اِنسان کے مجبور یا مختار ہونے نیز انسان کے ’اپنے افعال کے کاسب ہونے‘ پر گزشتہ باب میں تفصیل سے اظہار خیال کیا جا چکا ہے۔ اس تمام بحث سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ انسان اپنے افعال کا کاسب ہے مگر خالق اﷲ تعاليٰ کی ذات ہے۔ نیز یہ کہ انسان کو کسب اعمال میں اختیار اور ارادے کی آزادی بھی حاصل ہے۔
اس بحث سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ تعاليٰ کی طرف سے اختیار کی جو دولت عطا کی گئی ہے اس کا پس منظر اور سبب کیا ہے۔ انسان کو آخر مختار کیوں بنایا گیا؟ قرآن مجید میں اس سلسلے میں ایک جامع ارشاد ہے :
اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌo
حم السجدة، 41 : 40
’’تم جو چاہو کرو، بے شک جو کام تم کرتے ہو وہ خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
اس آیت مبارکہ کے تین الفاظ پر اگر غور کیا جائے تو مسئلہ تقدیر کے تمام ممکنہ پہلو سامنے آجاتے ہیں اور اس بارے میں پیدا ہونے والے تمام شکوک و شبہات رفع ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعاليٰ کسی معاملے میں بھی اپنی کسی مخلوق پر ظلم نہیں کرتا۔ اس کا ہر فعل عدل و انصاف پر مبنی ہوتاہے۔ اس نے اپنے کارخانہ قدرت کو قانونِ عدل پر ہی قائم رکھا ہوا ہے۔ وہ نہ صرف خود عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتاہے بلکہ اپنے بندوں کو بھی یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کریں چنانچہ سورۂ المائدہ میںارشاد باری تعاليٰ ہے :
وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى.
المائدة، 5 : 8
’’اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْل.
النساء،4 : 58
’’اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔‘‘
عدل کی تعریف علماء لغت نے ان الفاظ میں کی ہے :
العدل ما قام في النفوس أنه مستقيم وهو ضد الجور.
ابن منظور، لسان العرب، 11 : 430
’’عدل سے مراد یہ ہے کہ جو چیز دلوں میں راسخ ہو جائے کہ یہ صحیح ہے اور وہ ظلم کی ضد ہے۔‘‘
دوسرے لفظوںمیں حقدار کو اُس کا حق دینا، مستحق کو اس کا جائز مقام دینا عدل ہے جبکہ اس کے برعکس روش اختیار کرنا ظلم و جور ہے۔ قرآن کریم ہر حال اور ہر صورت میں عدل کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ خواہ معاملہ اپنے کسی قریبی عزیز کا ہو یا اپنے والدین سے متعلق ہو۔
چنانچہ سورۃ النساء میں ارشاد باری تعاليٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْهَوَى أَن تَعْدِلُواْ
النساء،4 : 135
’’اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لیے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مالدار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہش نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ ۔‘‘
اللہ رب العزت نے ایک دوسرے مقام پر عدل و انصاف کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى
النحل، 16 : 90
’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا۔‘‘
مذکورہ بالا آیت کریمہ میں عدل کے ساتھ ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدل کا مفہوم تو سطور بالا میں بیان کیا جا چکا ہے، جب کہ احسان کا مقام عدل کے مقام سے بھی بلند ہے۔ حق دار کو اس کا حق دینا عدل ہے۔ اپنا حق کم لینا اور دوسرے کا حق زیادہ دینا احسان ہے۔ گویا احسن جود و فضل اور لطف و کرم کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس طرح نیکی کی زندگی کے دو مدارج بیان کئے گئے ہیں :
پہلادرجہ یہ ہے کہ عدل و انصاف کی زندگی بسر کرو۔ نہ کسی کا حق کھاؤ اور نہ کسی کو اپنا حق کھانے دو۔ لیکن یہ درجہ بے حد احتیاط کا متقاضی ہے۔اگر اس درجے سے ذرا بھی قدم لڑکھڑا گئے یعنی معمولی سا بھی افراط و تفریط ہو گیا تو انسان درجہ ظلم پر پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے نیکی اور تقويٰ کے نقطۂ نظر سے ایک بلند تر درجہ بھی بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان خدا تعاليٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔ارشاد باری تعاليٰ ہے :
اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَo
البقرة،2 : 195
’’بے شک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہےo‘‘
یہ ’مقامِ احسان‘ ہے اس لئے فرمایا : کہ اگر ہو سکے تو عدل کے اونچے درجے پر فائز رہو۔ حق دار کو اس کے حق سے بھی زیادہ دو اور دوسروں کی خاطر اپنا حق لینا چھوڑ دو تاکہ اگر کبھی مقام احسان سے اترنا بھی چاہو تو مقام عدل پر تو فائز رہ سکو۔
جو ذات اپنے بندوں کو ہر حال میں نظام عدل و احسان اپنانے کی تلقین کرے، جس کا اپنے بندوں سے مطالبہ یہ ہو کہ جب بھی اپنے یا کسی دوسرے کے متعلق فیصلے کا موقع آئے تو عدل و انصاف کے اصولوں کے مطابق فیصلہ کرو۔ وہ ذات جب خود مسندِ عدل پر متمکن ہو گی تو کیا اپنے بندوں کے متعلق عدل و انصاف کے تقاضوں کوملحوظ نہیں رکھے گی؟ وہ ذات تو سراسر پیکرِ عدل و انصاف ہے۔ قرآن کریم میں باربار اللہ رب العزت کے انصاف کا ذکر کیا گیا ہے، سورۂ الانبیاء میں ارشاد باری تعاليٰ ہے :
وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ط وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا.
الانبياء،21 : 47
’’اور ہم قیامت کے دن عدل و انصاف کے ترازو رکھ دیں گے سو کسی جان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے گا، اور اگر (کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گا (تو) ہم اسے (بھی) حاضر کر دیں گے۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
وَوُفِّيَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَo
آل عمران،3 : 25
’’اور جس جان نے جو کچھ بھی (اعمال میں سے) کمایا ہوگا اسے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گاo‘‘
ایک دوسرے مقام پر ’روز محشر‘ کی منظرکشی کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ اس دن ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق فرد عمل دی جائے گی۔ مجرمین کو بائیں ہاتھ میں اور نیکو کاروں کو دائیں ہاتھ میں۔ اس موقع پر ارشاد ہو گا :
ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدٰکَ وَاَنَّ اﷲَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِo
الحج، 22 : 10
’’یہ تیرے ان اعمال کے باعث ہے جو تیرے ہاتھ آگے بھیج چکے تھے اور بے شک اﷲ اپنے بندوں پر بالکل ظلم کرنے والا نہیں ہےo‘‘
یہ امر بھی واضح کر دیاگیا کہ اﷲ تعاليٰ اپنے بندوں پر ظلم کی بجائے جہاں تک ہو سکے گا لطف و کرم اور فضل و احسان کا برتاؤ فرمائے گا۔ اس سلسلے میںارشاد باری تعاليٰ ہے :
مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه عَشْرُ اَمْثَالِهَا ج وَمَنْ جَآئَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزٰی اِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَo
الأنعام،6 : 160
’’جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں اور جو کوئی ایک گناہ لائے گا تو اس کو اس جیسے ایک (گناہ) کے سوا سزا نہیں دی جائے گی اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گےo‘‘
ایک دوسرے مقام پر اس احسان پسندی کا یوں ذکر کیا گیا :
مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَيْرٌ مِّنْهَا ج وَمَنْ جَآئَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَی الَّذِيْنَ عَمِلُوا السَّيِّاٰتِ اِلَّا مَا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَo
القصص، 28 : 84
’’جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر (صلہ) ہے اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو برے کام کرنے والوں کو کوئی بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر اسی قدر جو وہ کرتے رہے تھےo‘‘
جس خدا کا اپنے بندوں سے سلوک اور مہربانی کا یہ عالم ہو، اس کے متعلق بھلا یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ اس نے انسان کی اچھی یا بری تقدیر لکھ کر اسے مجبور کر دیا ہے۔ نیز اگر اس کے حق میں کوئی برائی لکھی جاچکی ہے تو اس کی مخالفت کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا۔
قرآن کریم اس حقیقت کو خوب اچھی طرح واضح کرتا ہے کہ اگر اﷲ تعاليٰ انسان کو مجبور کرنا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا اور اگر ایسا کیا جاتا تو اس مجبور دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا، چنانچہ ارشاد فرمایا :
وَلَوْ شَآئَ اﷲُ لَجَعَلًکُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً.
النحل، 16 : 93
’’اور اگر اللہ چاہتا تو تم (سب) کو ایک ہی امت بنا دیتا۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا :
فَلَوْ شَآئَ لَهَدٰکُمْ اَجْمَعِيْنَo
الأنعام، 6 : 149
’’پس اگر وہ (تمہیں مجبور کرنا) چاہتا تو یقینا تم سب کو (پابندِ) ہدایت فرما دیتاo‘‘
مگر ایسی صورت میں جزا و سزا کا تصور بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے اور انسان کو کسی جگہ بھی اپنی مرضی چلانے کا اختیار باقی نہ رہتا۔ اس کے برعکس اﷲ تعاليٰ نے انسان کو عملی آزادی مرحمت فرمائی اور ارشاد فرمایا :
اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ.
حم السجدة، 41 : 40
’’تم جو چاہو کرو۔‘‘
یہ خداوند تعاليٰ کی طرف سے انسان کے آزاد اور مختار ہونے کی عقلی دلیل ہے۔
یہ امر اچھی طرح واضح کر دیا گیا ہے کہ اﷲ تعاليٰ اپنے کسی بندے پر ادنيٰ درجے کا ظلم بھی گوارا نہیں کرتا۔ اسی سے نظام عدل کے ساتھ جزا وسزا کا تعلق بھی واضح ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعاليٰ ہے :
اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo
التحريم، 66 : 7
’’بس تمہیں اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو کرتے رہے تھےo‘‘
ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے اسکی وضاحت یوں فرمائی :
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰیo
النجم، 53 : 39
’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اﷲ کی عطا و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)o‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
لَهَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اکْتَسَبَتْ.
البقرة،2 : 286
’’اس نے جو نیکی کمائی اس کے لیے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے۔‘‘
جزا و سزا کے لئے اللہ رب العزت کا ایک اٹل اصول ہے کہ وہ اس وقت تک کسی قوم پر عذاب نازل نہیںکرتا جب تک اتمام حجت نہ کر لے۔ چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا :
وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاًo
بنی إسرائيل، 17 : 15
’’اور ہم ہرگز عذاب دینے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم (اس قوم میں) کسی رسول کو بھیج لیںo‘‘
اس سلسلے کا دوسرا اصول یہ ہے کہ :
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی.
فاطر، 35 : 18
’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بارِ (گناہ) نہ اٹھا سکے گا۔‘‘
اسی طرح قیامت کے روز ہر شخص خود اپنی فکر میں مبتلا ہو گا۔ چنانچہ سورۂ عبس میں ارشاد باری تعاليٰ ہے :
يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِيْهِo وَاُمِّه وَاَبِيْهِo وَصَاحِبَتِه وَبَنِيْهِo لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَاْنٌ يُغْنِيْهِo
عبس، 80 : 34-37
’’اُس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گاo اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے (بھی)o اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے (بھی)o اس دن ہر شخص کو ایسی (پریشان کن) حالت لا حق ہو گی جو اسے (ہر دوسرے سے) بے پروا کر دے گیo‘‘
صرف یہی نہیں بلکہ وہ اس بات پر آمادہ ہو گا کہ اس کی جگہ اس کے تمام متوسلین اور مقربین کو پکڑ لیا جائے اور اس کی جان بخشی ہو جائے۔ چنانچہ سورۂ المعارج میں ارشاد باری تعاليٰ ہے :
يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِيْ مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍم بِبَنِيْهِo وَصَاحِبَتِه وَاَخِيْهِo وَفَصِيْلَتِهِ الَّتِيْ تُؤِْيْهِo وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا ثُمَّ يُنْجِيْهِo
المعارج، 70 : 11-14
’’مجرم آرزو کرے گا کہ کاش! اس دن کے عذاب (سے رہائی) کے بدلہ میں اپنے بیٹے دے دےo اور اپنی بیوی اور اپنا بھائی (دے ڈالے)o اور اپنا (تمام) خاندان جو اُسے پناہ دیتا تھاo اور جتنے لوگ بھی زمین میں ہیں، سب کے سب (اپنی ذات کے لیے بدلہ کر دے)، پھر یہ (فدیہ) اُسے (اللہ کے عذاب سے) بچا لےo‘‘
البتہ نیکو کار اور پرہیز گار لوگ اس کلیے سے مستثنيٰ ہوں گے۔ اسی لئے فرمایا :
اَ لْاَخِلَّآئُ يَوْمَئِذٍم بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَo
الزخرف، 43 : 67
’’سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)o‘‘
بالفاظ دیگر اس روز سب لوگ پریشان اور متفکر ہوں گے۔ مگر اﷲ تعاليٰ کے وہ بزرگ و برتر بندے جو دنیا میں بھی دوسروں کی فکر میں غلطاں رہتے تھے اس دن بھی اپنیبجائے دوسروں کی فکر میںمبتلا ہوں گے اور اپنے اپنے درجے اور رتبے کے مطابق اﷲ تعاليٰ کی بارگاہ سے منصب شفاعت پر سرفراز ہوں گے، مگر ان کی شفاعت شفاعتِ صغريٰ ہو گی جب کہ سب سے بڑی شفاعت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہو گی۔
بہرحال جب تک اتمام حجت نہ کر دیا جائے اقوام و ملل مبتلائے عذاب نہیں ہوتیں، چنانچہ ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعاليٰ ہے :
وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِکَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًاo
بنی إسرائيل، 17 : 16
’’اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم وہاں کے امراء اور خوشحال لوگوں کو (کوئی) حکم دیتے ہیں (تاکہ ان کے ذریعہ عوام اور غرباء بھی درست ہو جائیں) تو وہ اس (بستی) میں نافرمانی کرتے ہیں پس اس پر ہمارا فرمانِ (عذاب) واجب ہو جاتا ہے پھر ہم اس بستی کو بالکل ہی مسمار کر دیتے ہیںo‘‘
دوسرے لفظوں میں اس کامفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعاليٰ کے ہاں کسی ضابطے اور کسی قانون کے بغیر کسی قوم کو ہلاک اور برباد کرنے کا اصول کار فرما نہیں، بلکہ جس بستی اور جس قوم کو ہلاک کرنا مقصود ہوتا ہے، اﷲ تعاليٰ اس بستی اور اس قوم کی قیادت کی طرف (خواہ مذہبی قیادت ہو یا سیاسی یا اقتصادی) حکم نازل کرتا ہے، انہیں اطاعت اور فرمانبرداری کی ترغیب دی جاتی ہے۔ لیکن جب یہ وڈیرے نما لوگ اﷲ تعاليٰ کے احکام کی پرواہ نہیں کرتے اوراس کی طرف سے مقرر کردہ آخری حد کو بھی عبورکر جاتے ہیں تو پھر ان پر عذاب خدا وندی قہر بن کر ٹوٹ پڑتاہے اور ان کا نام و نشان صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ جو قوم خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہے ، اﷲ تعاليٰ اس کی حالت کو نہیں بدلتا۔ اللہ رب العزت نے سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :
اِنَّ اﷲَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.
الرعد، 13 : 11
’’بے شک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔‘‘
اتمام حجت کامفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعاليٰ لوگوں کے سامنے اپنے احکام کی اطاعت یا خلاف ورزی کے انجام و عواقب کو واضح فرما دیتا ہے۔انہیں بتا دیاجاتاہے کہ اطاعت کی صورت میں کیا صلہ اور خلاف ورزی کی صورت میں کیا سزا دی جائے گی۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود کوئی قوم راہ راست پر نہیں آتی تو پھر اس پر اﷲ تعاليٰ کی طرف سے حجت تمام ہو جاتی ہے اور اﷲ تعاليٰ اس پر اپنی گرفت مضبوط کرلیتا ہے۔ اسی لئے ارشاد فرمایا :
لِئَلَّا يَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اﷲِ حُجَّةٌم بَعْدَ الرُّسُلِ.
النساء، 4 : 165
’’(اس لئے بھیجے گئے) تاکہ (ان) پیغمبروں (کے آجانے) کے بعد لوگوں کے لیے اﷲ پر کوئی عذر باقی نہ رہے۔‘‘
ذات خداوندی انسان کی اس قدر سچی خیر خواہ ہے کہ اس پر عذاب نازل کرنے سے پہلے اس کو باربار فہمائش کرتی ہے۔محبت، پیار اور پھر ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ سے اس کے گمراہی کی طر ف بڑھنے والے قدموں کو روکنے کی سعی کرتی ہے۔ اس ذات کا ارشاد گرامی ہے کہ :
وَلَنُذِيْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَo
السجدة، 32 : 21
’’اور ہم ان کو یقیناً (آخرت کے) بڑے عذاب سے پہلے قریب تر (دنیوی) عذاب (کا مزہ) چکھائیں گے تاکہ وہ (کفر سے) باز آجائیںo‘‘
اس ذات کے متعلق بھلا یہ کیسے یقین کر لیاجائے کہ اس نے انسان کو پیدا ہوتے ہی اپنی ازلی تقدیر کے شکنجے میںجکڑ کر مجبور اور بے بس بنا دیا ہے۔
اللہ رب العزت کی طرف سے انسان کو تیسرا تصور اخلاقی جدوجہد کا دیا گیا ہے۔چنانچہ سورئہ ملک میں ہے :
اَلَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا.
الملک، 67 : 2
’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔‘‘
یعنی اچھے اور برے عمل جانچنے کے لئے کائنات کا یہ سٹیج سجایا گیا، ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍo ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَo اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍo
التين، 95 : 4-6
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہےo پھر ہم نے اسے پست سے پست تر حالت میں لوٹا دیاo سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کے لیے ختم نہ ہونے والا (دائمی) اجر ہےo‘‘
ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
وَنَفْسٍِ وَّمَا سَوّٰهَاo فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَاo
الشمس، 91 : 7-10
’’اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسمo پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دیo بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)o اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)o‘‘
ایک اور مقام پر اس نکتے کی وضاحت یوں فرمائی :
اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ کَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لا سَوَآئً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْط سَآئَ مَا يَحْکُمُوْنَo
الجاثيه، 45 : 21
’’کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیاں کما رکھی ہیں یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم انہیں اُن لوگوں کی مانند کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے (کہ) اُن کی زندگی اور ان کی موت برابر ہو جائے۔ جو دعويٰ (یہ کفّار) کر رہے ہیں نہایت برا ہےo‘‘
ان تمام آیات مبارکہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اﷲ تعاليٰ انسان کو اخلاقی جدوجہد اپنانے کی تلقین فرماتا ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ انسان کو آزاد اور خود مختار گمان کیا جائے اور اﷲ تعاليٰ انسان کو پیدائشی طور پر اپنی قدرت کی زنجیروں میں اس طرح جکڑ دے کہ وہ بیچارہ اپنی مرضی سے نہ نیکی کرسکے نہ بدی۔ تو اس کے ہاتھ بندھے ہونے کی صورت میں اس سے جو کوئی نیکی صادر ہوتی ہے یا برائی سرزد ہوتی ہے ایسی نیکی کو نیکی اور بدی کو بدی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ اس لئے کہ مجبور آدمی کی تو نہ نیکی اپنی ہوتی ہے اور نہ بدی۔
اس کی مثال اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر آپ کسی شخص کے ہاتھ پاؤں مضبوطی سے باندھ دیں اور اس کو پوری طرح بے بس اور بے دست و پا کرنے کے بعد اسے کہیں کہ وہ آپ کی کسی سابقہ غلطی کو معاف کر دے، تو اس حالت میں کیا دنیا کی کوئی عدالت عفو و در گزر کو اہمیت دے سکتی ہے؟ عفو تو وہی معتبر ہے کہ متعلقہ شخص انتقام لینے یا معاف کرنے پر قادر ہو اور انتقام نہ لے، معاف کر دے۔
گویا مجبوری کی حالت کو ’اضطرار‘ توکہہ سکتے ہیں نیکی و بدی نہیں قرار دے سکتے۔ چنانچہ جب ہمارے دنیوی قوانین میں مجبوری اور اختیار میں اتنا فرق کیا جاتا ہے اور جبر و اکراہ کی حالت میں کیا ہوا کوئی قول اور ارتکاب کیا ہوا کوئی جرم معتبر نہیں سمجھا جاتا تو اللہ تعاليٰ جس نے فرمان نبوی کے مطابق تخلیق کائنات کے وقت سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ :
إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي.
1. بخاری، الصحيح، باب وکان عرشه علی الماء، 6 : 2700، رقم
: 6986
2. ابن ماجه، السنن، فضل بن عباس، باب فيما أنکرت الجهميه، 1 : 67، رقم : 189
’’میری رحمت میرے غضب پر مقدم ہے۔‘‘
کیونکر اس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ انسان کی اس بے بسی او ربے چارگی و مجبوری سے غلط فائدہ اٹھائے گا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حالت اضطرار میں شریعت اسلامیہ حلال اور حرام کی تفریق اٹھا لیتی ہے اور جان بچانے کی غرض سے مردار اور خنزیر تک کے گوشت کو کھانے کی اجازت دیتی ہے۔ چنانچہ سورۃ البقرۃ میں ہے :
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِه لِغَيْرِ اﷲِ ج فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
البقرة، 2 : 173
’’اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بے شک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہےo‘‘
اﷲ تعاليٰ نے کتنا آفاقی، کائناتی اور عالمگیر تصور دیا ہے کہ حالت اضطرار میں حرام تک کو مباح قرار دے دیا، دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْکُمْ اِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ.
الأنعام، 6 : 119
’’حالانکہ اس نے تمہارے لیے ان (تمام) چیزوں کو تفصیلاً بیان کر دیا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، سوائے اس (صورت) کے کہ تم (محض جان بچانے کے لیے) ان (کے بقدرِ حاجت کھانے) کی طرف انتہائی مجبور ہو جاؤ (سو اب تم اپنی طرف سے اور چیزوں کو مزید حرام نہ ٹھہرایا کرو)۔‘‘
نیز فرمایا :
فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍلا فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
المائدة، 5 : 3
’’پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بے شک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہےo‘‘
انہی وجوہات و اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورۂ الحج میں اﷲ تعاليٰ نے ارشاد فرمایا :
وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ.
الحج، 22 : 78
’’اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
لَا يُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا.
البقرة، 2 : 286
’’اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
اور حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
بُعِثْتُ بِالْحَنِيْفِيَةِ السَّمْحَةِ.
أحمد، المسند، 5 : 266، رقم : 2345
طبرانی، المعجم الکبير، 8 : 22، رقم : 7883
’’مجھے آسان دین دے کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
اور اسلام سے قبل کی حالت کی منظر کشی کرتے ہوئے قرآن کریم بیان کرتا ہے :
وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَيْهِمْ.
الأعراف، 7 : 157
’’اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) ۔ جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے ۔ ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔‘‘
یہ ’اغلال‘ اور ’اصر‘ کیا ہے؟ یہ غلط عقائد اور تصورات کی زنجریں اور توہمات کی بیڑیاں تھیں جن میں انسانیت کا بند بند جکڑا ہوا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد انسانیت کو ان زنجیروں اور بندھنوں سے نجات دلانا بھی تھا۔ اسی بنا پر ارشاد خداوندی ہے :
وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَةُo فَکُّ رَقَبَةٍo
البلد، 90 : 12-13
’’اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہےo وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہےo‘‘
بہرحال قرآن نے انسان کو مجبوریوں سے نجات کی راہ دکھائی، اس کے لئے سہولتوں کا اعلان کیا، جن میں سے ایک حالت اضطرار اور حالت اختیار کا نمایاں فرق بھی ہے۔
خلافت فاروقی کے زمانے میں حجاز مقدس میں سخت قحط پڑا۔ اناج مفقود ہو گیا اس حالت میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا پر عمل در آمدروک دیا اور فرمایا : جب تک حکومت ہر شخص کو ضروریات زندگی مہیا نہیں کر سکتی وہ قطع ید کی حد نافذ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔
أبو يوسف، کتاب الخراج، 1 : 14
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے اس فرمان اور عمل سے قرآن و حدیث کے بیان کردہ اصول کی پوری طرح وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ قرار پاتا ہے کہ سلطنت اسلامیہ کا فرض صرف حدود و تعزیرات کا نفاذ ہی نہیں، بلکہ اس کا اصل فرض برائی اور جرم کے مبادیات اور اسباب کا قلع قمع کرنا بھی ہے یعنی چوری ڈکیتی اور دیگر بیماریوں کے اصلی محرکات کا کھوج لگانا اور پھر اس کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا اسلامی حکومت کا اولین فرض ہے۔
آج کے دور میں اسلامی حدود کو سخت بتایا جاتا ہے مگریہ نہیں دیکھا جاتا کہ ان حدود کے عملی نفاذ سے پہلے مملکت اسلامیہ میں زندگی گزارنے کے بہتر حالات پیدا کرنے کی ضمانت ملتی ہے۔ اگر تمام ممکنہ سہولتوں کے باجود کوئی شخص بدی کی طرف جھکتا ہے تو وہ واقعی اس قابل ہے کہ اسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں چوری کا ایک مقدمہ سماعت کے لئے پیش ہوا۔ صورت حال یہ تھی کہ کچھ ملازموں کو اپنے سرداروں کے اونٹ چرانے کے جرم میں طلب کیا گیا تھا۔ جب مقدمہ چلا تو ان پر چوری پوری طرح ثابت ہو گئی۔ ابھی چوری کی سزا پر عمل در آمد نہ ہوا تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ آپ نے ان سرداروں کو پیغام بھیجا جن کے پاس وہ لوگ ملازم تھے۔ وہ حاضر ہوئے تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اُ ن سے پوچھا کہ تم نے کتنی مدت سے اپنے ان ملازمین کو تنخواہیں نہیں دیں۔ پتہ چلا کہ کافی عرصہ سے ان ملازمین کو تنخواہ نہیں مل رہی۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا کہ ان سرداروں سے اونٹوں کی دو گنا قیمت بطور تاوان وصول کی جائے۔
1. مالک، الموطأ، 2 : 748، رقم : 1436
2. شافعی، المسند، 1 : 224
ان واقعات سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ اسلام میں مجبوری اور حالت اختیار میں نمایاں طور پر فرق کیا گیا ہے۔
اﷲ تعاليٰ نے لوگوں کویہ تعلیم دی ہے کہ حرام بھی حالت اضطرار میں حلال ہو جاتا ہے اور اسے اپنے محبوب کے دین کے لئے بھی جبر و اکراہ گوارا نہیں۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِقف قَدْ تَّبَيَنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ.
البقرة، 2 : 256
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔‘‘
اﷲ تعاليٰ نے ہمیں ایسا دین عطا فرمایا جس میں کوئی چیز دوسری چیز سے التباس نہیں رکھتی۔ خیر کو شر سے اور شر کو خیر سے، نیکی کو بدی سے اور بدی کو نیکی سے نیز حالت اختیاری کو حالت اضطراری سے ممیز کر دیا گیاہے۔ اسی بنا پر جب حج جیسے مقدس فریضے کا حکم نازل ہوا تو اس کیساتھ بھی حالت مجبوری کا لحاظ رکھا گیا، ارشاد باری تعاليٰ ہے :
وَِﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلاً.
آل عمران، 3 : 97
’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب حج کاحکم نازل ہوا تو ایک صحابی نے سوال کیا :
أفي کل عام، يا رسول اﷲ؟
’’یا رسول اللہ! کیا یہ حج ہر سال فرض ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے۔ اس نے سوال دہرایا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر خاموش رہے، اس نے تیسری مرتبہ اپنے سوال کا اعادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بھی خاموش رہے۔ مگر جب سائل کا شوق سوال دیکھا تو فرمایا :
لَوْ قُلْتُ : نَعَمْ، لَوَجَبَتْ. وَلَمَّا اسْتَطَعْتُمْ. ثُمَّ قَالَ ذَرُونِي مَاتَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ.
1.مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب فرض الحج مرة في العمر، 2 :
975، رقم : 1337
2. ابن ماجه، السنن، باب اتباع سنة رسول اﷲ، 1 : 3، رقم : 2
3. بيهقي، السنن، باب وجوب الحج مرة واحدة، 4 : 325، رقم : 8398
’’اگر میں ہاں کر دوں تو تم پر ہر سال حج واجب ہو جائے جو ظاہر ہے تمہاری استطاعت سے باہر ہے پھر فرمایا : جہاں میں خاموش رہوں وہاں تم بھی خاموش رہو کیوں کہ تم میں سے پہلی اُمتیں کثرتِ سوال کے باعث ہلاک ہوئی ہیں۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ یہ انسان کو آسانیاں اور سہولتیں دینے کے لئے آیا ہے۔ یہ انسانیت کو تمام بندھنوں اور زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے آیا ہے۔ یہ دین انسان کے جسم سے جبرو اکراہ کا بوجھ اتارنے اور اختیار و اضطرار میں فرق کرنے والا دین ہے۔ اپنے مزاج کے اعتبار سے سراسر رحمت و محبت اور شفقت و احسان ہے۔ اس سے یہ توقع بھلا کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ انسان کو اس کے عمل اور اس کے ہر فعل میں مقید قرار دے گا۔
اللہ تعاليٰ ہمیں اپنے اِختیارات اُمورِ خیر میں صرف کرنے کی توفیق بخشے۔ (آمین)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved