اِس کتاب کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اِس میں دستورِ مدینہ کی درج ذیل 20 اہم خصوصیات بیان کی گئی ہیں، جو اِس کے جدید دساتیر پر فائق ہونے پر دلالت کرتی ہیں:
پہلی خصوصیت: دستورِ مدینہ اپنی جزئیات ومشتملات کے اعتبار سے عالمگیر حیثیت کا حامل ہے۔ یہ آئینی دستاویز تاقیامت تمام اَقوامِ عالم کے لیے مینارۂ نور ہے۔
دوسری خصوصیت: دستورِ مدینہ میں ہر قبیلہ اور شخص کی امتیازی شناخت (identity) کو برقرار رکھا گیا ہے۔ ہر قبیلے کے تشخص کا اعتراف کیا گیا اور اُس کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔
تیسری خصوصیت: دستورِ مدینہ میں اختیارات کی مرکزیت کے بجائے تقسیمِ اختیارات (decentralization) کا اُصول دیا گیا ہے۔ ہر قبیلے اور گروہ کو حتی المقدور اُس کے اندرونی معاملات کا خود نگران اور ذمہ دار بنایا گیا ہے۔
چوتھی خصوصیت: دستورِ مدینہ میں معاشرے کی تشکیل میں اِنفرادی اور اِجتماعی کردار کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا اور اختیارات کی نچلی سطح (grassroots level) تک منتقلی کا اُصول اختیار کیا گیا ہے۔
پانچویں خصوصیت: دستورِ مدینہ اِس اَمر کی وضاحت کرتا ہے کہ ریاست کے تمام شہری باہمی معاملات اِفہام وتفہیم، تعاون، باہمی اِحترام اور معروف و مروج طریقوں سے سرانجام دیں۔
چھٹی خصوصیت: دستورِ مدینہ میں قبائل اور ان کے متعاہدین کے مابین تعلقات کو اِعتماد و اعتبار پر اُستوار کیا گیا اور کسی کو باہمی انتشار و افتراق کا سبب بننے کی قطعی اجازت نہیں دی گئی، ایسے عناصر سے سختی سے نبٹنے کے اُصول وضع کیے گئے ہیں۔
ساتویں خصوصیت: دستورِ مدینہ معاشرے کے افراد کے مابین بھی تعلق کی مضبوطی اور استحکام عطا کرتا ہے تاکہ باہمی انتشار سے بچا جا سکے۔
آٹھویں خصوصیت: دستورِ مدینہ مذہبی نظریات و اِعتقادات کی حفاظت اور اَخلاق و اَقدار کی پاس داری کا اہتمام بھی کرتا ہے۔
نویں خصوصیت: دستورِ مدینہ میں حقیقت پسندی کے اُصول کو اپنایا گیا ہے، انسانی طبائع اور عرب معاشرے کے عرف و رواج کی رعایت کرتے ہوئے اور انہیں شریعت اور تہذیب کے دائرے میں لا کر برقرار رکھا گیا ہے۔
دسویں خصوصیت: دستورِ مدینہ میں اَحکام ومعاملات کے اِجرا میں اِعتدال و توازن کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔
گیارہویں خصوصیت: دستورِ مدینہ میں مبنی بر جہالت و عصبیت قبیلہ پرستی کی نفی کی گئی ہے۔
بارہویں خصوصیت: اِس دستور میں مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لیے اُصول و ضوابط طے کیے گئے ہیں۔
تیرہویں خصوصیت: کسی ایک فرد کے گناہ یا جرم کو متعدّی کر کے پورے قبیلے یا برادری کو ملوث کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔
چودھویں خصوصیت: دستورِ مدینہ کے ذریعے نہ صرف پارلیمنٹ (مجلسِ شوریٰ) کا قیام عمل میں لایا گیا بلکہ تمام فیصلے باہمی مشاورت سے کرنے کے کلچر کو فروغ دیا گیا۔
پندرہویں خصوصیت: اس دستور ميں مذہب اور سیاست کے مابین گہرے ربط و اِتصال کی وضاحت کی گئی اور دیگر مذاہب کی طرح مذہب کو سیاست سے الگ تصور نہیں کیا گیا۔
سولہویں خصوصیت: دستورِ مدینہ کے ذریعے عرب معاشرت اور ریاست کے شہریوں میں خوف و خشیت اور تہذیب و تمدّن کی اہمیت کو اجاگر گیا گیا ہے۔
سترہویں خصوصیت: دستورِ مدینہ کے ذیل میں لفظ اُمت کو ایک شرعی اصطلاح کے بجائے سیاسی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا، تا کہ ایک کثیر المذہبی اور کثیر الثقافتی سماج (multi-religious and multi-cultural sociaty) کے مابین رواداری کو فروغ دیا جا سکے۔
اٹھارویں خصوصیت: دستورِ مدینہ میں دورِ جاہلیت کے وہ رُسوم و رواج برقرار رکھے گئے جو شریعتِ اسلامیہ سے متصادم نہ تھے۔ اس سے اسلام کے فکری توسع اور موافقت پذیری (accommodating attitude) کا پتا چلتا ہے۔
اُنیسویں خصوصیت: دستورِ مدینہ میں ریاست کے امن امان (law and order) کو یقینی بنانے کے لیے سخت اُصول و قوانین وضع کیے گئے۔
بیسویں خصوصیت: دستورِ مدینہ کے ذریعے رياست کے شہریوں کے مابین باہمی صلح و آشتی اور تعامل کے اُصولوں کی ترویج کی گئی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved