اگر ہم برصغیر پاک وہند میں مسیحی مسلم مکالمہ کی گزشتہ دو سو سالہ تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو مسیحی مسلم مکالمہ درج ذیل مو ضوعات کے اردگرد گھومتا ہوا نظر آئے گا۔ مثلاً:
ان سارے موضوعات اور ان سے متعلقہ مباحث کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مسیحی مسلم مکالمہ کا focus اور مو ضوع ’علم العقائد‘ ہی رہا ہے۔ اس کے علاوہ آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ اس نوعیت کے مکالمہ میں مندر جہ ذیل رویے بڑی پختگی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ مثلاً:
یہی طرزِ فکر (attitude) ہمیں آج کے چند مسیحی اورمسلم مبلغین میں بھی ملتا ہے۔ اگر آپ تقاریر اور بحث و مباحثہ کی ویڈیوز دیکھیں تو آپ کو مندرجہ بالا طرزِ فکر واضح طور پر نظر آئے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بعض مسالک کی جماعتوں کا طرزِ عمل بھی اِصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے مختلف نہیں۔ یہ کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تبلیغِ دین کے نام پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے فروغ کے خاتمہ کی کوششوں کے مختصر بیان پر مبنی ہے۔ سردست اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں کہ انتہا پسندی اور پھر اس فکر سے دہشت گردی کس طرح پھیلتی ہے؟
ہمارے ملک کے ایک نامور مذہبی عالم اور سیاسی لیڈر مولانا سمیع الحق سے ایک جاپانی صحافی نے سوال کیا کہ بنیاد پرستی کیا ہے؟ تو مولانا نے جواب میں فرمایا:
جناب! بنیاد پرستی کی آواز امریکہ کی ایک من گھڑت اصطلاح ہے۔ ہر مذہب کے اصول ہوتے ہیں، عقیدے کے لحاظ سے، روایات کے لحاظ سے، اخلاق کے لحاظ سے اور کردار کے لحاظ سے اور ہر مذہب اپنے پیروکاروں کو بنیادی اصولوں کے ساتھ وابستہ کرتا ہے۔ قرآن کریم نے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے اسلامی تعلیمات کے ذریعے ان بنیادی اصولوں سے وابستگی ضروری قرار دی ہے تو امریکہ اس کو بنیاد پرستی کہہ رہا ہے حالانکہ وہ خود بنیاد پرست ہے جب کہ ان کا مذہب ہواؤں میں ہے، کوئی مدوّن مرتب کچھ نہیں۔ لیکن اب ان کے محرف دینِ عیسائیت کا نام ظلم و تعصب اور تمام غیر عیسائیوں کے حقوق کو پامال کرنا ان کا دین بن چکا ہے تو یہ ہے اصل بنیاد پرستی۔
مولانا سمیع الحق، صلیبی دہشت گردی اور عالم اسلام، ص:101-102، مطبوعہ 2004ء، القاسم اکیڈمی، خالق آباد، ضلع نوشہرہ
آپ کے جواب کے پہلے حصے سے تو ہم کلیتاً متفق ہیں کہ ’بنیاد پرست‘ ایک امریکی اصطلاح ہے اور بنیاد پرستی کی تحریک بھی امریکہ سے ہی اٹھی تھی۔ مولانا سمیع الحق کی اس وضاحت سے بھی ہم اتفاق کرتے ہیں کہ بنیاد پرستی عقائد و نظریات کی بنیادوں سے محبت کا ہی نام ہے اور اس نقطہِ نظر سے ہر مسلمان بنیاد پرست ہی ٹھہرتا ہے۔ لہٰذا امریکہ کا مسلمانوں کو بنیاد پرستی کا طعنہ دے کر ان کے خلاف نفرت و حقارت کی بین الاقوامی سیاسی مہم چلانا درست نہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی کتاب ’نیو ورلڈ آرڈر اور عالم اسلام‘ میں بنیاد پرستی کے پس منظر پر مختصر مگر جامع گفتگو فرمائی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
بنیاد پرستی کی اِصطلاح کا سب سے پہلے استعمال امریکہ میں 1920ء میں ہوا تھا اور یہ اِصطلاح بنیادی طور پر صرف عیسائیت کے لٹریچر اور تاریخ میں ہی مستعمل ہوئی۔ اس کے علاوہ دنیا کے کسی مذہب میں یہ اِصطلاح استعمال نہیں کی گئی۔ ’بنیاد پرست عیسائیوں کی ایسی تحریک کو کہا جاتا تھا جو بائبل کو حتمی و قطعی اور سچی کتاب مانتے تھے۔ اس کے متن اور اس کی لفظی و معنوی تشریحات و تعبیرات پر بھی پختہ ایمان رکھتے تھے‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سچا نبی مانتے ہوئے ان کے اَحکامات پر دل و جان سے عمل پیرا ہوتے تھے۔ تاریخ عیسائیت میں بنیاد پرست اس شخص کو کہا جاتا ہے جو راسخ العقیدہ ہو، شریعتِ عیسوی پر کامل ایمان رکھتا ہو، بائبل سے مکمل رہنمائی حاصل کرتا ہو، اپنے عقائد و عبادات کو قائم رکھتا ہو اور بائبل کی تعلیمات کے مطابق فواحش و منکرات اور محرمات سے پرہیز کرتا ہو، بلکہ شراب اور رقص و سرود کی محافل سے بھی اجتناب کرتا ہو۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، نیو ورلڈ آرڈر اور عالم اسلام، ص: 33
آگے چل کر لکھتے ہیں:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ راسخ العقیدہ اور صحیح العمل عیسائیوں کو بنیاد پرست کا نام دیا جاتا تھا۔ اب یہی خوبی اور کردار جس مسلمان میں پایا جاتا ہے امریکی نیو ورلڈ آرڈر کی نگاہ میں وہ بھی بنیاد پرست ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے نام نہاد مسلم حکمران بڑے فخر کے ساتھ امریکہ کے سامنے ’بنیاد پرستی‘ سے اپنی برات کا اعلان کر رہے ہیں اور اسے ہر طریقے سے یقین دلا رہے ہیں کہ ہم بنیاد پرست نہیں ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، نیو ورلڈ آرڈر اور عالم اسلام، ص: 34
البتہ مولانا سمیع الحق کے جواب کے آخری حصے کی عبارت سے ہم قطعاً متفق نہیں کہ مسیحی مذہب کا نام ظلم و تعصب اور مسیحی ہونے کا مطلب تمام غیر مسیحیوں کے حقوق کو پامال کرنا ہے۔ مولانا کا مسیحی مذہب کے بارے میں تصور اِسلامی بلکہ خود مسیحی تعلیمات کے خلاف ہے۔ مثلاً انجیلِ متی کے باب نمبر 5 میں یسوع مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں:
مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے۔ (آیت 5)
مبارک ہیں وہ جو رحم دل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جائے گا۔ (آیت 7)
مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔ (آیت 8)
مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔ (آیت 9)
کیا ان آیات میں دہشت گردی اور ظلم و تعصب کی تعلیم دی گئی ہے؟
جس طرح مولانا سمیع الحق کی منطق نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو مسیحیت کا نمائندہ قرار دے کر مسیحیت کو دہشت گردی کا مذہب قرار دیا ہے، تو اُسی منطق کو اپناتے ہوئے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دہشت گردوں کی مبنی بر جہالت کارروائیوں کو اسلام کے تصورِ ِجہاد سے منسوب کر کے اسلام کو بھی دہشت گرد مذہب قرار دینے کی کوشش کرے، جیسا کہ آج کل مغربی میڈیا اسی منطق پر عمل پیرا ہے۔
مسیحیت کی بنیاد بائبل کے متن پر ہے، امریکی خارجہ پالیسی پر نہیں؛ بالکل جیسے اسلام کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی پر نہیں۔ چند بُرے پیروکاروں یا سیاسی حکومتوں کی بدکرداری اور بد اَعمالی پر کسی مذہب کے خلاف فتوی نہیں دیا جا سکتا۔ اِس نکتہ پر ہم آگے چل کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرمان - إِعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرِفْ أَهْلَهِ. (پہلے حق کو پہچانو! پھر اَہلِ حق کو بھی پہچان لو گے) - کے عنوان کے مزید گفت گو تحت کریں گے۔
ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں۔ سلفی مکتب فکر کے نمائندہ پبلشر ’دار السلام‘ نے مرکزی جمعیت اَہل حدیث پاکستان کے معروف عالم دین اور سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی 28 سالہ علمی و فکری کاوشوں پر مبنی کتاب بعنوان ’عیسائیت: مطالعہ و تجزیہ‘ شائع کی ہے۔ کالم نگار روزنامہ ’پاکستان‘ کے رانا محمد شفیق خان پسروری اس کتاب پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں:
گزشتہ روز ہمدرد سنٹر لاہور میں جناب پروفیسر ساجد میر کی نئی کتاب ’عیسائیت: مطالعہ و تجزیہ‘ کی تقریب رونمائی ہوئی جس کی صدارت جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ نے کی اور جسٹس (ر) خلیل الرحمن (جو اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں ریکٹر ہیں)۔ پروفیسر محمد یحییٰ، جناب مجیب الرحمن شامی، ڈاکٹر محمد ادریس زبیر سمیت متعدد صاحبانِ بصیرت نے مذکورہ کتاب پر تنقیدی خطابات فرمائے اور اس کتاب کو دور حاضر کی ایک بہترین کاوش قرار دیا۔ جناب مجیب الرحمن شامی نے کہا: ’یہ کتاب مسیحی بھائیوں کے لیے نئے سال کا بہترین تحفہ ہے اور مسلمانوں کے لیے بھی ایک سوغات ہے‘۔ جناب جسٹس خلیل الرحمن نے فرمایا: ’یہ کتاب خوف و دہشت کی فضا میں (جب کہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے) تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ امید ہے اس سے نئے پھول کھلیں گے۔ یہ کتاب عیسائی دنیا بلکہ خود پاکستان کے لیے بھی بہت ضروری ہے‘۔
پروفیسر ساجد میر، عیسائیت: مطالعہ و تجزیہ، ص:18-19، دار السلام پبلشر
پھر لکھتے ہیں:
جناب پروفیسر ساجد میر کی کتاب اس ’تلخی و تیزی‘ میں سامنے آئی ہے، عام ذہن یہ تھا کہ اس کتاب میں عیسائی دنیا پر تابڑ توڑ حملے ہوں گے لیکن کتاب پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ جناب میر نے اپنی طبع کے مطابق الفاظ کو چن چن کر رقم کیا ہے اور پوری کتاب میں کسی جگہ بھی خلافِ واقعہ اور اَخلاق سے بعید عبارت آرائی نہیں کی۔ جو کچھ لکھا ہے باحوالہ اور عیسائی کتب ہی سے لکھا ہے۔(2)
(2) ایضاً، ص:19
پھر لکھتے ہیں:
کتاب پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس کا مواد جمع کرنے کے لیے کتنی محنت کی ہو گی۔ وہ خود فرماتے ہیں: ’’میں نے اس کا مواد جمع کرنے میں تقریباً 28 سال لگا دیے اوردنیا کی تمام متعلقہ لائبریریوں کی خاک چھانی ہے۔(3)
(3) ایضاً، ص:20
خود علامہ ساجد فرماتے ہیں:
اس کوشش میں اردو، انگریزی، عربی اور بعض دیگر زبانوں میں لکھی ہوئی کتنی کتابیں کھنگالی گئیں، اس کا اندازہ کتاب پڑھنے سے ہوسکتا ہے۔ بائبل کے علاوہ عیسائیوں کی دوسری معتبر و مستند کتابوں اور بیسیوں بنیادی مراجع اور مصادر کے سیکڑوں حوالے اس کتاب کی زینت ہیں؛ جو یورپ، ایشیا، امریکہ اور افریقہ کے سیکڑوں و متعدد کتب خانوں اور لائبریریوں سے حاصل کیے گئے۔
(1) ایضا، ص:23
پھر لکھتے ہیں:
مجھے عیسائیت کے گہرے مطالعہ اور عیسائی علماء سے تبادلہِ خیال کا موقع افریقہ میں اپنے کئی سالہ قیام کے عرصہ میں ملا۔ پھر میں یورپ اور امریکہ کے مختلف اَسفار کے دوران وہاں کی بڑی لائبریریوں (جن میں برٹش لائبریری اور سنٹرل کیتھولک لائبریری خصوصاً قابل ذکر ہیں) سے استفادہ کرتا رہا۔ پاکستان اور بعض عرب ممالک کی لائبریریوں سے بھی مفید مواد حاصل ہوا لیکن مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اس مواد کی ترتیب وتدوین کی تحریک میرے مرحوم دوست علامہ احسان الٰہی ظہیر کی طرف سے ہوئی۔(2)
(2) ایضاً، ص:23-24
ان تمام تبصروں اورکلماتِ تحسین کو پڑھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب مذاہبِ عالم کے قارئین و شائقین کے ذہنوں میں ایک اِنقلاب برپا کر دے گی۔ علامہ ساجد میر نے اپنی 28 سالہ علمی و فکری کاوشوں کا نچوڑ اس کتاب کے آخری باب بعنوان ’خاتمۃ الکلام‘ میں بیان کردیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
یہ بات عقل انسانی کی حیرت انگیز پیچیدگی اور کمزوری، نیز انسان کی اپنے سچے یا جھوٹے عقیدہ سے بے پناہ جذباتی وابستگی پر دلالت کرتی ہے کہ پاپاؤں، کارڈینلوں، راہبوں اور پادریوںکی مکروہ ترین بدکرداری، ظلم، شقاوت، بددیانتی، دنیا پرستی، ہوسِ جاہ اور دھوکہ دہی سے حتمی طور پر آگاہ ہو جانے کے باوجود نہ صرف عیسائی عوام بلکہ بہت سے صاحبانِ عقل و خرد بھی پادریوں اور پاپاؤں کے نام نہاد تقدس کو مانتے رہیں اور ان کے اس مذہب سے چمٹے رہیں جس کے وہ علم بردار ہیں اورجو بالواسطہ و بلاواسطہ طور پر ان کی ساری اَخلاقی و عملی خرابیوں کا ذِمہ دار ہے۔عقلِ اِنسانی کی اِس کمزوری اور مذہب و عقیدت سے بلادلیل وابستگی ہی سے فائدہ اٹھا کر کٹر مسیحی اپنے مذہبی پیشواؤں کی بدکاریوں اور اَخلاقی خرابیوں کے جملہ ریکارڈ کے باوجود اب بھی پاپائیت اور کلیسا کو بنیادی اور مجموعی طور پر پاک، مقدس اور ’روح القدس کی خصوصی حفاظت کے تحت‘ مانتے ہیں۔ اور غلط کار و بدقماش مذہبی رہنماؤں اور پاپاؤں کی ایک کثیر تعداد کی بے پناہ بداَخلاقی کو عوام اور خود اپنے ضمیر سے، اس ظالمانہ اِجمال کے پردہ میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔(1)
(1) ایضاً، ص:492
آگے لکھتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ مذہبی پیشواؤں کی خرابیاں اگر محدود اور اِنفرادی پیمانہ پر ہوں تو اس قول کی صحت قابلِ تسلیم ہو سکتی ہے۔ لیکن جب خرابیاں ہمہ گیر اور اِنتہائی شدید نوعیت کی ہوں، تو یہ لازماً عقیدہ و مذہب کی بنیادی خرابی پر دلالت کریں گی۔
ایضاً، ص:493
پھر لکھتے ہیں:
اتنے بلند بانگ دعووں اور نعروں کے پس منظر میں اتنی اونچی سطح پر ایسی شدید اور ہمہ گیر خباثتیں، جن کا مقابلہ کسی مذہب کی تاریخ نہیں کر سکتی، یقینا مسیحی عقائد کے بعض بنیادی نقائص پر مبنی ہیں۔
ایضاً، ص:494
اور پھر اپنی ساری زندگی کا تحقیقی نچوڑ ان لفظوں میں پیش کرتے ہیں:
اندریں حالات یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ پاپاؤں، راہبوں اور دوسرے مسیحی پیشواؤں کا گھناؤنا کردار، ان کے مذہبی نظریات و عقائد ہی کے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔
ایضاً، ص:495
پاپاؤں، کارڈینلوں، راہبوں اور پادریوں کی مکروہ ترین بدکرداری۔۔۔ ظلم، شقاوت ۔۔۔ بددیانتی۔۔۔ دنیا پرستی۔۔۔ ہوس جاہ اور دھوکہ دہی۔۔۔ مسیحی مذہبی پیشواؤں کی بدکاریوں اوراخلاقی خرابیوں۔۔۔ غلط کار و بدقماش مذہبی رہنماؤں۔۔۔ پاپاؤں کی بے پناہ بد اَخلاقی۔۔۔ شدید اور ہمہ گیر خباثتیں۔۔۔ پاپاؤں، راہبوں اور مسیحی پیشواؤں کا گھناؤنا کردار۔
روزنامہ پاکستان کے کالم نگار رانا محمد شفیق خان، علامہ ساجد میر کو ان الفاظ کے انتخاب پر انہیں یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
اُسلوبِ نگارش مناظرانہ نہیں، خالصتاً حکیمانہ ہے ... اندازِ بیان سادہ اور دل نشین ہے ... علم، تحقیق اور ادب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
رانا محمد شفیق اگر قرآن مجید کی اس آیت کو پڑھ لیتے تو شا یداپنے خراجِ تحسین پر نظرثانی فرما لیتے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ فَيَسُبُّوا اﷲَ عَدْوًم ا بِغَيْرِ عِلْمٍط کَذٰلِکَ زَيَّنَّا لِکُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْص ثُمَّ اِلٰی رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَ}
الانعام،6 : 108
اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر فرقہ (وجماعت) کے لیے ان کا عمل (ان کی آنکھوں میں) مرغوب کر رکھا ہے (اور وہ اسی کو حق سمجھتے رہتے ہیں) پھر سب کو اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہ انہیں ان اعمال کے نتائج سے آگاہ فرما دے گا جو وہ انجام دیتے تھے۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی اس آیت کی تفسیر یوں فرماتے ہیں:
یہ نصیحت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیرووں کو کی گئی ہے کہ اپنی تبلیغ کے جوش میں وہ اتنے بے قابو نہ ہو جائیں کہ مناظرہ و بحث و تکرار سے معاملہ بڑھتے بڑھتے غیر مسلموں کے عقائد پر سخت حملے کرنے اور ان کے پیشواؤں اور معبودوں کو گالیاں دینے تک نوبت پہنچ آئے، کیونکہ یہ چیز ان کو حق سے قریب لانے کے بجائے اور زیادہ دور پھینک دے گی۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، جلد:1، ص:571
پیر محمد کرم شاہ الازہری اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
مبلغ اگر صحیح تربیت یافتہ نہ ہو تو اپنے نظریات و عقائد کی تبلیغ و اِشاعت کے جوش میں وہ حدِ اِعتدال سے تجاوز کر جاتا ہے اور معقولیت کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے نظریات اور عقائد کے متعلق اس کے سامعین کے دلوں میں نفرت اور تعصب پیدا ہو جاتا ہے اور بسا اوقات نوبت گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہے۔ اس آیت سے مبلغینِ اِسلام کی تربیت مقصود ہے تاکہ وہ اِسلام کی دعوت کو پوری شائستگی اور متانت سے پہنچانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ انہیں حکم دیا کہ مشرکین کے باطل خداؤں کو برا بھلا نہ کہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مشتعل ہو کر تمہارے معبودِ حق کی جناب میں گستاخی کرنے لگیں۔ اس انداز سے انہیں اِسلام کا پیغام پہنچاؤ اور ان کے عقائدِ باطلہ کی تردید کرو کہ انہیں تمہاری دعوت قبول کرنے کے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہ رہے۔
پیر محمد کرم شاہ الازہری، تفسیر ضیاء القرآن، جلد:1، ص:590
مولانا مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں:
جو کام اپنی ذات کے اعتبار سے جائز بلکہ کسی درجہ میں محمود بھی ہو مگر اس کے کرنے سے کوئی فساد لازم آتا ہو، یا اس کے نتیجہ میں لوگ مبتلائے معصیت ہوتے ہوں تو وہ کام بھی ممنوع ہو جاتا ہے، کیونکہ معبودانِ باطلہ یعنی بتوں کو برا کہنا کم اَز کم جائز تو ضرورہے، اور ایمانی غیرت کے تقاضا سے کہا جائے تو شاید اپنی ذات میں ثواب اور محمود بھی ہو، مگر چونکہ اس کے نتیجہ میں یہ اندیشہ ہوگیا کہ لوگ اللہ جل شانہ کو برا کہیں گے تو بتوں کو برا کہنے والے اس کی برائی کا سبب بن جائیں گے۔ اس لیے اس جائز کام کو بھی منع کر دیا گیا۔
مفتی محمد شفیع، تفسیر معارف ا لقرآن، جلد:3، ص:421
ایک اور مقام پر قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
{وَلَا تُجَادِلُوْا اَهْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ}
العنکبوت، 29 : 46
اور (اے مومنو!) اہلِ کتاب سے نہ جھگڑا کرو مگر ایسے طریقہ سے جو بہتر ہو۔
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:
جویہودی یا نصرانی دینی اُمور کو سمجھنا چاہے اسے مہذب طریقے پر سلجھے ہوئے پیرائے سے سمجھا دینا چاہیے۔ کیا عجب کہ وہ راہِ راست سے پیار کرلے، جیسے ایک اور آیت میں عام حکم موجود ہے: {اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ} ’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے‘۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو جب فرعون کی طرف بھیجا جاتا ہے تو فرمان ہوتا ہے: {فَقُوْلَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَکَّرُ اَوْ يَخْشٰی} ;’سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے‘۔ یہی قول امام ابن جریر کا پسندیدہ ہے اور حضرت ابن زید رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے۔
(1) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، جلد: 4، ص: 3
سید ابو الاعلیٰ مودودی فرماتے ہیں:
یعنی مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ، مہذب اور شائستہ زبان میں اور اِفہام و تفہیم کی سپرٹ میں ہونا چاہیے تاکہ جس شخص سے بحث کی جا رہی ہو اس کے خیالات کی اِصلاح ہوسکے۔ مبلغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتار دے اور اسے راہِ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مدمقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ رکھتا ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ نہ بڑھ جائے، اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفایاب ہو جائے۔ یہ ہدایت اِس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اَہلِ کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں دی گئی ہے، مگر یہ اَہلِ کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغِ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، جلد:3، ص:708
پیر محمد کرم شاہ الازہری فرماتے ہیں:
اَہلِ کتاب کو جب سمجھانے لگو تو تمہارا اُسلوبِ تبلیغ بڑا شائستہ اور پسندیدہ ہونا چاہیے۔ دلیل کی قوت اور برہان کی پختگی تو ہو لیکن اس میں خشونت اور سخت کلامی کی بو نہ پائی جائے؛ اپنے عقائد کی حقانیت اور اپنے دین کی صداقت کا روشن بیان تو ہو لیکن اس میں ذاتی حملہ کا اثر نہ ہو۔
(3) پیر محمد کرم شاہ الازہری، تفسیر ضیاء القرآن، جلد:3، ص:539
ایک اور مقام پر سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 83 کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں کہ تعلیم و تبلیغ میں سخت کلامی کافر سے بھی درست نہیں:
{وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا} سے مراد قولِ اَحسن ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جب لوگوں سے خطاب کرے تو بات نرم کرے، خوش روئی اور کشادہ دلی سے کرے چاہے مخاطب نیک ہو یا بد، سنی ہو یا بدعتی، ہاں دین کے معاملہ میں مداہنت اور اس کی خاطر سے حق پوشی نہ کرے۔ وجہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جب موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو یہ ہدایت نامہ دیا کہ {فَقُوْلَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا} ;تو آج جو کلام کرنے والا ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہیں اور مخاطب کتنا ہی برا ہو فرعون سے زیادہ برا خبیث نہیں۔ حضرت طلحہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے امام تفسیر و حدیث عطاء سے کہا کہ آپ کے پاس فاسد عقیدے والے لوگ بھی جمع رہتے ہیں، مگر میرے مزاج میں تیزی ہے، میرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں تو میں ان کو سخت باتیں کہہ دیتا ہوں۔ حضرت عطاء نے فرمایاکہ ایسا نہ کیا کرو کیونکہ حق تعالیٰ کا حکم ہے: {وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا} ;تو اس میں یہودی او ر نصرانی بھی داخل ہیں، مسلمان خواہ کیسا ہی ہو وہ کیوں نہ داخل ہوگا۔(1) مفتی محمد شفیع، تفسیر معارف القرآن، جلد: 1، ص: 254
1915ء میں جب ’اَسرارِ خودی‘ شائع ہوئی تو اس کا ایک نسخہ علامہ نے اپنے والد کی خدمت میں بھیجا، جیسے وہ عام طور صبح کے وقت بڑے شوق کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ اس مثنوی میں علامہ نے حافظ شیرازی پر 35 اَشعار میں کڑی تنقید کی تھی اور اس کے مقابلے عرفی کو سراہا تھا۔ یہ مثنوی جب چھپ کر منظر عام پر آئی تو اُس پر بڑی لے دے ہوئی۔ خاص طور پر صوفیوں کے حلقوں میں مخالفت کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُن کی طرف سے اخبارات میں مثنوی کی مخالفت میں مضامین شائع ہوئے۔ بعض ناقدین نے اعتراض کو یہ رنگ تک دے دیا کہ اس مثنوی کا مصنف مسلمانوں کو مغربی خیالات و افکار سکھانا اور ان کو فرنگیت کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ ایک صاحب (خان بہادر پیر زادہ مظفر احمد فضلی) نے ’’راز بے خودی‘‘ کے نام سے ایک جوابی مثنوی چھپوائی، جس میں علامہ کو جی بھر کر بُرا بھلا کہا گیا۔ صرف ایک شعر سے اس مثنوی کے لہجے کی تلخی، انداز بیان کی درشتی اور تنقید کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
بندہِ دنیا بہ دنیا دیں فروش
سر بسر ملت فروش، آئیں فروش
علامہ کی مثنوی ’اَسرارِ خودی‘ کے خلاف جب یہ ہنگامہ گرم تھا، انہی دنوں علامہ سیالکوٹ تشریف لائے اور باپ بیٹا یک جا بیٹھے تو مثنوی پر حلقہ صوفیاء کی برہمی کا ذکر آیا۔ علامہ نے فرمایا کہ میں نے حافظ کی ذات اور شخصیت پر اعتراض نہیں کیا۔ میں نے صرف ایک اصول کی تشریح کی ہے۔ اس کا افسوس ہے کہ مسلمانانِ وطن پر عجمی اَثرات اس قدر غالب آچکے ہیں کہ وہ زہر کو آب حیات سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبال کے والد بزگوار نے بڑی مرنجاں مرنج طبیعت پائی تھی۔ انہوں نے اس پر فرمایا کہ اگر حافظ کے عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس لگائے بغیر اصول کی تشریح کر دی جاتی ہے تو اچھا تھا۔ علامہ نے اس کے جواب میں کہا یہ ’’حافظ پرستی‘‘ بھی تو بت پرستی سے کم نہیں۔ اس پر اُن کے والد نے فرمایا کہ اللہ اور اُس کے رسول نے تو بتوں کو بھی برُا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لیے مثنوی کے وہ اشعار جن پر عقیدت مندانِ حافظ کو اعتراض ہے، آئندہ ایڈیشن میں اُن کے حذف کر دینا ہی مناسب ہو گا۔ علامہ نے اس پر زبان سے کچھ نہیں کہا، بس مسکرا کر رہ گئے اور اپنے والد محترم سے بحث کرنے کی بجائے اُن کے حضور سر تسلیم خم کر دیا۔ بعد کی اشاعتوں میں علامہ نے وہ 35 اَشعار مثنوی سے خارج کر دیے۔
روزگارِ فقیر، جلد:2، ص:164-165، مطبوعہ لائن آرٹ پریس کراچی، اگست 1965ء
بہرحال محترم جناب علامہ ساجد میر کی یہ کتاب - ’عیسائیت: مطالعہ و تجزیہ‘ - مختلف تراجم کے تحت پوری دنیا میں مارکیٹ کی جا رہی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس کتاب میں پیش کردہ علمی دلائل کی نوعیت اور بنیاد کیاہے؟ مسیحی مذہب اور اُس کے مذہبی رہنماؤں کے حق میں کس قدر نامناسب الفاظ اور غیر عالمانہ طرزِ تحریر اختیار کیا گیا ہے۔ ہم قاری کی توجہ مولانا کی اختیار کردہ منطق کی طرف دلانا چاہتے ہیں۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہُ کا فرمان ہے:
لَا تَعْرِفِ الْحَقَّ بِالرِّجَالِ، اِعْرِفِ الْحَقَّ، تَعْرِفْ اَهْلَهُ
(1) غزالی، إحياء علوم الدين، ج:1، ص: 53
حق کو لوگوں کے ذریعے نہ پہچانو بلکہ پہلے حق کو پہچانو، پھر اَہلِ حق کو خود پہچان جاؤ گے۔
علامہ ساجد میر (اور مولانا سمیع الحق نے بھی اپنے جواب میں) اپنی تحقیق سے اس منطقی اصول کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کسی دوسرے مذہب کے معاشرے اور علماء دین میں پائے جانے والا بگاڑ دراصل اس مذہب کے اپنے غلط اور بگڑے ہوئے عقائد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر ہم اس منطقی اُصول کو شرعاً، اَخلاقاً اور عقلاًدرست تسلیم کرلیں تو پھر اسے دنیا بھر کے اسلامی معاشروں اور مسلمانوں پر بھی لاگو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوناچاہیے۔ چنانچہ اس منطقی اُصول کے مطابق کوئی جاہل شخص نام نہاد علماے دین اور جعلی پیر و فقیر کی بدکرداری کا ذمہ دار بھی اِسلامی عقائد و نظریات کو ٹھہرا سکتا ہے۔ محترم علامہ ساجد میر نے جس منطقی اُصول کے تحت مسیحیت کو باطل مذہب قرار دیا ہے، اُسی منطق کو اِستعمال کرتے ہوئے کوئی غیر مسلم مسلمانوں کی جہالت و ضلالت کی بنا پر اسلام کوبھی باطل مذہب ٹھہرا سکتا ہے۔(معاذ اﷲ، اَستغفر اﷲ)
خود بائبل مقدس کی تعلیمات کے مطابق یسوع مسیح علیہ السلام نے قول و فعل کے تضاد میں مبتلا بدکردار لوگوں کی نشان دہی اپنی حیات ہی میں فرما دی تھی۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
جو مجھ سے اے خداوند! اے خداوند! کہتے ہیں ان میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہوگا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔ اس دن بہتیرے مجھ سے یہ کہیں گے اے خداوند اے خداوند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی اور تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے؟ اس وقت میں ان سے صاف کہہ دوں گا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو! میرے پاس سے چلے جاؤ۔
انجیل متی، 7: 20-23
مسیحی مفسر جان سی رائیل اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اس حوالے میں پہلا سبق یہ ہے کہ ظاہری طور پر مسیحیت کا محض اقرار کرنا بے فائدہ ہے: ہر وہ شخص جو ’خداوند، خداوند!‘ کہتا ہے وہ خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوگا۔ اسی طرح وہ سب جو اپنے آپ کو مسیحی کہلواتے ہیں وہ سب نجات نہیں پائیں گے۔ آئیے! اس نکتہ پر ذرا مزید غور کریں۔ ایک گنہگار کی نجات کے لیے اکثر لوگوں کی سمجھ اور توقعات سے بہت زیادہ باتوں کی ضرورت ہے۔ مثلا ہو سکتا ہے کہ ہم نے المسیح کے نام پر بپتسمہ لیا ہو، اپنے کلیسائی تعلقات پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہوں اور دوسروں کے روحانی رہنما ہوں بلکہ اپنی کلیسا کے تعلق سے ہم نے ’بڑے بڑے کام‘ بھی کیے ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان باتوں میں ہم نے عملی طور پر اپنے آسمانی باپ کی مرضی کو پورا کیا ہے؟ یعنی کیا ہم نے خلوصِ دل سے اپنے گناہوں سے توبہ کی ہے، اپنے گناہوں کی معافی اور نجات کے لیے صرف المسیح کے بہائے ہوئے خون پر بھروسہ کیا ہے، یعنی اس پر ایمان لائے ہیں؟ نیز ہم پاکیزہ اور فروتن زندگی بسر کرتے ہیں؟ عزیزو! اگر ایسا نہیں ہے تو ہم ہر قسم کے زبانی اِقرار اور خدمت کے باوجود در حقیقت گمراہ ہیں اور یقینا رد کیے جائیں گے۔ ہمیں منجی العالمین خداوند یسوع المسیح کے وہ غضبناک الفاظ ضرور سننے پڑیں گے کہ ’میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی۔ اے بدکارو! میرے پاس چلے جاؤ‘۔(1)
(1) جان سی رائیل، تفسیر متی کی انجیل، ص:103-104، مترجم عارف خان، مطبوعہ بیت الشمس کرسچین بک سروس اسلام آباد
ایک اور مقام پر نام نہاد پیروں، فقیروں اور علماے دین کو مخاطب کرکے فرمایا:
اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پرافسوس کہ ایک مرید کرنے کے لیے تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہو چکتا ہے تو اسے اپنے سے دُونا جہنم کا فرزند بنا دیتے ہو۔
انجیل متی، 23: 15
جان سی رائیل اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وہ لوگوں کو اپنا پیروکار بنانے اور اپنے عقائد کو تسلیم کروانے کے لیے مسلسل محنت و مشقت کرتے۔ وہ یہ سب کچھ لوگوں کی روحوں کے مفاد اور انہیں خدا کی قربت میں لانے کی خواہش سے بالاتر ہو کر کرتے۔ ان کے سامنے صرف ایک مقصد تھا اور وہ یہ کہ کسی طرح اپنے فرقے کی صفوں کو مضبوط، اپنے حامیوں کی تعداد اور اپنی ذاتی اہمیت میں اضافہ کریں۔ ان کے مذہبی جوش اور ولولے کی بنیاد الٰہی محبت نہیں تھی بلکہ تفرقہ بازی تھی۔ یہ بھی ان کا عظیم گناہ تھا۔
جان سی رائیل، تفسیر متی کی انجیل، ص: 343، مترجم عارف خان، مطبوعہ بیت الشمس کرسچین بک سروس اسلام آباد
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری زمانے میں رونما ہونے والے کئی ایسے فتنوں کا ذکر فرمایا ہے جن میںسے بعض لوگوں کو قرآن اور عبادات سے ظاہری لگاؤ کے باوجود لادین اور گمراہ قرار دیا گیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایسے افراد کی علامات و کردار پر احادیث کوعلیحدہ سے ’الإِنْتِبَاهُ لِلْخَوَارِجِ وَالْحرُوْرَاء‘ کے نام سے کتابی شکل میں ترتیب دے دیا ہے۔
ایک متفق علیہ حدیث میں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هٰذَا قَوْمًا يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ. يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ. يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلَامِ وَيَدَعُوْنَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ. لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ - وَفِي لَفْظٍ: - ثَمُوْدَ.
صحيح بخاری، کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالی: تعرج الملائکة والروح إليه، ج:6، ص:2702، رقم:6995
صحيح بخاری، کتاب الانبياء، باب قول اﷲ: واما عاد فاهلکوا بريح صرصر شديدة عاتية، ج:3، ص:1219، رقم:3166
صحيح مسلم، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، ج:2، ص:741، رقم:1064
اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔ ایک روایت میں (’عاد‘ کی جگہ) ’ثمود‘ کا لفظ ہے۔
ایک اور مقام پر انہی لوگوں کی علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلٰی مِنَ السُّکْرِ، وَقُلُوْبُهُمْ قُلُوْبُ الذِّئَابِ.
(1) ترمذی، السنن، کتاب الزهد، باب 59، ج:4، ص:604، رقم: 2404- 2405
ان کی زبانیں شکر سے زیادہ میٹھی ہوں گی مگر ان کے دل بھیڑیوں کے سے ہوں گے۔
’صحیح بخاری‘ میں ہے کہ جب مسلمانوں میں بعض خائن اور بد دیانت لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت والے دن مدد طلب کرتے ہوئے کہیں گے کہ:
يَا رَسُولَ اﷲِ! أَغِثْنِي.
یا رسول اﷲ! میری مدد فرمائیے۔
اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے کرپٹ لوگوں سے فرمائیں گے:
لَا أَمْلِکُ لَکَ مِنَ اﷲِ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ.
(1) صحيح بخاری، کتاب الجهاد والسير، باب الغلول، ج:3، ص:1118، رقم:2908
اب میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے خدا کا حکم تمہیں پہنچا دیا تھا۔
چنانچہ اِن اَقوالِ مسیح علیہ السلام اور احادیثِ نبوی سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بُرے لوگ ہر قوم و مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ بُرے لوگوں کی برائی کی بنیاد پر کسی بھی مذہب کو بُرا کہنا درست نہیں۔ مذہب کی بنیاد اُس کی اِلہامی کتاب کے متن اور مجموعی تعلیمات پر ہوتی ہے۔ تعلیمات کی بنیاد پر مذہب کو غلط کہنا اور بات ہے اور کسی پیروکار کی بد اَعمالی کی بنیاد پر مذہب کو بُرا قرار دے دینا ایک دوسری بات ہے۔
اسلام میں یہ بات واضح ہے کہ جس طرح اچھے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اُسی طرح بُرے لوگ بھی ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ مغرب برائی کا نمائندہ نہیں بالکل اسی طرح جس طرح مشرق اچھائی کا نمائندہ نہیں۔ شیطان کے لیے مشرق و مغرب کی تفریق کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ مسیحیت اور بالخصوص اِسلام کے نزدیک مشرق و مغرب کی تفریق بذاتِ خود ایک غلط تصور ہے۔ اِسلام اِنسانیت کو مشرق و مغرب میں تقسیم کرنے کی بجائے عالم گیریت اور وحدتِ اِنسانی پر یقین رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَ ِﷲِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اﷲِط اِنَّ اﷲَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ}
البقرة، 2: 115
اور مشرق و مغرب (سب) اللہ ہی کا ہے، پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے (یعنی ہر سمت ہی اللہ کی ذات جلوہ گر ہے)، بے شک اللہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے۔
وحدتِ اِنسانی کا یہی تصور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں یوں دیا کہ:
يا أَيها الناس! إن ربکم واحد وإن أباکم واحد. أَلا! لا فضل لعربي علی عجمي ولا لعجمي علی عربي، ولا لِأَحمر علی أَسود ولا لِأَسود علی أَحمر الا بالتقوی. أبلغت؟ قالو: بلغ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم . ... قال صلی الله عليه وآله وسلم : فليبلغ الشاهد الغائب.
احمد بن حنبل، المسند، ج:5، ص:411، رقم:23536
اے لوگو! تم سب کا رب ایک ہے اور تم سب کا باپ ایک ہے۔ آگاہ ہوجاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں، نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری حاصل ہے۔ کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری ہے سوائے تقویٰ کے۔ بے شک تم سب میں سے اﷲ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ سنو! کیا میں نے تم تک دعوتِ حق کی بات پہنچا دی؟ لوگوں نے جواب دیا: جی! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہنچا دی ہے۔ ... آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ اس (دعوتِ حق) کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔
کیا ہم علامہ ساجد میر کے منطقی اُصول کو اپنا کر دہشت گردی کو اِسلام کے تصورِ جہاد کی وجہ قرار دیں؟ کیا ہم اسامہ بن لادن سے منسوب دہشت گردی کو اِسلامی عقائد و نظریات میں بگاڑ کی وجہ قراردیں؟ حالانکہ یہی منطق 11/9 کے بعد بہت سے مغربی حکومتی نمائندوں کی بھی ہے۔ حضور یسوع مسیح علیہ السلام نے حق فرمایا:
{... اور جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے واسطے ناپا جائے گا۔}
(1) انجیل متی، 7:2
جب معاشرے کے بعض ’علماء حق‘ کا یہ حال ہوگا تو عوام الناس بھی اِسی طرزِ فکر کو دینی غیرت کا تقاضا سمجھتے ہوئے کسی سے کیا پیچھے رہیں گے!
محترم محمد متین خالد ردِ قادیانیت کے میدان میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ آپ ردِّ قادیانیت پر اپنی کتاب ’ثبوت حاضر ہیں‘ کے حوالہ سے بہت مشہور ہیں۔ آپ کی ’رد عیسائیت‘ پر دو کتب چھپ کر مارکیٹ میں آئی ہیں۔ آپ کی 500 سے زائد صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب بعنوان ’پادریوں کے کرتوت‘ شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے عنوان ہی سے اس کی ’علمی سطح‘ کا اندازہ ہو جاتا ہے، بالخصوص جب اس کی فہرست میں:
جیسے عنوانات کے تحت مضامین بھی شامل ہوں۔ محترم محمد متین خالد اپنی اس کتاب کے پیش لفظ ’دربار کی زینت بھی ہیں، بازار میں رُسوا بھی ہیں‘ میں لکھتے ہیں:
پادریوں کی اکثریت عیاش، عیار، زر پرست اور پیٹ پرست ہے۔ انہیں بھاری بینک بیلنس، عمدہ گاڑیاں، قیمتی موبائل اور اعلیٰ ملبوسات کا چسکا چین نہیں لینے دیتا۔ انہوں نے بھاری بھرکم ’عطیات‘ وصول کرنے پر کمر باندھ رکھی ہے۔ بچوں اور راہبات (nuns) سے شیطانی جنسی ہوس پورا کرنا اُن کا معمول ہے۔ وہ فنڈز کی خرد برد، منشیات کی خرید و فروخت، طوائفوں کی سرپرستی اور ہم جنس پرستی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض اِس قدر ظالم اور پاپی ہیں کہ جبری جنسی زیادتی اور رنگ رلیوں کی سنگین وارداتوں سے بھی نہیں چوکتے۔
محمد متین خالد، پادریوں کے کرتوت، ص:11، مطبوعہ علم و عرفان پبلیشرز، لاہور
پھر فرماتے ہیں:
یہ ہے عیسائیت کا کلچر اور تمدن جو تیزی سے تنزل اور پستی کے غار کی نذر ہو رہا ہے۔ اس کی ظاہری آب وتاب اور وجاہت ختم ہو رہی ہے اور اندرونی خباثت کی سڑاند پھوٹ رہی ہے۔ دعویٰ مسیح کی پیروی کا ہے اور اطاعت ’راسپوٹین‘ کی کی جارہی ہے۔ عزت کے الفاظ عصمت کے متعلق استعمال کیے جاتے ہیں لیکن عملی زندگیاں حرام کاری اور آتشک کے لیے وقف ہیں۔ زبانی داد سچائی کو دیتے ہیں لیکن عملاً اِقتدار و اِختیار کی کرسیوں پر بددیانتوں کو بٹھاتے ہیں۔(2)
(2) ایضاً، ص:13-14
ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل آپ کی ایک دوسری کتاب ’عیسائیت کے تعاقب میں‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے پیش لفظ میں آپ لکھتے ہیں:
کلیسا کے بشپوں میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جو خدا کے خوف سے روتا ہو۔ راہبوں اور راہبات نے عبادت خانوں کو زنا خانوں میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ پہلے رہبانیت اور نفس کشی عیسائیت کا طرہ امتیاز ہوتا تھا، اب عیش کوشی، تن پروری اور شراب نوشی کو باعثِ اِفتخار سمجھا جاتا ہے۔
ذرا غور فرمائیے اس جملے پر کہ ’کلیسا کے بشپوں میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جو خدا کے خوف سے روتا ہو‘۔ اس جملے میں کتنی حقیقت اور تحقیق شامل ہے، ایک باشعور شخص اس کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی غیر مسلم جہالت سے یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ ’عالم اسلام میں کوئی ایک بھی عالم ایسا نہیں جو خدا کے خوف سے روتا ہو‘۔
ہم اگر بات دلیل سے نہیں کرسکتے تو کم ازکم تمیز اور سلیقے سے کرنی تو سیکھ سکتے ہیں۔ جب ہم اس نوعیت کی ’علمی و فکری گفتگو‘ فرمائیں گے تو دوسرے جواباً جہالت سے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اَقدس میں گستاخی نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے، خواہ وہ گستاخی کتاب لکھ کر کریں یا کارٹون بناکر۔ بعض غیر مسلموں کی گستاخی اور جسارت کی وجوہات میں ہماری ’دینی غیرت و حمیت‘ بھی تو شامل ہے۔ اسی لیے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَکَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ، فَيَسُبُّ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ.
صحيح بخاری، کتاب الادب، باب لا يَسُبُّ الرَّجل والديه، ج:5، ص:2228، رقم:5628
صحيح مسلم، کتاب الإيمان، باب بيان الکبائر واکبرها، ج:1، ص:92، رقم:90
کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اﷲ! کوئی آدمی اپنے والدین پر کس طرح لعنت کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی دوسرے آدمی کے والد کو گالی دیتا ہے تو وہ (جواباً) اس کے والد کو گالی دیتا ہے اور جب کوئی کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ (جواباً) اس کی ماں کو گالی دیتا ہے (گویا یہ خود اپنے ماں باپ کو گالی دینا ہے)۔
مولانا اشرف علی تھانوی سورۃ الانعام کی آیت نمبر 108 {وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ فَيَسُبُّوا اﷲَ عَدْوًم ا بِغَيْرِ عِلْمٍ} ’اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
غیر قوم سے مناظرہ کرنا تو جزوِ تبلیغ ہے لیکن دشنامی اور دل خراش الفاظ ان کے معظمین کے حق میں کہنا ممنوع لغیرہ ہے کہ وہ ہمارے معبود یا رُسل و معظمین کی شان میں گستاخی کریں گے تو گویا اس کے باعث ہم ہوئے۔
اشرف علی تھانوی، تفسیرسورۃ الانعام، آیت:108
مولانا شبیر احمد عثمانی اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یعنی تم تبلیغ و نصیحت کرکے اپنے فرض سے سبک دوش ہو چکے۔ اب جو کفر و شرک یہ لوگ کریں اس کے خود ذمہ دار ہیں۔ تم پر اس کی کچھ ذمہ داری نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ تم اپنی جانب سے بلاضرورت ان کے مزید کفر و لعنت کا سبب نہ بنو۔ مثلاً فرض کیجیے ان کے مذہب کی تردید اور بحث و مناظرہ کے سلسلہ میں تم غصہ ہو کر ان کے معبودوں اور مقتداؤں کو سب و شتم کرنے لگو، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ جواب میں تمہارے معبودِ برحق اور محترم بزرگوں کی بے ادبی کریں گے اور جہالت سے انہیں گالیاں دیں گے۔ اِس صورت میں اپنے واجب التعظیم معبود اور قابلِ اِحترام بزرگوں کی اِہانت کا سبب تم بنے۔ لہٰذا اس سے ہمیشہ اِحتراز کرنا چاہیے۔ کسی مذہب کے اُصول و فروع کی معقول طریقہ سے غلطیاں ظاہر کرنا یا اُس کی کمزوری اور رقاقت پر تحقیقی اور اِلزامی طریقوں سے متنبہ کرنا جداگانہ چیز ہے۔ لیکن کسی قوم کے پیشواؤں اور معبودوں کی نسبت بغرضِ تحقیر و توہین دِل خراش الفاظ نکالنا قرآن نے کسی وقت بھی جائز نہیں رکھا۔
(3) شبیر احمد عثمانی، تفسیرعثمانی، سورۃ الانعام، آیت:108
ہم اپنی خوش فہمی کو آگہی کہتے ہیں اور دوسروں کی آگہی کو غلط فہمی۔ ہم خود کو اَعلیٰ ترین سمجھتے ہیں اور دوسروں کو ادنیٰ ترین، حالانکہ اللہ کی بارگاہ میں معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ تبلیغِ دین جیسے پاکیزہ اور اعلیٰ ترین فرض کو سرانجام دیتے ہوئے ہمیں گھٹیا اور بازاری طرزِ گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بڑی خوبصورت بات فرمائی ہے:
مسجد کی تعمیر بڑا نیک کام ہے لیکن بینک میں ڈاکہ ڈال کر اس کی تعمیر کو کسی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ رحم کے مقاصد کبھی ظالمانہ طریقوں سے حاصل نہیں ہوتے اور مومنانہ عزائم کبھی کافرانہ روش سے پورے نہیں ہوتے۔ مختصر یہ کہ خیر، خیر ہی کے طریق سے آتی ہے، شر کے طریق سے نہیں۔ یہ اس دین کی عظمت اور طہارت ہے کہ اس نے منزل اور راستہ دونوں کی اِصلاح و تطہیر کی ہے، مقصد اور طریقہ دونوں کو پاکیزہ اور مہذب بنایا ہے۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، دہشت گردی اور فتنہ خوارج، ص:38
تبلیغِ دین میں صرف وہی طریقہ معاشرے میں برکت اور اِنقلابی تبدیلی لائے گا جس کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت سے درست طریقہ قرار دیا وگرنہ اسلام اور مسلمان دونوںبدنام ہوں گے۔
ہماری گفتگو ہماری شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے اور یہ ہماری فطرت، طبیعت اور تربیت کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے اﷲ تعالیٰ نے منافقوں کے لیے فرمایا: {فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيْمٰهُمْ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْقَوْلِ} ’آپ انہیں ان کے چہروں کی علامت سے ہی پہچان لیں، اور (اسی طرح) یقینا آپ ان کے اندازِ کلام سے بھی انہیں پہچان لیں گے‘(1) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان منافقوں کو ان کے چہروں اور طرزِ گفتگو سے پہچان لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے شمار معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف چہرہ دیکھ کر اور طرزِ گفتگو سے منافقین اور مومنین دونوں کی فطرت اور نیت جان جاتے تھے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فیض حسبِ حال اُمت میں جاری و ساری ہے۔
(1) محمد، 47:30
مولانا مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں:
ہماری تبلیغ و دعوت اور اِصلاحی کوششوں کو بے کار کرنے اور تفرقہ اور جنگ و جدل کی خلیج کو وسیع کرنے میں سب سے زیادہ دخل اس کو ہے کہ آج کل کے اَہلِ زبان اور اَہلِ قلم علماء نے عموماً دعوت و اِصلاح کے پیغمبرانہ طریقوں کو نظر انداز کر کے صحافیانہ زبان اور فقرے چست کرنے ہی کو بات میں وزن پیدا کرنے اور موثر بنانے کا ذریعہ سمجھ لیاہے اور تجربے اور مشاہدے سے واضح ہے کہ یہ ایک ایسا منحوس طریقہ ہے کہ اس سے کسی خطاکار یا گمراہ کی اِصلاح کی کبھی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ طریقِ کار ان کو ضد و ہٹ دھرمی پر اور زیادہ مضبوط کر دیتا ہے اور اِصلاح کے بجائے دلوں میں دشمنی کے بیج بوتا ہے اور عداوت کی آگ بھڑکاتا ہے۔ ہاں اپنے ہوا خواہوں اور معتقدین کے لیے کچھ دیر کا سامانِ تفریح ضرور ہو جاتا ہے اور ان کی دادِ سخن دینے سے لکھنے والے بھی کچھ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم نے دین کی بڑی اچھی خدمت کی ہے۔لیکن جو لوگ اس مضمون کے مخاطب ہوتے ہیں، ان کے دلوں سے پوچھئے کہ اگر کسی وقت ان کو اس بات کے حق ہونے کا یقین بھی ہو جائے تو یہ فقرہ بازی اور تمسخر و اِستہزاء کا طریق اُن کو حق کی طرف آنے سے مانع نہیں بن جاتا؟ اور انہیں ہمیشہ کے لیے اس داعی کا دشمن نہیں بنا دیتا ہے؟(1)
(1) مفتی محمد شفیع، وحدتِ اُمت، صفحہ نمبر:27، مطبوعہ مکتبہ خُدام القران لاہور
اﷲ تعالیٰ کو تبلیغِ دین میں نرم کلامی زیادہ پسند ہے۔ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے انہیں حکم فرمایا:
{فَقُوْلَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَکَّرُ اَوْ يَخْشٰی}
طٰهٰ، 20: 44
سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے۔
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
حکیمانہ اِستدلال ہو یا وعظ و نصیحت ہو یا جدال و مناظرہ ہو، ضرورت یہ ہے کہ داعی نرمی اور خیر خواہی سے باتیں کرے کہ سختی اور شدت کا طریق دوسرے کے دل میں نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا کرتا ہے اور کیسی ہی اچھی اور سچی بات ہو لیکن اِس قسم کے جذبات اس کے قبول کی اِستعداد اس سے سلب کر لیتے اور سننے والے میں اپنی غلطی پر ضد اور ہٹ پیدا کر دیتے ہیں، جس سے دعوت کا فائدہ اور نصیحت کا اثرباطل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن پاک نے اپنے پیغمبروں کو اپنے مخالف سے مخالف دشمن سے بھی نرمی ہی سے باتیں کرنے کی تاکید کی ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون جیسے سرکش کے سامنے پیغام لے کر جانے کی ہدایت ہوتی ہے تو ساتھ ارشاد ہوتا ہے: {اِذْهَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّهُ طَغٰیo فَقُوْلَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَکَّرُ اَوْ يَخْشٰی}(1) ’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سرکشی میں حد سے گزر چکا ہے۔ سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے‘۔ دعوت و تبلیغ میں رِفق و نرمی اور لطف و تحمل کی تعلیم کی اس سے بہتر مثال نہیں ہو سکتی کہ نہ کوئی داعی اور واعظ پیغمبروں سے بہترہو سکتا ہے اور نہ فرعون سے بڑھ کر کوئی مجرم ہو سکتا ہے۔ پھر ایسے مجرم کے سامنے اس لطف و نرمی سے وعظ و نصیحت کی تعلیم جب پیغمبروں کو ہوتی ہے، تو عام داعیوں، مبلغوں اور واعظوں کو عام مخالفوں، مجرموں اور سرکشوں کے ساتھ بدرجہا زیادہ رِفق و ملاطفت سے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔(2)
طٰهٰ، 20: 43-44
یہی بات مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں:
حق تعالیٰ نے جب موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو یہ ہدایت نامہ دیا کہ {فَقُوْلَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا} تو آج جو کلام کرنے والا ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہیں، اور مخاطب کتنا ہی برا ہو فرعون سے زیادہ برا خبیث نہیں۔
مفتی محمد شفیع، تفسیر معارف القرآن، جلد:1، ص:254
قرآن مجید میں بیان کردہ فرامین کی عملی مثال ہمیں سیرتِ طیبہ میں بھی نظر آتی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ j بیان فرماتی ہیں:
اسْتَاْذَنَ رَهْطٌ مِنَ الْيَهُوْدِ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالُوْا: اَلسَّامُ عَلَيْکَ. فَقُلْتُ: بَلْ عَلَيْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ. فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اﷲَ رَفِيْقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ کُلِّهِ. قُلْتُ: أَوَ لَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوْا؟ قَالَ: قُلْتُ: وَعَلَيْکُمْ.
صحيح بخاری، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب إذا عرض الذمي وغيره بسب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ولم يصرح نحو قوله: السام عليکم، ج:6، ص:2539، رقم:6528
صحيح مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل الرفق، ج:4، ص:2003، رقم:2593
کچھ یہودیوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، پھر کہا: (اَلسَّامُ عَلَيْکَ) ’(معاذ اﷲ!) تجھے موت آئے‘۔ تو میں نے کہا: تمہارے اُوپر موت ہو اور لعنت ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! بے شک اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور ہر معاملہ میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں عرض گزار ہوئی: (یا رسول اﷲ!) جو اُنہوں نے کہا وہ آپ نے نہیں سنا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے وَعَلَيْکُمْ کہہ دیا تھا۔
گفتگو میں نرمی و پاکیزگی اور کردار میں تقویٰ و طہارت انسان کی دُنیاوی اور دینی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ}
فاطر، 35: 10
اُسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اسے بلند کرتا ہے۔
ایک اور صاحب حکیم محمد عمران ثاقب نے’بائبل اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ بائبل کے تراجم میں اَغلاط کو ثابت کرتے ہوئے ایک مقام پر لکھتے ہیں:
بائبل کے مصلحین و مترجمین نہ صرف آوارہ ذہن اور عیاش مذہب تھے، بلکہ جس قدر یہ خود آوارہ تھے، اس سے کہیں بڑھ کر ان کے قلم بھی آوارہ نکلے کہ اپنوں کی بھی پہچان نہ رہی۔ شراب کے نشے میں دھت مترجمین اس کے سوا کر بھی کیا سکتے تھے؟
حکیم محمد عمران ثاقب، بائبل اور محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ص:201، مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ، اُردو بازار - لاہور
پروفیسر حافظ عاکف سعید کیلانی (ایم اے) محمد عمران ثاقب کو اس طرزِ تحریر پر یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں:
زیر نظر کتاب میں محترم جناب حکیم صاحب نے جہاں دلائل و براہین کی برسات کی ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ تحریر کا انداز بھی نہایت متین، سنجیدہ اور ناصحانہ اختیار کیا ہے۔
ایضاً، ص:13
اگر کوئی غیر مسلم قرآن مجید کے مترجمین و مفسرین کے متعلق یہ بات کرے تو ہمیں کیسا محسوس ہوگا؟ علمی بحث سے قطع نظر، کیا ہمیں اُس غیر مسلم کے طرزِ گفتگو پر دُکھ نہیں ہوگا؟ چنانچہ اَہلِ علم ہمیشہ سے تبلیغِ مذہب کے باب میں ایسے رویوں سے سختی سے اِجتناب برتتے آئے ہیں۔ شعبہ قانون و شریعت، بین الاقوامی یونی ورسٹی - اسلام آباد، کے محمد مشتاق احمد حکیم محمد عمران کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فاضل مؤلف نے کتاب کے لکھنے میں خاصی محنت کی ہے، اور تقریظ نگار، حافظ صلاح الدین یوسف کے الفاظ میں ’بائبل ہی سے کوہ کنی کر کے اسلام کی جوئے شیر نکالی ہے‘ (ص:12)؛ لیکن کتاب کا مقصد کیا ہے؟ اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ اپنے موضوع پر کوئی نئی تحقیق پیش کی گئی ہے یا سوچ کا کوئی نیا زاویہ سامنے لایا گیا ہے تو ایسی کوئی بات نہیں، اور اگر اس کا مقصد مسیحی حضرات کو سیدھی راہ دکھانا ہے تو شاید یہ مقصد اس لیے حاصل نہ ہوسکے گا کہ کتاب کا اُسلوب تحقیقی اور داعیانہ نہیں، بلکہ سراسر مناظرانہ ہے۔
محمد مشتاق احمد، شعبہ قانون و شریعت، بین الاقوامی یونی ورسٹی - اسلام آباد، بحوالہ نقطہ نظر، شمارہ:22 (اپریل-ستمبر، 2007ئ)، ص:29، مطبوعہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز - اسلام آباد
مناظراتی موضوعات پر کتب تخلیق کرتے وقت کیا یہ بہتر نہیںہوگا کہ ہم اپنی علمی و فکری تحقیقات کو حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد مبارک کی روشنی میں پرکھ لیں تاکہ ہماری تحقیق فتنوں کا قلع قمع کرنے کی بجائے بذات خود معاشرے میں فتنہ پیدا کرنے کا سبب نہ بن جائے۔ آپ فرماتے ہیں:
اَنْتَ هَوَسٌ تُؤلِّفُ کَلاَمَکَ مِنَ الْکِتَابِ وَتَتَکَلَّمُ بِهِ، اِنْ ضَاعَ کِتَابُکَ مَا تَصْنَعُ اَوْ وَقَعَ الْحَرِيْقُ فِی کُتُبِکَ اَوِ انْطَفَأَ مِصْبَاحُکَ الَّذِيْ تُبْصِرُ بِهِ، اِذَا انْکَسَرَتْ جَرَّتُکَ وَتَبَدَّدَ الْمَآءُ الَّذِيْ فِيْهَا، أَيْنَ مِقْدَحَتُکَ وَحِرَاقُکَ وَکِبْرِيْتُکَ وَ مَعِيْنُکَ؟ مَنْ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَمِلَ وَاَخْلَصَ صَارَتِ الْمِقْدَحَةُ وَالْمَعِيْنُ فِی قَلْبِهِ نُورَ اﷲِ فَيُضِیُ بِهِ وَهُوَ غَيْرُهُ.
تَنَحُّوْا، يَا اَبْنَآءَ اللَّقْلَقَةِ يَا اَبْنَآءَ الصُّحُفِ الْمُؤلَّفَةِ بِاَيْدِی النُّفُوْسِ وَاْلاَهْوِيَةِ. وَيْلَکُمْ تَنَازَعُوْنَ الْمَخْصُوْصَ تَنْقَصِمُوْنَ وَتَهْلِکُوْنَ وَلَا تَبْلُغُوْنَ حَظَّکُمْ. کَيْفَ تَتَغَيَّرُالسَّابِقَةُ وَالْعِلْمُ بِجَهْدِکُمْ؟ کُوْنُوْا مُؤمِنِيْنَ مُسْلِمِيْنَ.
عبد القادر جيلانی، الفتح الربانی
تو ہوس میں آکر کتابوں سے اپنا کلام ترتیب دیتا ہے اور پھر اس پر بات کرتا ہے۔ اگر تیری کتاب ضائع ہو جائے تو توُ کیا کرے گا یا تیری کتاب میں آگ لگ جائے یا تیرا وہ چراغ بجھ جائے جس سے توُ کتاب دیکھ رہا ہے؟ جب تیرا گھڑا ٹوٹ جائے اور اس کا پانی بہہ جائے تو کیا کرے گا؟ جس نے علم سیکھا اور عمل کیا اور اس پر قائم رہا تو وہ اس کے دل میں اللہ ل کا نور روشن کرنے کا چقماق اور سرچشمہ بن جاتا ہے جو اسے بھی ضیا بخشتا ہے اور دوسروں کو بھی۔ پرے ہٹو! اے نفس وہوا کے ہاتھوں مولفہ کتابوں کے بیٹو! افسوس ہے تم پر۔ تم مخصوص تنازعات میں پڑے رہتے ہو، توڑنے میں لگے رہتے ہو، ہلاک کرتے ہو اور اپنے حصے کا فرض پورا نہیں کرتے۔ تمہاری کوششوں سے صورت حال میں کیسے تبدیلی آئے؟ (پہلے سچے اور کامل) مومن و مسلمان بنو۔
دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے حق میں غیر مہذب طرزِ گفتگو کو ’دینی غیرت‘ کے نام پر فروغ دینے سے کس قسم کا معاشرہ وجود میں آتا ہے اس کی جھلک ہمیں سابقہ اقلیتی رُکن قومی اسمبلی جے سالک صاحب پر بیتے ہوئے ایک واقعہ میں نظر آتی ہے۔ عطاء الحق قاسمی اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اقلیتی ایم این اے جناب جے سالک کے بارے میں اخبارات نے اطلاع دی ہے کہ پولیس نے اِحتجاجاً صلیب پر چڑھے اس مسیحی رہنما کو صلیب سمیت نیچے گرایا اور ان پر لاٹھیاں برسائیں۔ ایک اخبار نے جے سالک سمیت پوری مسیحی برادری کے لیے ’بھنگی‘ اور ’چوڑھے‘ کے الفاظ ایک پولیس افسر کے حوالے سے استعمال کیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ خبر اگر درست ہے تو پاکستانی قوم کے لیے ایک کلنک کے ٹیکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جے سالک جیسے بھی ہیں وہ بہر حال ایم این اے ہیں اور پولیس نے ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے وہ محض اس تحقیر کی وجہ سے ہے جو پاکستانی قوم کی اِس قابلِ اِحترام اَقلیت کے حوالے سے ہمارے بعض پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں میں بھی موجود ہے۔ اِحساسِ کمتری کا شکار یہ طبقہ سفید فام مسیحی انگریزوں اور امریکیوں کے تلوے چاٹنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا لیکن اپنے ہم وطن مسیحی بھائیوں کے لیے گھٹیا الفاظ استعمال کر کے اپنی گھٹیا ذہنیت کے مظاہرے سے باز نہیں آتا۔ جن پولیس اہلکاروں نے سرعام قومی اسمبلی کے ایک رکن کی پٹائی کی میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ کسی مسلمان ایم این اے کے ساتھ اِس قسم کی حرکت کا تصور بھی کر سکتے تھے؟ ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ متحدہ ہندوستان میں ہندو بھی ہمیں اسی طرح حقیر سمجھتا تھا۔ ہم اس کے قریب سے بھی گزر جاتے تھے تو وہ ’ناپاک‘ ہو جاتا تھا۔ ہم ان کے برتنوں کو چھو نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ ہمیں ’اوک‘ میں پانی پلایا جاتا تھا۔ قیامِ پاکستان کے دوسرے محرکات میں سے ایک ہندو کی یہ تنگ دلی بھی تھی۔ اب اگر ہم اپنے ہم وطن بھائیوں کو تحقیر کی نظروں سے دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کے دور رس نتائج بھی یاد رکھنے چاہیں! پاکستان کی مسیحی اَقلیت بہت پراَمن اور محب وطن ہے۔ 65 کی جنگوںمیں مسلمان جاسوس تو بہت پکڑے گئے لیکن کوئی پاکستانی مسیحی اس گھناؤنے فعل کا مرتکب نہ پایا گیا۔ کیا ہماری پولیس اور عوام کے مختلف طبقے انہیں اسی ’جرم‘ کی سزا دینا چاہتے ہیں؟
روزنامہ نوائے وقت لاہور، 29 دسمبر 1991ء
ہمارے آج کے اِنہی مذہبی اور تبلیغی رویوں پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری لکھتے ہیں:
آج صورت حالات بعینہ ہے کہ ہم اپنی بات ماننے والوں پر خوش ہوتے ہیں لیکن جو ہماری کسی بات سے اختلاف کرے اسے کافر بنا کر اسلام سے خارج کر دیتے ہیں۔ ہم نے دین میں اپنی اِجارہ داریاں بنا رکھی ہیں۔ جس کے پاس تھوڑے اختیارات ہوں وہ دوسروں کو مسلک سے نکال دیتا ہے۔ جو تھوڑا بڑا ہو وہ دوسرے کو دائرہِ اِسلام ہی سے نکال دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ ہم نے اِسلام کو بازیچہِ اطفال بنا کر سکول کے ہیڈ ماسٹر کی طرح داخل خارج کا اِختیار اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے اُمت تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے لیکن اُمت سے نکالنے کا اختیار ہر کس و ناکس کے پاس ہے۔ اِسی طرح دین اِسلام تو اللہ کا ہے۔ وہ بندوں کے حال کو خود بہتر جانتا ہے لیکن دین کے داخل خارج کے انچارج بھی آج کے علماء دین بن گئے ہیں (اِلاّما شاء اللہ)۔ یہ شرک فی التوحید اور شرک فی الرسالت نہیں تو اور کیا ہے؟یہ امر کس قدر افسوس ناک ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے مذہبی وارث اِلاّما شاء اللہ، ملت کی پاسبانی کی بجائے دین کی مسندوں پر بیٹھے ہی گویا کافر و مشرک اور ملحد و بے دین کے اَلقابات سے نوازنے کے لیے ہیں۔ دین کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ٹکے ٹکے کے عوض بیچا جاتا ہے۔ شریعت کو اپنی ذاتی اِستعمال کی چیز سمجھتے ہوئے اپنی پسند و ناپسند کے مطابق گھمایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل اَوّل تو علماء سے مانوس ہی بہت کم ہے اور اگر کوئی نوجوان اِصلاحِ اَحوال کے لیے اُن کے قریب چلا بھی جاتا ہے تو بجائے اِصلاحِ اَحوال کے متنفر ہو کر اٹھتا ہے۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، لا اکراہ فی الدین کا قرآنی فلسفہ، ص:41
یہ تبلیغی رویے فرسودہ نصاب تعلیم اور frustrated mentality کی پیداوار ہیں۔ اِنتہا پسندی پر مبنی تحریروں کی پیچھے جتنی مثالیں بیان ہوئی ہیں وہ تمام کی تمام ایک مخصوص مسلک کے علماء کرام و مفکرین کی ہیں۔ اس سے یہ بات بھی آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان میں اِنتہا پسندی اور دہشت گردی پر مبنی اَفکار و نظریات کو تبلیغِ دین کے نام پر پھیلانے میں کون سے مسالک پیش پیش ہیں۔ شیخ الاسلام بڑی پتے کی بات لکھتے ہیں:
حال ہی میں صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں اَولیاء و صالحین کے مزارات کو بموں اور راکٹوں سے تباہ کس نے کیا؟ ایک مخصوص FM ریڈیو پر اِعلانات کیے گئے کہ ہم شرک کے ان اڈوں کو جلد ہی ملیا میٹ کر دیں گے، اور پھر انہوں نے دھمکی پر عمل بھی کر دکھایا۔ درندگی کی اِنتہا یہ کہ لاشوں کی بے حرمتی کی گئی، انہیں درختوں پر لٹکایا گیا۔ بعض روحانی خانوادوں کے اَفراد کو چن چن کر بے دردی سے شہید کیا گیا۔ کس کس کو گنوایا جائے؟ اِن ظالموں کی ستم رانیوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اب خوف کی ایسی فضا قائم کر دی گئی ہے کہ بہت سے روحانی خانوادے آبائی خانقاہیں چھوڑ کر پشاور، اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور شفٹ ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ رکھنے والوں، اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دم بھرنے والوں اور ذِکرِ اِلٰہی سے زبانیں تر اور آنکھیں نم رکھنے والوں پر شرک کا فتویٰ لگا کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا کون سا جہاد ہے؟
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، دہشت گردی اور فتنہِ خوارج، ص:590
پھر لکھتے ہیں:
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاد کے نام پر تخریب کاری اور دہشت گردی کے لیے فکری غذا کہاں سے مہیا کی جاتی رہی ہے؟ فرقہ پرستی سے اِنتہا پسندی اور اِنتہا پسندی سے دہشت گردی اور خون ریزی تک کے فاصلے بہت زیادہ طویل نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سفر کو طے کرنے کے لیے تیاری کہاں ہوتی رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، دہشت گردی اور فتنہِ خوارج، ص:590
آگے لکھتے ہیں:
ہمارے ہاں اِنتہا پسندی کے سفر کی اِبتداء یہ تھی کہ دوسرے مسالک کے لوگوں کو کافر و مشرک قرار دیا جائے۔ پھر اپنے مسلک کے جابرانہ غلبے کی خواہش نے انہیں اِسلام کے اِجتماعی مفاد اور تحفظ سے یکسر غافل کر دیا۔ وہ اپنے مسلک اور عقائد کے غلبے کو ہی اِسلام کے غلبے سے تعبیر کرنے لگے اور اس کی راہ میں حائل ہونے والے ہر عقیدے اور مسلک کو فتویٰ کی مشینوں اور اَسلحہ کے زور سے ختم کرنے میں لگ گئے۔ یہی سوچ اور عمل بڑھتے بڑھتے دہشت گردی پر جا کر منتج ہوا۔ طرزِ فکر و عمل وہی تھا، مگر نئے حالات میں سمت اور اَہداف بدل گئے۔
(3) ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، دہشت گردی اور فتنہِ خوارج، ص:590
ہمارے آج کے دینی مدارس کے نصاب کی علمی اور فکری حیثیت پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہم لکھتے ہیں:
دورِ زوال سے قبل علماے دین نصاب میں وقت کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق تبدیلی کرتے تھے اور اس طرح اس میں ترمیم ہوتی رہتی تھی جس طرح آج کل پرانے نصاب کی نظرثانی ہوتی ہے۔ اِسی طرح دینی نصاب بھی بدلتا تھا۔ یہ تبدیلی غیر مذہبی علوم میں ہوتی تھی۔ اصل مذہبی علوم قرآن و حدیث، فقہ وغیرہ میں تبدیلی نہیں ہوتی تھی۔ اِسی طرح دینی نصاب تقریباً چھ اَدوار سے گزرا، ساتواں ایڈیشن علامہ نظام الدین سہالوی (1677-1748ء) نے مرتب کیا جو درسِ نظامی کے طور پر مشہور ہوا۔ جب دورِ غلامی آیا تو ان کے ذہن جمود کے شکارہوگئے اور انہوں نے درسِ نظامی کو ہی آخری ایڈیشن قرار دے دیا۔ یہاں علوم کی تدریس کا اِرتقاء رک گیا۔ ذہنوں کے مفلوج ہونے سے دینی نصاب بھی مفلوج ہوگیا اور اس سے غلامی کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کبھی بھی ریویو نہ کیا جاسکا اور غلامی کے جو اَثرات دینی نصا ب پر پڑے اُنہیں مسلمانوں نے قبول کر لیا۔ آج سے صدیوں پہلے کے داخلِ نصاب علوم کو جسے سیکڑوں سال گزر چکے ہیں علماء آج بھی انہیں رائج کرنا چاہتے ہیں حالانکہ تقاضاے وقت ہے کہ آج کے سائنسی علوم کو داخلِ نصاب کیا جائے۔ اور اس کے ذریعے ذہن کی تربیت کرکے اسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ دورِ نو کی ضروریات کے مطابق قرآن و حد یث کی توضیح کرسکیں۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، قرآنی فلسفہِ انقلاب، ج:1، ص:420-421
اِن نصابوں کے مضامین اور متعلقہ کتب بھی بڑی ’سوچ بچار‘ کے بعد منتخب کی جاتی ہیں تاکہ ہمارے مسلک کے پڑھنے والے خدانخواستہ مخالف مسلک کے اَکابر کے علمی و فکری کارناموں سے آگاہ نہ ہو جائیں۔ اگر دورانِ کورس مخالفینِ مسلک پر بحث بھی ہوتی ہے تو صرف منفی نقطہ نظر سے۔ ان کو سو فیصد گمراہ ثابت کرنے پر زور لگایا جاتا ہے۔ اِس طرح طلبہ کے ذہنی تصورات کی منفی طرز پر تعمیر ہوتی ہے۔ انہیں اپنے سوا ہر دوسرا گمراہ اور معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام خرابیوں کا ذمہ دار نظر آتا ہے اور پھر انہوں نے ہی تو آگے چل کرحسبِ توفیق معاشرے کے مختلف شعبوں کی قیادت سنبھالنی ہوتی ہے۔ ذرا انداز لگائیے کہ یہی طلبہ آگے چل کر حالات کا رخ کس طرف موڑیں گے؟ علامہ نے یونہی تو نہیں کہا تھا:
صوفی کی طریقت میں فقط مستیِ اَحوال
ملا کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستیِ کردار
ضرب کلیم، مستیِ کردار: 52
شیخ الاسلام لکھتے ہیں:
بعض دینی اداروں اور مدارس میں طلباء کو دیگر مسالک کے خلاف نفرت، عدم رواداری اور اِنتہا پسندی پر مبنی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ میرے نزدیک بدقسمتی سے ہمارے سارے مسالک کسی نہ کسی حد تک اِس مہلک مرض میں مبتلاء ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو غیر مسلم اور گمراہ سمجھتے ہوئے معصوم ذہنوں میں نفرتوں کی آب یاری کرتے ہیں۔ نتیجتاً یہ لوگ تنگ نظری اور فکری مغالطوں کا شکار ہو کر اپنے علاوہ سب کو کافر، مشرک اور دائرہِ اسلام سے خارج قرار دینے لگتے ہیں۔ بلکہ بعض اِنتہا پسند تو اِتنے متشدّد ہو جاتے ہیں کہ وہ مخالفین کا خون بہانا نہ صرف جائز بلکہ واجب سمجھتے ہیں۔ یہیں سے شدت پسندی اور دہشت گردی پنپنے لگتی ہے جسے ایک دینی فریضہ (جہاد) سمجھ کر اِختیار کیا جاتا ہے۔ اگر ان اداروں میں زیرتعلیم بعض طلباء کے قبائلی علاقوں میں واقع دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں میں جا کر تربیت لینے کی اِطلاعات درست ہیں تو عسکریت پسندوں کے ساتھ اِن کے شامل ہونے کے اِمکانات کو کیسے ردّ کیا جا سکتا ہے؟
(2) ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، دہشت گردی اور فتنہِ خوارج، ص:584
آگے چل کر اس کا علاج یوں تجویز کرتے ہیں:
ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ حکومت پاکستان سرکاری اساتذہ اور اَئمہ اوقاف کے تربیتی کورسز کی طرح تمام دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے بھی کورسز کا اِہتمام کرے۔ اس کے لیے ماہرینِ علم اور اِعتدال پسند علماء اور دانش وروں کی خدمات و تعاون حاصل کیا جائے۔ ان تربیت گاہوں میں مختلف مسالک کے علماء کے باہمی میل جول، تبادلہ خیال اور مذاکرات کے ذریعے جہاں غلط فہمیوں اور فکری مغالطوں کا اِزالہ ہوگا وہاں ان میں تحمل و رواداری اور قلبی و نظری وسعت کو بھی فروغ ملے گا اور اِن کا ذہنی اُفق بھی وسیع ہوگا۔ دینی اداروں کے ان اَساتذہ کرام کے مثبت رویوں کا اِن شاء اﷲ ان کے تلامذہ پر بھی اثر ہوگا اور وہ تنگ نظری و انتہا پسندی کے خول سے باہر نکل سکیں گے۔
(1) ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، دہشت گردی اور فتنہِ خوارج، ص:584
ہمارا نظام تعلیم طبقاتی ہے اور چار پانچ قسم کی مختلف نسلیں تیار کر رہا ہے۔ اِسی بنا پر نئے انداز کے لوگ میدان میں آرہے ہیں اور اسی لیے ہر آنے والا دن تفریق کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام مغرب کی بلا سوچے سمجھے نقالی پر مبنی ہے اور اس میں مختلف اَدوار میں حکمرانوں نے جتنی بھی تبدیلیاں کی ہیں اُن کا مقصد فکر و تحقیق کو آگے بڑھانے کے بجائے ذہنوں کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنا اور مقتدر طبقہ کے اِقتدار کے دنوں کو طویل تر بنانا ہے۔ اس کی بنیاد اور اساس لارڈ میکالے کی تجویز کردہ پالیسی ہے جس کا مقصد تاجِ برطانیہ کے لیے اچھے مزدور پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔
انگریزوں کے ہندوستان میں آنے سے قبل بڑے بڑے کالج اور یونی ورسٹیاں تو موجود نہیں تھیں لیکن دینی مدارس میں جہاںچند طلبہ اکٹھے ہو کر فارسی، عربی اور سنسکرت ایسی زبانوں اور مروجہ علوم کا مطالعہ کرتے تھے۔ اِس کے باوجود اس عہد میں بڑے بڑے مفکر اور اَہلِ علم پیدا ہوئے مگر یہ لوگ خواہ کسی بھی مذہب و ملت سے تعلق رکھتے تھے انگریز کے لیے مفید نہ تھے۔ اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے باسیوں کو تعلیم دینے کے لیے 1813ء میں ایک لاکھ روپیہ مختص کیا۔ اس سے پہلے 1797ء میں چارلز گرانٹ اپنے ایک مقالے میں ہندوستانیوں کو بے حد اُجڈ اور اَن پڑھ قرار دے چکے تھے کیونکہ اُس عہد کی مکتبی و مدر سی تعلیم رکھنے والے لوگ خواہ کتنے ہی پسماندہ کیوں نہ تھے مگر وہ اپنی آزادانہ سوچ ضرور رکھتے تھے اور انگریز کے سامراجی اور نو آبادیاتی عزائم کی راہ میں یہ فکری روش بڑی خطرناک ہو سکتی تھی۔ اس لیے لارڈ میکالے نے 1835ء میں انگریزوں کی علمی فضیلت پر فخر کرتے ہوئے یہ بڑ ہانکی کہ اَعلیٰ یورپی ادب کی ایک اکلوتی شیلف ہندوستان اور عرب کے تمام ادب سے بالاتر ہے۔ سنسکرت اور عربی علوم کے بارے میں اس نے لکھا کہ ہم جھوٹی تاریخ، جھوٹا علم ہیئت اور جھوٹی طب نہیں پڑھائیں گے۔ لارڈ میکالے کے نزدیک پڑھا لکھا شخص صرف وہی ہو سکتا تھا جو انگریزی زبان جانتا ہو اور اسے یورپی علوم سے شناسائی ہو۔
اس پس منظر میں لارڈ میکالے نے ہندوستان میں جو تعلیمی پالیسی متعارف کروائی اس کا مقصد محض بر صغیر کے باسیوں کی شناخت ختم کرنا اور انہیں رنگت کے اعتبار سے کالے مگر ذہن کے اِعتبار سے فرنگی بنانے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ بر صغیر کی تقسیم عمل میں آئی تو ضرورت اِس اَمر کی تھی کہ پاکستان میں نظامِ تعلیم کو ایسی بنیادوں پر استوار کیا جائے جو ایک آزاد اور خود مختار قوم کے شایان شان ہو لیکن انگریز اپنی جن باقیات کو یہاں چھوڑ کر گیا تھا اُس نے انگریزی زبان کو ہر شعبہ زندگی میں بلاضرورت فوقیت اور ترجیح دینے کی پالیسی کو برقرار رکھا۔
لیکن سیاسی، سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں کے جلو میں جو اِنحطاط عمومی طور پر یہاں کے باشندوں میں آیا اُسی نسبت سے انگریزی زبان کی تعلیم و تدریس میں بھی پستی دیکھنے میں آئی۔
لیکن اِس کے باوجود اَربابِ تعلیم کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ جب تک وہ مختلف شعبہ ہاے علم میں تخصص (specialization) کے ذریعے ہر فرد کو اُس کی ضرورت کی تعلیم نہیں دیں گے اُس وقت تک وہ عالمی برادری میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ یہاں یہ صورتحال پیدا ہوئی کہ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور بے نظیر سے لے کر نواز شریف تک ہر عہد میں نئی تعلیمی پالیسیاں بنتی اور ٹوٹتی رہیں اور اب تو تعلیمی اداروں کو خود مختار بنا کر اور سیلف فنانسنگ کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی حکمتِ عملیاں وضع کر کے تعلیم کو اس قدر مہنگا کیا جا رہا ہے کہ نچلے اور متوسط طبقے کے لیے تعلیم حاصل کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ اَعلیٰ تعلیمی اداروں میں صرف بڑے اور متمول لوگوں کے بچے ہی پڑھ سکیں گے۔ یہ نئے عہد کے آقا ہوں گے اور چھوٹی درس گاہوں سے تعلیم حاصل کرنے والے ان کے ماتحت اَدنیٰ درجے کے کام کرنے پر مامور ہوں گے۔ بھاری فیسیں وصول کر کے تعلیم دینے والے نجی تعلیمی ادارے بھی تعلیم کے نام پر جہالت بانٹ رہے ہیں۔ وہ بچوں کے لوا حقین کی اِس خواہش کو exploit کر رہے ہیں کہ اُن کے بچے عہد جدید کی تعلیم حاصل کریں لیکن عملاً وہ محض ذہنی اور مالی طور پر لٹ رہے ہیں۔ ان اِداروں میں سے چند ایک کے علاوہ کسی نجی تعلیمی ادارے کی اَسناد کو بیرونی یونی ورسٹیوں میں تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اِس صورتِ حال میں پاکستان کے تعلیمی اداروں سے چار پانچ قسم کی نسل تیار ہو کر باہر آرہی ہے جو نہ صرف فکری و نظری اِنتشار کا موجب بن رہی ہے بلکہ عملی طور پر بھی قوم و ملک کے لیے کوئی مفید کام کرنے کے قابل نہیں۔ اگر ہماری حکومتیں بیماری کی تشخیص میں کامیاب ہو چکی ہیں تو پھر اُنہیں اُس کا علاج کرنے کے لیے ٹھوس اِقدامات بھی کرنے چاہییں اور پہلے قدم کے طور پر پرائمری اسکولوں سے لے کر کالجوں اور یونی ورسٹیوں تک لایعنی اور مقصدیت سے عاری نصاب کو یکسر ختم کر کے اس کی جگہ ایسا نصاب لانا چاہیے جو طالب علموں کی ذہنی، روحانی اور نفسیاتی بالیدگی کا موجب ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کو فوری طور پر یکساں اور سستا بھی کیا جانا چاہے کیونکہ مہنگی تعلیم نہ صرف شرحِ خواندگی کو کم نہیں کرے گی بلکہ طبقاتی تفاوت کو بھی بڑھائے گی جو
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved