دنیوی، دینی اور روحانی اعتبار سے ایک دوسرے کی مدد کرنا اِسلامی معاشرتی آداب و اخلاق کا حصہ ہے۔ اِسلام نے اہلِ ایمان کو تلقین کی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد و اِعانت کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کی مدد و استعانت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo
القرآن، المائدۃ، 5: 2
’’اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کام) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘
اس طرح مدد و استعانت وہ طریقہ اور طرزِ عمل ہے جو نہ صرف جائز بلکہ اسلامی ضابطۂ حیات کا لازمی تقاضا ہے۔ اِستعانت اور اِستمداد کے اس عمل کو شرک قرار دینا اِسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
لفظ إستغاثۃ کا مادۂ اِشتقاق ’’غ، و، ث‘‘ (غوث) ہے جس کے معنی ’’مدد‘‘ کے ہیں، اور إستغاثۃ کا مطلب ’’مدد طلب کرنا‘‘ ہے۔ اِمام راغب اِصفہانی اِستغاثہ کا لُغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الغَوثُ: یُقالُ فی النُّصرَۃِ، والغَیثُ: فی المطَرِ، وَاسْتَغَثْتُہُ: طَلَبْتُ الغَوْثَ أو الغَیْثَ.
راغب اصفهانی، المفردات في غریب القرآن: 617
’’غَوث کے معنی ’’مدد‘‘ اور غَیث کے معنی ’’بارش‘‘ کے ہیں اور اِستغاثہ کے معنی کسی کو مدد کے لئے پکارنے یا اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنے کے ہیں۔‘‘
لفظِ اِستغاثہ کا اِستعمال قرآنِ مجید میں متعدّد مقامات پر ہوا ہے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر صحابہ کرام کی اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کا ذکر سورۂ انفال میں یوں وارِد ہوا ہے:
إِذْ تَسْتَغِیْثُونَ رَبَّکُمْ.
القرآن، الانفال ، 8: 9
’’جب تم اپنے رب سے (مدد کے لئے) فریاد کر رہے تھے۔‘‘
سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اُن کی قوم کے ایک فرد کا مدد مانگنا اور آپ کا اُس کی مدد کرنا، اِس واقعہ کو بھی قرآنِ مجید نے لفظِ اِستغاثہ ہی کے ساتھ ذِکر کیا ہے۔ سورۃ القصص میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہِ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ.
القرآن، القصص، 28: 15
’’تو جو شخص اُن کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دُشمنوں میں سے تھا موسیٰ سے مدد طلب کی۔‘‘
اَہلِ لُغت کے نزدیک اِستغاثہ اور اِستعانت دونوں اَلفاظ مدد طلب کرنے کے معنی میں آتے ہیں۔ اِمام راغب اصفہانی لفظِ استعانت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَالاسْتِعَانَۃُ: طَلَبُ العَونِ.
راغب اصفہانی ، المفردات في غریب القرآن: 598
’’استعانت کا معنی: مدد طلب کرنا ہے۔‘‘
لفظِ اِستعانت بھی قرآن مجید میںطلبِ عون کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ سورۂ فاتحہ میں بندوں کو آدابِ دُعا سکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo
القرآن، الفاتحۃ، 1: 4
’’اور ہم تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘
اِسلام دینِ فطرت ہے سیدنا آدمں سے لے کر نبیٔ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء علیہم السلام کا دِین اِسلام رہا ہے۔ عقیدۂ توحید تمام انبیاء علیہم السلام کی شرائع میں بنیادی اور یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ شریعتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیت کسی بھی شریعت کی تعلیمات کے مطابق اَللہ ربّ العزّت کے سِوا حقیقی مددگار کوئی نہیں جبکہ مخلوق سے مجازاً مدد طلب کرنا شرعاً جائز ہے۔ عرب اَہلِ لُغت اور مفسرینِ قرآن کی تصریحات کے مطابق اِستغاثہ کا معنی مدد طلب کرنا ہے، جس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
مُشکل حالات میں گھرا ہوا کوئی شخص اگر اپنی زبان سے اَلفاظ و کلمات اَدا کرتے ہوئے کسی سے مدد طلب کرے تو اِسے إستغاثہ بالقول کہتے ہیں اور مدد مانگنے والا اپنی حالت و عمل اور زبانِ حال سے مدد چاہے تو اِسے إستغاثہ بالعمل کہیں گے۔
قرآن مجید میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کے حوالے سے اِستغاثہ بالقول کی مثال یوں مذکور ہے:
وَأَوْحَیْنَآ إِلٰی مُوْسٰی إِذِ اسْتَسْقٰـہُ قَوْمُہٗ أَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ.
القرآن، الاعراف، 7: 160
’’اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس (یہ) وحی بھیجی جب اس سے اس کی قوم نے پانی مانگا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو۔‘‘
اِس آیتِ مبارکہ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے پانی کا اِستغاثہ کیا گیا ہے۔ اگر یہ عمل شِرک ہوتا تو اِس مطالبہء شِرک پر مبنی معجزہ نہ دکھایا جاتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کبھی اَنبیائے کرام علیہم السلام سے خلافِ توحید کوئی مطالبہ کیا گیا تو اُنہوں نے سختی سے اُس سے منع فرمایا۔ دُوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں اَللہ تعالیٰ قومِ موسیٰ علیہ السلام کے اِستغاثہ پر خود سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو اِظہارِ معجزہ کی تاکید فرما رہا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حقیقی کارساز تو بلا ریب اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر موسیٰ علیہ السلام ! کو اِظہارِ معجزہ کے لئے اپنی قدرت و طاقت کا مظہر بنایا گیا۔
مصیبت کے وقت زبان سے کسی قسم کے اَلفاظ ادا کئے بغیر کسی خاص عمل اور زبانِ حال سے مدد طلب کرنا اِستغاثہ بالعمل کہلاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِستغاثہ بالعمل کے جواز میں بھی اللہ تعالیٰ کے محبوب و مکرم انبیاء علیہم السلام کا واقعہ مذکور ہے۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کی جُدائی میں اُن کے والدِ ماجد سیدنا یعقوب علیہ السلام کی بینائی کثرتِ گریہ کی وجہ سے جاتی رہی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب حقیقتِ حال سے آگاہی ہوئی تو اُنہوں نے اپنا قمیض بھائیوں کے ہاتھ اپنے والدِ ماجد سیدنا یعقوب علیہ السلام کی طرف بغرضِ اِستغاثہ بھیجا اور فرمایا کہ اِس قمیص کو ان کی آنکھوں سے مَس کرنا، بینائی لوٹ آئے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
عام معاشرتی زندگی میں بھی اکثر اوقات ضروری ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے مدد طلب کریں، یہ بھی دراصل وسیلہ کی ہی ایک صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو دوسرے انسان کی مدد کا حکم دے رکھا ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ افراد معاشرہ ایک دوسرے کے معاون و مدد گار بنیں۔ قرآنِ حکیم کی رو سے جب نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا جائز بلکہ واجب ہے تو مدد لینا کیسے ناجائز ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اگر ایک مدد دینے والا یعنی عطا کنندہ ہے تو دوسرا یقیناً مدد لینے والا یعنی وصول کنندہ ہے۔
سورۃ القصص میںاِستغاثہ کا لفظ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے منسوب ایک واقعہ میں استعمال کیا گیا ہے، ارشاد ربانی ہے:
وَدَخَلَ الْمَدِیْنَۃَ عَلٰی حِیْنِ غَفْلَۃٍ مِّنْ اَھْلِھَا فَوَجَدَ فِیْھَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِق ھٰذَا مِنْ شِیْعَتِہٖ وَھٰذَا مِنْ عَدُوِّہٖ ج فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ لا فَوَکَزَہٗ مُوْسٰی فَقَضٰی عَلَیْہِ قَالَ ھٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌ مُّبِیْنٌo
القرآن، القصص، 28: 15
’’اور موسیٰ (علیہ السلام) شہرِ (مصر) میں داخل ہوئے اس حال میں کہ شہر کے باشندے (نیند میں) غافل پڑے تھے تو انہوں نے اس میں سے دو مردوں کو آپس میں لڑتے ہوئے پایا یہ (ایک) تو ان کے (اپنے)گروہ (بنی اسرائیل) میں سے تھا اور یہ (دوسرا) ان کے دشمنوں (قومِ فرعون) میں سے تھا پس اس شخص نے جو انہی کے گروہ میں سے تھا آپ سے اس شخص کے خلاف مدد طلب کی جو آپ کے دشمنوںمیں سے تھا پس موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے مکا مارا تو اس کا کام تمام کردیا۔ پھر فرمانے لگے: یہ شیطان کا کام ہے (جو مجھ سے سرزد ہوا)، بیشک وہ صریح بہکانے والا دشمن ہے۔‘‘
قرآن مجید نے یہاں جو لفظ فَاْسْتَغَاثَہُ (پس اس شخص نے آپ سے مدد طلب کی ) استعمال کیا ہے اس کو اِیَّاکَ نَعْبُدُ اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) کے ساتھ ملا کر دیکھیں۔ الْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہُ بَعْضاً کے تحت استغاثہ کا جواز خود قرآن مجید سے فراہم ہوتا ہے۔ استغاثہ اگر جائز نہ ہوتا تو جس شخص نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مدد مانگی تھی اللہ تعالیٰ قرآن میں استغاثہ کی بجائے کچھ اور ارشاد فرما دیتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے براہِ راست لفظِ اِستغاثہ ارشاد فرمایا تو گویا کسی دوسرے سے مدد طلب کرنے کا جواز قرآن مجید کی نص سے ثابت ہوا۔
بعض لوگ صرف اُمورِ عادیہ اور تحت الاسباب امور میں مدد و اِستعانت کو جائز سمجھتے ہیں اور غیر عادیہ اور فوق الاسباب اُمور میں ناجائز۔ اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کسب و خلق کا تعلق اُمورِ عادیہ و غیر عادیہ، اور ماتحت الاسباب و مافوق الاسباب دونوں کے ساتھ یکساں ہے۔ عام بندوں کے افعال میں جس طرح کسب کا تعلق اُمورِ عادیہ اور اُمور ماتحت الاسباب سے ہے اِسی طرح انبیاء و اولیاء کے افعال میں بھی کسب ہی کا تعلق اُمور غیر عادیہ اور اُمور مافوق الاسباب سے ہے۔
کسب و خلق اور نسبتِ قدرت میں حقیقت و مجاز کی تقسیم نہ کریں تو بندوں کی طرف قدرت و اختیار کی نسبت افعالِ عادیہ اور ماتحت الاسباب اُمور میں بھی شرک ہو جائے گی اور اگر خلق و کسب کی تقسیم و امتیاز کر لیں تو یہی نسبت امورِ غیر عادیہ اور امور فوق الاسباب میں بھی شرک نہ بن سکے گی۔
اُمور ما تحت الاسباب ہوں یا ما فوق الاسباب ، اَفعالِ عادیہ ہوں یا افعال غیر عادیہ، ہمیں شرک سے صرف اور صرف کسب و خلق یا حقیقی و مجازی کی تقسیم بچاتی ہے۔ اس لئے کہ ’’تحت الاسباب‘‘ یا ’’فوق الاسباب‘‘ امر مسئلہ کا محل تھا خود حل نہ تھا۔ حل تو خلق و کسب کے فرق یا حقیقی و مجازی کی تقسیم نے فراہم کیا۔ لہٰذا اس ما تحت الاسباب اور ما فوق الاسباب یا اَفعالِ عادیہ اور افعال غیر عادیہ کی تقسیم نے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ امکانِ شرک کا خاتمہ ہر جگہ پہلی تقسیم کی بجائے دوسری تقسیم سے ہی ہوا ہے۔ سو پہلی تقسیم جہاں بلا دلیل اور بلا حاجت و ضرورت تھی وہاں غیر نافع اور غیر مفید بھی ہے۔ جب حقیقی اور مجازی کی تقسیم سے عقیدۂ توحید برقرار رہتا ہے بلکہ خود قرار پاتا ہے تو پھر سارے تصور کا اسی دوسری تقسیم ہی پر کیوں نہ انحصار کیا جائے؟
اِستعانت و استمداد کے باب میں حقیقی و مجازی کی تقسیم زیادہ واضح، پختہ اور محققانہ ہے اِسی کو علماء محققین نے اختیار کیا ہے۔ ہمارے نزدیک مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب کی تقسیم اعتقادی الجھاؤ اور بسا اوقات گمراہی کا باعث بنتی ہے۔ اس کی بجائے صحیح اور زیادہ بلیغ تقسیم حقیقی اور مجازی کی ہے۔
استعانت اور استغاثہ کے باب میں یہ اشکال بھی بعض ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ زندہ اور قریب سے مدد و اِستعانت تو جائز ہے لیکن بعد از وفات یا دُور فاصلے پر موجود کسی شخص سے اِستعانت جائز نہیں۔ اس مسئلہ پر مفصل دلائل آئندہ فصول میں آرہے ہیں۔یہاں یہ نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر استعانت عن العباد جائز ہے اور شرک نہیں تو کوئی زندہ ہو یا وفات پا چکا ہو، قریب ہو یا بعید ہر صورت میں جائز ہے۔ اگر مطلقاً شرک ہے تو پھر حیات و ممات ہر حال میں شرک ہوگی۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جو چیز شرک قرار پائے گی اُس میں زمان و مکان اور موت و حیات کی تخصیص نہیں ہوگی۔ جو شے شرک ہو وہ ہر آدمی کے لئے ہر مقام پر اور ہر وقت شرک ہوگی۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ زندگی میں اِستعانت کی جائے تو جائز ہو بعد از وفات استعانت کی جائے توشرک ہو جائے۔ قریب سے اِستمداد کی جائے تو درست قرار پائے اور بعید سے کی جائے تو شرک۔ اِس کی مثال تو یوں ہے جیسے کوئی کہے کہ زندہ کو سجدہ کر لیا جائے تو جائز ہے مردہ کو سجدہ کرے تو شرک ہوگا یا زندہ کے نام پر جانور ذبح کیا جائے تو جائز، مردہ کے نام پر ذبح کیا جائے تو شرک یا اسی طرح قریب کے لئے نماز پڑھے تو جائز اور دور والے کے لئے پڑھے تو شرک۔ الغرض یہ تفریق خود شرک کی دلدل میں پھنسا دیتی ہے ۔
یہ امر واضح ہے کہ حقیقی استمداد و استعانت خواہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ہر طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔ مستعانِ حقیقی، فاعلِ حقیقی اور مؤثرِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ باقی انبیاء و اولیاء سب اللہ تعالیٰ کی مدد کے مظہر ہیں۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ ہر چیز میں دستِ قدرت کو کارفرما دیکھیں اور کسی جگہ پر بھی مستعانِ حقیقی سے غافل نہ ہوں۔ آیت ’’ایاک نعبد وایاک نستعین‘‘ سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ ہر معاملہ میں حقیقی اِستعانت صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے خواہ فوق الاسباب امور ہوں یا تحت الاسباب اُمور۔ ہر دو قسم کے کاموں میں خواہ وہ ظاہری اسباب سے وراء ہوں یا ظاہری اسباب کے تابع۔ عام لوگوں کی قدرت سے خارج ہوں یا اُن کی قدرت میں داخل، اِستعانت حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہی مختص رہتی ہے۔
بندوں کے ذریعے جو مدد و اعانت صادر ہوتی ہے وہ کسب کہلاتی ہے یعنی بندوں کے ہاتھ پر اُمور عادیہ صادر ہوں یا غیر عادیہ، جو کچھ بھی ظاہر ہوتا ہے اِن تمام کا خالق اور موجد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ کسی کی مدد کرنے والے بندے فقط فعلِ امداد کاسبب ہوتے ہیں، مدد، نصرت اور اعانت کے خالق نہیں ہوتے۔ اس لئے ان سے استمداد اور استعانت بھی ظاہری اور مجازی ہوتی ہے حقیقی نہیں۔
بعض لوگ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے معنی سے یہ تصور اخذ کر تے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت جائز نہیں اسی طرح استغاثہ بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے جائز نہیں۔ ان کا یہ استدلال تعلیماتِ قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
قرآن حکیم میں صبر اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کی تلقین کی گئی ہے یعنی صبر اور نماز بارگاہِ اِلٰہی سے حصولِ اِستعانت کا واسطہ اور ذریعہ ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ ط وَاِنَّهَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَo
القرآن، البقرۃ، 2: 45
’’اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو اور بیشک یہ گراں ہے مگر (ان) عاجزوں پر (ہر گز) نہیں (جن کے دل محبتِ الٰہی سے خستہ اور خشیتِ الٰہی سے شکستہ ہیں)۔‘‘
ایک اور مقام پر اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا:
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ ط اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِریْنَo
القرآن، البقرۃ، 2: 153
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینًا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔‘‘
ان دو آیات میں غور طلب بات یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے براہِ راست استعانت کا حکم نہیں دیا بلکہ بواسطہ صبر و صلوٰۃ استعانت کا حکم دیا ہے۔ اگر یہ عملِ توسط شرک ہوتا تواللہ تعالیٰ ہرگز کسی واسطے کا ذکر نہ فرماتا۔
علامہ شبیر احمد عثمانی (م 1369ھ ) ’’تفسیر عثمانی‘‘ میں اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اِس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اِس ذاتِ پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے۔ ہاں اگر مقبول بندے کو محض واسطۂ رحمتِ الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اِس سے کی جائے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت اللہ تعالیٰ سے ہی اِستعانت ہے۔‘‘
شبیر احمد، تفسیر عثمانی، 1: 52
جو لوگ اُمورِ عادیہ میں ظاہری اِستعانت کو جائز قرار دیتے ہیں اور غیر عادیہ میں ناجائز، ان کا یہ تصور قرآنی تصریحات کے منافی ہے۔ ذیل میں ہم قرآن حکیم سے کچھ مثالیں درج کر رہے ہیں جن سے فوق الاسباب اُمور میں استعانت و استغاثہ کا ثبوت ملتا ہے:
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدِ گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کی بحالی کے لئے اپنی قمیص بھیجی اور اُنہوں نے اپنی آنکھوں پر رکھی تو بینائی لوٹ آئی۔ یہ مدد و اعانت ماتحت الاسباب نہیں بلکہ مافوق الاسباب یعنی غیر عادی اُمور میں استعانت و توسل تھا جسے قرآنِ حکیم نے بیان کیا ہے۔ ماتحت الاسباب مدد و اعانت تو آنکھوں کا علاج اور آپریشن ہے۔ بینائی چلی جائے تو سرجری سے ٹھیک ہوتی ہے اسے قمیص سے ٹھیک کرنا مافوق الاسباب مدد و اعانت کے علاوہ اور کیا ہے؟ سیدنا یوسف علیہ السلام کی طرف سے دی جانے والی قمیص کے ساتھ ان کا قول قرآن حکیم نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے:
1. اِذْھَبُوْا بِقَمِیْصِیْ هٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰی وَجْہِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًا.
القرآن، یوسف، 12: 93
’’میرا یہ قمیص لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہو جائیں گے۔‘‘
2. فَلَمَّآ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰـہُ عَلٰی وَجْھِہٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًا ج قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo
القرآن، یوسف، 12: 96
’’پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دی تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔‘‘
حضرت زکریا علیہ السلام نے 90 سال کی عمر میں پہنچ کر جب حضرت مریم علیہا السلام کی عبادت گاہ کے توسُّل مکانی سے حضورِ الٰہی میں اولاد کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹے کی بشارت دی اور پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام عطا ہوئے۔ یہ اولاد ماتحت الاسباب امر سے نہیں بلکہ مافوق الاسباب توسل سے ہوئی کیونکہ سیدنا زکریا کی عمر دائرہ اسباب سے خارج ہو چکی تھی۔
قرآن حکیم نے اس ایمان افروز واقعہ کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔
1. ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ج قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃًج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِo
القرآن، آل عمران، 3: 38
’’اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔‘‘
سورہ مریم میں اس دعا کا ذکر یوں ہے:
2. قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّلَمْ اَکُنْ م بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّاo
القرآن، مریم، 19: 4
’’عرض کیا: اے میرے رب! میرے جسم کی ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اوربڑھاپے کے باعث سر آگ کے شعلہ کی مانند سفید ہوگیا ہے اور اے میرے رب! میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔‘‘
اللہ رب العزت نے اس توسل سے اسی وقت ان کی دعا قبول فرمائی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
3. فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَھُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ لا اَنَّ اللهَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰ مُصَدِّقًا م بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللهِ وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَo
القرآن، آل عمران، 3: 39
’’ابھی وہ حجرے میں کھڑے نماز ہی پڑھ رہے تھے (یا دعا ہی کر رہے تھے) کہ انہیں فرشتوں نے آواز دی: بیشک اللہ آپ کو (فرزند) یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت دیتا ہے جو کلمۃ اللہ (یعنی عیسیٰ ں) کی تصدیق کرنے والا ہو گا اور سردار ہو گا اور عورتوں (کی رغبت) سے بہت محفوظ ہوگا اور (ہمارے) خاص نیکوکار بندوں میں سے نبی ہوگا۔‘‘
4. قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّقَدْ بَلَغَنِیَ الْکِبَرُ وَامْرَاَتِیْ عَاقِرٌ ط قَالَ کَذٰلِکَ اللهُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُo
القرآن، آل عمران، 3: 40
’’(زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہوگا؟ درآنحالیکہ مجھے بڑھاپا پہنچ چکا ہے اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے، فرمایا: اسی طرح اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘
اِس سے ثابت ہوا کہ جب ماتحت الاسباب کے دائرہ میں اولاد کی اُمید یکسر ختم ہو گئی تو کرامتِ مریم علیہا السلام کو دیکھ کر سیدنا زکریا علیہ السلام کے دل میں حضرت سیدہ مریم علیہا السلام کے توسل سے اُس بڑھاپے میں اولاد کی اُمید پھر سے جاگ اٹھی تب انہوں نے اس مقام پردُعا کی اور اولاد ہوگئی۔ یہ قبولیتِ دعا مافوق الاسباب تھی نہ کہ ماتحت الاسباب۔
سورۂ نمل میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ ج وَ اِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌo قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ ط فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْo
القرآن، النمل، 27: 39، 40
’’ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بیشک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانتدار ہوں۔ (پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کاکچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے) پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے۔‘‘
ان آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ملکہ بلقیس کے تخت کو آنِ واحد میں سینکڑوں میلوں کی مسافت سے منتقل کر دینا ایک تو آصف بن برخیا کی وہ کرامت تھی کہ قوی ہیکل جن بھی بے پناہ طاقت کے باوجود اِس پر قادر نہ ہو سکا۔ دوسری قابل غور چیز یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے خلافِ عادت اور فوق الاسباب کام کو اہلِ دربار سے طلب کیا، اس لیے آصف بن برخیا کا آنِ واحد میں مسافتِ بعیدہ سے تخت کو اُٹھا کر پیش کر دینا ماتحت الاسباب نہ تھا بلکہ فوق الاسباب اعانت اور خدمت تھی۔ یہاںیہ اشارہ بھی موجود ہے کہ فوق الاسباب امور میں مدد و اعانت اور تصرف صرف انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کے ساتھ ہی مختص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ شان اولیاء اللہ کو بھی حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ آصف بن برخیا کے عمل سے ثابت ہے کہ ایک اولوالعزم نبی حضرت سلیمان علیہ السلام کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ نے ایک ولی آصف بن برخیا کو خرقِ عادت کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائی تاکہ ایک امتی اور غیر نبی کی کرامت کو ثابت کر دیا جائے۔
ائمہ متکلمین نے بھی اِس آیت سے کراماتِ اولیاء پر استشہاد اور اِستدلال کیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ نبیوں کی اُمتوں کے اَولیاء کو فوق الاسباب اُمور پر تصرف کی قدرت عطا کی ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے اولیاء کو یہ تصرف کیوں حاصل نہ ہوگا ؟
گزشتہ باب شفاعت میں تفصیل کے ساتھ میدانِ حشر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لئے شفاعت کا بیان گزر چکا ہے کہ روزِ محشر سب لوگ مل کر جمیع انبیاء کرام علیہم السلام کے پاس مدد طلب کرنے کے لئے جائیں گے۔ صحیح بخاری میں فاستغاثوا (مدد طلب کریں گے) کے الفاظ مذکور ہیں، کیا یہ مدد طلبی ماتحت الاسباب ہوگی یا مافوق الاسباب؟ کیونکہ اسباب تو سارے ختم ہو چکے ہوں گے، جملہ مخلوق کے لئے صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ہی مدد و اعانت کا سبب ہو گی۔
روزِ قیامت جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا، سب کا جمع ہو کر انبیاء کے پاس طلب مدد کے لئے جانا مسئلہ استعانت پر اس قدر عظیم اجماع ہے جس میں سب انبیاء عظام اور سب اُمم شریک ہیں اور کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں۔ خود خدائے لم یزل کا دربارِ حشر بھی بپا ہے۔ نہ اِدھر سے کوئی روک ہے نہ انبیاء علیہم السلام کی طرف سے کوئی ٹوک۔ ایسا عظیم اِجماع کسی مسئلہ پر واقع نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ بڑے سے بڑا اجماع بھی اجماعِ صحابہ یا اجماعِ امت ہوتا ہے مگر روزِ قیامت مسئلہ اِستعانت و شفاعت پر اجماعِ انبیاء اور اجماعِ اُمم واقع ہوگا اور اس کو تائیدِ الٰہی بھی حاصل ہوگی۔ قیامت کے دن سے بڑھ کر ہولناک اور رنج و الم کا دن اور کیا ہوگا اور اس دن کی اندوہناکی میں مدد طلبی مافوق الاسباب استعانت ہی تو ہے اس لئے کہ ظاہری اسباب کی دنیا ختم ہو چکی۔ دنیا میں دعا سے مافوق الاسباب مدد ہوتی تھی اب وہ بھی نہ رہی۔ عالمِ آخرت میں جو مدد ہوگی اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی لفظ استعانت اور استغاثہ ہی سے موسوم فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُوْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، حَتَّی یَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْاُذُنِ، فَبَیْنَنَا ھُمْ کَذَلِکَ اسْتَغَاثُوْا بِاٰدَمَ ثُمَّ بِمُوْسٰی، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ.
’’قیامت کے روز سورج لوگوں کے قریب آجائے گا یہاں تک کہ پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا، سارے لوگ اسی حالت میں آدم (علیہ السلام) سے مدد طلب کریںگے، پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے پھر محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے۔‘‘
معلوم ہوا کہ جب سورج انتہائی قریب ہوگا اور سب لوگ پسینے میں غرق ہوں گے تو تمام اُمتیں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام سے اِستغاثہ کریں گی پھر دیگر انبیاء علیہم السلام اور بالآخر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد کی خواستگار ہوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں شفاعت کا لفظ نہیں بلکہ استعانت و استغاثہ کا لفظ اِستعمال فرمایا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اورسے مدد طلب کرنا، ناجائز اور شرک ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبان مبارک سے یہ الفاظ استعمال نہ فرماتے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کی اجازت دیتا۔
ذہن نشین رہے کہ وہ اِستغاثہ جو اِستعانت و اِستمداد کے معنی میں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منشا اور حکم کے خلاف بمعنی توکل ہو تو وہ شرک اور ممنوع ہے ۔ لیکن اگر توسل و شفاعت کیلئے اللہ تعالیٰ کے اذن اور اَمر کے ساتھ اور اس کی رضا جوئی کیلئے ہو تو یہ استعانت و استغاثہ بمعنی توسل تمام امور میں جائز ہے۔ قرآن میں دعا یدعو کی جو تین قسمیں بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک قسم مطلقاً ناجائز ہے جو کہ عبادت کے معنٰی میں ہے دعوت اور ندا مطلقاً جائز ہے جو استغاثہ کی صورت ہے۔ اگر وہ ﷲ تعالیٰ کے امر کے خلاف ہے تو شرک ہے اور اگر ﷲ تعالیٰ کے اِذن کے تابع اور مومنین کے لئے توسلاً ہے تو اس کے جائز ہونے میں کوئی اَمر مانع نہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بالا حدیث پر مشتمل باب کو جس ترتیب اور عنوان کے تحت درج کیا ہے اِس سے مسئلہ اِستعانت و اِستغاثہ کے جواز پر خود ان کا اپنا عقیدہ نکھر کر سامنے آ جاتا ہے۔
1۔ امام بخاری نے ’’الصحیح‘‘ کی کتاب الزکٰوۃ میں الإسْتِعْفَاف عَنِ الْمَسْئَلَۃ (دوسروں سے سوال کرنے سے بچنا) کے عنوان سے باب قائم کیا ہے، پھر اِس باب کے تحت اِسی موضوع پر احادیث کو جمع کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں:
عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ وَسَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ: اَنَّ حَکِیْمَ بْنَ حِزَامٍ رضی الله عنه قَالَ: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَاَلْتُہُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُہُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ یَا حَکِیْمُ، إِنَّ ھَذَا الْمَالَ خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ، فَمَنْ أَخَذَہُ بِسَخَاوَۃِ نَفْسٍ بُوْرِکَ لَہُ فِیْہِ، وَ مَنْ أَخَذَہُ بِـإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ یُبَارَکْ لَہُ فِیْہِ، کَالَّذِي یَأْکُلُ وَ لَا یَشْبَعُ، اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی۔ قَالَ حَکِیْمٌ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَا اَرْزَئُ اَحَدًا بَعْدَکَ شَیْئًا حَتّٰی اُفَارِقَ الدُّنْیَا. فَکَانَ اَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه یَدْعُوْ حَکِیْمًا إِلَی الْعَطَآءِ فَیَأْبٰی أَنْ یَّقْبَلَہُ مِنْہُ، ثُمَّ اِنَّ عُمَرَ رضی اللہ عنہ دَعَاہُ لِیُعْطِیَہُ فَأَبٰی أَنْ یَّقْبَلَ مِنْہُ شَیْئًا، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّی اُشْھِدُکُمْ یٰمَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی حَکِیْمٍ، أَنِّي أَعْرِضُ عَلَیْہِ حَقَّہُ مِنْ ھَذَا الْفَیْئِ، فَیَأْبٰی أَنْ یَأْخُذَہُ۔ فَلَمْ یَرْزَأْ حَکِیْمٌ أَحَدًا مِّنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتَّی تُوُفِّيَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکوۃ، باب الاستعفاف عن المسألۃ، 2: 535، 536، رقم: 1403
’’حضرت عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے عطا فرمایا۔ پھر مانگا تو پھر عطا فرمایا۔ اس کے بعد پھر مانگا تو عطا فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا: اے حکیم، بے شک یہ مال سر سبز اور شیریں ہے جو اسے نفس کی لا تعلقی یعنی سیر چشمی سے لیتا ہے تو اُس میں اُسے برکت دی جاتی ہے اور جو اسے دلی لالچ سے لیتا ہے اس میں اسے برکت نہیں دی جاتی اور وہ اُس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔ اُوپر والا ہاتھ نیچے والے سے بہتر ہے۔ حضرت حکیم کا بیان ہے کہ میں عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میں جب تک جیتا رہوں گا آپ کے بعد کسی کا دیا قبول نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں دنیا چھوڑ جاؤں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت حکیم کو مال دینے کے لئے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے تھے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا کہ انہیں کچھ دیں تو انکار کر دیا اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے مسلمانوں کی جماعت میں تم لوگوں کو حکیم پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے مالِ غنیمت سے ان کو اُن کا حق دیا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ اس طرح حضرت حکیم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی سے بھی مال لینا قبول نہیں کیا یہاں تک کہ وفات پاگئے۔‘‘
2۔ امام بخاری نے اس سے اگلا باب اس طرح قائم کیا ہے: من أَعْطَاہُ اللهُ شَیْئًا مِنْ غَیْر مَسْأَلَۃٍ وَ لَا إِشْرَافِ نَفْسٍ (جس کو ﷲ تعالیٰ بن مانگے اور طمع و لالچ کے بغیر مال عطا فرمائے)۔ اس باب میں وہ درج ذیل روایت لاتے ہیں:
عَنْ سَالِمِ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رضي اللہ عنہما قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ یَقُوْلُ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یُعْطِیْنِي الْعَطَائَ، فَأَقُوْلُ: أَعْطِہِ مَنْ ہُوَ أَفْقَرُ إِلَیْہِ مِنِّي فَقَالَ: خُذْہُ، إِذَا جَائَ کَ مِنْ هَذَا الْمَالِ شَیْئٌ، وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ وَ لَا سَائِلٍ، فَخُذْہُ، وَ مَا لَا، فَـلَا تُتْبِعْہُ نَفْسَکَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکٰوۃ، باب من أعطاہ اللہ شیئًا من غیر مسألۃ و لا إشراف نفس، 2: 536، رقم: 1404
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کچھ مال عطا فرماتے تو میں عرض کرتا: یا رسول اللہ! اسے اس شخص کو عطا فرمائیں جو مجھ سے بھی زیادہ ضرورتمند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اے عمر) یہ مال لے لو۔ جب اس مال میں سے تمہارے پاس کچھ اس طرح آئے کہ تم اس کا لالچ نہ رکھو اور نہ خود مانگو تو لے لیا کرو، اور جو مال اس طرح نہ آئے تو اس کے پیچھے نہ پڑو۔‘‘
3۔ اس کے بعد امام بخاریؒ نے مَنْ سَأَلَ النَّاسَ تَکَثُّرًا (جو لوگوں سے کثرت سے سوال کرتے ہیں) کے عنوان سے باب قائم کرکے درج ذیل روایت بیان کی ہے:
عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ رضی اللہ عنہما قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَسْأَلُ النَّاسَ حَتَّی یَأْتِیَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ لَیْسَ فِی وَجْہِہِ مُزْعَۃُ لَحْمٍ. وَ قَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُوْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ حَتَّی یَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ فَبَیْنَاھُمْ کَذَلِکَ اسْتَغَاثُوْا بِاٰدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسٰی، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.
وَزَادَ عَبْدُاللهِ قَالَ حَدَّثَنِیَ اللَّیْثُ قَالَ حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِی جَعْفَرٍ فَیَشْفَعُ لِیُقْضٰی بَیْنَ الْخَلْقِ، فَیَمْشِی حَتّٰی یَأْخُذَ بِحَلْقَۃِ الْبَابِ، فَیَوْمَئِذٍ یَّبْعَثُہُ اللهُ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا، یَّحْمَدُہُ أَھْلُ الْجَمْعِ کُلُّهُمْ.
وَ قَالَ مُعُلَّی: حَدَّثَنَا وُهَیْبٌ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُسْلِمٍ، أَخِی الزُّہْرِیِّ، عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فِی الْمَسْأَلَۃِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکٰوۃ، باب من سأل الناس تکثرًا، 2: 536، رقم: 1405
’’حضرت حمزہ بن عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آدمی مسلسل لوگوں سے بھیک مانگتا رہے گا یہاں تک کہ قیامت کے روز اس حالت میں آئے گا کہ اُس کے چہرے پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہیں رہے گی، اور فرمایا: قیامت کے روز سورج لوگوں کے قریب آجائے گا، یہاں تک کہ پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا لوگ اسی حالت میں حضرت آدم علیہ السلام سے مدد چاہیں گے۔ پھر حضرت موسی علیہ السلام سے، پھر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ کریں گے۔
’’عبداللہ، لیث، ابنِ ابو جعفر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاعت فرمائیں گے کہ مخلوق کے درمیان فیصلہ ہو، یہاں تک کہ جنت کے دروازے کی زنجیر پکڑ لیں گے، اُس روز اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا تاکہ اس مجمع عظیم میں موجود تمام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کریں۔
’’معلی، وہیب، نعمان بن راشد، زہری کے بھائی عبداللہ بن مسلم، حمزہ بن عبداللہ اور حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرنے کے مسئلہ کے تحت روایت کیا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ امام بخاری نے احادیثِ شفاعت کثرت کے ساتھ ’شفاعت‘‘ ہی کے لفظ کے ساتھ ’’الصحیح‘‘ کی مختلف کتب اور ابواب میں تخریج کی ہیں مگر یہ حدیث نہ صرف بطورِ خاص سوال کرنے اور مدد طلب کرنے کے باب میں اور انہی ابواب کے تسلسل میں روایت کی ہے بلکہ اس کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان کردہ لفظ استغاثہ (مدد طلب کرنا) بھی استعمال ہوا ہے۔ پھر آخر میں امام بخاری نے حدیث کے ذریعے تصریح بھی کر دی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس حدیث کو ’’سوال کرنے اور مدد طلب کرنے‘‘ کے موضوع کے تحت بیان فرمایا تھا۔
مذکورہ حدیثِ مبارکہ کے پہلے حصے میں لوگوں سے بھیک مانگنے کے بارے میں سخت وعید وارد ہوئی ہے لیکن حدیث کے اگلے حصے میں متصلًا اس ایمان افروز اور اہلِ ایمان کے لئے پر اُمید نوید کا ذکرہے جس پر ہر کوئی نازاں و فرحاں ہے۔ وہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقامِ محمود پر فائز ہو کر اُمت کی بخشش و مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لئے شفاعت فرمانا۔ اسی مقام پر اَولین اور آخرین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کریں گے۔
استعانت واستغاثہ کے باب میں بعض لوگ ما فوق الاسباب استعانت کو جائز نہیں سمجھتے صرف ماتحت الاسباب استعانت کے قائل ہیں لیکن ہم نے گزشتہ صفحات میں بیان کیا کہ اِستعانت خواہ فوق الاسباب امور میں ہو یا تحت الاسباب اُمور میں، عام لوگوں کی قدرت سے خارج ہوں یا اُن کی قدرت میں داخل، حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہی مختص رہتی ہے۔ بندوں کے ہاتھ پر جو کچھ بھی ظاہر ہوتا ہے اِن تمام کا خالق اور موجد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ بندوں کے ذریعے جو مدد و اعانت صادر ہوتی ہے وہ کسب کہلاتی ہے یعنی کسی کی مدد کرنے والے بندے فقط فعلِ امداد کاسبب اور واسطہ ہوتے ہیں، مدد، نصرت اور اعانت کے خالق نہیں ہوتے۔ اس لئے ان سے استمداد اور استعانت بھی ظاہری اور مجازی ہوتی ہے حقیقی نہیں۔ کثرت کے ساتھ احادیث میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اس کے لئے اللہ کے ہاں انعامات ہیں۔ اس مدد کرنے کے عمل ہی کو اصطلاحًا استغاثہ اور استعانت کہتے ہیں۔ عون سے استعانت ہے اور غوث سے استغاثہ ہے۔ یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ استعانت اور استغاثہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
صحیح احادیث میں مسلمان کو مسلمان کا بھائی کہا گیا ہے۔ اگر کوئی مسلمان کسی مشکل اور بحرانی صورت حال سے دوچار ہے اور کوئی دوسرا اس کی حاجت روائی کرے تو ایسا کرنے والے کی حاجت اللہ تعالیٰ روز قیامت پوری کرے گا۔ اسی طرح حدیث کی رو سے جب تک کوئی شخص کسی کی مدد میں مصروف رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا معین و مددگار رہتا ہے۔ ایک حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے کا ذکر کیا گیا ہے جو مشکلات اور پریشان کن حالات میں مبتلا افراد کا معین و مددگار بن جائے۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کا بندئہ غوث ہوتا ہے، جس کا ایک اقدام تہتر (73) نیکیوں کا بدل بن جاتا ہے۔ اس حدیثِ پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے موجودہ دور میں ہونے والی تمام نکتہ چینیوں اور اعتراضات کا جواب دے دیا اور مدد کے ان تمام کاموں کو جائز قرار دیا جن کا قیامت کے دن اجر دیا جائے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہُ وَلَا یُسْلِمُہُ، مَنْ کَانَ فِی حَاجَۃِ أَخَیْہِ کَانَ اللهُ فِی حَاجَتِہِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً فَرَّجَ اللهُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اپنے بھائی پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے کسی ظالم کے حوالے کرتا ہے۔ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری فرمائے گا جو شخص (دنیا کی پریشانیوں میں سے) کسی مومن کی پریشانی کو دور کر دے اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ کی رو سے اگر یہ کہا جائے کہ کوئی مومن اللہ تعالیٰ کے پریشان حال بندوں کا حاجت روا، مشکل کشا اور پردہ پوش ہے تو اس میں کوئی بات نہ خلافِ حقیقت ہو گی اور نہ شرک۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَ اللهُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیْہِ.
’’اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔‘‘
کیا اس حدیث کے مطابق مومن اپنے مسلمان بھائیوں کا ناصر و مددگار نہیں کہلائے گا؟
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إن ﷲ عبادًا یفزع الناس إلیھم فی حوائجھم الآمنون یوم القیامۃ من عذاب اللہ.
هندی، کنزالعمال، 6: 445
’’اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ لوگ اپنی جمع و حوائج میں ان سے فریاد کرتے ہیں (وہ اگر دوسروں کی فریاد رسی کرتے ہیں تو) قیامت کے روز وہ (بندے) اللہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس ارشاد مبارک کے مطابق اللہ تعالیٰ کے جو بندے اپنے بھائیوں کی فریاد سن کر ان کی مدد کو پہنچیں گے تو کیا وہ ان کے فریاد رس نہ ہوں گے؟
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من أغاث ملھوفاً کتب اللہ لہ ثلاثاً وّسبعین حسنۃً.
هندی، کنزالعمال، 6: 445، رقم: 16470
’’جو شخص کسی مظلوم کی مدد کرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے تہتر نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا ان اَحادیث سے معلوم ہوا کہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ زیردستوں اور محتاجوں کے معین و مغیث، قاضیٔ الحاجات اور ستار العیوب وغیرہ صفات سے متصف ہوتا ہے۔ باوجود اس کے کہ قاضیٔ الحاجات اور ستار و معینِ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لیکن چونکہ بندہ اس میں واسطہ ہے اس لئے اس کی طرف فعل کی نسبت کرنا بھی درست ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بکثرت یہ اَقوال منقول ہیں کہ اللہ تعالیٰ اِستغفار کرنے والوں اور مسجدوں کو آباد کرنے والوں کی وجہ سے ساکنانِ اَرض سے اپنے عذاب کو دور کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن ہی کی وجہ سے زمین والوں کو رزق دیتا ہے، ان کی مدد کرتا ہے اور زمین پر بسنے والوں سے بلاؤں اور مصائب کو دور فرماتا ہے۔
امام بخاریؒ نے مصعب بن سعد سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
ھَلْ تُنْصَرُوْنَ وَتُرْزَقُوْنَ اِلَّا بِضُعَفَآئِکُمْ.
بخاری، الصحیح، کتاب الجھاد من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب، 3: 1061، رقم: 2739
’’تم لوگوں کی تمہارے کمزور لوگوں کی وجہ سے ہی مدد کی جاتی ہے اور رزق دیا جاتا ہے۔‘‘
امام ترمذی اور حاکم نے بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَعَلَّکَ تُرْزَقُ بِہ.
’’تم کو اسی کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے۔‘‘
یہ طے شدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی صحت و بیماری اور نفع و نقصان کا حقیقی مالکِ و خالق ہے۔ یہ اعتقاد اللہ تعالیٰ کے لئے رکھنا توحید جب کہ غیر اللہ کے لئے رکھنا شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے کسی بھی مسلمان کا انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی نسبت ایسا عقیدہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بذاتِ خود نفع و ضرر کے مالک ہیں۔ قرآن میںکفار و مشرکین کے معبودانِ باطلہ کے بارے میں اس عقیدے کو رد کرتے ہوئے کہ وہ نفع و نقصان پہنچانے کے مالک ہیں۔ ارشاد فرمایا:
اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَنْفَعُکُمْ شَیْئًا وَّ لَا یَضُرُّکُمْ.
القرآن، الانبیاء، 21؛ 66
’’پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان (مورتیوں) کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع دے سکتی ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نفع و نقصان کا مالک ہونے کی نفی کی گئی ہے، آج بھی اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نفع و ضرر کا مالک جان کر ان سے استعانت کی جائے یا ان سے مدد طلب کی جائے تو یہ شرک ہو گا۔ یہ امرثابت ہے کہ مخلوق سے نفع ہو سکتا ہے اور مخلوق سے نفع کا پہنچنا جائز ہے، محض کسی کی طرف سے نفع چاہے قلیل ہو یا کثیر اس کا پہنچنا شرک نہیں ہے۔ شرک کاحکم تو قلیل اور کثیر کے لئے یکساں ہے۔ جب مخلوق کو مخلوق سے نفع پہنچنا شرک نہیں تو پھر کسی سے نفع طلب کرنا کیسے شرک ہو سکتا ہے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو نفع کا باعث اس لئے بنایا ہے کہ اس کے ذریعے سے مخلوق کو نفع پہنچے اور جب وہ مخلوق کو نفع پہنچا رہا ہے تو اس سے نفع طلب کرنا کیسے شرک ہو سکتا ہے؟ اگر شرک ہوتا تو اللہ تعالیٰ کسی کو نافع ہی نہ بناتا۔ شرک تب ہو گا کہ کسی کو نفع و نقصان کا مالک سمجھ کر اس سے استغاثہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے مقرب و محبوب بندے اس کی مخلوق کے لئے نفع رسانی کا باعث ہیں مالک نہیں۔ لہٰذا درست عقیدہ یہی ہے کہ مقربانِ الٰہی سے استغاثہ واستعانت ہرگز شرک نہیں۔
اَحادیثِ مبارکہ میں جا بجا مذکور ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و اِستمداد کرتے تھے۔ اپنے اَحوالِ فقر، مرض، مصیبت، حاجت، قرض اور عجز وغیرہ کو بیان کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اپنی پریشانیوں کا مداوا اور مسائلِ حیات کا اِزالہ کرتے تھے۔ اِس عمل میں اُن کا عقیدہ یہی تھا کہ نفع و ضرر میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک واسطہ اور سبب ہیں جبکہ حقیقی فاعل تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ اس حوالے سے چند واقعات درج ذیل ہیں:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا حافظہ شروع میں بہت کمزور تھا اور وہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اِرشاداتِ گرامی یاد نہیں رکھ سکتے تھے۔ دریں اثناء اُنہوں نے حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اِستغاثہ کیا، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نِسیان کی شکایت ہمیشہ کیلئے رفع فرما دی۔ یہی سبب ہے کہ آپ کثیرالرواۃ صحابی ہوئے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ خود بیان فرماتے ہیں:
قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّی أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِیْثاً کَثِیْراً أَنْسَاہُ، قَالَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ابْسُطْ رِدَائَکَ، فَبَسَطْتُّہُ، قَالَ: فَغَرَفَ بِیَدَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: ضُمَّہُ فَضَمَمْتُہُ، فَمَا نَسِیْتُ شَیْأً بَعْدُ.
’’میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ سے بہت سی احادیث سنتا ہوں اور پھر بھول جاتا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ، پس میں نے چادر پھیلائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے کوئی چیز اُٹھا کر اس (چادر) میں ڈالی، پھر فرمایا: اِسے اپنے ساتھ ملا لو، پس میں نے ملا لیا تو اُس کے بعد میں کبھی کوئی چیز نہیں بھولا۔‘‘
صحیح بخاری کی مذکورہ حدیثِ مبارکہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صحابہ کرامث ہر مشکل کے حل کے لئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کرتے تھے۔ صحابہ کرامث سے بڑا موحّد کون ہو سکتا ہے اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر بڑا داعی اِلی التوحید کون ہو سکتا ہے؟ مگر اِس کے باوجود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و اِستمداد کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِنکار کی بجائے اُن کا مسئلہ زندگی بھر کیلئے حل فرما دیا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر موحّد یہ جانتا ہے کہ مُستعانِ حقیقی فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ انبیائ، اولیائ، صلحاء اور پاکانِ اُمت جن سے مدد طلب کی جاتی ہے، وہ تو حلِ مشکلات میں صرف سبب اور ذریعہ ہوتے ہیں۔ اُن کا تصرّف محض اللہ تعالی کی عطاء سے قائم ہوتا ہے تاکہ وہ لوگوں کیلئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں مطلوب کے حصول کا ذرِیعہ اور وسیلہ بنیں۔
ہر ذِی شعور موحّد یہ جانتا ہے کہ قضائے حاجت اور مطلب براری کے لئے دُعا اور مدد صرف اُسی سے مانگی جاتی ہے جس کے قبضہء قدرت میں کل اِختیاراتِ عالم ہیں۔ جب کہ طالبِ وسیلہ کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وسیلہ بننے اور شفاعت کرنے والا اللہ ربّ العزت سے مُجھ گناہگار کی نسبت زیادہ قربت رکھتا ہے اور اُس کا مرتبہ اِستغاثہ کرنے والے کی نسبت بارگاہِ ایزدی میں زیادہ ہے۔ سائل اُسے مستغاثِ مجازی سے زیادہ کچھ نہیں جانتاکیوںکہ وہ اِس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ مستغاثِ حقیقی فقط اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہی معاملہ حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے واضح ہوتا ہے۔
غزوۂ بدر کے دوران حضرت قتادہ بن نعمان صکی آنکھ ضائع ہو گئی اور آنکھ کا ڈھیلا اپنے اصل مقام سے باہر نکل کر چہرے پر لٹک گیا۔ تکلیف کی شدّت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے چند صحابہث نے مشورہ دیا کہ آنکھ کی رَگ کاٹ دی جائے تاکہ تکلیف کچھ کم ہو جائے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے ساتھیوں کے مشورے پر عملدرآمد سے پہلے محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرضِ حال و اِلتجاء کا فیصلہ کیا۔ اِس حدیثِ اِستغاثہ کو ائمہ نے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
عَنْ قَتَادَۃَ بْنِ النُّعْمَانِ، أَنَّہُ أُصِیْبَتْ عَیْنَہُ یَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُہُ عَلَی وَجَنَتِہِ، فَأَرَادُوْا أَنْ یَّقْطَعُوْھَا، فَسَأَلَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: لَا، فَدَعَا بِہِ، فَغَمَزَ حَدَقَتَہُ بِرَاحَتِہِ، فَکَانَ لَا یُدْرَی أَیُّ عَیْنَیْہِ أُصِیْبَتْ.
’’حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُن کی آنکھ غزوۂ بدر کے دوران زخمی ہو گئی اور ڈھیلا نکل کر چہرے پر آ گیا۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اُسے کاٹ دینا چاہا تو انہوں نے اس بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرما دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بلایا اور آنکھ کو دوبارہ اُس کے مقام پر رکھ دیا۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اِس طرح ٹھیک ہو گئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کون سی آنکھ ضائع ہوئی۔‘‘
ثابت ہوا کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے سرورِ انبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہو کرجب اپنی تکلیف اور دکھ کا اظہار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اِستعانت و اِستغاثہ کیا تو حضورِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھ کو کاٹنے کی اِجازت دینے کی بجائے اپنے دستِ مبارک سے آنکھ کو دوبارہ اُس کے اصل مقام پر رکھ دیا جس سے اُن کی بینائی پھر سے لوٹ آئی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میری ضائع ہونے والی آنکھ کی بینائی کسی طرح بھی پہلی آنکھ سے کم نہیں بلکہ پہلے سے بھی بہتر ہے۔
امام ہیثمی نے اس طرح کی احادیث کو اپنی کتاب ’’مجمع الزوائد‘‘ میں جمع کرنے کے بعد باب کا عنوان ’’ردہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم البصر ‘‘ یعنی ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آنکھ لوٹانا‘‘ رکھا۔ اس سے اکابرینِ امت کے عقیدہ صحیحہ کا پتہ چلتا ہے۔
کتبِ احادیث میں طبیبِ اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک صحابی کا اِستغاثہ بھی مروی ہے۔ اُن کے ہاتھ میں ایک مضر پھوڑا (struma) تھا جس کی وجہ سے دورانِ جہاد اُن کے لئے گھوڑے کی لگام یا تلوار کا دَستہ پکڑنا ممکن نہ رہا تھا۔ وہ صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اَقدس میں حاضر ہوئے اور اِس بیماری کے علاج کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ کیا۔ پس اللہ تعالیٰ مستعانِ حقیقی نے دستِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اُس صحابی کو شفا عطا فرما دی۔ یہ حدیثِ مبارکہ مجمع الزوائد میں ان صحابی کے الفاظ میں یوں مروی ہے:
أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَبِکَفِّی سَلْعَۃٌ، فَقُلْتُ: ’’یَا نَبِیَّ اللهِ! ھَذِہِ السَّلْعَۃُ قَدْ أَوْرَمَتْنِی لَتَحُوْلُ بَیْنِی وَ بَیْنَ قَائِمِ السَّیْفِ أَنْ أَقْبِضَ عَلَیْہِ وَ عَنْ عَنَانِ الدَّابَۃِ‘‘۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ’’أُدْنُ مِنِّی‘‘. فَدَنَوْتُ، فَفَتَحَھَا، فَنَفَثَ فِی کَفِّی، ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ عَلَی السَّلْعَۃِ، فَمَا زَالَ یَطْحِنُھَا یَکُفُّہُ حَتَّی رَفَعَ عَنْھَا وَ مَا أَرَی أَثْرَھَا.
هیثمي، مجمع الزوائد، کتاب علامات النبوۃ، باب شفاء السلعۃ، 8: 298
’’میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ میرے ہاتھ میں ایک پھوڑا تھا۔ میں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! (میرے ہاتھ پر) پھوڑا ہے جس کی وجہ سے مجھے سواری کی لگام اور تلوار پکڑنے میں تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے قریب ہو جاؤ۔‘‘ پس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پھوڑا کو کھول کر میرے ہاتھ میں پھونک ماری اور اپنے دستِ مبارک کو پھوڑے پر رکھ کر دباتے رہے حتی کہ جب ہاتھ اُٹھایا تو اُس (پھوڑے) کا اثر مکمل طور پر زائل ہو چکا تھا۔‘‘
مادر زاد نابیناؤں کو نعمتِ بصارت سے فیضیاب کرنا بھی تاجدارِ انبیائ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے۔ جامع ترمذی کی روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اَقدس میں بینائی کے حصول کے لئے اِستغاثہ کرنے آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں منع کرنے اور اِستغاثہ کی حُرمت یا خدشہء شِرک کا اِظہار کرنے کی بجائے خود اُنہیں دُعا کی تلقین فرمائی۔ یہ دُعا، وسیلہ اور اِستغاثہ دونوں کی جامع ہے اور اُس نابینا صحابی رضی اللہ عنہ کی طرح اگر اسے آج بھی صدق دل اور خلوص نیت سے کیا جائے تو اِنسانیت کے لئے مجرّب اعظم ہے۔ مذکورہ دُعا کے الفاظ یہ ہیں:
اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْئَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَۃِ، یَامُحَمَّدُ! إِنِّی قَدْ تَوَجَّھْتُ بِکَ إِلَی رَبِّی فِی حَاجَتِی ھَذِہِ فَتَقْضِی لِی، اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِيَّ.
’’اے اللہ! میں نبیٔ رحمت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد! میں اپنی اِس حاجت میں آپ کے واسطے سے اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ یہ حاجت بر آئے۔ یا اللہ میرے معاملے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارِش و شفاعت کو قبول کر لے۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ میں مذکور دُعا کا اِبتدائی جملہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطورِ وسیلہ پیش کر رہا ہے، جب کہ اِسی دُعا کا دوسرا جملہ جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا جا رہا ہے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے اِستغاثہ کا نہ صرف جواز بلکہ حکم مہیا کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے اِستغاثہ جائز اور درست نہ ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس عمل کا حکم اِرشاد نہ فرماتے۔ حضور سرورِ کائنات نے خود اپنی ذاتِ گرامی سے اِستغاثہ کا حکم اِرشاد فرما کر ان باطل عقائد و نظریات کی جڑ کاٹ دی جن کے ذریعہ بعض لوگ اِسلام کے حقیقی عقائد و نظریات اور تعلیمات کا چہرہ مسخ کرتے ہوئے جمیع مسلمانانِ عالم کو کافر و مشرک قرار دیتے ہیں۔
ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ توسُّل کا یہ طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری کے ساتھ خاص نہیں۔ بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین توسُّل کے اس صیغہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی استعمال کرتے تھے۔ طبرانی کی روایت سے ثابت ہے کہ ایک آدمی اپنی کسی غرض و حاجت سے باربار حضرت عثمان بن عفانصکے پاس جاتا تھا۔ لیکن وہ اس کی طرف التفات نہ فرماتے۔ وہ آدمی حضرت عثمان بن حنیفصکو ملا اور ان سے اس کا شکوہ کیا۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وضو کر کے مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھ کر ان الفاظ کے ساتھ دعا کرو : ’’اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْئَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَۃِ … إلی آخرہ اور اپنی حاجت کا ذکر کرو۔ وہ آدمی چلا گیا اور جو اس کو کہا گیاتھا اس نے وہی کیا۔ اس کے بعد جب وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان نے خود اس کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور حضرت عثمان صکے پاس پہنچا دیا۔ حضرت عثمان صنے دربارِ خلافت میں اس کو اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا اور فرمایا کہ تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے اپنی حاجت بیان کی تو حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے اس کی حاجت پوری کردی اور فرمایا کہ تم نے اب تک اپنی حاجت کاکیوں ذکر نہ کیا؟ آئندہ جو بھی ضرورت ہو، ہمارے پاس آجایا کرو۔ وہ آدمی جب ان کے ہاں سے رخصت ہوا تو حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، عثمان تو اس سے پہلے میری حاجت کے بارے میں نہ غور کرتے اور نہ میری طرف التفات کرتے تھے اب آپ نے ان سے میری سفارش کردی تو میرا کام ہوگیا۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
واللہ! ما کلمتہ، و لکنّی شھدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و أتاہ ضریر، فشکا إلیہ ذھاب بصرہ، فقال لہ النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : فتصبر؟ فقال: یارسول اللہ! لیس لي قائد و قد شقّ عليّ، فقال لہ النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ائت المیضأۃ فتوضأ ثم صل رکعتین ثم ادع بھذہ الدعوات۔ قال ابن حنیف: فواللہ! ما تفرقنا، و طال بنا الحدیث حتی دخل علینا الرجل کأنہ لم یکن بہ ضرّ قط.
’’بخدا! یہ میں نے نہیں کہا۔ بلکہ ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ کے پاس ایک اندھا آدمی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی بینائی کے ختم ہونے کا شکوہ کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا صبر کر۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا کوئی خادم نہیں ہے اور مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوٹا لے کر آؤ اور وضو کرو۔ پھر دو رکعت (نفل نماز) پڑھ کر ان دعائیہ کلمات سے دعا کرو۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم! ہم لوگ ابھی نہ تو مجلس سے دور ہوئے اور نہ ہی ہمارے درمیان گفتگو لمبی ہوئی حتی کہ وہ آدمی ہمارے پاس (اس حالت میں) آیا کہ گویا اسے اندھا پن تھا ہی نہیں۔‘‘
حضرت عثمان بن حنیف صنے اس شخص کو وہ دعا سکھائی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ استغاثہ و ندا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس آدمی نے یہ گمان کیا کہ شاید عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے امیر المؤمنین سے سفارش کی ہے جس وجہ سے اس کی ضرورت پوری ہوئی ہے اس لئے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے جلدی سے نہ صرف اس کے گمان کی نفی کردی بلکہ اس عمل خیر کو اپنی ذات سے منسوب کرنے کی بجائے اس کو وہ حدیث سنائی جو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھی تاکہ ثابت ہوجائے کہ اس کی حاجت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنانے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نداء اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ کی وجہ سے پوری ہوئی ہے اور اللہ کی قسم کھا کر اسے یقین دہانی کروائی کہ انہوں نے امیر المؤمنین سے اس بارے میں کوئی سفارش نہیں کی بلکہ یہ سب کچھ وسیلۂ مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت ہے۔
علامہ ابنِ تیمیہ نے ابنِ ابی الدنیا کی کتاب ’’مجابو الدعوۃ‘‘ سے ایک حکایت نقل کی ہے کہ ایک شخص عبد الملک بن سعید بن ابجر کے پاس آیا۔ عبد الملک نے اس کے پیٹ کو دبایا اور کہا کہ تمہیں ایک لا علاج بیماری ’دبیلہ (بڑا پھوڑا)‘ ہے جو پیٹ کے اندر نکلتا ہے اور اکثر مریض کو ہلاک کردیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ شخص واپس ہوا اور پھر اس نے مذکورہ بالا ’’توسلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ پر دعا کو پڑھا۔ بعد ازاں عبدالملک نے اس کے پیٹ کو دبایا اور کہا کہ تم ٹھیک ہوگئے ہو، تمہیں کوئی بیماری نہیں۔
شیخ ابنِ تیمیہ اپنی کتاب میں اس پورے واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
فهذا الدعا و نحوه قدروی أنه دعا به السلف.
ابن تیمیہ، قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ: 91
’’یہ اور اس جیسی دیگر مجرب دعائیں سلف صالحین کا معمول رہی ہیں۔‘‘
اہم بات یہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہ نے بھی اس چیز کی نہ صرف روایت کردی بلکہ وسیلہ اور استغاثہ کے اس عمل کو صالحینِ اُمت کا معمول قرار دیا۔ شیخ ابنِ تیمیہ کی یہ خاموش تائید گویا ایسی دعاؤں اور وظائف کو استغاثہ بنانے کا جواز ہیں۔
عملِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اِستغاثہ بالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثبوت میں کتبِ احادیث بھری پڑی ہیں۔ احادیثِ صحیحہ مرفوعہ متواترہ سے یہ بات ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جب بھی کوئی مصیبت و آفت درپیش ہوتی تو وہ سرورِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں اِستغاثہ کے لئے حاضر ہوتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اِس عمل سے روکنے کی بجائے اُن کی حاجت براری کرنا استغاثہ کے جواز کو حتمی طور پر ثابت کرتا ہے کہ یہ عمل شِرک کے اَدنیٰ سے شائبہ سے بھی پاک ہے۔ اوّلاً یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی صحابی شِرک میں مبتلا ہو اور ثانیاً یہ اُس سے بھی زیادہ ناممکن بات ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شِرک سے بچنے کی تعلیم نہ دیں۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس تمام روحانی، علمی اور عملی کمالات کے حصول میں جمیع مخلوق کے لئے فیض کا واسطۂ اعظم ہیں۔ تمام اَنبیاء و رسل اَولیاء و عرفاء حتیٰ کہ ملائکہ مقربین میں جو جو کمالات و معارف فردًا فردًا موجود ہیں وہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بدرجۂ اَتم موجود ہیں اور سب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط و توسل سے ہی عطا ہوتے ہیں۔ جب یہ بات متحقق ہوگئی کہ ان فضائل و کمالات کا وسیلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جامع کمالات و فضائل سمجھنا بدرجۂ اتم ثابت ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخلوق کے تمام علوم و معارف کا سرچشمہ جانتے ہوئے اعلیٰ ترین مقام و منصب پر فائز سمجھنا تقاضائے اِیمان بن جاتا ہے۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت یہ باتیں کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمت کے احوال سے آگاہ ہیں یا نہیں؟ آپ سے استعانت اور توسل جائز ہے یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کو کچھ دے سکتے ہیں یا نہیں؟ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کراپنے لئے بخشش و مغفرت اور نعمتیں طلب کرنا جائز ہے یا حرام؟ یہ سب دراصل کمزور علم اور ضعیف بلکہ ناقص ایمان رکھنے والے لوگوں کی باتیں ہیں۔ فیوضاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نفی یا ضعف ثابت کرکے عقیدۂ توحید کو تقویت دینے کا رجحان نہ صرف کج فہمی ہے بلکہ بہت بڑا ابلیسی فتنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کے ایمانی نقائص سے ہم سب کو محفوظ فرمائے۔
اس مقام پر بعض لوگوں کے ذہن میں ایک اشکال وارد ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ یہ سب واقعات انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات اور اعزازات ہیں یا اولیاء کرام کی کرامات ہیں۔ معجزہ اور کرامت اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتے ہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ نبی اور رسول کا معجزہ ہو، ولی کی کرامت ہو یا عام بندوں کے افعال، اِن سب کا خالق اور فاعلِ حقیقی بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ بندوں کی طرف اِن تمام افعال کی نسبت خواہ وہ اُمور عادیہ ہوں یا غیر عادیہ، تحت الاسباب ہوں یا فوق الاسباب، ظاہری اور صوری طور پر ہوتی ہے۔ لہٰذا افعال میں عادیہ اور غیر عادیہ کی تقسیم یا ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی تقسیم، حقیقی و مجازی کی تقسیم کے ہوتے ہوئے نہ صرف غیر ضروری بلکہ غلط، جاہلانہ اور گمراہ کن ہے۔
عام افعال کی طرح معجزاتِ انبیاء اور کرامات اولیاء کے ساتھ بھی دو قدرتیں متعلق ہوتی ہیں۔ ایک انبیاء و رسل عظام علیہم السلام اور اولیاء و محبوبانِ خدا کی قدرت بہ لحاظِ کسب اور دوسری اللہ جل مجدہٗ کی قدرت بلحاظِ خلق و ایجاد۔ معجزات اور کرامات کا اِسناد انبیاء و اولیاء کی طرف بہ لحاظ کسب ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بہ لحاظ خلق ہے۔ جس طرح عام لوگوں کی قدرت و اختیار میں افعالِ عادیہ ہوتے ہیں۔ اِسی طرح انبیاء و اولیاء کی قدرت و اختیار میں افعال غیر عادیہ بھی رکھے گئے ہیں۔ جس طرح عام لوگوں کی قدرت میں اُمور ما تحت الاسباب ہوتے ہیں اسی طرح انبیاء و اولیاء کی قدرت میں ما فوق الاسباب بھی رکھے گئے ہیں۔ یہی ان کا شرف و امتیاز ہے اور مقام و اختصاص۔ اسی شرف کی عملی شکل معجزہ و کرامت کا صدور ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پتھر پر عصا مار کر چشمے جاری کرنا اور یدِبیضاء کا معجزہ ان کے ارادہ اور رضا ہی سے ظاہرہوتا تھا۔ حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام کا مٹی کے مجسمے بنانا اور پرندوں کی شکل و صورت بنا کر روح پھونک دینا بھی ان کے قصد و ارادہ اور رضا سے تھا اور برص، کوڑھ کو دور کرنا اور مادر زاد اندھوں کو روشن آنکھیں عطا کرنا ان کے قصد و ارادہ اور ان کی رضا اور کسب و سببّیت سے ہی ہوتا تھا اور ہزاروں مریض روزانہ حضرت عیسیٰں کے ہاتھ پھیرنے سے شفا یاب ہوتے تھے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کفار و مشرکین کے مطالبے پر درختوں کو جڑوں سمیت چلانا، پتھر کو پانی پر تیرانا، چاند کو دولخت کرنا، انگلیوں سے چشمے جاری فرمانا اور اُمِ معبد کی لاغر و نحیف بکری سے دودھ جاری کرنا یہ معجزات اتفاقاً نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قصد و ارادہ، مرضی اور کسب و سببیت کے طور پر ظہور پذیر ہوئے۔
انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کو معجزات اور اولیائے کو کرامات کے معاملہ میں جبریہ کی طرح مجبور محض ماننا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ خلق و ایجاد صرف اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہے اور بطریق کسب و سببّیت اور بطورِ عادت تدبیر و تصرف ان کی حسبِ شان ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدّث دہلویؒ نے تاثیرات اولیاء پر کلام کرتے ہوئے تفسیرِ عزیزی میںکیا خوب لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’کاملیت کی دوسرے ناقص لوگوں میں تاثیر جس کو اہلِ طریقت عرف اور اصطلاح میں توجہ کہتے ہیں، چار قسم کی ہے۔ اول انعکاسی، دوئم اِلقائی، سوم اصلاحی اور چہارم اتحادی۔ تاثیرِ اتحادی یہ ہے کہ شیخ و مرشد اپنی روح کو جو کہ کمال کے ساتھ موصوف ہوتی ہے۔ مستفید و مسترشد کی روح کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ متحد کر دیتا ہے حتی کہ شیخ کی روح میں مسعود کمال مرید کی روح میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اور تاثیر کی اقسام میں سے یہ قسم سب سے قوی تر ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ دونوں روحوں کے اتحاد کا تقاضا اور اثرِ مترتّب یہی ہے کہ جو شیخ کی روح میں کمال ہو گا وہ مرید کی روح کو حاصل ہو جائے گا اور بار بار استفادہ کی حاجت نہیں رہے گی۔ اَولیاء اللہ میں اس قسم کی تاثیر کا ظہور نادر طور پر ہوتا ہے۔ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ العزیز سے منقول ہے کہ ایک دن ان کے ہاں چند مہمان آئے اور ماحضر موجود نہیں تھا۔ مہمان نوازی کی فکر میں انہیں پریشانی لاحق ہوئی، ضیافت کے سامان کیلئے باہر نکلے، اتفاقاً آپؒ کے مکان سے متصل نانبائی کی دکان تھی وہ اس تشویش پر مطلع ہوا تو اس نے روٹی اور سالن تیار کرکے خدمت میں پیش کیا۔ انہیں اس حسنِ سلوک سے بہت خوشی ہوئی حتی کہ اس کو فرمایا مانگ جو مانگنا چاہتا ہے۔ نانبائی نے اپنی سمجھ کے مطابق عرض کیا ’’مجھے اپنے جیسا بنا دیں‘‘۔ آپؒ نے فرمایا تو اس حالت کا متحمل نہیں ہو سکتا کوئی دوسری چیز طلب کر۔ اس نے اسی مطالبہ پر اصرار کیا اور آپ اس سے اعراض فرماتے رہے، جب اس کی لجاجت اور اصرار زیادہ ہوا تو آپ ناچار نانبائی کو حجرہ میں لے گئے اور اس پر توجہ اتحادی فرمائی، جب وہ حجرہ سے باہر آئے تو حضرت خواجہ باقی باللہ اور نانبائی کے درمیان شکل و صورت میں کوئی فرق نہیں رہ گیا تھا اور لوگوں کو ان کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہو چکا تھا۔ صرف اتنا فرق محسوس ہوتا تھا کہ حضرت خواجہ باقی باللہ حالتِ ہوش میں تھے اور وہ نانبائی مدہوش اور بے خود تھا۔ بالآخر تین دن کے بعد اسی حالتِ سُکر و مدہوشی میں انتقال کر گیا۔ اللہ تعالیٰ رحمت فرمائے۔
شاہ عبدالعزیز، تفسیر عزیزی، 3: 245
اس سے یہ امر عیاں ہوا کہ اولیاء اللہ میں اپنے کسب و اختیار اور تدبیر و تصرف اور فعل و تاثیر سے خوارقِ عادت اُمور کے صادر کرنے اور سر انجام دینے کی صلاحیت اور قوت موجود ہوتی ہے اور وہ ناقصین کو کاملین بنانے پر قادر ہوتے ہیں۔ ان سے ایسے اُمور اتفاقاً اور بلا قصد و بلا ارادہ نہیں بلکہ اپنے کسب و اختیار اور تصرف سے صادر ہوتے ہیں۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ ’’تفسیر عزیزی (1: 9)‘‘ میں اِیَّاکَ نستعین کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اس جگہ یہ اَمر جاننا ضروری ہے کہ مطلق اِستعانت غیر سے حرام نہیں بلکہ اس طرح حرام ہے کہ استعانت چاہنے والا اس شخص پر بھروسہ کرے اور یہ نہ سمجھے کہ حاجت رو اللہ تعالیٰ ہے اور یہ شخص سبب ظاہری ہے اور اگر ایسا اعتقاد کر کے غیر سے استعانت کرے اور اس غیر کو مظہرِ عونِ اِلٰہی سمجھے سو ایسی استعانت شرع میں جائز اور روا ہے۔ انبیاء و اولیاء علیہم السلام نے اس طرح کی استعانت غیر کے ساتھ کی ہے۔ اور درحقیقت ایسی استعانت بالغیر نہیں بلکہ استعانت خدا کے ساتھ ہے۔‘‘
مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی ’’امداد الفتاوٰی‘‘ کی کتاب العقائد والکلام میںلکھتے ہیں کہ مخلوق کی غیر مستقل قدرت مان کر اس سے استمداد جائز ہے اگرچہ میت ہی سے مانگی جائے ۔ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں:
’’جو اِستعانت و اِستمداد باعتقاد علم و قدرت مستقل ہو وہ شرک ہے اور جو باعتقاد و علم و قدرت غیر مستقل ہو اور وہ علم قدرت کسی دلیل سے ثابت ہو جائے تو جائز ہے۔ خواہ مستمد منہ(یعنی جس سے مدد طلب کی جائے) زندہ ہو یا وصال پا چکا ہو۔‘‘
تھانوی، اِمداد الفتاوی، کتاب العقائد والکلام، 4: 99
مذکورہ اقتباس سے ثابت ہوا کہ مخلوق زندہ ہو یا میت، ان کی غیر مستقل قدرت مان کر ان کے توسل سے مدد واِعانت طلب کرنا جائز اور مشروع ہے۔ یہ شرک اور بدعت نہیں ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved