اللہ تعالیٰ کا بے حد و بے شمار شکر ہے جس نے اپنے بے پایاں فضل و کرم سے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائی کہ عقیدہ توحید اور ردِّ شرک کے باب میں شکوک و شبہات اور پیدا کردہ اُلجھنوں کا حل پیش کرنے کی خدمت بجا لا سکیں۔
اَلْحَمْدُ َللہِ عَلَی ذَالِکَ حَمْدًا کَثِيْرًا، وَصَلَّی اللہُ عَلَی سَيِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِهِ وَصَحْبِهِ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ.
دینِ اسلام میں عقیدہ توحید پہلا اور بنیادی رکن ہے۔ اسلامی نظریہ حیات اسی تصور کو انسان کے رگ و پے میں اتارنے اور اس کے قلب و باطن میں جاگزیں کرنے سے متحقق ہوتا ہے۔ تصورِ توحید کی اساس تمام معبودانِ باطلہ کی نفی اور ایک خدائے لم یزل کے اثبات پر ہے۔ عقیدہ توحید پر ہی ملتِ اسلامیہ کے قیام، بقا اور ارتقاء کا انحصار ہے۔ یہی توحید امتِ مسلمہ کی قوت اور تمکنت کا سرچشمہ اور اسلامی معاشرے کی روح رواں ہے۔ یہ توحید ہی تھی جس نے ملتِ اسلامیہ کو ایک لڑی میں پرو کر ناقابلِ تسخیر قوت بنا دیا تھا۔ یہی توحید سلطان و میرکی قوت و شوکت اور مردِ فقیر کی ہیبت و سطوت تھی۔ اس دورِ زوال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ملتِ اسلامیہ جو سوزِ دروں سے خالی ہو چکی ہے اس کے دل میں عقیدئہ توحید کا صحیح تصور قرآن و سنت کی روشنی میں ازسرِ نو اجاگر کیا جائے۔ تاکہ مردِ مومن پھر لَا اور اِلَّا کی تیغِ دو دم سے مسلح ہو کر ہر باطل استعماری قوت کا مقابلہ کر سکے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ:
تا دو تیغِ لا و الاّ داشتیم
ما سِوَ اللہ را نشان نگذاشتیم
’’نفی واثبات کی تلوار جب تک ہمارے ہاتھ میں تھی ہم نے ما سو اللہ یعنی اللہ کے سوا ہر غیر اور باطل کا نام و نشان تک مٹا دیا تھا۔‘‘
الغرض عقیدہ توحید دینِ اسلام کی اساس اور بنیاد ہے، اِس کی صحت کے بغیر انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت اور شفاعت کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ توحید تمام عقائد کی جڑ اور اصل الاصول ہے اور اعمالِ صالحہ دین کی فرع ہیں۔ درخت کی بقا فروع سے نہیں اصل سے ہوتی ہے۔ شاخوں اور پتوں سے درخت قائم نہیں رہتا۔ جس طرح دل و دماغ انسان کی اصل ہے اور آنکھ، ناک، کان، زبان، ہاتھ اور پاؤں فروع ہیں اِسی طرح دین اِسلام کی اصل عقائد ہیں اور اعمالِ صالحہ اس کی شاخیں ہیں۔ دین اِسلام کا پہلا اور بنیادی رکن توحید ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفاتِ اُلوھیت اور کمالاتِ حقیقیہ سے متصف ہے اور اپنی اُن صفات و کمالات میں یکتا اور واحد و لاشریک ہے۔
توحید ’وحدت‘ سے بنا ہے جس کا معنی ہے: ایک کو ماننا اور ایک سے زیادہ ماننے سے انکار کرنا۔ ائمہ لغت نے توحید کی تعریف اس طرح کی ہے:
التوحيد تفعيل من الوحدة، وهو جعل الشيء واحداً، والمقصود بتوحيد اللہ تعالی اعتقاد أنه تعالی واحد في ذاته وفي صفاته وفي أفعاله، فلا يشارکه فيها أحد ولا يشبهه فيها أحد.
’’توحید ’الوحدۃ‘ سے باب تفعیل کا مصدر ہے۔ اس سے مراد کسی چیز کو ایک قرار دینا ہے۔ اللہ کی توحید سے مراد ہے اس چیز کا اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور افعال میں واحد و یکتا ہے ان میں اس کا کوئی شریک ہے نہ کوئی اس کا مشابہ۔‘‘
شریعت کی اصطلاح میں یہ عقیدہ رکھنا توحید ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور جملہ اوصاف و کمالات میں یکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئی ساجھی یا شریک نہیں، کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔‘‘
1۔ امام ابو جعفر الطحاوی رحمۃ اللہ علیہ ( 321ھ) عقیدہ توحید کی تشریح کرتے ہوئے اس کے شرعی و اصطلاحی مفہوم کو درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
نقول في توحيد اللہ معتقدين بتوفيق اللہ: اِن اللہ وَاحِدٌ لا شريک لهُ. ولا شيئ مثلهُ ولا شيئ يعجزهُ، ولا الٰه غيرهُ، قديم بلا اِبتدائٍ، دائم بلا انتهائٍ. لا يفنی ولا يبيد. ولا يکون إلا ما يريد. لا تبلغهُ الأوهام ولا تدرکهُ الأفهام. ولا يشبههُ الأنام، حَيّ لا يموت، قيوم لا ينام. خالق بلا حاجة. رازق بلا مؤنة، مميت بلا مخافةٍ، باعث بلا مشقةٍ. مازال بصفاتهِ قديمًا قبل خلقه لم يزدد بکونهم شيئًا لم يکن قبلهم من صفتهِ. وکما کان بصفاتهِ ازلياً کذالک لا يزال عليها أبديا، ليس بعد خلقِِ الخلق استفادَ اِسم الخالق، ولا بأحداثهِ البرية استفاد اِسم البارئ. لهُ معنٰی الربوبية ولا مربوب، و معنی الخالق ولا مخلوق. وکما انهُ محی الموتٰی بعد ما احيا استحق هذا الإسم قبل احيائهم کذالک استحق اسم الخالق قبل انشائهم. ذالک بأنهُ علی کل شيئٍ قدير، وکل شيئٍ إليه فقيره، وکل أمر عَليه يسير لا يحتاج إلٰی شيئٍ، ليس کمثله شيئ وهو السميع البصير. خلق الخلق بعلمهِ وقدر لهم اقدارًا وضرب لهم اٰجالاً. ولم يخف عليه شیء قبل أن يخلقهم. وعلم ما هم عاملونَ قبل أن يخلقهم. وأمرهم بطاعته ونهاهم عن معصيته. وکل شيئٍ يجری بتقديرهِ ومشيئتهِ، و مشيئته تنفذ. لا مشيئة للعباد اِلاَّ مَا شائَ لهم، فما شاء لهم کان وما لم يشأ لم يکن. يهدی من يشآئُ ويعصم ويعافی فضلًا، ويضل من يشآئُ ويخذلُ ويبتلی عدلا. وکلهم يتقلبون فی مشيئتهِ بين فضلهِ وعدلهِ. وهو متعال عن الأضدادِ والاندادِ، لارادّ لقضائِهِ ولا معقب لحکمهِ ولا غالب لامرهِ. اٰمنا بذالک کلهُ وايقنا ان کلا من عندهِ.
’’ہم اللہ رب العزت کی توحید پر اعتقاد رکھتے ہوئے اُسی کی توفیق سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات یکتا و یگانہ ہے اُس کے ساتھ کوئی شریک نہیں، کوئی شے اُس کی مثل نہیں اور کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو کمزور اور عاجز نہیں کر سکتی، اُس کے سواء کوئی لائقِ عبادت نہیں۔ وہ قدیم ہے جس کے وجود کے لئے کوئی ابتداء نہیں، وہ زندہ جاوید ہے جس کے وجود کے لئے کوئی انتہاء نہیں۔ اُس کی ذات کو فنا اور زوال نہیں۔ اُس کے ارادہ کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ اُس کی حقیقت فکرِ اِنسانی کی رسائی سے بلند ہے اور اِنسانی عقل و فہم اُس کے ادراک سے قاصر ہے۔ اس کی مخلوق کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں ہے۔ وہ ازل سے زندہ ہے جس پر کبھی موت وارد نہیں ہوگی اور ہمیشہ سے قائم رہنے والا ہے جو نیند سے پاک ہے۔ وہ بغیر کسی حاجت کے خالق ہے، وہ بغیر کسی محنت کے رازق ہے۔ بغیر کسی خوف و خطر کے وہ موت دینے والا ہے۔ وہ بغیر کسی مشقت کے دوبارہ زندہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل ہی اپنی صفاتِ کاملہ سے متصف تھا۔ اُس نے مخلوق کے وجود سے کوئی ایسی صفت حاصل نہیں کی جو اُسے پہلے سے حاصل نہ تھی۔ جس طرح ازل میں وہ صفاتِ اُلوہیت سے متصف تھا اُسی طرح ابد تک بلاکم و کاست اِن سے متصف رہے گا۔ اُس نے اپنے لئے خالق اور باری کا نام مخلوقات اور کائنات کی پیدائش کے بعد حاصل نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کو ربوبیت کی صفت اُس وقت بھی حاصل تھی جب کوئی مربوب یعنی پرورش پانے والا نہ تھا اور اُسے خالق کی صفت اُس وقت بھی حاصل تھی جب کسی مخلوق کا وجود ہی نہ تھا۔ جس طرح وہ مُردوں کو زندہ کرنے والا انہیں زندہ کرنے کے بعد کہلایا حالانکہ وہ انہیں زندہ کرنے سے پہلے بھی اِس نام کا مستحق تھا اِسی طرح مخلوق کی ایجاد سے پہلے بھی وہ خالق کے نام کا مستحق تھا۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، ہر چیز اُس کی محتاج ہے، ہر امر کا کرنا اس پر آسان ہے اور وہ خود کسی کا محتاج نہیں، اُس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے اور وہی سننے والا دیکھنے والا ہے۔ اُس نے مخلوق کو اپنے علم کے مطابق پیدا کیا ہے، اُس نے مخلوق کے لئے ہر ضروری چیز کا اندازہ اور مقدار پہلے سے مقرر اور متعین کر دی ہے اور اُس نے اُن کی موت کے اوقات مقرر کر دئیے ہیں۔ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے بھی اُس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں تھی، اُسے ان کی تخلیق سے قبل ہی علم تھا کہ یہ لوگ (پیدا ہونے کے بعد) کیا کریں گے۔ اُس نے انہیں اپنی اطاعت کا حکم دیا اور اپنی نافرمانی و سرکشی سے منع کیا۔ ہر چیز اُس کی مشیت اور تقدیر کے مطابق چلتی ہے اور اسی کی مشیت و ارادہ نافذ ہوتا ہے۔ بندوں کی (اپنی) کوئی مشیت و ارادہ نہیں ہوتا مگر جو وہ ان کے لئے چاہے پس جو وہ ان کے لئے چاہے وہی ہوتا ہے اور جو وہ نہ چاہے نہیں ہوتا۔ وہ جسے چاہے اپنے فضل سے ہدایت کی توفیق دیتا ہے، نافرمانی سے بچاتا ہے اور معاف کرتا ہے، اور وہ جسے چاہے اپنے عدل کی بناء پر گمراہ کرتا ہے، رسوا ٹھہراتا ہے اور عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ تمام لوگ اُس کی مشیت کے اندر اُس کے فضل اور عدل کے درمیان گردش کرتے رہتے ہیں۔ نہ کوئی اُس کا مدِّمقابل ہے اور نہ کوئی شریک۔ اُس کے فیصلہ کو کوئی رد کرنے والا نہیں، اُس کے حکم کے آگے کوئی پس و پیش کرنے والا نہیں اور کوئی اس کے امر پر غالب آنے والا نہیں۔ ہم اِن تمام باتوں پر ایمان لا چکے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ اُس کی طرف سے ہے۔‘‘
ابو جعفر الطحاوی، العقیدۃ الطحاویۃ: 9۔11
2۔ امام ابوالحسن الاشعری رحمۃ اللہ علیہ ( 324ھ) توحید کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں:
المتفرد بالتوحيد، المتَمَجِّد بالتمجيد، الذي لا تَبْلُغُه صفاتُ العبيد، وليس له مثل ولا نَديد، وهو المبدي المعيد، الفعَّالُ لما يريد، جلَّ عن اتخاذ الصاحبة والأبنائ، و تقدس عن ملامسة النسائ، فليست له عَثَرة تُقال، ولا حَدٌّ يُضْرَب له فيه المثالُ، لم يَزَل بصفاته أولًا قديرًا، ولا يَزَال عالمًا خبيرًا، سبق الأشياء عِلْمُهُ، و نفذت فيها إرادتهُ، ولم تعزُب عنه خفيَات الأمور، ولم تغيِّره سوالفُ صروف الدهور، وَلَمْ يَلْحَقْه في خَلقِ شيئٍ مما خلق کَلال ولا تعبٌ، وَلا مَسَّهُ لُغوبٌ ولا نَصَبٌ، خَلَقَ الأشيائَ بقدرته، و دبَّرها بمشيئته، وقهرها بجبروته، وذلّلها بعزته، فذلَّ لعظمته المتکبِّرون، واستکان لعز ربوبيته المتعظِّمون، وانقطع دون الرسوخ في علمه الممترون، و ذلَّت له الرقاب، و حارت في ملکوته فِطَنُ ذوي الألباب، وقامت بکلمته السمٰوات السبع، واستقرت الأرض المهاد، وثبتت الجبال الرواسي، وجرت الرياحُ اللواقحُ، وسار في جو السماء السحابُ، وقامت علی حدودها البحارُ، وهو اللہ الواحد القَهار يخضعُ له المتعزَّزون، و يخشع له المترفِّعون، ويدين طوعًا و کرها له العالمون.
’’اللہ تبارک وتعالیٰ وہ ذات ہے جو توحید کے اعتبار سے یکتاہے، تمجید کے اعتبار سے قابلِ تعریف ہے، اس ذات کو بندوں کی صفات نہیں پا سکتیں، اس کا کوئی مثل اور نظیر نہیں، وہی ہر چیز کی ابتداء کرنے والا ہے اور اس کو اصل حالت پر لوٹانے والا ہے، وہ جو ارادہ فرمائے اسے کر دینے والا ہے، وہ بیوی اور بیٹے رکھنے سے بلند و برتر ہے، وہ عورتوں کے میل ملاپ سے پاک ہے، اس کی کوئی ایسی لغزش نہیں جسے ختم کیا جا سکے (یعنی اس کے تمام افعال لغزشوں سے پاک ہیں) اور نہ ہی اس کی کوئی ایسی حد ہے جس کی مثال دی جا سکے، وہ اپنی صفات کے ساتھ اوّل سے ہی قادر ہے، وہ ہمیشہ عالم اور خبیر رہا ہے، اس کا علم کل اشیاء سے پہلے ہے اور اس کا ارادہ اُن میں نافذ ہے، پوشیدہ امور میں سے کچھ بھی اس سے مخفی نہیں، گردشِ زمانہ نے ان میں کچھ تغیر نہیں کیا، کسی چیز کو بھی تخلیق کرنے میں اسے مشقت اور تھکان نہیں ہوئی، نہ ہی اسے کوئی کمزوری اور تکلیف پہنچی، اس نے تمام اشیاء کو اپنی قدرت سے تخلیق کیا، اپنی مشیت سے ان کی تدبیر کی، اپنی طاقت سے ان پر غالب رہا۔ اپنی قوت سے ان کو تابع کیا، پس متکبرین اس کی عظمت کے سامنے جھک گئے، اس کی ربوبیت کی عزت کے سامنے بڑے بڑے عاجز ہوئے، اس کے علمِ راسخ کے آگے شک کرنے والے ختم ہوگئے، اس کے لئے گردنیں خم ہوگئیں، عقلمندوں کی عقل و دانش اس کی بادشاہی میں متحیر ہوگئیں، اس کے کلمہ کے سبب ساتوں آسمان قائم ہوئے، فرشِ زمین نے قرار پایا، بلند و بالا پہاڑ وجود میں آئے، آندھیاں چلیں، آسمانی فضا میں بادل چلنے لگے، سمندر اپنی حدود میں قائم ہوئے، وہی اللہ واحد و یکتا ہے، زبردست ہے جس کے سامنے طاقتور جھکتے اور بلند رتبہ رکھنے والے انکساری کرتے ہیں اور عالم طوعاً و کرہاً (پسند و ناپسند سے) اس کی اطاعت اختیار کرتے ہیں۔‘‘
ابو الحسن الاشعری، الابانۃ عن أصول الدیانۃ: 7
3۔ امام غزالی ( 505ھ) عقیدہ توحید کی وضاحت میں فرماتے ہیں:
إنه في ذاته واحدٌ لا شريکَ لهُ، فَردٌ لا مَثِيلَ له، صَمَدٌ لا ضِدَّ له، منفرد لا نِدَّ له، وأنه واحدٌ قديمٌ لا أوَّلَ لهُ، أزليٌّ لا بِدايَةَ له، مُسْتَمِرُّ الوجُود لا آخرَ له، أبَديٌّ لا نِهايةَ له، قَیُّومٌ لا انقِطَاعَ له، دَائِمٌ لا انصِرامَ له، لم يزل موصوفًا بنعُوت الجلال، لا یُقْضَی عليه بالانقِضَائ، والانْفِصَال، بتَصَرُّم الآباد وانقِرَاض الآجال، بل هو الأوَّلُ والآخِرُ، والظاهرُ والباطنُ، وهو بکل شيء عَلِيْمٌ.
وأنه ليس بِجِسْمٍ مُصَوَّر، ولا جَوْهر محدود مقدر، و أنه لا یُماثِل الأجسامَ، لا في التقدير ولا في قبول الانقِسام، و أنه ليس بجوهر ولا تَحلُّه الجواهرُ، ولا بِعَرَضٍ ولا تحله الأعراضُ، بل لا یُماثِلُ موجُوْدًا ولا يماثله موجودٌ، ليس کمثله شيئٌ ولا هو مِثْلُ شيئٍ، و أنه لا يحده المقدارُ، ولا تَحْوِيه الأقطارُ، ولا تُحِيْطُ به الجِهاتُ، ولا تَکتَنِفُه الأرضُوْن ولا السمواتُ، و أنه مُستَوی علی العرش علی الوجه الذي قَالَه، وبالمعنی الذي أرادَهُ، استوائً منزها عن المُمَاسَّة والاستِقْرَار، والتَّمَکُّن والْحُلُول والانتِقَال، لا يَحملُه العَرشُ، بل العرشُ و حَمْلتُه مَحمُولُون بِلُطف قُدرتِه، و مَقهورون في قبضته، وهو فوقَ العرش والسَّمائِ، وفوقَ کُلِّ شيئٍ إلی تَخُومِ الثَّرَي، فَوقيةٌ لا تزيده قُرْبًا إلی العرشِ والسمائِ، کما لا تزيده بُعدًا عن الأرض والثری، بل هو رَفِيعُ الدرجات عن العرش والسمائ، کما أنه رَفِيعُ الدرجات عن الأرض والثری، وهو مع ذلک قَرِيبٌ من کل مَوْجُوْدٍ، وهو أقربُ إلی العبد من حَبْلِ الْوَرِيْدِ، وهو علی کُلِّ شَيئٍ شَهِيْدٌ، إذا لا يماثل قُربُه قُربَ الأجسام، کما لا تُماثِل ذَاتُهُ ذاتَ الأجْسام، و أنه لا يَحُلُّ في شيئٍ ولا يَحُلُّ فيه شيئٌ، تَعالَی عن أن يَحْوِیه مکانٌ، کما تَقَدَّس عن أن يَحُدَّه زمانٌ، بل کان قَبْلَ أن خُلِقَ الزمانُ والمکانُ، وهو الآن علی ما عَلَيه کَانَ، و أنه بائِنٌ عن خَلْقِه بصفاته، ليس في ذاته سِوَاه، ولا في سِوَاه ذاتُه، و أنه مُقَدَّسٌ عن التَّغیِيْرِ والانتقال، لا تُحِلُّه الحوادثُ، ولا تَعْتَرِیه العَوَارِضُ، بل لا يزال في نَعُوْتِ جلاله مُنَزَّها عن الزوال، و في صفات کَمَالِهِ مُسْتَغْنِياً عن زيادة الاستکمال، و أنه في ذاته معلومُ الوجود بالعقول، مَرئِي الذات بالأبصار، نِعمَةً منه وَلُطفًا بالأبرار في دارِ القَرار، واتماما منه للنَّعِيمِ بالنظر إلی وَجْهه الکريم.
’’بے شک اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں واحد ہے جس کا کوئی شریک نہیں، یکتا ہے جس کی مثل کوئی نہیں، بے نیاز ہے جس کی ضد نہیں، منفرد ہے جس کی مانند کوئی نہیں، وہ ایسا واحد اور قدیم ہے جس کا اوّل کوئی نہیں، وہ ازل سے ہے جس کی کوئی ابتداء نہیں، اس کا وجود ہمیشہ باقی رہنے والا ہے جس کا کوئی آخر نہیں، وہ ابدی ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں، ہمیشہ قائم اور باقی رہنے والا ہے جس میں کوئی انقطاع نہیں، وہ جلالت کی صفت سے متصف رہا ہے، مدتوں کے خاتمہ اور زمانوں کی ہلاکت کے باعث اس فنائیت اور انجام کے سبب اس کے خلاف فیصلہ نہیں ہو سکتا، بلکہ وہی اوّل ہے، وہی آخر ہے، وہی ظاہر ہے اور وہی باطن ہے، وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
بیشک وہ کوئی جسم نہیں جس کی تصویر کشی کی جائے (وہ جسم سے پاک ہے)، نہ ہی وہ محدود جوہر ہے، جس کا اندازہ کیا جاسکے۔ وہ اجسام سے مماثلت نہیں رکھتا نہ ہی مقدار میں اور نہ ہی قبولِ تقسیم میں، وہ جوہر نہیں ہے اور نہ ہی جواہر اس میں حلول کرسکتے ہیں۔ اور وہ عرض نہیں ہے نہ ہی اعراض اس میں حلول کرسکتے ہیں (وہ جوہر و عرض سے پاک ہے)، بلکہ وہ کسی موجود کے مماثل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی موجود اس کے مماثل ہو سکتا ہے۔ کوئی چیز اس کی مثل نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز کے مثل ہے، مقدار اس کی حدبندی نہیں کر سکتی، اطراف اسے سمیٹ نہیں سکتے، جہات اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں، سب آسمان اور زمینیں اس کو گھیر نہیں سکتے (وہ مکان و جہت سے پاک ہے)، وہ اسی طرح اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا اس نے فرمایا، اس معنی کے ساتھ جس کا اس نے ارادہ کیا، اس کا یہ استواء فرمانا چھونے سے، قرار پکڑنے سے، تمکن و حلول اور انتقال سے منزہ ہے، عرش اس کو نہیں اٹھاتا، بلکہ عرش اور اس کو اٹھانے والے اس کی لطفِ قدرت کے سبب اٹھے ہوئے ہیں اور اس کے قبضہ قدرت میں بے بس ہیں، وہ عرش و سماء سے بلند ہے اور تحت الثریٰ تک ہر چیز پر فوق اور برتر ہے، یہ بلندی اس کے عرش اور آسمان تک کے قرب میں کچھ اضافہ نہیں کرتی جس طرح کہ وہ زمین و پاتال تک سے اُسے دور نہیں کرتی۔ بلکہ وہ عرش و سماء سے بلند مرتبہ ہے جس طرح کہ وہ زمین و ثریٰ سے بلند مرتبہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر موجود سے قریب ہے، وہ بندے کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، وہ ہر چیز پر نگہبان ہے، کیونکہ اس کا قرب اجسام کے قرب جیسا نہیں ہے جس طرح کہ اس کی ذات اجسام کی ذاتوں جیسی نہیں ہے، بے شک وہ کسی چیز میں حلول نہیں کرتا اور نہ کوئی چیز اس میں حلول کر سکتی ہے وہ اس سے بلند ہے کہ مکان اسے گھیر سکے، جس طرح وہ اس سے پاک ہے کہ زمانہ اس کا احاطہ کر سکے، بلکہ وہ زمان و مکان کی تخلیق سے پہلے تھا، وہ اب بھی اپنی اسی ازلی صفت پر قائم ہے، وہ اپنی مخلوق سے اپنی صفات کے اعتبار سے جدا ہے، اس کی ذات میں اس کے علاوہ کوئی نہیں اور نہ اس کے غیر میں اس کی ذات ہے، وہ تغییر و انتقال سے پاک ہے، حوادث اس میں داخل اور عوارض اس کو لاحق نہیں ہوسکتے، بلکہ وہ اپنی صفاتِ جلال میں پاک رہے گا اور اپنی کمال کی صفات میں وہ قبولِ اضافہ سے مستغنی ہے، عقل و دانش کے سبب وہ اپنی ذات میں وجودِ معلوم ہے، آنکھوں سے دکھائی دینے والی ذات ہے، دارِ آخرت میں یہ اس کی طرف سے نعمت اور نیکوکاروں کے لئے انعام ہوگا اور اس کی طرف سے اس نعمت کا اتمام و کمال اس کے حسین و جمیل چہرے کی زیارت پر ہوگا۔‘‘
غزالی، قواعد العقائد: 50۔54
4۔ امام عمر بن محمد النسفی( 537ھ) مفہومِ توحید کے بیان میں لکھتے ہیں:
والمحدِث للعالم هو اللہ تعالی الواحد القديم الحيُّ القادر العليم السميع البصير الشائي المريد. ليس بعرض، ولا جسم، ولا جوهر ولا مصوَّر، ولا محدود، ولا معدود، ولا متبعِّض، ولا متجزٍّ، ولا مترکب، ولا متناه، ولا يُوصف بالمَاهية، ولا بالکيفية، ولا يتمکن في مکان، ولا يجري عليه زمان ولا يشبهه شيئ، ولا يخرج عن علمه و قدرته شيئ.وله صفات أزلية قائمة بذاته وهي لا هو ولا غيره.
’’عالم کو سب سے پہلے وجود عطا کرنے والی ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے، جو کہ واحد ہے، قدیم ہے، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، قدرت رکھنے والا ہے، جاننے والا ہے، سننے والا ہے، دیکھنے والا ہے، چاہنے والا ہے، ارادہ کرنے والا ہے، وہ عرض نہیں ہے نہ جسم، نہ جوہر ہے نہ اسکی شکل و صورت، نہ محدود ہے نہ معدود (جس کو شمار کیا جا سکے)، نہ حصوں کی شکل میں ہے نہ جزء کی صورت میں، نہ مرکب ہے نہ متناہی، نہ اسے ماہیت کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے نہ ہی کیفیت کے ساتھ۔ وہ نہ کسی مکان میں متمکن ہے نہ ہی کوئی زمانہ اس پر جاری ہے، کوئی چیز بھی اس سے مشابہت نہیں رکھتی، اور کوئی چیز بھی اس کی قدرت اور اس کے علم سے خارج نہیں (ہر چیز اس کے احاطے میں ہے لیکن اس کی ذات ہر چیز سے ما ورا ہے)۔
’’اس کی صفات ازلی ہیں جو اس کی ذات سے قائم ہیں اور یہ صفات نہ ہی وہ (ذاتِ باری تعالیٰ) ہے اور نہ ہی اس کا غیر ہیں۔‘‘
نسفی، العقیدۃ النسفیۃ: 2
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق منقول ہے کہ ان کے سامنے کسی شخص کے زُہد و تقویٰ کی تعریف اِن الفاظ میں کی گئی کہ ’’وہ جانتا تک نہیں ہے کہ گناہ کیا ہے‘‘ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ایسے آدمی کے گناہ میں مبتلا ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ ‘‘
چنانچہ ’’تُعرَفُ الأشياء بأضدادها‘‘ (یعنی اشیاء کی صحیح معرفت اُن کی اضداد کی پہچان سے ہوتی ہے) کے اُصول کے تحت عقیدہ توحید کی معرفت کے لئے ضروری ہے کہ شرک اور اُس کی جملہ اقسام کو سمجھا جائے۔ توحید خدائے واحد کو لاشریک اور یکتا و یگانہ ماننے کا نام ہے اور کسی کو اس کا ساجھی، حصہ دار یا برابر کا شریک ٹھہرانے کا نام شرک ہے۔
لفظِ ’’شرک‘‘ شرکت سے بنا ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات میں اوروں کو شریک مانا جائے۔ صاحبِ لسان العرب لکھتے ہیں:
الشِّرْکةُ والشَرِکةُ سوائٌ: مخالَطَةُ الشريکين. يقال: اشترَکنا بمعنی تشارکنا، وقد اشترک الرّجلانِ و تشارکا و شارکَ أحدهُما الآخر.
’’شِرْکَۃٌ اور شَرِکَۃٌ کا معنی دو شریکوں کا ایک چیز میں ملنا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ہم شریک ہوئے یعنی آپس میں ہماری شراکت ہوئی اور دو شخص باہم شریک ہوئے یعنی دونوں میں شراکت ہوگئی اور ایک دوسرے کے ساتھ شریک بن گیا۔‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 10: 448
ائمہ علم الکلام اور ائمہ لغت نے شرک کا شرعی و اصطلاحی مفہوم درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
1۔ علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
الإشراک هو اثبات الشريک فی الألوهية، بمعنی وجوب الوجود کما للمجوس أو بمعنی استحقاق العبادة کما لعبدة الأصنام.
’’مجوس کی طرح کسی کو واجب الوجود سمجھ کر الوہیت میں شریک کرنا یا بتوں کی پوجا کرنے والوں کی طرح کسی کو مستحق عبادت سمجھنا، اشراک کہلاتا ہے۔‘‘
تفتازانی، شرح عقائد نسفی: 61
2۔ صاحبِ لسان العرب علامہ ابنِ منظور افریقی لکھتے ہیں:
وأشرک باللہ: جَعَلَ لهُ شَرِيکاً فی مُلْکهِ، تعالی اللہ عَنْ ذالِک، والشرک أن يجعل ﷲ شريکا فی ربوبيته، تعالی اللہ عن الشرکائِ والاندادِ، لأن اللہ وَحْدَهُ لا شَرِيْکَ له وَلَا نِدّ لهُ ولا نَدِيْد.
’’جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں نے اللہ تعالیٰ سے شرک کیا تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس نے کسی اور کو اللہ تعالیٰ کے ملک اور سلطنت میں شریک بنا دیا جبکہ اللہ تعالیٰ اس سے بلند وبرتر ہے، اور شرک کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت میں کسی کو شریک ٹھہرایا جائے حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات شریکوں اور ہمسروں سے پاک ہے،...کیونکہ وہ ذات واحد ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ اس کی کوئی نظیر اور نہ مثل۔ ‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 10: 449
ہمارے عہد میں جہاں اور تصوراتِ دین خلط ملط اور گڈ مڈ ہوئے وہاں بنیادی عقائد اِسلام بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ایمانیات کے باب میں توحید اور شرک کے ضمن میں بہت سے ابہام و التباس، مغالطے اور وساوس در آئے ہیں۔ بعض لوگوں نے بہت سی غلط فہمیاں اور عجیب و غریب قسم کے شکوک و شبہات لوگوں کے ذہنوں میں پیدا کئے ہیں۔ اِس لئے امت میں شدید ٹکراؤ اور اُلجھاؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے ہاں فکری وحدت اور تصوراتی واضحیت کا سخت فقدان پایا جاتا ہے جسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ اِس کتاب میں اِسی بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ عمل اگر کمزور ہو تو اِس کا علاج آسان ہے لیکن جب عقیدہ میں طرح طرح کے ابہام اور التباس پیدا کر دئیے جائیں تو پھر فکری وحدت کا برقرار رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اُمتِ مسلمہ کے خصائص میں سے ایک یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس کے لئے یہ خوشخبری دی ہے کہ اُمت مسلمہ کی اصل آزمائش مال و زر کی حرص و ہوس سے ہو گی لیکن یہ شرک میں مبتلا نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ باقی بگاڑ اور نقائص اپنی جگہ گھمبیر کیوں نہ ہوں مجموعی طور پر اُمت مسلمہ شرک سے محفوظ ہے۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
صَلّٰی رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی قَتْلٰی اُحُدٍ. ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ کَالْمُوَدِّعِ لِلْاَحْيَآئِ وَ الْاَمْوَاتِ. فَقَالَ: اِنِّيْ فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ. وَاِنَّ عَرْضَهُ کَمَا بَيْنَ اَيْلَةَ اِلَی الْجُحْفَةِ. اِنِّيْ لَسْتُ اَخْشٰی عَلَيْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِيْ. وَلٰـکِنِّيْ اَخْشٰی عَلَيْکُمُ الدُّنْيَا اَنْ تَنَافَسُوْا فِيْهَا، وَتَقْتَتِلُوْا فَتَهْلِکُوْا، کَمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ.
قَالَ عُقْبَةُ: فَکَانَتْ اٰخِرَ مَا رَاَيْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداء اُحد کی نمازِ جنازہ پڑھی، پھر آپ نے مبنر پر رونق افروز ہوکر اس طرح نصیحت فرمائی جیسے کوئی زندوں اور مردوں کو نصحیت کر رہا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا اور اس حوض کا عرض اتنا ہے جتنا مقام اَیلہ سے لے کر جحفہ تک کا فاصلہ ہے، مجھے تمہارے متعلق یہ خدشہ تو نہیں ہے کہ تم (سب) میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے لیکن مجھے تمہارے متعلق یہ خدشہ ہے کہ تم دنیا کی طرف رغبت کرو گے اور ایک دوسرے سے لڑکر ہلاک ہو گے۔
’’حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری بار منبر پر دیکھا تھا۔‘‘
مسلم، الصحیح،کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبینا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و صفاتہ، 4: 1796، رقم: 2296
یہ بات ذہن نشین رکھنے والی ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر معروف صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی یہ حدیث دراصل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری خطبہ کی روایت ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی خطبہ، کوئی باقاعدہ وعظ اور خطاب منبر پر نہیں فرمایا۔ اس اعتبار سے یہ روایت اور بھی اہمیت اختیار کر جاتی ہے اور اس میں بیان کیے گئے مضامین کی حجیت مزید مسلم ہو جاتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے شرک میں مبتلا ہونے کا خدشہ ظاہر نہیں فرمایا، اس کا معنی یہ ہر گز نہیں کہ کوئی فرد شرک نہیں کرے گا بلکہ من حیث الکل شرک جیسے ظلمِ عظیم سے امت محفوظ رہے گی۔
اُمتِ مسلمہ کی اکثریت جو سوادِ اعظم ہے اور جس کے شرک و گمراہی سے اعتقادی طور پر محفوظ ہونے کی ضمانت خود حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی ہے۔ ستم یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں بعض گروہوں کی طرف سے امتِ مسلمہ کی اکثریتی جماعت پر شرک کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی فتنہ ہے جس نے اُمت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اِس لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ توحید اور شرک کے موضوع پر آئندہ تفصیلی مباحث کو شرحِ صدر کے ساتھ سمجھنے کے لئے چند ضروری نکات کو ذہن نشین کر لیا جائے۔
1۔ توحید اور شرک دونوں ایک دوسرے سے متضاد اور مخالف تصورات ہیں۔ توحید ہر اُس چیز کی نفی کرتی ہے جو شرک ہے لہٰذا توحید اور شرک دو اصطلاحات ہیں، دو واضح عقیدے اور دو الگ الگ تصور ہیں جو آپس میں متقابل اور متخالف ہیں۔ اگر کوئی موضوع، کوئی عقیدہ یاعمل توحید ہے تو شرک اس کی عین نفی ہو گی مثلاً توحید سے مراد دن ہو تو رات شرک کہلائی گی، اگر توحید کی علامت ٹھنڈک ہو تو حرارت عین شرک ہو گی، توحید کی علامت طہارت ہو تو شرک عین نجاست ہو گی، توحید کی علامت نور ہو تو شرک عین تاریکی و ظلمت ہو گی۔ اِسی طرح اگر توحید کی علامت جنت ہے تو شرک عین جہنم ہے گویا توحید کا تضاد شرک ہے اور شرک کا تضاد توحید۔
2۔ غلط فہمی کی بناء پر بعض اوقات کسی ناجائز فعل کو بھی شرک تصور کر لیا جاتا ہے، اِسی جہالت نے بہت سی اُلجھنوں کو پیدا کیا ہے۔ توحید اور شرک آپس میں دو متضاد و متقابل تصورات ہیں جن کا آپس میں اتحاد اور اشتراک اسی طرح ناممکن ہے جس طرح ایمان اور کفر کا اتحاد ناممکن ہے۔ اِس لئے ضروری ہے کہ شرک کی اصطلاح کو کبھی بھی عمومی رنگ نہ دیا جائے، نہ ہی اِس کا اطلاق بے دریغ کرکے فتویٰ بازی کا بازار گرم کیا جائے۔
3۔ ازروئے شرع کسی بھی چیز کے بارے میں رائے کا اظہار کرتے ہوئے اچھی ہے یا بری، جائز ہے یا ناجائز ایسے الفاظ وسیع مفہوم میں اِستعمال ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات ملحوظِ خاطر رکھی جاتی ہے کہ ہر ناجائز عمل اسی طرح شرک نہیں ہوتا جس طرح ہر جائز عمل کو عینِ توحید نہیں کہتے۔ شرک کا مرتکب دائرہ اِسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ جبکہ کسی ناجائز اور حرام عمل کا مرتکب فاسق و فاجرتو بن جاتا ہے لیکن دائرہ اِسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں بعض لوگ جھٹ سے شرک کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں بلکہ مسلمانوں کی واضح اکثریت پر مشتمل طبقے کا نام بھی مشرک رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر ردِّ عمل میں اِسی طرح کے سخت فتاویٰ کا صادر ہونا لازمی ہے۔ چنانچہ شرک و بدعت کے فتوے ہر کسی کو اِتنی تیزی سے کفر کی وادی میں دھکیلے چلے جا رہے ہیں کہ سوسائٹی میں کسی بھی شخص کے اِسلام اور ایمان پر باقی ہونے میں شک ہونے لگتا ہے لہٰذا یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ شرک توحید کی عین ضد ہے یہ بلاواسطہ عقیدہ توحید کو رد کرنے کا نام ہے اور شرک کا مرتکب محض گنہ گار اور گمراہ نہیں بلکہ بے دین اور ایمان کے دائرے سے یکسر خارج ہوتا ہے۔
4۔ جب ایمانیات کے باب میں کسی خاص عمل یا عقیدہ پر شرک کا فتویٰ ناگزیر ہو جائے تو فتویٰ صادر کرنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اُس عقیدہ یا عمل سے توحید کی کون سی قسم پر زد پڑی ہے اور کس درجے کی نفی اور بطلان ہوا ہے اس پر مستزاد یہ بھی ثابت کرنا لازمی ہے کہ وہ عقیدہ یا عمل شرک کی کون سی قسم اور درجہ کے تحت آتا ہے گویا توحید اور شرک کی قسم، نوع اور فرع کا بھی تقابل میں متعین کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
5۔ ہر چیز کا شرعاً ایک مثبت پہلو ہوتا ہے اور ایک منفی مثلاً فرض ایک مثبت عمل ہے جس کے برعکس اِسی درجے کا حامل ایک منفی عمل ہے جسے حرام کہتے ہیں۔ کسی کام کے کرنے کے حکم میں مثبت طلب ہوتی ہے اور نہ کرنے کے حکم میں منفی طلب۔ لہٰذا شریعت ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ فلاں کام کریں اور فلاں کام نہ کریں۔پس احکام شریعت کی ہر دو سمت کی برابر درجہ بندی کے لئے ضروری ہے کہ مثبت اور منفی پہلو دونوں طرف ایک ہی سطح کے ہوں اور اہمیت کے اعتبار سے اِن میں ایک ہی طرح کی قوت کارفرما ہو۔ چنانچہ مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کے جو نتائج اور عواقب برآمد ہوں گے وہ یکساں طاقت کے ہوں گے۔ اب کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ ہر اُس چیز کو جو از روئے شرع ناپسندیدہ ہو اُس کو حرام کے پلڑے میں ڈال دے۔ ممکن ہے کہ وہ مکروہ تو ہو حرام نہ ہو۔ مکروہ میں ناپسندیدگی پائی جاتی ہے مگر حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ جیسے شریعت میں ہر جائز عمل فرض نہیں اِسی طرح ہر ناپسندیدہ عمل کو حرام نہیں کہا جا سکتا۔ مثبت طلب کا بلند ترین درجہ فرض کہلاتا ہے اور منفی طلب کا بلند ترین درجہ حرام۔ جبکہ شرک اِس حرام سے بھی اونچا درجہ ہے اِس لئے کہ وہ ’’امرِ فقہ‘‘ نہیں ’’امرِ عقیدہ‘‘ ہے۔
6۔ کتبِ اُصول فقہ میں احکامِ شریعت کی درجہ بندی کا نظم بیان کیا گیا ہے۔ راقم کی کتاب ’’الحکم الشرعی‘‘ میں اِس کی تفصیل موجود ہے۔ توحید اور شرک کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے یہاں تمثیلًا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ مثبت طلب میں احکام کا پہلا درجہ فرض، اس کے بعد واجب پھر سنت مؤکدہ، پھر سنت غیر مؤکدہ اور اُس کے بعد مستحب کا درجہ ہے۔ اس کے برعکس منفی طلب میں حرام کو فرض کے مقابل اور مکروہ تحریمی کو واجب کے مقابل رکھا گیا ہے۔ جب کہ اساء ت، سنت مؤکدہ کے مقابل ہے۔ چوتھے درجے میں مکروہ تنزیہی آتا ہے جو سنت غیر مؤکدہ کے مقابل ہے اور پانچویں درجے میں خلافِ اولیٰ (Uncommendable) ہے یہ مستحب کے مقابل ہے پھر اس کے بعد مثبت طلب اور منفی طلب دونوں میں مشترکہ مباح یا جائز کا درجہ ہے۔ اِن فقہی احکام کو درج ذیل متقابل ترتیب میں رکھ کر بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
احکامِ امر (طلبِ فعل) احکامِ نہی (ترکِ فعل)
اس درجہ بندی کے مطابق امر کے پانچ اور اس کے مقابلے میں نہی کے بھی پانچ درجے ہیں۔ جب کہ مباح دونوں طرف مشترک ہے ۔ یہاں پانچ مدارجِ امر کے مقابلے میں نہی کے بھی پانچ ہی مدارج ہیں اور اس کے بعد مباح کو صوابدیدی (Discretionary) درجہ میں رکھا گیا ہے جس میں نہ ثواب ہے اور نہ عتاب و عذاب بلکہ ایسے کاموں کو ہر کسی کی مرضی اور صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
7۔ فتویٰ صادر کرنا بہت بڑی، نازک اور اہم ذمہ داری ہے۔ ہر عالم اور فاضل بھی مفتی کے منصب پر فائز نہیں ہوتا کیونکہ کفر و شرک کا فتویٰ کسی کے ایمان کا فیصلہ ہے۔ اِس باب میں بڑی حزم و احتیاط اور لیاقت و دیانت درکار ہے کیونکہ ازروئے شرع اگر ایک چیز ناجائز اور حرام بھی ہو تو اِس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ شرک بھی ہو۔ گویا محض ممنوع اور حرام ہونے کی وجہ سے کسی فعل کو شرک نہیں کہا جا سکتا۔ حرام قرار دیتے ہوئے بھی یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اِس میں خلافِ شرع کس درجے کا منع ہونا پایا جاتا ہے کیونکہ منع کے بھی کئی درجے ہیں، کجا یہ کہ اُسے شرک کہا جائے حالانکہ شرک تو کفر کی آخری حد ہے۔
اِس علمی اور اعتقادی غلطی کی مثال روز مرہ زندگی سے اِس طرح دی جا سکتی ہے کہ کسی کو ہلکا سا زکام ہو اور کوئی نیم حکیم اُسے ٹی بی کا نام دے دے۔ کسی کو محض Infection ہو اور کوئی ڈاکٹر اُسے کینسر (Cancer) قرار دے دے۔ بجا ہے کہ یہ دونوں امراض نقصان دہ ہیں مگر اِس نقصان سے بڑھ کر یہ عمل کہیں زیادہ نقصان دِہ یہ بات ہے کہ غلط تشخیص کے ذریعے اُس مرض کو بڑھا چڑھا کر کچھ کا کچھ بنا دیا جائے۔ لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ علم الاحکام کو ذہن نشین رکھا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی عقیدہ و عمل کو شرک قرار دینے سے پہلے یہ تعین کیا جائے کہ اس کے ذریعہ جس عقیدہ و عمل کی نفی ہو رہی ہے کیا وہ عینِ توحید ہے بھی یا نہیں؟ کسی عمل کے شرک ہونے کیلئے لازم ہے کہ وہ توحید کی نفی کرے۔ اگر عین توحید کی نفی ثابت نہ ہو تو پھر وہ عمل ممنوع ہوتے ہوئے بھی شرک نہیں بن سکتا، اس پر شرک کا نہیں کوئی اور حکم صادر ہوگا۔
8۔ اسلام میں عقیدہ کی بلند ترین مثبت سطح ’’ایمان‘‘ کی ہے جس کے مقابلے میں اِسی درجے کی منفی سطح ’’کفر‘‘ کی ہے۔ گویا ’’مؤمن‘‘ کے مقابلہ میں ’’کافر‘‘ ہوگا ’’فاسق و فاجر ‘‘ کو ’’درجہ مؤمن‘‘ کے مقابل میں نہیں لایا جائے گا۔ کیونکہ فاسق، فسق کے باوجود دائرہ ایمان ہی میں رہتا ہے۔ اسی طرح اگر بحیثیت ایک مسلمان عقیدہ کی بلند ترین سطح ’’توحید‘‘ پر فائز ہے تو اس کے مقابلے میں کفر کے سب سے اونچے درجہ کا نام ’’شرک‘‘ ہے۔ چنانچہ اس ضابطہ کی رو سے صرف موحد مشرک کے مقابلہ میں ہوگا نہ کہ فاسق اورگنہ گار کے مقابلہ میں، کیونکہ فاسق اور گنہگار، گناہ کے باوجودموحّد رہتا ہے اور دائرہ ایمان یا عقیدہ توحید سے خارج تصور نہیں ہوتا۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ شرک کو فرض، واجب اور سنت کے مقابلے میں بھی نہیں رکھا جا سکتا، نہ کسی حرام کو شرک سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی فرض اور سنت کی نفی کو شرک گردانا جاسکتا ہے۔ فرض کے منافی کوئی اقدام حرام تو ہو سکتا ہے لیکن جب تک اس سے عقیدہ توحید پر زد نہ پڑے اسے شرک کے زمرے میں نہیں لایا جا سکتا۔ اِسی طرح کسی کویہ حق بھی نہیں کہ کسی اسا ء ت، مکروہ تحریمی، مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ یا مباح امر کو اٹھا کر شرک کے درجے تک لے جائے۔
یاد رہے کہ شرک صرف اس وقت وجو دمیں آتا ہے جب توحید کی واضح نفی کی جائے کیونکہ یہ بات حتمی طور پر طے شدہ ہے کہ توحید اور شرک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک کی واضح نفی کے بغیر دوسرا اَمر ثابت نہیں ہو سکتا۔ ورنہ اس سے دین و شریعت کا سارا نظام اُلٹ پلٹ ہو کر رہ جائے گا۔ کسی شخص کا ایک فتویٰ دوسرے کے ایمان کو بلا جواز کفر بنا دے گا جو سراسر ظلم اور احکامِ الٰہی کے خلاف نہ صرف بغاوت ہے بلکہ دین کے ساتھ حد درجہ زیادتی اور اسے بازیچہ اطفال بنا دینے کے مترادف ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ شرک کو ناقابلِ رد قطعی دلائل سے ثابت کیا جائے۔
9۔ ایمان اور توحید کی نفی ثابت کرنے کے لئے یہ تعین کرنا لازمی ہے کہ توحید کے جس درجہ کی خلاف ورزی ہوئی ہے اس کا شمار حقوق اللہ میں ہونا چاہیے اور یہ حق جس کی خلاف ورزی ہوئی کوئی عام یا مشترک حق نہ ہوبلکہ خالصتاً بلا شرکتِ غیرے اللہ کا حق ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ حق شکنی اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور افعال کے حوالے سے ثابت کی جائے اور اس میں اختصاص پایا جائے نہ کہ اشتراک۔ یعنی شرک کا حکم لگانے میں اس امر کو طے کرنا ضروری ہے کہ وہ حق جس کا کسی غیر کے لئے اثبات ہو رہا ہے خصوصی طور پر بلا اشتراک اللہ کا ہی حق تھا اور وہ صفت بلا شرکت غیرے اللہ کی ہی صفت تھی۔ اگر کسی ایسی صفت، فعل اور اسم کو جو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے کسی اور کے لئے ثابت کر دیا جائے تو اس پر شرک کا حکم لگایا جا سکے گا ورنہ نہیں۔ کسی عمومی صفت کا خالق اور مخلوق میں اشتراک شرک نہیں ہوتا اس میں اس بات سے فرق واقع ہو جاتا ہے کہ اس کا اطلاق دونوں جگہ مختلف معانی کے تناظر میں ہوا ہے اور اس کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ ظاہری طور پر دونوں یعنی خالق و مخلوق کی صفات کے بیان میں اِستعمال کیا جانے والا لفظ ایک ہی ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے لئے اس کی معنویت اور ہوتی ہے اور مخلوق کے لئے اور۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ شرک محض الفاظ کے اشتراک کے ذریعے وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ جب تک معنوی طور پر کسی عمل یا صفت کا مفہوم، دائرہ کار، حقیقت اور اطلاق مختلف رہے اس وقت تک وہ اشتراک خواہ اسمی ہو، فعلی ہو یا صفتی، منافئ توحید نہیں ہوتا، اِس لئے وہ باعث شرک بھی نہیں بنتا مثلاً سمیع، بصیر، کریم، علیم، رؤوف، رحیم، ولی اور مولٰی جیسے اسماء و صفات قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے لئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اور بعض ملائکہ کے لئے بلکہ عام انسانوں کے لئے بھی مشترک استعمال ہوئے ہیں۔
جو شخص کسی کے عمل کو توحید کے منافی خیال کرتے ہوئے اِس پر شرک کا الزام عائد کر رہا ہے جب تک وہ قرآن و سنت کے دلائل اور شواہد سے اس امر کو حتمی طور پر توحید کے منافی ثابت نہیں کر دیتا اُس وقت تک کسی عمل اور خیال کو مشرکانہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ کسی عمل کو بغیر ثبوت کے محض توحید کی نفی اور شرک نہیں گردانا جا سکتا۔
10۔ اس مقام پر وجہ شرک کو سمجھنا اور مدارِ شرک کو متعیّن کرنا از بس ضروری ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
والشرک اَن يثبت بغير اللہ سبحانه و تعالی شيئًا من صفاتهِ المختصة بهِ.
’’شرک یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفاتِ خاصہ میں سے کوئی صفت اس کے غیر کے لئے ثابت کی جائے۔‘‘
شاہ ولی اللہ، الفوز الکبیر: 27
ائمہ کلام کے نزدیک خاصہ کی تعریف یہ ہے کہ ’’مايوجد فيه ولا يوجد فی غيرهِ‘‘ (یعنی جو صفت جس کا خاصہ ہو اسی میں پائی جائے اور اس کے غیر میں نہ پائی جائے) لہٰذا صفاتِ خاصہ کا علی الاطلاق غیر کے لئے ثابت کرنا شرک ہے۔ شرک کا مدار محض اشتراک نہیں بلکہ مدارِ شرک چار باتوں پر ہے۔
11۔ صفاتِ مشترکہ جو خالق و مخلوق کے مابین مشترک ہیں مدار شر کی اساس کیفیت و ماہیت اور حقیقت و اصلیت پر ہے ان کے اطلاق کے وجوہ خالق کے لئے اور معنی میں ہیں اور مخلوق کے لئے اور معنی میں۔ صفاتِ خداوندی قائم بالذات ہیں، ذاتی ہیں، غیر محدود ہیں، قدیم ہیں، واجب ہیں اور اُس کی شانِ الوھیت کے لائق ہیں اور مخلوق کے لئے وہی صفات محدود ہیں، متناہی ہیں، ممکن ہیں، حادث ہیں اور ان کی شانِ مخلوقیت کے لائق عطائی ہیں۔ شرک کا مدار نہ تو کمیت پر ہے اور نہ توقیت پر، بلکہ کیفیت و ماہیت اور حقیقت و اصلیت پر ہے یعنی صفاتِ خداوندی جس کیفیت و ماہیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں انہیں اسی کیفیت و ماہیت اور حقیقت و اصلیت کے ساتھ غیر کے لئے بھی ثابت کیا جاسکے جب بھی اور جس وقت بھی ثابت کیا جائے گا شرک ہوگا خواہ وہ ثبوت لمحہ بھر کیلئے ہی ہو ورنہ نہیں کیونکہ صفاتِ الوہیت حقیقت و اصلیت اور کیفیت میں من کل الوجوہ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں۔ خالق اور مخلوق دونوں کے لئے وجوہِ اثبات الگ الگ ہیں ایک جیسے نہیں۔ صفاتِ مشترک میں صرف ظاہری اشتراک ہوتا ہے مثلاً ’’ولایت‘‘ صفاتِ مشترکہ میں سے ہے۔ اِس کا ثبوت اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ہے، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی ہے، جبرائیل امین علیہ السلام کے لئے بھی ہے اور صالحین کے لئے بھی۔ یہ نصِ قرآنی سے ثابت ہے۔
ولایتِ الٰہی، ولایتِ رسول، ولایتِ جبرئیل اور ولایتِ صالحین کا معنی، شان، کیفیت، ماہیت، اصلیت و حقیقت اور اطلاق کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا اور مختلف ہے۔ ولایتِ الٰہی جس معنی اور شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہے، اسی معنی اور شان کے ساتھ غیر اللہ کے لئے لمحہ بھر بھی ثابت نہیں ہو سکتی۔ یہی حال علم، رحمت، حیات، سمع و بصر اور کلام جیسی دیگر صفاتِ مشترکہ کا ہے۔ وہ خالق کیلئے بھی ثابت ہیں اور مخلوق کیلئے بھی، مگر جس شان، حقیقت اور معنویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہیں اگر اسی شان اور حقیقت و معنویت کے ساتھ مخلوق کے لئے ثابت نہیں اگر ایسا مان لیا جائے تو شرک واقع ہو جائے گا۔
اس کے برعکس اگر یہ شانیں، مختلف حقیقت اور مختلف معنی میں دونوں کیلئے تسلیم کی جائیں تو ہر گز شرک نہ ہو گا بلکہ اسے عین توحید کہا جائے گا۔ جس کی رو سے اللہ بھی ولی ہے، بندہ بھی ولی ہے۔ اللہ بھی علیم ہے، بندہ بھی علیم۔ اللہ بھی صاحبِ حیات ہے، بندہ بھی صاحب حیات۔ اللہ بھی کریم و رحیم ہے، بندہ بھی کریم و رحیم۔ اللہ بھی سمیع و بصیر ہے، بندہ بھی سمیع و بصیر۔ اللہ بھی صاحبِ کلام ہے اور بندہ بھی صاحبِ کلام مگر ان کا معنویٰ اطلاق مختلف ہوگا۔
خلاصہ یہ ہوا کہ مدارِ شرک کمیت پر نہیں بلکہ کیفیت و حقیقت پر ہے۔ اس لئے صفاتِ مشترکہ میں حقیقی اور مجازی یا ذاتی اور عطائی کی تقسیم زیادہ بلیغ اور معنی خیز ہے اس کے برعکس عادی و غیر عادی یا ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب وغیرہ کو مدارِ شرک بنانا محض الجھاؤ اور التباس پیدا کرنے کا موجب ہے۔
12۔ ہمیں توحید اور شرک کے باب میں ذاتِ حق اور اِس کے اسمائ، صفات اور افعال کی صحیح معرفت حاصل کرنی چاہیے کہ کہاں شانِ اختصاص ہے، کہاں انعامِ اشتراک ہے اور کہاں فیضِ انعکاس۔ کسی جگہ پر اس کی توحید، شانِ الوہیت کے ساتھ عدمِ شراکت کی آئینہ دار ہوتی ہے اور کسی جگہ شانِ ربوبیت کے ساتھ اپنے مربوب میں نیابت و مظہریت کا جلوہ دکھاتی ہے۔ کسی جگہ اس کی عظمت تنہاء و یکتا ہوتی ہے اور کسی جگہ خود مائل بہ عطا۔ وہ ’’کُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ‘‘کے جلوے میں بھی ہوتا ہے اور ’’فِيْ اَنْفُسِکُمْ اَفَـلَا تُبْصِرُوْنَ‘‘کے نظارے میں بھی۔ وہ ’’لَيْسَ کَمِثْلِهِ شَيْيئٌ‘‘کے رنگ میں بھی ہے اور ’’مَثَلُ نُوْرِهِ کَمِشْکٰوةٍ‘‘ کے ڈھنگ میں بھی۔ وہ ’’لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ‘‘ کی شان میں بھی ہے اور ’’اَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ‘‘ کی آن بان میں بھی۔ وہ بعید از وہم و گمان بھی ہے اور قریب از رگِ جاں بھی۔ وہ ورائے مکان و لامکاں بھی ہے اور جلیسِ حلقہ بندگان بھی، وہ مستغنی از حلف و یمین بھی ہے اور خود مُقسِم دیارِ اَمین بھی، وہ ذاکر بھی ہے مذکور بھی، طالب بھی ہے مطلوب بھی، محب بھی ہے محبوب بھی۔ وہ تنہا سزاوارِ صلوٰۃ بھی ہے اور خود کسی کا صلوٰۃ خواں بھی حتی کہ وہ خود سلام بھی ہے اور سلام بھیجنے والا بھی۔ الغرض وہ جس سے جو معاملہ چاہے کر دے وہ مالک اور قادر مطلق ہے، توحید اس کا حقِ خالص ہے اور شرک اس کی نفی کامل، سو اس باب میں کسی بھی حتمی فیصلہ سے قبل اس کے سارے فیصلوں کو نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ اس لا علمی میں یہ احتمال رہے گا کہ کہیں ہم دفاعِ توحید کے زعم میں انکارِ ربوبیت نہ کر بیٹھیں اور ردِّ شرک کے جوش میں انکارِ محبوبیت نہ کر بیٹھیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved