جواب: منہاج القرآن ویمن لیگ، تحریک منہاج القرآن کا ایک اَہم فورم ہے۔ جس کا دائرۂ کار خواتینِ معاشرہ ہیں۔ خواتین معاشرہ کی اساس ہیں اور نئی نسل انہی کی گود سے پروان چڑھتی ہے۔ اگر ایک خاتون کی سوچ کا دھارا بدل دیا جائے تو وہ تنہا پورے خاندان کی سوچ اور جہت کوتبدیل کر سکتی ہے۔ لہٰذا اس اَہم ترین طبقہ ہائے جنس میں شعوری، علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی اقدار کے احیاء کے لیے یہ فورم اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ اس میں ہر شعبہ ہائے زندگی کی خواتین شامل ہو کر اپنا کردار بخوشی نبھا رہی ہیں۔ اس فورم کا وسیع نیٹ ورک عملی صلاحیتوں کے ساتھ ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے، جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک بھی دین کے پیغام کو ایک نئے رنگ اور اُسلوب سے پہنچایا ہے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ گزشتہ تین دہائیوں میں شاندار تنظیمی و تحریکی کردار اور فکری و نظریاتی جد و جہد سے دنیا کے 30 سے زائد ممالک میں اپنا مؤثر وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ محبتِ الٰہی کا حصول ہو یا عشق و ادبِ رسول ﷺ کا فروغ، اَمر بالمعروف ونہی عن المنکر کی دعوت ہو یا علمی و فکری اصلاح، معاشی فلاح و بہبود کی ذمہ داری ہو یا معاشرتی و سماجی حقوق و فرائض کی اصلاح کا فریضہ ہو یا عوامی تحریک کا سیاسی سفر، منہاج القرآن ویمن لیگ نے ہر سطح پر خود کو منوایا ہے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے ہر شعبہ میں اور بالخصوص تعلیم و تربیت، قیامِ اَمن اور معاشرتی اِصلاح میں اپنا متحرک کردار ادا کیا ہے اور اسلام کے بنیادی عقائد اور اقدار کے تحفظ کے ساتھ ساتھ خواتین میں بیداریِ شعور کے حوالے سے ویمن لیگ نے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ کانفرنسز، علمی و تحقیقی منصوبہ جات اور عملی اصلاحی سرگرمیوں کے ذریعے ہزارہا خواتین کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔ یہ خواتین اس پلیٹ فارم سے اخلاقی، نظریاتی اور تربیتی مراحل سے گزر کر باعمل مسلمان اور ذمہ دار شہری کی حیثیت سے فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کےتحت درج ذیل شعبہ جات فروغِ دین میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں:
1۔ شعبہ تنظیم
2۔ شعبہ دعوت
3۔ شعبہ تربیت
4۔ شعبہ ایم ایس ایم سسٹر ز
5۔ شعبہ عرفان الہدایہ
6۔ شعبہ سماجی و فلاحی امور
7۔ شعبہ اُمورِ اَطفال
8۔ شعبہ سوشل میڈیا
9۔ شعبہ ماہنامہ دختران اسلام
10۔ شعبہ منہاجینز
جواب: منہاج القرآن ویمن لیگ بلا تفریق ہر پہلو سے خواتین کو باشعور بنانے میں کوشاں ہے، جن میں درج ذیل مقاصد کے حصول کے لیے اس کا کوشاں ہونا اس کی جد و جہد کا واضح عملی ثبوت ہے:
1۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کو درپیش مسائل اور مشکلات کا قابلِ عمل اور یقینی حل پیش کرنا۔
2۔ دینی علوم اور جدید عصری و سائنسی علوم کی روشنی میں محدود سوچ اور تعصبات کی شکار خواتین میں اُمت کے اجتماعی تحفظ کا داعیہ بیدار کرنا۔
3۔ خواتین میں صالحیت، ایثار اور خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت۔
4۔ خواتین کی فکری و نظریاتی تربیت اس نہج پر کررہی ہیں کہ وہ نسلِ نو کو اسلام کی مخلصانہ اور ماہرانہ خدمت کرنے کے قابل بنا سکیں۔
5۔ اپنی سیرت و کردار سے معاشرے میں اپنا مقام و منصب پہچاننے، منوانے اور اُمتِ مسلمہ کی تقدیر بدلنے کا جذبہ پیدا کر رہی ہیں۔
جواب: عورت نہ صرف خاندان کی اساس ہے بلکہ معاشرہ ساز بھی ہے اور اس کی تربیت معاشرہ کی تعمیر میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اُمتِ مسلمہ کو ﴿كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ﴾ کی عملی تصویر بنانےکے جس مشن کا آغا ز کیا اس میں خواتین کا بحیثیت داعیہ اَہم کردار شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تحریک منہاج القرآن کے رُفقاء و اراکین میں خواتین کی ایک کثیر تعداد شامل ہے۔ اسلام کی مؤثر دعوت و تبلیغ کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ کو بحیثیت داعیہ درج ذیل عملی اقدامات پر عمل پیرا ہونا چاہیے:
1۔ دعوتِ دین کے لیے گھر سے باہر نکلتے وقت اِسلامی ستر و حجاب کا مکمل اہتمام کریں اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں۔
2۔ مقصدیت کے کامل اِدراک کے بعد اَغراض و مقاصد اور لائحہ عمل کو ترتیب دیں۔
3۔ دینِ اِسلام کو عصر حاضر میں فروغ دینے کے لیے روایتی طریقہ تبلیغ کی بجائے جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لائیں۔
4۔ اسلامی علوم کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے اس کے فروغ کے لیے علمی و فکری سطح پر اقدامات کریں۔
5۔ سیرت و کردار میں نرم خو، معاملہ فہم، ثابت قدم اور مستقل مزاجی کا پیکر بنیں۔
6۔ اسلام کی تعلیماتِ امن و محبت اور عدم تشدد کو اپنے موضوعات میں نمایاں حیثیت دیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی و انتہا پسندی کے الزامات سے پاک کیا جاسکے۔
7۔ مسلکی اختلافات اور فروعات کے جھگڑوں سے نکل کر قرآن و سنت کے اُصولوں پر عمل پیرا ہوں۔
8۔ حالات کتنے بھی کٹھن کیوں نہ ہوں، دعوت کی مثبت نتیجہ خیزی کی ہمیشہ امید رکھیں۔
9۔ اپنی ذات کی اصلاح کرتے ہوئے رذائلِ اَخلاق یعنی حسد، بغض، کینہ، غیض و غضب، حرص ولالچ اور خود غرضی وغیرہ سے خود کو پاک کریں۔
جواب: دعوت و تبلیغِ دین کے دوران منہاج القرآن ویمن لیگ کی عہدے داران اور کارکنان کی سوچ یہ ہونی چاہیے کہ ان کا کام صرف اپنا فریضہ ادا کرنا ہے۔ باقی ان کی جدو جہد کا انجام کیا ہوگا اور کب ہوگا، یہ سب مالکِ حقیقی کا کام ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ تم میرا کام اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے اپنا فریضہ بطریقِ احسن سرانجام دو۔ اس صورت میں میری مدد تمہارے شاملِ حال ہوگی اور تمہیں کسی ناکامی کا سامنا نہیں ہوگا۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿إِن يَنصُرۡكُمُ ٱللهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمۡ﴾
[آل عمران، 3 : 160]
اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا۔
یعنی اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کسی بھی میدان میں کوئی کس طرح غالب آ سکتا ہے؟ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ تربیت اور بلندی درجات کے لیے ابتلاء کے مراحل سے گزرے تو عہدیداران اور کارکنان کو بہر صورت اللہ کی ذات پر توکل رکھنا چاہیے۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَعَلَى ٱللهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ﴾
[آل عمران، 3 : 160]
اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
میاں محمد بخش کیا خوب فرماتے ہیں:
مالی دا کم پانی دینا، بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھول لانا لاوے یا نہ لاوے
لہٰذا منہاج القرآن ویمن لیگ کی عہدے داران اور کارکنان کو مالی کی طرح اپنا کام کرنے کا حکم ہے نہ کہ مالک بننے کا اور فریضہ دعوت کی انجام دہی میں دل میں شک کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ شک اپنے ساتھ وسوسہ اور بے صبری لاتا ہے اور بے صبری حوصلہ کمزور کر کے ہمت ختم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ ہر حال میں اپنے رب پر توکل قائم رکھنا چاہیے۔ توکل، یقین سے جنم لیتا ہے اور یقین شک کی جڑوں کو کاٹ کر حاصل ہوتا ہے۔ جب عہدے داران اور کارکنان میں یقین کا جذبہ محکم ہو جائے تو انہیں اپنی فلاح سامنے نظر آ جائے گی اور یہ اللہ تعالیٰ کا واضح اعلان بھی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿إِنَّ حِزۡبَ ٱللهِ هُمُ ٱلۡغَٰلِبُونَ﴾
[المائدة، 5 : 59]
اللہ کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں۔
لہٰذا یہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کی عہدے داران اور کارکنان کو ”کب“، ”کیوں“ اور ”کیسے“ میں ہر گز نہیں الجھنا چاہیے۔ مومن ہونے کے ناطے ان کی شان یہ ہے کہ وہ ﴿وَعَلَى ٱللهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ ٱلۡمُؤۡمِنُوْنَ﴾ کے فرمانِ الٰہی کے مطابق ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے آگے بڑھتی رہیں اور منہاج القرآن ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے تمام شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق بھرپور کردار ادا کرتی رہیں۔
جواب: دعوت کی مؤثریت کے نتیجے میں تحریک میں شامل ہونے والی خواتین کو ایک نظم میں لانے اور تربیت کے مربوط نظام کا حصہ بنانے کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ کے شعبہ تنظیم کا منظم نیٹ ورک انہیں اپنی آغوش میں لیتا ہے تاکہ خواتین کی فکری و عملی ہم آہنگی معرضِ وجود میں آ سکے اور ان کی فکر و نظر میں ہونے والی مثبت تبدیلی کو صحیح سمت میں گامزن کرتے ہوئے ہر گھر تک اسلام کا پیغام پہنچایا جا سکے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کا شعبہ تنظیم گراس روٹ لیول تک تنظیمات قائم کر کے خواتینِ معاشرہ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اصلاح اور اسلامی تعلیمات کے عملی نفاذ کا فریضہ منظم انداز میں سرانجام دے رہا ہے تاکہ وہ دین و ملت کی مخلصانہ اور ماہرانہ خدمت کرنے کی اہل ہو سکیں۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کا شعبہ تنظیم ملک کے طول و عرض میں طبقۂ نسواں میں پیغام کی مربوط ترسیل، منزل کی جانب منظم و مسلسل جد و جہد، متعین وقت میں نتائج کے حصول، ذمہ داریوں کے مناسب اِحتساب اور اجتماعیت کو برقرار رکھنے کےلیے مسلسل فیلڈ وزٹس اور مضبوط فالو اپ سسٹم کےذریعے اپنا اَہم کردارا ادا کر رہا ہے۔ اس شعبہ کے تحت پاکستان کے اَضلاع و تحصیلات کی زون وائز تقسیم کی گئی ہے اور ہر زون منظم ورکنگ کے ذریعے تنظیمی سطح پر درج ذیل سرگرمیاں جاری و ساری رکھے ہوئے ہے:
جواب: فرسودہ، باطل اور طاغوتی نظام کی تبدیلی کا آغاز اَمرِ دعوت سے ہوتا ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کا شعبۂ دعوت موجودہ دور میں ملتِ اسلامیہ کے زوال کو عروج میں بدلنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس سے وابستہ تمام ذمہ داران اور کارکنان اس عظیم ذمہ داری میں حصہ دار ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کی دعوت درج ذیل سات اَہداف پر مشتمل ہے:
1۔ الدعوۃ اِلی اللہ
2۔ الدعوۃ اِلی الرسول ﷺ
3۔ الدعوۃ اِلی القرآن
4۔ الدعوۃ اِلی العلم والخُلق
5۔ الدعوۃ اِلی الاخوۃ والمودّۃ
6۔ الدعوۃ اِلی الجماعۃ
7۔ الدعوۃ اِلی الاقامۃ (ترویج و اِقامتِ اِسلام)
منہاج القرآن ویمن لیگ کا شعبۂ دعوت بھی اِنہی اَہداف کےحصول کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور ان اَہداف کے پیشِ نظر درج ذیل مقاصد کا حصول ممکن بنا رہا ہے:
جواب: محلہ یا یونٹ کی سطح پر داعیہ مرحلہ وار دعوتِ دین کا کام درج ذیل طرز پر سراَنجام دے:
1۔ پہلے مرحلہ میں دین کا اِجتماعی شعور بیدار کرنے کی جد و جہد میں محلہ کی سطح پر خواتین سے اچھے روابط استوار کرے۔
2۔ دوسرے مرحلہ میں کسی مناسب مقام پر نشست کا اہتمام کرکے خواتین کی اِصلاحِ اَحوال سے متعلق گفت گو کرے۔
3۔ تیسرے مرحلہ میں خواتین کو اپنے گھروں میں اِسلامی اَقدار نافذ کرنے کی ترغیب دے۔
4۔ چوتھے مرحلہ میں انہی خواتین کو منظم کرتے ہوئے یونٹ کی سطح پر ماحول کی اِصلاح کی داغ بیل ڈالے تاکہ ناخواندہ اور نیم خواندہ خواتین میں دین کی روشنی پھیلے اور ایسی تعلیم یافتہ خواتین کی بھی اصلاح ہو جو دین کی طرف مائل نہیں۔
5۔ پانچویں مرحلہ میں یونٹ لیول پر حلقۂ درود و فکر قائم کرے۔
6۔ چھٹے مرحلہ میں دروسِ قرآن کا اہتمام کرے۔
7۔ ساتویں اور آخری مرحلہ میں ترویج و اِقامتِ دین کے لیے وقتاً فوقتاً خواتین کے لیے تربیتی کورسز کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھے۔
8۔ مذکورہ تمام مراحل میں داعیہ شرعی حدود کا حد درجہ خیال رکھے۔
جواب: خدمتِ دین ایک عظیم مقصد ہے، جس کی تکمیل اور اَنجام دہی اَعلیٰ تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ تربیت کا تعلق بیداریِ شعور سے ہے اور شعور اُس وقت تک بیدار نہیں ہو سکتا جب تک من کی آنکھ نہ کھلے اور من کی آنکھ کھلنے کا انحصار روحانی تبدیلی پر ہے۔ روحانی تبدیلی ہی اخلاقی تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ جب روح اور اخلاق میں تبدیلی آتی ہے تو پھر معاشرہ تبدیل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اِسی ضرورت کے پیش نظر خواتین کی اخلاقی و روحانی اور فکری اور نظریاتی تربیت کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ کے شعبہ تربیت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ شعبہ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی ہدایات کی روشنی میں خواتین کی تعمیرِ شخصیت کے لیے ایک ایسا مربوط تربیتی نظام پیش کرتا ہے جو ایک خاتون کے تخیل کی تربیت سے شروع ہو کر افعال کی انجام دہی تک اُسے ایک ایک قدم پر انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے۔ یہ نظامِ تربیت سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی میں خواتین کو اپنے مقصدِ حیات کا شعور دے کر اور تربیت کی وادی سے گزار کر کامل و اَکمل بنا دیتا ہے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کے شعبۂ تربیت کے تحت ہونے والی سرگرمیوں، ورکشاپس اور کیمپس وغیرہ میں تمام ممکنہ تربیتی ذرائع کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ان میں سے چند اَہم ذرائع درج ذیل ہیں:
1۔ اسلامک لرننگ کورس
2۔ عرفان القرآن کورس
3۔ تنظیمات کیمپ
4۔ علاقائی ورکشاپس
5۔ اعتکاف کیمپ
6۔ لٹریچر
7۔ معلمات ٹریننگ کورس
8۔ ’’الحکمۃ‘‘ (تنظیمی و تربیتی کیمپ)
9۔ ’’التربیہ‘‘ (تنظیمی و تربیتی کیمپ)
10۔ ٹریننگ آف ٹرینرز
منہاج القرآن ویمن لیگ کا شعبہ تربیت مذکورہ ذرائع سے درج ذیل مقاصد کے حصول کو ممکن بنا رہا ہے:
جواب: عصرِ حاضر میں ہر طبقہ کارگہِ حیات میں بے شمار مسائل سے دو چار ہے۔ نوجوان نسل جو ملک کا مستقبل ہے، بوجوہ مایوسی اوربے عملی کا شکار ہے۔ وہ اسلام کے حقیقی تصور، کامیابی کے اُلوہی نظام اور ذہنی و قلبی انتشار کے دائمی حل سے بہت دور مغربی طرزِ زندگی اپنائے ہوئے ہے۔ اخلاقی رذائل اور سستے مغربی معیارات زندگی ان کی شخصیت کو کھوکھلا کیے جا رہے ہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ نے طالبات کے انہی مسائل کے پیشِ نظر مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ تنظیم کی بنیاد رکھی ہے، جو درج ذیل محاذوں پر سرگرمِ عمل ہے:
MSM Sisters درج ذیل جہات پر کام کر رہی ہے:
مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ مذکورہ جہات پر کام کرتے ہوئے طالبات کو غیر جانب دارانہ طور پر اس پلیٹ فارم کا حصہ بنا رہی ہے تاکہ وہ معاشرے میں بہترین کردار ادا کرسکیں۔ اس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
الروحیۃ کلب کے زیر اہتمام دینی و روحانی سرگرمیوں کے ضمن میں قرآن کلاسز، محافلِ نعت، حلقہ ہاے درود، دروسِ تصوف، شب بیداریاں اور مختلف مواقع پر مذہبی پروگرامز اور کانفرنسز وغیرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ نیز محرم الحرام، ربیع الاول، رمضان المبارک اور اعتکاف کے مواقع پر الگ الگ پلانز ترتیب دیے جاتے ہیں جن کے مطابق MSM Sisters فہمِ دین اور روحانی بالیدگی کا ساماں کرتی ہیں۔
ریسرچ سوسائٹی کے تحت بذریعہ سیمینارز و کانفرنسز طالبات کی علمی و تحقیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے اور جِلا بخشنے کے لیے انہیں مضمون نویسی، بلاگ نویسی اور اسائنمنٹس اور مقالہ جات لکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں کسی موضوع پر پریزینٹیشن تیار کرنے کا فن سکھایا جاتا ہے اور لینگوئج کورسز بھی کرائے جاتے ہیں۔
اس کے تحت دانش کدہ پراجیکٹ جاری ہے۔ مقابلہ ہاے حُسنِ قراءت، حُسنِ نعت، تقریر اور مباحثوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بیت بازی کے مقابلے کرائے جاتے ہیں۔ نیز کتب پر تبصرہ جات لکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ پینل ڈسکشن میں دوسروں کا موقف سننے اور اپنا موقف واضح طور پر بیان کرنے کا فن سکھایا جاتا ہے۔ اقبال شناسی اور مختلف قومی ایام (یومِ پاکستان، یومِ آزادی، یومِ دفاع وغیرہ) کے موقع پر پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔
اِس کے تحت مستحق طالبات کی فیسوں اور اِمداد کا اِنتظام کرایا جاتا ہے۔ طالبات کی career counselling کی جاتی ہے تاکہ وہ زندگی میں بروقت مثبت سمت میں ترجیحات کا تعین کرسکیں اور ملک و ملّت کے لیے بہترین خدمات انجام دے سکیں۔ مفت ٹیوشن کے مراکز اور لائبریریاں کھولی جاتی ہیں۔ Book bank قائم کیے جاتے ہیں تاکہ مستحق طالبات کو کتب فراہم کی جاسکیں۔
جواب: جی ہاں! مطالعاتی حلقہ جات کا انعقاد فروغِ دین کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ طالبات سکولز، کالجز اور یونی ورسٹیز میں فری پریڈ یا تفریح کے دوران وقت مختص کر کے اجتماعی سطح پر ایسا حلقہ قائم کر لیں جہاں وہ علومِ شریعہ اور علومِ عصریہ میں سے مفید کتب منتخب کر کے باہمی اشتراک سے مطالعہ کرسکیں۔ یہ بھی دعوت کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ایک طالبہ ترجمہ و تفسیر قرآن یا چند احادیثِ مبارکہ کو باآواز بلند طالبات کے سامنے پڑھے اور پھر طالبات اس میں تفصیل طلب پہلوؤں کو ڈسکس کریں۔ ایسے حلقہ جات کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جو باتیں تقریر و تبلیغ کے یکسانیت والے ماحول میں کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ وہی باتیں مطالعہ کی غیر جانب دارانہ اور غیر ناصحانہ فضا میں زیادہ کشادہ دلی سے قبول کر لی جاتی ہیں۔ یوں طالبات کے مابین مطالعاتی حلقہ جات مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
جواب: علومِ شریعہ کی طالبات فروغِ دین میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دین سے ناآشنا ساتھی طالبات کو افہام و تفہیم سے مبادیاتِ اسلام پر عمل کرنے کے لیے بہتر طور پر آمادہ کر سکتی ہیں۔ نیز احکاماتِ دین کی پاس داری کرنے والی ساتھی طالبات کو یہ شعور دیگر طالبات تک پہنچانے کی ترغیب دے سکتی ہیں۔ تعلیمی ادارہ جات میں دعوتِ دین کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئےدینی شعور دینا نسبتاً سہل ہے کیونکہ حقائق قبول کرنے پر آمادہ ذہن حق کو حیل و حجت کے بغیر قبول کر لیتے ہیں۔
طالبات فروغِ دین کا فریضہ ادا کرتے ہوئے اپنے کالجز، یونی ورسٹیز اور مدارس کی سطح پر جماعتی مباحثات اور علمی مجالس کا اہتمام کریں اور ان میں طالبات کے دینی ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے موضوعات منتخب کرکے گفتگو کریں۔ معروف اسلامی اسکالرز کی کتب پر مختلف طالبات مطالعہ کے بعد تبصرہ اور تفصیل طلب پہلوؤں پر ڈسکشن کریں۔ اس سے طالبات میں دینی کتب کے مطالعے کا ذوق پیدا ہوگا اور نتیجتاً دین کے احکامات پر عمل کرنے کا داعیہ بیدار ہوگا۔ مزید برآں کانفرنسز اور سیمینارز میں خواتین اسلامی اسکالرز کو مدعو کریں جو طالبات کے سامنے بناتِ اسلام کی حقیقی رول ماڈل شخصیات جیسے سیدہ فاطمہ الزہرہ سلام اللہ علیہا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا وغیرہ کے عظیم کردار اور حسنِ عمل کا خاکہ پیش کریں۔ اس طرح نسلِ نو کی فکر و نظر اور ان کے رجحانات میں مثبت تبدیلی کے قوی امکانات ہو سکتے ہیں۔
جواب: قرآنِ حکیم قیامت تک انسانیت کا دستورِ حیات اور قانونِ فطرت ہے۔ اس میں بیان کردہ علوم و معارف میں اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے انسان کے لیے راہ نُمائی رکھ دی ہے۔ مگر افسوس! آج مادی سوچ اور دنیوی حرص و ہوس نے لوگوں کو قرآن حکیم پر غور و فکر کی رغبت اور خیال سے محروم کر دیا ہے۔ عمومی فکر و نظر میں اس حد تک تغیر رُونما ہو چکا ہے کہ وہ صحیفۂ ہدایت جو ہماری سوچ اور اَحوالِ زندگی میں انقلاب بپا کرنے کے لیے آیا تھا، ہم نے اسے محض کتابِِ ثواب بنا رکھا ہے۔ ان حالات میں قرآنِ حکیم سے ٹوٹا ہوا تعلق جوڑنے اور اس کی حقیقی تعلیم کو عامۃ الناس تک پہنچانے کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ نے 10 اپریل 2017ء کو شعبہ عرفان الہدایہ کا آغاز کیا۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کے شعبہ عرفان الہدایہ کا مقصد خواتینِ معاشرہ بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے کو قرآن فہمی کی طرف راغب کرنا اور نوجوان نسل کی قرآن و حدیث کی روشنی میں کردارسازی کرنا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے تعلیمی ادارہ جات، اسلامک سنٹرز، تحصیل اور یونٹ سطح تک عرفان الہدایہ پلیٹ فارم سے قرآن فہمی کے طویل المدتی اور قلیل المدتی کورسز و کلاسز کا آغازکیا گیا ہے۔ جس میں قواعدِ تجوید وگرامر، لفظی و بامحاورہ ترجمہ، تفسیر و اَہم مضامین، علم الحدیث، سیرت الرسول ﷺ، بنیادی و فروعی عقائد اور بنیادی فقہی مسائل شامل ہیں۔ عرفان الہدایہ پلیٹ فارم سے کروائے جانے والے کورسز کی تقسیم درج ذیل ہے:
1۔ طویل المدتی کورسز
2۔ قلیل المدتی کورسز
ایسے کورسز و کلاسز جن کا دورانیہ کم از کم 3 ماہ سے ایک سال پر مشتمل ہے، وہ درج ذیل ہیں:
ایسے کورسز و کلاسز جن کا دورانیہ 1 ماہ، 2 ماہ، ایک ہفتہ یا چند دنوں پر مشتمل ہے، وہ درج ذیل ہیں:
شعبہ عرفان الہدایہ کے تحت فریدِ ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ (FMRi) کے اشتراک سے مختلف نصابی کتب بھی تیار کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کا اردو و انگریزی زبان میں لفظی اور بامحاورہ ترجمہ پارہ وائز تیار کیا جارہا ہے، جس میں صرفی اور نحوی ترکیب بھی شامل ہے اور یہ اس پراجیکٹ کا منفرد وصف ہے۔ اب تک اِس شعبہ کے تحت درج ذیل کتب تیار کی جاچکی ہیں:
بحمدہٖ تعالیٰ مذکورہ پراجیکٹس، کورسز، سرگرمیوں اور نصاب کے ذریعے شعبہ عرفان الہدایہ قرآنی تعلیمات، قرآنی اُسلوب اور قرآنی طرزِ حیات کی ترویج کے نفاذ کو یقینی بنا کر درج ذیل مقاصد کا حصول ممکن بنا رہا ہے:
جواب: بحیثیت مربی اور راہ نُما اساتذہ کا بنیادی فریضہ طلبہ و طالبات کی کردار سازی ہوتا ہے۔ ان کی ذات طلبہ و طالبات کے لیے افکار و اقدار کا اعلی معیار ہوتی ہے۔ وہ طلبہ و طالبات کو نہ صرف مختلف علوم و فنون سکھاتے ہیں بلکہ اپنے ذاتی کردار سے ان کی تربیت کا اَہم فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔ اساتذہ کی تربیت طلبہ و طالبات کے قلوب و اَذہان پر اس طرح گہرے نقوش مرتب کرتی ہے کہ وہ ان کی شخصیت کا تادمِ آخر خاصہ بن جاتی ہے۔ اس لیے اساتذہ پر بحیثیت مسلمان اور مدرّس دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فروغِ دین میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے طلباء کی کردار سازی اسلامی خطوط پر کریں۔ انہیں اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی تعلیمی نظریات سے وابستہ کرنے کے لیے نصاب کے علاوہ منتخب اَہم موضوعات پر مستند اسکالرز کی کتب پڑھنے کی ترغیب دیں تاکہ وہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید علوم سے بہرہ ور ہو کر عالمِ اسلام کی مجموعی صورتحال اور بین الاقوامی معاملات میں دل چسپی لیں اور دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے جذبۂ ایمانی کے ساتھ کمر بستہ ہوں۔
جواب: اسلام نے عورت کو بے شمار حقوق عطا کیے اور اسے مختلف امور میں empower کیا ہے جو اس سے قبل عورت کو حاصل نہ تھے۔ ایک عورت اپنے حقوق کا تقاضا تبھی کر سکتی ہے جب وہ اپنے فرائض کی انجام دہی بھی پوری دیانت داری سے کر رہی ہو۔ خواتین کی حیثیت اور حقوق و فرائض کےادراک کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ کے شعبہ woice کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ خواتین کو درپیش سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کیے جا سکیں، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے افکار و نظریات کی روشنی میں خواتین کو معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جا سکے اور انہیں حقیقی خود مختاری کی جانب گامزن کیا جا سکے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کے شعبہ woice نے خواتین کے حقوق کی بحالی اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے درج ذیل پراجیکٹس اور سرگرمیوں کا اجراء کیا ہے:
معاشرے میں خواتین کی حیثیت اور ان کے حقوق و فرائض کے اِدراک کے لیے شعبہ woice کامیابی کے ساتھ اپنے بیداریِ شعور پراجیکٹس پر کام کر رہا ہے۔ خواتین کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا بلاشبہ woice کی ایک عظیم کامیابی ہے۔ یہ پراجیکٹ تعلیمی، سماجی، قانونی، طبی اور اخلاقی جہات پر کام کررہا ہے۔ جن میں آن لائن Awareness Sessions، کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
یہ پراجیکٹ Woice Food Bank کے نام سے ہے۔ جس کے تحت بیوگان، یتیموں اور نادار خواتین کو راشن پیکجز تقسیم کیے جاتے ہیں۔
”میرا ہنر، میری کامیابی“ کے سلوگن کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ پراجیکٹ معاشرے کو باہنر، باصلاحیت اور کامیاب خواتین فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں مختلف فنون سیکھنے کے رجحان کو فروغ دے رہا ہے۔ اس میں مختلف فنی کورسز جیسے سلائی کورس، کمپیوٹر کورس، پروفیشنل کوکنگ کورس اور بیوٹیشن کورس کروائے جا رہے ہیں۔ اس پراجیکٹ کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے تحت نہ صرف بے سہارا اور ضرورت مند خواتین کو مفت فنی تربیت دی جاتی ہے اور فنی مہارت حاصل کرنے والی طالبات کو معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط بنانے کے لیے سمال بزنس یونٹ اور متعلقہ شعبہ میں روزگار بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کا شعبہ woice مذکورہ پراجیکٹس کے ذریعے درج ذیل مقاصد کے حصول کو ممکن بنا رہا ہے:
1۔ خواتین کو درپیش معاشی اور معاشرتی ناانصافیوں اور استحصال کے خاتمہ کی جدوجہد کرنا۔
2۔ معاشرے کو کامیاب، ہنرمند اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل خواتین فراہم کرنا۔
3۔ خواتین کو خود غرضی اور بے حسی کے تنگ حصار سے نکال کر اجتماعی، فلاحی جدو جہد میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنا۔
4۔ قومی و بین الاقوامی سطح کی NGOs اور حقوقِ نسواں کی بحالی کے لیے سرگرم اداروں کے ساتھ مثبت تعلقات کا قیام عمل میں لانا۔
جواب: جی ہاں! مؤثر دعوت و تبلیغ کے لیے سماجی تعلقات کو بروئے کار لانا بہت ضروری ہے کیوں کہ انسان جب تک اپنی ذات کو خود تک محدود رکھتا ہے تو بہت کمزور رہتا ہے اور جب وہ دوسروں سے مل جاتا ہے تو قوت و طاقت کا حامل ہوجاتا ہے۔ یوںسماجی تعلقات انسان کی فطری ضرورت ہیں۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو محض ایک فرد کی حیثیت سے نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کے لیے پیدا کیا ہے اور اسلام انسانوں کے باہمی میل جول سے پیدا ہونے والی اجتماعیت کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اس اجتماعیت کی نشو و نما میں انسان کی معاونت کرتے ہوئے ایسے فطری اُصول دیتا ہے، جس سے اجتماعیت کوتقویت ملتی ہے۔
سماجی تعلقات کو بروئے کار لانے میں خواتین کا کردار ہمیشہ مؤثر ثابت ہو اہے۔ کیونکہ خواتین کے باہمی سماجی تعلقات عموماً زیادہ ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشتر مختلف تقریبات میں خواتین کی اجتماعی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ انہی تعلقات کو استعمال میں لاکر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت خواتین دین کی ترویج و اشاعت سے بآسانی دور رس نتائج حاصل کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی پروگراموں مثلاً عیدین، رمضان المبارک اور ربیع الاول کی تقریبات میں امت مسلمہ کے زوال کی وجوہات، اسلامی ممالک میں روز افزوں بڑھنے والے مسائل اور دیگر موضوعات پر تبادلہ خیال کر کے دین کے متعلق اجتماعی شعور بیدار کر سکتی ہیں۔
جواب: بچے کسی بھی قوم کا مستقبل، معمار اور بیش قدر سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا اور اُنہیں اچھا انسان اور ذمہ دار مسلمان اور شہری بنانا ہم سب کا فرضِ منصبی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم بچوں کی تمام دنیوی آسائشات اور خواہشات پوری کرنے کے لیے تو کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے مگر ان کی شخصیت کو دینی اقدار کی طرز پر استوار کرنے سے غافل ہو جاتے ہیں اور ان کے مستقبل کے حوالے سے ہمہ وقت فکر مند بھی رہتے ہیں۔ اِس فکر کے پیشِ نظر منہاج القرآن ویمن لیگ نے شعبہ اُمورِ اَطفال کی بنیاد رکھی تاکہ نسلِ نو میں جدید سائنسی تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے دلچسپ انداز میں اِسلامی تعلیمات اور اَقدار کو فروغ دیا جائے، جس سے ان میں دینی رغبت پیدا ہو اور ان کی کردار سازی کا عمل اَحسن انداز سے طے پائے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کا شعبہ اُمورِ اَطفال وہ واحد شعبہ ہے جس کے منشور اور لائحہ عمل میں پیدائش سے لے کر 12 سال کی عمر کے بچوں کی اَخلاقی و روحانی اور فکری و نظریاتی بنیادوں پر تربیت باقاعدہ طور پر شامل کی گئی ہے۔ ملک بھر میں بچوں کی ہمہ جہت تربیت کے لیے 3 کتب ”بچوں کی پرورش اور والدین کا کردار (رحمِ مادر سے ایک سال کی عمر تک)“، ”بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کا کردار (2 سے 10 سال کی عمر تک)“، ”بچوں کی تعمیرِ شخصیت (11 سے 16 سال کی عمر تک)“ منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ شعبہ مرکزی، ضلعی، تحصیلی اور یونین کونسل کی سطح پر درج ذیل سرگرمیاں بھی سرانجام دے رہا ہے۔
مذکورہ سرگرمیوں کے ذریعے شعبہ اُمورِ اَطفال نسلِ نو کی تربیت کے پیشِ نظر درج ذیل مقاصد کے حصول کو ممکن بنا رہا ہے:
منہاج القرآن ویمن لیگ کے شعبہ اُمورِ اَطفال نے بچوں کی کردار سازی کے ساتھ ان کے والدین کو بھی بچوں کی نفسیات سے متعلق بنیادی اُصولوں سے آگاہی دینے کا اہتمام کیا ہے۔ اس سلسلے میں اس شعبہ نے والدین کی counselling اور بچوں کی تربیت سے متعلق مسائل کے تدارک کے لیے درج ذیل پروگرام ترتیب دیے ہیں:
منہاج القرآن ویمن لیگ کے شعبہ اُمورِ اَطفال نے والدین کے علاوہ بچوں کے اساتذہ کی بھی بنیادی تربیت اور طریقہ تدریس (teaching methodology) کو بہتر بنانے کے لیے درج ذیل سرگرمیوں کا انعقاد کیا ہے:
جواب: اکیسویں صدی بلا شبہ ذرائع ابلاغ کی صدی ہے۔ سائبر ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کی قوموں کو ایک انگلی کے کلک کے فاصلے پر لاکھڑا کیا ہے اور 7 براعظموں پرمحیط دنیا ایک عالمی گاؤں (global village) کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا وسیع میدان ہے جس کے ذریعے عامۃ الناس تک اپنا نقطہ نظر، معلوماتِ عامہ اور اَہم ملکی و غیر ملکی خبریں پہنچائی جاتی ہیں۔سوشل میڈیا کی اَہمیت کے پیشِ نظر منہاج القرآن ویمن لیگ نے بھی عامۃ الناس اور بالخصوص نوجوان نسل کی مثبت راہنمائی کرنے کے لیے شعبہ سوشل میڈیا کی داغ بیل ڈالی تاکہ یہ شعبہ نوجوان نسل میں اس جدید ترین ذریعے سے استفادہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرے اور وہ اسلام اور پاکستان پر نظریاتی اور فکری حملے کرنے والے عناصر کا راستہ روکنے کے ساتھ ملک و قوم کی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کا شعبہ سوشل میڈیا درج ذیل جہات پر اپنا فریضہ سرانجام دے رہا ہے:
جواب: ایک صالح، عمدہ اور پاکیزہ معاشرے کے قیام میں عورت کے مرکزی کردار کی اَہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ مگر پچھلی چند دہائیوں سے دشمنانِ اسلام نے آزادیِ نسواں کی آڑ میں میڈیا کے ذریعے اسلام میں عورت کے حقوق کے بارے میں غلط اور گمراہ کن پراپیگنڈ کیا ہے جس کی بناء پر اُنہوں نےمسلم خواتین کو نہ صرف اسلام کی عظیم روحانی اور اخلاقی اقدار سے دور کر دیا ہے بلکہ ان کے معاشرتی، سماجی اور ثقافتی رجحانات تبدیل کر کے انہیں صراطِ مستقیم سے بھی بھٹکا دیا ہے۔ خواتین کو اسلام کے خلاف عالمی سطح پر جاری اس پراپیگنڈہ اور باطل طاغوتی طاقتوں کے مکر و فریب سے محفوظ رکھنے اور ان کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے جنوری 1992ء میں ’’ماہنامہ دخترانِ اسلام‘‘ کا اِجراء کیا گیا۔
ماہنامہ دختران اسلام کا بنیادی مقصد تحریکی ذمہ دار سے لے کر معاشرے کے عام فرد تک کی ذہنی بالیدگی کا سامان مہیا کرنا، اسلام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے عورت کو بے راہ روی کی حدود سے نکالنا اور ایک متوازن زندگی گزارنے کے قابل بنانا ہے۔ یہ ماہنامہ اندرون و بیرون پاکستان قارئین کی دنیوی اور اخروی اصلاح کا ساماں کرتے ہوئے بالخصوص خواتین کی اخلاقی و روحانی، دینی و مذہبی، تنظیمی و انتظامی اور فکری و نظریاتی تربیت کے لیے درج ذیل جہات پر اپنا فریضہ سرانجام دے رہا ہے:
1۔ عصرِ حاضر میں خواتین کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروانا۔
2۔ خواتین کو اسلامی تہذیب و ثقافت پر ابھارنا۔
3۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے فکری و تعلیمی کام کو عام کرنا۔
4۔ مصطفوی مشن کو پوری دنیا میں عام کرنا۔
5۔ خواتین کو غلبہ دینِ حق کی سربلندی کے لیے تیار کرنا۔
6۔ طالبات کی عصری تقاضوں کے مطابق فکری، اخلاقی، روحانی، سماجی اور معاشرتی تنظیمی تربیت کرنا۔
7۔ خواتین کو مغربی یلغار سے بچا کر اسلامی روایات کا امین و پاسبان بنانا۔
8۔ خواتین میں قومی و ملی محبت اُجاگر کرنا۔
ماہنامہ دخترانِ اسلام کی اِشاعت کے 28 سال مکمل ہو چکے ہیں اور اس کی سرکولیشن ہزاروں میں ہے۔
جواب: 2020ء میں کورونا وائرس کی عالم گیر وبا نے جب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور عالمی سطح پر معاشی و معاشرتی اور ذہنی و نفسیاتی صورتِ حال کو سخت مضطرب کر دیا تو ایسی صورتِ حال میں تحریکِ منہاج القرآن کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس کے تمام فورمز نے آن لائن اخلاقی و روحانی مختلف پروگرامز کے ذریعے نہ صرف وابستگانِ تحریک بلکہ پوری انسانیت کو خوف و ہراس سے بچانے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ منہاج القرآن ویمن لیگ بھی ہمیشہ کی طرح اس فریضہ کی انجام دہی میں سرِفہرست رہی۔ Covid–19 میں ویمن لیگ نے ہر طرح کے جدید ذرائع اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دعوت و تبلیغِ دین کا کام جاری رکھا، جس کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے:
1۔ شعبہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ’شعور‘ كے تحت’فلاح انسانی کو درپیش چیلنجز کو مسخر کرنا‘ کے عنوان سے کورونا وائرس سے متعلق پوری دنیا کے تحریکی اور غیر تحریکی افراد کو آگہی دینے کے لیے حضور شیخ الاسلام کے پیغام اور راہ نُمائی کو پھیلایا۔
2۔ دعوت و تربیت، ایگرز، الہدایہ اور MSM سسٹرز کے زیر اہتمام پروگرام ’التربیہ‘ کے تحت درج ذیل پراجیکٹس پر کام کیا گیا:
(1) تربیت یافتہ ماں ، پر امن گھر، مستحکم معاشرہ
(2) رمضان ڈائری
(3) قرنطینہ کو فیملی کے لیے مفید وقت بنانا
(4) قرنطینہ کو قرآن ٹائم کے لیے مختص کرنا
(5) Covid–19 کے خلاف جد و جہد
3۔ شعبہ Woice کے تحت Covid–19 ریلیف پروگرام چلایا گیا۔
4۔ MSM سسٹرز الہدایہ کے تحت ’المدیح والنشید‘، ’الترتیل‘ اور ’البیان‘ کے عنوان کے تحت نعت، قراءت، خطاب کے مختلف آن لائن کورسز وغیرہ کرائے گئے۔ مثلاً: ’المدیح والنشید‘، ’الترتیل‘ اور ’البیان‘ کے عنوان کے تحت نعت، قراءت، خطاب کورسز وغیرہ۔ نیز طالبات کے لیے الصفہ لرننگ سیشن کیا گیا۔
5۔ زونل ناظمات ڈیجیٹل ورکنگ کے ذریعے فیلڈ کی عہدے داران کی مہارتوں کو بڑھانے میں ان کی راہ نُمائی اور فالو اپ کے لیے آن لائن میٹنگز کے ذریعے منسلک رہیں۔
6۔ شعبہ دعوت و تربیت کے زیرِ اِہتمام رمضان المبارک میں ’الرحلۃ والادب‘ آن لائن اعتکاف کرایا گیا۔ اس میں شعبہ ایگرز کے زیرِ اِہتمام بچوں کو بھی اعتکاف میں شامل کیا گیا۔
جواب: جی ہاں! شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نےدیگر میادین کی طرح علمی وتحقیقی میدان میں بھی خواتین کو اپنی خدمات سرانجام دینے کے یکساں مواقع فراہم کیے ہیں۔ آپ دورِ حاضر کے عظیم اِسلامی مفکر، مفسر، محدّث اور مجدد ہیں۔ آپ کی قائم کردہ عظیم علمی و فکری تحریک منہاج القرآن ہمہ گیر اور جامع انداز میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق خدمتِ دین کی مختلف جہات پر کام کر رہی ہے۔ آپ پاکستان کے واحد لیڈر ہیں جنہوں نے اسلامی معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے ہر شعبہ ہاے زندگی میں اپنا عملی کردار ادا کرنے کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کو بھی علمی، تنظیمی، دعوتی، تربیتی اور فلاحی پلیٹ فارم فراہم کیا۔ ان تمام شعبہ جات میں خواتین اپنے قائد کے افکار و نظریات کی روشنی میں خدمتِ دین اور فلاحِ انسانیت کے کام میں ہمہ وقت مصروفِ عمل ہیں۔
شیخ الاسلام نے دینی شعور کے فروغ اور علمی و تحقیقی میدان میں خواتین کو اپنی خدمات سرانجام دینے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں 15 اکتوبر 2004ء کو باضابطہ طور پر ویمن ریسرچ اسکالرز کے شعبہ کا افتتاح کیا تاکہ تحقیقی شغف رکھنے والی خواتین، فاضلات اور اسکالرز عامۃ الناس کے فکری ارتقاء کو بحال کرنے کے لیے آپ کے علمی و فکری کام کو آسان، سلیس، منظم اور جامع انداز میں مرتب کر سکیں۔ مسز فریدہ سجاد کو فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ خواتین کی پہلی انچارج مقرر کیا گیا اور ایک ٹیم تشکیل دی گئی جن میں محترمہ آسیہ منظور، محترمہ مصباح کبیر، محترمہ کوثر رشید، محترمہ نازیہ عبد الستار، محترمہ عائشہ ارشاد اور محترمہ رخسانہ خان شامل تھیں۔ 2004ء سے لے کر 2018ء کے دورانیے میں بہت سی فاضلات اور اسکالرز وقتاً فوقتاً اپنی خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ اس وقت مسز فریدہ سجاد کے ساتھ محترمہ مسز مصباح عثمان، محترمہ طیبہ کوثر، محترمہ سحر غنی اور دیگر تحقیقی شغف رکھنے والی فاضلات اور اسکالرز عصرِ حاضر میں عقیدہ و عمل میں اِصلاح و پختگی کے لیے بیش بہا سمعی و بصری ذرائع علم کے ساتھ جدید سے جدید تر وسائل اختیار کرتے ہوئے شعبہ خواتین FMRi میں تفویض کیے گئے مختلف پراجیکٹس پر کام کر رہی ہیں۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ شیخ الاسلام نے اکتوبر 2004ء میں ویمن اسکالرز کے ساتھ ہونے والی پہلی میٹنگ میں تعلیماتِ اسلام سیریز کے بارے میں فرمایا کہ اِن شاء اللہ اس شعبہ کے تحت مرتب ہونے والی کتب بطور نصاب پڑھائی جائیں گی۔ الحمد للہ! آپ کے فرمان کے مطابق اس وقت شعبہ خواتین کے تحت شائع ہونے والی کتب اندرون و بیرون پاکستان بطور نصاب مختلف کورسز میں پڑھائی جا رہی ہیں اور ان کے ذریعے ہزارہا افرادِ معاشرہ شیخ الاسلام کی علمی و تحقیقی فکر سے استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ صرف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تبحرِ علمی اور علم دوستی کے مرہونِ منت ہے۔
جواب: فریدِ ملّتؒ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (FMRi) کا شعبہ خواتین فروغِ دین میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے علمی و فکری کام کو سلسلہ تعلیماتِ اِسلام کی صورت میں آسان، سلیس، سادہ اور جامع انداز میں مرتب کر رہا ہے۔ اس شعبہ کی خواتین اسکالرز بہت محنت، لگن اور عرق ریزی سے حضور شیخ الاسلام کے علمی و تحقیقی اور فکری ورثہ کو سوالاً جواباً کتب کی صورت میں آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا اَہم فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی جدید ضروریات کے مطابق اب تک اس شعبہ کے تحت تعلیماتِ اِسلام سیریز کی درج ذیل کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں:
عصرِ حاضر کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ ہر طبقہ فکر کے لیے حضور شیخ الاسلام کے اِفادات پر مشتمل ’سلسلہ تعلیماتِ اِسلام‘ میں ایمانیات، بنیادی عقائد، عبادات، فرائض و واجبات، حقوق و معاملات، اخلاق و تصوف، سیرت الرسول ﷺ اور اسلامی افکار سے متعلقہ موضوعات اور روز مرہ زندگی میں پیش آمدہ جدید مسائل کو عام فہم، منفرد اور تحقیقی انداز میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اپنی افادیت کے اعتبار سے ہر قاری کے لیے خصوصی اَہمیت کی حامل ہے۔
اس کتاب کا بنیادی مقصد عامۃ الناس کو مبادیاتِ اسلام کی معرفت عطا کرنا ہے۔ یہ کتاب اس اعتبار سے منفرد ہے کہ دین سے شغف رکھنے والوں کے لیے روز مرہ کے مسائلِ حیات اور عقائد و اعمال کو نہایت آسان پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کی اَہم خصوصیت یہ ہے کہ تغیر پذیر اَحوالِ حیات کے پیدا کردہ مسائل کا حل سہل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں عنوان سے متعلقہ 206 سوالات کے جوابات ترتیب دیے گئے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
اسلام مذہب ہے یا دین؟ احکامِ شریعت کیا ہیں؟ کیا کسی کو زبردستی اسلام میں داخل کرنا جائز ہے؟ کیا فقہ کا ثبوت قرآن حکیم سے ملتا ہے؟ جہاد اور دہشت گردی میں فرق کیا ہے؟ خوارِج کون ہیں؟ اسلام انسانی زندگی میں کیسا انقلاب بپا کرنا چاہتا ہے؟ فرقہ پرستی سے کیا مراد ہے اور اس کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟
اس کتاب میں ایمان کی حقیقت، ایمان مجمل و ایمان مفصل کی تفصیلات، صفات الٰہیہ کا بیان، ایمان بالرسل، ایمان بالکتب، ختم نبوت، ایمان بالآخرت، ایمان بالملائکہ، ایمان بالقدر اور ایمان سے متعلق متعدد موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے تاکہ عامۃ الناس ابتدائی دینی عقائد سے شناسائی حاصل کر سکیں۔ اس کتاب میں عنوان سے متعلقہ 108 سوالات کے جوابات ترتیب دیے گئے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
ایمان کسے کہتے ہیں؟ مسلمان ہونے کے لیے بنیادی شرط کیا ہے؟ ایمان میں حضور نبی اکرم ﷺ سے تعلق کی کیا اَہمیت ہے؟ مسلمان ہو کر بھی ہمارا ایمان کمزور کیوں ہے؟ کیا ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے؟ موجودہ دورِ زوال میں ایمان کی حفاظت کس طرح ممکن ہے؟ امت کے ایمان کی پختگی کے لیے تحریک منہاج القرآن کیا کردار ادا کر رہی ہے؟
اس کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں احسان کی فضیلت، اسلام، ایمان اور احسان کے باہمی تعلق، سیرت صحابہ میں طریقِ اِحسان، حسن نیت اور حسن عمل کے لیے احسان کی اَہمیت، صوفیاء کرام کے کردار کے نمایاں خصائص، اصلاحِ نفس اور سلاسلِ طریقت کی تفصیل پر مشتمل احسان سے متعلق اَہم امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں عنوان سے متعلقہ 133 سوالات کے جوابات ترتیب دیے گئے ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
احسان کا لغوی معنی و مفہوم کیا ہے؟ اسلام، ایمان اور احسان کا باہمی تعلق کیا ہے؟ مرتبہ احسان تک رسائی کا ذریعہ کیا ہے؟ کیا احسان پر کوئی اجر خاص ملتا ہے؟ تزکیہ نفس کیوں ضروری ہے؟ صحبتِ صلحا کیوں ضروری ہے؟ دورِ زوال میں تصوف و روحانیت کا اِحیاء کیونکر ممکن ہے؟ احیائے تصوف و روحانیت کے لیے تحریک منہاج القرآن کیا خدمات سرانجام دے رہی ہے؟
اس کتاب میں طہارت اور نماز کے روایتی مسائل کو زیرِ بحث لانے کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر کے جدید مسائل کا جواب بھی بڑے احسن انداز میں دیا گیا ہے۔ اس میں نماز جیسے اَہم فریضہ کی ادائیگی کو مؤثر بنانے کے لیے اس کی جزئیات کو عام فہم پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ہر طبقہ فکر کے لیے یکساں مفید ہے۔ اس کتاب میں عنوان سے متعلقہ 234 سوالات کے جوابات ترتیب دیے گئے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
طہارت سے کیا مراد ہے؟ غسل کے فرض ہونے کی کیا صورت ہے؟ اگر وضو کرنے کے دوران کسی عضو کے دھونے میں شک واقع ہو تو کیا وضو دوبارہ کرنا چاہیے؟ کیا عورت امامت کروا سکتی ہے؟ عموماً مرد پینٹ کے پائنچے دہرے (fold) کر کے نماز ادا کرتے ہیں، کیا ایسا کرنے سے نماز ادا ہو جائے گی یا اس کا اعادہ کرنا ہو گا؟ کیا دورانِ نماز موبائل فون بند کرنے سے نماز ادا ہو جائے گی؟
اس کتاب میں رمضان المبارک، روزہ، اعتکاف، شبِ قدر اور عید الفطر کے علمی و فقہی مسائل کو بیان کرنے کے علاوہ عصرِ حاضر کے جدید مسائل کو بھی منفرد انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ہر طبقہ ہائے فکر کے لیے یکساں مفید ہے بلکہ تعلیمی ادارہ جات کی لائبریریوں اور درسی نشستوں میں پڑھائے جانے کے لیے انتہائی نفع بخش ہے۔ اس کتاب میں عنوان سے متعلقہ 163 سوالات کے جوابات ترتیب دیے گئے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
روزہ اور اعتکاف کے فضائل و مسائل کیا ہیں؟ روزہ کن امور سے ٹوٹتا ہے اور کن سے نہیں ٹوٹتا؟ حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک کا کیسے استقبال فرماتے؟ سحری کھانے میں تاخیر اور افطار کرنے میں جلدی کا حکم کیوں دیا گیا؟ کھجور سے روزہ افطار کرنے میں کیا حکمت ہے؟ روزہ کا کفارہ کیا ہے اور اس کے ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اعتکاف بیٹھنے کی شرائط کیا ہیں اور کیا خواتین کا اعتکاف بیٹھنا درست ہے؟
اس کتاب میں حج اور عمرہ کے مسائل اور احکامات کو انتہائی سہل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ بہتر ابلاغ کے لیے اس کتاب کو 9 عنوانات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں حج اور عمرہ سے متعلقہ کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا گیا۔ کتابِ ہذا میں شامل کی جانے والی رنگین تصاویر اس کی افادیت و جامعیت میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ یہ کتاب حجاج و معتمرین کے لیے ایک لازمی زادِ سفر کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب میں عنوان سے متعلقہ 225 سوالات کے جوابات ترتیب دیے گئے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
حج کا پس منظر کیا ہے؟قرآن و حدیث کی روشنی میں حج اور عمرہ کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ حج اور عمرہ میں خواتین سے متعلقہ مسائل کیا ہیں؟ حج میں قربانی کے کیا مسائل ہیں؟ احرام باندھنے کا طریقہ کیا ہے اور مرد اور عورت کے احرام میں کیا فرق ہے؟ اگر کسی کے ذمہ قرض ہو تو کیا وہ شخص حج کر سکتا ہے؟ کیا عورت خاوند کی اجازت کے بغیر حج ادا کر سکتی ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضری کے آداب کیا ہیں؟
اس کتاب میں زکوٰۃ اور صدقات کے مسائل اور احکامات کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے تاکہ صاحبانِ ثروت و متموّل افراد زیادہ سے زیادہ افرادِ معاشرہ کی مالی معاونت کر کے ان کی محرومیوں کا ازالہ کریں۔ یہ ہر صاحبِ حیثیت کے لیے گائیڈ بک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب میں عنوان سے متعلقہ 195 سوالات کے جوابات ترتیب دیے گئے ہیں۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
مصارفِ زکوٰۃ کتنے اور کون سے ہیں؟ زکوٰۃ کی تقسیم کیسے ہونی چاہیے؟ اگر کسی کے پاس بقدرِ نصاب کرنسی ہو توکیا حکم ہے؟ مالِ تجارت کی زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ کیا ہے؟کیا ٹیکس دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے؟ زیورات پر زکوۃ ادا کرنا زوجین میں سے کس پر لازم ہے؟ مشترکہ کاروبار میں زکوٰۃ کیسے ادا کی جائے گی؟ شہرت کی نیت سے دیئے گئے صدقہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ پاکستان میں رائج نظامِ زکوٰۃ کیوں کامیاب نہیں ہے؟ نظامِ زکوٰۃ کے عملی نفاذ کے لیے تحریک منہاج القرآن کیا کردار ادا کرر ہی ہے؟
یہ کتاب نکاح، طلاق، مہر، خلع، ظہار، ایلہ، عدت، نفقہ، حضانت اور وراثت کے جملہ احکامات اور مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس میں افرادِ خانہ کی معاشرتی و معاشی تربیت کے ساتھ ساتھ حقوق و فرائض کی ادائیگی پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں عنوان سے متعلقہ 412 سوالات کے جوابات ترتیب دیے گئے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
شادی کا اِسلامی طریقہ کیا ہے؟ کیا نکاح کے معاملے میں عورت کی اجازت ضروری ہے؟ کیا اسلام میں پسند کی شادی (love marriage) کرنا جائز ہے؟ کیا کورٹ میرج (court marriage) کرنا جائز ہے؟ جہیزکی شرعی حیثیت کیا ہے؟ مہر میں کون کون سی اشیاء دینا جائز ہیں؟ اسلام میں سب سے پہلے حقِ خلع کس نے استعمال کیا؟ طلاق دینے کا شرعی طریقہ کیا ہے؟طلاق کی عدت کا وقت کب سے شمار ہوا؟ عورت کے نفقہ کا تعلق نکاح سے ہے یا رخصتی سے؟ بیوی کا شوہر کی وراثت میں کتنا حصہ ہے؟
اسلام کے حقیقی اُصولوں کی روشنی میں نسلِ نو کی تربیت آج کے والدین کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں۔ ’بچوں کی پرورش اور والدین کا کردار‘ کے عنوان سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے افادات پر مشتمل سلسلہ تعلیماتِ اسلام کا دسواں سنگِ میل ’رحمِ مادر سے ایک سال کی عمر تک‘ کے بچوں کی نگہداشت اور تربیت کے حوالے سے منصہ شہود پر آچکا ہے۔ اس کتاب میں خاندان کی تعمیر میں زوجین کا کردار، والدین کے فرائض، پیدائش سے پہلے اور بعد میں بچے کے حقوق، بچے کی پیدائش سے لے کر ایک سال تک مختلف مدارج اور عادات پر اسلام کے آفاقی رنگ میں رنگنے کے خاطر خواہ انتظامات مرتب کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں عنوان سے متعلقہ 150 سوالات کے جوابات ترتیب دیے گئے ہیں۔
خاندان کی تعمیر میں زوجین کی ہم آہنگی کیا کردار ادا کرتی ہے؟ دورانِ حمل ماں کا مزاج اور اس کی مثبت و منفی کیفیات بچے کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب کرتی ہیں؟ دورانِ حمل شوہر کا بیوی کے ساتھ سلوک کیسا ہونا چاہیے؟ اسلامی نقطہ نگاہ سے مدر فیڈ کے بچے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ بچے کے اعضاء بننے کے بعد اِسقاطِ حمل کی سزا کیا ہے؟ معذور بچوں کے ساتھ والدین کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ ایک سال کے بچے کی نگہداشت کے لیے والدین کو کون سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں؟
یہ کتاب والدین اور اساتذہ کے لیے ایک گائیڈ بک کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں طفلانِ ملت کی اعلیٰ تربیت، عمدہ تعلیم، مناسب پرورش، مہذب نگہداشت، خصوصی دیکھ بھال اور دین کی ابتدائی آگاہی کے طریقہ کار کو بیان کیا گیا ہے اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے نفسیاتی مسائل کا حل حضور شیخ الاسلام کے گلشنِ افکار کی روشنی میں دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں عنوان سے متعلقہ 180 سوالات کے جوابات ترتیب دیے گئے ہیں، جیسا کہ:
بچوں کی جسمانی نشو و نما کے لیے کیسی خوراک دینا ضروری ہے؟ کیا بچے کی تربیت پر والدین کے اخلاق و عادات اثر انداز ہوتے ہیں؟ بچوں کے لیے ڈے کئیر کا انتخاب کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟ بچوں کی بنیادی ضروریات کیا ہیں؟ بچوں کو کون سی سورتیں اور ماثورہ دعائیں سکھائی جائیں؟ کیا حضور نبی اکرم ﷺ بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے؟ والدین کی مار پیٹ کے بعد بچہ کیا سوچتا ہے؟ کیا والدین کو اپنے بچوں سے محبت کا اظہار کرنا چاہیے؟
اس کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں بچوں کی تعلیم، کیرئیر کے انتخاب، اخلاقی و روحانی اور قریب البلوغت کی نفسیاتی، جذباتی اور معاشرتی تربیت کے تمام پہلوؤں پر نہ صرف سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے بلکہ شباب کی وادی میں قدم رکھنے والے نوجوانوں کو معاشرے کے بُرے اثرات سے بچانے کے لیے اقدامات پر بھی تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے۔ نیز اس کتاب میں حضور شیخ الاسلام کی ہدایات کی روشنی میں مذکورہ عمر کے بچوں کی تربیت کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کو زیرِ بحث لا کر ان کی دینی و اخلاقی اور سماجی و نفسیاتی تربیت کے اُصول وضع کیے گئے ہیں۔ یہ دراصل ایک گائیڈ بک ہے جو نسلِ نو کو ایک اچھا مسلمان اور ذمہ دار شہری بناتی ہے۔ اس کتاب میں عنوان سے متعلقہ 176 سوالات کے جوابات ترتیب دیے گئے ہیں۔ جن میں سے چند اَہم سوالات درج ذیل ہیں:
کیرئیر کونسلنگ کسے کہتے ہیں؟ غلط کیرئیر کے انتخاب کے نقصانات کیا ہیں؟ بچوں کو چھوٹی چھوٹی ناکامیوں کا مقابلہ کرنا کیسے سکھایا جائے؟ کن نامور شخصیات نے ناکامیوں کے بعد جہدِ مسلسل سے کامیابی حاصل کی؟ کیا حکایات و قصص کے ذریعے بچوں کی اخلاقی تربیت کی جا سکتی ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو بچوں میں طفلانہ محبت کو جنم دیتے ہیں؟ بچہ اگر کسی بُرائی کا مرتکب ہو جائے تو والدین کو کیا کرنا چاہیے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بنا پر بچے مجرم بنتے ہیں؟
مغربی دنیا میں مقیم مسلمانوں کی کثیر تعداد کے لیے Teachings of Islam Series کے عنوان سے بعض کتب کے انگلش تراجم شائع کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ اب تک اس سیریز کی درج ذیل سات کتب طبع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں:
1. Teaching of Islam Series: Peace & Submission
2. Teaching of Islam Series: Faith
3. Teaching of Islam Series: Spiritual & Moral Excellence
4. Teaching of Islam Series: Purification & Prayer
5. Teaching of Islam Series: Fasting & Spiritual Retreat
6. Teaching of Islam Series: Hajj & Umra
7. Teaching of Islam Series: Zakah & Charity
یہ کتب انگریزی دان نسلِ نو کے لیے نصاب کی حیثیت رکھتی ہیں، جن کی بدولت وہ اپنے ایمان کی حفاظت اور مبادیاتِ اسلام سے آگاہی حاصل کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں فاضل خواتین اسکالرز کتب کا ریویو، تحقیقی مسودات کے انگلش سے اُردو اور اُردو سے انگلش میں تراجم کرنے کی خدمات بھی بڑی خوش اُسلوبی سے سرانجام دے رہی ہیں، جسے بعد ازاں سینئر اسکالرز کی جانب سے فائنل چیک کیا جاتا ہے، مثلاً:
یہ کتاب پہلے چھوٹے حجم میں شائع کی گئی تھی۔ اسے بعد ازاں حضور شیخ الاسلام کی خواہش اور ہدایات کے مطابق شعبہ خواتین کی طرف سے حسبِ ضرورت اضافہ جات کے بعد ایک ضخیم کتاب کی صورت میں منظرِ عام پر لایا گیا۔ یہ بارہ ابواب پر مشتمل ہے: توبہ و استغفار، ذکر الٰہی، نماز، قیام اللیل، تلاوت قرآن، درود و سلام، صدقہ و خیرات، فاقہ و کم خوری، خاموشی، خلوت نشینی اور دعوت و تبلیغ سمیت ہر عمل کا حسن اپنے اندر ایک جہاں بسائے ہوئے ہے۔ حُسنِ اَعمال کتاب کا ہر پہلو ظاہری و باطنی گوشوں کو محیط ہے جس کو شریعت مطہرہ کے نگینوں سے سجایا گیا ہے۔ اس میں ہر زاویہ سے حسن و جمال ایزدی کی رعنائی جھلکتی ہے۔ ابتداء سے انتہاء تک قلب و باطن کی دنیا میں جمالیاتی حسن کا پرتو حسن اعمال کے قالب میں ڈھلتا ہوا نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی اس کتاب میں فرقہ وارانہ تشدد کے رحجانات کو تقلیداً بیان کیا گیا ہے اور عالمی حالات کی روشنی میں پاکستان میں اس کی نمو کے ذمہ دار عوامل کی شناخت کی گئی ہے۔ مزید براں اس مذموم نظریے کے رحجان کو کم کرنے کے لیے اس میں عملی تجاویز کی نہایت جامع انداز میں توضیح کی گئی ہے۔ اس کتاب پر معاونت کا کام بھی خواتین اسکالرز نے انجام دیا ہے۔
یہ کتاب ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے مختلف اردو اور انگلش مقالات کا مجموعہ ہے۔ اس تحقیقی دستاویز میں مذہب، بنی نوع انسان کی شناخت، مسلم سائنسدانوں کے کارہاے نمایاں، تعددِ ازواج، نظامِ حکومت و خلافت سے متعلقہ اسلامی تعلیمات اور دیگر کئی اَہم تحقیقی و علمی مباحث کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں ہر پہلو پر شیخ الاسلام کی علمی و تحقیقی کتب، خطابات اور افادات سے بالعموم استفادہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی تیاری میں بھی معاونت کا کام خواتین اسکالرز نے انجام دیا ہے۔
جواب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی زیرِ سرپرستی تجدید و اِحیاءِ دین کی عظیم تحریک ’’منہاج القرآن انٹرنیشنل‘‘ ہر سطح پر امت کی راہ نُمائی کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ فریدِ ملت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ کا شعبہ خواتین بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ یہ شعبہ عصرِ حاضر میں عقیدہ و عمل کی اِصلاح اور درستگی کے لیے بیش بہا سمعی و بصری ذرائع علم کے ساتھ جدید وسائل اختیار کرتے ہوئے سلسلہ تعلیماتِ اسلام کی صورت میں دعوتی اور تربیتی لٹریچر فراہم کر رہا ہے۔ اس شعبہ میں کام کرنے والی خواتین اسکالرز انگلش اور اردو میں یکساں مہارت رکھتی ہیں۔ لہٰذا انگلش زبان سے اردو میں ترجمہ یا اردو سے انگلش میں ترجمہ کا فریضہ بھی یہ خواتین اسکالرز احسن طریقے سے ادا کر رہی ہیں۔
جواب: دینی فریضہ میں خواتین کے کردار کی اَہمیت کے پیشِ نظر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 5 جنوری 1988ء کو منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں تحریک سے وابستہ خواتین کے اجتماع میں بیگم رفعت جبین قادری کی سرپرستی میں باضابطہ منہاج القرآن ویمن لیگ کے قیام کا اعلان فرمایا تاکہ خواتین کو دعوت و تبلیغ کا عملی فریضہ سرانجام دینے کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا ہو جہاں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین کا دینی و دنیوی علمی شعور بیدار کر کے انہیں درج ذیل سطح کی جد و جہد میں اَہم کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جاسکے:
• اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کو درپیش مسائل اور مشکلات کا قابلِ عمل اور یقینی حل پیش کر سکیں۔
• دینی علوم اور جدید عصری و سائنسی علوم کی روشنی میں محدود سوچ اور تعصبات کا شکار خواتین میں امت کے اجتماعی تحفظ کا داعیہ بیدار کر سکیں۔
• خواتین میں صالحیت، ایثار اور خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت کر سکیں۔
• خواتین کی فکری و نظریاتی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ نسلِ نو کو اسلام کی مخلصانہ اور ماہرانہ خدمت کرنے کے قابل بنا سکیں۔
• اپنی سیرت و کردار سے معاشرے میں اپنا مقام و منصب پہچاننے، منوانے اور امتِ مسلمہ کی تقدیر بدلنے کا جذبہ پیدا کر سکیں۔
مذکورہ مقاصد کی روشنی میں شیخ الاسلام نے خواتین کی سوچ اور زاویہ ہاے نگاہ کو تبدیل کر کے انہیں فکرِ ذات کی بجائے فکرِ اُمت سے روشناس کرایا۔ تعلق باللہ کی مضبوطی کے لیے ان کے دلوں کی اجڑی کھیتیوں کو ازسرِنو خشیتِ الٰہی، اطاعتِ الٰہی اور محبتِ الٰہی سے سیراب کیا۔ ربطِ رسالت کی پختگی کے لیے ان کے دلوں میں بجھے ہوئے عشقِ مصطفیٰ ﷺ کے چراغوں کو پھر سے منور کیا۔ اسلام کے لیے سب کچھ قربان کرنے اور اپنے کردار کی مضبوطی پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
اے دخترانِ اسلام! آج دین کو آپ کی ضرورت ہے۔ دینِ اسلام پر حملے ہورہے ہیں۔ آج دین کو بچانے کے لیے آپ کو اپنے گھروں سے نکلنا ہوگا۔ گھر گھر دعوتِ دین کا پیغام پہنچانا ہوگا۔ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا۔ آج پھر سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت کے سانچے میں ڈھلنا ہوگا۔ اپنا کردار سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے رنگ میں رنگنا ہوگا۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے مجاہدانہ اور انقلابی کردار کو اَز سرِ نو زندہ کرنا ہوگا۔ آج پھر حضرت سمیّہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم عمارہ رضی اللہ عنہا جیسی عظیم بناتِ اِسلام تیار کرنے کی ضرورت ہے، جنہوں نے جان پر کھیلتے ہوئے دینِ اسلام پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔
بحمدہٖ تعالیٰ! منہاج القرآن ویمن لیگ حضور شیخ الاسلام کی قیادت اور راہ نُمائی میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے 60 سے زائد ممالک میں ایک مضبوط تنظیمی نیٹ ورک کے ذریعے نیکی، تقویٰ، طہارت اور پاکیزگی کا پیکر بن کر خواتین کو نئی نسل کی محافظت کا شعور دے رہی ہے۔ خواتین کے اعمال و احوال اور عقائدِ اسلامی کی اصلاح کے لیے خصوصی تربیتی پروگرامز مثلاً حلقہ جاتِ عرفان القرآن، دروسِ قرآن، محافلِ ذکر و نعت، تربیتی ورکشاپس، الہدایہ کیمپس، سالانہ اعتکاف، میلاد النبی ﷺ کانفرنسز اور محرم الحرام کے اجتماعات کا انعقاد ہر سطح پر کر رہی ہے۔ ہر شعبہ ہاے زندگی میں ویمن لیگ اپنی حیثیت، اپنے عمل و کردار اور اپنی حیات بخش صلاحیتوں کے بل بوتے پر عورت کو معاشرے کے ناگزیر عنصر کے طور پر منوا رہی ہے۔
حضور شیخ الاسلام نے نسلِ نو کی دینی تعلیم و تربیت اور ان کے فکر و شعور کو اجاگر کرنے کے لیے 1986ء میں منہاج یونی ورسٹی لاہور، 1994ء میں منہاج کالج برائے خواتین لاہور، 1994ء میں تحفیظ القرآن گرلز انسٹی ٹیوٹ لاہور اور 1997ء میں منہاج گرلز ماڈل سکول لاہور جیسے اَہم تعلیمی اور تربیتی مراکز قائم کیے۔ اِس وقت بیسیوں کالجز، سیکڑوں اسکولز اور اسلامک سینٹرز نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر مؤثر اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ہزارہا طالبات کو قدیم اور جدید علوم سے بہرہ مند کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں۔ شیخ الاسلام نے اساتذہ اور طالبات کو ہمیشہ یہ نصیحت فرمائی ہے:
علم وہی صحیح اور کار آمد ہے جو حقائق کے ساتھ خالق کی معرفت کا باعث بنے۔ جو آپ کی سیرت و کردار بدلنے کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنے رب کی دہلیز پر سر بسجود کرتا رہے۔ آپ جدھر دیکھیں، کائنات میں بکھرے رنگ آپ کو ہر پہلو سے اپنے مالک حقیقی کی یاد دلائیں۔ آپ کو اپنے علم پر ناز نہ ہو بلکہ جو کچھ علم حاصل کریں اسے اپنے خالقِ حقیقی کی توفیق سمجھیں۔ آپ جیسے جیسے علم میں اعلیٰ منازل طے کرتی جائیں، ویسے ویسے اپنا سر عجز و نیاز کے ساتھ اپنے مالک کے حضور جھکاتی چلی جائیں۔ اگر آپ کا علم اس نہج پر قائم رہتا ہے تو وہ معرفتِ الٰہی اور انسانیت کے لیے نسخہ کیمیا ہے وگرنہ معلومات کا پلندہ ہے۔
ان تعلیمی ادارہ جات میں ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طالبات کی تخلیقی صلاحیتیں بیدار کرنے کے لیے بین الکلیاتی اور بین الجماعتی مقابلہ جات اور قومی و مذہبی مواقع پر مختلف پروگرامز کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبات کے قلوب و اذہان کو روحانی فکر و نظر سے مزین کرنے کے لیے مختلف تربیتی مراحل مثلاً پنج گانہ نماز کے ساتھ نمازِ تہجد کی پابندی، ہفتہ وار شبِ داری، حضور شیخ الاسلام کے ہفتہ وار ویڈیو لیکچرز، ایامِ بیض کے روزے، ماہانہ ختم الصلوۃ علی النبی ﷺ کے روحانی اجتماع میں شرکت، ہر تین ماہ بعد سہ روزہ تربیتی کیمپ اور نفلی اعتکاف سے گزارا جاتا ہے تاکہ اسلام کی ایسی بیٹیاں تیار ہو سکیں جو سیدہ فاطمۃ الزہرا اور سیدہ زینب d کے کردار کی طرز پر خدمتِ دین کی ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں۔
جواب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے خواتین کی معاشی و معاشرتی تربیت کے لیے اپنی بے پناہ علمی، تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر درجنوں کتب اور سیکڑوں خطابات کے ذریعے جو چشم کشا حقائق بیان کیے ہیں وہ عصرِ حاضر میں حقوقِ نسواں کے لیے ایک مینارۂ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے ملکی سطح پر بالخصوص اور بین الاقوامی سطح پر بالعموم اِسلام کا متوازن تصور پیش کیا کہ اسلام نے عورت کو جہاں حقوق دیے ہیں وہاں اس پر فرائض بھی عائد کیے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام نے اُمتِ مسلمہ کی بیٹیوں کو یہ شعور دیا کہ وہ اپنے فرائض پورے کیے بغیر معاشرے میں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتیں، کیونکہ فرائض کی ادائیگی کی صورت میں حقوق کا حصول قدرتی طور پر خود بخود تکمیل پذیر ہو جاتا ہے۔ خواتین کی empowerment کا حقیقی تصور بھی یہی ہے جو اسلام نے آج سے 1500 سال قبل عطا کیا تھا۔ حضور شیخ الاسلام نے خواتین کے معاشرتی کردار پر زور دیتے ہوئے فرمایا ہے:
خواتین اپنے اپنے فیلڈز میں PHDs کریں، پالیسی ساز اداروں میں شامل ہوں۔ ڈاکٹر، انجینئر، جج اور سیاست دان بنیں تاکہ قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے ضمن میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کر سکیں، کیونکہ پاکستان اور عالم اسلام اُسی وقت بحرانوں سے باہر نکلے گا جب اس کی خواتین کو برابری کی بنیاد پر زندگی کے ہر شعبے میں شمولیت کے مواقع ملیں گے۔
خواتین کی معاشی و معاشرتی تربیت کے لیے حضور شیخ الاسلام کی عملی کاوشوں کا اِجمالی تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:
• شیخ الاسلام نے تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم پر منہاج القرآن ویمن لیگ کو ہر بنیادی فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں مشاورت اور رائے دہی کا حق دیا ہے۔ اس سے آپ کی ذات میں وُسعتِ نظری، وُسعتِ قلبی اور اِنسانیت کے حقوق کے علم بردار ہونے کی روشن مثال ملتی ہے۔
• شیخ الاسلام نے خواتین کی بنیادی حیثیت تسلیم کروانے کے لیے اُنہیں تحریک منہاج القرآن کے ہر شعبہ میں نمائندگی دی ہے۔ اِس طرح انہیں باعزت روزگار کے مواقع بھی میسر آئے ہیں۔
• شیخ الاسلام نے اصلاحِ معاشرہ میں عورت کی حیثیت کو منوانے کے لیے سیرتِ طیبہ اور سلف صالحین سے درجنوں مثالیں دے کر مردوں میں خواتین سے حسنِ سلوک کا شعور اُجاگر کیا ہے۔
• شیخ الاسلام کی ہدایات کے مطابق خواتین کے سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل کے حل اور women empowerment کے لیے منہاج القرآن کے زیر اہتمام Woice کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جس کے ذریعے بیداریِ شعور، charity پراجیکٹس، Woice ہنر گھر کے منصوبہ جات پر کام ہو رہا ہے۔
• شیخ الاسلام کی ہدایات کے مطابق منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت ہر سال نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم غریب اور مستحق بچیوں کی شادیاں ہوتی ہیں اور جملہ اخراجات منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن برداشت کرتی ہے۔
• شیخ الاسلام کی راہ نُمائی میں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت ہر سال مختلف شہروں میں فری آئی سرجری کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں لینز، عینک، میڈیسن اور خوارک کا تمام خرچہ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ادا کرتی ہے۔
• منہاج کالج برائے خواتین خانیوال، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کا ایک مثالی تعلیمی منصوبہ ہے۔ جو جنوبی پنجاب کی بچیوں کے لیے صرف ایک تعلیمی درس گاہ ہی نہیں بلکہ ایک تربیتی ادارہ بھی ہوگا۔
• شیخ الاسلام کی ہدایات کے مطابق منہاج القرآن ویمن لیگ عید میلاد النبی ﷺ، رمضان المبارک، عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر غریب و مستحق خواتین کو کپڑے، راشن، نقدی اور گوشت کی صورت میں مدد فراہم کر کے ان کی خوشیوں کو دوبالا کرتی ہے۔
• شیخ الاسلام کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کا ایک خاص اعزاز یہ بھی ہے کہ یہ اَقوامِ متحدہ کے اِقتصادی اور معاشرتی کونسل کی باقاعدہ رکن ہے۔ جس کے تحت مختلف پراجیکٹس میں سے ایک Reconciliation Council of Minhaj-ul-Quran ہے۔ یہ کونسل پاکستان اور دنیا کے متعدد دیگر ممالک میں خواتین کے گھروں کو بچانے کے لیے متحرک ہے۔ اس کونسل کے دائرہ کار میں آنے والی علاقہ کی خاتون کو اگر گھر میں ناچاقی کا سامنا ہو تو دونوں خاندانوں کو باہم بٹھا کر صلح صفائی کروائی جاتی ہے اور حتی الوسع کوشش کرکے طلاق سے بچنے میں مدد کی جاتی ہے۔
جواب: ریاستِ مدینہ کے بعد پاکستان وہ پہلی اسلامی ریاست بنی جو اسلامی نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئی۔ لیکن افسوس! بانیانِ پاکستان کی وفات کے بعد اس ملک پر سیاسی شعبدہ باز قابض ہوگئے، جنہوں نے کرپشن سے اس ملک کے نظام کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ ان دگرگوں حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ’’سیاست نہیں، ریاست بچاؤ‘‘ کا نعرہ لے کر میدانِ عمل میں اُترے۔ آپ ایسی سیاست کو بچانا چاہتے تھے جو ریاست کو بچائے، جو ملک سے نفرتوں کو ختم کر دے اور ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بجائے اسے ایک اکائی بنا کر رکھ دے۔ آپ نے ملک کے استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے پُر امن جد و جہد کی اور اس میں خواتین کو بھی عملی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ شیخ الاسلام نے سیاسی جد و جہد میں مردوں کے ساتھ خواتین میں بھی وطنِ عزیز میں حقیقی نظامِ جمہوریت کے قیام کا شعور بیدار کرتے ہوئے فرمایا:
عورت معاشرے کی ایک بھرپور اکائی ہے۔ اس کا زندگی کے ہر گوشے چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، عائلی ہو یا تربیتی، اس میں ایک خاص کردار ہے۔ ملک کا مستقبل سنوارنے کے لیے نسلِ نو کی پرورش اور تربیت میں اس کا بڑا عمل دخل ہے۔
شیخ الاسلام نے خواتین کو آگہی دی کہ اسلامی معاشرہ ہو یا غیر اسلامی معاشرہ، مشرقی سوسائٹی ہو یا مغربی، اس کے معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی نظام میں انسانی حقوق کو نافذ کرنے میں اور اسے ایک مستحکم اور مضبوط ملک بنانے میں کوئی منصوبہ خواتین کی بھرپور شرکت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ عورت کو ذہنی، فکری، تعلیمی، تحقیقی اور انتظامی کسی طرح بھی صلاحیت میں مرد سے کم نہیں رکھا گیا۔ حضور شیخ الاسلام کی تربیت کی وجہ سے خواتین میں بیداریِ شعور کی عظیم لہر پیدا ہوئی۔
23 دسمبر 2012ء کا عظیم تاریخی دن ہو یا سخت سردی اور بارش میں جنوری 2013ء کا اسلام آباد لانگ مارچ، ہر محاذ پر مردوں کے ساتھ خواتین برابر کی شریک تھیں۔ ان کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ وہ موت سے بے خوف، حکومتی حربوں اور سازشوں سے بے پرواہ ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھیں۔ 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن میں واقع حضور شیخ الاسلام کی رہائش گاہ اور مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن کے اردگرد لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر لگے سکیورٹی بیرئیرز ہٹانے کے بہانے پنجاب پولیس کے مسلح اہلکاروں نے حکومتی ایماء پر ریاستی دہشت گردی کا بدترین مظاہرہ کیا۔ اس قتل و غارت اور حکومتی بربریت کی گھڑی میں مردوں کے ساتھ خواتین نے جو کردار ادا کیا اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ درندہ صفت پولیس کی طرف سے بے رحمانہ لاٹھی چارج، آنکھوں اور گلوں کو کاٹ دینے والی زہریلی آنسو گیس کی شیلنگ، زخموں سے تڑپتے جسموں اور اندھا دھند سیدھی فائرنگ سے نہتی خواتین زخمی اور 2 عظیم مجاہدات تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ نے جامِ شہادت نوش کر کے اپنے قائد سے حقِ وفاداری ادا کیا۔
اس کے بعد اگست 2014ء کی شدید گرمی اور نامساعد حالات میں ہونے والے انقلاب مارچ میں بھی خواتین نے آزمائشوں کا بہادری کے ساتھ سامنا کیا اور استقامت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ کھلے آسمان تلے تیز ترین دھوپ، موسلا دھار بارش، اَشیاے خور و نوش کی قلت جیسے مسائل اور مصائب و آلام میں خواتین پہاڑ اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند سینہ سپر رہیں۔ یہ پُر عزم خواتین بھوک، پیاس، نیند اور آرام سے بے نیاز جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈٹی رہیں اور ان کے پایہ استقلال میں ذرا برابر بھی لغزش نہ آئی۔ اپنے سیاسی حقوق کے لیے پُرامن جد و جہد کی۔ یہ مثال تحریکِ پاکستان کے بعد پاکستان کی تاریخ میں ملنا ناممکن ہے۔ خواتین کو اپنے سیاسی حقوق کے حصول کے لیے پُر امن جد و جہد کا یہ شعور حضور شیخ الاسلام نے دیا ہے۔
جواب: تحریک کو منزلِ مقصود پر پہنچانے اور ہر طرح کے بد عنوان عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ کی عہدے داران کو ایمان، یقین، استقامت اور وفا کا پیکر ہونا چاہیے۔ ان میں اجتماعیت، قوتِ وحدت اور یک جہتی ہونی چاہیے۔ ان کا قلب و نظر مادی دور کی کثافت سے پاک ہونا چاہیے۔ انہیں خود میں صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ جیسے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو سینئر ہونے کے باوجود کبھی عہدہ نہیں دیا گیا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ میزبانِ مصطفی ﷺ ہونے کے باوجود مدینہ سے استنبول کی جانب عام سپاہی بن کر چلے اور اسی حالت میں شہید ہوگئے۔ حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا ، حضرت اُم حکیم رضی اللہ عنہا ، حضرت خنساء رضی اللہ عنہا جیسی عظیم الشان صحابیات کسی بھی عہدہ پر فائز نہ ہونے کے باوجود مہمات میں مردوں کے شانہ بشانہ بہادری سے لڑیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کا فریضہ سرانجام دیتی رہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا ، حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا ، حضرت عطیہ رضی اللہ عنہا جیسی عظیم صحابیات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سینئر ہونے کے باوجود کبھی کسی عہدے پر فائز نہیں ہوئے حالانکہ کُتبِ احادیث و تاریخ ان کی روایات اور واقعات سے بھری پڑی ہیں۔
المختصر! ہزار ہا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جنہوں نے اسلام کے علمی و فکری تشخص اور نظریاتی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ مقدس شخصیات احادیثِ مبارکہ کو روایت کرنے والی، سنتوں کو بیان کرنے والی، لوگوں کے دین کی حفاظت کرنے والی، امت کو قرآن، حدیث، تفسیر اور فقہ کی تعلیم دینے والی اور ان کے احوال کی اصلاح کرنے والی سب سے افضل ہستیاں تھیں۔ مگر ریاستی، سیاسی اور تنظیمی عہدہ جات میں انہیں یہ ذمہ داریاں نہ سونپی گئیں بلکہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مقرر کیا گیا۔ ان عظیم ہستیوں کے نفوس اتنے پاکیزہ تھے کہ انہیں اس بات کا ملال تک نہ ہوتا تھا کہ انہیں کوئی عہدہ نہیں سونپا گیا بلکہ وہ عام کارکن بن کر مصروفِ عمل رہتے تھے۔ اسی طرح تابعین اور اتباع التابعین میں حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ ، حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہا ،حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ ، حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ ، حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ ، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ اور دیگر کبار تابعین کرام دین کی فکری، علمی، نظریاتی، اخلاقی، عملی اور تربیتی بنیادوں کی تعمیر پر مامور تھے مگر ان عظیم ہستیوں نےکبھی سیاسی اور ریاستی عہدوں اور مناصب کی طلب کی خواہش نہ کی۔
مذکورہ روشن مثالوں کے بعد کسی اور مثال کی ضرورت نہیں رہتی۔ لہٰذا منہاج القرآن ویمن لیگ کی کارکنان کو کامیابی کے حصول کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام جیسے عظیم کردار کو اپنانا ہوگا۔ ان کا شیوہ یہ نہیں کہ وہ معمولی بات پر رنجیدہ ہوں۔ ان کی نگاہ و نظر ہر حال میں خدا اور مصطفیٰ ﷺ کی رضا اور مشن کی صداقت پر برقرار رہنی چاہیے۔ صرف یہ امر دھیان میں رہے کہ وہ کس کی غلام ہیں؟ سب اس بات کا شعوری و زبانی اقرار کریں کہ اے اﷲ اور اللہ رسول! گواہ ہو جائیں کہ ہم آپ کی غلام ہیں۔ اس بات کا اقرار ہمیشہ ان کی زندگیوں میں شاملِ حال رہے کہ انہیں صرف اللہ کی بندگی اور مصطفیٰ ﷺ کی غلامی مطلوب ہے۔ تاجدارِ کائنات ﷺ کی کملی کا سایہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا ان کا مطلوب و مقصود ہے۔ بخدا! کوئی بھی عہدہ اور منصب اس اعزاز سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اسی صورت میں ان پر اللہ کی خوش نودی اور اس کی عطاؤں کے باب کھل جائیں گے اور آسمانوں سے ان پر اللہ کی رضا، مدد اور نصرت نازل ہوگی۔
جواب: منہاج القرآن ویمن لیگ کی عہدیداران اور کارکنان کو مشن کا کام کرتے ہوئے ہمیشہ یہ امر ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ وہ ان میں سے نہیں جو حالات کے بگڑے تیور دیکھ کر مایوس ہو جائیں اور یہ تصور کرنے لگیں کہ شاید ہمارا دین یا ہمارا مشن سچا نہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ہمارا دین حق ہے اور ہمارا مشن بھی برحق ہے۔ اس کے سچا ہونے کی علامت یہ ہے کہ قدم قدم پر اس مشن کی عہدے داران اور کارکنان پر آزمائشیں آئیں گی۔ اللہ کے دین کی سربلندی کی آرزو لے کر نکلنے والی یہ خواتین سن لیں کہ مصطفوی مشن کی راہ پر صرف وہی چلیں گی جنہیں نہ تو مفادات کی تمنا ہو گی اور نہ خود غرضیوں کی ہوس۔ اُن کا جینا مرنا خالصتاً اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ اُنہیں یہ پختہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے دین کی سربلندی کے لیے جینا چاہتی ہیں اور حضور ﷺ کے دین کے احیاء اور تجدید کی خاطر موت بھی ہنس کر قبول کر لیں گی۔
جواب: منہاج القرآن ویمن لیگ کی عہدے داران اور کارکنان کو شیخ الاسلام نے ہمیشہ یہ نصیحت فرمائی ہے:
اے عالم گیر مصطفوی مشن کی ماؤں، بہنو، بیٹیو!
محض تقریریں اور وعظ کرنے سے معاشرہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ تبدیلی لانے کے لیے ہر طرح کے مفادات اور تن من دھن کو قربان کرنا پڑتا ہے، آزمائشوں کی چکیوں میں پسنا پڑتا ہے۔ مصائب کے پہاڑوں تلے دبنا پڑتا ہے، آندھیوں اور جھکڑوں سے ٹکرانا پڑتا ہے۔ بارہا تراش خراش ہوتی ہے تو پھر کہیں جا کر ہیرا بنتا ہے۔
ویمن لیگ کی عہدے داران و کارکنان! اپنی زندگیوں کو اللہ کے رنگ میں رنگ لو تاکہ تمہارے دلوں سے منافقت کا زنگ اتر جائے۔ تم اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاؤ اوراپنا جان و مال اس کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ نہ ہو کہ اپنے لیے تو لاکھوں روپے خرچ کرو مگر خدا اور مصطفی ﷺ کے دین کی سربلندی کے لیے قربانی کا وقت آئے تو سو بار سوچو۔ معاذ اﷲ! دینِ اسلام تمہارے پیسوں کا ہرگز محتاج نہیں ہے۔ جس کو توفیق نصیب ہوتی ہے تو یہ اس پر ذاتِ الٰہی کا فضل ہے۔ خوش بخت ہیں وہ جنہیں کھانے کو دو لقمے ملیں اور وہ اس میں سے ایک لقمہ اللہ کے لیے دے دیں اور دوسرے لقمہ سے اپنی بھوک مٹائیں۔ وگرنہ اس نے قارون کو اتنا مال دیا تھا کہ اس کے خزانوں کی کنجیاں ستر اونٹ اٹھاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے خزانوں کو اپنی راہ میں قبول نہ کیا اور اسے دھتکار دیا۔
یاد رکھو! ہمیشہ اﷲ کا فضل اور رحمت بھی انہی پر نازل ہوتی ہے جولٹتے بھی ہیں، کٹتے بھی ہیں، زخموں سے چور چور بھی ہوتے ہیں، دنیاوی ساز و سامان سے محروم ہوتے اور شہید بھی ہوتے ہیں؛ مگر جب اللہ کے دین کی طرف سے پکار آتی ہے تو وہ ہر چیز کو بھول کر ایمان کی قوت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مولا! کچھ اور تو ہمارے پاس نہیں؛ بس ایک تن ہے، اسے بھی تیری راہ میں لٹاتے ہیں، اسے قبول کرلے۔ جو عہدے داران اور کارکنان اپنا تن، من اور دھن مولا کو سونپ دیتی ہیں تو بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل اور نصرت کا نزول انہی کا مقدر ہوتا ہے۔
جواب: منہاج القرآن ویمن لیگ کی عہدے داران اور کارکنان کو حضور شیخ الاسلام نے فروری 2018ء میں اپنے قلمی خط میں بڑی ایمان افروز نصیحت فرمائی ہے۔ اُس تاریخی خط کا عکس اگلے صفحے پر دیا جارہا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved