حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ با برکات سے توسُّل کی تین صورتیں ہیں:
1۔ التوسُّل بالنبی ﷺ قبل ولادتہ
( ولادت باسعادت سے قبل حضور نبی اکرم ﷺ سے توسُّل)
2۔ التوسُّل بالنبی صلی ﷺ فی حیاتہ
(حیاتِ مبارکہ میں حضورنبی اکرم ﷺ سے توسُّل)
3۔ التوسُّل بالنبی ﷺ بعد وصالہ
(بعد اَز وصال حضور نبی اکرم ﷺ سے توسُّل)
مندرجہ بالا تمام صورتیں قرآن وحدیث سے ثابت ہیں اور آج تک علماءِ کبار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ کے ان تینوں پہلوؤں سے توسُّل بیان کرتے چلے آئے ہیں۔
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل کیا گیا۔ ائمہ و محدّثین نے اپنی کتابوں میں ثقہ روایات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبل اَز ولادت فیوض و برکات کو ثابت کیا ہے۔ آئند صفحات میں ہم اِن شاء اللہ ولادت سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل کرنا ثابت کریں گے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ سے توسّل کرنا، ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی سنت ہے۔ انہوں نے معافی کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بطورِ وسیلہ پیش کیا اور ربِّ رحیم نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل سے انہیں معاف فرما دیا۔ امام حاکم (م 405ھ) اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لما اقتَرَفَ آدم الخطیئَۃَ قال: یا ربّ أسألُکَ بحقِ محمدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لما غفرت لي. فقال اللہ: یا آدم وکیف عَرَفْتَ محمدًا ولم أخلُقْہ؟ قال: یا ربِّ لأنک لمّا خلقتنی بیدک ونفختَ فيّ من روحک رفعتُ رأسي فرأیتُ علی قوائمِ العرشِ مکتوباً: لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ، فعلمتُ أنک لم تُضِفْ إلی اسمکَ إلا أحَبَّ الخلقِ إلیک. فقال اللہ: صدقتَ یا آدم إٔنہ لأحَبُّ الخلقِ إليّ. ادعني بحقّہ، فقد غفرتُ لک، ولو لا محمدٌ ما خلقتُکَ.
’’جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطاء سرزد ہوئی تو انہوں نے (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کیا: پروردگار! میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔ اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک میں نے انہیں تخلیق بھی نہیں کیا؟ حضرت آدم ںنے عرض کیا: مولا! جب تو نے اپنے دستِ قدرت سے مجھے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اوپر اٹھا یا تو عرش کے ہر ستون پر لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہوسکتا ہے جو تمام مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا، مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہے۔ اب جبکہ تم نے اس کے وسیلہ سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کر دیا اور اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں تجھے بھی تخلیق نہ کرتا۔‘‘
امام حاکمؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام بُلقینی نے بھی اپنے فتاویٰ میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام تقی الدین سبکیؒ نے ’’شفاء السقام فی زیارۃ خیر الأنام (ص: 120)‘‘ میں شیخ ابنِ تیمیہ کی تنقید اور رَدّ کو مسترد کیا ہے اور امام حاکم کے قول کی تصدیق کی ہے۔
نوٹ: اِس روایت سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ہماری کتاب ’’عقیدۂ توسُّل‘‘ کا باب پنجم ملاحظہ کریں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے پہلے یہود اپنے حریفوں پر فتح پانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے بارگاہِ ربّ العزت میں دعا کرتے جس کے نتیجے میں فتح سے ہم کنار ہوتے۔ اس بات پر نصِ قرآنی شاہد عادل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَمَّا جَآئَهُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ ﷲِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْاج فَلَمَّا جَآئَھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ ﷲِ عَلَی الْکَافِرِیْنَo
البقرۃ، 2: 89
’’اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو اس کتاب(تورات ) کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے، سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن کے ساتھ ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہوگئے، پس (ایسے دانستہ) انکار کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘
قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک مفسرین کی اکثریت نے اس آیتِ کریمہ کا جو معنی بیان کیا ہے وہ اصلاً حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ (م 68ھ) سے مروی ہے۔
’’تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس‘‘ ’’جامع البیان فی تفسیر القرآن‘‘ ’’الدر المنثور فی التفسیر بالماثور‘‘ اور دیگر کتبِ تفاسیر میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول منقول ہے کہ یہود اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
{وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ} من قبل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والقرآن {یَسْتَفْتِحُوْنَ} یستنصرون بمحمد والقرآن {عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا} من عدوھم أسد وغطفان ومزینۃ وجهینۃ {فَلَمَّا جَآئَھُمْ مَّا عَرَفُوْا} صفته ونعته فی کتابهم {کَفَرُوْا بِهٖ} جحدوا به {فَلَعْنَۃُ ﷲِ} سخطۃ ﷲ وعذابه {عَلَی الْکَافِرِیْنَ} علی الیهود.
فیروز آبادی، تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: 13
’’(یہود) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کے نزول سے قبل اپنے دشمنوں أسد، غطفان، مزینۃ اور جہینۃ (کے قبائل) کے خلاف اللہ تعالیٰ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کے توسل سے حصولِ فتح کے لیے دعائیں کرتے تھے۔ لیکن جب وہ ہستی جس کی صفات و خصوصیات کو وہ اپنی کتابوں کے ذریعے پہچانتے تھے تشریف لے آئی تو اس کا اِنکار کر دیا۔ پس (اس کفر کی وجہ سے) کافروں میں سے یہود پر اللہ کا عذاب اور لعنت ہو۔‘‘
خود اہلِ کتاب، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے کفار و مشرکین عرب سے جنگوں کے دوران اللہ تعالیٰ سے اپنے کامیابی و کامرانی کی دعا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے مانگا کرتے تھے۔ ان کی دعا کے کلمات یہ تھے:
اللّھم انصرنا بالنبي المبعوث فی آخر الزمان الذی نَجِدُ نعتَہ وصفتَہ في التوراۃ.
زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، 1: 123
’’اے اللہ! آخری زمانہ میں بھیجے جانے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جن کی تعریف اور صفات ہم تورات میں پاتے ہیں، کے وسیلے سے ہماری مدد فرما۔‘‘
ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل بھی اہلِ کتاب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو بطورِ وسیلہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کرتے تھے۔اس روایت کے مقبول ہونے کے حوالے سے ذہن نشین رہے کہ جو روایت تفسیر کے لئے قابلِ حجت ہوتی ہے وہ درجۂ قبولیت میں ہوتی ہے۔ اس روایت کو تو گزشتہ ایک ہزار سال کے دوران جتنے بھی مفسرین گزرے ہیں سب نے نقل کیا ہے، کسی نے تفسیر القرآن بالقرآن اور کسی نے تفسیر القرآن بالحدیث کے تحت۔ مختلف ادوار میں مفسرین کرام، محدثین اور فقہاء و ائمہ کا اس پر متفق ہونا بڑا اہم اور قابلِ اعتماد امر ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ تو اسرائیلیات سے آئی ہیں تو اس حوالے سے بھی یہ امر ذہن نشین رہے کہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق بنی اسرائیل سے روایات لینے میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
حَدِّثوا عن بني إسرائیل ولا حرج.
بخاری، الصحیح، کتاب الانبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، 3: 1275، رقم: 3274
’’بنی اسرائیل سے روایات لو، اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ میں بوقتِ ضرورت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا توسل پیش کرتے تھے۔ جب اُممِ سابقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دشمنوں پر فتح اور اپنے گناہوں کی مغفرت کیلئے التجائیں کرتی تھیں تو اُمتِ مصطفوی بطریقِ اولیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسُّل کی حقدار ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو منع نہیں فرمایا بلکہ خود ان کو وسیلہ کی تعلیم دی۔ قرآن و حدیث میں صراحۃً اس امر کا ثبوت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ نے اُمت پر بے شمار انعامات فرمائے ہیں۔ چند دلائل درج ذیل ہیں:
اُمم سابقہ جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں تمام حدود تجاوز کرجاتیں تو اس نافرمانی کے باعث پوری اُمت کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کر دیا جاتا۔ مگر جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مسعود کے وسیلہ سے باری تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ سے متعلق اپنا قانون و ضابطہ تبدیل کردیا۔ اِرشادِ باری تعالی ہے:
وَمَا کَانَ اللهَ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِیْھِمْ ط وَمَا کاَنَ اللهَ مُعَذِّبَهُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo
الانفال، 8: 33
’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے نہ صرف اُمتِ اِجابت (مؤمنین و مسلمین) بلکہ اُمتِ دعوت (کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ) سے بھی دنیاوی عذاب اٹھالئے گئے۔ یہ عذاب کا اٹھایا جانا کسی خاص وقت اور زمانے کی لیے نہ تھا، بلکہ یہ ابد الاباد تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کے ساتھ لازم کردیا گیا ہے۔ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت موجود رہے گی‘ اس وقت تک عذاب الٰہی نہیں آئے گا اور بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت قیامت تک جاری و ساری رہے گی کیونکہ وَأَنْتَ فِیْہِمْ کی برہانِ قطعی کی بنا پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجودِ اقدس رحمت ِالٰہی کا باعث بن گیا۔ لہٰذا اب قیامت تک سابقہ اُمم کی طرح نہ صرف یہ اُمت بلکہ تمام دنیائے انسانیت عالمگیر عذابوں میں گرفتار نہیں ہوگی۔ پس عذابِ الٰہی اور نوعِ بشر کے درمیان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ جلیلہ ایک پردۂ رحمت بن گیا ہے۔
غزوہ اُحد کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جغرافیائی اور عسکری نقطۂ نظر سے ایک خاص دَرَّہ پر متعین فرمایا اور تاکید فرمائی: فتح ہو یا شکست تم نے ہرگز اپنی جگہ نہیں چھوڑنی۔ اِن میں سے اکثریت نے اِبتدائی فتح کے پیشِ نظر دَرَّہ کو چھوڑ دیا جب کفار و مشرکینِ مکہ نے پیچھے سے پلٹ کر حملہ کردیا تو بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوگئے اور اکثریت زخموں سے چور۔ پھر جب جنگِ احد سے واپس پلٹے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور معرکے کے لیے بلایا، زخموں سے چور اور نڈھال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دوبارہ جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔ اس جانثاری پر اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آگیا اور انہیں معاف کرنے کا ارادہ فرمالیا لہٰذا اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا:
فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ.
آل عمران، 3: 159
’’سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں باری تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا کہ اے محبوب: آپ اِن سے در گزر کریں اور اِن کے لیے مغفرت طلب کریں۔ گویا اِن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معافی کا پروانہ اس وقت تک جاری نہیں ہوسکتا جب تک اس کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استغفار کا وسیلہ شامل نہ ہو جائے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں توسُّل پر قرآن حکیم کی یہ آیتِ کریمہ بڑی قوی دلیل ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَھُمْ جَآؤُکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ واسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّاباً رَّحِیْماًo
النساء، 4: 64
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر ) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں اہلِ ایمان کو یہ ہدایت عطا فرمائی ہے کہ جب بھی وہ کوئی گناہ کر بیٹھیں یا ان سے کوئی خطا سرزد ہوجائے تو اپنے گناہوں کو بخشوانے کے لیے درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضر ہوجائیں اوران کا دامنِ رحمت پکڑ کر ان کے وسیلہ سے بارگاہِ خداوندی میں التجا کریں۔ پھر جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کی شفاعت کریں گے تو یہ امر یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخش دے گا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں اس آیت کا اطلاق ہوتا تھا اسی طرح بعد از وصال بھی یہ جاری و ساری رہے گا۔ (اس حوالے سے تفصیلات آگے آ رہی ہیں)۔اگر توسل شرک یا ناجائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ کبھی بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جَآؤکَ فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بار گاہ کی طرف نہ بھیجتا۔
آیاتِ بینات کے علاوہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاداتِ گرامی میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں توسُّل کیا گیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خودتلقین فرمائی۔ جیسا کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أنّ رَجُلاً ضَرِیْرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فَقَالَ: ادْعُ اللهَ لِیْ أَنْ یُعَافِیَنِیْ. فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَکَ وَھُوَ خَیْرٌ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ. فَقَالَ: ادْعُہْ فَأَمَرَهُ أَنْ یَّتَوَضَّاءَ فَیُحْسِنَ وَضُوئَہٗ، وَیُصَلِّیَ رَکْعَتَیْنِ، وَیَدْعُوَ بِھَذَا الدُّعَاءِ: اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ وَ أَتَوَجَّهُ إِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِ، یَا مُحَمَّدُ إِنِّی قَدْ تَوَجَّھْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی ھَذِہِ لِتُقْضَی، اللّٰھُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ.
’’ایک نابینا شخص بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوا اور عرض گزار ہوا: (یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم!)اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے صحت و عافیت عطا فرمائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تو چاہے تو میں اس کو تیرے لئے موخر کر دوں اور یہ تیرے لئے بہتر ہے اور اگرتو چاہے تو دعا کروں۔ اس نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ سے دعا فرما دیجئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے وضو کرنے کا حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نفل پڑھ، پھر یہ دعا کر: اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف نبیٔ رحمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ کے وسیلہ سے آپ کے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ وہ میری یہ حاجت پوری فرما دے۔ اے اللہ! تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما۔‘‘
مستدرک امام حاکم میں بعض الفاظ کا اضافہ ہے۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
فو اللہ ما تفرقنا ولا طال بنا الحدیث حتی دخل الرجل وکأنہ لم یکن بہ ضر قط.
حاکم، المستدرک علی الصحیحین، ا: 526
’’اللہ کی قسم! ہم ابھی مجلس سے اٹھے ہی نہ تھے اور نہ ہی کوئی طویل گفتگو کی کہ وہ شخص (صحیح سلامت آنکھوں کے ساتھ) داخل ہوا، گویا اس کو کوئی اندھا پن تھا ہی نہیں۔‘‘
امام حاکم نے اسے امام بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، جبکہ امام ذہبی نے بھی ان کی توثیق کی ہے۔
شیخ محمود سعید ممدوح اپنی کتاب ’’رفع المنارۃ (ص: 123)‘‘ میں اس حدیث کی تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ھذا إسناد صحیح، وقد صحّحہ غیر واحد من الحفاظ … فیہم الترمذی، والطبرانی وابن خزیمۃ، والحاکم و الذھبی.
’’اس حدیث کی تمام اسناد صحیح ہیں، اور اسے بہت سے حفاظِ حدیث نے بھی صحیح قرار دیا ہے … جن میں امام ترمذی، امام طبرانی، ابنِ خزیمہ، حاکم اور ذہبی شامل ہیں۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے واضح ہے کہ بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہی اپنا حاجت روا سمجھ رہا ہے اور دستِ سوال بھی اسی کے آگے دراز کیا جا رہا ہے‘ کہ وہی ناممکن کو ممکن کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ دعا کو اَقرب اِلی الاجابت بنانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلقین کردہ طریقہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کیا لہٰذا یہ شرک اور منافیٔ توحید نہیں بلکہ سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت شدہ مشروع، مباح اور جائز طریقہ ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں جب بھی بارش نہ ہوتی اور قحط کے آثار پیدا ہوتے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی التجا کرتے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور کسی کا وسیلہ شرک ہوتا توصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو ہم سے زیادہ دین کا فہم رکھنے والے تھے، کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہ آتے بلکہ براہِ راست اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے، مگر وہ جانتے تھے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کا مقرب و محبوب ہو جائے تو وہ ایسے بندے کی دعا کو فوری شرفِ قبولیت سے نوازتا ہے۔ اِمام بخاریؒ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل سے نزولِ باراں کے ایک واقعہ کو الصحیح میں کتاب الاستسقاء کے باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا کے ذیل میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عن عبد ﷲِ بن دینارٍ، عن أبیہ قال: سمعتُ ابنَ عمرَ یَتمثَّلُ بشعر أبی طالب:
وأبیضُ یُسْتَسقَی الغمامُ بوجھِہ
ثِمالُ الیَتَامٰی عِصمۃٌ لِلأرامِلِ
وقال عُمَرُ بن حمزۃَ: حدثنا سالِمٌ عن أبیہ: وربما ذَکرتُ قول الشاعِرِ، وأنا أنظُر إلی وجہِ النبیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یُستَسقی، فما ینزِلُ حتی یَجِیشَ کلُّ میزابٍ.
’’حضرت عبداللہ بن دینار نے اپنے والد سے روایت کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ ابوطالب کا شعر پڑھتے تھے۔
(وہ روشن چہرے والے کہ جن کے چہرۂ انور کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے، جو یتیموں کے فریاد رَس اور بیواؤں کے غم خوار ہیں۔)
’’عمر بن حمزہ نے کہا: ہمیں سالم نے اپنے والد(عبداللہ بن عمر) سے خبر دی کہ میں شاعر کا یہ شعر کبھی یاد کرتا اور میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کو دیکھتا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارش کیلئے دعا فرماتے‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی منبر سے نہ اترتے کہ پرنالے زورسے بہنے لگتے۔‘‘
اَحادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ظاہری حیاتِ مبارکہ میں توسُّل کیا گیا۔ نہ صرف کسی ایک خاص معاملے میں بلکہ جملہ دینی اور دنیوی امور مثلاً بیماری‘ دکھ ‘ تکلیف ‘ ایمان واسلام‘ گناہوں کی بخشش‘ اجتماعی طور پر لوگوں کی معاشی بدحالی و ابتری سے نجات‘ الغرض تمام دینی و دنیوی حاجات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی لوگوں کے لئے بارگاہِ خداوند کریم میں دعائیں کیں۔ کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ہماری بارگاہ میں حاضر ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، اس لئے اپنے گھروں میں رہ کر اس سے مانگا کرو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنے والوں کو کہا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے صحیح جگہ پہنچنے کی ہدایت و رہنمائی فرمائی ہے، آپ کی مراد پوری ہوجائے گی۔ معلوم ہوا کہ انبیاء و رسل علیہم السلام سے توسُّل جائز اور پسندیدہ عمل ہے جسے شرک کہہ کر توحید کے منافی قرار دینا تعلیماتِ اسلام کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دنیا سے وصال فرمانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت وسالت جاری ہے اور قیامت تک جملہ احکام کے ساتھ باقی رہے گی۔ قابلِ غور بات یہ ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسُّل بالاتفاق جائزتھا تو کیا وجہ ہے کہ نبوت و رسالت کے جمیع احکام، اطاعت، اتباع اور ادب کے ہوتے ہوئے بعد از وصال سلسلۂ توسُّل منقطع ہو جائے جبکہ قرآن حکیم اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی نص بعد از وصال توسُّل کے انقطاع پر موجود نہیں۔ لہٰذا جن نصوصِ قرآنی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ِظاہری میں توسُّل ثابت ہے ان ہی نصوص سے بعد از وصال بھی توسُّل ثابت ہوتا ہے۔ ذیل میں بعد از وصال توسل کے جواز پر چند نظائر و واقعات درج ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنانا جائز تھا اسی طرح بعد از وصال بھی مشروع ہے۔ کوئی شرعی و عقلی دلیل ایسی نہیں جو بعد از وصال توسل کو شرک یا ممنوع قرار دے۔ سورہ ٔ نساء میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوْٓا أَنْفُسَھُمْ جَآؤکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّاباً رَّحِیْماًo
النسآء، 4: 64
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘
حافظ عماد الدین ابنِ کثیر (م 774ھ) اس آیت کی تفسیر میں بعد اَز وصال توسل کو جائز اور مشروع قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
یُرشِد تعالی العصاۃ والمذنبین إذا وقع منہم الخطاء والعصیان أن یأتوا إلی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فیستغفروا ﷲ عندہ ویسألوہ أن یغفر لھم فإنّھم إذا فعلوا ذالک تاب ﷲ علیہم ورحمھم وغفر لھم، ولھذا قال: {لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا}.
وقد ذکر جماعۃ منہم الشیخ أبو منصور الصباغ فی کتابہ الشامل الحکایۃ المشھورۃ عن العتبی، قال: کنتُ جالسًا عند قبر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجاء أعرابی، فقال: السلام علیک یا رسول اللہ ! سمعتُ اللہ یقول: {وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآؤکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاo} وقد جئتک مستغفراً لذنبی مستشفعًا بک إلی ربی۔ ثم أنشأ یقولُ:
یا خیر من دفنت بالقاع أعظمہ
فطاب من طیبہن القاع والأکم
نفسی الفداء لقبر أنت ساکنہ
فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم
ثم انصرف الأعرابی فغلبتنی عینی، فرأیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی النوم، فقال: یا عتبی! الحق الأعرابی، فبشّرہ أن اللہ قد غفر لہ.
ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1: 520
اعرابی کا مذکورہ بالا مشہور واقعہ درج ذیل کتب میں بھی بیان کیا گیا ہے:
اس کے علاوہ تمام مذاہب کے اجل ائمہ و علماء کا عتبی کی روایت کے مطابق دیہاتی کا روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آکر مغفرت طلب کرنا ان کی کتابوں میں زیارۃ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا مناسکِ حج کے ذیل میں بیان ہوا ہے۔
’’(اِس آیتِ کریمہ میں) اللہ تعالیٰ عاصیوں اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ جب ان سے خطا و گناہ سر زد ہوجائے تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر خدا تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہئے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے دعا کیجئے۔ جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمائے گا، انہیں بخش دے گا اوران پر رحم فرمائے گا۔ اس لیے لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا کہا۔
’’یہ روایت کثیر لوگوں نے بیان کی ہے جن میں سے ابومنصور صباغ نے اپنی کتاب ’’الحکایات المشھورۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک اعرابی (دیہاتی) آیا اور اس نے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ ﷲِ! میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور (اے حبیب !) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘ میں آپ کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوا اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتا ہوا حاضر ہوا ہوں۔ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے:
(اے مدفون لوگوں میں سب سے بہتر، جن کی وجہ سے میدان اور ٹیلے اچھے ہو گئے، میری جان قربان اس قبر پر جس میں آپ رونق افروز ہیں، جس میں عفاف و جود و کرم ہے۔)
’’پھر اعرابی واپس چلا گیا تو مجھے نیند آگئی، میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: عتبی! جا، اس اعرابی کو خوش خبری سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ معاف فرما دیئے۔‘‘
علاوہ ازیں عمدۃ المفسرین امام قرطبی نے اپنی معروف تفسیر ’’الجامع لأحکام القرآن (5: 265، 266)‘‘ میں عتبی کی روایت سے ملتا جلتا دوسرا واقعہ یوں بیان کیا ہے:
’’ابو صادق نے علی سے روایت کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک دیہاتی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین دن بعد آیا اور اس نے اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کے قریب زمیں بوس کیا، اس کی مٹی اپنے اوپر ڈالی اور پھر کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور ہم نے آپ کا قول مبارک سنا، آپ نے اللہ سے احکامات لیے اور ہم نے آپ سے احکام لیے اور انہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے: وَلَوْ أَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ جَآؤکَ (اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے۔) پس میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لیے مغفرت طلب فرمائیں۔ اس اعرابی کی التجاء پر اسے قبر سے ندا دی گئی:
أنہ قد غفر لک.
’’بے شک تمہاری مغفرت ہوگئی ہے۔‘‘
منکرینِ توسل غور کریں ! کیا ان اکابر محدّثین و مفسرین نے گمراہی اور کفر کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے؟ یا انہوں نے وہ بات نقل کی ہے جو بت پرستی یا قبر پرستی کی دعوت دیتی ہے؟ (معاذ اللہ!) اگر ایسا تسلیم کر لیا جائے تو پھر کس اِمام کو اور کس کتاب کو ثقہ و معتبر کہا جائے گا؟ حقیقت یہی ہے کہ انکارِ توسل معترضین کا خود ساختہ نظریہ ہے جسے قرآن و حدیث سے ذرا بھر بھی تائید حاصل نہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات و وصال کو اُمت کے لیے رحمت قرار دیتے ہوے ارشاد فرمایا:
حیاتی خیر لکم تُحدِّثُون وتحدث لکم، و وفاتی خیرلکم تعرض علي أعمالکم، فما رأیت من خیر حمدت ﷲ علیہ، وما رأیت من شر اِستغفرت ﷲ لکم.
’’میری زندگی تمہارے لیے خیرہے کیونکہ تم حدیثیں سنتے سناتے ہو اور میری وفات بھی تمہارے لیے خیرہے کیونکہ (میری قبر میں) تمہارے اعمال میرے سامنے پیش ہوا کریں گے۔ چنانچہ نیکیاں دیکھنے پر اللہ کا شکر بجا لاؤں گا، اور برائیاں دیکھنے پر تمہارے لئے اللہ سے استغفار کروں گا۔‘‘
اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کے توسل سے حصولِ برکت ممنوع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی وفاتی خیر لکم اور استغفرت اللہ لکم فرما کر اُمت کو اپنی بارگاہ کی طرف متوجہ نہ فرماتے۔
امام دارمی اپنی ’’السنن‘‘ میں ابو الجوزاء اَوس بن عبد اللہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
قحط أھل المدینۃ قحطًا شدیدًا فشکوا إلی عائشۃ، فقالت: انظروا قبر النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاجعلوا منہ کووًا إلی السّماء حتی لا یکون بینہ وبین السماء سقف، قال: ففعلوا فمطروا مطراً حتی نبت العشب، وسمنت الإبل حتی تفتقت من الشحم، فسمی عام الفتق.
’’ایک مرتبہ مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے۔ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضي اللہ عنہا سے (اپنی دگرگوں حالت کی) شکایت کی۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس جاؤ اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر ِانور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پس بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہٰذا اُس سال کا نام ہی ’’عام الفتق‘‘ (سبزہ و کشادگی کا سال) رکھ دیا گیا۔‘‘
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضي اللہ عنہا سے زیادہ توحید کی معرفت کسے حاصل ہو گی۔ اگر توسل بعد از وصال شرک ہوتا تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضي اللہ عنہا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کبھی بھی مصائب و آلام سے چھٹکارے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور سے توسل کرنے کو نہ فرماتیں۔
امام ابنِ ابی شیبہؒ (م 235ھ) المصنف میں روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر حاضر ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ کی بارگاہ میں اِلتجائیں کرتے۔ حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ - جو کہ عہدِ فاروقی میں ناظمِ خوراک تھے - روایت کرتے ہیں:
أصاب الناس قحط فی زمن عمر، فجاء رجل إلی قبر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال: یا رسول اللہ ! استسق لأمتک فإنّھم قد ھلکوا، فأتی الرجل فی المنام فقیل لہ: ائت عمر فأقرئہ السلام وأخبرہ أنکم مسقیون و قل لہ: علیک الکیس! علیک الکیس! فأتی عمر فأخبرہ فبکی عمر، ثم قال: یا رب لا آلو إلا ما عجزت عنہ.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ پھر ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اطہر پر حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ (اللہ تعالیٰ سے) اپنی اُمت کے لئے سیرابی مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہوگئی۔ پھر خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاکر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے، اور عمر سے کہہ دو کہ عقل مندی اختیار کرے، عقل مندی اختیار کرے۔ اس صحابی نے آکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ عرض کیا: اے اللہ! میں (خدمتِ خلق میں کچھ) کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ جس چیز سے عاجز پڑ جاؤں۔‘‘
علامہ ابنِ تیمیہ (661۔728ھ) نے ’’اقتضاء الصراط المستقیم (ص: 373)‘‘ میں اس روایت کی تائید کی ہے۔ حافظ ابنِ کثیر نے ’’البدایۃ والنھایۃ (5: 167)‘‘ میں اس روایت کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہے۔ اسی سند کے ساتھ ابن ابی خیثمہ نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی ’’فتح الباری (2: 495، 496)‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’یہ روایت ابن ابی شیبہ نے صحیح اسناد کے ساتھ بیان کی ہے اور سیف بن عمر تمیمی نے ’’الفتوح الکبیر‘‘ میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ خواب دیکھنے والے ایک صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘ امام قسطلانی نے ’’المواھب اللدنیۃ (4: 276)‘‘ میں کہا ہے کہ اسے ابن ابی شیبہ نے صحیح اسنا د کے ساتھ روایت کیا ہے؛ جب کہ علامہ زرقانی نے بھی ’’شرح المواھب اللدنیۃ (11: 150، 151)‘‘ میں امام قسطلانی کی تائید کی ہے۔۔
توسُّل کا یہ طریقہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری کے ساتھ خاص نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین توسُّل کے اس طریق کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی استعمال کرتے تھے اور دوسروں کو بھی بوقتِ ضرورت اس کی تلقین کرتے تھے جیسا کہ امام طبرانی ؒنے المعجم الکبیر میں نقل کیا ہے کہ ایک آدمی اپنی کسی غرض و حاجت سے باربار امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف التفات کرتے اور نہ اس کی حاجت میں غور فرماتے۔ وہ آدمی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو ملا اور ان سے اس کا شکوہ کیا۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وضو کرو۔ پھر مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھ کر یہ کہو:
اَللَّھُمَّ إِنَّی أَسَأَلُکَ وَ أَتَوَجَّهُ إِلَیْکَ بَنَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ، یَامُحَمَّدُ! إِنِّی أتَوَجَّّهُ بِکَ إِلَی رَبِّی فَتُقْضَی لِی حَاجَتِی.
’’اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبیٔ رحمت کے وسیلہ سے متوجہ ہوتاہوں۔ اے محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ میری یہ حاجت پوری ہو جائے۔‘‘
اِس کے بعد اپنی حاجت بیان کرو۔
وہ آدمی چلا گیا اور جیسا اس کو کہا گیاتھا اس نے ویسا ہی کیا۔ اس کے بعد جب وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان آیا اور اس کو ہاتھ سے پکڑ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا اور فرمایا: تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے اپنی حاجت بیان کی تو امیر المومنین نے اس کی حاجت کو پورا کردیا اور فرمایا: تم نے اب تک اپنی حاجت کاکیوں ذکر نہ کیا؟ آپ نے اسے یہ بھی فرمایا کہ آئندہ جو بھی ضرورت ہو، ہمارے پاس آنا۔ وہ آدمی جب ان کے ہاں سے رخصت ہوا تو حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے عرض کیا: اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، وہ میری حاجت کے بارے میں غور کرتے نہ میری طرف التفات فرماتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کردی۔ تو حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
و اللہ ما کلمتہ، ولکنی شھدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وأتاہ ضریر، فشکی إلیہ ذھاب بصرہ، فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: فتصبر؟ فقال: یارسول اللہ ! لیس لی قائد وقد شقّ عليّ، فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ائت المیضأۃ فتوضأ ثم صل رکعتین ثم ادع بھذہ الدعوات۔ قال ابن حنیف: فو اللہ ما تفرقنا، وطال بنا الحدیث حتی دخل علینا الرجل کأنہ لم یکن بہ ضر قط.
’’بخدا! میں نے ان سے کوئی سفارش نہیں کی۔ بلکہ (واقعہ یوں ہے کہ) ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک اندھا آدمی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی بینائی کے ختم ہونے کا شکوہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تو صبر کر۔ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا کوئی خادم نہیں ہے اور مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوٹا لے کر آؤ اور وضو کرو۔ پھر دو رکعت پڑھ کر ان دعائیہ کلمات سے دعا کرو۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم! ہم لوگ ابھی نہ تو مجلس سے دور ہوئے اور نہ ہی ہمارے درمیان لمبی گفتگو ہوئی حتی کہ وہ آدمی ہمارے پاس(اس حالت میں) آیا کہ گویا اسے اندھا پن تھا ہی نہیں۔‘‘
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو وہ دعا سکھائی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ استغاثہ و ندا اور وسیلہ بنانے کا ذکر ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس آدمی نے یہ گمان کیا کہ شاید عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں امیر المؤمنین سے سفارش کی ہے جس کی وجہ سے اس کی ضرورت پوری ہوئی ہے اس لئے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے جلدی سے اس کے گمان کی نفی کر دی اور اس کو وہ حدیث سنائی جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھی اور اس واقعہ کا مشاہدہ کیا تھا تاکہ ثابت ہوجائے کہ اس کی حاجت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنانے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نداء اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ کی وجہ سے پوری ہوئی ہے۔ لہٰذا انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اسے یقین دہانی کروائی کہ انہوں نے امیر المؤمنین سے اس بارے میں کوئی سفارش نہیں کی بلکہ یہ سب کچھ وسیلۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے ہوا ہے۔
شیخ ابن تیمیہ (م 728ھ) نے ابن ابی الدنیا کی کتاب ’’مجابو الدعوۃ‘‘ سے اس حدیثِ مبارکہ کے بارے میں ایک حکایت نقل کی ہے کہ ایک شخص عبد الملک بن سعید بن ابجر کے پاس آیا۔ عبد الملک نے اس کے پیٹ کو دبایا اور کہا کہ تمہیں ایک لا علاج بیماری ہے۔ اس نے کہا: وہ کیا ہے ؟ عبدالملک نے کہا: دبیلہ (بڑا پھوڑا) ہے جو پیٹ کے اندر نکلتا ہے اور اکثر مریض کو ہلاک کردیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ شخص واپس ہوا اور پھر اس نے کہا:
اللہ ! اللہ ! اللہ ربّی، لا أشرک بہ شیئًا، اللّھم! إنی أتوجّہ إلیک بنبیّک محمد نبیّ الرحمۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تسلیمًا، یا محمد إنی أتوجّہ بک إلی ربّک وربّی یرحمنی مما بي.
’’اللہ! اللہ! اللہ میرا رب ہے۔ میں اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبی محمد نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد! میں آپ کے وسیلہ سے آپ کے اور اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ (وہ) میری بیماری میں مجھ پر رحم فرمائیں۔‘‘
کہتے ہیں کہ عبد الملک نے اس کے بعد اس کے پیٹ کو دبایا اور کہا کہ تم ٹھیک ہوگئے ہو، تمہیں کوئی بیماری نہیں۔ شیخ ابن تیمیہ اپنی کتاب میں اس پورے واقعے کا ذکر کرنے کے بعد سلف صالحین کے معمول کے بارے میں لکھتے ہیں:
قلت: فہذا الدعاء ونحوہ قد روی أنہ دعا بہ السلف.
ابن تیمیۃ، قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسلیۃ: 91
’’میں کہتا ہوں کہ یہ اور اس جیسی دیگر دعائیں سلف سے منقول ہیں۔‘‘
روزِ قیامت جملہ ذریتِ آدم اس دن کی گرمی و تپش سے تنگ آکر سارے انبیاء علیہم السلام کی خدمت میں حاضر ہوگی۔ ہر کوئی یہی کہے گا: إذھبوا إلی غیری ’’(آج کے روز) میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔‘‘ بالآخر ساری انسانیت شافع ِروزِ محشر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ اقدس پر آجائے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُھُمْ فِیْ بَعْضٍ۔ فَیَأْتُوْنَ آدَمَ، فَیَقُوْلُوْنَ: إِشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِإِبْرَاھِیْمَ فَإِنَّہٗ خَلِیْلُ الرَّحْمٰنِ۔ فَیَأْتُوْنَ إِبْرَاھِیْمَ، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِمُوْسَی فَإِنَّهُ کَلِیْمُ ﷲِ۔ فَیَأْتُوْنَ مُوْسَی، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِعِیْسَی فَإِنَّہٗ رُوْحُ ﷲِ وَکَلِمَتُہٗ۔ فَیَأْتُوْنَ عِیْسَی، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِمُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.
فَیَأْتُوْنَنِیْ فَأَقُوْلُ: أَنَا لَھَا، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَی رَبِّيْ، فَیُؤْذَنُ لِيْ، وَیُلْھِمُنِيْ مَحَامِدَ أَحْمَدُہٗ بِھَا لَا تَحْضُرُنِي الْآنَ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، وَ أَخِرُّ لَہٗ سَاجِدًا۔ فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! إِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ لَکَ، وَ سَلْ تُعْطَ، وَ اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ، أُمَّتِيْ أُمَّتِيْ، فَیُقَالُ: إِنْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ شَعِیْرَۃٍ مِنْ إِیْمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ فأَفْعَلُ۔ ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُہٗ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَہٗ سَاجِدًا، فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! إِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ لَکَ، وَ سَلْ تُعْطَ، وَ اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلَ: یَا رَبِّ! أُمَّتِيْ أُمَّتِيْ، فَیُقَالُ: إِنْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ أَوْ خَرْدَلَۃٍ مِنْ إِیْمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ۔ ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُہٗ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَہٗ سَاجِدًا، فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! إِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ لَکَ، وَ سَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ! أُمَّتِیْ أُمَّتِی، فَیَقُوْلُ: إِنْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہٖ أَدْنَی أَدْنَی أَدْنَی مِثْقَالِ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إِیْمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ…
قَالَ: ثُمَّ أَعُوْدُ الرَّابِعَۃَ، فَأَحْمَدُہٗ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَہٗ سَاجِدًا، فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! إِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ، وَ سَلْ تُعْطَہْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ! إِئْذَنْ لِيْ فِیْمَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهَ، فَیَقُوْلُ: وَ عِزَّتِيْ وَجَلَالِيْ، وَ کِبْرِیَائِيْ وَعَظَمَتِيْ: لَأُخْرِجَنَّ مِنْھَا مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهَ.
بخاری، الصحیح، کتاب التوحید، باب کلام الرب ل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم، 6: 2727، رقم: 7072
’’جب قیامت کا دن ہوگا لوگ گھبرا کر ایک دوسرے کے پاس جائیں گے۔ سب سے پہلے وہ حضرت آدم ںکے پاس جا کر عرض کریں گے: آپ (ہمارے لیے) اپنے رب کی بارگاہ میں سفارش کریں۔ وہ فرمائیں گے کہ آج یہ منصب میرا نہیں، البتہ تم حضرت ابراہیم ںکی خدمت میں جاؤ، وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ پس لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں آئیں گے، وہ بھی فرمائیں گے: یہ میرا منصب نہیں، البتہ تم حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں جاؤ اس لیے کہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ لوگ حضرت موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور وہ بھی فرمائیں گے: یہ میرا منصب نہیں، البتہ تم حضرت عیسی علیہ السلام کی خدمت میں جاؤ، وہ روح اللہ ہیں اور اس کا کلمہ ہیں۔ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے، وہ بھی یہی فرمائیں گے: آج یہ میرا منصب نہیں، البتہ تم حبیبِ خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جاؤ۔ ساری انسانیت میرے پاس آجائے گی۔ میں کہوں گا: ہاں اس منصبِ شفاعت کا اہل (آج) میں ہی ہوں۔ میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی۔ مجھے اس وقت محامد (حمدوں) کا الہام کیا جائے گا جس کے ذریعے میں اللہ کی حمد و ثنا کروں گا جنہیں میں اس وقت بیان نہیں کرسکتا۔ (غرضیکہ) میں ان محامد کے ساتھ رب کی حمد و ثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سرِ انور اٹھائیے، بولیے آپ کی بات سنی جائے گی، اور مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا، اور شفاعت کیجیے، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے رب! میری امت، میری امت۔ پس حکم ہوگا کہ جائیے اور جہنم سے اسے نکال لیجیے جس کے دل میں جَو کے برابر بھی ایمان ہے۔ پس میں جاکر ایسا ہی کروں گا (اور ایسے تمام افراد کو جہنم سے نکال لاؤں گا)۔ پھر واپس آکر ان محامد کے ساتھ اس کی حمدو ثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: محمد! اپنا سر اٹھائیے اور فرمائیے سنا جائے گا، سوال کیجئے عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے رب! میری امت، میری امت۔ پس فرمایا جائے گا کہ جائیے اور جہنم سے اسے بھی نکال لیجیے جس کے دل میں ذرہ برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہے پس میں جاکر ایسا ہی کروں گا۔ پھر واپس آکر ان ہی محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کروں گا اور پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے اور بیان کیجئے سنا جائے گا، اور سوال کیجئے عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: یا رب! میری اُمت، میری اُمت۔ پس فرمایا جائے گا کہ جائیے اسے بھی جہنم سے نکال لیجیے جس کے دل میں ر ائی کے دانے سے بھی کم، بہت کم اور بہت ہی کم ایمان ہے، پس ایسے شخص کو بھی جہنم کی آگ سے نکال لیجیے۔ چنانچہ میں جاکر ایسا ہی کروں گا۔ …
’’پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں چوتھی مرتبہ پھر واپس لوٹوں گا اور اسی طرح حمد کروں گا، پھر اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پھر فرمایا جائے گا: اے محمد! اپنا سرِ انور اٹھائیے اور بیان کیجیے سنا جائے گا، سوال کیجیے عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ اس وقت میں عرض کروں گا: اے رب! مجھے اس شخص کو جہنم سے نکالنے کی اجازت دیجیے جس نے (ایک مرتبہ بھی صدق دل سے) کلمہ طیبہ پڑھ لیا ہے۔ باری تعالیٰ فرمائے گا کہ مجھے قسم ہے اپنی عزت کی! اپنے جلال کی! اپنی کبریائی و عظمت کی! میں ضرور دوزخ سے اسے بھی آزاد کروں گا جس نے لا إلہ إلا اللہ کہا ہے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ میدانِ حشر میں حساب و کتاب کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اللہ کی بارگاہ میں خصوصی حمد و ثناء اور التجاء و دعا کے وسیلہ سے ہی شروع ہوگا اور سب سے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے امتِ مصطفوی کا حساب و کتاب شروع ہوگا تاکہ یہ حشر کی گرمی میں زیادہ دیر مبتلا نہ رہے۔
صحیح بخاری کی کتاب فضائل الصحابۃ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ: کَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَی بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ. فَقَالَ: اَللَّهُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ فَیُسْقَونَ.
’’جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بارش کی دعا حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے کرتے ہوئے کہتے: اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑتے تو، تُو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کے چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ ہم پر بارش برسا۔ راوی نے کہا: پھر ان پر (اس دعا کی بدولت) بارش برسائی جاتی۔‘‘
مستدرک امام حاکم میں یہی روایت بعض الفاظ کے تغیر کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
اِسْتَسْقَی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَامَ الرِّمَادَۃِ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ: اَللَّهُمَّ هَذَا عَمُّ نَبِیِّکَ الْعَبَّاسُ نَتَوَجَّهُ إِلَیْکَ بِہِ فَاسْقِنَا فَمَا بَرِحُوا حَتَّی سَقَاھُمُ اللهَ۔ قَالَ: فَخَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ فَقَالَ: أَیُّھَا النَّاسُ إِنَّ رَسُولَ ﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یَرَی لِلْعَبَّاسِ مَا یَرَی الْوَلَدُ لِوَالِدِہِ یُعَظِّمُهُ وَیُفْحِمُهُ وَیَبِرُّ قَسَمَهُ، فَاقْتَدُوا أَیُّھَا النَّاسُ بِرَسُولِ ﷲِ فِي عَمِّہِ الْعَبَّاسِ وَاتَّخَذُوهُ وَسِیْلَۃً إِلَی ﷲِل فِیْمَا نَزَلَ بِکُمْ.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادۃ (قحط و ہلاکت کے سال) میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنایا اور اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی پھر لوگوں سے خطبہ ارشاد فرمایا: لوگو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی مقام و حیثیت دیتے تھے جیسے بیٹا اپنے باپ کو مقام و حیثیت دیتا ہے (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بمنزلہ والد سمجھتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے۔ لوگو! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کرو اور انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔‘‘
مذکورہ دونوں احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے بارش کی دعا کی تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ غیر نبی کا توسل بھی جائز ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے بارش کی دعا کا جواز تو لوگوں کو معلوم ہی تھا، جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا شاہد ہیں۔ یاد رکھیں کہ ’’کُنَّا‘‘ فعل مضارع ’’نَتَوَسَّلُ‘‘ پر داخل ہو کر ماضی استمراری کا فائدہ دے رہا ہے۔ جس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کی حیاتِ ظاہری یا بعد از وصال حیاتِ مبارکہ سے مقید نہیں کیا جو اس عقیدہ کی غماز ہے کہ سب لوگ (صحابہ اور تابعین) زمانہ رسالت سے لے کر عہدِ فاروقی تک اپنی دعاؤں اور التجاؤں میں حضور صلی اللہ علیہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بناتے رہے۔ حضور علیہ السلام کو وسیلہ بنانے کے بعد اس بات کا امکان تھا کہ شاید بعض لوگ یہ سوچیں کہ غیر نبی سے توسل جائز نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا کر کے اس کا جواز ثابت کر دیا کیونکہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے وسیلے سے دعا کرتے تو لوگ یہ سمجھتے کہ غیر نبی سے اس کا جواز ثابت نہیں۔ اس موقف کی توثیق و تائید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت سے ہورہی ہے جس میں انہوں نے پہلے حضور علیہ السلام کی نگاہ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا عالی مقام و مرتبہ بیان کیا، پھر بعد میں لوگوں کو انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور وسیلہ بنانے کی تلقین فرمائی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ عملِ توسل کی حجیت اور شرعی حیثیت کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں درج ذیل فرامین سے آسانی سے ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
1۔ ان اللہ جعل الحق علی لسان عمر وقلبہ.
ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر بن الخطاب ص، 5: 617، رقم: 3682
’’بیشک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری فرما دیا ہے۔‘‘
2۔ عمر معی وأنا معہ والحق بعدی مع عمر حیث کان.
طبرانی، المعجم الکبیر، 18: 280، رقم: 718
’’عمر میرے ساتھ اور میں عمر کے ساتھ ہوں اور حق میرے بعد عمر کے ساتھ ہوگا جہاں وہ ہوں گے۔‘‘
3۔ لو کان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب.
ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر بن الخطاب ص، 5: 619، رقم: 3686
’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔‘‘
4۔ اقتدوا بالذین من بعدی أبی بکر وعمر فإنّھما حبل اللہ الممدود من تمسک بھما فقد تمسک بالعروۃ الوثقٰی لا انفصام لھا.
ہیثمی، مجمع الزوائد، 9: 53
’’میرے بعد ابو بکر و عمر دونوں کی اقتداء کرو۔ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسّی ہیں۔ جس نے ان دونوں کو پکڑا اس نے بڑی محکم گرہ تھامی جو کبھی کھل نہیں سکتی۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذکورہ اِرشادات سے یہ اَمر پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ عملِ توسل نہ صرف جائز اور مشروع ہے بلکہ اُمت کے لیے حجت بھی ہے۔ معترضین و منکرین کو اسے شرک و بدعت کہنے سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ قائلینِ توسل کا یہ عقیدہ ہے کہ تاثیر، تخلیق، ایجاد، اعدام اور نفع و ضرر کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا آپ کے علاوہ کسی اور زندہ یا وفات یافتہ کو بالذات مفید یا مضر ماننا ہمارے نزدیک شرک ہے۔ مقصودِ توسل صرف یہ ہے کہ چونکہ وہ محبوبان خدا ہیں اس لیے اپنی دعاؤں کو اَقرب اِلی الإجابت بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور ان کا وسیلہ پیش کیا جائے تاکہ دعاؤں کی قبولیت کی اُمید بڑھ جائے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے درج ذیل الفاظ سے بھی اس مؤقف کی تائید ہوتی ہے کہ کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بوقتِ ضرورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِلتجائیں کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حاکمِ مدینہ مروان بن حکم نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے دیکھا تو کہا: تو یہ کیا کر رہا ہے؟ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایمان افروز جواب دیا۔ ’’مسندِ احمد‘‘ کے الفاظ ملاحظہ کریں:
عن دأود بن أبی صالح قال: أقبل مروان یوماً فوجد رجلاً واضعاً وجھہ علی القبر، فقال: أتدری ما تصنع؟ فأقبل علیہ فإذا ھو أبوأیوبص، فقال: نعم، جئت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و لم آت الحجر، سمعتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول: لا تبکوا علی الدّین إذا ولیہ أھلہ، ولکن ابکوا علیہ إذا ولیہ غیر أھلہ.
امام احمد بن حنبل کی بیان کردہ روایت کی اسناد صحیح ہے۔ امام حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ امام ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
’’حضرت داؤد بن صالح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مروان نے آکر دیکھا کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے تو اس (مروان ) نے کہا: کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کر رہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا، دیکھا تو وہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ (جواب میں) انہوں نے فرمایا: ہاں (میں جانتا ہوں)، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا ہوں اور کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: دین پر اس وقت مت روؤ جب اس کا ولی اس کا اہل ہو، ہاں دین پر اس وقت روؤ جب اس کا ولی نا اہل ہو۔‘‘
اہلِ سنت وجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ مردہ سنتا ہے، احساس و شعور بھی رکھتا ہے، زندہ کی نیکی اور بھلائی سے اسے فائدہ بھی پہنچتا ہے اور ان کی برائی پر وہ پریشان ہوتا ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ یہ عقیدہ ایک عام انسان کے حوالے سے ثابت شدہ ہے۔ جبکہ عامۃ المؤمنین اور پھر سید البشراور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے افضل ترین مخلوق ہمارے آقا و مولا سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برزخی حیات کی کیا شان ہو گی؟ متعدد ثقہ روایات سے حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثابت شدہ امر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے ہیں، سلام کا جواب دیتے ہیں، اُمت کے اعمال و احوال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پیش کئے جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمت کی برائیوں پر استغفار فرماتے ہیں جبکہ ان کے نیک اعمال پر اللہ جل مجدہ کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved