احکام حکم کی جمع ہے۔ علوم و فنون کی فنی اصطلاح کے لحاظ سے حُکمْ سے مراد
اَثْرُ الشَّيئِ إِنَّمَا يَتَرَتَّبُ عَلَيْهِ.
’’وہ نتیجہ یا اثر ہے جو اسی چیز پر لاگو اور جاری ہوتا ہے۔‘‘
شربینی، مغنی المحتاج، 4: 395
حقیقی حاکم اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے جبکہ انبیاء علیہم السلام کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے حسب فرمان امت پر فرض گئی ہے۔
بنیادی طور پر حکمِ الٰہی کی دو قسمیں ہیں:
اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان ہے جو کائنات کو وجود میں لانے کے لئے جاری ہوا۔ جس طرح کہ درج ذیل آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے:
1۔ اللہ تعالیٰ نے قضاء میں حکمِ کونی کے بارے میں فرمایا:
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ.
’’پھر دو دِنوں (یعنی دو مرحلوں) میں سات آسمان بنا دیے۔‘‘
حم السجدۃ، 41: 12
2۔ اللہ تعالیٰ نے امر میں حکمِ کونی کے بارے میں فرمایا:
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُo
’’اس کا امرِ (تخلیق) فقط یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے۔ (اور ہوتی چلی جاتی ہے)۔‘‘
یس، 36: 82
3۔ اللہ تعالیٰ نے امر میں ہی حکمِ کونی کے بارے میں فرمایا:
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُواْ فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًاo
’’اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم وہاں کے امراء اور خوشحال لوگوں کو (کوئی ) حکم دیتے ہیں (تاکہ ان کے ذریعہ عوام اور غرباء بھی درست ہو جائیں) تو وہ اس (بستی) میں نافرمانی کرتے ہیں پس اس پر ہمارا فرمانِ (عذاب) واجب ہو جاتا ہے پھر ہم اس بستی کو بالکل ہی مسمار کر دیتے ہیں۔‘‘
الإسراء، 17: 16
4۔ اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں حکمِ کونی کے بارے میں فرمایا:
وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌo
’’اور نہ کسی دراز عمر شخص کی عمر بڑھائی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (یہ سب کچھ) لوحِ (محفوظ) میں ہے، بیشک یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔‘‘
فاطر، 35: 11
5۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں ہی حکمِ کونی کے بارے میں فرمایا:
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَo
’’اور بلا شبہ ہم نے زبور میں نصیحت کے (بیان کے) بعد یہ لکھ دیا تھا کہ (عالمِ آخرت کی) زمین کے وارث صرف میرے نیکو کار بندے ہوں گے۔‘‘
الأنبیاء، 21: 105
6۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر حکمِ کونی کے بارے میں فرمایا:
فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىَ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللّهُ لِي وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَo
’’سو میں اس سرزمین سے ہرگز نہیں جاؤں گا جب تک مجھے میرا باپ اجازت (نہ) دے یا میرے لئے اللہ کوئی فیصلہ فرما دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔‘‘
یوسف، 12: 80
7۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حکمِ کونی کے بارے میں فرمایا:
قَالَ رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَo
’’(ہمارے حبیب نے) عرض کیا: اے میرے رب! (ہمارے درمیان) حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے، اور ہمارا رب بے حد رحم فرمانے والا ہے، اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہو۔‘‘
الأنبیاء، 21: 112
8۔ اللہ تعالیٰ نے تحریم میں حکمِ کونی کے بارے میں فرمایا:
قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً
’’(ربّ نے) فرمایا پس یہ (سرزمین) ان (نافرمان) لوگوں پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے۔‘‘
المائدۃ، 5: 26
9۔ ایک اور مقام پر تحریم میں ہی حکمِ کونی کے بارے میں فرمایا:
وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَo
’’اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کر ڈالا ناممکن ہے کہ اس کے لوگ (مرنے کے بعد) ہماری طرف پلٹ کر نہ آئیں۔‘‘
الأنبیاء، 21: 95
علمائے اصول کے نزدیک حکم سے مراد ’’خطاب الشارع‘‘
غزالی، المستصفی من علم الأصول، 1: 8
آمدی، الإحکام فی أصول الأحکام، 1: 135
کشاف اصطلاحات الفنون، 1: 380
یعنی اللہ تعالیٰ کا قدیم و ازلی فرمان ہے، کیونکہ تمام احکام ربّانی ازل میں جاری ہوئے، مگر ان کا وجوب صرف اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے بندوں کو اس کا امر فرماتا ہے۔ عام طور پر علمائے اصول حکم کی اصطلاحی تعریف یوں کرتے ہیں:
الحکم خطاب اللہ المتعلق بأفعال المکلفين بالاقتضاء أو التخيير أو الوضع.
’’حکم وہ ضابطہ عمل ہے جو وحی الٰہی سے نمو پاتا ہے جو بعض امور کے کرنے یا نہ کرنے کی طلب یا ان میں اختیار و اباحت یا محض استقرار و اعلان پر مبنی ہوتا ہے۔‘‘
صدرالشریعۃ، التوضیح، 1: 28
آمدی، الإحکام فی أصول الأحکام، 1: 136
قاضی، شرح العضد، 1: 222
بعض ائمہ نے افعال المکلفین کی جگہ اَفْعَالُ الْعِبَادِ کہا ہے۔ مطلب اور مفہوم دونوں کا ایک ہے۔ آمدی نے حکم شرعی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
خطاب الشَّارِعِ الْمُفِيْدُ فَائدةً شَرْعِيَّةً.
’’حکم شرعی سے مراد شارع کا وہ خطاب ہے جس سے کوئی شرعی فائدہ یا دوسرے لفظوں میں کوئی شرعی مسئلہ معلوم ہو جائے۔‘‘
آمدی، الاحکام فی اصول الاحکام، 1: 136
حکمِ شرعی کے باب میں چند آیات درج ذیل ہیں۔
1۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرمایا:
يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
’’اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا۔‘‘
البقرۃ، 2: 185
2۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں فرمایا:
يُرِيدُ اللّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ
’’اللہ چاہتا ہے کہ تم سے بوجھ ہلکا کر دے۔‘‘
النساء، 4: 28
3۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحج میں فرمایا:
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ
’’اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘
الحج، 22: 78
4۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء میں فرمایا:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ.
’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو۔‘‘
الإسراء، 17: 23
5۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں فرمایا:
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى.
’’بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا۔‘‘
النحل، 16: 90
6۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں فرمایا:
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا.
’’بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔‘‘
النساء، 4: 58
7۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدۃ میں فرمایا:
وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ.
’’اور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے۔‘‘
المائدۃ، 5: 45
8۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ.
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔‘‘
البقرۃ، 2: 183
9۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدۃ میں فرمایا:
أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُo
’’تمہارے لئے چوپائے جانور (یعنی مویشی) حلال کر دیئے گئے (ہیں) سوائے ان (جانوروں) کے جن کا بیان تم پر آئندہ کیا جائے گا (لیکن ) جب تم احرام کی حالت میں ہو، شکار کو حلال نہ سمجھنا۔ بیشک اللہ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے۔‘‘
المائدۃ، 5: 1
10۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الممتحنۃ میں فرمایا:
ذَلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ.
’’یہی اللہ کا حکم ہے، اور وہ تمہارے درمیان فیصلہ فرما رہا ہے۔‘‘
الممتحنۃ، 60: 10
11۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدۃ میں فرمایا:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالْأَزْلاَمِ.
’’تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)۔‘‘
المائدۃ، 5: 3
12۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں فرمایا:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًاo
’’تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں) پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
النساء، 4: 23
اسلام میں چونکہ دین و سیاست میں تفریق نہیں، اس لئے حکم سے مراد حکم فی الدین و العبادۃ کے علاوہ حکم فی الحکومۃ و السیاسۃ بھی علما نے مراد لیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں خوارج کا موقف یہی تھا کہ سیاسی امور کا فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو سکتا ہے مخلوق کے حکم کے مطابق نہیں۔ یہی وجہ ہے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خوارج کے منہ سے یہ لفظ سنا تھا تو فرمایا تھا:
کَلِمَةُ حَقٍّ اُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ.
’’کلمہ تو حق ہے، مگر مقصود اس سے باطل ہے۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی قتل الخوارج، 2:
749، رقم: 1066
ابن حبان، الصحیح، 15: 387، رقم: 6939
نسائی، السنن الکبریٰ، 5: 160، رقم: 8562
’’حکم‘‘ قرآن کی صورت میں نازل شدہ وحی الہٰی کے الفاظ کو نہیں بلکہ اس قانونی ضابطے یا قانونی قدر (Legal Value) کو کہتے ہیں جو الفاظِ وحی سے ثابت (Establish) ہوتی ہے۔ جس کی ائمہ فقہہ و اصول نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ وضاحت کر دی ہے۔
فقہ اسلامی میں شارع یعنی واضع قانون یا قانون دہندہ کی حیثیت صرف خدائے لم یزل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہے۔ خدا کی حاکمیت حقیقی اور اصلی ہے جبکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت خدا کے نائب اور مظہر ہونے کے اعتبار سے نیابتی و تفویضی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی طرف سے تشریعی اختیارات کے حامل ہونے کی بنا پر ابدالاباد تک انسانیت کے لئے مطاع مطلق ہیں لہٰذا کسی بھی معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوامر و نواہی دراصل خدا ہی کے اوامر و نواہی کہلاتے ہیں۔
احکامِ شریعت کے حوالے سے حرام و حلال کے متعلق بعض لوگوں کے ہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ تحلیل و تحریم صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ثابت ہے یعنی کسی امر کو حرام قرار دینا یا حلال کر کے اس کی حدود متعین کرنا یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے دوسرے معنوں میں ایسا کہنے والے امر و نہی میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریعی حیثیت کا انکار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی یہ اختیار تفویض فرمایا ہے کہ وہ بعض چیزوں کو حرام قرار دیں اور بعض کو حلال۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ
’’اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے حرام قرار دیا ہے۔‘‘
التوبۃ، 9: 29
مندرجہ بالا آیتِ کریمہ سے اس چیز کی صراحت ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تحریم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی ثابت فرمائی ہے۔ بعض لوگ بلاوجہ اور بلاجواز تحریم رسول کو شرک کہہ دیتے ہیں لہٰذا اس کے معنی کو متعین کرنا ہو گا۔ شرعاً جب کسی امر کو بجا لانے سے روک دیا جائے تو وہ حرام قرار پاتا ہے۔ اسی طرح کسی جگہ اور مقام کو احتراماً اور تعظیماً باعثِ حرمت قرار دیا جائے تو اس میں بعض افعال تقدس کے سبب ممنوع قرار پاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ جگہ حرم یعنی محترم ہو جاتی ہے۔ جہاں احترامًا بعض افعال کے بجا لانے کی ممانعت ہوتی ہے۔ ان ممنوع افعال سے رکنا ہی اس کی حرمت ہے۔
حرمت، حرام اور تحریم میں ایک معنوی ربط پایا جاتا ہے۔ جب کسی چیز کو حلال کر دیا جاتا ہے تو گویا وہ حرمت کی قیودات سے آزاد ہو جاتی ہے۔ کسی چیز کی حرمت اور تحریم کے اسباب تو کئی ہو سکتے ہیں لیکن تحریم اور حرام میں ممانعت مشترک ہے۔ اس ممانعت میں کبھی جان کی حفاظت پیشِ نظر رکھی جاتی ہے اور کبھی اس چیز کا تقدس اور تعظیم ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔
درجہ بالا آیتِ مبارکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریم کو اللہ کی تحریم ثابت کر رہی ہے جبکہ قرآن حکیم کی سورۃ الاعراف میں اس سے بھی ایک قدم آگے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریعی اختیارات کو بطور خاص بیان فرمایا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ
’’یہ رسول انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔‘‘
الاعراف، 7: 157
مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو شانوں کا ذکر ہے:
پہلی شان: امر و نہی کے اختیار کے اعتبار سے آمر و ناھی (حکم دینے والے اور منع فرمانے والے) کی ہے۔
دوسری شان: تحلیل و تحریم کے الوہی اختیار کی وجہ سے محرّم و محلّل (حرام ٹھہرانے والے اور حلال ٹھہرانے والے) کی ہے۔ تحریم و تحلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقوق میں سے ایک حق ہے لہٰذا یہ کہنا بلاجواز ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تحلیل و تحریم کا اختیار نہیں اور یہ صرف اللہ کا حق ہے اور یہ کہ کسی اور کے لئے اس حق کا اثبات شرک ہے یہ کہنا نری جہالت اور انکارِ قرآن ہے۔
علاوہ ازیں بعض کے نزدیک یہ تصور بھی کیا جاتا ہے کہ کسی کی تعظیم و تکریم کے لئے حدیں مقرر کرنا شرک ہے کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حق ہے جبکہ یہ بات بھی درست نہیں صحیح احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ مکرمہ کو حضرت ابراہیمں نے حرم بنایا تو اس کی حرمت واجب ہو گئی جس کوپامال کرنا گناہ قرار پایا۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تشریعی اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے اپنی مبارک جائے سکونت مدینہ منورہ کو حرم بنا دیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلْمَدِيْنَةُ حَرَمٌ مِنْ کَذَا إِلَی کَذَا، لَا يُقْطَعُ شَجَرُهَا، وَلَا يُحْدَثُ فِيهَا حَدَثٌ، مَنْ أَحْدَثَ فِيْهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللہِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.
(هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ وَ زَادَ مُسْلِمٌ: لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرَفاً وَلَا عَدَلاً).
’’مدینہ فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک حرم ہے اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں کوئی فتنہ بپا کیا جائے جو اس میں فتنہ کا کوئی کام ایجاد کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔اور مسلم نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ ’’قیامت کے دن اس کا فرض و نفل کچھ بھی قبول نہ ہوگا۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، 2: 661،
رقم: 1768،
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ و دعاء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیھا
بالبرکۃ و بیان تحریمھا و تحریم صیدھا و شجرھا و بیان حدود حرمھا، 2: 994، رقم 1366
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ إِبْرَاهِيْمَ حَرَّمَ مَکَّةَ وَ إِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا. لَا يُقْطَعُ عِضَاهُهَا وَلَا يُصَادُ صَيْدُهَا.
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم مقرر کیا تھا اور میں دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے درمیان مدینہ کو حرم مقرر کرتا ہوں نہ وہاں کوئی درخت اور جھاڑی کاٹی جائے اور نہ ہی وہاں کوئی جانور شکار کیاجائے۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ و دعاء النبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم فیھا بالبرکۃ و بیان تحریمھا و تحریم صیدھا و شجرھا و بیان حدود
حرمھا، 2: 992، رقم: 21362
أحمد بن حنبل فی المسند، 1: 184
پس مدینہ منورہ کی تحریم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریعی اختیار کی بدولت عمل میں آئی ہے لہٰذا حرم مکہ کی طرح حرم مدینہ کی حدود میں بھی کسی قسم کی زیادتی کی اجازت نہیں۔ مثلاً یہ کہ وہاں کوئی بھی جنگ و قتال نہیں کر سکتا، درخت نہیں کاٹ سکتا۔ یہ سب تحریمات صرف حرمین شریفین کے لئے ہیں۔ اب اگر کوئی اس طرح کسی اور شہر اور جگہ کو حرم بنا کر حرمین شریفین کی طرح اس کیلئے حرمت و تعظیم کے قواعد اپنی طرف سے وضع کرے تو یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قائم کردہ حدود سے تجاوز اور شرک فی التحریم ہو گا۔
مدینہ منورہ میں حرمت کی حدیں مقرر کرنے کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں حرم کی حدیں بھی مقرر فرمائیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کعبۃ اللہ کو ہی حرم قرار دیا تھا۔ نصِ قرآنی کے مطابق مکہ و مکرمہ میں حرم صرف خانہ کعبہ ہے، سیدنا ابراہیمں نے شہر مکہ کو بلدِ حرم ٹھہرایا جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے اردگرد چاروں اطراف حدود حرم کا تعین فرمایا جس کا تذکرہ صحیح حدیث میں یوں کیا گیا ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
وَ قَّتَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم لِاَهْلِ الْمَدِيْنَةِ ذَا الْحُلَيْفَة وَلِاَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ وَلِاَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ المنَازِلِ وَ لِاَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ فَهُنَّ لَهُنَّ وَ لِمَنْ اَ تٰی عَلِيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ اَهْلِهِنَّ لِمَنْ کَانَ يُرِيْدُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَمَنْ کَانَ دُوْنَهُنَّ فَمُهِلَّهُ مِنْ اَهْلِهِ وَ کَذَاکَ حَتّٰی اَهْلُ مَکَّةَ يُهِلُّوْنَ مِنْهَا.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہلِ مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا، اہلِ شام کے لئے جحفہ کو، اہلِ نجد کے لئے قرن کو اور اہلِ یمن کے لیے یلملم کو۔ یہ مواقیت ان علاقوں کے رہنے والوں کے لیے بھی ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی جو دوسرے علاقوں سے ان مواقیت کی حدود میں آئیں جن کا ارادہ حج یا عمرہ کا ہو اور جو لوگ ان مواقیت کے اندر ہوں وہ اسی جگہ سے احرام باندھیں حتی کہ اہلِ مکہ، مکہ مکرمہ (کے مقام تنعیم) سے احرام باندھیں۔‘‘
بخاری الصحیح، کتاب الحج، باب مہل أہل مکۃ للحج والعمرۃ، 2:
554، رقم: 1452
بخاری الصحیح، کتاب الحج، باب مہل أہل الشام، 2: 555، رقم: 1454
مسلم، کتاب الحج، باب مواقیت الحج، 2: 338، رقم: 1181
ابو داؤد، السنن، کتاب المناسک، باب فی المواقیت، 2: 143، رقم: 1737
حدیثِ مبارکہ میں شہر مکہ کی حدودِ حرمت کا تذکرہ ہے جو ظاہر ہے خانہ کعبہ کی حدود کے علاوہ حدود کا تعین ہے حالانکہ اللہ پاک نے تو صرف خانہ کعبہ کو ہی حرم قرار دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
جَعَلَ اللّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلاَئِدَ.
’’اللہ نے عزت (و ادب) والے گھر کعبہ کو لوگوں کے (دینی و دنیوی امور میں) قیام (امن) کا باعث بنا دیا ہے اور حرمت والے مہینے کو اور کعبہ کی قربانی کو اور گلے میں علامتی پٹے والے جانوروں کو بھی (جو حرمِ مکہ میں لائے گئے ہوں سب کو اسی نسبت سے عزت و احترام عطا کر دیا گیا ہے۔‘‘
المائدۃ، 5: 97
مذکورہ آیت اور حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بلدِ حرام کو قرآن نے حرم قرار نہیں دیا اور نہ حدود حرم (میقات) کو قرآن نے متعین کیا بلکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے شہرِ مکہ کو حرم ٹھہرایا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکۃ المکرمہ کے چاروں طرف حدود حرم کا تعین فرما دیا جہاں سے حج اور عمرہ کرنے والے کے لئے بغیر احرام آگے بڑھنا جائز نہیں ہے ایسے مقامات کو اصطلاحِ شریعت میں مواقیت کہتے ہیں۔ حدودِ حرم کا فاصلہ ہر جانب مختلف ہے۔ مسجدِ حرام سے یہ اطراف درجہ ذیل فاصلے پر ہیں:
ان حدود کے اندر کا خطہ زمین بلد الحرم ہے لہٰذا یہ کہنا صحیح نہیں کہ ’’حدیں مقرر کرنا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور یہ کہ نبی و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حدودِ تکریم و تعظیم مقرر نہیں کر سکتے لہٰذا جو یہ عقیدہ رکھے گا مشرک ہو جائے گا‘‘ ایسا عقیدہ رکھنا انکارِ قرآن و سنت ہے۔
تحلیل و تحریم وہ شرعی حق ہے جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے خاص ہے۔ انبیاء و رسل عظام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے حکم اور مرضی کے مظہر و نمائندگان ہوتے ہیں اس لئے اس کی منشاء اور اذن و اجازت کے مطابق بعض امور کو حلال اور بعض کو حرام ٹھہراتے ہیں اگرکسی غیر نبی کو یہ حق دے دیا جائے تو اِس کے معنی یہی ہوئے کہ اُسے اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں شریک کر لیا گیا۔ نصاریٰ اس غلو کی علامت بن گئے۔ انہوں نے اپنے احبار و رُھبان کو وہ حقوق دے دئیے جو صرف اللہ و رسول کے لئے خاص تھے۔ قرآن حکیم میں اِن کی یہ گمراہی اِس طرح ظاہر کی گئی ہے:
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَo
’’انہوںنے اللہ کے سوا اپنے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا اور مریم کے بیٹے مسیح (علیہ السلام) کو (بھی) حالانکہ انہیں بجز اس کے (کوئی) حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اکیلے ایک (ہی) معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان سے پاک ہے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘
التوبۃ، 9: 31
احبار و رُھبان جس چیز کو حلال قرار دیتے اِن کے پیروکار اُسے حلال سمجھتے تھے اور جس چیز کو حرام قرار دیتے وہ اُسے حرام سمجھتے تھے۔ اب بھی اگر کسی غیر نبی کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقِ تحلیل و تحریم میں شریک کر لیا جائے اور اس کے احکامات اور تعلیمات اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت یا اس کے مثل مان لیا جائے تو یہ شرک فی الاحکام ہو گا۔
امر اللہ تعالیٰ کی خصوصی صفت ہے جس سے مراد اللہ تعالیٰ کا حکم اور فرمان ہے جس پر عمل فرائض دینی میں شامل ہے۔ اس صفت میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے امتیازو اختصاص پایا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے لئے اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ ارشاد فرمایا جس کی رو سے ’’امر‘‘ مطلقاً اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ یہاں امر کا اطلاق اس کی ذات پر ہونا جس مفہوم میں ہے وہ الفاظ کی یکسانیت کے باوجود معنی کے اعتبارسے مختلف ہے۔ امر کا لفظ جب اللہ رب العزت کی حاکمیتِ اعلیٰ اور اس کی مطلق فرمانروائی اور متصرف کل ہونے کی طرف راجع ہو تو پھر اس کی مطلق اور مثالی صفت کا مظہر بن جاتا ہے اور جب یہ لفظ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت کے لئے بولا جائے تو اس کے معانی مختلف ہوجاتے ہیں۔ اس معنوی تبدیلی کے ادراک سے امر کے معنٰی میں کوئی التباس نہیں رہتا اور شرک کے امکان سے متعلق تمام شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں۔
یہ بدیہی امر ہے کہ خلق اور امر دونوں اللہ تعالیٰ کی امتیازی اور اختصاصی صفات ہیں لیکن قرآن حکیم میں ایسی آیات بھی ہیں جن میں امر و نہی کی صفت غیر اللہ یعنی دیگر مخلوق سے بھی منسوب ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’وہ اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔‘‘ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامنصبِ نبوت ہے جس کی بجا آوری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی کے کاموں کاحکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں، اِسے اصطلاحاً امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا نام دیا جاتا ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے باب میں یہی الفاظ قرآن نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے واجب الاطاعت لوگوں (اولی الامر) کے لئے بھی استعمال کئے ہیں کہ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ بجا لانے پر مامور ہیں۔ اس طرح امر اور نہی دونوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے صاحبانِ امر لوگوں کی صفت اور خصوصیت بھی ہے۔
ذیل میں بعض آیات کا تقابلی جائزہ اس تصور کو صحیح طرح سمجھنے کے لئے ممد و معاون ہے:
1. إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ
’’حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔‘‘
الانعام، 6: 57
2. أَلاَ لَهُ الْحُكْمُ
’’جان لو! حکم (فرمانا) اسی کا (کام) ہے۔‘‘
الانعام، 6: 62
3. وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَo
’’اور (حقیقی) حکم و فرمانروائی (بھی) اسی کی ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
القصص، 28: 70
4. فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِo
’’پس (اب) اللہ ہی کا حکم ہے جو (سب سے) بلند و بالا ہے۔‘‘
المؤمن، 40: 12
2۔ مطلق فرماں روائی اللہ ہی کی ہے
1. قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ
’’فرما دیں کہ سب کام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔‘‘
آل عمران، 3: 154
2. أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ
’’خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔‘‘
الاعراف، 7: 54
1. وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ
’’اور ان کے ساتھ حق پر مبنی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں میں ان امور کا فیصلہ کر دے جن میں وہ اختلاف کرنے لگے تھے۔‘‘
البقرۃ، 2: 213
2. فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ
’’پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے نازل فرمائے ہیں۔‘‘
المائدۃ، 5: 48
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
1. وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَo
’’اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے، سو وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
المائدۃ، 5: 44
2. وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنْزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَo
’’اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘
المائدۃ، 5: 45
3. وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَo
’’اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ فاسق ہیں۔‘‘
المائدۃ، 5: 47
گزشتہ صفحات میں ہم سورۃ الاعراف اور سورۃ التوبہ کی آیات پر سیر حاصل بحث کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں ان اختیاراتِ تشریعی کا اجمالی ذکر ہم اسی حصہِ کتاب کے دوسرے باب کی فصل ’’توحید فی القدرۃ‘‘ میں بھی کر آئے ہیں۔
اُمت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی صاحبانِ امر ہیں
1. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی۔‘‘
النساء، 4: 59
2. وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ
’’اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ (بجائے شہرت دینے کے) اسے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اپنے میں سے صاحبانِ امر کی طرف لوٹادیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی) بات کانتیجہ اخذ کرسکتے ہیں اس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے۔‘‘
النساء، 4: 83
3. کكُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَo
’’تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقینًا ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔‘‘
آل عمران، 3: 110
اگر یہ بات درست مان لی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی حکم نہیں دے سکتا تو پھر ان قرآنی آیات کا انکار لازم آئے گا جن میں اللہ رب العزت نے اپنی مخلوق کو فرمایا کہ احکاماتِ الٰہی کو تم نافذ کرو اور جو ایسا نہ کرے تو وہ کافر، ظالم اور فاسق و فاجر ہے۔
توحید فی الاحکام کے باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریعی حیثیت کے بارے میں راقم خود اپنی ایک عربی تصنیف ’’مَکَانَۃُ الرِّسَالَۃِ وَحُجِّيّۃُ السُّنّۃ‘‘ کا ایک حصہ مع ترجمہ ذیل میں وضاحت کے لیے شامل کر رہا ہے:
إِنّ مصدر التّشريع فی عهد النبي صلی الله عليه وآله وسلم کان کتاب اللہ و سنّة رسوله صلی الله عليه وآله وسلم إِنَّ اللہَ تعالیٰ قَرَنَ اتِّباعَ النّبيّ صلی الله عليه وآله وسلم بالإيمانِ بهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ قَرَنَ الإيمانَ بهِ صلی الله عليه وآله وسلم مع الإيمانِ باللہِ تعالی. فلا يجوزُ أنْ يُّفَرَّقَ بَيْنَ الإيمانِ بالرّسولِ صلی الله عليه وآله وسلم و اتِّباعهِ صلی الله عليه وآله وسلم کما لا يجوزُ بين الإيمانِ باللہِ تعالی والإيمان بالرّسول صلی الله عليه وآله وسلم. فکلُّ واحدِ مِّن هٰذين الاَمرينِ يَسْتَلْزِمُ الآخَرَ، فإقْرَاُر الاوّلِ يَسْتَوْجِبُ قبولَ الثّانِی، و إنْکارُ الثّانِيْ يَسْتَوْجِبُ ردَّ الأوّلِ. فلا يمکن أنْ يُّقْبَلَ واحدٌ و يُرَدَّ الآخر.
فَانِّ هٰذه الأُصوْلَ بينة و ثابتةٌ مِن قولهِ تعالی: {وَمَا قَدَرُواْ اللّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّهُ عَلَى بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ}.
(1) الأنعام، 6: 91
هٰذه الآيةُ دآلّةٌ علی أَنّه لا يوجدُ ولا يُقْبَلُ الاعترافَ بقدر اللہِ تعالی ولا بعظمة أُلُوهيّتهِ قطعاً اِلّا بإقرار الرِّسالةِ والنُّبوّة. لأنّ الرِّسالةَ والنُّبوّةَ هی واسطةٌ وحيدةٌ و وسيلةٌ فريدةٌ لمعرفة وجودهِ تعالی و اُلوُهيّتهِ ولِتبليغِ شريعتهِ إلی عبادهِ ولتشکُّلِ طاعتهِ لأحکَامهِ وَ أوامرهِ، حيثُ اجتبیٰ اللہ تعالیٰ الرُّسُلَ العِظامَ واختارَهم للأَخْذِ من الخالق والإيصالِ إلی الخلق، واصطَفَاهُمْ للقَبُولِ من الخالق والإفْضَالِ علی الخلق. واختصهم بالعطاء من الخالق والقَسْمِ بين الَخَلْقِ، وَ شَرَّفَهُم بالسماع من الخَالِق والرّواية للخلق. و عزّزهم بالوحيِ من الخالقِ والهَدْيِ للْخَلْقِ. وَ أَکرَمَهُم بالکتابِ من الخالقِ والسُّنّةِ للخلقِ.
فلا بُدَّ أن نؤمِنَ باللہِ تعالی وَ نُقِرَّ بِالتَّوحيد و نَعْرِفَ قدرَ الأُلوهيَة بوَاسِطَةِ الرّسالة و معرفةِ عَظَمَتِها و حُجِيّة أُسْوَتِها و اتِّباعِ سنَّتِهَا کَمَا قَالَ اللهُ تعالی: {وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ}
(1) الشوریٰ، 42: 51
فإنّ هٰذه الآيَة صرَّحت بأنّ اللہَ تعالی لا يُعطيِ أمرَهُ ولا يُوصِلُ کلاَمهُ مباشرةً إلی عالَمِ البشريّةِ والانسانِيّة إِلاّ بواسطةِ النُّبوّة والرِّسالة.
فإنّه يَصْطَفِی من عبادهِ أحداً فيَجعلَهُ نبيًّا و رسولًا و يشرِّفه بخطابِهِ و يُنزِلُ عليهِ کلاَمهُ وهو، ای النّبيّ صلی الله عليه وآله وسلم يُخاطِبُ الانسانَ وَکَالَةً عنهُ تعالی و يُکَلِّمُ البَشَرَ نيابةً عنهُ تعالی و يُخْبِرُهم عن أمرهِ و نهيهِ. فُيَقرِّر اللهُ تعالی خطابَ النّبيّ علیٰ أنَّهُ خِطَابهُ، و کلاَم النّبيّ علیٰ أنَّهُ کلاَمهُ، و إخباَر النّبيّ علیٰ أَنَّهُ اَخْبَارُهُ، و بيان النّبيّ أنَّهُ بيانهُ، و طاعةَ النّبيّ علی أنها طاعتهُ، و معصيّةَ النّبيّ علی أنها معصيّتهُ، و جعلَ سنّةَ النّبيّ سبيلهُ، و اتّباعَ النّبيّ دليلهُ، فأعلَنَتِ الملائکةُ بنفس الامرِ کما رویٰ جابر بن عبداللہ رضی الله عنه: فَمَن أطاع محمداً فقد أطاعَ اللہ، ومن عَصی محمّداً فقد عَصی اللہ، و محمّدٌ فَرْقٌ بين النّاسِ.
(1) أخرجه البخاری فی الصحیح، کتاب: الاعتصام بالکتاب والسنة، باب: الاقتداء بِسُنَنِ رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، 6: 2655، الرقم: 6852
و قال رسولُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم ، کما رویٰ أبوهريرةرضی الله عنه: من أطَاعنِی فقد أطَاع اللہ ومن عصانی فقد عصٰی اللہ. (متّفقٌ عليهِ).
(2) أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الأحکام، باب: قول اللہ تعالی: أَطِيْعُوا اللہَ وَ أَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَ أُوْلِی الأَمْرِ مِنْکُمْ: [النسائ: 59]، 6: 2611، و فی کتاب: الجهاد، باب: يقاتل مِن وراء الإمام و يُتّقَی به، 3: 1080، الرقم: 2797، و مسلم في الصحيح، کتاب: الإمارة، باب: وجوب طاعة الأمراء فی غير معصية و تحريمها فی المعصعية، 3: 1466، الرقم: 1835
و قال تعالی: {اَللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ}.
(3) الانعام، 6: 124
هٰذهِ الآية دلّت علی أنّ الرِّسالةَ نعمةٌ عظيمةٌ، و منزلةٌ رفيعةٌ، ولا يعلم إلّا اللهُ تعالی بمن يُّکرِمهُ بهٰذهِ المَکَانَةِ و بمَن يّجْعَلُهُ مَحَلَّ الرِّسالة، لأنّ قولَ الرَّسولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثل قولِ أحدٍ من البشرِ إنّما هو قولٌ مِن عند اللہِ تعالی کما قال اللہ تعالیٰ : {وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیo اِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْیٌ يُّوْحٰی}
(4) النجم، 53: 3.4
و فِعْلَ الرّسولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثل فعل أحدٍ من البشرِ إنّما هو فعلٌ بإِذن اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰـکِنَّ للہَ رَمٰی}
(1) الانفال، 8: 17
و صراطَ الرّسولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثلِ صراطِ أحدٍ من البشرِ، انّما هو صراط اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {هٰذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسْتَقِيْمًا}
(2) الانعام، 6: 126
و رِضَی الرَّسُولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کَمِثْل رِضٰی أحدٍ من البشرِ انّما هو رِضَی اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {وَاللّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَن يُرْضُوهُ إِن كَانُواْ مُؤْمِنِينَ}
(3) التوبة، 9: 62
و عَطَائَ الرّسولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کَمِثلِ عطائِ أحدٍ من البشرِ إنّما هو عطاءُ اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {وَلَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰهُمُ اللهُ وَ رَسُوْلُهُ}
(4) التوبة، 9: 59
و فضَل الرَّسُوْلِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثلِ فضلِ أحدٍ مِّنَ البشر إنّما هو فضلُ اللہِ تعالی کما قَال تعالیٰ : {وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ}
(5) التوبة، 9: 59
و إغنائَ الرّسول صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثلِ إغنائِ أحدِ مّنَ البشر إنّما هو إغناءُ اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ }
(6) التوبة، 9: 74
و إنعَامَ الرّسول صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثلِ إنعامِ أحدٍ مّنَ البشر انّما هو إنعامُ اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِ وَاَنْعَمْتَ عَلَيْهِ}
(7) الاحزاب، 33: 37
والأدبَ مَعَ الرّسولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثلِ أدبِ أحد مّنَ البشر إنّما هو الأدبُ مع اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ}
. (8) الحجرات، 49: 1
و تعظيمَ الرّسولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کَمِثلِ تعظيم أحدٍ مّن البشرِ إنّما هو تَعْظِيْمُ اللہِ تعالی کما قالَ تعالیٰ : {إِنَّا اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًاo لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَ رَسُوْلِهِ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ ط وَ تُسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًاo}.
(1) الفتح، 48: 8.9
والبَيعةَ علی يدِ الرّسولِ صلی الله عليه وآله وسلم لَيسَ کمثلِ بيعةِ أحدٍ مّن البشر انّما هی بيعةٌ باللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَکَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللہَ ط يَدُاللہِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ}.
(2) الفتح، 48: 10
و دعاءَ الرّسولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثل دعاءِ أحدٍ من البشرِ انّما هو دعاء اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمَ بَعْضًا}.
(3) النور، 24: 63
و قولهِ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ}.
(4) الانفال، 8: 24
و مِلْکَ الرَّسُولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثل ملکِ أحدٍ مِن البشر انّما هو ملِکُ اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {يَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ ط قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ}
(5) الانفال، 8: 1
و إطاعةَ الرّسولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثلِ اطاعةِ أحدٍ مّن البشرِ انّما هی اطاعةُ اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ أَرْسَلْنٰـکَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا}
(6) النسائ، 4: 80
و قولهِ: {تِلْکَ حُدُوْدُ اللہِ ط وَ مَنْ يُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوْلَهُ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاط وَ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ}
(7) النسائ، 4: 13
و قولهِ: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ}
(1) محمد، 47: 33
و معصيّةَ الرسول صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثل معصيّةِ أحدٍ مّنَ البشر انّما هی معصيّة اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {وَمَنْ يَعْصِ اللہَ وَ رَسُوْلَهُ وَ يَتَعَدَّ حُدُوْدَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْهَا وَ لَهُ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ}
(2) النسائ، 4: 14
و قولهِ: {اِلَّا بَلٰـغًا مِّنَ اللہِ وَرِسٰلٰتِهِ ط وَمَنْ يَعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَهُ فَاِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا}.
(3) جن، 72: 23
وَ مُشاقَّةَ الرَّسُولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثلِ مشاقّةِ أحدٍ مّن البشرِ انّما هی مشاقّةُ اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : { ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَآقُّواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَمَن يُشَاقِقِ اللّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}
(4) الانفال، 8: 13
و قولهِ: {ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَمَن يُشَاقِّ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}
(5) الحشر، 59: 4
. و البرائَ ةَ مِّنَ الرّسول صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثلِ برائَ ةِ أحدٍ مّن البشرِ إنّما هی برائَةُ اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {بَرَآئَةٌ مِنَ اللہِ وَرَسُوْلِهِ اِلَی الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ}.
(6) التوبة، 9: 1
و اَذانً مّن الرّسولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثلِ اَذانِ أحدٍ مّن البشرِ إنّما هی اذانٌ من اللہِ تعالی کما قال تعالیٰ : {وَأَذَانٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللّهَ بَرِئٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ}
(7) التوبة، 9: 3
و أذيّةَ الرَّسُولِ صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثلِ أذيّةِ أحدٍ من البَشَرِ إنما هی اذيّةُ اللہ تعالی، کما قال تعالیٰ : {ا إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا}
(1) الاحزاب، 33: 57
وَ غضَّ الأصوَات عندَ الرَسُول صلی الله عليه وآله وسلم تَعظِيماً لهُ ليس کمثل إکرام أحدٍ مِنَ البشر إنّما هی عبادةُ اللہ و تقوی القلوب کما قال تعالیٰ : {إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ}
(2) الحجرات، 49: 3
و محبّةَ الرّسول صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثل محبة أحدٍ من البشر إنّما هی محبةُ اللہ تعالی. کما قال تعالیٰ : {قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَاؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِيْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْکُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی يَاْتِيَ اللهُ بِاَمْرِهِط وَاللهُ لَا يَهدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ}
(3) التوبة، 9: 24
و اتّباعَ الرَّسُول صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثلِ إتباعِ أحدٍ من البشر إنّما هی محبة اللہ و مغفرةً منه کما قال تعالیٰ : {قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ}.
(4)آل عمران، 3: 31
والدعوةَ إلی الرّسُول صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثل الدعوة إلی أحدٍ مِّن البشر إنّما هی الدعوةُ إلی اللہ تعالی کما قال تعالیٰ : {وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَا اَنْزَلَ اللهُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنَافِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا}،
(1) النسائ، 4: 61 (4)
و قوله: {اِذَا دُعُوْا اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِهِ لِيَحْکُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا}
(2) النور، 24: 51
و مُحَادّةَ الرّسُول صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثل مُحَادّة أحدٍ من البشر إنّما هی محادّةُ اللہ تعالی کما قال تعالیٰ : {اَلَمْ يَعْلَمُوْا اَنَّهُ مَنْ يُّحَادِدِ اللہَ وَرَسُوْلَهُ فَاَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيْهَاط ذٰلِکَ الْخِزْيُ الْعَظِيْمُ}،
(3) التوبة، 9: 63
و قوله: {إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ}
(4).المجادله، 58: 20
(6) الاحزاب، 33: 36 و تحريمَ الرّسُول صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثل تحريم أحدٍ من البشر إنما هو تحريمُ اللہ تعالی کما قال تعالیٰ : {وَلاَ يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَ رَسُوْلُهُ}
(5) التوبة، 9: 29
و قضاءَ الرَّسُول صلی الله عليه وآله وسلم ليس کمثل قضاء أحدٍ من البشر إنما هو قضاء اللہ تعالی کما قال تعالیٰ : { وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ}
’’عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شریعت کے مآخذ قرآن اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان سے مشروط فرما دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کو اللہ تعالیٰ پر ایمان کے ساتھ منسلک فرما دیا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں فرق کرنا اسی طرح جائز نہیں جس طرح ایمان باللہ اور ایمان بالرّسالت میں فرق کرنا اس طرح جائز نہیں۔ یہ تمام امور ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ ان میں سے ایک کا اقرار دوسرے کی قبولیت کو مستلزم ہے اور دوسرے کا انکار پہلے کا رد ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک کو قبول کر لیا جائے اور دوسرے کو رد۔ یہ تمام اصول اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت ہیں: ’’اور انہوں نے (یعنی یہود نے) اللہ کی وہ قدرنہ جانی جیسی قدرجاننا چاہیے تھی جب انہوں نے یہ کہہ (کر رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کر) دیا کہ اللہ نے کسی آدمی پر کوئی چیز نہیں اتاری۔‘‘
(6) الاحزاب، 33: 36
’’یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اقرارِ رسالت و نبوت کے بغیر نہ تو اللہ تعالیٰ کی قدر اور عظمتِ اُلوہیت کو پانا ممکن ہے اور نہ اس کے بغیر قدر و عظمت کو قبول کیا جائے گا۔ کیونکہ رسالت و نبوت وجودِ باری تعالیٰ اور اس کی اُلوہیت کی معرفت کا تنہا واسطہ اور منفرد وسیلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی شریعت کو بندوں تک پہنچانے اور اس کے احکام و اوامر کی اطاعت کی عملی صورت کے لئے بھی وسیلہ و واسطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رُسلِ عظام کو خالق سے شریعت لے کر مخلوق تک رسائی کے لئے منتخب فرمایا اور انہیں خالق سے عطائیں وصول کر کے مخلوق کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے مختص فرمایا۔ انہیں خالق سے سماعت اور مخلوق کو بیان کا شرف بخشا۔ انہیں خالق کی طرف سے وحی لے کر مخلوق کو ہدایت دینے کا اعزاز تفویض کیا۔ ان (میں سے بعض انبیائ) کو کتاب ہدایت سے بھی نوازا اور ان کے طریقوں کو مخلوق کے لئے سنت بنا دیا۔ پس ضروری ہے کہ ہم رسالت کے واسطہ و معرفت، اسوئہ رسول کی حجیت اور اتباع کے ذریعے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں، توحید کا اقرار کریں اور الوہیت کی قدر جانیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسیٰ علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لئے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہو گا)، بیشک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
’’یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم کو واسطہِ نبوت و رسالت کے بغیر نہ تو عطا فرماتا ہے اور نہ اس کا کلام براہِ راست عالمِ بشریت اور انسانیت تک پہنچ سکتا ہے۔ بے شک وہ اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو منتخب فرما کر اسے نبی بناتا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتا ہے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو کر انسان کو مخاطب فرماتے ہیں اور بطور نائبِ باری تعالیٰ مخلوق سے کلام فرماتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے امر و نہی سے آگاہ فرماتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ خطابِ نبی کو اپنا خطاب، کلامِ نبی کو اپنا کلام، خبرِ رسول کو اپنی خبر، بیانِ نبی کو اپنا بیان، طاعتِ نبی کو اپنی طاعت، معصیتِ نبی کو اپنی معصیت، سنتِ نبی کو اپنا راستہ اور اتباعِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی رہنمائی قرار دیتا ہے۔ اور ملائکہ نے بھی اسی چیز کا اعلان کیا جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: (کچھ فرشتے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا... ) ’’جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔‘‘ اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ خوب جانتا ہے کہ اسے اپنی رسالت کا محل کسے بنانا ہے۔‘‘ یہ اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ رسالت عظیم نعمت اور منزلِ رفیع ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کسے اس مرتبہ پر فائز کرنا ہے اور کسے اپنی رسالت کا حقدار ٹھہرانا ہے کیونکہ:
’’فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فرد بشر کے قول کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘
’’فعلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فرد ِبشر کی طرح کا فعل نہیں بلکہ وہ تو اذنِ الٰہی سے صادر ہونے والا فعل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔‘‘
’’صراطِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر میں سے کسی کے راستہ کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور یہ (اسلام ہی) آپ کے رب کا سیدھا راستہ ہے۔‘‘
’’رضائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی رضا کی طرح نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) زیادہ حقدار ہے کہ اسے راضی کیا جائے اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے (تو یہ حقیقت جان لیتے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرتے، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راضی ہونے سے ہی اللہ راضی ہو جاتا ہے کیونکہ دونوں کی رضا ایک ہے)۔ ‘‘
’’عطائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی عطا کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا۔‘‘
’’فضل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کے فضل کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے، عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا)۔‘‘
’’غنائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کے غنا کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا غنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور وہ (اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل میں سے) اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا۔ ‘‘
’’انعامِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کے انعام کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جس پر اللہ نے انعام فرمایا تھا اور اس پر آپ نے (بھی) اِنعام فرمایا تھا۔ ‘‘
’’ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کے ادب کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا ادب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے آگے نہ بڑھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بیشک اللہ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘
’’تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی تعظیم کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لئے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اللہ کی صبح و شام تسبیح کرو۔‘‘
’’بیعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی بیعت کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی بیعت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔ ‘‘
’’ندائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کے بلاوے کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا بلانا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)۔‘‘
’’ملکیتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی ملکیت کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے نبيّ مکرّم) آپ سے اموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں فرما دیجئے: اموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول ہیں۔ ‘‘
’’اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی اطاعت کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ ‘‘اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی فرمانبرداری کرے اسے وہ بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘ اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے: ’’ اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کیا کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کیا کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو۔ ‘‘
’’معصیتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی معصیت کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی معصیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے ذلّت انگیز عذاب ہے۔ ‘‘اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے: ’’مگر اللہ کی جانب سے اَحکامات اور اُس کے پیغامات کا پہنچانا (میری ذِمّہ داری ہے)، اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نافرمانی کرے تو بیشک اُس کے لئے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
’’مخالفتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی مخالفت کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی مخالفت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی مخالفت کرے تو بیشک اللہ (اسے) سخت عذاب دینے والا ہے۔ ‘‘اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے شدید عداوت کی (ان کا سرغنہ کعب بن اشرف نامور گستاخِ رسول تھا)، اور جو شخص اللہ (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) مخالفت کرتا ہے تو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ ‘‘
’’لاتعلقی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی بیزاری و لاتعلقی کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی بیزاری ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف سے بیزاری (و دست برداری) کا اعلان ہے ان مشرک لوگوں کی طرف جن سے تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا (اور وہ اپنے عہد پر قائم نہ رہے تھے)۔ ‘‘
’’اعلانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کے اعلان کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(یہ آیات) اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمام لوگوں کی طرف حجِ اکبر کے دن اعلانِ (عام) ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی (ان سے بری الذّمہ ہے)۔‘‘
’’اذیتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی اذیت دینے کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کو اذیت دینا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لئے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
’’غضِ صوت عند الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی تکریم کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دلوں کا تقویٰ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک جو لوگ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے چُن کر خالص کرلیا ہے۔ ان ہی کے لئے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہے۔‘‘
’’محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی محبت کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی محبت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔ ‘‘
’’اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کے اتباع کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی طرف سے مغفرت کا باعث ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
’’دعوت الی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی طرف دعوت کی مثل نہیں بلکہ وہ تو دعوت الی اللہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں۔ ‘‘اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’جب انہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہو گئے۔‘‘
’’محادت و عداوتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی محادت و عداوت کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی محادت و مخالفت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کیا وہ نہیں جانتے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کرتا ہے تو اس کے لئے دوزخ کی آگ (مقرر) ہے جس میں وہ ہمیشہ رہنے والا ہے، یہ زبردست رسوائی ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’بیشک جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے عداوت رکھتے ہیں وہی ذلیل ترین لوگوں میں سے ہیں۔‘‘
’’تحریم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کی تحریم کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی تحریم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے حرام قرار دیا ہے۔ ‘‘
’’قضائِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی عام فردِ بشر کے قضاء و حکم یا فیصلہ کی مثل نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور نہ کسی مؤمن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مؤمن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم ) فرمادیں تو ان کے لئے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو۔ ‘‘
مندرجہ بالا مضمون کی تائید علامہ ابنِ تیمیہ نے بھی کی ہے۔ علامہ موصوف نے اپنی کتاب ’’الرسالۃ التدمّریۃ‘‘ میں اسی طرح تسلسل کے ساتھ ان صفات کا تذکرہ کیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور مخلوق بالخصوص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان مشترک ہیں۔ اس بحث کو ہم آئندہ باب 10 کے آخر میں درج کر رہے ہیں۔ یہاں ہم موضوع زیربحث سے متعلق علامہ ابن تیمیہ کی مشہور زمانہ کتاب ’’الصارم المسلول‘‘ کا اقتباس پیش کررہے ہیں جس میں انہوں نے قرآنی آیات کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امر و نہی جیسے احکامِ الٰہیہ میں اللہ کے نائب ہیں، وہ لکھتے ہیں:
أنه قَرَن أذاه بأذاه کما قَرَن طاعته بطاعته، فمن آذاه فقد آذی اللہ تعالی، و قد جاء ذلک منصوصًا عنه، و من آذی اللہ فهو کافرٌ حلالُ الدَّمِ، يُبَيّنُ ذلک أنَّ اللہ تعالی جَعَلَ محبة اللہِ و رسولهِ و إرضاءَ اللہ و رسولِه و طاعةَ اللہِ و رسولِهِ شيئًا واحدًا. فقال تعالی: {قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ} ]التوبة، 9: 24[ و قال تعالی: {وَ اَطِيْعُوا اللہَ وَ الرَّسُوْلَ} ]آل عمران، 3: 132[ في مواضع متعددة و قال تعالی: {وَاللّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَن يُرْضُوهُ} ]التوبة، 9: 62[ فوحَّدَ الضمير، و قال أيضًا: {اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَکَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللہ} ]الفتح، 48: 10[ و قال أيضًا: {يَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ ِﷲِ وَ الرَّسُوْلِ} ]الانفال، 8: 1[
و جعل شِقَاقَ اللہ و رسوله و محادَّةَ اللہ و رسوله و أذی اللہ و رسوله و معصيَةَ اللہ و رسوله شيئًا واحدًا، فقال: { ذَالِکَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللہَ وَ رَسُوْلَهُ وَ مَنْ يُّشَاقِقِ اللہَ وَ رَسُوْلَهُ} ]الانفال، 8: 13[ و قال: { إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} ]المجادلة، 58: 20[ و قال تعالی: {أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّهُ مَن يُحَادِدِ اللّهَ وَرَسُولَهُ} ]التوبة، 9: 63[ و قال: {وَ مَنْ يَعْصِ اللہَ وَ رَسُوْلَهُ} ]النسائ، 4: 14[.
و في هذا وغيره بيان لتلازم الحقين و أن جهة حرمة اللہ تعالی و رسوله جهة واحدة، فمن آذی الرسول فقد آذی اللہ، و من أطاعه فقد أطاع اللہ، لأن الأمَّةَ لا يَصِلُون ما بينهم و بين ربهم إلّا بواسطة الرسول، ليس لأحدٍ منهم طريقٌ غيرهُ، ولا سببٌ سواه، و قد أقامه اللہ مقَامَ نفسِهِ في أمرِهِ و نَهيِهِ و إخبارِهِ و بيانِه، فلا يجوز أن يُفَرَّقَ بين اللہ و رسوله فيشيئٍ من هذه الأمور.
’’اللہ رب العزت نے اپنی ایذا کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایذا اور اپنی اطاعت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ متصل جوڑ کر ایک چیز بنا دیا، احادیثِ مبارکہ میں بطورِ نص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے، اور جو شخص اللہ کو ایذا دے وہ کافر اور مباح الدم ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، اپنی رضا مندی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضامندی اور اپنی اطاعت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے۔ (اور ان کے درمیان ہر قسم کے فرق اور تفریق کو ختم کر دیا ہے) پس ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘
(1) ابن تیمیہ، الصارم المسلول علی شاتم الرسول: 45۔46
’’اور باری تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اللہ کی اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی فرمانبرداری کرتے رہو۔‘‘ اس طرح کے ارشادات قرآن مجید میں متعدد مقامات میں فرمائے ہیں۔ اور فرمایا: ’’اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) زیادہ حقدار ہے کہ اسے راضی کیا جائے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راضی ہونے سے ہی اللہ راضی ہو جاتا ہے کیونکہ دونوں کی رضا ایک ہے)۔‘‘
’’اس آیتِ کریمہ يُرْصُوْهُ میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ضمیر واحد لائی گئی ہے (تاکہ کوئی دوئی، غیریت اور ثنویت نہ رہے)
’’پھر ارشاد فرمایا: ’’(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔‘‘
’’اور فرمایا: ’’(اے نبی مکرم!) آپ سے اموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں فرما دیجئے: اموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
’’اسی طرح اللہ تعالیٰ نے (ان آیات میں) اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عداوت، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معصیت و نافرمانی کو ایک ہی چیز قرار دیا۔ پس فرمایا: ’’یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کی اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کرے۔‘‘
’’اور فرمایا: ’’بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتے ہیں۔‘‘
’’پھر فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کرتا ہے۔‘‘
’’اور فرمایا: ’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی نافرمانی کرے۔‘‘
’’مذکورہ بالا آیات اور اس طرح کی دیگر آیات میں یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق باہم لازم و ملزوم ہیں۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و حرمت کو ایک ہی حرمت قرار دیا ہے پس جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی، اور جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اس لئے کہ امت میں سے کوئی بھی اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا سوائے واسطہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے۔ واسطہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ تعلق باللہ استوار کرنے کا کسی کے پاس کوئی اور راستہ اور سبب نہیں اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا قائم مقام بنایا ہے، امر و نہی میں علم کی خبر دینے اور بیان کرنے میں۔ پس ان امور میں سے کسی ایک میں بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان تفریق اور دوئی جائز نہیں۔‘‘
اسی باب میں قاضی عیاض نے ’’الشفاء‘‘ میں سیدنا امام جعفر بن محمد الصادق رضی اللہ عنہ کا درج ذیل قول نقل فرمایا ہے:
عَلِم اللهُ عجزَ خلقهِ عن طاعتهِ فصَّرفهم ذالک، لکی يعلموا أنّهم لا ينالون الصفو منِ خدمتهِ، فأقام بينهم و بينهُ مخلوقاً منِ جِنْسِهم فی الصُّورة و ألْبَسهُ مِنْ نَعتِهِ الرأفةَ والرحمةَ و أخرجَهُ الی الخلقِ سفيراً صادقاً و جَعَل طاعتَهُ طاعتَهُ و موافقتَهُ موافقتَهُ. فقال تعالی: {مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ } (النساء: 80) و قال اللہ تعالی: {وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰـلَمِيْنَ} (الانبياء: 107)
’’حضرت امام جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اس کی اطاعت میں عاجز دیکھا تو ان کو اس کی معرفت کرائی تاکہ وہ جان لیں کہ وہ اس کی خدمت و عبادت صفائی قلب کے ساتھ نہیں کر سکتے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اور ان کے درمیان صورتاً مماثلت کر کے ان کی جنس میں سے ایک مخلوق (انبیاء کرام علیہم السلام) پیدا فرمائی اور ان کو اپنی صفتِ رافت و رحمت سے نوازا اور اس مخلوق (انبیاء کرام علیہم السلام) کو ان لوگوں کے لئے سفیر و واسطہ اور پیامبر بنایا اور ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور ان کی موفقت کو اپنی موافقت کہا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘
’’ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔‘‘
(1) قاضی عیاض، الشفائ، 1: 16
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved