یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اوّل تا آخر محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے اسی محبت کا کرشمہ تھا کہ نہ انہیں اپنی جان کی پروا تھی، نہ مال و اولاد کی۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز جانتے تھے۔ ان کی اسی طاقت نے انہیں ہر طوفان سے ٹکرانے اور ہر مشکل سے سرخرو ہونے کا ہنر سکھایا۔ انہوں نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ آج تک اس کی نظیر پیش کر سکی اور نہ قیامت تک اس بے مثال محبت کے مظاہر دیکھنے ممکن ہوں گے۔ اُن کی محبتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے ہی اپنی بھوک پیاس کو بجھا لیتے تھے اور حالتِ نماز میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تَکتے رہتے تھے۔
کتبِ احادیث و سیر میں متعدد واقعات درج ہیں جو انفرادی و اجتماعی طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پیش آئے۔ یہ واقعات اِس اَمر کی غمازی کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشاق صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے زندگی کی حرارت پاتے تھے۔ انہیں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک لمحہ کی جدائی بھی گوارا نہ تھی۔ ان مشتاقانِ دید کے دل میں ہر لمحہ یہ تمنا دھڑکتی رہتی تھی کہ ان کا محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی ان سے جدا نہ ہو اور وہ صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے اپنے قلوب و اذہان کو راحت و سکون بہم پہنچاتے رہیں۔
اسی لازوال محبت کے چند مستند واقعات درج ذیل ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وصال میں جب تین دن تک حجرہ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے تو وہ نگاہیں جو روزانہ زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہوا کرتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئیں۔ جان نثارانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا انتظار تھے کہ کب ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ بالآخر وہ مبارک و مسعود لمحہ ایک دن حالتِ نماز میں انہیں نصیب ہوگیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایامِ وصال میں جب نماز کی امامت کے فرائض سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد تھے۔ پیرکے روز تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں حسبِ معمول باجماعت نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرے افاقہ محسوس کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ مبارک سے مسجدِ نبوی میں جھانک کر گویا اپنے غلاموں کو صدیق کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر اظہارِ اطمینان فرما رہے تھے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
فکشف النبي صلی الله علیه وآله وسلم ستر الحجرۃ، ینظر إلینا وھو قائمٌ، کأن وجهہ ورقۃ مصحف، ثم تبسّم.
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اٹھا کر کھڑے کھڑے ہمیں دیکھنا شروع فرمایا۔ (ہم نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو یوں لگا) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور کھلا ہوا قرآن ہو، پھر مسکرائے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فھممنا أن نفتتن من الفرح برؤیۃ النبي صلی الله علیه وآله وسلم، فنکص أبوبکر علی عقبیہ لیصل الصف، وظنّ أن النّبيّ صلی الله علیه وآله وسلم خارج إلی الصلٰوۃ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم لوگ نماز چھوڑ بیٹھتے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں شامل ہو جائیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لانے والے ہیں۔‘‘
ان پرکیف لمحات کی منظر کشی رِوایت میں یوں کی گئی ہے:
فلما وضح وجہ النبي صلی الله علیه وآله وسلم ما نظرنا منظرًا کان أعجب إلینا من وجہ النبي صلی الله علیه وآله وسلم حین وضح لنا.
’’جب (پردہ ہٹا اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سامنے آیا تو یہ اتنا حسین اور دلکش منظر تھا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔‘‘
مسلم شریف میں فھممنا أن نفتتن کی جگہ یہ الفاظ منقول ہیں:
فبھتنا ونحن فی الصلوۃ، من فرح بخروج النبي صلی الله علیه وآله وسلم.
مسلم، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب استخلاف الإمام إذا عرض لہ عذر من مرض وسفر، 1: 315، رقم: 419
’’ہم دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر تشریف لانے کی خوشی میں حیرت زدہ ہو گئے (یعنی نماز کی طرف توجہ نہ رہی)۔‘‘
علامہ اقبال نے حالتِ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقِ زار حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے دیدارِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منظر کی کیا خوبصورت لفظی تصویر کشی کی ہے:
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
اقبال، بانگِ درا: 91
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے اتنی بڑی قوت اور سعادت تھی کہ یہ بھوکوں کی بھوک رفع کرنے کا ذریعہ بھی بنتی تھی۔ چہرۂ اقدس کے دیدار کے بعد قلب ونظر میں اترنے والے کیف کے سامنے بھوک و پیاس کے احساس کی کیا حیثیت تھی؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت کا شانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ
لا یخرج فیھا و لا یلقاہ فیھا أحد.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے کبھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرتا۔‘‘
دراصل ہوا یوں تھا کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیقِ سفر اور یارِ غار سے پوچھا:
ما جاء بک یا أبا بکر؟
’’اے ابوبکر! تم اس وقت کیسے آئے ہو؟‘‘
اس وفا شعار پیکرِ عجزو نیاز نے ازراہِ مروّت عرض کیا:
خرجت ألقی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وأنظر فی وجھہ و التسلیم علیہ.
’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف آپ کی ملاقات، چہرہ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ہی سیدنا فاروقِ اعظمص بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوگئے۔ نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا:
ما جاء بک یا عمر؟
’’اے عمر! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی؟‘‘
شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نے حسبِ معمول لگی لپٹی کے بغیر عرض کی:
الجوع، یا رسول اللہ.
’’یا رسول اللہ! بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
شمائلِ ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے:
لعل عمرص جاء لیتسلی بالنظر فی وجہ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کما کان یصنع أهل مصر فی زمن یوسف ں، و لعل ھذا المعنی کان مقصود أبی بکرص و قد أدی بالطف وجه کأنه خرج رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لما ظهر علیه بنور النبوۃ أن أبابکر طالب ملاقاته، وخرج أبوبکر لما ظهر علیه بنور الولایۃ أنه صلی الله علیه وآله وسلم خرج فی ھذا الوقت لانجاح مطلوبه.
شمائل الترمذی: 27، حاشیه: 3
’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس لئے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مٹانا چاہتے تھے، جس طرح مصر والے حضرت یوسفں کے حسن سے اپنی بھوک کو مٹا لیا کرتے تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عمل میں بھی یہی راز مضمر تھا۔ مگر مزاج شناس نبوت نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں بیان کیا اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نورِ نبوت کی وجہ سے ان کا مدعا بھی آشکار ہو چکا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کیوں طالبِ ملاقات ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر نورِ ولایت کی وجہ سے واضح ہو چکا تھا کہ اس گھڑی آقائے مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا۔‘‘
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں جاں نثاروں کی حالت سے باخبر ہونے پر اپنی زیارت کے طفیل ان کی بھوک ختم فرما دی۔ یہ واقعہ باہمی محبت میں اخلاص اور معراج کا منفرد انداز لیے ہوئے ہے۔
یوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی آرزو اور تمنا ہر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں اس طرح بسی ہوئی تھی کہ اُن کی زندگی کا کوئی لمحہ اس سے خالی نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سکون کی دولت نصیب ہوتی اور معرفتِ الٰہی کے دریچے ان پر روشن ہو جاتے۔ اُن کے دل کی دھڑکن میں زیارتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش اس درجہ سما گئی تھی کہ اگر کچھ عرصہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار میسر نہ آتا تو وہ بے قرار ہو جاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر جو کیفیت گزرتی تھی اس کے بارے میں وہ خود روایت کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض گزاری:
إنی إذا رأیتک طابت نفسي و قرّت عیني، فأنبئني عن کل شیٔ، قال: کل خلق اللہ من الماء.
’’جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا ہوں (تو تمام غم بھول جاتا ہوں اور) دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، پس مجھے تمام اشیاء (کائنات کی تخلیق) کے بارے میں آگاہ فرمائیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر شے کی تخلیق پانی سے کی ہے۔‘‘
مذکور واقعات سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہر کوئی فنا فی الرسول کے مقام پر فائز تھا اُن کا جینا مرنا، عبادت ریاضت، جہاد تبلیغ سب کچھ ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منسوب تھا۔ اس لئے وہ اپنے آقا و مولا سے ایک لمحہ کی جدائی گوارا نہ کرتے تھے اور ہر لمحہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت میں مست و بے خود رہتے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین صبح و شام حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اور دیدار سے اپنے مضطرب قلوب و اذہان کو راحت و سکون بہم پہنچاتے رہے۔ اُن کے دل میں ہر لمحہ یہ تمنا رہتی تھی کہ اُن کا محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی اُن سے جدا نہ ہو پس جس طرح صحابہ کرامث کی کیفیاتِ محبت کا والہانہ اظہار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ میں ہوا، اسی طرح بعد از وصال بھی وہ دیوانہ وار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری دیتے اور اس حاضری میں بھی ان کی کیفیات دیدنی ہوتیں۔ یعنی ادبِ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ محبت اور عشق کی تمام تر بے قراریاں، جذب وشوق اور کیفیتِ فراق اور غمِ ہجر کی لذتیں ان کے ایمان کو جلا بخشتی تھیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اَنور کی زیارت کے حوالہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ان ہی کیفیاتِ شوق پر مبنی معمولات درج ذیل ہیں:
حضرت کعب الاحبار کے قبولِ اسلام کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا:
ھل لک أن تسیرمعي إلی المدینۃ فنزور قبر النبي صلی الله علیه وآله وسلم وتتمتع بزیارتہ، فقلت: نعم، یا أمیر المؤمنین.
’’کیا آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت اور فیوض و برکات حاصل کرنے کے لیے میرے ساتھ مدینہ منورہ چلیں گے؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’جی! امیر المؤمنین۔‘‘
جب حضرت کعب الاحبار اور حضرت عمرص مدینہ منورہ آئے تو سب سے پہلے بارگاہِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری دے کر سلام عرض کیا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مدفن مبارک پر کھڑے ہوکر اُن کی خدمت میں سلام عرض کیا اور دو رکعت نماز ادا کی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا معمول تھا کہ آپ اکثر روضہ مبارک پر حاضر ہوا کرتی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں:
کُنْتُ أَدْخُلُ بَیْتِي الَّذِي دُفِنَ فِیْہِ رَسُوْلُ اللہ صلی الله علیه وآله وسلم وَ أَبِي، فَاَضَعُ ثَوْبِي فَأَقُوْلُ إنَّمَا ھُوَ زَوْجِي وَأَبِي، فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَھُمْ فَوَ اللہ مَا دَخَلْتُ اِلَّا وَ أَنَا مَشْدُوْدَۃٌ عَلَیَّ ثِیَابِي حَیَائً مِنْ عُمَرَ.
’’میں اس مکان میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میرے والد گرامی مدفون ہیں جب داخل ہوتی تو یہ خیال کرکے اپنی چادر (جسے بطور برقع اوڑھتی وہ) اتار دیتی کہ یہ میرے شوہرِ نامدار اور والدِ گرامی ہی تو ہیں لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا تو اللہ کی قسم میں عمر رضی اللہ عنہ سے حیاء کی وجہ سے بغیر کپڑا لپیٹے کبھی داخل نہ ہوئی۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا روضۂ اقدس پر حاضری کا ہمیشہ معمول تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اہلِ مدینہ کو قحط سالی کے خاتمے کے لئے قبرِ انور پر حاضر ہو کر توسل کرنے کی تلقین بھی فرمائی۔
حضرت ابو اُمامہ بیان کرتے ہیں:
رَأیتُ أنَس بن مَالِک أتی قَبْر النَّبي صلی الله علیه وآله وسلم فوقف فرفع یدیہ حتی ظننتُ أنہ افتتح الصّلاۃ فسلّم علی النّبيّ صلی الله علیه وآله وسلم ثم انصرف.
’’میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر آتے دیکھا، انہوں نے (وہاں آکر) توقف کیا اور اپنے ہاتھ اتنے بلند کیے کہ میں نے خیال کیا شاید وہ نماز شروع کرنے لگے ہیں۔ پھر انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کیا اور واپس چلے گئے۔‘‘
اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فقط بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام عرض کرنے کا شرف حاصل کرنے کے لئے بھی مسجدِ نبوی میں آتے تھے۔
عاشقِ مصطفی حضرت بلال حبشیص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال مبارک کے بعد یہ خیال کرکے شہرِ دلبر … مدینہ منورہ … سے شام چلے گئے کہ جب یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہ رہے تو پھر اِس شہر میں کیا رہنا! حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرص نے بیت المقدس فتح کیا تو سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے خواب میں آئے اور فرمایا:
ما هذہ الجفوۃ، یا بلال؟ أما آن لک أن تزورني؟ یا بلال.
’’بلال! یہ فرقت کیوں ہے؟ بلال! کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم ہم سے ملاقات کرو؟‘‘
اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ اَشک بار ہو گئے۔ خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو حکم سمجھا اور مدینے کی طرف رختِ سفر باندھا، اُفتاں و خیزاں روضۂ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دی اور بے چین ہوکر غمِ فراق میں رونے اور اپنے چہرے کو روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ملنے لگے۔
حضرت داؤد بن صالح بیان کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا تو اُس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے۔ مروان نے اسے کہا: کیا تُو جانتا ہے کہ یہ کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا:
نَعَمْ، جِئْتُ رَسُوْلَ اللہ صلی الله علیه وآله وسلم وَ لَمْ آتِ الْحَجَرَ.
’’ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔‘‘
امام احمد بن حنبل کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہیں۔ امام حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم)کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ امام ذہبی نے اس کی توثیق کی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام نافعص روایت کرتے ہیں: ابنِ عمر کا معمول تھا کہ جب بھی سفر سے واپس لوٹتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس پر حاضری دیتے اور عرض کرتے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَا بَکْرٍ! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَتَاہُ!
’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ! (اے اللہ کے (پیارے) رسول! آپ پر سلامتی ہو)، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَا بَکْرٍ! (اے ابوبکر! آپ پر سلامتی ہو)، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَتَاہُ! (اے ابا جان! آپ پر سلامتی ہو۔)‘‘
درج بالا علمی تحقیق سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں اور بعد از وصال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لئے حاضری دیا کرتے تھے۔ اُن کا حاضری دینے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ آقا ں کی حیات اور بعد از وصال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوضات و برکات سے مستفید ہوں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد جمیع امتِ مسلمہ کا بھی یہ معمول رہا ہے کہ وہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری دینے کو اپنے لئے باعثِ سعادت و خوش بختی سمجھتی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved