بعض مستشرقین (orientalists) نے میثاقِ مدینہ کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کا تنقیدی و تحسینی جائزہ پیش کیا اور اس کی علمی و تاریخی اہمیت کو بھی واضح کیا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر اس کی فکری، تنظیمی، سیاسی، حکومتی اور انتظامی اُمور سے متعلق مباحث کو اُجاگر کیا ہے۔ مزید برآں حضور نبی اکرم ﷺ کی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے آپ ﷺ کو تاریخِ عالم کی صفِ اول کی اہم ترین سیاسی شخصیت قرار دیا ہے۔ مگر دستورِ مدینہ سے ماخوذ دستوری، حکومتی اور سیاسی اُصولوں کو واضح نہیں کیا۔
تاریخِ اسلام کو خلط ملط کرنے کی شعوری کاوشوں کی مغربی محققین نے ہی نشان دہی کی اور برملا اِعتراف کیا کہ تاریخ میں کوئی ایسی شخصیت نہیں جس کی قدر و منزلت کو عالمِ مغرب میں محمد ﷺ کی شخصیت کی طرح کم کیا گیا ہو۔
مقامِ تعجب ہے کہ عرب محققین نے مستشرقین کی میثاقِ مدینہ پر لکھی جانے والی کتب سے استفادہ کرنے یا کم اَز کم ان کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے ان کتب کوعربی زبان میں منتقل کرنے کا بھی اہتمام نہیں کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے وہ فضائل اور کارنامے جن کی غیر مسلم محققین نے گواہی دی ان کو بھی بیان نہیں کیا گیا۔ دراصل فضیلت تو ہوتی ہی وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے۔ لہٰذا اس تحقیق میں بعض مستشرقین کی اہم کتب جو میثاق مدینہ کے موضوع پر لکھی گئی ہیں، کا ذکر کر کے جہاں ضروری سمجھا گیا وہاں وضاحت اور تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved