عصرِ حاضر میں مذہبی عقائد کے باب میں جہاں کئی بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں وہاں واسطہ کے تصور پر بہت سی غلط فہمیاں اور بدگمانیاں دانستہ پیدا کی گئی ہیں۔ مغرب میں بالخصوص اور دیگر بلادِ اسلامیہ میں بالعموم توحید اور شرک مسلمانوں کے ہاں مناظروں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ ان کا زیادہ تر اہتمام وہ لوگ کرتے ہیں جن کا علم سطحی نوعیت کا ہے اور وہ شرعی اُمور کو گہرائی سے دیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ وہ محض رائے زنی سے غلط عقیدہ گھڑ لیتے ہیں۔ ایک خاص مکتبہ فکر کے علماء نے اپنی کتابوں میں اس خود ساختہ غلط نظریے کا قرآنی آیات کی غلط تشریح پر مبنی یہ تصور دیا ہے کہ شریعت میں کسی واسطہ کی ضرورت نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ براہِ راست ہماری دعائیں، التجائیں اور مناجات سنتا ہے، وہ کسی واسطے کا محتاج نہیں، پس جہاں واسطہ اور توسُّل کا ذکر آ جائے وہ اسے توحید کے منافی سمجھنے لگتے ہیں اور فی الفور شرک کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ آیات کی مَن مانی تاویل کر کے واسطہ کا یہ معنی مراد لیتے ہیں جیسے کسی غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان حائل کر دیا گیاہو، حالانکہ یہ تصوّر جہالت یا کم علمی کی پیداوار ہے اور اسے وہی پیش کر سکتا ہے جسے حقیقتِ توحید اور حقیقتِ شرک کا صحیح ادراک نہ ہو۔ اس باب میں قرآن حکیم سے جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں ان میں سرِفہرست یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ط وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآءَ م مَا نَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللهِ زُلْفٰی ط اِنَّ اللهَ یَحْکُمُ بَیْنَهُمْ فِیْ مَا ھُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ط اِنَّ اللهَ لاَ یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌo
الزمر، 39: 3
’’(لوگوں سے کہہ دیں: ) سُن لو! طاعت و بندگی خالصۃً اللہ ہی کے لئے ہے، اور جن (کفّار) نے اللہ کے سوا (بتوں کو) دوست بنا رکھا ہے، وہ (اپنی بُت پرستی کے جھوٹے جواز کے لئے یہ کہتے ہیں کہ) ہم اُن کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرّب بنا دیں، بیشک اللہ اُن کے درمیان اس چیز کا فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، یقینا اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں فرماتا جو جھوٹا ہے، بڑا ناشکرگزار ہے۔‘‘
کفار و مشرکین اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ اصنام اَرْبَابٌ مِنْ دُوْنِ اللہِ ہیں۔وہ اپنی بت پرستی کے جھوٹے جواز کے لئے یہ کہتے تھے کہ ہم ان بتوںکی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں۔چونکہ وہ بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھتے ہوئے شرک فی الالوھیت کے مرتکب ہوتے تھے اس لئے ان کے اس عمل کو شرک قرار دیا گیا۔
ہمارے نزدیک صحیح عقیدہ یہی ہے کہ کفار و مشرکین کی طرح اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے کسی کی عبادت کرنا واسطۂِ شرکیہ ہے۔ تاہم قرآنِ حکیم کی اس آیت پر مسلمانوں کے جائز شرعی واسطہ اور وسیلہ کو قیاس کرنا باطل ہے۔ انبیاء و اولیاء کا واسطہ اختیار کرنے والے ہر گز شرک کے مرتکب نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت کے مطابق انعام یافتہ بندوں کی معیّت اختیار کرتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مشرکین اور مسلمانوں کے عمل میں بعدالمشرقین ہے۔ ان کا آپس میں کوئی بھی جوڑ نہیں۔ کیونکہ انبیاء و اولیاء کا وسیلہ اور واسطہ اختیار کرنے والے ان کو اللہ تعالیٰ کا ساجھی، شریک اور کسی بھی درجہ میں ان کی عبادت اور اُلوہیت کے قائل نہیں ہیں۔ جبکہ مشرکین اپنے جھوٹے خداؤں کو اِلٰہ بھی مانتے ہیں اور معبود بھی۔
معترضین اپنے مؤقف کی تائید میں قرآن حکیم کی اس آیت مبارکہ کو بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِo
ق، 50: 16
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘
پس ان لوگوں کے مطابق جب وہ ذات اس قدر قریب ہے تو پھر اس تک رسائی کے لئے کوئی واسطہ ہے نہ واسطے کی ضرورت، لہٰذا جو شخص واسطہ مقرر کرتا ہے وہ صریحاً شرک کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق ہر انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، وہ واجب الوجود اور قائم بالذات ہے ۔ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ (البقرہ، 4: 115) - اسی کی شان ہے ۔ اس صفتِ مطلقہ میں اس کا کوئی شریک نہیں وہ قادرِمطلق ہے۔انسان جو کچھ جس وقت بھی کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی انسان اگر بارگاہِ الٰہی کا تقرّب حاصل کرنا چاہے تو یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کا جواب بھی قرآن مجید میں موجود ہے خود باری تعالیٰ نے وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا ہے، اس کا تفصیلی بیان باب دوم میں عقیدۂ توحید اور توسل کے عنوان کے تحت ہوچکا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وسیلہ کا مطلقاً انکار ایک انتہائی موقف ہے۔جو سراسر غلط، خلافِ شریعت اور خلافِ توحید رحجان کا غماز ہے۔ ثانیاً ایسی ہٹ دھرمی اور شدت عموماً جہالت اور کساوت کی پیداوار ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ واسطہ محض ایک تعلق اور رابطہ ہوتا ہے۔اس تعلق اور واسطے کو ماننا جس طرح شرک نہیں اسی طرح اس کی افادیت اور مؤثریت کا سرے سے انکار کردینا توحید بھی نہیں۔
واسِطۃ وَسَطَ سے مشتق ہے جس کا معنی اہلِ لغت نے یوں لکھا ہے:
وَسَطَ الشیئ: مَا بَیْنَ طَرَفِیْہِ.
ابن منظور، لسان العرب، 7: 446
’’کسی چیز کے وسط سے مراد دو کناروں کا درمیانی حصہ ہے۔‘‘
پس واسطہ کا معنی ہوا ایسی چیز جو بیچ میں ہو اور اس کا دو الگ چیزوں سے رابطہ ہو۔
اصل میں واسطہ اس اعلی جوہر کو بھی کہا جاتا ہے جو ہار کے درمیان میں ہوتا ہے۔ صحاح میں ہے:
وواسطۃ القلادۃ: الجوهر الذی فی وسطھا وھو أجودھا.
’’ہار میں وسط سے مراد وہ جوہر ہے جو اس کے درمیان میں ہو اور اس کا عمدہ ترین حصہ ہو۔‘‘
ثالثی کو بھی الوَسَاطَۃُ اور اَلْوَسِیْطُ کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی متنازع فریقین کے درمیان تصفیہ کرکے ان کا آپس میں رابطہ کرواتا ہے۔
اسی طرح الوَاسِطُ کا معنی دروازہ بھی ہے۔ دروازہ بھی کسی عمارت یا کمرہ کے اندر اورباہر رابطہ کا ذریعہ ہوتا ہے۔اس معنی کے اعتبار سے کسی چیز تک پہنچنے کا ذریعہ بھی واسطہ ہے جیسے کہا جاتا ہے۔ بِوَاسِطَۃِ الشَّئِی بذریعہ فلاں چیز یا بِوَاسِطَۃِ فُلَانٍ ’’بتوسط فلاں شخص‘‘
یعنی واسطہ میں سبب اور ذریعہ کا معنی پایا جاتا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے:
وَھُوَ وَاسِطۃ لکذا ای علّۃ.
بطرس بستانی، محیط المحیط، 968
’’وہ کسی کام کا واسطہ ہے یعنی اس کا ذریعہ اور سبب ہے۔‘‘
اسی طرح وَبِوَاسِطَۃِ کذا کا معنی ہے ای بعلّۃ کذا۔
بطرس بستانی، محیط المحیط، 968
’’کسی کام کے واسطہ سے مراد اس کام کا ذریعہ اور سبب بننا ہے۔‘‘
اس لغوی وضاحت سے معلوم ہوا کہ واسطہ در حقیقت دو چیزوں کے درمیان رابطے اور تعلق کا نام ہے یعنی واسطہ دو علیٰحدہ ذاتوں کو ملانے اور جوڑنے کا ذریعہ ہے۔ یہ ذریعہ دو بندوں کے درمیان بھی ہو سکتا ہے، بندے اور خالق کے درمیان بھی ہوسکتا ہے، اللہ تعالیٰ اور نبی کے درمیان بھی ہو سکتا ہے اور نبی اورامتی کے درمیان بھی۔ شرعی اِصطلاح میں اس درمیانی ذریعہ اور واسطہ کو وسیلہ، توسُّل اور توسُّط بھی کہا جاتا ہے۔ یہی توسُّل اور توسُّط کسی کے قُرب کا باعث بنتا ہے۔
مخلوق اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق، واسطے اور رابطے پر مبنی ہے، اس رابطے اور واسطے کی نفی توحید کی نفی ہے۔ اس واسطے کو قرآن کی زبان میں نبوت و رسالت کہا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے وحی کا انکار کیا اور رسالت کے منکر ہوگئے وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے منکر کہلائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال یوں دی ہے:
وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللهُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَـْئٍ ط قُلْ مَنْ أنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآء بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّ ھُدًی لِّلْنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَھَا وَ تُخْفُوْنَ کَثِیْرًاج وَ عُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْآ أَنْتُمْ وَلاَ اٰبَآؤُکُمْ ط قُلِ اللهُ ثُمَّ ذَرْھُمْ فِیْ خَوْضِھِمْ یَلْعَبُوْنَo
الانعام، 6: 91
’’اور انہوں نے (یعنی یہود نے) اللہ کی وہ قدرنہ جانی جیسی قدرجاننا چاہیے تھی جب انہوں نے یہ کہہ (کر رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکارکر) دیا کہ اللہ نے کسی آدمی پر کوئی چیز نہیں اتاری۔ آپ فرما دیجئے: وہ کتاب کس نے اتاری تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے تھے جو لوگوں کے لئے روشنی اور ہدایت تھی؟ تم نے جس کے الگ الگ کاغذ بنا لئے ہیں تم اسے (لوگوں پر) ظاہر (بھی) کرتے ہو اور (اس میں سے) بہت کچھ چھپاتے (بھی)ہو اور تمہیں وہ (کچھ) سکھایا گیا ہے جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا، آپ فرما دیجئے: (یہ سب) اللہ(ہی کا کرم ہے) پھر آپ انہیں(ان کے حال پر) چھوڑ دیں کہ وہ اپنی خرافات میں کھیلتے رہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے وہ چاہے تو وحی کو لوگوں کے دلوں میں براہِ راست القاء کرسکتا ہے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے اور بندوں کے درمیان انبیاء و رسل علیہم السلام کو واسطہ بنایا اور ان انبیاء و رسل پر بھی عموماً فرشتوں کے واسطے سے وحی نازل فرمائی۔ اس لئے ایسے غلط عقیدے سے توبہ کرنی چاہیے اور ایسی نام نہاد توحید پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے جس میں انسان ان شرعی واسطوں کا بھی منکر ہوجائے جو جزوِ ایمان ہیں۔ واسطۂِ نبوت و رسالت کا انکار ہو یا واسطۂِ وحی کاانکار۔ یہ توحید کا بھی انکار ہے، رسالت کا بھی انکار ہے اور ایمان سے محرومی کی علامت بھی۔
ایک بندۂ مومن کا مقصودِ حیات، اللہ تعالیٰ کی معرفت، قرب اور اسکی رضاء و خوشنودی کا حصول ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جا بجا متلاشیانِ حق کو اپنے حضور تک تقرب اور رسائی کا وسیلہ تلاش کرنے کے بارے رہنمائی فرمائی ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ توسُّل اور توسُّط کا حکم فرمایا ہے۔
1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰـأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَ ابْتَغُوْآ إِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
المائدہ، 5: 35
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں چار چیزوں کا بیان ہے:
سب سے پہلے ایمان کا ذکر کیا گیا اور ایمان کے بعد تقویٰ کا حکم دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دو بنیادی اور اساسی خصوصیات کے بعد اللہ تعالیٰ نے واسطہ اور وسیلہ تلاش کرنے کا حکم کیوں فرمایا: حالانکہ إِتَّقُوا اللهَ کے الفاظ بندۂ مؤمن کے تمام اعمالِ صالحہ کو محیط ہیں۔ اس کے باوجود تیسرا حکم آیتِ مذکورہ میں تلاشِ وسیلہ کا ہے۔ ارشاد فرمایا: وَابْتَغُوْآ إلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو)۔‘‘
بعض علماء نے اس آیتِ کریمہ میں تلاشِ وسیلہ سے فقط ایمان اور اعمالِ صالحہ مراد لیا ہے۔ جبکہ اکثر علماء نے آیتِ کریمہ کے ان الفاظ سے مراد انبیائ، صلحاء اور اولیاء کی ذواتِ مقدّسہ کو لیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ إِتَّقُو اللهَ میں ایمان، اعمالِ صالحہ اور عبادات سب شامل ہیں۔ قُرب و حضورِ الٰہی کا وسیلہ، جہاں اعمالِ صالحہ اور ایمان بنتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اولیاء بطریقِ اُولیٰ وسیلہ ہیں۔ اسی لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے القول الجمیل ‘میں وسیلہ سے مراد بیعتِ مرشد جبکہ شاہ اسمعیل دہلوی نے ’صراطِ مستقیم ‘میں وسیلہ سے مراد مرشِد لیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
بدون مرشد راہ یابی نادِر است.
’’مرشد کی راہنمائی کے بغیر (ہدایت ربانی) کا ملنا شاذ و نادر ہے۔‘‘
چوتھاحکم جہاد کا ہے۔ جہاد بھی اسلام کی اشاعت و ترویج، دین کے احیاء و اقامت، احکامِ الٰہیہ کے نفاذ اور اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے وسیلہ بنتا ہے۔ جب ایک ہی آیتِ کریمہ میں مذکور چار چیزوں …ایمان، تقویٰ، وسیلہ اور جہاد …میں سے تین چیزیں …ایمان، تقویٰ، جہاد…شرک اور بدعت نہیں بلکہ جائز امورہیں تو وسیلہ بھی آیت میں بیان کردہ دیگر چیزوں کی طرح حکمِ قرآنی اور امرِشرعی ہے اس کا تعلق بھی ہرگز شرک اور بدعت سے نہیں بلکہ یہ حکمِ الٰہی ہے۔قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر تلاشِ وسیلہ کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا:
2. أُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ إِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ أَیُّھُمْ أَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ ط إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًاo
بنی اسرائیل، 17: 57
’’یہ لوگ جن کی عبادت کرتے ہیں(یعنی ملائکہ، جنات، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام وغیرہم کے بت اور تصویریں بنا کر اُنہیں پوجتے ہیں)، وہ (تو خود ہی) اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میںسے (بارگاہِ الٰہی میں) زیادہ مقرب کون ہے اور (وہ خود) اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور (وہ خود ہی) اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں۔ (اب تم ہی بتاؤ کہ وہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں، وہ تو خود معبودِ برحق کے سامنے جھک رہے ہیں۔) بیشک آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی بات ہر شخص سے براہِ راست نہیں کہی حالانکہ ایساکرنا اس کی قدرتِ مطلقہ کے لیے ناممکن نہیں تھا۔ وہ چاہتا تو براہِ راست ہر شخص کے دل میں اپنی وحدانیت کی بات القا کر دیتا۔ وہ ہر شخص کی فطرت (nature) میں یہ عقیدہ ودیعت (inherent) کر دیتا کہ وہ خلقی طور پر (by birth) جوں جوں جوان ہوتا، اللہ تعالیٰ کو ایک مانتا اور اس پر اس کا اعتماد قائم ہوتا چلا جاتا اس طرح یہ علم ہر انسان کو بلاواسطہ (Directly) بھی عطا ہو سکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ کا یہ دستور نہیں۔ اس نے کسی کو یہ علم بلاواسطہ نہیں دیااللہ تعالیٰ کی یہ عادت نہیں کہ وہ کسی فرد بشر سے براہِ راست خطاب فرمائے۔چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے صرا حتافرمایا:
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَهُ اللهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْمِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْیُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَایَشَآءُ ط اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌo
الشوریٰ، 42: 51
’’اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسیٰ ںسے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لئے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہو گا)، بیشک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
اس مقام پر قابلِ فہم نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس دستور اور قاعدے کا اعلان کیا کہ اس کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی انسان سے بغیر وحی کے کلام کرے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کو اس پر قدرت تھی، مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ قدرت کے باوجود ایسا نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی طاقت اور اختیار میں سب کچھ ہے مگر اس کے اپنے ارشاد کے مطابق وہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُo
ھود، 11: 107
’’بیشک آپ کا رب جو ارادہ فرماتا ہے کر گزرتا ہے۔‘‘
یہ بھی اس کی شان ہے کہ:
إِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرٌ o
البقرہ، 2: 40
’’بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
وہ کسی عام فردِ بشر سے ہمکلام نہیں ہوا، اس لیے نہیں کہ ایسا کرنا اس کی طاقت سے باہر تھا بلکہ اس لئے کہ کسی فردِ بشر کو یہ مجال، طاقت اور صلاحیت (capability) حاصل نہیں ہے کہ وہ بلاواسطہ اس سے کلام کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں سے کلام کرنے کا صرف ایک ہی واسطہ اختیار فرمایا ہے جو کہ وحی ہے اور وحی جس پر بھیجی جاتی ہے وہ نبی ہوتا ہے۔اِس تفصیل کی روشنی میں اِرشادِ الٰہی کا معنی یہ ہوا کہ کسی بشرمیں یہ ہمت نہیں کہ وہ بغیر واسطۂ نبوت کے اللہ تعالیٰ اس سے ہم کلام ہو۔ اس آیتِ مبارکہ کے ابتدائی حصے میں اللہ تعالیٰ نے براہِ راست بشر سے گفتگو کے امکان کو رد فرمایا اور معاً بعد وحی کے تین طریقے بیان فرمادیئے جن کے توسط سے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل علیہم السلام سے گفتگو فرمائی اور یہی تین طریقے وحی کے معروف طریقے ہیں۔
(1) وہ براہِ راست کلام فرمائے
(2) حجاب کے پیچھے سے کلام فرمائے
(3) اپنا رسول یعنی فرشتہ بھیج کر جس کو اس کا اذن ہو اس سے کلام فرمائے۔
اللہ تعالیٰ اپنا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کیلئے ان تین صورتوں میں سے جو صورت چاہے اختیار فرمائے لیکن چوتھا کوئی براہِ راست یا بالواسطہ طریقہ نہیں جس کے ذریعے اُس نے اپنے بندوں سے کلام فرمایا ہو ۔الغرض عالمِ بشریت کے لئے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنا حکم اپنے بندوں تک پہنچانے کیلئے واسطۂِ رسالت بروئے کار لاتا ہے مگر وہ اس کا محتاج نہیں۔ وہ اس مقصد کے لئے اپنے برگزیدہ بندوں میں سے جس کو چاہے چن لیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی کو منتخب کر کے اپنی وحی کے لئے مقررکرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وہ بندہ نبی اور رسول کہلاتا ہے۔ گویا ’’رسالت‘‘ ہے ہی اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان واسطہ جِسے مرسِل (اللہ تعالیٰ) مرسَل الیہ (مخلوق) کی طرف بھیجتا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ واسطۂ رسالت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
وبالجملة فینبغی للعاقل أن یعلم أن قیام دین الله فی الأرض إنما ھو بواسطة المرسلین صلوٰة الله وسلامه علیهم أجمعین، فلولا الرسل لما عُبِد الله وَحْدَه لا شریک له ولما عَلِم الناس أکثر ما یستحقه سبحانه من الأسماء الحسنٰی والصفات العلی، ولا کانت له شریعة فی الأرض.
ابن تیمۃ، الصارم المسلول، 449
’’خلاصہ کلام یہ ہوا کہ ایک صاحب عقل و خرد شخص کو معلوم ہونا چاہیے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین کا قیام صرف رسولوں کے واسطہ ہی سے ہے۔ اگر رسول نہ آتے تو اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت نہ کی جاتی اور نہ ہی لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ علیا کیا ہیں جن کا وہ مستحق ہے اور نہ ہی اس کی شریعت زمین پر قائم ہوتی۔‘‘
علامہ ابن قیمؒ جوزیہ، علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد تھے۔ آپ ایک عظیم حنبلی فقیہ ہیں۔آپ اپنی کتاب طریق الھجرتین و باب السعادتین میں انبیاء کو واسطہ قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
ویکفي في فضلھم (أي: الأنبیاء) وشرفھم أن اللہ سبحانہ وتعالی اختصھم بوحیہ، وجعلھم أمناء علی رسالتہ، وواسطۃ بینہ وبین عبادہ.
ابن قیم، طریق الھجرتین و باب السعادتین، 1: 515
’’انبیاء علیہم السلام کے فضل اور شرف کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی وحی کے ساتھ مختص کیا ہے، اور اپنی رسالت کے ساتھ اَمین بنایا ہے، اور اِنہیں اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ بنایا ہے‘‘
عمدۃ المفسرین علامہ احمد صاوی مالکی علیہ الرحمۃ ہر اُمت کے لیے انبیا کو اور تمام انبیا کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واسطہ قرار دیتے ہوئے تفسیر صاوی میں فرماتے ہیں:
فَالْأَنْبِیَاءُ وَسَائِط لأُمَمِهِمْ فِی کُلّ شَیْئٍ وَوَاسِطَتُهُمْ رَسُوْلُ اللہ صلی الله علیه وآله وسلم.
صاوی، تفسیر صاوی 1: 107
’’انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اُمتوں کے لئے ہر شے میں واسطہ ہیں اور انبیاء کا واسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
علامہ صاوی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَلْوَاسِطَۃُ لِکُلِّ وَاسِطَۃٍ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
فَهُوَ الْوَاسِطَۃُ لِکُلِّ وَاسِطَۃٍ حَتّٰی آدَمَ.
صاوی، تفسیر صاوی، 1: 44
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر واسطہ کا واسطہ ہیں یہاں تک کہ آدم علیہ السلام کا بھی واسطہ ہیں۔‘‘
أئمہ و محدّثین نے اِس اَمر کی صراحت کی ہے کہ محض عقل کے بل بوتے پر معرفت الٰہی ممکن نہیں، یہ رسول ہی تھے جن کے واسطہ سے لوگ دین سے آشنا ہوئے۔ ہمارے عقیدئہ توحید اور ایمان باللہ کی اساس اس پر قائم ہے کہ واسطۂ نبوت و رسالت ناگزیر اور اٹل حقیقت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے قبل یہود، مشرکینِ عرب پر فتح حاصل کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ اور واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے تھے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا.
البقرہ، 4: 89
’’حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان پر اترنے والی کتاب ’’قرآن‘‘ کے وسیلے سے) کافروں پر فتحیابی (کی دعا) مانگتے تھے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں یہودیوں کا ایک عمل بیان ہوا ہے جس کی قرآن مجید نے تصدیق فرمائی اور جملہ محدثین و مفسّرین کرام نے اس سے دلیل پکڑی ہے۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب گزشتہ اُمتوں کا ہمارے آقا و مولیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل کرنا ثابت ہے تو پھر اس امت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑنا تو بطریقِ اولیٰ جائز اور درست عمل ہے۔
یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ ہر واسطہ شرک نہیں ہوتا بلکہ صرف واسطۂ تعبد یعنی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حصولِ تقرب کے لئے (بطورِ وسیلہ) کسی کی عبادت کرنا شرک ہے جیسے کفار و مشرکین بت پرستی کے جواز کے لئے عبادت کا واسطہ اختیار کرتے تھے۔ بنیادی طور پر وسائط کی دو قسمیں ہیں:
1۔ واسطۂِ شرعیہ
2۔ واسطۂِ شرکیہ
ہر اس عمل اور فعل کو اختیار کرنا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے، وہ فی نفسہٖ تقرب الی اللہ کے لئے واسطۂِ شرعی کا حکم رکھتا ہے۔ واسطۂِ شرعی کو اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہے۔ واسطہ کی حقیقت و اہمیت سے عدم آگاہی کے سبب مطلقاً یہ حکم لگا دینا کہ ہر واسطہ شرک ہے قطعاً درست نہیں مثلاً دورانِ نماز استقبال قبلہ (قبلہ کی طرف منہ کرنا) واسطہ شرعیہ ہے۔ اس واسطہ کے ذریعہ کعبہ کی عبادت نہیں کی جاتی بلکہ اس کی طرف منہ کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کی جاتی ہے۔
ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر واسطہ اختیار کرنا شرعی نہیں بلکہ شرکیہ واسطہ ہے مثلاًکفار و مشرکین کا اپنے معبودانِ باطلہ یعنی لات و عزیٰ وغیرہ کی عبادت و پرستش کرنا اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا شرکیہ واسطہ ہے۔ اس طرح اگر کوئی شخص انبیاء و اولیاء کا واسطہ اس غلط تصور کی بنیاد پر اختیار کر لیتا ہے کہ جس طرح انسانوں کے معاشرے میں وزراء کی سفارش کے بغیر بادشاہ کے یہاں کوئی کام نہیں بنتا اسی طرح واسطہ کے بغیر اللہ تعالیٰ بھی نہ دعائیں سنتاہے اور نہ عبادت قبول کرتا ہے، ایسا عقیدہ رکھنا بلاشبہ شرک ہے کیونکہ بادشاہ اور وزیر کے باہمی تعلق کو اللہ تعالی اور انبیاء واولیاء کرام کے تعلق پر قیاس کرنا ہی غلط ہے۔ بادشاہ یا حکمران اپنے وزراء کی اعانت ومشاورت کا حاجت مند ہوتا ہے، اس باہمی تعلق میں دونوں انسان ہیں اور دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں۔ ان حقوق میں سے ایک اعانت ومشاورت کا حق ہے جن کا بادشاہ بطورِ انسان محتاج اور ضرورت مند ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات قادرِمطلق ہے، وہ احکم الحاکمین ہے۔ مخلوق میں سے کوئی بھی برگزیدہ ہستی خواہ نبی ہو یا ولی وہ کسی کی معاونت، مشاورت اور حکم و تجویز کا محتاج نہیں اور نہ کسی کا اللہ تعالی پر کوئی حق ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ انبیاء و اولیاء اکرام کے توسُّل کو شرفِ قبولیت عطا فرماتا ہے، یہ محض اس کا فضل و کرم ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بہ جبر و اکراہ منوانے پر کوئی بھی قادر نہیں ہے۔ اسے کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔ وہ اپنے فضل و کرم اور اپنی شانِ عطا سے نوازتا ہے۔ وہ محض اپنے فضل و کرم سے ان کی دعاؤں کی شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص شفیع اورغالب کا عقیدہ رکھ کر واسطہ اختیار کرے تو ایسی صورت میں ہم اسے واسطۂِ شرعیہ نہیں واسطۂِ شرکیہ کہیں گے۔
آئندہ فصول میں وسائط پر قدرے تفصیل سے بحث کی جائے گی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved