ایمانیات کے سلسلے کا ایک اہم ترین موضوع ’ایمان بالقدر‘ ہے جو اَرکانِ ایمان میں سے آخری مگر انتہائی مہتم بالشان جزو ہے۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ اسی مسئلہ کی نسبت لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے شکوک و شبہات اور اَوہام و وساوس پائے جاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موضوع پر کرید کرید کر گفتگو سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شیطان تم میں کسی ایک کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ تجھے کس نے پیدا کیا؟ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہ وہ پوچھتا ہے کہ خدا کو کس نے پیدا کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بس یہاں رُک جاؤ، شیطان کے شر سے خدا کی پناہ مانگو۔ اس سے آگے نہ سوچو۔ مقصد یہ تھا کہ لوگ اس پیچیدہ اور نازک مسئلے میں خواہ مخواہ اُلجھ کر اپنی عاقبت نہ خراب کر بیٹھیں کیونکہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّمہ ہے کہ انسانی عقل و دانش اس نازک مسئلے کے حقیقی مضمرات کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اس موضوع پر بحث و تمحیص میں حد سے آگے بڑھنے کا نتیجہ گمراہی ہو سکتا ہے۔
قدر کا لغوی مفہوم کچھ یوں ہے :
القَدَرُ : الاسم، القَدْرُ المصدر. وهو ما يُقَدِّر. اﷲ من القضاء، ويحکم به من الامور.
ابن منظور، لسان العرب، 5 : 74
’’لفظ قدر اِسم ہے، اور قدر مصدر ہے اور اس سے مراد وہ قضا (فیصلہ) جسے اللہ تعاليٰ مقدر کردے (کہ وہ ہوکر رہے گا) اور اُمور میں سے جس چیز کا اللہ تعاليٰ فیصلہ فرمادے (وہ قدر ہے)۔‘‘
جب کہ قدر کا اِصطلاحی معنی یہ ہے :
ان القدر سِرٌّ من سِرّ اﷲ، بل الإيمان بما جرت به المقادير من خيراو شرّ، واجب علی العباد ان يؤمنوا به، ثم لا يامن العبد ان يبحث عن القدر فيکذب بمقادير اﷲ الجارية علی العباد، فيضلّ عن طريق الحق.
آجری، کتاب الشريعة، 2 : 698
’’قدر، اللہ تعاليٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے، بلکہ خیر و شر کی جو تقدیریں جاری ہوتی ہیں ان پر ایمان لانا بندوں پر واجب ہے، پھر ایسا ممکن نہیں کہ بندہ قدر کے بارے میں بحث کرے اور وہ اللہ تعاليٰ کی ان قدروں کے بارے میں جو بندوں پر جاری ہوتی ہیں جھوٹ سے مامون رہے، پس پھر راهِ حق سے گمراہ ہوجائے۔‘‘
اِسی مسئلے کا نام ’مسئلہ تقدیر‘ یا ’مسئلہ قضا و قدر‘ ہے۔
اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ’انسان کے مجبور یا مختار‘ ہونے کا مسئلہ صرف مذہبی موضوع بحث نہیں رہا بلکہ یہ دُنیا بھر کے فلاسفہ، مفکرین اور علماء کا محبوب ترین موضوع رہا ہے۔ نفسیات (philosophy)، جرمیات (criminology)، عمرانیات (sociology) اور دیگر مختلف فلسفوں میں اس مسئلہ پر سیر حاصل مباحث ملتے ہیں، جنہیں مسلم اور غیر مسلم مفکرین اور فلسفیوں نے اپنے علم اور فکر سے فروغ بخشا۔ پھر یہ زبان، ادب اور شاعری کا بھی موضوع رہی۔ اس بنا پر اس مسئلے میں مختلف قسم کی آراء ملتی ہیں۔ اسی لئے اس کے اثرات خواص سے لے کر عوام تک کے ذہنوں کو متاثر کرنے میں اہم کردار انجام دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں قرآن حکیم تقدیر کے جس کلیے پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے، اس کا ماحصل یہ ہے کہ انسان اور اس کے جملہ اعمال کو اﷲ تعاليٰ نے تخلیق کیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
وَاﷲُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَo
الصّٰفّٰت، 37 : 96
’’حالانکہ اﷲ نے تمہیں اور تمہارے (سارے) کاموں کو خَلق فرمایا ہےo‘‘
اس آیت میں انسان اور اس کے اعمال دونوں کی تخلیق کو خداوندتعاليٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے، مگر یاد رہے کہ تخلیق اور کسب دو مختلف المعانی اور مختلف المقاصد الفاظ ہیں۔ کسب کے معنيٰ کرنے یا کمانے کے ہیں، جب کہ خلق اور تخلیق کے معنی کوئی چیز پیدا کرنے اور وجود میںلانے کے ہیں۔ انسان اپنے افعال کا مکتسب (یعنی کمانے اور کرنے والا) ہے مگر انسان کا خالق اﷲ تبارک و تعاليٰ ہے۔ انسان اور اُس کی تمام تر اشیاء و اعمال مخلوقِ محض ہیں، جبکہ اﷲ تعاليٰ دُنیا کی ہر چیز کا خالق و باری ہے۔ اس طرح اس کائنات میں فقط دو تصورات رہ جاتے ہیں، اوّل اﷲ تعاليٰ کے خالق ہونے کا تصور اور دوم انسان اور اُس کے جملہ افعال کے مخلوق ہونے کا تصور۔ خالق ہر فعل میں خالق ہے اور مخلوق اپنی ہر صفت میں مخلوق۔
خدا اور اُس کی ذات و صفات کے سوا چونکہ کائنات کی ہر ادنيٰ و اعليٰ چیز مخلوق ہے، اس لئے کائنات اور اس میں وقوع پذیر ہونے والے اعمال و افعال بھی مخلوق ہیں۔ جن کی من حیث المخلوق تخلیق تو باری تعاليٰ نے کی ہے، مگر کسب و ارتکاب، انسان اپنی رضا و رغبت سے کرتا ہے۔ اس لئے اب اس سوال کا جواب کہ انسان کی اپنے افعال سے کیا نسبت ہو گی، قرآن کریم واضح کرتا ہے کہ انسان اپنے افعال کا خالق نہیں بلکہ کاسب، مکتسب اور مرتکب ہے۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے :
بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَيِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِه خَطِيْئَتُه فَاُولٰئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَo
البقرة، 2 : 81
’’ہاں واقعی جس نے برائی اختیار کی اور اس کے گناہوں نے اس کو ہر طرف سے گھیر لیا تو وہی لوگ دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیںo‘‘
لَهَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اکْتَسَبَتْ.
البقرة، 2 : 286
’’اس نے جو نیکی کمائی اس کے لئے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے۔‘‘
اسی طرح کائنات کی ہر چیز خدا کی مخلوق ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ بڑی ہے یا چھوٹی، انسان ہے یا حیوان، جن ہے یا فرشتہ، سیارہ ہے یا ستارہ، زمین ہے یا کوئی اور خطہ، سمندر ہے یا خشکی، جمادات میں سے ہے یا حیوانات میں سے، مادہ ہے یا توانائی، کوئی خارجی وجود ہے یا ذہنی تصور، کوئی عملی حقیقت ہے یا فکری تخلیق۔ ہر چیز اپنے وجود میں اﷲ تعاليٰ کی صفت خلاقیت و صناعی کی آئینہ دار اور اپنے ہونے اور باقی رہنے میں اسی کی محتاج ہے اور اس کا خالق صرف اﷲ ہے۔ اسی طرح انسان جو بھی عمل کرتا ہے، مثلاً گفتگو کرنا، آرام کرنا، کھیلنا کودنا، حوائجِ ضروریہ کی تکمیل کرنا، اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، آنا جانا۔ الغرض اس کا ہر کام اپنے وجود میں ایک فعل اور عمل ہے اور ہر فعل ایک وجود ہونے کے اعتبار سے خدائی مخلوق ہے۔ کیوں کہ فعل بھی انسان ہی کی طرح اَنفس و آفاق پر مشتمل اسی کائنات کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ لیکن اکتساب کی ذمہ داری کے اعتبار سے اس فعل کو انسان کا فعل کہیں گے خدا کا نہیں۔ چنانچہ فعل کی نسبت بہر حال انسان کی طرف ہی ہوگی جیسے کہ گزشتہ صفحات میں بیان کی گئی سورۃ الصافات کی آیت نمبر 6 کے الفاظ وَمَا تَعْمَلُوْنَ میں فعل کے انجام دینے کی ذمہ داری انسان پر عائد کی گئی ہے۔ گویا عمل ایک ہے مگر اس کے پہلو دو ہیں۔ ایک پہلو کے اعتبار سے وہ اﷲ تعاليٰ کی مخلوق ہے اور دوسرے کے اعتبار سے انسان کا مکسوب۔ اس تصور کو سمجھنے کے لئے بچے کی تخلیق کے عمل ہی کو لیجئے، ہر شخص جانتا ہے کہ بچہ محض مرد و عورت کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جانے ہی سے پیدا نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی پیدائش کے لئے ’امرِ ایزدی‘ کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ کتنے ہی جوڑے ایسے ہیں کہ برسہا برس گزر جانے کے باوجود ان کے دامن بچوں کی نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بچے کی تخلیق میں بنیادی عمل دخل ’رشتہ ازدواج‘ کا ہی ہوتا ہے۔ گویا کسباً تو بچے کو وجود والدین کے دم قدم سے ملا لیکن خلقًا یہ خدا تعاليٰ کی عطا کا مرہونِ منت ہے۔
اسی لئے قرآن کریم میں ایسے ’جوڑوں‘ کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے جو اولاد کی نعمت کو اپنی طرف یا کسی اور سفلی ذریعے کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے :
فَلَمَّآ اٰتٰهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَه شُرَکَآئَ فِيْمَآ اٰتٰهُمَاج فَتَعٰلَی اﷲُ عَمَّا يُشْرِکُوْنَo
الأعراف، 7 : 190
’’پھر جب اس نے انہیں تندرست بچہ عطا فرما دیا تو دونوں اس (بچے) میں جو انہیں عطا فرمایا تھا اس کے لئے شریک ٹھہرانے لگے تو اللہ ان کے شریک بنانے سے بلند و برتر ہےo‘‘
حالانکہ اولاد کی نعمت عطا کرنا یا اس سے محروم رکھنا اور اسی طرح دیگر انسانی حاجات کی تکمیل کرنا خالصتاً اﷲ ربّ العزت کا فعل ہے۔ اسی طرح ہر انسانی عمل اپنے کسب میں انسانی ہاتھوں کا محتاج ہے مگر اپنے وجود اور اپنی ہستی میں خدا تعاليٰ کے حکم ’کُن‘ کا دست نگر ہے۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسانی عمل دیکھنے میں تو انسان ہی کی تخلیق محسوس ہوتا ہے، اسے انسانی کسب سے الگ ایک مخلوق کس طرح مان لیا جائے۔ اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہر مخلوق کے لئے الگ طور پر قابل دید ہونا بھی ضروری ہے یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر مخلوق بحیثیت مخلوق، ہر ایک کے لئے مرئی نہیں ہوا کرتی۔ قرآن کریم میںاللہ رب العزت نے قسم کے ساتھ یوں ارشاد فرمایا :
فَلَا اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَo وَمَا لَا تُبْصِرُوْنَo
الحاقة، 69 : 38-39
’’سو میں قَسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہوoاور ان چیزوں کی (بھی) جنہیں تم نہیں دیکھتےo‘‘
سائنس بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ دُنیا میں بہت سی اشیاء موجود ہونے کے باوجود نظر نہیں آسکتیں، مثلاً ہوا ہر جگہ موجود ہے مگر یہ ہوا انسانی آنکھ یا خوردبین کے ذریعے نہیں دیکھی جا سکتی۔ اسی طرح انسانی آواز مخلوق ہے، اگر تھوڑی دیر کے لئے کان بند کر لئے جائیں تو آنکھوں اور دوسرے حواس کی مدد سے اس کا ادراک نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ کسی چیز کا مرئی ہونا (یعنی دکھائی دینا) اس وقت ضروری ہے جب کہ اس کا طبعی وجود کثیف ہو اور دوم یہ کہ اس کی محسوس اور معلوم کرنے والی خاص حِس اپنی صحیح حالت میں ہو۔ جو اشیاء غیر حسیّ ہوں یا ان کو محسوس کرنے والے حواس میں نقص ہو تو ایسی صورت میں کوئی چیز خارج میں پائے جانے کے باوجود محسوس نہیں کی جا سکتی۔
خود انسان حسی اور کثیف وجود رکھتا ہے، اس لئے اس کا موجود ہونا آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے مگر اس کا عمل بذات خود ایک لطیف وجود ہے۔ لہٰذا اس کے اثرات و نتائج کا تو ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور اس کے ارتکاب میں استعمال ہونے والے اعضاء بھی ہم دیکھ سکتے ہیں، مگر ان اعضاء و جوارح اور اثرات و نتائج سے قطع نظر فی نفسہ عمل کے وجود کو محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی مثال بالکل ایسے ہے کہ رحمت اور محبت حقیقت میں اپنا اپنا وجود تو رکھتے ہیں لیکن جب تک انہیں آپ ماں کی مامتا، باپ کی شفقت اور دوست کے اخلاص کے روپ میں نہ دیکھیں، ان کا وجود از خود دکھائی نہیں دیتا۔ یعنی اُنہیں دیکھنے کے لئے کسی رحم دل شخص کے عمل اور کسی محبت کرنے والے کے التفات کا سامنے ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ انسانی یا حیوانی ظرف نہ ہوں تو رحم، غصہ، محبت، نفرت، بخل، حرص اور تکبر جیسے اوصاف دکھائی نہیں دے سکتے۔ گویا اوصاف کے وجود کا انکار ممکن نہیں لیکن ان کے ظہور کے لئے کسی مظہر کا ہونا ضروری ہے۔ ان کے پائے جانے کا انکار ممکن نہیں مگر انہیں سمجھنے کے لئے کوئی ذریعہ چاہیے۔ جو شے خود ایک لطیف یا غیر حسی وجود رکھتی ہو اسے معلوم کرنے کے لئے اس کا اتصال کسی حسی اور کثیف حقیقت سے ہونا ضروری ہے جیسے جان جسم کے بغیر دکھائی نہیں دیتی۔ اسی طرح عمل کسی عامل کی شکل میں دکھائی دیتا ہے، اس کے بغیر نہیں۔ لہٰذا عامل کو عمل کا خالق نہیں بلکہ اس کا کاسب تصور کیا جائے گا کیوں کہ اس نے عمل کو فی نفسہ پیدا نہیں کیا بلکہ اسے کرکے دکھایا ہے۔
قرآن کریم یہ حقیقت بھی پوری طرح واضح کر دیتا ہے کہ اگرچہ ہر انسانی عمل تخلیق کے اعتبار سے تو مخلوق خدا ہے لیکن صدور اور ظہور کے اعتبار سے انسان کا کسب ہے اور کسب و ارتکاب چونکہ آزادانہ ہے اس لئے وہی اپنے عمل کے انجام کا ذمہ دار ہے کیوں کہ جزا و سزا کا تعلق کسب اعمال سے ہوتا ہے نہ کہ خلق اعمال سے۔ اسی بنا پر سورۂ الملک میں انسانی تخلیق کا مقصد واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا :
الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً.
الملک، 67 : 2
’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔‘‘
موت و حیات بھی اپنی تخلیق کے اعتبار سے اﷲ تعاليٰ کی مخلوق ہیں مگر اپنے واقع ہونے کی مناسبت سے ان کا وجود کسی نہ کسی سبب کا مرہونِ منت ہے۔ اسی طرح اعمال بھی تخلیق کے اعتبار سے مخلوق باری تعاليٰ ہیں، لیکن ان کا وجود میں آنا انسان کا مرہونِ منت ہے۔ زندگی اعمال کے ارتکاب کا سبب بنتی ہے اور موت عالم آخرت میں ان کے نتائج کے مشاہدے کا۔ دُنیا میں موت و حیات کی تخلیق کی غرض و غایت بھی یہی ہے کہ یہ دیکھا جا سکے کہ کون اچھے اعمال اپناتا ہے اور کون بُرے۔ اسی تصور کو قرآن کریم دوسری جگہ واضح کرتا ہے :
وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَيْدِيْکُمْ.
الشوريٰ، 42 : 30
’’اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے۔‘‘
ایک دوسری جگہ اسی حقیقت کو یوں بیان کیا گیا ہے :
مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اﷲِ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ.
النساء، 4 : 79
’’(اے انسان اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر) اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابی نفس کی طرف منسوب کر)۔‘‘
گویا نعمت کے حصول میں تو خدا تعاليٰ کا لطف و کرم شامل ہوتا ہے مگر مصیبت کے وقوع میں خالصتاً انسان کی اپنی غلطیوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اگرچہ ہر اچھائی اور برائی کی خلقت ہوتی من جانب اﷲ ہے لیکن ادب زندگی یہی ہے جس کی اوپر تعلیم دی جارہی ہے۔ یعنی انسان دنیا میں جن نقصانات، مشکلات اور آزمائشوں سے دوچار ہوتا ہے وہ سب اس کے اپنے اعمال کے نتائج و ثمرات ہیں۔
یہ تو انفرادی شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی مصیبتوں کا ذکر تھا، دوسری جگہ اجتماعی زندگی کی مشکلات کو بھی لوگوں کے اپنے اعمال کے نتائج قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے :
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَيْدِی النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا.
الروم، 30 : 41
’’بحر و بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں تاکہ (اﷲ) انہیں بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کیے ہیں۔‘‘
اس دنیا میں نیکی یا بدی کا خلقی وجود گو من جانب اللہ ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے کسب کی ذمہ داری ان کے خالق پر عائد نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ اللہ کا فعل مطلقاً خلق ہے نہ کہ کسب و ارتکاب۔ خلق کا مقصد یہ تھا کہ انسان کو اچھائی اور برائی میں تمیز کا شعور اور اختیار بخشا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ انسان عمل کے کس پہلو کو اختیار کرتا ہے۔ پھر ہر عمل کی تخلیق کے ساتھ ساتھ ہدایت ربّانی کے ذریعے اس عمل کے نتائج و عواقب سے بھی انسان کو باخبر کردیا جاتا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے فتنہ و شر اور بدی کا راستہ اختیار کرے تو وہ ا پنے اعمال کی جزا و سزا کا ذمہ دار کیوں نہ ٹھہرایا جائے؟
اس تفصیل سے یہ مسئلہ اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ انسان سے اگر مواخذہ ہوتا ہے تو اس لئے کہ وہ بقائم ہوش و حواس اپنی مرضی اور اپنے ارادہ و اختیار سے کسی عمل کا ارتکاب کرتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بے سود ہے کہ جب ہر عمل کا خالق اللہ تعاليٰ ہے تو انسان کو کیوں لائق تعزیر گردانا جاتا ہے؟ انسان کو بلاوجہ نہیں پکڑا جاتا بلکہ اس کی گرفت اس کے سبب و اختیار کا نتیجہ ہوتی ہے۔
یہی غلط فہمی مشرکین مکہ میں بھی موجود تھی۔ چنانچہ وہ کہا کرتے تھے :
لَوْ شَآئَ اﷲُ مَآ اَشْرَکْنَا وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْئٍ.
الأنعام، 6 : 148
’’اگر اﷲ چاہتا تو نہ (ہی) ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے آباء و اجداد اور نہ کسی چیز کو (بلا سند) حرام قرار دیتے۔‘‘
مگر اس کے جواب میں ان سے کہا گیا کہ محض برائی کا وجود اس کے جائز ہونے کا ثبوت نہیں ہو سکتا، برائی اور اچھائی تو ازل سے موجود ہے اور اسی غرض کے لئے ہے کہ اکتساب کے حوالے سے لوگوں میں اچھے اور برے کا امتیاز پید اہو سکے۔
خدائی فعلِ ’خلق‘ کی حقیقت تو فقط اتنی ہے کہ اس نے اپنی دوسری بہت سی مخلوقات کی طرح انسانی اعمال کو بھی تخلیق کیا اور انسان کو بھی پیدا کر کے اسے اختیار دے دیا کہ وہ جس قسم کے اعمال چاہے اپنے لئے منتخب کرلے۔ اس لئے انسان اپنے اختیار سے اعمال کا جو چناؤ کرے گا اور جس قسم کے اعمال کو اپنے کسب و ارتکاب کے لئے مختص کرے گا وہ اسی طرح کی جزا یا سزا کا مستوجب ہوگا۔ اگر غور کیا جائے تو صاف نظر آجاتا ہے کہ اس پوری کائنات میں ذمہ داریوں کا نظام بھی کسب پر ہی چل رہا ہے نہ کہ خلق پر۔
خدا تعاليٰ نے ہر چیز کی ضد پیدا کی ہے : دن کے ساتھ رات، آرام کے ساتھ بے آرامی، راحت کے ساتھ تکلیف، خیر کے ساتھ شر، حق کے ساتھ باطل، صدق کے ساتھ کذب، رحم کے ساتھ ظلم، نیکی کے ساتھ بدی اور جنت کے ساتھ دوزخ۔ اب محض ایک چیز کا موجود ہونا اس کے اپنانے کی ذمہ داری سے براء ت کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ اگر اﷲ تعاليٰ نے سائے کے ساتھ دھوپ کو پیدا کیا تو اس لئے نہیں کہ کوئی سخت گرمی میں دھوپ میں جا بیٹھے اور کسی تکلیف کے واقع ہوجانے کے بعد وہ یہ کہے کہ میری تکلیف کا باعث خدا تعاليٰ کا دھوپ کو پیدا کرنا ہے۔ اس صورت میں اس کے اس قول پر کون یقین کرے گا؟ اُلٹا ہر کوئی اسے ہی کہے گا کہ خدا تعاليٰ نے دھوپ اور سائے کی تخلیق تو اس لئے فرمائی تھی کہ انسان کو گرمیوں میں سائے اور سردیوں میں دھوپ دونوں کی راحت میسر آسکے۔ دھوپ کی تخلیق کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ کوئی شخص بلامقصد برہنہ سر یا برہنہ پاؤں چلچلاتی دھوپ میں چلے پھرے اور خواہ مخواہ کسی تکلیف سے دوچار ہو جائے۔ اگر خود انسان نے اس کا استعمال غلط طریقے پر کیا تو اس سے تخلیق کا کیسے قصور ثابت ہوا۔
مسئلہ تقدیر کے ضمن میں ایک مسئلہ انسان کے مجبور یا مختار ہونے کا بھی ہے کہ آیا انسان کو مکمل طور پر مختار سمجھا جائے یا مجبور محض۔ تاریخ اسلام میں ایسے متعدد فرقوں کا ذکر ملتا ہے جن میں سے بعض کا یہ خیال تھا کہ انسان مجبور محض ہے اور وہ ایک تنکے کو بھی اپنی مرضی سے ہلانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ جب کہ ان کے بالمقابل بعض ایسے لوگ بھی تھے جو انسان کو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار قرار دیتے تھے۔ حالانکہ قرآن و سنت کی روشنی میں جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ ’بین القدر والجبر‘ ہے۔
اس ضمن میں حقیقت بالکل واضح ہے کہ انسان نہ تو کلیتاً اتنا مختار ہے کہ اس پر کوئی قدغن ہی نہ ہو اور نہ ہی ایسا مجبور ہے کہ وہ خود کو ہر ذمہ داری سے بَری قرار دے سکے۔ انسان کی حقیقی حیثیت ’بین القدر و الجبر‘ ہے جو ایک معتدل کیفیت سے عبارت ہے۔ فی الواقع اسے اختیار و ارادے کی مکمل آزادی ہے لیکن اس کی آزادی میں نہ افراط ہے نہ تفریط۔
منقول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے اس مسئلے کی بابت استفسار کیا۔ روایت کے الفاظ ہیں :
جاء رجل إلی علي، فقال : أخبرني عن القدر، فقال : طريق مظلم لا تسلکه، قال : أخبرني عن القدر، قال : بحر عميق لا تلجه، قال : أخبرني عن القدر، قال : سر اﷲ قد خفي عليک فلا تفتشه، قال : أخبرني عن القدر، قال : يا أيها السائل إن اﷲ خلقک لما شاء أولها شئت، قال : بل لما شاء، قال : فيستعملک کما شاء.
1. سيوطی، تاريخ الخلفاء، 1 : 182
2. هندی، کنز العمال،1 : 181، رقم : 1561
’’ایک آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا : مجھے قدر کے بارے میں بتلائیے، آپ نے فرمایا : یہ ایک تاریک راستہ ہے اس پر مت چلو، اس نے کہا : مجھے قدر کے بارے میں بتلائیے۔ آپ نے فرمایا : یہ ایک گہرا سمندر ہے اس میں داخل نہ ہو، اس نے پھر کہا : مجھے قدر کے بارے میں بتلائیے۔ آپ نے فرمایا : یہ اللہ تعاليٰ کا ایک راز ہے جو اس نے تم پر مخفی رکھا ہے، پس اس کے بارے میں کھوج نہ لگا، اس نے پھر کہا : مجھے قدر کے بارے میں بتلائیے، آپ نے فرمایا : اے سائل! مجھے یہ بتاؤ! اللہ تعاليٰ نے تمہیں اپنی منشا سے پیدا کیا ہے یا تمہاری منشا سے؟ اس نے کہا : بلکہ اس نے اپنی منشا سے پیدا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا : پس وہ تم سے اسی طرح کام لے گا جس طرح وہ چاہتا ہے۔‘‘
بین القدر والجبر کے تصور کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ان مراحل کو سمجھا جائے جن سے گزر کر کوئی عمل تکمیل پذیر ہوتا ہے۔
سب سے پہلے انسان کے دل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے متعلق ایک کش کے مکش پید اہوتی ہے۔ یعنی اس کا فرض اور اس کی آرزو بیک وقت اس کے سامنے آتے ہیں اور پھر وہ اس احساس سے دوچار ہوتا ہے کہ یہ کام کرے یا نہ کرے۔
یہاں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ یہ احساس صرف شعوری اور اختیاری اعمال سے متعلق ہوتا ہے۔ جو اعمال غیر شعوری اور غیر اختیاری طور پر صادر ہوتے ہیں اور جنہیں اضطراری اعمال کہا جاتا ہے اُن کا ان مراحل سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ایسے افعال پر گرفت ہوتی ہے۔ عملاً اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کی آنکھ میں سوئی چبھونا چاہے اور اس کے خوف سے آپ کی پلکیں اضطراری طور پر بند ہو جائیں، تو یہ ایک اضطراری فعل ہے اور ایسا فعل قابل مواخذہ نہیں، لیکن اگر یہی پلکیں بدنیتی سے کسی فعلِ ناحق کے لئے حرکت کریں تو یہ اختیاری اور ارادی فعل ہوگا اور اس پر گرفت ہو گی۔ حرکت ایک ہی ہے مگر ارادے اور نیت نے اسے کچھ سے کچھ بنا دیا۔
بہرحال اولاً ذہن میں ایک کشمکش سی پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کا مال دیکھ کر اسے ناجائز طور پر ہتھیانے کی خواہش پیدا ہوئی اور دوسری طرف خدا کے حکمِ نہی کا بھی خیال آگیا۔ نتیجتاً دونوں خیالات اُبھرے اور ذہن میں ایک کشمکش سی شروع ہو گئی۔ اسی لئے اس ابتدائی سوچ کے مرحلے کو ’کشمکش کا مرحلہ‘ کہا گیا ہے۔
اس کے بعد غور و خوض کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ذہن دونوں چیزوں کے ممکنہ نتائج یعنی فوائد و نقصانات کا جائزہ لیتا ہے، وہ خدائی حکم پر بھی نظر ڈالتا ہے اور دنیوی منافع پر بھی، اس طرح فعل کا ذہنی وجود کشمکش کے ابتدائی مرحلے سے گزر کر غورو خوض کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ کشمکش اور غور و خوض کے دونوں مرحلوں پر انسانی ذہن کسی قسم کی مجبوری اور پابندی (coersion & compulsion) کا شکار نہیں ہوتا۔ یہ دونوں عمل ذہن اور شعور کی سطح پر آزادانہ طریقے سے واقع ہوتے ہیں۔
اس کے بعد اگلا مرحلہ ذہنی فیصلے کا ہوتا ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا ہے اور پوری سوچ و بچار کے بعد اسے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اچھائی کا مرتکب ہو یا برائی کا، صحیح راستے پر گامزن ہو یا غلط پر اور فرض کی پیروی کرے یا خواہش نفس کی، اسی ذہنی فیصلے کو ’انتخابِ نیت‘ کہتے ہیں۔ یہاں تک انسان اپنے ذہنی عمل سے گزرتا ہے۔ آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچ کر بتایے کہ کیا ان تینوں مرحلوں میں کسی اعليٰ قوت نے انسان کو مجبور کیا؟ اسے خواہش کو اختیار کرنے یا فرض پورا کرنے کے درمیان غور و خوض پر کسی طرف سے خارجی دباؤ پڑا؟ ہرگز نہیں، یہ تو خالصتاً ذہنی، قلبی اور داخلی عمل تھا۔ ایک کشمکش اور ذہنی تصادم کے مرحلے سے گزر کر سوچ و بچار کے نتیجے میں ذہنی فیصلے کے مرحلے تک پہنچے۔ یہاں تک عمل مکمل طور پر آزاد ہے۔
اس کے بعد عزم و ارادے کا مرحلہ آتا ہے جہاں پہنچ کر آپ اپنے ذہنی فیصلے یعنی نیت کو واقعہ بنانے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے ذہنی طور پر کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ یہاں نیت اور ارادے میں فرق پیش نظر رہے کہ نیت ذہنی سطح پر کسی چیز کو منتخب کرنے اور ارادہ اس نیت کی تکمیل پر ذہن کے کمربستہ ہوجانے کا نام ہے۔ گویا ارادہ نیت کے انتخاب سے جنم لیتا ہے۔ نیت مقدم ہوتی ہے اور ارادہ مؤخر، لہٰذا ارادہ ہمیشہ نیت کے تابع ہوتا ہے۔
اس کے بعد پانچواں مرحلہ ارادے کی تعمیل کاآتا ہے۔ جہاں پہنچ کر انسان عملی قدم اٹھاتا ہے، عملی تدبیر کے لئے سرگرم ہو جاتا ہے۔ اگر بالفرض آپ نے کسی دشمن کو مارنے کا ارادہ کرلیا ہے تو آپ کے عمل کا پانچواں مرحلہ کسی ہتھیار کے ساتھ اس پر حملہ کرنا ہو گا، لہٰذا ثابت ہوا کہ تعمیل ہمیشہ ارادے کے تابع ہوتی ہے۔
جب ارادے کی تعمیل ہو چکی تو اب اس عمل کے نتیجے کے برآمد ہونے کا مرحلہ آتا ہے۔ مثلاً ہتھیار استعمال کرنے سے وہ شخص مرجائے یا زخمی ہو جائے گا۔ یہ نتیجہ آپ کے مرحلہ تعمیل کے تابع ہے، جبکہ مرحلہ تعمیل خود عزم و ارادے کے تابع ہے اور انتخاب نیت کا مرحلہ خود کسی شے کے تابع نہیں، کیوں کہ وہ محض غور و خوض کے نتیجے میں وجود پذیر ہوا تھا۔
یہ چھ مراحل ہیں جن سے گزر کر کوئی عمل اپنے نتیجے کے مرحلے تک پہنچتا ہے اب بتائیے کہ ان مراحل میں سے وہ کون سا مرحلہ ہے جہاں آپ پر کوئی خارجی دباؤ موجود تھا؟ ذہنی کشمکش سے لے کر نتیجہ عمل تک آپ خود بخود آگے بڑھتے چلے گئے اسی اقدام کا نام ’کسبِ عمل‘ ہے۔
بالفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمل کے چھ مرحلے دو حصوں میں منقسم ہیں۔ پہلا حصہ ذہنی کشمکش سے شروع ہوکر انتخاب نیت کا تھا، جبکہ دوسرا ارادے سے شروع ہوکر نتیجہ عمل تک محیط تھا۔ ان میں سے پہلے حصے میں آدمی خود مختار اور آزاد ہوتا ہے لیکن دوسرے حصے میں خود اپنے انتخاب نیت کا پابند۔ لیکن یہ مجبوری کیسی؟ خود اپنی سوچ اور نیت کی مجبوری۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ارشاد فرمایا :
إِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّيَاتِ.
بخاری، الصحيح، کتاب بدء الوحي، 1 : 3، رقم : 1
’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘
مزید فرمایا :
إِنَّ اﷲَ لَا يَنْظُرُ إِلَی صُوَرِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ وَلَکِنْ يَنْظُرُ إِلَی قُلُوْبِکُمْ وَأَعْمَالِکُمْ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره
ودمه وعرضه وماله، 4 : 1986، رقم : 2564
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب القناعة، 2 : 1388، رقم : 4143
3. ابن حبان، الصحيح، 2 : 119، رقم : 394
’’بلاشبہ اﷲ تعاليٰ تمہاری شکلوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں (یعنی نیتوں) اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘
گویا اﷲ تعاليٰ کے ہاں عمل کی ذمہ داری کا فیصلہ انسان کی نیت اور اس کے ارادے کے مطابق ہوتاہے۔ جیسی نیت ہو گی ویسی ہی جزائے عمل ہو گی۔ اسی بنا پر قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا :
وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْم بَيْتِه مُهَاجِرًا اِلَی اﷲِ وَرَسُوْلِه ثُمَّ يُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُه عَلَی اﷲِ.
النساء، 4 : 100
’’اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے پھر اسے (راستے میں ہی) موت آپکڑے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا۔‘‘
کیوں کہ خدا کی ذات یہ نہیں دیکھتی کہ اس کا یہ عمل اپنے انجام تک پہنچا یا نہیں، بلکہ یہ دیکھتی ہے کہ اکتساب عمل میں اس کی نیت کیا تھی۔
قرآن و حدیث میں اسی بنا پر نیت کے اخلاص اور اس کی درستگی پر زور دیا گیا ہے اور اسی پر ہی تمام فوائد و ثمرات مرتب ہوتے ہیں۔ نیت سے ہی ایک شخص مخلص مسلمان اور نیت سے ہی ایک شخص منافق سمجھا جاتا ہے، حالانکہ زبان اور ظاہر کی حد تک قول دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ انسان اچھائی یا برائی کے ارتکاب کے لئے جب اپنی نیت کا انتخاب کرتا ہے اس وقت وہ مکمل طور پر باشعور اور بااختیار ہوتا ہے۔ اسے دونوں راستوں میں سے کسی بھی راہ کو اپنانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ مرحلہ خالصتاً اس کے اپنے ذہنی فیصلے کا ہوتا ہے۔ اسی آزادی کی بنا پر وہ شخص ’بااختیار‘ تصور کیا جاتا ہے۔ اور اس کے اسی اختیار کے باعث اس سے جواب طلبی اور مواخذہ بھی ہوتا ہے۔ کیوں کہ بقیہ تمام مراحل عمل اس کی آزادانہ منتخب شدہ نیت کے تابع ہوتے ہیں۔ رہا خارجی مجبوریوں اور حالات کی پریشانیوں کا دباؤ تو اس کا اثر نیت کے مرحلے پر نہیں بلکہ عزم و ارادے کے مرحلے (یعنی چوتھے مرحلے) پر ہوتا ہے۔ کیوں کہ عزم و ارادہ اصولی طور پر تو انتخاب نیت کے تابع ہوتا ہے لیکن کسی مجبوری کے باعث یہ ارادہ نیت (ذہنی طلب اور قلبی فیصلے) کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی دل تو کچھ اور چاہتا ہو لیکن کسی مجبوری کے تحت ارادہ کسی اور کام کا کرنا پڑے۔ گویا ذہن کسی کام کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا ارادہ کرنے پر مجبور ہو۔ اگر ایسی صورت حال ہو تو یہ فعل ’جبر و اکراہ‘ کہلاتا ہے اور جبر و اکراہ حالتِ اِضطرار (extreme necessity) تک پہنچ جائے تو انسان سے اخلاقی و قانونی ذمہ داری اور جواب دہی مرتفع ہوجاتی ہے۔ خدا کی ذات صحیح معنوں میں مجبور شخص کو سزا نہیں دیتی۔ لہٰذا یہ حالت ’استثنيٰ (exception)‘ کی ہو گئی مگر اصول و کلیہ وہی رہا کہ ہر شخص اپنے آزادانہ انتخابِ نیت کے باعث پابندِ جزا و سزا ہے۔
اس موضوع پر عقائد اسلامی کی کتاب ’شرح العقائد النسفیۃ‘ میں بڑی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس بحث کے چند ضروری مقامات حسب ذیل ہیں۔ علامہ تفتازانی فرماتے ہیں :
وللعباد أفعال اختياريةُ يُثابونَ بها إن کانت طاعة ويعاقبون عليها إن کانت معصية لا کما زعمت الجبرية أنه لا فعل للعبد أصلا وأن حرکاته بمنزلة حرکات الجمادات لا قدرَة عليها ولا قصد ولا اختيار وهذا باطل لأنا نفرق بالضرورة بين حرکة البطش وحرکة الِارتعاش ونعلم أن الأول باختياره دون الثاني ولأنه لو لم يکن للعبد فعل أصلا لما صحَّ تکليفهُ، ولا يترتبُ استحقاق الثواب والعقاب علی أفعاله ولا إسناد الأفعال التي تقتضی سابقية القصد والاختيار إليه علی سبيل الحقيقة مثل صلی وکتب وصام بخلاف مثل طال الغلام واسودَّ لونُه إن اﷲ خالق والعبد کاسب وتحقيقه أن صرف العبد قدرته وإرادته إلی الفعل کسب وإيجاد اﷲ تعالی الفعل عقيب ذالک خلق والمقدور الواحد داخل تحت القدرتين لکن بجهتين مختلفتين فالفعل مقدور اﷲ تعالی بجهة الإيجاد ومقدور العبد بجهة الکسب کالأرض تکون ملکا ﷲ تعالی بجهة التخليق وللعباد بجهة ثبوت التصرّف.
1. تفتازانی، شرح العقائد النسفية، 1 : 81-84
2. سفارينی، لوامع الأنوار البهية، 1 : 292
’’اور بندوں کو اپنے افعال کاا ختیار حاصل ہوتا ہے۔ اس بنا پر اگر یہ افعال طاعت پر مبنی ہوں تو ان کا ثواب ملتا ہے اور اگر معصیت پر مبنی ہوں تو ان پر عذاب دیا جاتا ہے۔ فرقہ جبریہ کا یہ کہنا غلط ہے کہ بندے کو اپنے افعال کا کچھ اختیار ہی نہیں۔ اس کی حرکات و سکنات تو محض جمادات کی حرکات کے مشابہ ہیں، جنہیں اپنے افعال پر نہ قدرت حاصل ہوتی ہے اور نہ قصد و اختیار، یہ باطل ہے، کیوں کہ ہم پکڑنے اور کانپنے کی حرکت میں ضرور فرق کرتے ہیں، اور یہ بھی جانتے ہیں کہ پہلی حرکت بندے کے اختیار سے ہے نہ کہ دوسری حرکت، اگر بندے کو اپنے افعال کا اختیار ہی نہیں تو اس کا احکام الٰہی کا مکلف ٹھہرایا جانا اور اس کا ثواب و عذاب کا مستحق ہونا، نیز افعال کا اس کی طرف منسوب ہونا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ ان افعال میں حرکت سے پہلے قصد اور اختیار ہوتا ہے۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ اس نے نماز پڑھی، اس نے لکھا جو اشیاء اس کی قدرت سے باہر ہیں ان کے متعلق انداز مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ اس نے روزہ رکھا، لڑکا بڑا ہو گیا، یا اس کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔ ان افعال کی نسبت بندے کی طرف نہیں کی جاتی۔ بلاشبہ اللہ تعاليٰ خالق ہیں اور بندہ اعمال کا کاسب ہے اور تحقیق اس کی اس طرح ہے کہ بندہ اس کام میں اپنی قدرت اور صلاحیت صرف کرتا ہے لہٰذا یہ کسب ہے اور اﷲ تعاليٰ اس کی کوشش کے بعد اس فعل کو موجود کر دیتا ہے، یہ خلق ہے ایک ہی فعل دو قدرتوں سے وجود میں آتا ہے لیکن دو مختلف جہتوں سے فعل اپنے وجود کے اعتبار سے خدا کا فعل ہے۔ مگر اپنے کسب کے اعتبار سے بندے کا۔ جس طرح زمین تخلیق کے اعتبار سے اللہ تعاليٰ کی ملکیت ہے اور ثبوت تصّرف کے اعتبار سے بندے اس کے مالک ہیں۔‘‘
علامہ تفتازانی کی مذکورہ بالا بحث سے یہ مسئلہ اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اگرچہ ہر چیز اﷲ تعاليٰ کے فعلِ خَلق کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتی ہے، لیکن عملی طور پر بندہ اپنے افعال میں کسب کا اختیار رکھتا ہے اور اسی اختیار کی بنیاد پر اپنے ہر عمل کا ذمہ دار اور اس پر جزا و سزا کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved