زیارتِ قبور باعثِ اجر و ثواب عمل اور تذکیرِ آخرت کا اہم ذریعہ ہے۔ ائمهِٔ حدیث و تفسیر کا اس امر پر اتفاق ہے کہ تمام مسلمانوں کو خواہ مرد ہو یا عورت زیارتِ قبور کی اجازت ہے جبکہ بعض فقہاء کے نزدیک حسبِ استطاعت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ انور کی زیارت واحب کے درجہ میں داخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے اب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے والے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کرنے والے طبقات میں سے کسی نے درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری کو اپنے لیے دنیوی و اُخروی سعادت نہ سمجھا ہو۔ پوری تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کوئی شخص متدین ہو، مبلغ ہو اور مسلم ہو لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جانے میں عار محسوس کرے۔ بلکہ ہر وہ مسلمان جسے اللہ تعالیٰ نے دین کی سمجھ بوجھ دی، اسے علم کی دولت سے نوازا، اسے عقلِ سلیم اور قلبِ منیر سے فیضیاب فرمایا ہو اور وہ محبوبِ کبریا کی بارگاهِ اقدس میں جانے سے ہچکچائے۔ تاہم گزشتہ چند دہائیوں سے بعض لوگوں نے دین کی خود ساختہ تشریح و تعبیر کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور، اولیاء وصالحین اور عامۃ الناس کی قبور کی زیارت کو بدعت، شرک اور ممنوع سمجھتے ہیں۔ حالانکہ زیارتِ قبور کے بارے میں ایسا عقیدہ قرآن وسنت کی تعلیمات کی رو سے صراحتاً غلط اور باطل ہے۔ اس ضمن میں بھی لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ زیارتِ قبور پر جانے والوں نے زیارت کے مقاصد بدل لیے اور عبرت کی بجائے سیر و تفریح کا ذریعہ بنا لیا تو مخالفین بھی اپنی حد سے ایک قدم آگے بڑھے اور انہوں نے جواز کو بوجوہ عدمِ جواز میں بدلا اور بعد ازاں اس عمل کو حرام اور شرک تک پہنچا دیا۔ دیگر مستحب اعمال کی طرح زیارتِ قبور کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا اور نتیجتاً اس پر بھی بحث و مناظروں کا سلسلہ چل نکلا۔ دونوں طرف سے دلائل کے انبار لگ گئے اور کتب مرتب ہونا شروع ہو گئیں۔ چنانچہ اس وقت ’’توحید اور ردِ شرک‘‘ کے اہم موضوعات میں سے زیارتِ قبور بھی ایک مستقل موضوع بن گیا ہے۔ اس لیے ہم نے ضروری سمجھا کہ اس موضوع پر بھی قرآن و سنت کی روشنی میں اعتدال و توازن کی راہ پر چلتے ہوئے نفسِ مسئلہ کو سمجھا جائے۔ آئندہ صفحات میں قرآنی آیات اور احادیث سے براهِ راست ہم زیارتِ قبور خصوصاً زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زیارتِ اولیاء پر روشنی ڈالیں گے۔ آئیے سب سے پہلے ہم زیرِ نظر باب میں زیارت کا معنی ومفہوم اور اس کی اقسام سمجھ لیں۔
عربی لغت میں ہر لفظ کا مادہ کم از کم سہ حرفی ہوتا ہے جس سے باقی الفاظ مشتق اور اخذ ہوتے ہیں۔ عربی لغت کے اعتبار سے لفظِ زیارت زَارَ، یَزُوْرُ، زَورًا سے بناہے، جس میں ملنے، دیکھنے، رغبت اور جھکائو کے معانی پائے جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ کسی کی ملاقات کے لئے جائے تو اس میں اُس شخص کی طرف رغبت، رحجان اور جھکائو پایا جاتا ہے اور بوقت ملاقات رؤیت بھی ہوتی ہے اس لئے اس عمل کو زیارت کہا جاتا ہے۔ ائمهِ لغت نے زَور کے درج ذیل معانی بیان کئے ہیں:
1۔ زَارَ، یَزُوْرُ، زَوْرًا، أی لَقِیَهُ بِزَوْرِهِ، أوْ قَصَدَ زَوْرَهُ أی وِجْھَتَهُ.
زبیدی، تاج العروس، 6: 477
(’’زَار َیزُوْرُ زَوْرًا کا معنی ہے : اس نے فلاں شخص سے ملاقات کی یا فلاں کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔‘‘
2۔ زَارَ یَزُوْرُ زِیَارَۃً وَ زَوْرًا وَ زُوَارًا و زُوَارَۃً وَمَزَارًا أتاهُ بِقَصْدِ اللقاء وُھُو مأخوذ من الزَوْرِ للصدر أو المَیْل.
بطرس بستانی، محیط المحیط: 384
’’زیارت کا معنی ہے: کسی سے ملنے کے لئے آنا۔ یہ لفظ زَور سے نکلا ہے جس کا معنی ہے سینہ کی ہڈیوں کی ملنے کی جگہ یا میلان، رحجان اور رغبت۔‘‘
3۔ ’’محیط المحیط (ص: 384)‘‘ میں زیارت کا معنی یوں بھی لکھا ہے:
الزِّیارۃ مصدر و إسم بمعنی الذھاب إلی مکان للاجتماع بأھلہ کزیارۃ الأحبۃ وللتبرّک بما فیہ من الآثار کزیارۃ الأماکن.
’’لفظِ زیارۃ مصدر بھی ہے اور اسم بھی۔ جس کا معنی کسی جگہ اہالیان سے ملنے کے لئے جانا جیسے دوست احباب کی ملاقات یا دوسرا معنی کسی جگہ موجود آثار سے حصولِ برکت کے لئے جانا جیسے مقاماتِ مقدّسہ کی زیارت کے لئے جانا۔‘‘
4۔ لغت کی معروف کتاب ’’المصباح المنیر‘‘ میں لکھا ہے:
والزِّیارۃ فی العرف قصد المزور کرامًا لہ واستئناسا بہ.
فیومی، المصباح المنیر فی غریب شرح الکبیر للرافعی، 1: 260
’’عرفِ عام میں زیارت سے مراد کسی شخص کے ادب و احترام اور اس سے محبت کی بناء پر اس کی ملاقات کے لئے جانا۔‘‘
اسی سے مَزَار ہے۔ جس کا معنی ہے وہ جگہ جس کی زیارت کی جائے۔ ابنِ منظور افریقی لکھتے ہیں:
وَالمَزَارُ موضع الزیارۃ.
ابن منظور إفریقی، لسان العرب، 4: 333
’’مزار سے مراد زیارت کرنے کا مقام ہے۔‘‘
اسی سے زَائِر بھی ہے جس کا معنی ہے: زیارت کے لئے جانے والا شخص یا ملاقاتی۔
قرآن و حدیث کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ذواتِ عالیہ اور مقاماتِ مطہرہ کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی نعمت و رحمت سے نوازا ہے اور اِن کو دیگر مخلوق پر ترجیح دی ہے۔ ان بابرکت ذوات اور اماکنِ مقدسہ پر حاضری کیلئے جانا مشروع، مسنون، مندوب اور مستحب عمل ہے، عرفِ عام میں اسی کو ’’زیارت‘‘ کہا جاتا ہے۔
دینِ اسلام میں زیارت کا اس قدر جامع تصور ہے کہ ہر واجب الاحترام شخصیت، متبرک چیز اور مقام مقدّس کو صرف اور صرف دیکھنا ہی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
النظر إلی الوالد عبادۃ، والنظر إلی الکعبۃ عبادۃ، والنظر في المصحف عبادۃ، والنظر إلی أخیک حبًا لہ فی اللہ عبادۃ.
بیھقی، شعب الإیمان، 7: 187، رقم: 8760
’’والد کی طرف دیکھنا عبادت ہے، کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے، قرآن حکیم کی طرف دیکھنا عبادت ہے اور اپنے بھائی کی طرف رضائے الٰہی کے لئے محبت کی نگاہ سے دیکھنا بھی عبادت ہے۔‘‘
مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن کی طرف دیکھنے کو عبادت فرمایا یہ دراصل زیارت کی مختلف اقسام ہیں۔ ذیل میں ہم اس حدیث سمیت دیگر نصوص کی روشنی میں زیارت کی اقسام کا ذکر کر رہے ہیں جن میں سرِ فہرست زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں بحالتِ ایمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرنا افضل ترین عمل تھا۔ ایمان کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرنے والے خوش نصیب لوگوں کو ہی مرتبۂ صحابیت پر فائز ہونے کا شرف نصیب ہوا۔ یہ اتنا عظیم شرف اور امتیاز ہے جس پر قیامت تک کوئی اور شخص فائز نہیں ہو سکتا بے شک وہ پوری زندگی عبادت و ریاضت میں کیوں نہ صرف کر دے۔ ایسے خوش نصیب شخص کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَمُسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أوْ رَأَی مَنْ رَآنِي.
ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل من رأی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصحبہ، 5: 694، رقم: 3858
’’اُس مسلمان کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا (یعنی صحابی) یا مجھے دیکھنے والے کو دیکھا (یعنی تابعی)۔‘‘
اسی طرح بعد ازوصال زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت پر بھی اُمتِ مسلمہ کا اِجماع ہے۔ بعض ائمۂ احناف اور مالکیہ کے علاوہ دیگر اہلِ سنت وجماعت کے مذاہب بھی اسے بعض حالات میں واجب قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے:
وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ جَآئُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاo
النساء، 4: 64
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘
درجِ بالا آیتِ مبارکہ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس کا اطلاق صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ تک تھا بلکہ جس طرح قرآن کے تمام احکام قیامت تک کے لئے ہیں اسی طرح اس آیتِ مبارکہ کا اطلاق بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مطہرہ پر قیامت تک کے لئے ہوگا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے روضۂ اَطہر کی زیارت کے حوالے سے اِرشاد فرمایا، جسے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے:
مَنْ زَارَ قَبْرِي وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِی.
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘
احادیثِ صحیحہ متواترہ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قبرِ انور کی زیارت کرنے کی بڑی ترغیب دلائی ہے جس پر تفصیلی بحث اِن شاء اللہ تعالیٰ آئندہ فصول میں کی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کے مقرب اور محبوب بندوں کی زیارت و ملاقات کے لئے جانا، عند اللہ محبوب عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرامین سے ثابت ہے کہ صالحین کی زیارت اور ملاقات کو جانا چاہیے۔
1۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف میں تفصیلاً بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت حضر علیہ السلام کی زیارت اور اُن کی صحبت سے مستفید ہونے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ حضرت حضر علیہ السلام کا شمار اللہ تعالیٰ کے صالحین اور مقرب بندوں میں ہوتا ہے جس سبب سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اُن کے علم سے استفادہ کے لئے خصوصی طور پر بھیجا گیا۔
الکهف، 18: 60۔82
اولیاء وصالحین کی زیارت کرنا مسنون عمل ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ طیبہ اور فرامینِ مبارکہ سے بھی اولیاء، صالحین، کامل مؤمنین اور متقین کی زیارت کو جانا ثابت ہے۔
2۔ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر کسی کی زیارت و ملاقات محبتِ الٰہی کا باعث ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیثِ قدسی بیان کی کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِيَّ وَلِلمُتَجَالِسِیْنَ فِيَّ وَلِلْمُتَزَاوِرِیْنَ فِيَّ وَلِلْمُتَبَاذِلِیْنَ فِيَّ.
’’میری محبت ان لوگوں کے لئے واجب ہوگئی جو صرف میرے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، میری خاطر ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں، میری رضا کے لئے ایک دوسرے کی زیارت و ملاقات کرتے ہیں اور میری رضا کے لئے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘
3۔ حضرت رَزِین بن حبش سے روایت ہے، کہتے ہیں:
أَتَیْنَا صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ المُرَادِيَّ، فَقَالَ: أَزَائِرِیْنَ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم : مَنْ زَارَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ خَاضَ فِي رِیَاضِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَرْجِعَ، وَمَنْ عَادَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنُ خَاضَ فِي الْجَنَّۃِ حَتّٰی یَرْجِعَ.
’’ہم حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے، وہ پوچھنے لگے: ملاقات کرنے آئے ہو؟ ہم نے کہا: جی ہاں! اس پر انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: جو شخص اپنے مومن بھائی کی ملاقات کو جاتا ہے وہ واپسی تک جنت کے باغوں میں (اللہ تعالیٰ کی رحمت سے) مستفید ہوتا رہتا ہے، اور(اسی طرح) جو بندہ اپنے مومن بھائی کی عیادت کے لئے جاتا ہے وہ بھی واپسی تک جنت کے باغوں میں رہتا ہے۔‘‘
زیارتِ صالحین کی مزید تفصیلات اس عنوان کے تحت آئندہ فصل میں ملاحظہ فرمائیں۔
شریعتِ اسلامیہ میں مقدّس مقامات کی زیارت کو جانے کی بھی اجازت ہے۔ ان بابرکت مقامات میں روئے زمین کی تمام مساجد، خصوصاً مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی، مسجدِ اقصیٰ، مسجدِ قباء اور بعض مقدّس اماکن مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، فلسطین، شام اور یمن شامل ہیں۔ علاوہ ازیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دیگر انبیائِ کرام اور اولیاءِ عظام کے مقاماتِ ولادت اور وصال کی زیارت کرنا بھی از روئے شرع جائز ہے۔
ایک اسلامی معاشرے میں والدین کا مقام و مرتبہ اتنا اونچا اور بلند ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں اپنے شکر کے ساتھ ہی والدین کے شکر کا بھی حکم دیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط اِلَیَّ الْمَصِیْرُo
لقمان، 31: 14
’’تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
حج اور جہاد جیسے فرائض پر بھی خدمتِ والدین کو ترجیح حاصل ہے۔ وہ اولاد نیک اور سعادت مند ہے جو اپنے والدین کی فرماں بردار ہو۔ ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا سلوک کرے اور جنت کی مستحق ٹھہرے۔ والدین کی زیارت مندوب و مستحب عمل ہے اور ان کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہمیں اس امر کی ترغیب ملتی ہے کہ زیارتِ والدین عملِ خیر اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍ یَنْظُرُ إِلَی وَالِدَیْهِ نَظْرَۃَ رَحْمَۃٍ إِلَّا کَتَبَ اللّٰهُ بِکُلِّ نَظْرَۃٍ حَجَّۃً مَبْرُوْرَۃً. قَالُوْا: وَإِنْ نَظَرَ کُلَّ یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ؟ قَالَ: نِعَمُ اللّٰهِ أَکْبَرُ وَأَطْیَبُ.
’’کوئی بھی سعادت مند بیٹا اپنے والدین کی طرف نظرِ رحمت سے دیکھے تو اللہ تعالیٰ اُسے ہر بار دیکھنے کے بدلے مقبول حج کا ثواب عطا فرماتا ہے۔ صحابہ کرام ث نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیک وسلم! اگرچہ کوئی شخص ہر روز ایک سو مرتبہ والدین کی زیارت کرے (تو بھی اسے اتنا ہی اجر ملے گا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ہاں ایسا ہی ہر مرتبہ ثواب ملے گا کیونکہ) اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتیں سب سے اعلیٰ اور افضل ہیں۔‘‘
حضرت محمد بن نعمان سے مرفوعاً مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ زَارَ قَبْرَ أَبَوَیْهِ أَوْ أَحَدِهِمَا فِي کُلِّ جُمُعَۃٍ غُفِرَ لَهُ وَ کُتِبَ بَرًّا.
’’جس شخص نے ہر جمعۃ المبارک کو اپنے والدین میں سے دونوں یا کسی ایک کی قبر کی زیارت کی تو اس کی بخشش کر دی جاتی ہے اور اس کا نام نیکوکاروں میں لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
کسی شخص کااپنے اَعزّہ و اَقارب، دوست احباب اور ہمسایوں کی ملاقات اور زیارت کے لئے جانا اور ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق ان کی عزت و احترام کرنا شرعاً مستحسن عمل ہے جو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
1۔ حضرت عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ یُکْثِرُ زِیَارَۃَ الْأَنْصَارِ خَاصَّۃً وَعَامَّۃً فَکَانَ إِذَا زَارَ خَاصّۃً أَتیَ الرَّجُلَ فِي مَنْزِلِهِ وَإِذَا زَارَ عَامَّۃً أَتَی الْمَسْجِدَ.
أحمد بن حنبل، المسند، 4: 398
’’حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کو اکثر خصوصی اور عمومی شرفِ ملاقات بخشا کرتے تھے۔ جب کسی خاص آدمی سے ملاقات فرمانا ہوتی تو آپ اس کے گھر تشریف لے جاتے اور جب عام زیارت کرنا مقصود ہوتی تو مسجد میں تشریف لے آتے۔‘‘
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَادَ مَرِیْضًا أوْ زَارَ أَخًا لَهُ فِي اللهِ نَادَاهُ مُنَادٍ بِأَنْ طِبْتَ، وَطَابَ مَمْشَاکَ وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّۃِ مَنْزِلًا.
’’جو شخص کسی بیمار کی عیادت کے لئے جائے یا محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے کسی دینی بھائی کی زیارت کے لئے جائے تو اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے، تو پاک ہو، تیرا چلنا مبارک ہو، تو نے جنت میں اپنا گھر بنا لیا۔‘‘
3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ أَتَی أَخَاهُ لَهُ یَزُوْرُهُ فِي اللهِ إِلاَّ نَادَاهُ مَلَکٌ مِنَ السَّمَاءِ أَن طِبْتَ وَطَابَتْ لَکَ الْجَنَّۃُ وَإِلاَّ قَالَ اللهُ فِي مَلَکُوْتِ عَرْشِهِ (عَبْدِي) زَارَ فِيَّ، وَعَلَيَّ قِرَاهُ، فَلَمْ أَرْضَ لَهُ بِقِریٰ دُوْنَ الْجَنَّۃِ.
’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے کسی مسلمان بھائی کی ملاقات کے لئے جاتا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ پکارتاہے، تو پاکیزہ ہو گیا، تجھے جنت مبارک ہو، اور اللہ تعالیٰ اپنے عرش کی بادشاہی میں ارشاد فرماتا ہے: میرا بندہ میری خاطر اپنے بھائی کی ملاقات کے لئے آیا ہے اب اس کا اعزاز واکرام میرے ذمہ ہے۔ اس کے بدلے میں اس کے لئے جنت کے علاوہ کسی اور بدلہ پر راضی نہ ہوں گا۔‘‘
4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِرِجَالِکُمْ فِي الْجَنَّۃِ؟ قُلْنَا: بَلَی یَارَسُولَ اللهِ، قَالَ: النَّبِيُّ فِي الْجَنَّۃِ، وَالصِّدِّیْقُ فِي الْجَنَّۃِ، وَالشَّھِیْدُ فِي الْجَنَّۃِ، وَالْمَوْلُوْدُ فِی الْجَنَّۃِ۔ وَالرَّجُلُ یَزُوْرُ أَخَاهُ فِي نَاحِیَۃِ الْمِصْرِ لَا یَزُوْرُهُ إِلاَّ ِﷲِ فِي الْجَنَّۃِ.
’’کیا میں تمہیں جنتی لوگوں کے متعلق نہ بتائوں؟ ہم نے عرض کیا، یار سول اللہ ضرور ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انبیاء علیھم السلام جنت میں ہوں گے، صدیق جنت میںہوں گے، شہید جنت میں ہوں گے، نابالغ بچے جنت میں ہوں گے اور وہ شخص جنت میں ہوگا جو محض رضائے الٰہی کے لئے اپنے مسلمان بھائی کی زیارت کے لئے شہر کے دور دراز محلے میں گیا۔‘‘
5۔ حضرت ابو رُزَین العقیلی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یَا أَبَا رُزَیْنٍ! إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا زَارَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، شَیَّعَهُ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ، یُصَلُّوْنَ عَلَیْهِ یَقُوْلُوْنَ: اَللَّھُمَّ کَمَا وَصَلَهُ فِیْکَ فَصِلْهُ.
’’اے ابو رُزین جب مسلمان بندہ اپنے مسلمان بھائی کی ملاقات کو جاتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں جو اس کے لئے(یہ) دعا کرتے ہیں: یااللہ ! جس طرح اس بندے نے تیری رضا کے لئے اپنے بھائی سے ملاقات کی تو بھی اس سے راضی ہو جا۔‘‘
قبور کی زیارت کرنا باعثِ اجر و ثواب اور تذکیرِ آخرت کا ذریعہ ہے۔ ائمۂِ حدیث و تفسیر نے شرح و بسط کے ساتھ اس کی مشروعیت کو بیان کیا ہے۔ ائمہ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جمیع مسلمانوں کو خواہ مرد ہو یا عورت زیارتِ قبور کی اجازت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا معمول مبارک بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے، اہلِ قبور کو سلام کہتے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا فرماتے۔
ہم نے اپنی کتاب ’’کتاب التوحید (جلد اَوّل)‘‘ میں توحید اور شرک کی تقابلی بحث میں اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ کسی عمل کا شرک ہونے کے لئے لازم ہے کہ وہ توحید کے معروف اقسام میں سے کسی کے مقابلے میں آئے ورنہ ہر عمل شرک نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگ مزاراتِ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی حاضری و زیارت کو خلافِ توحید سمجھتے ہیں اور اسے شرک گردانتے ہیں حالانکہ کسی مزار کی زیارت کرنا اس بات کا صریح اعلان ہے کہ ہم کسی ایسی ہستی کی قبر کی زیارت کر رہے ہیں جو اس دنیا میں زندہ نہ رہا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات تو موت سے پاک ہے۔ وہ حيّ و قیّوم ہے۔ وہ ازل سے ہے ابد تک رہے گا۔ اس ذاتِ قادر و قیوم کے بارے میں موت کا تصور بھی ممکن نہیں۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
اللهُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ.
آل عمران، 3: 2
’’اللہ، اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں (وہ) ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اس لائق ہے کہ ہمیشہ زندہ رہنا اس کی خاص صفت ہے۔ مخلوق میں سے کوئی اس صفت سے متصف نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی کسی اور کے لئے اس طرح کی صفات کا اثبات کرے گا تو یقینا شرک کا مرتکب ہوگا۔ فوت شدہ شخص اپنے تقویٰ طہارت اور للہیت کی وجہ سے صالح بزرگ تو ہوسکتا ہے لیکن خدا اور معبود نہیں۔
مسلمانوں کا اپنے فوت شُدگان کی قبروں کی زیارت کے لئے جانا وہاں ان کے لئے دعا اور فاتحہ کرنا دراصل اس چیز کا اقرار ہے کہ یہ خدا نہیں تھے۔ اسی طرح سیدالعالمین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاهِ عالیہ کی حاضری بھی اس چیز کا ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی ہیں، اس کے شریک نہیں۔
آئندہ صفحات میں ہم اِن شاء اللہ تبارک وتعالٰی زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، زیارتِ اولیاء و صالحین اور زیارتِ قبور پر بحث کریں گے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved