اربعین: توحید اور ممانعت شرک

شرک تمام گناہوں میں سب سے گھناؤنا اور سب سے کبیرہ گناہ ہے

أَنَّ الشِّرْکَ أَقْبَحُ الذُّنُوْبِ وَأَکْبَرُ الْکَبَائِرِ

{شرک تمام گناہوں میں سب سے گھناؤنا اور سب سے کبیرہ گناہ ہے}

اَلْقُرْآن

(1) اِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُشْرَکَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَشَآءُ ج وَمَنْ يُشْرِکْ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرٰیٓ اِثْمًا عَظِيْمًاo

(النساء، 4/ 48)

بے شک اللہ اِس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر (جو گناہ بھی ہو) جس کے لیے چاہتا ہے بخش دیتا ہے، اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس نے واقعتاً زبردست گناہ کا بہتان باندھا۔

(2) اِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُشْرَکَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَشَآءُ ط وَمَنْ يُشْرِکْ بِاللهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاًم بَعِيْدًاo

(النساء، 4/ 116)

بے شک اللہ اس (بات) کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور جو (گناہ) اس سے نیچے ہے جس کے لیے چاہے معاف فرما دیتا ہے، اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ واقعی دور کی گمراہی میں بھٹک گیا۔

(3) لَقَدْ کَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ ط وَقَالَ الْمَسِيْحُ يٰـبَنِيْٓ اِسْرَآئِيْلَ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّيْ وَرَبَّکُمْ ط اِنَّهُ مَنْ يُشْرِکْ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰهُ النَّارُ ط وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍo

(المائدة، 5/ 72)

درحقیقت ایسے لوگ کافرہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم (علیہما السلام) ہے حالاں کہ مسیح (علیہ السلام) نے (تو یہ) کہا تھا: اے بنی اسرائیل! تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا (بھی) ربّ ہے اور تمہارا (بھی) ربّ ہے۔ بے شک جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گاتو یقینا اللہ نے اس پر جنت حرام فرما دی ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی بھی مدد گار نہ ہوگا۔

(4) وَکَيْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْکُمْ سُلْطٰنًا ط فَيُ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ ج اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَo

(الأنعام، 6/ 81-82)

اور میں ان (معبودانِ باطلہ) سے کیونکر خوفزدہ ہوسکتا ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو درآنحالیکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ (بتوں کو) شریک بنارکھا ہے (جب کہ) اس نے تم پر اس (شرک) کی کوئی دلیل نہیں اتاری (اب تم ہی جواب دو!) سو ہر دو فریق میں سے (عذاب سے) بے خوف رہنے کا زیادہ حقدار کون ہے؟ اگر تم جانتے ہو۔ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم کے ساتھ نہیں ملایا انہی لوگوں کے لیے امن (یعنی اخروی بے خوفی) ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔

(5) وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرُ نِابْنُ اللهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیحُ ابْنُ اللهِ ط ذٰلِکَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْج يُضَاهِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ط قَاتَلَهُمُ اللهُج اَنّٰی يُؤْفَکُوْنَo اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ج وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰهًا وَّاحِدًا ج لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ط سُبْحٰـنَهُ عَمَّا يُشْرِکُوْنَo

(التوبة، 9/ 30-31)

اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاريٰ نے کہا: مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کا (لغو) قول ہے جو اپنے مونہہ سے نکالتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے قول سے مشابہت (اختیار) کرتے ہیں جو (ان سے) پہلے کفر کر چکے ہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کے سوا اپنے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا اور مریم کے بیٹے مسیح (علیہ السلام) کو (بھی) حالاں کہ انہیں بجز اس کے (کوئی) حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اکیلے ایک (ہی) معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ان سے پاک ہے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔

(6) وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يٰـبُنَيَ لَا تُشْرِکْ بِاللهِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌo

(لقمان، 31/ 13)

اور (یاد کیجیے) جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اور وہ اسے نصیحت کر رہا تھا، اے میرے فرزند! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بے شک شِرک بہت بڑا ظلم ہے۔

(7) وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْکَ وَاِلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکَج لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo بَلِ اللهَ فَاعْبُدْ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِيْنَo

(الزمر، 39/ 65-66)

اور فی الحقیقت آپ کی طرف (یہ) وحی کی گئی ہے اور اُن (پیغمبروں) کی طرف (بھی) جو آپ سے پہلے (مبعوث ہوئے) تھے کہ (اے انسان!) اگر تُو نے شرک کیا تو یقینا تیرا عمل برباد ہو جائے گا اور تُو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ بلکہ تُو اللہ کی عبادت کر اور شکر گزاروں میں سے ہو جا۔

اَلْحَدِيْث

20. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ مَاتَ يُشْرِکُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ. وَقُلْتُ أَنَا: مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِکُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب مَا جَاءَ فِي الْجَنَائِزِ وَمَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِهِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، 1/ 417، الرقم/ 1181، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب من مات يشرک باللہ شيئا دخل الجنة، 1/ 94، الرقم/ 92، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 382، الرقم/ 3625، وأبو عوانة في المسند، 1/ 27، الرقم/ 30، والشاشي في المسند، 2/ 61، الرقم/ 559، وابن منده في الإيمان، 1/ 212، الرقم/ 66.

حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اِس حال میں فوت ہو کہ اللہ تعاليٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ میں نے کہا: (اس کا مطلب ہے کہ) جو شخص اِس حال میں فوت ہو کہ اللہ تعاليٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ جَابِرٍ رضی الله عنه، قَالَ: أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْمُوْجِبَتَانِ؟ فَقَالَ: مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِکُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ مَاتَ يُشْرِکُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب من مات لا يشرک باللہ شيئا دخل الجنة ومن مات مشرکا دخل النار، 1/ 94، الرقم/ 93، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 391، الرقم/ 15237، وأبو يعلی في المسند، 4/ 188، الرقم/ 2278، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 322، الرقم/ 1060، وأبو عوانة في المسند، 1/ 27، الرقم/ 31، وابن منده في الإيمان، 1/ 218، الرقم/ 76، والبيھقي في السنن الکبريٰ، 7/ 44، الرقم/ 13075.

ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ! وہ کون سی دو چیزیں ہیں جو جنت یا دوزخ کو واجب کر دیتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کا خاتمہ اس حال میں ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا، وہ جنت میں جائے گا اور جس شخص کا خاتمہ شرک پر ہوا وہ جہنم میں جائے گا۔

اسے امام مسلم، احمد اور ابو یعلٰی نے روایت کیا ہے۔

21. عَنْ مُعَاذٍ رضی الله عنه، قَالَ: کُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی حِمَارٍ يُقَالُ لَهُ عُفَيْرٌ، فَقَالَ: يَا مُعَاذُ، هَلْ تَدْرِي حَقَّ اللهِ عَلٰی عِبَادِهِ، وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللهِ؟ قُلْتُ: اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّ حَقَّ اللهِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوْهُ، وَلَا يُشْرِکُوْا بِهِ شَيْئًا، وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَی اللهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا. فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَفَـلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ؟ قَالَ: لَا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّکِلُوْا.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد، باب اسم الفَرَسِ والحمار، 3/ 1049، الرقم/ 2701، وأيضًا في کتاب الاستئذان، باب من أجاب بَلبّيک وسعديک، 5/ 2312، الرقم/ 5912، وأيضًا في کتاب التوحيد، باب ما جاء في دُعائِ النّبيِ صلی الله عليه وآله وسلم أمَّتَهُ إلی توحيد اللہ تبارک وتعالی، 6/ 2685، الرقم/ 2938، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علی أن من مات علی التوحيد دخل الجنة، 1/ 58-59، الرقم/ 30، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء في افتراق هذه الأمة، 5/ 26، الرقم/ 2643.

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے عفیر نامی دراز گوش پر سوار تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ تعاليٰ کا کیا حق ہے، اور اللہ تعاليٰ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ تعاليٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندوں پر اللہ تعاليٰ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اللہ تعاليٰ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو شخص شرک نہ کرے وہ اسے عذاب نہ دے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں یہ خوش خبری لوگوں تک نہ پہنچادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ انہیں یہ خوش خبری مت دو، کہ پھر وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہیں گے (اور عمل میں کوتاہی کریں گے)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

22. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ؟ قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰهِ نِدًّا، وَهُوَ خَلَقَکَ. قُلْتُ: إِنَّ ذٰلِکَ لَعَظِيمٌ. قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ تَخَافُ أَنْ يَطْعَمَ مَعَکَ. قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِکَ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اللہ تعالٰی: {فلا تجعلوا ﷲ أندادا}، 6/ 2734، الرقم/ 7082، وأيضا في کتاب التفسير، باب قوله تعالٰی: {فلا تجعلوا ﷲ أندادا وأنتم تعلمون}، 4/ 1626، الرقم/ 4207، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب کون الشرک أقبح الذنوب وبيان أعظمها بعده، 1/ 90، الرقم/ 86.

حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کونسا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہ (سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ) تو کسی کو خدا کا ہمسر (شریک) ٹھہرائے حالانکہ وہی ہے جس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ گناہ تو واقعی بہت بڑا ہے، اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ فرمایا: پھر یہ کہ تو اپنی اولاد کو اِس خوف سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ میں عرض گزار ہوا: پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی سے بدکاری کرے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

23. عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ؟ قُلْنَا: بَلٰی يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: الْإِشْرَاکُ بِاللهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَکَانَ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ: أَلَا، وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَ لَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ، فَمَا زَالَ يَقُوْلُهَا حَتّٰی قُلْتُ: لَا يَسْکُتُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب عقوق الوالدين من الکبائر، 5/ 2229، الرقم/ 5631، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الکبائر وأکبرها، 1/ 91، الرقم/ 87.

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ ہم عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا، (اس وقت) آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر اٹھ کر تشریف فرما ہو گئے اور فرمایا: خبردار! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی، خبردار جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی۔ آپ برابر یہی فرماتے رہے حتيٰ کہ میں نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ خاموش نہیں ہوں گے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

24. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ أَعْرَابِيًّا جَاءَ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، دُلَّنِي عَلٰی عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ. قَالَ: تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيْمُ الصَّلَاةَ الْمَکْتُوْبَةَ وَتُؤَدِّي الزَّکَاةَ الْمَفْرُوْضَةَ وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا أَزِيْدُ عَلٰی هٰذَا شَيْئًا أَبَدًا وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ. فَلَمَّا وَلّٰی قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلٰی رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلٰی هٰذَا.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 2/ 506، الرقم/ 1333، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الإيمان الذي يدخل به وأن من تمسک بما أمر به دخل الجنة، 1/ 44، الرقم/ 14، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 342، الرقم/ 8496.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ! مجھے ایسا عمل بتائیے جسے اختیار کرنے سے میں جنت میں چلا جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعاليٰ کی عبادت کرو اِس طرح سے کہ کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز ادا کرو، فرض زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو۔ دیہاتی نے عرض کیا: قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں اِن اعمال میں کچھ زیادتی کروں گا نہ کمی۔ جب وہ شخص چلا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی کو اہلِ جنت میں سے کسی جنتی کے دیدار کا شوق ہے تو وہ اِس شخص کو دیکھ لے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي أَيُوْبَ رضی الله عنه قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: دُلَّنِي عَلٰی عَمَلٍ أَعْمَلُهُ يُدْنِيْنِي مِنَ الْجَنَّةِ وَيُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ. قَالَ: تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيْمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّکَاةَ وَتَصِلُ ذَا رَحِمِکَ. فَلَمَّا أَدْبَرَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنْ تَمَسَّکَ بِمَا أُمِرَ بِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَنْدَه.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الإيمان الذي يدخل به الجنة وأن من تمسک بما أمر به دخل الجنة، 1/ 43، الرقم/ 13، وابن منده في الإيمان، 1/ 269، الرقم/ 127، والطبراني في المعجم الکبير، 4/ 139، الرقم/ 3926، والبيهقي في شعب الإيمان، 3/ 188، الرقم/ 3299، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 4/ 374.

ایک روایت میں حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیں جو مجھے جنت سے قریب اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعاليٰ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ جب وہ شخص چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس شخص نے ان باتوں پر عمل کیا جن کا اُسے حکم دیا گیا ہے تو وہ جنت میں جائے گا۔

اِسے امام مسلم اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔

25. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : قَالَ اللهُ: کَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَکُنْ لَهُ ذٰلِکَ، وَشَتَمَنِي وَلَمْ يَکُنْ لَهُ ذٰلِکَ. أَمَّا تَکْذِيبُهُ إِيَايَ أَنْ يَقُولَ: إِنِّي لَنْ أُعِيدَهُ کَمَا بَدَأْتُهُ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَايَ أَنْ يَقُولَ: اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا وَأَنَا الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ وَلَمْ يَکُنْ لِي کُفُؤًا أَحَدٌ {لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْo وَلَمْ يَکُنْ لَّهُ کُفُوًا اَحَدٌo}. کُفُؤًا وَکَفِيئًا وَکِفَاءً وَاحِدٌ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله: {اللہ الصمد}، 4/ 1903، الرقم/ 4691، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب أرواح المؤمنين، 4/ 112، الرقم/ 2078، وأيضا في السنن الکبری، 1/ 666، الرقم/ 2205.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعاليٰ نے فرمایا: بنی آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں ہے؛ اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ جس طرح میں نے اسے پہلے پیدا کیا اسی طرح دوبارہ زندہ نہیں کروں گا اور اس کا گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ کا بیٹا بھی ہے، حالانکہ میں بے نیاز ہوں، میں نے نہ کسی کو جنا اور نہ جنا گیا ہوں اور میری برابری کرنے والا کوئی ایک بھی نہیں ہے۔ {لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْo وَلَمْ يَکُنْ لَّهُ کُفُوًا اَحَدٌo} ’نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔‘۔ کُفُؤًا، کَفِیئًا، کِفَائً تینوں کا معنٰی ’ایک‘ ہے۔

اسے امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

26. عَنْ أَبِي مَالِکٍ عَنْ أَبِیهِ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: مَنْ قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَکَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللهِ، حَرُمَ مَالُهُ وَدَمُهُ وَحِسَابُهُ عَلَی اللهِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الأمر بقتال الناس حتی يقولوا لا إله إلا اللہ محمد رسول اللہ، 1/ 53، الرقم/ 23، وابن حبان في الصحيح، 1/ 395، الرقم/ 171، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 472، الرقم/ 15915، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 480، الرقم/ 33098، ابن منده في الإيمان، 1/ 175، الرقم/ 34.

ابو مالک اپنے والد (حضرت طارق بن اُشیم اشجعی رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جس شخص نے کلمہ طیبہ پڑھا اور تمام باطل خداؤں کا انکار کیا اُس کی جان اور مال محترم اور محفوظ ہیں اور اس کا حساب اللہ تعاليٰ کے سپرد ہے۔

اسے امام مسلم، ابن حبان اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

27. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا شَهِدُوا أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا وَأَکَلُوا ذَبِيحَتَنَا وَصَلَّوْا صَلَاتَنَا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا، لَهُمْ مَا لِلْمُسْلِمِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَيْهِمْ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالدَّارَقُطْنِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ.

27: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 224، الرقم/ 13372، والنسائي في السنن، کتاب تحريم الدم، 7/ 76، الرقم/ 3967، وابن حبان في الصحيح، 13/ 215، الرقم/ 5895، والدارقطني في السنن، 1/ 232، والبيهقي في السنن الکبری، 2/ 279، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 3/ 215، الرقم/ 4739.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب (غیر مسلم) لوگ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد، اللہ کے رسول ہیں، ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ تسلیم کریں، ہمارے مذبوحہ جانور کھائیں اور ہماری نماز کی طرح نماز پڑھیں تو پھر ہم پر ان کا مال اور ان کے خون بغیر کسی حق کے حرام ہیں۔ ان کے لیے وہی حقوق ہیں جو مسلمان کے لیے ہیں اور اُن پر وہی فرض اور ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو مسلمانوں پر ہے۔

اسے امام احمد بن حنبل، نسائی، ابن حبان، دارقطنی، بیہقی اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔

28. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَرْوِيْهِ عَنْ رَبِّهِ، قَالَ: ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَکَ عَلٰی مَا کَانَ فِيْکَ. ابْنَ آدَمَ، إِنْ تَلْقَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا لَقِيْتُکَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً بَعْدَ أَنْ لَا تُشْرِکَ بِي شَيْئًا. ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ إِنْ تُذْنِبْ حَتّٰی يَبْلُغَ ذَنْبُکَ عَنَانَ السَّمَائِ، ثُمَّ تَسْتَغْفِرُنِي أَغْفِرْ لَکَ وَلَا أُبَالِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

28: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 167، الرقم/ 21510، والطبراني في الدعاء/ 26، الرقم/ 13، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/ 17، الرقم/ 1042.

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب تعاليٰ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعاليٰ نے ارشاد فرمایا: اے ابن آدم! تم نے مجھے پکارا اور مجھ سے توقعات وابستہ کیں، (اس حسنِ ظن کے عوض) میں نے تیرے گناہوں کے باوجود تجھے معاف کردیا۔ اے ابن آدم! اگر تو میرے ساتھ زمین کے لگ بھگ گناہوں کے ساتھ بھی ملاقات کرتا، اس کے بعد کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا تو میں تجھ سے اُسی قدر مغفرت کے ساتھ ملتا۔ اے ابن آدم! اگر تو اتنے زیادہ گناہ کرتا کہ وہ آسمان کی بلندی کو چھو لیتے، پھر مجھ سے مغفرت طلب کرتا تو میں تجھے بخش دیتا اور مجھے اس میں کوئی تأمل نہیں۔

اسے امام احمد بن حنبل، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

29. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: قَالَ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: يَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيْتَنِي لَا تُشْرِکُ بِي شَيْئًا لَأَتَيْتُکَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

29: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب الدعوات، باب في فضل التوبة والاستغفار، 5/ 548، الرقم/ 3540، والطبراني في المعجم الأوسط، 4/ 315، الرقم/ 4305، وأبو نعیم في حلية الأولياء، 2/ 231.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے: اے انسان! اگر تو زمین بھر گناہ بھی لے کر میرے پاس آئے لیکن تو نے شرک نہ کیا ہو تو میں تجھے اس کے برابر بخشش عطا کروں گا۔

اِسے امام ترمذی، طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه : عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِيْمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ، قَالَ: أَرْبَعُ خِصَالٍ، وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ لِي، وَوَاحِدَةٌ لَکَ، وَوَاحِدَةٌ فِيْمَا بَيْنِي وَبَيْنَکَ، وَوَاحِدَةٌ فِيْمَا بَيْنَکَ وَبَيْنَ عِبَادِي. فَأَمَّا الَّتِي لِي فَتَعْبُدُنِي لَا تُشْرِکُ بِي شَيْئًا، وَأَمَّا الَّتِي لَکَ عَلَيَّ فَمَا عَمِلْتَ مِنْ خَيْرٍ جَزَيْتُکَ بِهِ، وَأَمَّا الَّتِي بَيْنِي وَبَيْنَکَ فَمِنْکَ الدُّعَاءُ وَعَلَيَّ الْإِجَابَةُ، وَأَمَّا الَّتِي بَيْنَکَ وَبَيْنَ عِبَادِي فَارْضَ لَهُمْ مَا تَرْضٰی لِنَفْسِکَ.

رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه أبو يعلی في المسند، 5/ 143، الرقم/ 2757، والبيهقي في شعب الإيمان، 7/ 518، الرقم/ 11186، والديلمي في مسند الفردوس، 5/ 245، الرقم/ 8086، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 51، وابن حجر العسقلاني في المطالب العالية، 13/ 692، الرقم/ 3297، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 86.

ایک اور روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب تعاليٰ سے روایت کرتے ہیں، اللہ تعاليٰ نے (بندے سے) فرمایا: چار خوبیاں ہیں جن میں سے ایک میرے لیے ہے اور ایک تمہارے لیے ہے؛ ایک میرے اور تمہارے مابین ہے اور ایک تمہارے اور میرے بندوں کے درمیان ہے۔ جو شان خاص میرے لیے ہے وہ یہ کہ صرف میری عبادت کرنا اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرانا؛ مجھ پر تیرا حق یہ ہے کہ تجھے تیری ہر نیکی کی جزا دوں گا۔ اور جو میرے اور تمہارے درمیان ہے وہ یہ کہ تجھ پر دعا مانگنا لازم ہے اور مجھ پر قبول کرنا (لازم ہے)۔ اور (چوتھی خوبی) جو تمہارے اور میرے بندوں کے درمیان ہے وہ یہ کہ تو ان کے لیے بھی وہی پسند کر جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

اسے امام ابو یعلی، بیہقی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved