ائمہِ علم العقائد نے توحید فی الربوبیت کی درج ذیل تعریف کی ہے:
هو بيان أن اللہ وحده خالقُ کل شيئٍ، و أنه ليس للعالم صانعانِ متکافئانِ.
’’اس بات کا بیان کہ ہر چیز کا خالق بے شک اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہی ہے اور یہ کہ عالم کو وجود دینے والے دو ہم پلہ خالق نہیں ہیں۔ توحید فی الربوبیت کہلاتا ہے۔ـ‘‘
ابن ابی العز الدمشقی، شرح العقیدۃ الطحاویۃ، 1: 125، 126
اس کی مزید وضاحت یوں کی گئی ہے:
هو الإقرار الجازم بأن اللہ تعالی رب کل شيء و ملکيه، و خالقه، و مدبره، و المتصرف فيه، لم يکن له شريک فی الملک، و لم يکن له و ليّ من الذل، ولا رادّ لأمره، ولا معقب لحکمه، ولا مضاد له، و لا مماثل له، ولا سميّ له، ولا منازع في شيء من معاني ربوبيته و مقتضيات أسمائه و صفاته.
’’توحيد فی الربوبیت سے مراد اس بات کا پختہ اقرار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا رب ہے، اس کا مالک ہے، اس کا خالق ہے، اس کا مدبر ہے، اس میں تصرف کا اختیار کلی رکھتا ہے۔ پوری کائنات میں کوئی اس کا شریک نہیں، وہ کمزوری سے پاک ہے اس لئے اس کا کوئی مدد گار نہیں، اس کے امر کو کوئی رد کرنے والا نہیں۔ اس کے حکم کے آگے کوئی پس و پیش کرنے والا نہیں، کوئی اس کی مخالفت کرنے والا نہیں، کوئی اس کی مماثلت کرنے والا نہیں، کوئی اس کا ہمنام نہیں، اس کی صفات و اسماء کے تقاضوں اور اس کی ربوبیت کے معانی میں کوئی بھی اس سے اختلاف و نزاع کی ہمت نہیں رکھتا۔‘‘
ابن احمد الحکمی، أعلام السنۃ المنشورۃ: 24
توحید فی الرُّبوبیت کو توحیدِ اثبات بھی کہتے ہیں۔ درحقیقت توحید فی الربوبیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے واجبُ الوجود ہونے پر اور اُس کی وحدتِ مطلقہ پر ایمان لایا جائے اور اِس امر کا اقرار کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک رب اور پروردگار ہونے میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ توحید کی یہ قسم اللہ تعالیٰ کو خالق، مالک، رازق، پروردگار اور مدبر الامور جاننے اور ماننے سے عبارت ہے۔ درج ذیل آیاتِ مبارکہ میں توحید فی الربوبیت کو بیان کیا گیا ہے۔
1۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ ابراہیم میں فرمایا:
قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ
’’ان کے پیغمبروں نے کہا: کیا اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا فرمانے والا ہے، (جو) تمہیں بلاتا ہے کہ تمہارے گناہوں کو تمہاری خاطر بخش دے۔‘‘
ابراہیم، 14: 10
2۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ا لاسراء میں فرمایا:
قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـؤُلاَءِ إِلاَّ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَونُ مَثْبُورًاo
’’موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا: تو (دل سے) جانتا ہے کہ ان نشانیوں کو کسی اور نے نہیں اتارا مگر آسمانوں اور زمین کے رب نے عبرت و بصیرت بنا کر، اور میں تو یہی خیال کرتا ہوں کہ اے فرعون! تم ہلاک زدہ ہو (تو جلدی ہلاک ہوا چاہتا ہے)۔‘‘
الإسراء، 17: 102
3۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المؤمنون میں فرمایا:
قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِيهَا إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَo سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَo قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِo سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَo قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَo سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَo بَلْ أَتَيْنَاهُم بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَo
’’(ان سے) فرمائیے کہ زمین اور جو کوئی اس میں (رہ رہا) ہے (سب) کس کی مِلک ہے، اگر تم (کچھ) جانتے ہو؟ وہ فوراً بول اٹھیں گے کہ (سب کچھ) اللہ کا ہے (تو) آپ فرمائیں: پھر تم نصیحت قبول کیوں نہیں کرتے۔ (ان سے دریافت) فرمائیے کہ ساتوں آسمانوں کا اور عرشِ عظیم (یعنی ساری کائنات کے اقتدارِ اعلیٰ) کا مالک کون ہے؟ وہ فوراً کہیں گے: یہ (سب کچھ) اللہ کا ہے (تو) آپ فرمائیں: پھر تم ڈرتے کیوں نہیں ہو؟۔ آپ (ان سے) فرمائیے کہ وہ کون ہے جس کے دستِ قدرت میں ہر چیز کی کامل ملکیت ہے اور جو پناہ دیتا ہے اور جس کے خلاف (کوئی) پناہ نہیں دی جا سکتی، اگر تم (کچھ) جانتے ہو؟ وہ فوراً کہیں گے: یہ (سب شانیں) اللہ ہی کے لئے ہیں۔ (تو) آپ فرمائیں پھر تمہیں کہاں سے (جادو کی طرح) فریب دیا جا رہا ہے؟ بلکہ ہم نے انہیں حق پہنچا دیا اور بیشک وہ جھوٹے ہیں۔‘‘
المؤمنون، 23: 84۔90
4۔ سورۃ الشعراء میں فرمایا:
قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا إن كُنتُم مُّوقِنِينَo قَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ أَلَا تَسْتَمِعُونَo قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَo قَالَ إِنَّ رَسُولَكُمُ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌo قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَo
’’(موسیٰ علیہ السلام نے) فرمایا: (وہ) جملہ آسمانوں کا اور زمین کا اور اُس (ساری کائنات) کا رب ہے جو ان دونوں کے درمیان ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو۔ اس نے ان (لوگوں) سے کہا جو اس کے گرد (بیٹھے) تھے: کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ (موسیٰ علیہ السلام نے مزید) کہا کہ (وہی) تمہارا (بھی) رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا (بھی) رب ہے۔ (فرعون نے ) کہا: بیشک تمہارا رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور دیوانہ ہے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: (وہ) مشرق اور مغرب اور اس (ساری کائنات) کا رب ہے جو ان دونوں کے درمیان ہے اگر تم (کچھ) عقل رکھتے ہو۔‘‘
الشعراء، 26: 24۔28
5۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الواقعۃ میں فرمایا:
أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَo أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَo نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَo عَلَى أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ وَنُنشِئَكُمْ فِي مَا لَا تَعْلَمُونَo وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولَى فَلَوْلَا تَذَكَّرُونَo أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَo أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَo لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَo إِنَّا لَمُغْرَمُونَo بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَo أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَo أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَo لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَo أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَo أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِؤُونَo نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً وَمَتَاعًا لِّلْمُقْوِينَo فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِo
’’بھلا یہ بتاؤ جو نطفہ (تولیدی قطرہ) تم (رِحم میں) ٹپکاتے ہو۔ تو کیا اس (سے انسان) کو تم پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا فرمانے والے ہیں؟ ہم ہی نے تمہارے درمیان موت کو مقرّر فرمایا ہے اور ہم (اِسکے بعد پھر زندہ کرنے سے بھی) عاجز نہیں ہیں۔ اس بات سے ( بھی عاجز نہیںہیں) کہ تمہارے جیسے اوروں کو بدل (کر بنا) دیں اور تمہیں ایسی صورت میں پیدا کر دیں جسے تم جانتے بھی نہ ہو۔ اور بیشک تم نے پہلے پیدائش (کی حقیقت) معلوم کر لی پھر تم نصیحت قبول کیوں نہیں کرتے؟ بھلا یہ بتاؤ جو (بیج) تم کاشت کرتے ہو۔ تو کیا اُس (سے کھیتی) کو تم اُگاتے ہو یا ہم اُگانے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر دیں پھر تم تعجب اور ندامت ہی کرتے رہ جاؤ۔ (اور کہنے لگو): ہم پر تاوان پڑ گیا۔ بلکہ ہم بے نصیب ہوگئے۔ بھلا یہ بتاؤ جو پانی تم پیتے ہو۔ کیا اسے تم نے بادل سے اتارا ہے یا ہم اتارنے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کھاری بنا دیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟ بھلا یہ بتاؤ جو آگ تم سُلگاتے ہو۔ کیا اِس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم (اسے) پیدا فرمانے والے ہیں؟ ہم ہی نے اِس (درخت کی آگ) کو (آتشِ جہنّم کی) یاد دلانے والی (نصیحت و عبرت) اور جنگلوں کے مسافروں کے لئے باعثِ منفعت بنایا ہے۔ سو اپنے ربِّ عظیم کے نام کی تسبیح کیا کریں۔‘‘
الواقعۃ، 56: 58۔74
زمین و آسمان کی تخلیق اور ان کے مختلف امور میں کارفرما تدبیر کے ساتھ جمادات، نباتات، حیوانات اور عالم انس ہر جگہ زندگی کے آغاز و اِنجام اور عروج و زوال کے یکساں قوانین کا نافذ العمل ہونا بھی اِس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اِن تمام موجودات کو تخلیق کرنے اور پالنے والی ذات ایک ہی ہے اور اُس کی ربوبیت و پرودگاری میں ہر جگہ ایک ہی اُصول کار فرما ہے۔ یہی نظام ِ وحدت اُس کی وحدانیت پر دلیلِ قاطع ہے۔ اس پر چند آیات درج ذیل ہیں۔
6۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام میں فرمایا:
فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِo
’’(وہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے، اور اسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کوحساب وشمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اندازہ ہے۔‘‘
الانعام،6: 96
7۔ اللہ تعالیٰ نے سورہِ یونس میں فرمایا:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّهُ ذَلِكَ إِلاَّ بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَo
’’وہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اس سے) روشن (کیا) اور اس کے لئے (کم و بیش دکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اوقات کا) حساب معلوم کر سکو، اور اللہ نے یہ (سب کچھ) نہیں پیدا فرمایا مگر درست تدبیر کے ساتھ، وہ (ان کائناتی حقیقتوں کے ذریعے اپنی خالقیت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں ان لوگوںکے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہے جو علم رکھتے ہیں۔‘‘
یونس،10: 5
8۔ اللہ تعالیٰ نے سورہِ یونس میں ہی فرمایا:
إِنَّ فِي اخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَّقُونَo
’’بیشک رات اور دن کے بدلتے رہنے میں اور ان (جملہ) چیزوں میں جو اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا فرمائی ہیں (اسی طرح) ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو تقویٰ رکھتے ہیں۔‘‘
یونس،10: 6
9۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان میں فرمایا:
وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًاo
’’اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور اسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے پھر اس (کی بقا و ارتقاء کے ہر مرحلہ پر اس کے خواص، افعال اور مدت، الغرض ہر چیز) کو ایک مقررہ اندازے پر ٹھہرایا ہے۔‘‘
الفرقان،25: 2
10۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الروم میں فرمایا:
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنفُسِهِمْ مَا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَo
’’کیا انہوں نے اپنے مَن میں کبھی غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے پیدا نہیں فرمایا مگر (نظامِ) حق اور مقرّرہ مدت (کے دورانیے) کے ساتھ، اور بیشک بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے مُنکِر ہیں۔‘‘
الروم،30 - 8
11۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الروم میں ایک اور مقام پر فرمایا:
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُo
’’اللہ ہی ہے جس نے تمہیں کمزور چیز (یعنی نطفہ) سے پیدا فرمایا پھر اس نے کمزوری کے بعد قوتِ (شباب) پیدا کی، پھر اس نے قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا پیدا کر دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور وہ خوب جاننے والا، بڑی قدرت والا ہے۔‘‘
الروم،30: 54
12۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر میں فرمایا:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِأُوْلِي الْأَلْبَابِo
’’(اے انسان!) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر زمین میں اس کے چشمے رواں کیے، پھر اس کے ذریعے کھیتی پیدا کرتا ہے جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں، پھر وہ (تیار ہوکر) خشک ہوجاتی ہے، پھر (پکنے کے بعد) تو اسے زرد دیکھتا ہے، پھر وہ اسے چورا چورا کردیتا ہے، بے شک اس میں عقل والوں کے لئے نصیحت ہے۔‘‘
الزمر، 39 -21
اللہ تعالیٰ کے واجب الوجود ہونے اور اس کی وحدتِ مطلقہ پر ایمان نہ لانا توحیدِ ربوبیت میں شرک ہے۔
علماء نے شرک فی الربوبیت کے مفہوم کو درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
هو اعتقاد متصرف مع اللہ عزوجل فی أي شيیء من تدبير الکون من إيجا، أو إعلام، أو إحيائ، أو إماتة، أو جلب خير، أو دفع شر، أو غير ذلک من معانی الربوبية، أو اعتقاد منازع له في شيیء من مقتضيات أسمائه و صفاته.
’’ اللہ ل کے ساتھ کسی بھی چیز میں کسی کے تصرف کا اعتقاد رکھنا شرک فی الربوبیت ہے (مثلاً) تدبیرِ کائنات میں سے اس کے عدم و وجود میں غیر کا تصرف، زندگی بخشنے اور موت عطا کرنے میں تصرف، طلبِ خیر اور دفعِ شر میں غیر کا تصرف ماننا یا اس کے علاوہ ربوبیت کی صفات یا اس کے اسماء اور صفات کی مقتضیات میں سے کسی چیز میں بھی اس کی مخالفت کا اعتقاد رکھنا۔‘‘
ابن احمد الحکمی، أعلام السنۃ المنشورۃ: 25
زمین و آسمان کی تخلیق جیسی اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا مشرکین اقرار کرتے تھے، لیکن نفع و نقصان میں کسی اور طرف رجوع کرتے تھے تو انہیں طلبِ خیر اور دفعِ شر کے مالک حقیقی کی طرف توجہ دلائی گئی۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر میں فرمایا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلْ أَفَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِيَ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَo قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَoمَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيمٌo
’’اور اگرآپ اُن سے دریافت فرمائیں کہ آسمانوں اور زمین کو کِس نے پیدا کیا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے، آپ فرما دیجئے: بھلا یہ بتاؤ کہ جن بتوں کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا وہ (بُت) اس کی (بھیجی ہوئی) تکلیف کو دُور کرسکتے ہیں یا وہ مجھے رحمت سے نوازنا چاہے تو کیا وہ (بُت) اس کی (بھیجی ہوئی) رحمت کو روک سکتے ہیں، فرما دیجئے: مجھے اللہ کافی ہے، اسی پر توکل کرنے والے بھروسہ کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اے (میری) قوم تم اپنی جگہ عمل کئے جاؤ میں (اپنی جگہ) عمل کر رہا ہوں، پھر عنقریب تم (انجام کو) جان لو گے۔ (کہ) کِس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور اس پر ہمیشہ قائم رہنے والا عذاب اترے گا۔‘‘
الزمر، 39-40
توحید فی الربوبیت اور شرک فی الربوبیت کی دو اقسام ہیں:
آئندہ صفحات میں مندرجہ بالا اقسام کی الگ الگ تفصیلی بحث آ رہی ہے۔
توحید فی الذات یہ ہے کہ واجب الوجود ہستی کو معبود اور الٰہ تسلیم کیا جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہی وحدہ لاشریک ذات ہے جس نے اس کائنات کو وجود بخشا اور اس کو مختلف مراحل سے گزار کر نقطہِ کمال تک پہنچایا۔ آئیے قرآن حکیم سے چند مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
1۔ توحید فی الذات کے بیان میں سورہِ اخلاص نہایت جامع ہے گذشتہ صفحات میں ہم اسی سورت کی روشنی میں ارکانِ سبعہ پر تفصیلی بحث کر چکے ہیں۔
1۔ سورہِ الانبیاء میں توحید فی الذات کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا
’’اگر ان دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے سوا کوئی اور(بھی) معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہو جاتے۔‘‘
الانبیاء، 21: 22
اگر ایک ہی واجب الوجود ہستی کے ہونے کا عقیدہ رکھنے کی بجائے ایک سے زائد ہستیوں کو متصرف حقیقی تسلیم کر لیا جائے تو یہ بات توحید فی الذات کی نفی ہوگی جس سے نظامِ کائنات ایک وحدت کی صورت میں نہ صرف برقرار نہیں رہے گا بلکہ درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ اس آیتِ کریمہ میں بنیادی چیز توحید فی الذات کے عقیدے کا اثبات ہے۔
2۔ سورہِ یوسف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُo
’’اے میرے قید خانے کے دونوں ساتھیو! ( بتاؤ) کیا الگ الگ بہت سے معبود بہتر ہیں یا ایک اللہ جو سب پرغالب ہے؟‘‘
یوسف، 12 -39
3۔ سورۃ الزمر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَوْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفَى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ سُبْحَانَهُ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُo خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُo خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنْ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُصْرَفُونَo
’’اگر اللہ ارادہ فرماتا کہ (اپنے لئے) اولاد بنائے تو اپنی مخلوق میں سے جِسے چاہتا منتخب فرما لیتا، وہ پاک ہے، وہی اللہ ہے، جو یکتا ہے سب پر غالب ہے۔ اُس نے آسمانوں اور زمین کو صحیح تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا۔ وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو (ایک نظام میں) مسخّر کر رکھا ہے۔ ہر ایک (ستارہ اور سیّارہ) مقرّر وقت کی حد تک (اپنے مدار میں) چلتا ہے، خبردار! وہی (پورے نظام پر) غالب، بڑا بخشنے والا ہے۔ اس نے تم سب کو ایک حیاتیاتی خلیہ سے پیدا فرمایا پھر اس سے اسی جیسا جوڑ بنایا پھر اس نے تمہارے لئے آٹھ جانور جوڑوں کی صورت میں مہیا کئے، وہ تمہاری ماؤں کے رحموں میں ایک تخلیقی مرحلہ سے اگلے تخلیقی مرحلہ میں ترتیب کے ساتھ تمہاری تشکیل کرتا ہے (اس عمل کو) تین قِسم کے تاریک پردوں میں (مکمل فرماتا ہے)، یہی تمہارا پروردگار ہے جو سب قدرت و سلطنت کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر (تخلیق کے یہ مخفی حقائق جان لینے کے بعد بھی) تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔‘‘
الزمر، 39: 4۔6
4۔ سورۃ الزمر میں ہی آگے چل کر توحید فی الذات کو یوں بیان کیا گیا ہے:
اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌo لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَo قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَo وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَo بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَo وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَo
’’اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔ اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کُنجیاں ہیں، اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا وہی لوگ ہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ فرما دیجئے اے جاہلو! کیا تم مجھے غیر اللہ کی پرستش کرنے کا کہتے ہو۔ اور فی الحقیقت آپ کی طرف (یہ) وحی کی گئی ہے اور اُن (پیغمبروں) کی طرف (بھی) جو آپ سے پہلے (مبعوث ہوئے) تھے کہ( اے انسان!) اگر تُو نے شرک کیا تو یقینا تیرا عمل برباد ہو جائے گا اور تُو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔ بلکہ تُو اللہ کی عبادت کر اور شکر گزاروں میں سے ہو جا۔ اور انہوں نے اللہ کی قدر و تعظیم نہیں کی جیسے اُس کی قدر و تعظیم کا حق تھا اور ساری کی ساری زمین قیامت کے دن اُس کی مُٹھی میں ہوگی اور سارے آسمانی کرّے اُس کے دائیں ہاتھ (یعنی قبضہِ قدرت) میں لپٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک ہے اور ہر اس چیز سے بلند و برتر ہے جِسے یہ لوگ شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘
الزمر، 39: 62۔67
5۔ سورۃ المؤمن میں توحید فی الذات کو یوں موضوع بنایا گیا:
ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لَّا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَo كَذَلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِينَ كَانُوا بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَo اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَo هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَo قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِن رَّبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَo
’’یہی اللہ تمہارا رب ہے جو ہر چیز کا خالق ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں بھٹکتے پھرتے ہو۔ اسی طرح وہ لوگ بہکے پھرتے تھے جو اللہ کی آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو قرار گاہ بنایا اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں شکل و صورت بخشی پھر تمہاری صورتوں کو اچھا کیا اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی بخشی، یہی اللہ تمہارا رب ہے۔ پس اللہ بڑی برکت والا ہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔ وہی زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم اس کی عبادت اُس کے لئے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کرو، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔ فرما دیجئے: مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اُن کی پرستش کروں جِن بتوں کی تم اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہو جبکہ میرے پاس میرے رب کی جانب سے واضح نشانیاں آ چکی ہیں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمام جہانوں کے پروردگار کی فرمانبرداری کروں۔‘‘
المؤمن، 40: 62۔66
6۔ توحید فی الذات کا اثبات اور شرک فی الذات کا رد قرآن حکیم کی اس ایک آیت سے بھی ثابت ہو رہا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
’’پس جان لیجئے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
محمد، 47: 19
اس آیتِ کریمہ میں واجب الوجود اور واجب الارادہ ہستی کے ایک ہونے کا بیان ہے یعنی اس کے سوا اس کائنات میں کوئی اس شان کے لائق نہیں کیونکہ معبود حقیقی فقط وہی ہو سکتا ہے جو واجب الوجود ، واجب الارادہ اور مختار کل ہو۔ کلمہ طیبہ کا پہلا حصہ بھی انہی کلمات پر مشتمل ہے۔
7۔ پھر ایک اور جگہ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ
’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود ان کی ذاتوں میں دکھادیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔‘‘
حم السجدۃ، 41: 53
اگر عالمِ انفس و آفاق کا مطالعہ کیا جائے اور بہ نظر غائر ہر ایک مظہر کا جائزہ لیا جائے تو ہر چیز اس کے ایک اور حق ہونے کی گواہی دیتی نظر آئے گی۔ ان سب ارشادات ربانی کی روشنی میں توحید بالذات کا معنی ذاتِ باری تعالیٰ کے معاملے میں یہ ہے کہ اگر کوئی ایک سے زیادہ خداؤں پر ایمان رکھتا ہے تو وہ شرک فی الذات کا مرتکب ہو رہا ہے۔ حاکمِ مطلق فقط اللہ تعالیٰ ہے جو تمام جہانوں کا مالک اور پروردگار ہے۔ اس عقیدہ کا حامل توحید فی الذات کا قائل ہے اور یہی ذاتِ باری تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ ہے۔ اگراس کے برعکس کوئی کہے کہ میں ایک خدا پر ایمان تو رکھتا ہوں مگر اس کے نائب خدا، نائب مالک اور نائب رب کو بھی اسی طرح مانتا ہوں جس طرح ایک صدر کے نائب صدور ہوتے ہیں توایسا عقیدہ رکھنا شرک فی الذات کہلائے گا، جیسا کہ کفارِ مکہ اور مشرکین لات و منات، ھبل اور عزیٰ نامی بے شمار خدائوں پر ایمان رکھتے تھے۔
حرمِ کعبہ میں تین سو ساٹھ خودساختہ خدا رکھے ہوئے تھے، جن کی پرستش کرکے مشرکین شرک فی الذات کے مرتکب ہوتے تھے۔ اسی طرح ہندو مذہب میں بھی وشوا، کرشنا اور بہت سے دوسرے ناموں کے بت خدا مانے جاتے ہیں۔ لیکن برہما ان کے نزدیک سب سے بڑا خدا ہے جسے وہ رب الارباب (مہاتما یا خداؤں کاخدا) مانتے ہیں۔ سار بابو ہندوؤں کے نزدیک بارش کا خدا ہے۔ مشرکینِ مکہ نے بھی اس طرح بارش کا خدا اور ہر ایک کام کے لئے الگ الگ بہت سے خدا بنا رکھے تھے۔ ہر ایک خدا کوئی نہ کوئی مراد اور ضرورت پوری کرنے کے لئے مخصوص تھا۔ اگر ان کے پاس کوئی حاجت برآری کے لئے آتا اور کسی ایک خدا سے ان کی مراد پوری نہ ہوتی تو وہ کسی اور خدا کی طرف رجوع کر لیتے جو ان کے نزدیک مخصوص کام سرانجام دینے پرمامور ہوتا، جیسے رزق اور دولت کا خدا اور بچوں کی پیدائش کاخدا، جنگ کا خدا، امن کا خدا، خوراک کا خدا اور بارش کا خدا وغیرہ۔ یہ شرک فی الذات ہے جس کے باعث انہوںنے خودساختہ خدائوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا تھا۔
شرک فی الذات کا معنی یہ ہے کہ وہ قوت، قدرت، ملکہ، صفت اور خاصہ جو معبودِ حقیقی اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے اس کو اللہ رب العزت کے سوا کسی اور کے لئے بالذات ثابت کیا جائے اور اسے متصرف فی الامور حقیقی طور پر مانا جائے جیسے سجدہ کرنا، اس کے نام پرجانور ذبح کرنا، اس کی منت ماننا، کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانے کا عقیدہ رکھنا وغیرہ۔ یعنی وہ سب امور جو اللہ کا حق ہیں انہیں کسی دوسرے کے لئے ثابت کرنا شرک فی الذات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے شرک کی حقیقت یوں بیان فرمائی:
1. أَيُشْرِكُونَ مَا لاَ يَخْلُقُ شَيْئاً وَهُمْ يُخْلَقُونَo
’’کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ (خود) پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘
الأعراف، 7: 191
2۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں فرمایا:
أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لاَّ يَخْلُقُ أَفَلا تَذَكَّرُونَo
’’کیا وہ خالق جو (اتنا کچھ) پیدا فرمائے اس کے مثل ہو سکتا ہے جو (کچھ بھی) پیدا نہ کر سکے، کیا تم لوگ نصیحت قبول نہیں کرتے؟۔‘‘
النحل، 16: 17
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ظلمِ عظیم اور کھلی گمراہی ہے خواہ وہ لکڑی اور پتھر کے تراشے ہوئے بت ہوں یا انسانوں میں سے کوئی اِس کا شریک اور ساجھی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسی ظلمِ عظیم کے بارے میں ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًاo
’’بے شک اللہ اِس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے، اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس نے واقعۃً زبردست گناہ کا بہتان باندھا۔‘‘
النساء، 4: 48
اس آیتِ کریمہ میں شرک کو ایک ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرایا جائے یا بندگانِ خدا کو۔ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کسی کو ساجھی بنا لینا، اس کا ہم جنس، ہم نوع ماننا، یا کفو، ند، ضد اور مقابل بنانا وغیرہ سب سے زیادہ گھناؤنا اور بد ترین شرک ہے۔
یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار نے اللہ تعالیٰ کی طرف بیٹا اور بیٹی کا تصور منسوب کیا جو لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ کی شان کا حامل ہے۔ چنانچہ یہود کے بعض فرقوں نے حضرت عزیرں کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا۔ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو صرف زبانی اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہی نہیں بلکہ اس کا صلبی بیٹا قرار دیا۔ اسی طرح جہینہ اور بنی سلمہ وغیرہ کفار نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیا۔ انہی باطل اعتقادات کی بناء پر وہ شرک فی الذات کے مرتکب ہوئے۔
توحید فی الذات کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ ہر صفت اور امر کو مصدقہ طور پر اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کر دیا جائے اور اسی کو بلاشرکتِ غیرے ہر چیز کا مالک اور متصرف بالذات مانا جائے۔ شرک فی الذات اس وقت وجود میں آتا ہے جب کوئی بات جو بلا امتیاز خالصتاً اللہ تعالیٰ کا حق ہے کسی اور کے لئے اس طرح مانی جائے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے کسی حق پر زد پڑ رہی ہو اور اس کی توحید کی نفی اور بطلان ہورہا ہو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے حق کی کسی اور کے لئے توسیع بھی شرک ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اوروجود سے اللہ کے حق کا تحقق اور اس کا اثبات شرک کے زمرے میں آئے گا۔ تاہم اس کا اطلاق کسی اور کے لئے کرنا تبھی توحید کی نفی ہوگا جب اس بات کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ثابت کر دیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی امتیازی حق کی نفی اور بطلان ہوا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو محض مشترک اور عمومی صفت کی بناء پر اسے شرک کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ رب العزت نے اپنی تخلیقی صفات کی تعریف قرآنِ حکیم میں بہت سے مقامات پر بیان کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر شرک فی الخلق کی کوئی قسم اللہ تعالیٰ کے عملِ تخلیق میں کسی کے شریک ہونے کی مظہر ہے تو لامحالہ اسے عقیدہِ توحید فی الخلق سے متصادم و متعارض سمجھا جائے گا اور دونوں کے مابین براہِ راست تضاد و عدم موافقت کا امکان پیدا ہونے سے توحید فی الخلق کے عقیدے کی نفی ہو جائے گی۔ اس امر کا تعین کرنے کے لئے کہ آیا ان دونوں امکانات میں کسی قسم کا تضاد موجود ہے یا نہیں ہم ظن و تخمین اور اپنی صوابدید سے فیصلہ کرنے کی بجائے قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
1۔ سورۃ البقرۃ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌo
’’وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لیے پیدا کیا، پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے انہیں درست کر کے ان کے سات آسمانی طبقات بنا دیئے، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ ‘‘
البقرۃ، 2: 29
2۔ زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلاً لاَّ رَيْبَ فِيهِ.
’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے (وہ) اس بات پر (بھی) قادر ہے کہ وہ ان لوگوں کی مثل (دوبارہ) پیدا فرما دے اور اس نے ان کے لئے ایک وقت مقرر فرما دیا ہے جس میں کوئی شک نہیں۔‘‘
بنی اسرئیل، 17: 99
3۔ سورہِ نوح میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًاo وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًاo
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح سات (یا متعدّد) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ (طبق در طبق) پیدا فرمائے۔ اور اس نے ان میں چاند کو روشن کیا اور اس نے سورج کو چراغ (یعنی روشنی اور حرارت کا منبع) بنایا۔‘‘
نوح،71: 15۔16
ان آیاتِ کریمہ میں توحید فی الخَلق کے باب میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ جو کچھ زمین میں ہے وہ اس نے تمہارے لئے پیدا کیا۔ پھر وہ آسمانی کائنات کے بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا اور اس بالائی کائنات کو سات آسمانی طبقات میں منقسم کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی توحید فی الخلق اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰہی اس کائنات ارضی و سماوی میں ہر چیز کا خالق ہے۔ اسی نے تخلیق کائنات کو بہ تمام و کمال پایہ تکمیل تک پہنچایا اور وہی اس امر کا حق دار ہے کہ بلاشرکت غیرے اس کی عبادت کی جائے۔ اس لئے کہ وہی خالق حقیقی ہے اور جو کچھ دنیا و ماسویٰ میں پیدا کیا گیا وہ اسی کی صنعت گری اور صفت تخلیق کا آئینہ دار ہے۔
اس نے عالمِ ارض و سماوات کے پیداہونے کا ذکر کرکے انسان کو اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ وہی ساری کائنات کا خالق و مالک ہے۔ زمین تا تحت الثریٰ کارخانہِ قدرت وہی چلا رہا ہے اور آسمانوں کے بالائی کرّوں کا مالک بھی وہی ہے۔ کائناتِ ارضی و سماوی کا نظام اس کے ہاتھ میں ہے تو کیا یہ کہنا ممکن ہے کہ بینا اور نابینا برابر ہوسکتے ہیں؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ اسی طرح تاریکی اور روشنی برابر نہیں ہوسکتے۔ یہ سب کچھ بیان کرکے وہ کفار و مشرکین سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ شرکاء جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں لاکھڑے کئے ہیں اس کے برابر ہوسکتے ہیں؟ جبکہ اس نے کسی کو بھی اپنا شریک و سہیم نہیں بنایا۔ اس سوال کا جواب بھی جو حتمی طور پر نفی میں ہے۔ اس کی توحید فی الخلق کا واضح اعلان ہے۔
توحیدفی الخلق میں دلائل و شواہد کی بنا پر ان مشرکین سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جن چیزوں کی وہ پوجا کرتے ہیں کیا وہ کوئی ایسی چیز تخلیق کرنے کی قدرت رکھتے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ رکھتا ہے؟ اور کیا وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرح خلق کرنے کی قابلیت استطاعت اور قوت و اہلیت سے بہرہ ور ہیں؟ دوسرے لفظوں میں کیا وہ اللہ کی مثل کو ئی چیز پید اکر سکتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب بھی یقینا نفی میں ملے گا۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی تمام اشیاء کا خالق اور مالک ہے۔ اس بناء پر وہی اس امر کا حقدار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ توحید فی الخلق کے مطابق وہی دن رات کا خالق ہے، سورج، چاند، اجرام فلکی، اور آفاق اسی کے بنائے ہوئے ہیں جیسا کہ اس نے متعدد مقامات پر قرآن حکیم میں تفصیلاً بیان کیا ہے۔ درج ذیل آیتِ کریمہ میں مشرکین کی زبان سے اسی بات کے اقرار کا بیان ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہِ لقمان میں فرمایا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَo لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُo
’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا۔ تو وہ ضرور کہہ دیں گے کہ اللہ نے، آپ فرما دیجئے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اللہ ہی کا ہے، بیشک اللہ ہی بے نیاز ہے (ازخود) سزاوارِ حمد ہے۔‘‘
لقمان، 31: 25۔26
قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے سے متعلق صفات کا ذکر کرکے کفارو مشرکین سے سوال کیا کہ کیا وہ بت اور تماثیل جن کی تم پرستش کرتے ہو تخلیق کرنے کی وہ صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ خالق ہونے کے ناطے رکھتا ہے۔ پھر وہ اس امر کی تائید و توثیق کرتا ہے کہ جب یہ بت کسی چیز کو پیدا کرنے کی قدرت ہی نہیں رکھتے تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواء اور کوئی عبادت و پرستش کے لائق اور حق دار نہیں۔ اللہ کی ذات ہی ہر چیزکے پیداکرنے کی ابتداء اور اس کا اعادہ کرتی ہے اور اس کے لئے ہر بات آسان ہے۔ اس نے تمام کائنات بنائی۔ زمین و آسمان اور ان میں مخلوق اسی کی پیدا کردہ ہے اور وہی وقتِ معین پرہر چیز کو ختم اور سامانِ ہستی کو نیست و نابود کر دے گا۔ ایک زلزلہ اور شدید جھٹکے کے نتیجے میں تمام کائنات ہست سے نیست میں بدل جائے گی۔
اللہ رب العزت کی ذات قادرِ مطلق ہے۔ سب دانائی اور حکمت کا وہی مالک ہے۔ کائنات میں کوئی دانائی و حکمت میں اس جیسا نہیں اور نہ کوئی اس کی ہمسری کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ اس کائنات میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا شریک اور ساجھی نہیں۔
توحید فی الربوبیت میں شرک کے دو درجے ہیں: ذات اور خلق۔ اب اگر کوئی شرک کا الزام عائد کر رہا ہے تو اسے اس حوالے سے وضاحت کرنا ہوگی کہ یہ شرک، توحید فی الربوبیت کے کس درجے کی نفی ہے۔ توحید فی الخلق کی نفی ثابت ہو جانے سے ہی شرک فی الخلق ہو گا ورنہ نہیں۔ اگر کوئی اللہ تبارک و تعالیٰ کی خالقیت کسی اور کے لئے ثابت کرتا ہے تو یہ شرک فی الخلق ہو گا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ زمین و آسمان کو کوئی اور بھی پیدا کر سکتا ہے، خواہ جزوی طور پر ہی کیوں نہ ہو تو ایسا عقیدہ رکھنا شرک فی الخلق ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یہ کہے کہ چھ آسمان تو اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں مگر ایک کسی اور نے بنایا ہے یا کوئی شخص اس جہانِ ارضی کا خالق کسی اور کو مانے یا یہ دعویٰ کرے کہ سورج، چاند، ستارے فلاں نے بنائے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی ایسا عقیدہ ہی نہیں رکھتا تو پھر شرک فی الخلق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
توحید فی الخلق کی طرح شرک فی الخلق کا عقیدہ بھی قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اب کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ توحید فی الخلق کے مظاہر کی اس صراحت کے بعد اس کی تغلیط و تردید میں کچھ کہنے کی جسارت کرے۔
1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ قُلِ اللّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَo
’’آپ (ان سے دریافت) فرمائیے کہ کیا تمہارے (بنائے ہوئے) شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تخلیق کی ابتداء کرے پھر (زندگی کے معدوم ہو جانے کے بعد) اسے دوبارہ لوٹائے، آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہی (حیات کو عدم سے وجود میں لاتے ہوئے) آفرینش کا آغاز فرماتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ (بھی) فرمائے گا، پھر تم کہاں بھٹکتے پھرتے ہو؟‘‘
یونس، 10: 34
تفسیر القرآن بالقرآن کے استفہامیہ انداز میں اللہ تعالیٰ نے اس آیہِ مبارکہ میں بطورِ استدلال فرمایا کہ کیا خدا کے علاوہ کوئی اور بھی کائنات کو خلق کرنے اور عمل تخلیق کا اعادہ کرنے پر قادر ہے؟ پھر اس کا جواب نفی میں دیتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود ہی ارشاد فرمایا کہ یہ تخلیق کرنا اور اس کا اعادہ کرنا صرف اللہ رب العزت کی شان ہے۔ اس طرح توحید فی الخلق اور شرک فی الخلق کا فرق بڑی صراحت کے ساتھ واضح کرنے کے ساتھ اس کی تعریف بھی بیان فرما دی۔
2۔ سورۃ النحل میں ارشاد فرمایا:
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ لاَ يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَo
’’اور یہ (مشرک) لوگ جن (بتوں) کو اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔‘‘
النحل، 16: 20
اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کو چیلنج کیا کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں کی عبادت کرتے ہیں کیا وہ کسی کو پیدا کر سکتے ہیں؟ پھر خود ہی فرمایا کہ نہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ تو خود پیدا کئے گئے ہیں۔ اس وضاحت میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی تعریف خود ہی بیان کر دی اور شرک کو اس بنیاد پر رد کیا کہ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے پر قادر ہی نہیں ہے۔ اب اگر یہ عقیدہ کسی غیر کے لئے اس شانِ خالقیت کے ساتھ مانا جائے گا تو شرک ہوگا ورنہ نہیں۔
حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ کسی مخلوق کے لئے لفظِ خالق کا استعمال مجازی معانی میں ہوا ہے۔ اس لئے کہ حقیقی معنی میں کوئی بھی خالق نہیں ہو سکتا جس معنی میں اللہ تبارک و تعالیٰ خالق ہے۔ اگر اس معنی میں کوئی یہ عقیدہ کسی اور کے لئے رکھے خواہ پیغمبر ہی کے لئے کیوں نہ ہو تو وہ مشرک ہو جائے گا۔ شرک ہوتا ہی تب ہے جب شانِ خالقیت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا لیا جائے۔ جب آپ نے کسی کو مخلوق مانا اور خالق نہیں مانا تو شرک فی الخلق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آیتِ مبارکہ کے الفاظ ’’ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ‘‘سے ثابت ہے کہ خالقیت کا دعویٰ کرنے والے تو خود مخلوق ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی کسی غیر کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ وہ خالق نہیں بلکہ مخلوق ہے اور اس کے ساتھ مجازی طور پر صفتِ خلق بھی منسوب ہو جائے تب بھی شرک نہیں ہو گا۔
3۔ قرآن نے ارشاد فرمایا:
وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًاo
’’اور ان (مشرکین) نے اللہ کو چھوڑ کر اور معبود بنا لیے ہیں جو کوئی چیز بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے لیے کسی نقصان کے مالک ہیں اور نہ نفع کے اور نہ وہ موت کے مالک ہیں اور نہ حیات کے اور نہ (ہی مرنے کے بعد) اٹھا کر جمع کرنے کا (اختیار رکھتے ہیں)۔‘‘
الفرقان، 25: 3
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید بیان کر دی۔ اب اگر کوئی اس کی نفی اور اللہ تعالیٰ کی شان یکتائی میں تضاد پیدا کرتا ہے تو وہ مشرک قرار پائے گا۔ عقیدہِ توحید کے قرآنی تصور نے خالق و مخلوق کے حوالے سے صفتِ خلق کی وضاحت کر دی کہ نظریہِ تخلیق کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے۔ عقیدہِ توحید و شرک کا قرآنی تصور اس ابہام کو دور کرکے یہ واضح کر دیتا ہے کہ حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق نہیں ہے۔
پس دوسروں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ خالق نہیں بلکہ مخلوق ہیں موت و حیات کے مالک نہیں اور نہ مرنے کے بعد اٹھائے جانے کے مالک ہیں تو اس عقیدے سے شرک فی الخلق کی نفی ہو جاتی ہے۔ شرک فی الخلق تب ہو گا جب کوئی کسی غیر اللہ کو زندگی و موت کا خالق مانے۔ لیکن وہ جو خود پیدا ہوا ہے اور جسے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، موت کا خالق کیسے ہو سکتا ہے؟ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ وہ قیامت کے دن دوبارہ جی اٹھے گا اور قیامت کے دن کا خالق اللہ رب العزت ہے تو وہ توحید پر ہے۔ اور اگر کوئی یہ عقیدہ نہیں رکھتا تو وہ مشرک ہے۔
اللہ تعالیٰ احسن الخالقین (سب سے بہتر پیدا کرنے والا) ہے وہ بچے کی پیدائش کے وقت یہ بھی فیصلہ کر تا ہے کہ اسے اندھا پیدا کرنا ہے یا بینا۔ اپنے اسی فیصلے کے مطابق وہ رحمِ مادر سے نابینا بچہ (Blind by Birth) پیدا فرماتا ہے جبکہ دوسری طرف قرآن مجید میں حضرت عیسیٰں کے معجزات بیان کیے گئے ہیں کہ وہ مٹی سے پرندے کی شکل جیسا پتلا بنا کر اس میں پھونک مار دیتے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا۔ برص کے مریض کو اپنے دست مسیحائی سے ٹھیک کر دیتے۔ مادر زاد نابینا کو بینائی عطا کر دیتے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مردے کو زندہ کر دیتے۔ اسی طرح بن دیکھے کھائے پیئے اور ذخیرہ کئے ہوئے مال و متاع کا بتا دیتے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَرَسُولاً إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَo
’’اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا (ان سے کہے گا) کہ بیشک میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں۔ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پُتلا) بناتا ہوںپھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفایاب کرتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مُردے کو زندہ کر دیتا ہوں، اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بیشک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔‘‘
آل عمران، 3: 49
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خلق کے فعل کی نسبت اپنی طرف کرنا مادر زاد اندھے کو بینائی دینا اور مردے کو زندہ کر دینا یہ سارے عمل انہوں نے واحد متکلم کے صیغے سے بیان کئے۔ ایک اور مقام پر ارشادِ ربانی ہے:
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُo
’’جس نے موت اور زندگی کو (اس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔‘‘
الملک، 67: 2
موت اور زندگی کا خالقِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے اور یہ اسی کی شانِ خلاقی ہے جبکہ دوسری طرف قرآن کا بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پرندے میں زندگی پیدا کردی اور اڑا دیا۔ گویا جس کو اللہ تعالیٰ نے موت دی اسے اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے زندگی دی۔ لوگ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پاس نابینا بچہ لے کر آتے اور آپ علیہ السلام اسے اپنے معجزے سے بینا کر دیتے۔ وہ یہ نہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ اسے بینائی عطا کرے گا بلکہ اسے بینا کرنے کا عمل اپنی طرف منسوب کرتے کہ اسے میں بینائی عطا کرتا ہوں۔ یعنی جس کو اللہ تعالیٰ نے بینائی نہیں دی۔ حضرت عیسیٰں نے اس کو بینائی دے دی ماں کے پیٹ سے بغیر بینائی کے پیدا ہونا کسی حادثے یا بیماری کا نتیجہ نہیں بلکہ پیدائشی ہے کیا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی توحید فی الخلق میں مداخلت سے تعبیر نہیں ہوگا؟
ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی شخص کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا اور وہ قبر میں مدفون بھی ہو گیا پھر جب اس کی لاش حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پاس لائی جاتی تو وہ باذن اللہکہہ کر معجزاتی طور پر اس کے مردہ جسم میں زندگی کی روح پھونک دیتے اور وہ زندہ ہو کر کھڑا ہو جاتا۔ کیا یہ عمل شرک فی الخلق ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس لئے کہ حضرت عیسیٰں کا مردوں کو زندہ کرتے وقت قُمْ بِاِذْنِ اللہ کہہ دینا اس تصور کی وضاحت ہے کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہی خالقِ حقیقی ہے۔ بینائی اور زندگی دینے کے حوالے سے کہے گئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ سے تصورِ شرک کی نفی ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ الفاظ کہنے پر مامور تھے اور ان کو یہ معجزہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تھا۔ لہٰذا اس معجزے کے نتیجے میں ہونے والے مافوق الفطرت اعمال کا حقیقی فاعل اللہ تعالیٰ خود ہے۔
انبیائے کرام علیہم السلام، اولیاء، صوفیاء اللہ تعالیٰ کے منتخب اور مقبول بندے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ کچھ معاملات میں اختیار دے دیتا ہے جن کے دائرے میں رہ کر وہ اس اختیار کو بروئے کار لاتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے مختار و مجاز ہوتے ہیں۔ اس کی مثال قانون کی زبان میں یہ ہے کہ کوئی عرض گزار اس امر کا مجاز ہوتا ہے کہ چاہے وہ خود اصالتًا اپنے مقدمہ کی پیروی کرے یا وہ وکالتاً کسی کو بطورِ نائب اس امر کا اختیار سونپ دے۔ کسی موکل کے نمائندے عدالت میں اس کے وکلاء ہوں یا عدالتی قانون دان، وہ اپنے موکل کی وکالت کرتے ہوئے یا تو سیدھی سادھی زبان میں یہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے فریق کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی اور اس کا فلاں حق مجروح ہوا ہے، یا بصورتِ دیگر استعاراتی زبان استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں: میرا فلاں حق سلب ہوا، میری فلاں جائداد کو نقصان پہنچا اور فلاں اموال سرقہ کی وجہ سے ضائع ہو گئے۔ دیکھا جائے تو حقیقت میں وکیل کے ساتھ ذاتی طور پر وہ کچھ نہیں ہوا ہوتا جو وہ بیان کر رہا ہے بلکہ جس کی نمائندگی کررہا ہے اس کے ساتھ ہوا ہوتا ہے ۔ لیکن وکیل کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے موکل کی ترجمانی میں صیغہ واحد غائب کی بجائے صیغہ واحد متکلم ادا کرے۔ لہٰذا حضرت عیسٰی علیہ السلام اور دیگر انبیاء اور اولیاء کرام اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت کے تحت کسی مردے کو زندہ کرنے اور لاعلاج مریض کو شفا یاب کرنے کے عمل کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ تو ان کا ایسا کرنا بلاتشبیہ و بلامثال اسی طرح ہے جیسے وکیل اور نمائندہ مدعی کی طرف سے ذمہ دار ہوتا ہے لیکن وہ ذمہ داری مجازی معنی میں ہوتی ہے حقیقی معنی میں نہیں۔
سورہِ آل عمران کی زیرِ نظر آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی زبان سے اپنے خالق ہونے کا اعلان کرایا۔ ساتھ ہی مٹی سے پرندہ بنانے کے فعل کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرتے ہوئے حضرت عیسیٰں نے کہا: ’’میں اللہ کے حکم سے مٹی سے پرندے بناتا ہوں‘‘ اورپھر سورہ المائدہ کی آیت نمبر 110 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کی تصدیق فرماتے ہوئے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے عمل کی تائید میں وہی الفاظ دہرائے: اے عیسٰی! تو نے میرے اذن سے مٹی سے پرندے بنائے، بیماروں کو تندرستی اور زندگی دی، کوڑھیوں کو شفا یاب کیا اورمردوں کو زندہ کیا۔ یہ ساری باتیں جب اللہ تعالیٰ کے حکم اور اذن سے ہوئیں تو خودبخود شرک کی نفی ہوگئی۔
خالقِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے مارنا اور زندہ کرنا حقیقی معنی میں اسی کے ساتھ مختص ہے۔ لیکن وہ چاہے تو اپنے مقبول بندے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرف مٹی سے پرندوں کے پیدا کرنے کے عمل کو منسوب کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیقی صفت، صیغہِ واحد حاضر کے استعمال سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نسبت سے بیان ہوئی۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمائے ہوئے الفاظ اپنے مفہوم میں بڑے واضح ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ حضرت عیسیٰں کو پرندوں کا خالق کہنے سے شرک کا ارتکاب ہوا تو پھر سوال پیدا ہوگا کہ شرک کا مرتکب کون ہو رہا ہے؟ جبکہ خالق کائنات نے خود قرآن مجید میں حضرت عیسیٰں کے معجزاتی عمل تخلیق کی تائید فرمائی ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں کہ میں مٹی سے پرندوں کو پیدا کرنے کی نسبت اپنی طرف کرتا ہوں تو ایسے میں شرک اور توحید میں فرق کی توضیح توجیہہ کیا ہو سکتی ہے؟ کیا ایسی صورت میں شرک سے بچنے کی کوئی سبیل ہے؟ ہاں ہے وہ یہ کہ اس آیت میں جو کچھ بیان ہوا یا دعویٰ ہوا اس کو شرک سے پاک رکھنے اور اس کو تابع توحید بنانے کا ایک ہی طریقہ اور کلمہ ہے اور وہ ہے باِذْنِ اللہ یعنی اللہ کے اذن سے۔ اس طرح وہ چیز جو بادی النظرمیں ناممکن اور توحید کے منافی ہے ممکن اور عین توحید ہو جاتی ہے۔
اس ضمن میں دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں پرندے پیدا کرنے کے عمل میں یہ پانچ الفاظ اس ترتیب سے بیان ہوئے یعنی:
قرآن حکیم میں کئی جگہ اس طرح کے الفاظ آئے ہیں۔ ان الفاظ کو شرک سے کس چیز نے محفوظ رکھا ہوا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ا گر ان پانچوں الفاظ کے سیاق و سباق سے بِاِذْنِ اللہ ہٹا دیں تو یہ شرک ہو گا۔ کیا کوئی یہ کہنے کی جسارت کرسکتاہے کہ اللہ رب العزت شرک کو اپنے قرآن کا مضمون بنا کر معاذ اللہ شرک کی تعلیم خود اپنے پیغمبرکی زبان سے دے رہا ہے؟ جبکہ پیغمبر تو آتے ہی توحید سکھانے کے لئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام قرآن مجید بھی سراسر توحید پر مبنی ہے۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ بھی ہرگز شرک نہیں بلکہ یہ بھی دراصل توحید پر لوگوں کا ایمان مضبوط کرنے کے لئے رونما ہوا۔ اس لئے یہ بھی عملِ توحید ہے اوراسے توحید بنانے والے ’’باذن اللہ‘‘ کے الفاظ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اجازت کسی عمل میں شامل ہو گئی تو یہ ساری چیزیں تابع توحید ہو گئیں۔
یہاں یہ بات بڑی قابلِ غور ہے کہ آیت مذکورہ بالا کے کلمات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بالصراحت ان امور کی نسبت اپنی طرف کی اور اپنے لئے خالق، نافخ، باری، خالق الموت اور خالق الحیات کی صفات بیان کیں، حالانکہ ان افعال کا فاعلِ حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہے۔ پس جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ’’باذن اللہ‘‘ کے کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے منسوب ہو کر ظاہری الفاظ اور معانی سے قطع نظر توحید قرار پایا اسی طرح سرورِ کائنات نبیِ آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات بھی توحید قرار پائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تو پوری زندگی معجزہ ہے۔ جب ’’بِاِذْنِ اللہ‘‘کی شق نے حضرت عیسیٰں کے معاملے کو شرک نہیں رہنے دیا اور یہ مضمون توحید پر مبنی ہو گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزہ کا بیان کیسے شرک سے تعبیر ہوسکتا ہے؟ ہم اللہ رب العزت کے نبی پیغمبر اور ولی کے بارے میں خلاف واقعہ کوئی چیز بیان نہیں کرتے بلکہ ان کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جوکچھ ان سے صادر ہوتا ہے وہ ’’بِاِذْنِ اللہ‘‘ ہی ہوتا ہے وہ کسی چیز کے ذاتی مالک ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے۔ یہی عقیدہ قاطعِ شرک ہے کیونکہ باذن اللہ نوازشات و عنایاتِ الٰہیہ کو اللہ کی عطا کہنا ہرگز شرک نہیں۔ البتہ الفاظ کے حقیقی اور استعاراتی مفہوم میں فرق اور تمیز روا رکھنی بہرحال ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی تخلیق کی قدرتِ کاملہ کو اس کے بندوں سے منسوب کرنے کے نتیجے میں توحید اور شرک کا بیان خلط مبحث ہو کر رہ جائے گا۔
اظہار کے دو مختلف طریقے ہیں اور وہ دونوں قرآن مجید میں مذکور ہیں جن میں پہلا حقیقی اور دوسرا مجازی مفہوم کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی صفت اور خصوصیت کی درجہ بندی کرتے ہوئے بعض صفات و خصوصیات کو حقیقی اور بعض کو استعاراتی معنوں سے تعبیر کیا جاتاہے۔ اوّل الذکر خصوصی اور امتیازی صفات ہیں جبکہ مؤخر الذکر محض استعاراتی و مجازی مفہوم رکھتی ہیں۔ شرک کی نفی اور توحید کا تحقق و اثبات تبھی ممکن ہے اگر امتیازی اور خصوصی صفت میں حقیقی اعتبار سے خالق کے ساتھ کسی اور کا اشتراک نہ مانا جائے۔
ان صفات و خصوصیات کے حوالے سے جو اللہ رب العزت نے انبیاء و رسل اور مخلوق میں قدرِ مشترک کے طور پر پیدا کی ہیں الفاظ، تصورات اور جملوں کے استعمالِ عام کی کئی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں: جیسے لفظِ شہید اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور مخلوق کے لئے بھی۔ رؤوف، رحیم اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ہے اور اس کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی اور سمیع بصیر اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور انسان کے لئے بھی۔ ان مثالوں کے قرآنی حوالے ظاہر کرتے ہیں کہ مخلوق کے لئے ان خصوصیات اور اختیارات کا استعمال مجازی اور استعاراتی مفہوم میں لیا گیا ہے اور وہ جائز ہے البتہ اگر یہی خصوصیات و صفات اور امتیازات اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں تو وہ حقیقی مفہوم میں ہوں گی نہ کہ مجازی مفہوم میں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ معنی اور اطلاق کی تبدیلی سے شرک کا امکان باقی نہیں رہتا۔
خالق اور مخلوق کے درمیان اشتراکِ صفات کے حوالے سے توحید و شرک کے تمام تر مظاہر کو سمجھنے کے لئے دو فنی اور تکنیکی چیزیں کلیدی درجہ رکھتی ہیں۔ ایک یہ کہ کسی صفت کا امتیازو اختصاص حقیقی، مستقل اور غیر متبدل صرف ذاتِ باری تعالیٰ کے لئے مانا جائے دوسری یہ کہ اس امتیاز و اختصاص میں اشتراک کو مخلوق کے لئے مجازی، فانی اور متبدل معانی کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔ یہی دو امکانات ہیں، ان کے سوا کوئی تیسرا امکان نہیں۔ ان کلیدی صفات کا فہم توحید اور شرک کے فرق کو سمجھنے کے لئے بنیادی تقاضا ہے۔ اس فرق کو خالق اور مخلوق کے درمیان ملحوظ رکھا جائے تو توحید باری تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ماننا خارج از امکان ہو جائے گا۔ توحید اور شرک دونوں الگ الگ اور واضح تر ہوجائیں گے دونوں کو سمجھنے میں کوئی شک و شبہ اور التباس واقع نہیں ہوسکے گا۔
مندرجہ بالا اصول کے تحت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد اور کسی بزرگ کا عرس منانا نفی شرک اور اعلانِ توحید ہے۔ اگر اس بات کا کوئی امکان حیطہِ خیال میں ہوتا کہ کوئی متنفس بغیر پیداہوئے اس دنیائے رنگ و بو میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوسکتا ہے تو وہ وجود حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہوتا لیکن جب ہم اعلانیہ ببانگ دہل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مناتے ہیں تو پھر شرک کا شائبہ بھی باقی نہیں رہتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق میں بلند ترین ہستی ہیں لیکن خدا نہیں پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا جشن منانا توحید باری تعالیٰ کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اِسی طرح اولیاء اللہ کا عُرس منانا بھی اِس امر کا واضح اظہار کرنا ہے۔ کہ وہ مخلوق ہیں، پیدا ہوتے ہیں اور وصال فرماتے ہیں اس لیے خالق نہیں ہیں۔ کیونکہ صفتِ خالقیت کا ان پر اطلاق نہیں ہوسکتا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved