انسان کے مجبور یا مختار ہونے اور اپنے اعمال کے کاسب ہونے کے مسائل پر بحث مکمل کر لینے کے بعد یہ دیکھنا چاہے کہ اصل میں مسئلہ تقدیر کیا ہے؟ اور قضا و قدر میں باہمی فرق کیا ہے؟
’قدر‘ کا لغوی مفہوم ’اندازہ کرنا، وزن کرنا، طے کرنا اور مقرر کرنا‘ ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ارشاد باری تعاليٰ ہے :
وَکُلَّ شَيْئٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْ اِمَامٍ مُّبِيْنٍo
يٰسين، 36 : 12
’’اور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں احاطہ کر رکھا ہےo‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌo فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍo
البروج، 85 : 21-22
’’بلکہ یہ بڑی عظمت والا قرآن ہےo (جو) لوحِ محفوظ میں (لکھا ہوا) ہےo‘‘
نیز ارشاد فرمایا :
يَمْحُوا اﷲُ مَا يَشَآئُ وَيُثْبِتُج وَعِنْدَه اُمُّ الْکِتٰبِo
الرعد، 13 : 39
’’اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہےo‘‘
(لوح محفوظ یا ام الکتاب سے مراد ﷲ تعاليٰ کا وہ علم ہے جس میں سب چیزوں کے احوال موجود ہوں۔) ان تمام آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کائنات بشمول بنی نوع انسان کے احوال و کوائف کا علم اﷲ تعاليٰ کے پاس ازل سے موجود ہے، جسے اس نے ’ام الکتاب‘ یا ’لوح محفوظ‘ میں حفاظت سے لکھا ہوا ہے۔ اور ’کل شیئ‘ کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات کا کوئی ادنيٰ سے ادنيٰ ذرہ بھی اس کلیے سے ماوراء نہیں۔
بہت سی احادیث میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کَتَبَ اﷲُ مَقَادِيْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ اَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ قَالَ : وَکَانَ عَرْشُهُ عَلَی الْمَائِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب وکان عرشه علی الماء،
6 : 2699، رقم : 6982
2. مسلم، الصحيح، کتاب القدر، باب حجاج آدم وموسی عليهما السلام، 4 : 2044، رقم : 2653
’’اللہ تعاليٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال قبل مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں، جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے :
إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اﷲُ الْقَلْمَ فَقَالَ : أُکْتُبْ فَقَالَ مَا اُکْتُبُ؟ قَالَ أَکْتُبِ الْقَدَرَ مَا کَانَ وَمَا هُوَ کَائِنٌ إِلَی الأَبَدِ.
1. ترمذی، السنن، کتاب القدر، باب ماجاء في الرضا بالقضاء،
4 : 457، رقم : 2155
2. مقدسی، الأحادیث المختارة، 8 : 352، رقم : 429
’’سب سے پہلے اللہ تعاليٰ نے قلم کو تخلیق فرمایا اور اسے حکم دیا کہ لکھ۔ اسنے عرض کیا کہ کیا لکھوں؟ فرمایا : مخلوقات کی تقدیریں لکھو چنانچہ اس نے جو چیز ہو چکی تھی اور جو چیز ہونے والی تھی سب لکھ دیں۔‘‘
اسی طرح ایک موقع پر بعض صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بوجوہ ترک لذات کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لاَقٍ.
بخاری، الصحيح، کتاب النکاح، باب ما يکره من التبتل والحضاء،
5 : 1953، رقم : 4788
نسائی، السنن، کتاب النکاح، باب النهی عن التبتل، 3 : 264، رقم : 5323
’’تجھے جو کچھ ملنا ہے اسے قلم لکھ کر خشک ہو چکا ہے۔‘‘
اس موضوع پر بے شمار احادیث اور روایات مروی ہیں جن سے مسئلہ تقدیر کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ روایات مختلف محدثین نے ثقہ راویوں سے نقل کی ہیں۔ لہٰذا ان روایات کے مستند ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس قسم کی آیات اور احادیث کا جو مفہوم عوام الناس میں لیا جاتا ہے وہ قرآن و حدیث کی مراد کے قطعاً منافی بلکہ متضاد ہوتا ہے۔ عوام کے بعض حلقوں نے ان آثار و روایت سے یہ تاثر لیا ہے کہ مسئلہ تقدیر کا مفہوم نوشتہ تقدیر کے سامنے تمام مخلوق بالخصوص انسانوں کی بے بسی اور مکمل مجبوری ہے۔ عوام کے خیال میں مسئلہ تقدیر کے ذریعے اللہ تعاليٰ نے اپنے بندوں کومجبور اور مقید کر دیاہے وہ اس سے سرِ مو انحراف نہیں کر سکتے۔
ان دو مختلف اسلامی اصطلاحات میں خلط مبحث کے نتیجے میں عوام الناس اس مسئلے میں غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر ان دونوں اصطلاحوں کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو بڑی حد تک اس غلط فہمی کا ازالہ ہو سکتا ہے۔
قضا و قدر کے دو مفہوم ہیں، ان میں سے ایک آفاقی اور کائناتی سطح کے اعتبار سے اور دوسرا انسان کے شخصی و انفرادی احوال کے اعتبار سے ہے۔
آفاقی اور کائناتی اعتبا رسے قضا و قدر کا مفہوم یہ ہے کہ قضا کا مفہوم تخلیق اور قدر کا مفہوم اختیار ہے۔ اللہ تعاليٰ نے ساتوں آسمانوں، زمین اور کائنات کے ساتوں طبقات پیدا کئے اوران میں موجود لطیف و کثیف مخلوق کی تخلیق فرمائی، یہ اﷲ تعاليٰ کی قضا ہے۔ اسی بنا پر سورئہ حم السجدۃ میں ارشاد فرمایا گیا :
فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰی فِيْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَهَا.
حم السجدة، 41 : 12
’’پھر دو دِنوں (یعنی دو مرحلوں) میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا۔‘‘
یہاں قضا کا لفظ خَلق یعنی پیدائش کے معنوں میں مستعمل ہے، جبکہ قدر قدرت اور تقدیر و قدیر کے الفاظ جو قرآن حکیم میں کثرت سے استعمال کئے گئے ہیںان کا مفہوم ’اختیار‘ و ’اِختبار (چننا)‘ ہے۔اس طرح ’قضا و قدر‘ کے دو لفظوں میں تخلیق کائنات اور اس کی بقا و سا لمیت کا راز پنہاں ہے۔ ان دو الفاظ میں قانون تخلیق کی وہ بنیادی شق بیان کی گئی ہے جس کی بنیاد پر قدرت کا یہ عظیم اور پُرہیبت کارخانہ تخلیق کیا گیا اور اس کے ایک ایک ذرّے کو ادراک و شعور بخشا گیا ہے۔
انسان کی انفرادی اورشخصی سطح پر قدر کے معنی ’اندازہ‘ اور قضا کے معنی ’اِجرائ‘ کے ہیں۔
اصفهانی، المفردات، 1 : 407
اﷲ تعاليٰ نے اس دنیا میں انسان کے لئے اچھائی اور برائی تخلیق کرکے اسے اس میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے اور اپنے عمل کے لئے مخصوص کرلینے کا اختیار یعنی قدرت عطا فرمائی ہے۔ وہ چاہے تو نیکی کو اختیارکرے اور چاہے تو بدی کو اپنا وطیرہ بنالے۔ چنانچہ سورۃ البلد میں ارشاد فرمایا :
اَلَمْ نَجْعَلْ لَّه عَيْنَيْنِo وَلِسَانًا وَّ شَفَتَيْنِo وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِo
البلد، 90 : 8-10
’’کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔ اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دیے)۔ اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیے۔‘‘
بالفاظ دیگر اﷲ تعاليٰ نے انسان کو جس قدر ظاہری اور باطنی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، ان سب کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنی صلاحیتوں کو راہ خیر میں صرف کر کے مراتب کمال سے ہمکنار ہو جائے اور چاہے تو اپنی ان قوتوں کو بدی کے بیج بونے اور کاٹنے کے لئے وقف کردے۔ اﷲ تعاليٰ نے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِقف قَدْ تَّبَيَنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ.
البقرة،2 : 256
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا :
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْقف فَمَنْ شَآئَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْيَکْفُرْ.
الکهف، 18 : 29
’’اور فرما دیجیے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔‘‘
اﷲ رب العزت نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دین کی تبلیغ کے بارے میں تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغُ.
المائدة، 5 : 99
’’رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (احکام کاملاً) پہنچا دینے کے سوا (کوئی اور ذمہ داری) نہیں۔‘‘
انبیاء کرام علیہم السلام بھی اپنی اپنی قوموں کو تذکیرو موعظت کے بعد فرماتے تھے :
وَمَا عَلَيْنَآ اِلاَّ الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo
يٰسين، 36 : 17
’’اور واضح طور پر پیغام پہنچا دینے کے سوا ہم پر کچھ لازم نہیں ہےo‘‘
مقصد یہ تھا کہ پیغمبروں کا کام ایصال الی المطلوب نہیں بلکہ محض خدا کے پیغام کا پہنچانا تھا۔ حکم الٰہی پہنچ جانے کے بعد اب یہ کام متعلقہ فرد کا ہے کہ وہ چاہے تو نبی کی باتوں پر کان دھرے یا چاہے تو اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لے۔ اسی بنا پر سورۃ الکافرون میں اتمام حجت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
لَکُمْ دِيْنُکُمْ وَلِيَ دِيْنِo
الکافرون، 109 : 6
’’(سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔‘‘
’قدر‘ کے مفہوم کی وضاحت ہو چکی۔ قضا سے مراد وہ اصول اور وہ قوانین فطرت ہیں جن کے تحت یہ کارخانۂ قدرت اپنے اپنے وقت پر اپنے مخصوص خصائص و مصالح کے ساتھ معرض تخلیق میں لایا گیا ہے اور جن کے تحت اس کائنات کے نظام کی بقا کو علت و معلول، سبب اور مسبب نیز عمل اور ردعمل کے نظام کے تحت منضبط کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص نیکی کرے گا تو اس کے نتائج بھی نیک نکلیں گے اور برائی کے ثمرات بھی ویسے ہی برے ہوں گے۔ انسان جو کچھ کرے گا اس کا بدلہ پائے گا۔ جس مقصد کے لئے تگ و دو اور جدوجہد کرے گا اس کے حصول میں کامیاب و کامران ہو گا۔ اس تمام نظام قدرت کا نام قضائے الٰہی ہے۔ اس کا ذکر سورۃ البقرہ میں یوں کیا گیا ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَيْهِمْ ئَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَo
البقرة،2 : 6
’’بے شک جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے لیے برابر ہے خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گےo‘‘
بالفاظ دیگر جس شخص نے ہدایت کے آفتاب عالم تاب کی تمام تر جگمگاہٹوں کے باوجود کفر کے اندھیرے اور پُرخطر راستے ہی کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا اس کے ہدایت سے محروم رہنے کا فیصلہ قدرت کی طرف سے صادر کردیا جاتا ہے۔ یعنی ہدایت سے محروم رہنا خود اس کے اپنے فعل کا نتیجہ ہے۔ ایک دوسرے مقام پر ایسے لوگوں کی قلبی حالت کی ترجمانی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
کَلَّا بَلْ سکته رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا يَکْسِبُوْنَo
المطففين، 83 : 14
’’(ایسا) ہر گز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں)۔‘‘
اس مقام ضلالت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو اس کے دل پر نور کا ایک نکتہ ثبت ہوجاتا ہے اور اگر وہ نیکیاں کرتا چلا جائے تو اس کا دل بقُعہ نور بن جاتا ہے۔ پھر اس کی نیکی کا اثر اس کے چہرے پر بھی ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص برائی کرتا ہے اور اس پر خدا کے سامنے توبہ نہیں کرتا تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے۔ اب اگر وہ شخص توبہ کرلے تو وہ نکتہ محو ہو جاتا ہے۔ توبہ نہ کرے بلکہ دوسرا گناہ کرلے پھر تیسرا اور اسی طرح گناہ پر گناہ کرتا چلا جائے تو ہر گناہ کے بدلے اس کے دل پر ایک ایک نکتہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تاوقتیکہ اس کے دل کی دنیا سیاہ بادلوں کی طرح ظلمت کدہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اور اس میں قبول حق کی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہی وہ ران (زنگ) ہے جس کا ذکر سورۃ المطففین (کی آیت نمبر 14) میں کیا گیا ہے۔
طبری، جامع البيان، 30 : 90
یہاں پہنچ کر بندے میں قبول حق کا جذبہ مکمل طور پر مر جاتا ہے اور وہ مجسمۂ شیطنت اور سرچشمہ شر بن جاتا ہے۔ یہاں یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ان کے دل کا تاریک کردیا جانا نیز ان کے قلوب و اذہان پر مہر خداوندی کا ثبت ہو جانا ان پر کوئی ظلم ہے۔ اصل میں کہ یہ خود ان کے اپنے اعمال و کسب کا نتیجہ اور ثمرہ ہے نیز اُن کے اپنے افعالِ شنیعہ کا ردعمل ہے۔ انہوں نے جو کچھ چاہا تھا اس کا انجام انہیں دکھا دیا گیا۔
(اصول قضا کے تحت) یہ سب کچھ ہوتا اور بار بار دہرایا جاتا ہے، مگر قانونِ قدر کے تحت نافرمان بندوں کو قبولِ حق کے اختیار کے ساتھ ساتھ اﷲ تعاليٰ کی طرف سے حق کی دعوت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان کے کانوں اور آنکھوں کے بند دریچوں کو کھولنے اور ان کے مسخ شدہ قلوب و اذہان کو مائل بہ حق کرنے کی کوشش جاری رکھی جاتی ہے۔مزید برآں ان پر توبہ واستغفار کے دروازے بھی کھلے رکھے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ حکمِ قدر کے تحت ہمیشہ سے جاری رہا ہے اور جاری رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر
ءَ اَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ
(خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں) کا حکم نازل ہونے اور کفار و معاندین کے قلوب کے مسخ شدہ ہونے کی خبر زبانِ رسالت سے نشر کئے جانے کے باوجود بھی پیغمبر اسلام کی طرف سے ان کو ہدایت و تبلیغ جاری رہی اور ان کی ہلاکت سے پہلے کسی موقع پر بھی یہ فیصلہ نہیں کرلیا گیا کہ اب پیغام ہدایت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
البقرة، 2 : 6
عملی زندگی میں اس کی مثال اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص بے احتیاطی کرکے اور خراب اور ناقص غذائیں کھاکر اپنا معدہ مکمل طور پر خراب کرلے۔ جب جسمانی کمزوری اور ضعف حد سے بڑھنے لگے تو اپنی بیماری کا صحیح طریقے سے علاج کرانے کے بجائے از خود مرغن اور قوت بخش غذاؤں کا استعمال شروع کردے تو نتیجہ کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ ایسی طاقت ور غذائیں اس شخص کو مزید بیمار اور مضمحل کر دیں گی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ خوراک میں کچھ کمی ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس کے معدے میں اسے قبول کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہی۔ اب اگر مذکورہ شخص یہ شکایت کرنے بیٹھ جائے کہ لوگ یہی غذائیں کھاتے ہیں اور طاقت ور ہوجاتے ہیں اور میں روز بروز مزید کمزور ہوتا جارہا ہوں تو ایسے شخص کو ہمیشہ ایک ہی جواب ملے گا کہ اس میں نہ کسی دوسرے کا قصورہے نہ غذا کا۔ یہ تو اس کا اپنا قصور ہے کہ اس نے پہلے اپنا معدہ خراب کیا پھر اسی کیفیت میں مرغن غذائیں کھانی شروع کردیں۔
اسی طرح ایک شخص برائی کی زندگی اختیار کرتا ہے پھر اس راستے پر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اب اگر قلب کے متعفن اور مردہ ہوجانے کی وجہ سے اس میں قبول حق کی صلاحیت نہیں رہی اور اس پر کوئی اعليٰ سے اعليٰ نصیحت بھی کارگر نہیں ہوتی تو اس میں کسی دوسرے کا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی اس سوچ کا کوئی جواز ہے کہ ’میرا مقدر ہی خراب تھا۔‘ اسے چاہیے کہ وہ پہلے اپنے باطن کی اصلاح کرے جہاں سے اصل بگاڑ اور فساد شروع ہوا ہے جس بگاڑ کے ہوتے ہوئے اس پر تمام وعظ و نصیحت بے اثر ہو جاتی ہے اور پھر وعظ و نصیحت کی طرف دھیان دے۔
انفرادی اور شخصی سطح پر قضا و قدر کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ یہ دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں۔ ان میں سے اول الذکر یعنی ’قدر‘ کا تعلق بندے کے اختیار اور فعل سے ہے جبکہ مؤخر الذکر یعنی ’قضا‘ کا تعلق اﷲ تعاليٰ کے حکم کے نفاذ سے ہے۔ ان میں ترتیب یہ ہے کہ قدر ہمیشہ مقدم اور قضا ہمیشہ مؤخر ہوتی ہے۔
لفظی اعتبار سے قدر کے معنی اندازہ کرنا یا کسی چیز کو ماپنا اور تولنا ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے evaluation اور assessment وغیرہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
اِنَّا کُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍo
القمر، 54 : 49
’’بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرّرہ اندازے کے مطابق بنایا ہےo‘‘
اردو میں ’قدر‘ کا لفظ اندازے کے لئے استعمال ہوتا ہے، مثلاً ہم یہ کہتے ہیں کہ ’یہ چیز اس قدر کافی ہے‘ یا ہم یہ کہتے ہیں کہ ’یہ بات اس قدر درست ہے اور اس قدر غلط۔‘ پس قدر سے مراد اردو میں ایک خاص اندازہ اور مقدار ہوتی ہے جبکہ قضا کا معنی اظہار اور بیان ہے۔
قدرت نے اپنے عالم الغیب و الشہادۃ ہونے کی بنا پر تخلیق کائنات سے پہلے اپنے بندوں کو اختیارات اور آزادی دینے کا جو فیصلہ کیا تھا اس کا نام قدر ہے اور اس اندازے پر مبنی علم کے اظہار کا نام قضا ہے۔ جیسے کوئی انتہائی قابل اور تجربہ کار استاد اپنے شاگردوں میں سے کسی ایک کے متعلق کہہ دے کہ فلاں طالب علم ضرور فیل ہو گا اور ایک سال کے بعد وہ طالب علم فیل ہو جائے تو کیا استاد کا ایک سال پہلے اس کے فیل ہونے کی پیشن گوئی کرنا اس کے فیل ہونے کا باعث ہوا یا اس کا اپنا عمل؟ ظاہر ہے کہ استاد کا اعلان بچے کے مستقبل کو متاثرنہیں کر سکتا۔ استاد کے اس قول نے مذکورہ طالب علم کے فیل ہونے میںکوئی کردار ادا نہیں کیا۔ امر واقعہ ہے کہ وہ محض اور محض اپنی نالائقی اور بے توجہی کی وجہ سے فیل ہوا ہے۔ اگر وہ محنت کرتا تو اسے یہ دن دیکھنا کبھی نصیب نہ ہوتا۔ البتہ استاد کا ایک سال قبل بتا دینا اس کے کمال علمی اور مہارت تامہ کی دلیل ہے۔
اسی طرح محکمہ موسمیات کی طرف سے روزانہ موسمی حالات کی پیشن گوئی کی جاتی ہے جس میں کسی علاقے میں بارش کا ہونا اور کسی علاقے میں بارش کا نہ ہونا بھی شامل ہوتا ہے۔ اب اگر پیشین گوئی کے بعد اگلے روز بارش ہوجاتی ہے یا موسم خشک رہتا ہے تو ساری دنیا جانتی ہے کہ نہ بارش برسانے میں محکمہ موسمیات کا دخل ہے اور نہ موسم کی خشکی میں۔ یہ محض حالات سابقہ کے مختلف مخصوص نشانات اور علامات کی بنیاد پر مفروضہ معلومات کا اظہار تھا۔ بارش کا ہونا یا نہ ہونا تو نظام قدرت کا ایک حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر یہ پیشین گوئیاں غلط بھی ثابت ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح ماہرین فلکیات چاند یا سورج کے گرہن کی پیشین گوئی کرتے ہیں اور اس کے مطابق چاند اور سورج کو گرہن لگ بھی جاتا ہے۔ لیکن یہ گرہن اس پیشین گوئی کی وجہ سے تو نہیں لگتا بلکہ یہ نظام قدرت کا حصہ ہے۔
یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر لوگوں کو وقت سے پہلے آنے والے حوادث و واقعات کا پتا کیونکر چل جاتا ہے؟ وہ کیسے یہ معلوم کرلیتے ہیں کہ یہ واقعات رونما ہونے والے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس کائنات کا ہر وجود ایک معین و مقرر سمت کی جانب محوِ سفر ہے۔ اس کے سفر کے دوران میں پیش آنے والے ہر واقعے کی کوئی نہ کوئی علت اور غایت ضرور ہوتی ہے۔ خالق کائنات نے ہر علت کے ساتھ معلول اور ہر سبب کے ساتھ مسبب کو مشروط و ملزوم کردیا ہے۔ تو جو لوگ اس کائنات کے کسی حصے یا کسی نظام کے علت و معلول یا سبب اور مسبب کو جان جاتے ہیں، ان کے لئے واقعات کی رفتار کا رخ متعین کرنا اور ان کے وقوع کی ٹھیک ٹھیک گھڑیوں کا جان لینا دشوار نہیں رہتا۔ اس نوع کی تمام پیشین گوئیاں اسی زمرے میں آتی ہیں۔ یہ لوگ واقعات کے خارجی وقوع سے پہلے محض علت یا سبب کو جان کر اس کے معلول یا مسبب کا کھوج لگالیتے ہیں۔
اس تفصیل سے یہ بات بخوبی ظاہر ہوجاتی ہے کہ ماہرین فلکیات ہوں یا ماہرین موسمیات وہ اپنی پیشین گوئی کے ذریعے نظام کائنات کی سمت اور جہت تبدیل نہیں کرتے اور ایسا کر بھی نہیں سکتے۔ یہ جہت اور سمت تو خلاّق عالم نے ان کو ابتداء آفرینش سے عطا کر رکھی ہے۔ یہ لوگ تو فقط علامات کو جان کر آنے والی ایک طے شدہ حقیقت کا اظہار کرتے ہیں اور بس۔
زمانہ کے تین روپ ہیں : ماضی، حال اور مستقبل۔ ماضی تو ہم پر عیاں ہے کہ اس کے تمام واقعات لوح دہر پر مرقوم ہوکر سب کی نگاہوں میں آچکے۔ایک طرح سے حال بھی ہمارے علم اور ادراک کے دائرے میں ہے۔ البتہ مستقبل زمانے کا وہ حصہ ہے جو مکمل طور پر ہماری نگاہوں سے اوجھل اور مخفی ہے اس کی ایک ایک کڑی پردہ غیب میں مستور ہے۔ اسی بنا پرسورۂ لقمان میں مغیباتِ خمسہ (پانچ خفیہ اُمور) میں سے ایک امر یہ بھی ہے :
وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَاتَکْسِبُ غَدًا.
لقمان، 31 : 34
’’اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا۔‘‘
لیکن مستقبل ہر ایک کے لئے مخفی نہیں ہے۔ کوئی آنکھ ایسی بھی ہے جس کے سامنے مستقبل کا ہر واقعہ اپنی تمام جزئیات سمیت روز روشن کی طرح ظاہر و بینّ ہے۔ یہ ہستی خود ذات جلّ و علا کی ہے جس کے سامنے کائنات کاماضی، حال اور مستقبل کھلی کتاب کی طرح روشن ہے۔ اپنے وسیع علم اور غیر محدود ادراک کی بنیاد پر وہ یہ جانتا ہے کہ آئندہ زمانے میں کیا ہو گا اور کیا نہیں ہو گا۔ اس کی قدرتوں اور قوتوں کی طرح اس کا علم بھی بے پایاںہے۔ لیکن جس طرح کسی واقعے کا علم اس کے وقوع کی مجبوری اور قید نہیںبن سکتا اسی طرح یہ بے پایاں خدائی علم کسی انسان کی مجبوری نہیں ہو سکتا۔
(1) مولانا روم نے اس موضوع پر دو بڑی نفیس حکایات پیش کی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک چور کو شاہی پیادے پکڑ کر کوتوال کے پاس لائے اور بتایا کہ اس شخص کو ہم نے چوری کرتے ہوئے موقع پر گرفتار کیا ہے۔ کوتوال نے چور سے پوچھا تو نے چوری کی ہے؟ اس نے جواب دیا : ہاں لیکن میں نے جو کچھ کیا خدا کے حکم سے کیا۔ تو جانتا ہے کہ کائنات کا ایک ذرّہ بھی خدا کے حکم سے باہر نہیں ہے۔ یہ سن کر کوتوال نے پیادوں سے کہا کہ اسے درخت سے الٹا لٹکا کر اتنا مارو کہ کھایا پیا سب بھول جائے۔ یہ حکم سن کر چور نے گڑگڑانا اور رونا شروع کردیا تو کوتوال نے کہا : اب کیوں روتا ہے؟ یہ کام میں بھی خدا کے حکم ہی سے کر رہا ہوں۔
اسی طرح ایک شخص بغیر کسی اجازت کے باغ میں جاگھسا اور درخت پر چڑھ کر پھل توڑنے لگا۔ اتنے میں باغ کا مالک ادھر آنکلا اور اس شخص کو پھل توڑتے دیکھ کر بولا۔ ارے او بے حیا! یہ کیا حرکت ہے؟ پھل توڑنے والے نے جواب دیا : اگر اﷲ کا بندہ اﷲ کی پیدا کی ہوئی کھجور توڑ کر کھائے تو اس میں بے حیائی کی کون سی بات ہے؟ خدائے بے نیاز کی لازوال نعمتوں پر سانپ بن کر بیٹھنے والا تو کون ہے؟ یہ سن کر باغ کے مالک نے اپنے نوکر سے کہا : ذرا مضبوط سی رسی اور کوڑا لے آؤ تاکہ میں اﷲ کے اس بندے کو جواب دوں۔ غلام دوڑا دوڑا گیا اور دونوں چیزیں پیش کر دیں۔ باغ کے مالک نے چور کو اسی درخت سے باندھا اور اس کی کمر پر کوڑے برسانے شروع کردیے۔ چور نے کہا : ارے بھائی! کچھ تو خدا کا خوف کرو مجھے مار ڈالو گے؟ اس نے جواب دیا : چیخو مت، اﷲ کی پیدا کی ہوئی لکڑی سے اﷲ کا ایک بندہ اﷲ کے دوسرے بندے کو مار رہا ہے۔ آخر اس چور نے اپنے عقیدے سے توبہ کی اور اقرارکیا کہ بے شک انسان کو قوت اختیار یہ حاصل ہے۔
(حکايات رومی، 1 : 176)
خدا تعاليٰ نے اپنی نسبت ارشاد فرمایا :
وَعِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَايَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ.
الأنعام، 6 : 59
’’اور غیب کی کُنجیاں (یعنی وہ راستے جن سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں، انہیں اس کے سوا (اَز خود) کوئی نہیں جانتا۔‘‘
’مفاتیح الغیب‘ کہتے ہیں ’مخفی حقائق‘ کو۔ مطلب یہ ہے کہ کائنات کے حقائق مخفیہ غیبیہ کا علم خدا کے پاس ہے۔ خدا تعاليٰ کی ذات آفرینش کائنات سے پہلے موجود تھی۔ اس نے انسانوں اور دوسری کائنات کو پیدا کیا اور پھر انسانوں کو اپنے عمل کا مکمل اختیار عطا فرمادیا۔ انسانوں نے اپنے اس اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف اچھے اور برے کام کئے۔ کسی نے قتل کیا، کسی نے لوٹ مار مچائی، کسی نے بھلائی کی، کسی نے عدل و انصاف کے تقاضے پورے کئے۔ لڑائیاں لڑیں، ملک فتح کئے، زمین کو سنوارا، شہر آباد کئے، چھوٹی بڑی بستیاں آباد کیں۔ ان اعمال کے وقوع پذیر ہونے سے مختلف نتائج پیدا ہوئے۔ اﷲ تعاليٰ چونکہ مفاتیح الغیب کا مالک ہے اس لئے انسانوں کو متوقع آزادی دیئے جانے کے جو نتائج وقوع پذیر ہونے تھے وہ اسے پہلے سے معلوم تھے۔ لیکن اﷲ تعاليٰ کا یہ علم کسی شحص کو مجبور نہیں کرتا۔
فی الجملہ کسی امر کا پہلے سے جان لینا، اس کے وقوع کا اندازہ لگا لینا ’قدر‘ ہے اورتخلیق کائنات کا ایک حصہ ہے۔ جبکہ اس کے علم کے اظہار اور اسے بیان کر دینے کا نام ’قضا‘ ہے۔ ’قدر‘ انسانی آزادی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ اس سے انسان کے مختار اور آزاد ہونے پر روشنی پڑتی ہے انسان اور اس کے اعمال و کوائف سے متعلق اﷲ تعاليٰ کے مقرر کردہ اندازوں کا اظہار ہوتا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گو اﷲ تعاليٰ نے انسان کے کسب و عمل کی نسبت پہلے سے اندازہ مقرر فرما لیا ہے اور ’قضا‘ کی صورت میں اس کا اظہار بھی فرما دیا ہے لیکن انسان کا تکمیل کار کی آخری گھڑی تک اپنے اس کام کو کرنے یا نہ کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے۔ وہ اگر چاہے تو اپنی نیت کو بدل سکتا ہے، اپنے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک سکتا ہے اور خدا کی طرف سے بھی یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ بدلنا چاہے تو ہم اس کے بدلنے والے ارادے اور نیت کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :
يَمْحُوا اﷲُ مَا يَشَآئُ وَيُثْبِتُج وَعِنْدَه اُمُّ الْکِتٰبِo
الرعد، 13 : 39
’’اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہےo‘‘
اُم الکتاب سے مراد ’لوح محفوظ‘ ہے۔ جہاں ماکان و مایکون کے اَحوال اور کیفیات کا اندراج ہوتا ہے جو بقول بعض علم الٰہی کا نام ہے۔ لہٰذا اس آیہ مبارکہ میں اعلان کیا گیا ہے کہ اﷲ تعاليٰ اپنے اندازے میں تبدیلی کرتا رہتا ہے اور موقع بہ موقع اس میں رد و بدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ عام طور پر ’قضا معلق‘ کی صورت میں ہوتا ہے۔ گویا انسان خود کو بدل لے یا بدلنا چاہے تو اﷲ تعاليٰ اس کی خاطر اپنے اندازے اور اپنی مقررہ کردہ تقدیر میں تبدیلی فرما دیتا ہے۔
معاذ اللہ خدا کا علم انسان کے اعمال کی نسبت غلط نہیں ہو سکتا تو پھر لکھی ہوئی تقدیر کو مٹانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اگر تقدیر لکھی ہوئی نہ ہو تو اس کو لکھنا کیوں ضروری ہوا؟ بہر حال لکھی ہوئی کو مٹانا اور نہ لکھی ہوئی کا لکھا جانا، یہ دونوں امر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ تقدیر قطعاً ایسے مسئلے کا نام نہیں جس میں تبدیلی نہ ہو سکے۔ وہ تو محض انسانی اچھائی یا برائی کا ایسا علم ہے جس میں موقع و محل کی نسبت سے تغیر و تبدیل ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ انسان اس تبدیلی پر مائل ہو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ملک شام میں طاعون کی وبا پھیلی۔ اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام گئے ہوئے تھے۔ وبا کی وجہ سے انہوں نے وہاں سے نکلنے میں جلدی کی۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا :
أَتَفِرُّ مِنَ قَضَائِ اﷲِ؟
’’کیا آپ اللہ کی قضا سے بھاگتے ہیں؟‘‘
فرمایا :
أَفِرُّ مِنَ قَضَائِ اﷲِ إِلَی قَدَرِ اﷲِ.
’’میں اﷲ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں۔‘‘
اصفهانی، المفردات، 1 : 407
مطلب یہ ہے کہ قضا تو فیصلے کا صرف اعلان ہے۔ اگر طاعون جیسا مہلک مرض کسی علاقے میں وبا کی صورت میں پھیل جائے اور میں کسی دوسرے علاقے میں پہنچ کر اس مرض سے بچ جاؤں تو میرا بچ جانا یقینا خدا کی تقدیر یعنی علم میں ہوگا۔ اس لئے فرمایا کہ طاعون کے فیصلے سے ہٹ کر میں خدا کے علم کی طرف جا رہا ہوں؛ کیوں کہ قضا ایک امر الٰہی ہے مگر تقدیر پر انسان کا اختیار ہے۔
ایک مرتبہ صحابہ کرام ث کے ذہنوں میں مسئلہ تقدیر کی نسبت کچھ شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے انہی سوالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور خیال کرتے ہوئے کہ جو کچھ طے ہو چکا ہے وہ بدل نہیں سکتا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا :
أَفَلاَ نَتَوَکَّلُ؟
’’کیا ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ نہ کر لیں؟‘‘
اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لاَقٍ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب النکاح، باب مايکره من التبتل والحضاء،
5 : 1953، رقم : 4788
2. نسائی، السنن، کتاب النکاح، باب النهی عن التبتل، 3 : 264، رقم : 5323
’’جو کچھ تمہیں ملنے والا ہے اسے قلم لکھ کر خشک ہو چکے ہیں۔‘‘
آپ کے اس ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ خدائی علم اور نوشتۂ تقدیر نے انسان کو مجبور نہیں کر دیا بلکہ انسان کو تگ و دو اور سعی و جدوجہد کے ساتھ اپنے مقدر کو تلاش کرنے کی آزادی دی ہے، اسے عمل کا اختیار دیا ہے، اور کسب خیر کی تلقین فرمائی ہے۔
ابتداء خطبہ میں ایک حدیث کا تذکرہ کیا گیا تھا جس میں ارشاد تھا کہ اللہ تعاليٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اور اسے حکم دیا کہ جو کچھ ہو چکا ہے (مَا کَانَ) اور جو کچھ ہونے والا ہے (مَا يَکُوْنُ) سب کچھ لکھ دے۔ یہاں غور فرما ئیے صرف زمانہ مستقبل کے کوائف قلم بند کرنے کا حکم نہیں دیا جارہا بلکہ ماضی کے واقعات بھی قلم بند کرنے کا امر فرمایا۔ اب اگر یہ تقدیری نوشتہ اپنے سے پہلے (مَا کَانَ) کے واقعات پر اثر انداز نہیں ہو سکتا تو مستقبل کے حالات (مَا يَکُوْنُ) کو کیونکر متاثر کرسکتا ہے۔
اسی طرح ایک موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو ایک طویل خطبہ دیا جس کے متعلق حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :
قَامَ فِيْنَا رَسُولُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم مَقَامًا، فَمَا تَرَکَ شَيْئًا يَکُوْنَ فِی مَقَامِهِ ذَالِکَ إِلَی قِيَام السَّاعَةِ إِلاَّ حَدَثَّهُ، حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب إخبار النبی
صلی الله عليه وآله وسلم فيما يکون إلی قيام الساعة، 4 : 2217، رقم : 2891
2. أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن دلائلها، 4 : 94، رقم : 424
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے آپ نے اپنے وقت سے لے کر قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا سب کا ذکر کیا۔ جس نے یاد رکھا اس کو یاد رہ گیا اور جس نے بھلا دیا، وہ بھول گیا۔‘‘
اس قسم کی بہت روایات اور احادیث صحاح ستہ میں مروی ہیں جن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے زمانہ مستقبل کی پیشین گوئیاں اور آئندہ زمانے کے واقعات و حالات کا ٹھیک ٹھیک بیان مذکور ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے لوگوں کے جنت مین داخل ہونے تک کے تمام وقائع بیان فرما دیئے تھے۔
آپ نے اس خطبہ میں قیامت تک کے احوال کو بیان فرمایا ازل میں قلم نے بھی کائنات کے جملہ حقائق کو لوح محفوظ پر رقم کیا تھا۔اب اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان انسانی زندگی کے لئے جبر نہیں ہے تو نوشتہ تقدیر انسان کو کیسے مجبور کر سکتا ہے۔ اﷲ تعاليٰ نے انسان کو نیکی اوربدی کی ذمہ داری خود اس کے اپنے کندھوں پر ڈالی ہے تاکہ نیکی کی صورت میں جزا کا اور بدی کی صورت میں سزا کا مستحق ہوسکے۔ اسی مضمون کو علامہ اقبال نے کس خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں :
ترے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے
نیز فرمایا :
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
(بالِ جبریل)
گویا بندے کے لئے خدا کی طرف سے اعلان ہے کہ :
اے انسان! تو اس کائنات میں تصرف کرنے والی واحد مخلوق تھا، کائنات کا ایک ایک ذرّہ ہم نے تیری غلامی میں دیا تھا تو اگر میری اطاعت اختیار کئے رہتا تو کائنات کا ہر وجود تیرے سامنے سرنگوں اور سربسجود رہتا۔ اے انسان! تو اس کائنات میں اﷲ تعاليٰ کی محبت اور اطاعت کے ذریعے اس کا مقبول بندہ بننے آیا تھا لیکن تجھے کس نے گمراہ کر دیا؟ تو نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ میرے تقدیری فیصلوں نے تجھے مجبور اور پابند بنا دیا ہے؟ تجھے قرآن و حدیث کی صورت میں ٹھیک ٹھیک کھلی اور روشن ہدایات دی گئی تھیں۔ تجھے بتا دیا گیا تھا کہ تو اپنے افعال میں مجبور اور مقید نہیں ہے بلکہ اپنے افعال اور اپنے اعمال پر پورا پورا اختیار رکھتا ہے۔ اسی اختیار کی بنیاد پر تجھے تیری نیکی کا صلہ ملے گا اور برائی کی سزا دی جائے گی لیکن دنیا اور اس کی اندھی ہوس نے تیری آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور تو اپنی خواہش کا غلام بن کر رہ گیا۔ تو اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے مسئلہ تقدیر پر ڈالتا رہا۔ قیامت کے روز تیرا کوئی عذر مسموع نہ ہوگا اور تجھے اپنے کئے کی پوری پوری سزا مل کر رہے گی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved