج سے پچیس سال پہلے تک کارگر تھے، وہ آج کارگر نہیں رہے۔ میرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے کہ ’’شرابِ کہن در جامِ نو‘‘ زمانہ جوں جوں بدلتا رہے پیالہ نئے سے نیا بناتے رہو مگر شراب وہی پرانی رہے۔ طریقے، اُسلوب، نہج، انداز، دلائل، زبان، برتاؤ اور معاملات دُنیا کے تقاضوں کے مطابق بدلتے رہو مگر عقیدے کا سانچہ اور شرابِ عشق و محبت وہی پرانی رہے، جو سیدنا غوثِ اعظم، خواجہ اجمیر اور مجدد الف ثانی نے پلائی، اُس میں تبدیلی نہ آنے پائے۔
اگر کسی کو یہ زعم ہے کہ وہ بڑا سنی ہے اور وہ ہمیں سُنیت سے خارج کرنے کے فتوے لگاتا ہے تو ربِ ذوالجلال کی عزت کی قسم اگر طاہرالقادری سنی نہیں ہے تو برصغیر کی دھرتی پہ کوئی سنی پیدا ہی نہیں ہوا۔ بہت سی باتیں ہیں جو کہنے کی نہیں ہوتیں، ’سچ آکھاں تے بھانبڑ مچدا‘ ہماری سُنیت، عقیدے اور حنفیت پر فتوے لگانے والے صرف پڑھ کے سُنی ہوئے ہیں جبکہ ہم دیکھ کر ہوئے ہیں۔ ہمیں ربِ کائنات نے وہ کچھ دکھایا ہے جو وہ شاید کبھی دیکھنے کا تصور بھی نہ کر سکیں۔ دُوسروں کی سُنیت متزلزل ہو سکتی ہے مگر طاہرالقادری کی سُنیت کو کروڑ نجدی آ جائیں تو وہ بھی متزلزل نہیں کر سکتے۔ یہاں جو آئے گا وہ اپنا گمراہ عقیدہ بدل کر حق کی طرف آ سکتا ہے مگر یہاں ایک رتی برابر لغزش نہیں لا سکتا۔ یہاں اِیقان ہے، غوث پاک کے قدموں کی خیرات ایسی ہے، وہ بتاتے ہیں کہ سُنیت کیا ہے اور وہ جھولی بھرتے رہتے ہیں۔ ’اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے‘ تمہارے فتووں سے کیا ہوتا ہے۔ اﷲ کے بندو! ہمارے مہربان بھائیو! خدا کے لئے اُمت پہ رحم کرو۔ اس پریشان حال اُمت کو مزید گمراہی میں نہ دھکیلو۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 768)
بعض اَوقات بڑی اعلیٰ پایہ کی شخصیات اِس وجہ سے گم ہو جاتی ہیں کہ وہ ایسے زمانوں میں جنم لیتی ہیں جب اہلِ زمانہ اُن کی عظمت کو ناپنے کے لئے خود اُتنے قدآور نہیں ہوتے، اِس لئے وہ اُن کی عظمت اور قدوقامت کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ قدآور شخصیت گزر جاتی ہے تو اُس کے ورثاء ایسے مل جاتے ہیں کہ جو اُس کے قدوقامت کو صحیح معنوں میں متعارف نہیں کرا پاتے۔ وہ اُس کی تحقیقات کو منظر عام پر لانے کی بجائے فقط دُوسرے پہلوؤں کو آشکار کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اُس کے علمی نظم کو بیان کرنے کی بجائے فقط شاعری کو بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ جب ورثاء کا ضابطہ عمل اور طریق کار اُس مجتہدانہ و مجددانہ شان کے حامل اِنسان کی نسبت ایسا ہو تو پھر اَغیار سے کیا شکوہ کہ وہ اعلیٰ حضرت کی قدر نہ پہچان سکے۔ جب اپنے نہ پہچان رہے ہوں تو غیر کیا پہچانیں گے! اگر وہ کسی ایسے زمانے میں ہوتے جب علم و فکر کے قدردان تھے اور اُن کی عظمت کا اندازہ کرنے والے لوگ خود صاحبانِ علم و فکر ہوتے تو اعلیٰ حضرت کا نام تاریخ میں کسی اور انداز سے لکھا جاتا۔ یہ زمانے کی ستم ظریفی ہے کہ وہ اُس دور میں ہوئے جب ہر شے کی قدر موجود تھی، اگر نہ رہی تھی تو علم کی قدر نہ رہی تھی۔
جب اﷲ ربّ العزت کسی کو تجدیدِ دین کی ذمہ داری دیتا ہے تو اُسے طبیعت اور مزاج بھی اُس دور کے تقاضوں کے مطابق دیتا ہے، اُس کی تحقیق کا بھی وہی مزاج ہوتا ہے۔ کبھی شدت سے کام چلتا ہے، کبھی نرمی اور اِعتدال سے کام چلتا ہے، کبھی حکمت سے کام چلتا ہے، یہ ہر دَور کی علمی ضروریات ہوتی ہیں۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان اپنی صدی کے مجدد اِس لئے ہوئے کہ اُنہوں نے عقیدہ اہل سنت کا دِفاع کیا اور اُسے مُردہ ہونے سے بچا لیا۔ اعلیٰ حضرت کو اﷲ ربّ العزت نے جو علم، اِستعداد، اِستنباط، اِستخراج، اِستدلال، صلابتِ رائے اور اِستنباط کے بعد اُس کا اِطلاق و اِنطباق اور مصادر تک رُجوع اور اُن سے اَخذ کی صلاحیتیں عطا کی تھیں، ہند میں اُس پورے دَور میں کسی مسلک کے عالم کے پاس بھی اُتنی صلاحیتیں نہیں تھیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تحقیق جتنی وسیع ہوتی چلی جائے طبیعت کی شدت اُتنی کم اور مزاج میں نرمی آتی چلی جاتی ہے، یہ تحقیق کا منطقی نتیجہ ہے۔ اِسی طرح تحقیق کی گہرائی اور وسعت جتنی کم ہو اُتنی ہی مزاج اور فتویٰ میں شدت زیادہ ہوتی ہے۔ شدت زیادہ ہونے میں تحقیق کی کمی کا دخل ہوتا ہے، اور اگر کسی مسئلہ پر تحقیق بڑھتی جائے تو طبیعت میں نرمی اور وسعت آ جاتی ہے۔ جب تمام مذاہب کے دلائل سامنے ہوتے ہیں، مذاہبِ اربعہ کے علاوہ مذاہبِ متروکہ کے دلائل بھی سامنے رہتے ہیں تو جتنی مطالعہ میں وسعت بڑھتی چلی جاتی ہے طبیعت میں شدت کم ہوتی چلی جاتی ہے، گنجائش بڑھ جاتی ہے اور اِعتدال آ جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جتنی تحقیق و مطالعہ کی وسعت اعلیٰ حضرت کے پاس تھی اُس حساب سے ضروری تھا کہ طبیعت میں شدت کا نام و نشان بھی نہ ہوتا اور اُن کے فتاویٰ میں وسعت اور نرمی ہوتی۔ ایک طرف تحقیق کا یہ عالم اور دُوسری طرف شدت کا یہ عالم، کہ اُن جیسا شدید فتویٰ ہندوستان میں کسی کے پاس نہیں۔ یہ دو چیزیں کیسے اکٹھی ہو گئیں؟ بس یہی وہ نکتہ ہے جس کا نام تجدید تھا۔ وہ صرف مجتہد نہیں تھے بلکہ وہ مجدد بھی تھے۔ اگر صرف اِجتہاد کی ذمہ داری ہو تو طبیعت میں نرمی ہوتی ہے۔ اُن کے ذمہ فقط علم نہیں لگایا گیا تھا، بلکہ اُن کے ذمہ ایک بہت بڑے حملے کے مقابلے میں مسلکِ حق کا دِفاع تھا۔ اور بند اگر کچی مٹی کا بنایا جائے تو وہ بہہ جاتا ہے، جب سیلاب سے روکنا ہو تو جتنا سخت سے سخت بند بنائیں تب رُکتا ہے۔ وہ جو شدت تھی وہ سیلاب کو روکنے کے لئے بند کی شدت تھی۔
عرب سے ایک نیا عقیدہ چلا اور ایک دو نہیں بڑی کثرت کے ساتھ علمائے ہند نے اُسے اپنایا۔ بہت بڑا دارالعلوم بنا، یہ ایک پورا تسلسل بنا، بڑی کثرت کے ساتھ پورے ہند سے علماء جمع ہوئے، اہلِ تصنیف ہوئے، بڑی بڑی کتابیں، تصانیف، علمی کام، حواشی، شروح سب کچھ کیا۔ وہ پورے ہندوستان کے صاحبانِ فتویٰ، صاحبانِ علم، علمی حوالے سے معتبر لوگ تھے۔ پھر اُن کے تلامذہ کا سلسلہ بھی آگے کثیر تعداد میں چلا۔ یک لخت جو ایک اِتنا بڑا نیا مسلک اُٹھا اور اُسے تقویت دینے کے لئے اِتنے تکڑے تکڑے لوگ کثیر تعداد میں تھے کہ اُس کا جواب اور دِفاع اگر نرمی سے کیا جاتا تو اہلِ علم تو شاید کچھ بچ جاتے مگر ہند میں عامۃ المسلمین کا عقیدہ و مسلک مٹی کی طرح بہہ جاتا۔ یہ جو عقیدہ و مسلک بچ گیا اور ہر جگہ ’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘ کی گونج ہے، یہ اُن کی اُس شدت کی برکت سے ہے، جس کے پیچھے تجدید کی حکمت کارفرما تھی۔ اُن کے ذِمہ تجدید کا یہ پہلو تھا کہ اِس خطے میں سوادِ اعظم کے عقیدہ حق کو بچانا ہے، جس کے دو ہی راستے تھے، علم و تحقیق بھی تھا اور شدت و صلابت بھی تھی۔ اکثر لوگ شدت کی حکمت کو نہیں سمجھتے اور اُن کے مقام و مرتبہ سے ناآشنا رہتے ہیں۔ عام آدمی شدت اِختیار کرے تو وہ نقصان دِہ ہوتی ہے مگر جسے اﷲ تعالیٰ نے مجدد بنا کے بھیجا ہو اُسے پتہ ہوتا ہے کہ حکمت کیا ہے۔ اُن کے ذِمہ عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ، ادبِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تروِیج، گستاخی رسول کو روکنا، یہ سب اُمور تھے۔ شدت اپنائے بغیر گستاخی جیسے قبیح جرم کو روکنا ممکن نہیں ہوتا، گستاخی نرم شاعرانہ باتوں سے نہیں ہوتی۔ گستاخی سب سے بڑا جرم ہے اور غلیظ جرم کو لطیف طریقے سے روکنا ممکن نہیں۔ اِسی لئے علامہ ابن تیمیہ نے بھی جب گستاخِ رسول پر کتاب لکھی تو کتاب کا نام الصارمُ المَسلول (یعنی تیزدھار والی تلوار) رکھا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1156 اور 757)
تحریکِ منہاج القرآن خود الصارمُ المَسلول ہے، یہ گستاخِ رسول کے اُوپر تیزدھار تلوار ہے، اور اِن شاءاﷲ جب تک اﷲ ربّ العزت نے ہمیں زندہ رکھا، ہم زندگی کے آخری سانس تک عقیدے کا ہر وہ گوشہ جو گستاخی ہو یا گستاخی کی طرف لے جائے اُس کی ساتویں زمین تک چھپی ہوئی جڑ کو بھی کاٹتے رہیں گے۔ جہاد ہمارا بھی وہی ہے، بس اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق اَسلحہ بدلا ہے۔ مناظرانہ اُسلوب ایک وقت تک چلتا چلا آیا ہے لیکن اُس سے دِلوں میں دُوری پیدا ہوتی ہے، مناظرے میں ہار جانے والا کبھی اپنا غلط عقیدہ ترک نہیں کرتا۔ مناظرے بس ایک نشہ ہوتے ہیں، جن سے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں، اِسلام کی خدمت میں مناظرے مثبت کی بجائے اُلٹا منفی کردار ادا کرنے لگے ہیں۔
ایک دَور تھا کہ جب اِسلام کے روحانی پہلو کو شرک و بدعت کے فتووں کے ذریعے دبایا جا رہا تھا۔ علمائے ہند کی کثیر تعداد اُس نکتہ نظر کی حامل ہوئی اور اُنہوں نے گستاخی پر مبنی عقیدہ کے فروغ کے لئے تصانیف لکھیں۔ وہ پورے ہندوستان کے صاحبانِ فتویٰ، صاحبانِ علم، علمی حوالے سے معتبر جانے جاتے تھے۔ پھر اُن کے تلامذہ کا سلسلہ بھی آگے کثیر تعداد میں چلا۔ یک لخت جو ایک اِتنا بڑا نیا مسلک اُٹھا اور اُسے تقوِیت دینے کے لئے اِتنے تکڑے تکڑے لوگ تھے کہ اُس بدعقیدگی کا جواب اور عقیدہ حقہ کے دِفاع میں اعلیٰ حضرت نے اپنی صدی کی حکمت کے مطابق شدت و صلابت کے ذریعے تجدید کا فریضہ سرانجام دیا اور اُس یلغار کے آگے ایسا بند باندھا کہ برصغیر کے عوام کا اِیمان بچ گیا۔
اُن سے اگلی صدی میں ضرورت تھی کہ علمی حوالے سے تصنیف و تالیف کے ذریعے اِتنا مواد دیا جاتا کہ وہ نیاعقیدہ بے دلیل ہو کر رہ جائے۔ چنانچہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کا عقیدہ مٹانے کے لئے تحریکِ منہاج القرآن کی طرف سے قرآن و حدیث کے وہ سمندر مسلکِ اہلِ سنت کو ملتے جا رہے ہیں کہ اَب کوئی سر اُٹھانے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ گستاخی کا عقیدہ دفن ہو جائے گا۔ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ عقیدہ میں در آنے والی بدعات کو قرآن و حدیث کے دلائل کے ساتھ ردّ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں صحیح العقیدہ لوگ پھر سے آگے نکل گئے اور بدعقیدگی پھیلانے والے دفاعی پوزیشن میں چلے گئے۔ الحمدللہ عقیدہ صحیحہ کو اِتنا عروج، قوت، عظمت اور فروغ ملا کہ اب دُوسرے سر چھپاتے پھرتے ہیں۔ حق کو ردّ کرنے والا اَب کوئی نہیں، حق نکھر کر اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہو گیا۔ اَب الحمدللہ ردّ کوئی نہیں کرتا، علمی طور پر خاموشی ہو گئی، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کی نسبت کو قوت مل گئی، کتب کے ذریعے علمی قوت ملی، سمندر کی طرح مواد ملا، ہر موضوع پر کتابیں ہیں اور ہر کتاب میں قرآن و حدیث ہی ہے کوئی تیسری بات نہیں، دُنیا کا کوئی شخص اِن دلائل کو ردّ کرنے کی جرات نہیں کر سکتا، ہر مسئلہ پر قرآن و حدیث کی نص، آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کو عقیدہ صحیحہ کے لئے علمِ صحیح میسر آ گیا۔ تاریخ دیکھے گی کہ پچھلی دو صدیوں میں پروان چڑھنے والا گستاخی پر مبنی عقیدہ صرف علمی دلائل کی بناء پر اپنی موت آپ مر جائے گا۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 753 اور 1294)
بعض لوگ اہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی محبت کا نام لینے والوں کو شیعہ کا لیبل لگا دیتے ہیں، جس کا سبب سراسر جہالت ہے۔ محبتِ اہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کا اصل عقیدہ اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اہلِ سنت والجماعت ایک جامع مسلک ہے، جو اِن پانچ محبتوں پر اِعتدال کے ساتھ قائم ہے: (1)محبتِ الٰہی، (2)محبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، (3)محبتِ اہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام، (4)محبتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور (5) محبتِ اولیاء و صالحین۔
پچھلے کچھ عرصہ سے اہلِ سنت کے نام کے ساتھ کام کرنے والے بعض لوگوں نے محبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنصر کو اپنے تصورِ اسلام سے نکالنا شروع کر دیا اور اُسے شخصیت پرستی کا نام دیتے ہوئے اُس کی اہمیت کو کم کرنا شروع کر دیا۔ جو محبت و عشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے اُسے شرک، بدعت اور شخصیت پرستی سے موسوم کرنے لگے، تاکہ لوگ عشق و محبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضور کے ساتھ قلبی و رُوحانی ربط کی نعمت سے محروم ہو جائیں۔ جن لوگوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو دِلوں سے نکالنے کے پہلو پر محنت کی اُنہوں نے ہی ساتھ یہ محنت بھی کی کہ اہلِ سنت کے عقیدے سے اہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی محبت کو بھی کم کیا جائے۔ اُنہوں نے یہ تصور اِختیار کیا کہ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کا نام لینا اور اُن کی محبت کی بات کرنا شیعہ اِزم ہے یا مذہب اثناعشری ہے۔
یہ سوچ دراصل خوارج کی سوچ ہے، یہ کسی سنی کی سوچ نہیں ہو سکتی۔ ہم نے اَہلِ سنت کا اصل عقیدہ قوم کے سامنے رکھا ہے، جو اِمام اَعظم اِمام اَبوحنیفہ، اِمام مالک، اِمام شافعی اور اِمام احمد بن حنبل نے اُمت کے سامنے رکھا تھا۔ وہ یہ کہ اَہلِ سنت کا مسلک و مذہب اللہ اور اُس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی محبت سے عبارت نہیں، بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی محبت بھی ایک مسلمان کے لئے جزوِ اِیمان ہے۔ بلاشبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفائے راشدین کی محبت اِیمان کا حصہ ہے، مگر صرف یہی اِیمان نہیں بلکہ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی محبت کو اگر دِل سے نکال دیا تو اس طرح جیسے اِیمان باقی نہیں رہتا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف اَحادیثِ مبارکہ میں اَہلِ بیت کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا، اَہلِ بیت کی محبت کو اپنی محبت کا وسیلہ قرار دیا، اَہلِ بیت سے محبت کرنے والے کو اپنی محبت کرنے والا قرار دیا۔ ہم نے یہ حقیقت واضح کی کہ اُمتِ مسلمہ کا حقیقی تصور کیا تھا۔ تمام اَئمہ و اَولیاء ڈیڑھ ہزار سال سے یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ ہم نے فقط خارجی عوامل کو بے نقاب کیا، کہ جو بےدھڑک سیدنا علی المرتضیٰ کی شان اور مقام و منصب پر تنقید کرنے لگے تھے، اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی محبت پر بےچینی اور اِضطراب ظاہر کرنے لگے تھے اور مسلمانوں کے دِلوں سے اس محبت کو یہ تہمت دے کر نکالنے لگے تھے کہ جو اَہل بیت کا نام لے یا حضرت علی کا نام لے وہ شیعہ ہے۔
لوگ اِس اِنتہاء تک آن پہنچے تھے کہ وہ سُنیت کا لبادہ اوڑھ کر یزید کو امیر المؤمنین اور خلیفۃ المسلمین کہنے لگ گئے تھے۔ ٹی وی پروگراموں میں یزید کا نام لے کر اُسے رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔ ’امیرالمؤمنین یزید‘ کے نام سے کتابیں لکھی گئی۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ خارجیت کو دوبارہ سے زندہ کیا جائے اور دِین میں ایک بہت بڑا فتنہ پیدا کیا جائے۔ ہم نے اُس فتنے کو کچلا ہے اور اُس کے آگے بےشمار خطابات اور تصانیف کے ذریعے قرآن و حدیث کے دلائل کی دِیوار کھڑی کی ہے۔ اُس فتنے کا پردہ چاک کیا ہے۔ اَہلِ سنت کا عقیدہ اور اِسلام کا صدیوں کا تسلسل اپنے اَصل حقائق کے ساتھ قرآن و حدیث کی روشنی میں اور اَئمہ اَہلِ سنت کی تحریروں اور تعلیمات کی روشنی میں اُجاگر کیا ہے۔ ہم نے تو اَہلِ سنت والجماعت کا جامعیت پر مبنی اِیمان اور عقیدہ، جو اَوائل دَور سے لے کر اَواخر دَور تک کے اَکابرین کا تسلسل کے ساتھ ہے، اُسے اُجاگر کیا ہے۔ جب ہم نے یہ کہا کہ اَہلِ بیت کی محبت کو دِلوں سے نکالنے کی کوشش کرنا خارجیت ہے تو اُن کی کوششیں رائیگاں جاتی نظر آ رہی ہیں، اِس لئے وہ ہم پر فتوے لگاتے ہیں۔ دلیل کا جواب دلیل سے نہ ہو سکے تو لوگ کردارکشی پر آ جاتے ہیں، لیکن اِن چیزوں سے ڈرنا اَہلِ ایمان کا شیوہ نہیں۔
جس دِل میں اللہ کی محبت نہیں وہ اِیمان سے خالی ہے اور جس دِل میں رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نہیں وہ بھی اِیمان سے خالی ہے۔ جو محبتِ رسول سے خالی ہو وہ محبتِ الٰہی اور توحید کا دعویٰ کرنے کا بھی حق دار نہیں، کیونکہ محبتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی محبتِ الٰہی کا وسیلہ ہے۔ جس شخص کے دِل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت اور عزت و تکریم نہیں وہ بھی صاحبِ اِیمان نہیں۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری محبت کی وجہ سے میرے صحابہ سے محبت کرو اور میرے اَدب کی وجہ سے اُن کا اَدب کرو۔ اور جو شخص اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی محبت کو اپنے دِل میں کم کرتا ہے، یا اُسے اَہلِ سنت یا اِسلام سے خارج کرنے کی کوشش کرتا ہے، دراصل وہ خارجی نکتہ نظر کو دوبارہ زندہ کر رہا ہے، وہ بھی اِسلام سے دھوکہ کر رہا ہے۔
تحریکِ منہاج القرآن نے گزشتہ 30 برس کی جدوجہد میں اِسلام کی جامعیت اور اُس کے ہمہ جہتی پہلو کو اِعتدال کے ساتھ اُجاگر کیا ہے، اور یہ کوشش کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کے دونوں دھارے (اہلِ سنت اور اہلِ تشیع) بجائے یہ کہ وہ دُور سے دُور تر ہوتے چلے جائیں، اُنہیں مشترکہ اَقدار پر قریب لایا جائے تاکہ فرقہ پرستی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: انٹرویو شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1001)
نبی اَکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چالیس برس کی عمر میں اِعلانِ نبوت فرمایا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی تو پہلے بھی تھے مگر اِعلان کا حکم چالیس سال کی عمر میں ہوا۔ نبوت کا ثبوت تو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی پہلے تھا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کی نبوت کب سے ثابت ہے؟ تو فرمایا: جب آدم بھی پیدا نہ ہوئے تھے۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی چیز کا ثبوت الگ بات کے اور اِظہار و اِعلان الگ بات ہے۔ اگر کسی کو کتابوں میں اِظہار و اِعلان نہ ملے تو وہ سرے سے ثبوت کا ہی اِنکار نہ کر دے۔ کتب حدیث و سیرت میں اِیمان اَبوطالب کے اِثبات میں ستر شواہد و قرائن ملتے ہیں۔ ذیل میں اُن میں سے ایک دلیل پیشِ خدمت ہے۔ اﷲ ربّ العزت نے اِعلانِ نبوت کا حکم دیتے وقت حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا:
وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَکَ الْأَقْرَبِيْنَo
’’اور (اے حبیب مکرم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرایئے‘‘
الشعراء، 26 : 214
جب چالیس برس کی عمرِ مبارک میں اﷲ ربّ العزت کی طرف سے حکم آیا کہ نبوت کا اِظہار و اِعلان فرما دیں تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغِ اِسلام کی اِبتداء اپنے اَقرباء سے کی۔ واقعہ معروف ہے کہ سب سے پہلے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہِ صفا پر قریش خاندان کے سب سرداروں کو اِکٹھا کیا اور اپنی نبوت کا پہلا اِعلان فرمایا۔
کوہِ صفا کے واقعہ کے بعد تاجدارِ کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو بلا کر فرمایا کہ اپنے گھر میں اُن سارے سرداروں کو دَعوت پر بلاؤ تاکہ گھر میں بیٹھ کر میں اُن سے اِسلام کی بات کروں۔ اُس موقع پر سیدنا علی کی عمر کم و بیش دس سال تھی اور وہ یقینا حضرت اَبوطالب کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ اِمام اِبن جریر طبری، اِمام بیہقی، اِمام اِبن اَثیر، اِمام اِبن کثیر، اِمام اِبن عساکر، اِمام المقریزی، غرض تمام اَئمہ سیرت نے یہ واقعہ نقل کیا ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ وہ گھر حضرت علی کا تھا یا حضرت ابوطالب کا! حضرت علی تو اُس وقت دس سال کے بچے تھے۔ کس کے گھر دسترخوان بچھایا جا رہا تھا! کون سردارانِ قریش کو دَعوتِ توحید و رسالت سنوانے کے لئے کھانے کا اِہتمام کر رہا تھا! بکرے ذِبح کئے گئے، گوشت پکایا گیا، دودھ کے کٹورے رکھے گئے، کون گھر سے خرچ کر کے دعوتِ اِسلام کی مجلس منعقد کر رہا تھا!! دارِاَرقم میں جو تین سال تک چھپ چھپ کر تبلیغِ اِسلام کا اِہتمام ہوتا تھا، وہ بعد میں مرکزِ توحید بنا، سب سے پہلا جو گھر مرکزِ دعوتِ توحید بنا وہ وہ دارِ ابی طالب ہے۔ چنانچہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور سردارانِ قریش کو توحید کی دَعوت دی۔ کیا ہم اِیمان کا اِعلان نہ ہونے کی بناء پر اُس ہستی کے اِیمان پر شک کریں جو تبلیغِ اِسلام کی میزبانی کے لئے اپنے گھر کو سب سے پہلے پلیٹ فارم کے طور پر پیش کر رہے ہیں!!!
یہ دعوت تین دن تک جاری رہی، تین دن کھانا ہوا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطابات ہوئے۔ اِمام اِبن اَثیر اور اِمام طبری روایت کرتے ہیں کہ تیسرے دن دعوت کے اِختتام پر حضرت اَبوطالب اُٹھ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تین دن تک آپ کی باتیں سن کر ہمیں آپ کی مدد اور معاونت سے محبت ہو گئی ہے، ہم نے آپ کی نصیحت خوب قبول کر لی ہے اور ہم نے آپ کی بات کی تصدیق کا اِعلان کر دیا۔ آپ کی دعوتِ توحید کی مدد و نصرت ہمارا فریضہ ہو گیا۔
اُس کے بعد مزید کون سا اِعلان باقی رہ گیا، جس اِعلان کا اِنتظار لوگوں کو اُن کی عمر مبارک کے آخری دن تک ہے کہ کب قبولِ اِسلام کا اِعلان کرتے ہیں! وہ تو پہلے دن اِعلان کر چکے، وفات کے دن قبولِ اِسلام کا اِعلان تلاش کرنے کی کیا حاجت بچتی ہے؟
(برائے مزید ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 25)
ہمارے معاشرے میں علمائے کرام عوام کے دلوں میں وہ مقام نہیں پیدا کر سکے جو اُنہیں کرنا چاہیئے تھا، جس کی کئی وُجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے ہاں علماء کا جو مفہوم سمجھا جاتا ہے وہ درست نہیں۔ بالعموم ہم فقط اُنہی کو علماء سمجھتے ہیں جن لوگوں نے مدرسہ میں دِینی نصاب پڑھ لیا اور وہ مساجد میں اِمامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیتے ہوں یا کسی دارالعلوم میں تدرِیس کے فرائض سرانجام دیتے ہوں، جبکہ صورتحال اِس کے برعکس ہے۔ عالم کا تصور اور دائرہ بڑا وسیع ہے۔ ہم ایک سائنسی دَور میں رہ رہے ہیں۔ جدید علوم و فنون اِتنے ترقی کرچکے ہیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ دِینی معاملات کو بھی دورِجدید کے علوم و فنون اور اَفکار و نظریات کی روشنی میں پرکھتا ہے اور محض اِس لئے کسی بات کو قبول کر لینا کافی نہیں سمجھتا کہ یہ فلاں کا قول ہے۔ وہ ہر بات کی تہ میں جا کر اُسے سمجھنا چاہتا ہے۔ اگر بات اُس کی سمجھ میں آ جائے تو وہ اُسے فوراً دِل سے قبول کر لیتا ہے۔ اور اگر بات دلائل کے ساتھ نہ سمجھائی جائے تو اُس صورت میں دو قسم کے ردِعمل کا اِمکان ہوتا ہے۔ پہلا یہ کہ وہ اُس بات کا کلیتاً اِنکار کر دے اور کھلی سرکشی پر اُتر آئے۔ دُوسرے اگر وہ کسی ایسے خاندان کا فرد ہے جہاں حیاء کی قدریں قائم ہوں تو پھر وہ خاموش ہو جاتا ہے، مگر اِس صورت میں بھی اُس کے دِل و دِماغ میں اِضطراب برقرار رہتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ علماء جن سے اُس نے دِین کی بات سنی اُس کے دل میں اُن کی قدر و منزلت باقی نہیں رہتی۔ اِس صورتِ حال کا بڑا سبب مدرسوں میں رائج نصاب ہے۔ مدارس میں دورِجدید کے علوم و فنون اور اَفکار و نظریات کی تعلیم شاملِ نصاب ہی نہیں ہوتی جبکہ پڑھا لکھا ذِہن اُن سے سائنسی نکتہ نظر سے جواب کا متقاضی ہوتا ہے، جس میں وہ قاصر رہتے ہیں اور اُسے مطمئن نہیں کرپاتے۔
خرابی ہمیشہ تین میں سے کسی ایک جگہ سے پیدا ہوتی ہے۔ پہلی خرابی ’’دِماغ‘‘ سے اُبھرتی ہے، جس کے خاتمے کے لئے ذِہن و دِماغ کا اِطمینان ضروری ہے اور وہ جدید علمی تقاضے پورے کئے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ علماء کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم میں تحقیق کے ذریعے اُن تقاضوں کو پوراکریں، جو دورِحاضر کے دِماغ کو مطمئن کر سکیں۔ مگر ہمارے علماء میں اِس بات کا فقدان ہے۔
دُوسری خرابی ’’دِل‘‘ سے پیدا ہوتی ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی بات اُن کے دِل پر اَثر کرے تو اُس سے اُن کا ذہن بھی مطمئن ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ اللہ کے وُجود کو مانتے ہیں، آخرت کو مانتے ہیں،نیکی و بدی کا اِمتیاز ذِہنی سطح پر قبول کرتے ہیں، اِسلام کو مانتے ہیں، لیکن اُس کے باوجود اُن کی طبیعت اس مسئلہ کی طرف راغب نہیں ہوتی۔ یعنی جس کے دِل کا مسئلہ ہو وہ شخص صرف دلائل سے راغب نہیں ہو سکتا۔ اُس کے سامنے آپ لاکھ دلائل دیں سائنسی حوالے سے بھی وہ کسی سے اَثر قبول نہیں کرتا۔ لیکن جب آپ اُس کے دل کے تار چھیڑتے ہیں تو وہ حق کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔
تیسری خرابی ’’کردار‘‘ میں روحانیت اور صالحیت کے فقدان سے پیدا ہوتی ہے۔ اِسلام کے دورِ اوائل میں صوفیاءِ کرام ’روحانیت‘، ’فعال تصوف‘ اور ’تقویٰ‘ پر جو زور دیتے تھے، اُس سے ایک روحانی تاثیر پیدا ہوتی تھی۔ اِس کے علاوہ اُن کے قول و عمل میں اِس قدر مطابقت ہوتی تھی کہ لوگوں پر فوری اَثر ہوتا تھا۔ آج کے دَور میں اِس کا بھی فقدان ہو گیا ہے۔ اگرچہ آج بھی اللہ کے فضل سے ایسے علماء موجود ہیں جن کے قول و فعل میں مطابقت ہے اور جن کی شخصیتیں پُرتاثیر ہیں مگر اُن کی تعداد بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل علماء کی اپیلیں دِلوں پر زیادہ اَثر نہیں کرتیں۔
اگر ہم ایک بار پھر اپنے بزرگوں اور اَسلاف جیسے بھرپور طرزِزندگی کی طرف لوٹ جائیں تو پھر اُن کی صحبتیں اور اُن کی پرتاثیر قدریں بھی لوٹ آئیں گی۔
اعلیٰ تعلیمی اِداروں میں زیر تعلیم پاکستان کی نئی نسل بالعموم علماءِ کرام سے دُور بھاگتی ہے، جس کے کئی اَسباب ہیں۔ پہلا سبب یہ کہ وہ نئی نسل کے سامنے اِسلام کے تصور کو سائنسی بنیادوں پر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ ہر دَور کی ایک عقلِ عامہ (common sense) ہوتی ہے اور علمائےکرام کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اِسلام کا پیغام اُس دور کی عقل کے تقاضوں کے مطابق پیش کریں۔ اِس بارے میں قرآن مجید میں واضح اِرشاد ہوتا ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ ہِيَ اَحْسَنُط اِنَّ رَبَّکَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِه وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَo
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور اُن سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بے شک آپ کا رب اُس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اُس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہےo‘‘
اِس آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے دعوتِ دین کے لئے تین شرائط کا ذِکر فرمایا ہے اور ہمارے یہاں اِلا ماشاء اللہ اِن تینوں کا فقدان ہے۔ یہاں نوجوان نسل کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے اس میں اُن کا قصور نہیں بلکہ زیادہ تر دِین کی تبلیغ کرنے والے قصوروار ہیں۔ وہ تین شرائط یہ ہیں:
اَب سب سے پہلے ہمارے ہاں حکمت کا فقدان ہے۔ جس اَنداز کے ساتھ اِن تینوں تقاضوں کو علمی، تحقیقی، سائنسی اور تجرباتی پہلوؤں کو مدِنظر رکھ کر اِسلام کے تقاضوں کو متعارف کرانے کی ضرورت تھی وہ حق اَدا نہیں کیا جا رہا۔ یہ سائنس کا دور ہے، جس میں ہر شے کو تنقید کے معیارات پر پرکھا جاتا ہے۔ اِس دَور میں اِنسان فوری اِنکار، تنقید، کیوں اور کیا، why اور what کی طرف جاتا ہے۔ جبکہ اِس کے برعکس جس اَنداز سے اِسلام کو پیش کیا جارہا ہے وہ فقط فتویٰ کا اَنداز ہے کہ قرآن و حدیث نے کہہ دیا تو بس اِس لئے مان لیا جائے۔ آج کا نوجوان پوچھتا ہے کہ قرآن و حدیث نے ایسا کیوں کہا؟ اَب قرآن و حدیث خود تو یہ نہیں بتاتے کہ ایسا کیوں کہا ہے، اِس کا جواب تو علماء نے دینا ہے۔ یہ جواب سائنسی تجربی توثیق جانے بغیر علماء پیش نہیں کر سکتے، جس سے سارا معاملہ خراب ہو جاتا ہے۔
ہمارے یہاں تبلیغ کی حکمت کا فقدان ہے۔ تبلیغ کے لئے جو تقاضے پور ے ہونا چاہیئے تھے وہ نہیں ہو رہے۔ نوجوان نسل کا ذِہنی اِنتشار ختم ہو سکتا ہے، بشرط یہ کہ موجودہ دَور کے تقاضوں کو پورا کر کے اِسلام کی تبلیغ کی جائے۔ اِسلام کو سائنسی طرزِ فکر کے مطابق مدلل اَنداز میں پیش کیا جائے۔ دورانِ تبلیغ اَیسے جدید نظریات اور فلسفے جو اِیمان کو متزلزل کرتے ہیں، اُن کا تقابل کرتے ہوئے دِین کو پیش کیا جائے۔
دُوسرے اِسلام کے حلقوں میں تفرقہ و اِنتشار اور کفر کے فتوے سننے کو ملتے ہیں۔ نوجوان یہ سوچتے ہیں کہ ہم کس اِسلام کو مانیں، یہ تو آپس میں ہی ایک دُوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ یہی حکمت کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے نوجوان نسل اِنتشار کا شکار ہے۔اِسلام کی دَعوت دینے والوں کے کردار میں اِسلام کی تعلیمات کم نظر آتی ہیں۔ وہ تعلیم کے اسٹیج پر کچھ اور سنتے ہیں اور جب تعلیم دینے والوں کے قریب جا کر اُن کی عملی زندگی کو بغور دیکھتے ہیں تو اُن کے اپنے عمل میں جتنا تضاد دِین کی تبلیغ کرنے والوں کے ہاں پیدا ہوگیا ہے اُتنا شاید ہی کسی اور حلقے میں ہوگا۔
یوں تو تضاد سوسائٹی کے ہر طبقے میں ہے، مگر علماء کا تضاد دِین کو نقصان پہنچارہا ہے۔ نوجوان نسل متنفر ہوتی ہے۔ پھر مولوی کا ایک خاص سمبل اُن کے ذہن میں بن گیا ہے، جس کا وہ مذاق اُڑاتے ہیں۔ مولوی کو جہالت اور قول و فعل کے تضادکا نمونہ تصور کرتے ہیں۔ حالاں کہ مولوی تو بہت بڑا نام ہے، ایک زمانے میں یہ علم کے ایک ستون کا نام تھا۔ مگر بدقسمتی سے اِس دَور میں جو تصور پروان چڑھا ہے اُس نے مولوی کو عام آدمی سے دُور کر دیا، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ علماء نے جدید علوم پڑھنے چھوڑ دیئے ہیں اور وہ مدارس کے نظام کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جدید علوم اُن کے پاس نہیں ہیں تو وہ اِس دَور کے تقاضوں پر بات کرنے کے ہی اَہل نہیں۔ علاوہ اَزیں علم کی قوت سے اَحوالِ قلبی نہیں بدلتے بلکہ اَحوالِ قلبی تو محبت سے بدلتے ہیں۔
ہمارے مذہبی حلقے اِسلام کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کر رہے ہیں۔ جامعات اور تعلیمی اِداروں میں مذہب کے نام پر مسلمانوں کو ملحد، دہریہ، کافر اور لادین قرار دیا جا رہا ہے۔ اِس سارے رویے کا باعث فی الحقیقت سیاسی محرکات ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے اندرونی اِختلافات کے باعث نئی نسل کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جو طالب علم اُن کی سیاسی قوت اور اُن کے الیکشن پروگرام سے موافقت نہیں رکھتا اُسے لادین اور ملحد قرار دے کر مزید دُور کر دیتے ہیں۔ اِختلاف تو صرف زاویہ نگا ہ کا ہوتا ہے، اس کی بجائے اُسے دین پر اِختلاف قرار دے دیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی سطح کے نوے فی صد نوجوان لادِین نہیں بلکہ منتشر ذِہن کے حامل ہوتے ہیں۔ اُن کی سوچیںواضح نہیں ہوتیں، وہ جدید فلسفوں کو سنتے ہیں تو ڈانواں ڈول ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں جب اُن پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے تو اُس کا ردِعمل شروع ہوجاتا ہے۔ اُس ردِعمل کا آغاز سیاسی دھڑے بندیوں سے ہوتا ہے اور پھراُسے دِینی رنگ دے دیا جاتا ہے۔
وہ نوجوان نسل جو اِسلام کے نام سے پہلے ہی بیزار ہو چکی تھی، جب ساری کارروائی اِسلام کے نام پر ہوتے دیکھتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ اگریہی اِسلام کے اِجارہ دار ہیں اور اگریہی اِسلام کا کردار ہے تو اَیسے اِسلام کو ہمارا دُور ہی سے سلام۔ یوں اگر وہ لادین نہیں بھی تھے توچارو ناچار لادِین بنا دیئے جاتے ہیں۔
فرقہ وارِیت کسی ایک فرقے کا نام نہیں ہے، فرقہ وارِیت ایک روِیہ اور سوچ کا نام ہے۔ فرقہ وارِیت ایک ضابطہ عمل ہے، ایک طریقہ کار ہے اور ایک زاویہ نگاہ ہے کہ آپ اپنے سوا کسی کو بھی مسلمان نہ سمجھیں، یہی فرقہ وارِیت ہے۔ اپنے سواکسی کو زندہ رہنے کا حق نہ دینا، اپنے سوا کسی کو اِسلام کے لئے کام کرنے کا اَہل نہ سمجھنا، اِسلام کو صرف اُسی صورت میں اِسلام سمجھنا جب وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے اور اگر ہمارے ہاتھوں سے نکل کر اِسلام کا کام دُوسرے ہاتھوں میں چلا جائے تو وہ اِسلام نہیں رہتا، یہ تو اپروچ ہے مذہبی حلقوں کی۔ اِس عصبیت، تشدد اور تنگ نظری نے اِسلام کو قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ یہ لوگ دِین کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ یہ تمام باتیں جدید نسل اور اَعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کو، حتیٰ کہ اَیسے اَن پڑھ لوگوں کو بھی جو حالات کو بغور دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، دِین سے دُور کرنے کا باعث بن رہی ہیں اور دِین سے بغاوت کے اَسباب پیدا ہورہے ہیں۔
نئی نسل کے دِین سے بیزار ہو جانے کی ذمہ داری اُن سے زیادہ دِین کے نام نہاد اِجارہ داروں اور علمبرداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اگرچہ عاقل و بالغ ہونے کی و جہ سے وہ لوگ خود بھی ذمہ دار ہیں کہ اَیسے علماء کو دیکھ کر دِین سے دُور ہونے کی بجائے اَزخود دِین کا مطالعہ کریں اور اُس کا پیغام سمجھنے کی کوشش کریں، لیکن اُس کے اَصل ذِمہ دار دِین کا پرچار کرنے والے لوگ ہیں۔ اگر ہم سنبھل جائیں اور اَپنے علم، حکمت اور کردار و عمل میں اُس جدالِ اَحسن کی روِش کو اپنائیں، جس کی بنیاد قرآنِ مجید نے فراہم کر دی ہے تو یہ نوجوان بھی یقینا سنبھل جائیں گے۔
مجھے اکثر لوگ آکر بتاتے ہیں کہ اُن کے محلے کا لڑکا گلیوں میں کھڑا ہوتا تھا، سینما جاتا تھا، سیٹیاں بجاتا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ تحریکِ منہاج القرآن سے وابستگی کے بعد اُس کے حالات بدل گئے ہیں۔ ہمارے پاس بہت سے نوجوانوں کے والدین آ کر اِس بات کا اِعتراف کرتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے ہمارے بیٹے کی زندگی بدل گئی، اُس کی کایا پلٹ گئی۔ ہمیں سو سو طرح سے دُعائیں دیتے ہیں۔ اگر اِس نہج پر بھی کام کیا جائے تو آج کا نوجوان نسبتاً اچھا نوجوان ہے، اُس میں جذب و قبول کی صلاحتیں بدرجہ اَتم موجود ہیں۔ قصور سراسرہمارا اپنا ہے، ہم تو خود نوجوان نسل کو سنوارنا نہیں چاہتے اور اُس بگاڑ کا ذمہ دار دُوسروں کو قرار دیتے ہیں۔
دُنیا کی محبت کو دِل سے نکالنے میں ناکام ہونے پر اور بسااَوقات دُنیا کی پریشانیوں سے تنگ آ کر لوگ سوچتے ہیں کہ شاید تارکُ الدنیا ہو جانے میں بھلائی ہے۔ جب کہ ایسا ہرگز نہیں، یہ تصور اِسلام کا دِیا ہوا نہیں ہے۔ اِسلام ہرگز اَیسا درس نہیں دیتا کہ آپ معاشرتی زندگی کے فرائض ترک کر کے اللہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں۔ دُنیا کو چھوڑ کر دِین کی خدمت کے نام سے گھربار چھوڑ کر نکل جانا قطعاً اِسلام کا منشاء نہیں ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بھرپور معاشرتی زندگی گزاری اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اُسی کا درس دیا۔ اصل اِسلام تو یہ ہے کہ بندہ دُنیا میں رہے مگر اُس کے دِل میں دُنیا نہ رہے۔ اُس کا دِل حرص و ہوس سے خالی ہو اور وہ دُنیا میں رہتے ہوئے بھی نہ صرف ہمہ وقت اپنے مولا کو یاد رکھے بلکہ اُس کی مخلوق کے ساتھ ہمیشہ بھلائی سے پیش آئے۔ بڑے بڑے صوفیاء تجارت کرتے تھے، وہ اَمیر کبیر تھے اور اپنا مال اَللہ کی راہ میں خرچ کرتے اور مخلوقِ خدا کے دُکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔
زِندگی کے بارے میں بالعموم دو تصورات پائے جاتے ہیں۔ ایک تصور یہ ہے کہ زندگی اِتفاق سے وُجود میں آ گئی۔ اَیسی سوچ رکھنے والے زِندگی کا کوئی مقصد متعین نہیں کر سکتے۔ اِس تصور میں زندگی کے اَخلاقی و رُوحانی پہلو کا وُجود ہی نہیں بچتا۔ بندہ ساری زندگی پیسہ کمانے اور خرچ کرنے میں گزار دیتا ہے اور اِس سے بڑھ کر اُس کی سوچ میں کوئی مقصد نہیں ہوتا۔
دُوسرا تصور یہ ہے کہ زِندگی کو اﷲ ربّ العزت نے کسی خاص مقصد کے لئے وُجود دیا ہے۔ وہ زِندگی کوئی زِندگی نہیں ہے جو بلامقصد ہی گزر جائے۔ صرف زِندہ رہنے، کھانے پینے، معاشی کفالت کے لئے کاروبار کرنے اور اَفزائشِ نسل ہی کے لئے ہمیں زندگی نہیں دی گئی، بلکہ یہ سب تو زندگی کے لوازمات ہیں، زِندگی کا مقصد نہیں ہیں۔ اِن سب لوازماتِ حیات کو نبھاتے نبھاتے بندہ دُنیا سے رُخصت ہو جاتا ہے اور اگر اُس سے آخری عمر میں پوچھا جائے کہ تمہاری پچاس ساٹھ سال کی زِندگی کا مقصد کیا تھا اور تم اُس میں کتنے کامیاب ہوئے تو اُس کے پاس جواب نہیں ہوتا۔ اَیسی زندگی گزارنے سے اِنسان کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور اِنسان اور حیوان میں صرف عقل کا فرق رہ جاتا ہے، باقی ہر معاملے میں وہ حیوان کی مثل ہوتا ہے۔
جن لوگوں نے آسمانی ہدایت کو نظراَنداز کر کے اپنے طور پر خدا تک پہنچنے کی کوشش کی وہ اپنی ذاتی کوششوں سے خدا تک نہیں پہنچ سکے۔ فلسفہ ’اِمکانات کی دُنیا‘ سے باہر نہیں نکل سکتا، اِس لئے تشکیک میں رہتا ہے اور ساری زِندگی شک کو دُور کرنے کی سوچتا رہتا ہے۔ اِسی طرح سائنس بھی اِمکانات ہی کے تابع چلتی ہے، اِس لئے وہ خدا کو ثابت نہیں کر سکتی۔ سائنس کی تحقیقات کی بدولت ہم نے جانا کہ اِنسان کے DN صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خلئے تک اور خلئے سے اُس کے پورے جسم تک کہیں کوئی اِتفاق نہیں پایا جاتا، ہر جگہ ایک کامل نظام موجود ہے، جس کے تحت زِندگی چلتی ہے۔ اُس کے باوُجود سائنس اِس نظامِ حیات کا مقصد متعین کرنے سے قاصر ہے۔
فلسفہ اور سائنس دونوں زندگی کا مقصد بتانے سے قاصر ہیں۔ صرف آسمانی ہدایت ہی زِندگی کی حقیقت کا جواب دیتی ہے اور وہ یہ کہ زندگی اَز خود اِتفاقاً وُجود میں نہیں آئی بلکہ کسی خالق نے زِندگی کو کسی مقصد کے لئے اِرتقاء کے پورے نظام کے تحت اپنے مقام پر پہنچ کر تشکیل دیا ہے۔ اور اِنسان حیات کے اِرتقاء کا وہ آخری نکتہ ہے، جسے زِندگی کا کمال کہتے ہیں۔ جب اِس نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں تو اِنسان اِس کائنات میں بہت بڑا مقام رکھتا ہے۔
جن چیزوں کو ہم نے زندگی کا مقصد بنا رکھا ہے وہ زِندگی کے تقاضے ہیں اور وہ محض ہمارے ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں۔ وکیل، سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر بننا مقصد نہیں ہو سکتے، یہ تو محض پیشے اور ذرائعِ معاش ہیں۔ یہ تو ضروریات ہیں اور ضروریات کبھی مقصد نہیں ہوتیں بلکہ کسی مقصد کی تکمیل کی خدمت گار ہوتی ہیں۔ تمام ضروریات اور تمام پیشے اِنسان کے خدمت گار ہیں۔ اسی طرح سورج، چاند، ستارے، جمادات، نبادات، حیوانات، زرخیز زمین، دریا، پہاڑ، ہوا سب اِنسان کے خدمت گزار ہیں، جن کی وجہ سے ہماری زندگی کو رہنے کے لئے ایک آسان ماحول ملتا ہے۔
جب کائنات کی تمام چیزیں اِنسان کی خدمت پہ لگی ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِنسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ جب اِنسان مخدوم و مقصودِ کائنات ہے تو اِنسان کی زندگی کا مقصد اُن چیزوں کے مقاصد سے اَعلیٰ ہونا چاہیئے۔ ساری کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے کسی مقصد سے ہو رہا ہے تو پھر اِنسان ہی بلامقصد کیسے ہو سکتا ہے! اِنسان سے اَعلیٰ کائنات میں کوئی اور شے نہیں، اُس سے اعلیٰ صرف اﷲ کی ذات ہے اور وُہی اِس کی زِندگی کا مقصد ہے۔ اﷲ کی عبادت، بندگی، معرفت، پہچان اور اُس سے محبت ہی اِنسان کی زِندگی کا اصل مقصد ہے۔ ایسی زِندگی بسر کی جائے جس سے اُس کا خالق خوش ہو جائے، یہ واحد مقصد ہے جو اِنسان کی تمام تر بلندیوں اور عظمتوں سے بھی بلند ہے۔
زِندگی کامیاب تب ہے اگر وہ سپردِ بندگی ہو جائے، یعنی بندہ جس قدر ہو سکے دِین کی خدمت میں حصہ لے۔ اپنے پیشہ کے ساتھ مخلصانہ وابستگی جاری رکھتے ہوئے، ساتھ میں دِین کی خدمت کے لئے سب سے پہلے کسی اَیسے چشمہ دِین سے منسلک ہو جائے جہاں اُسے اِطمینانِ قلب میسر ہو، پھر اُس کے بعد وقت اور پیسہ سمیت جس قدر ممکن ہو ہر قسم کی صلاحیتیں خدمتِ دین کے لئے وقف کر دے۔ یہی بندگی ہے اور یہی مقصودِ زندگی ہے۔
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 1066)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved