30. عَنْ عَبَّاسٍ رضی الله عنه قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَوْمَ حُنَیْنٍ. فَلَزِمْتُ أَنَا وَأَبُوْ سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ . فَلَمْ نُفَارِقْهُ. وَرَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلٰی بَغْلَةٍ لَهٗ، بَیْضَاءَ. أَهْدَاهَا لَهٗ فَرْوَۃُ بْنُ نُفَاثَةَ الْجُذَامِيُّ. فَلَمَّا الْتَقَی الْمُسْلِمُوْنَ وَالْکُفَّارُ، وَلَّی الْمُسْلِمُوْنَ مُدْبِرِیْنَ. فَطَفِقَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَرْکُضُ بَغْلَتَهٗ قِبَلَ الْکُفَّارِ. … قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَصَیَاتٍ فَرَمٰی بِهِنَّ وُجُوْهَ الْکُفَّارِ. ثُمَّ قَالَ: انْهَزَمُوْا. وَرَبِّ مُحَمَّدٍ. قَالَ: فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا الْقِتَالُ عَلٰی هَیْئَتِهٖ فِیْمَا أَرٰی. قَالَ: فَوَاللهِ، مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ بِحَصَیَاتِهٖ. فَمَا زِلْتُ أَرٰی حَدَّهُمْ کَلِیْـلًا وَأَمْرَهُمْ مُدْبِرًا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ.
حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں غزوۂ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا، میں اور ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ رہے اور آپ ﷺ سے بالکل الگ نہیں ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ سفید رنگ کے اُس خچر پر سوار تھے جو آپ ﷺ کو فروہ بن نفاثہ جذامی نے ہدیہ کیا تھی۔ جب مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ اُٹھے۔ (میں نے دیکھا کہ) رسول اللہ ﷺ اپنے خچر کو کفار کی جانب دوڑا رہے تھے … بیان کرتے ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے چند کنکریاں اُٹھائیں اور کفار کے چہروں کی طرف پھینکیں اور فرمایا: ربِّ محمد کی قسم! یہ ہار گئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں دیکھ رہا تھا، لڑائی اسی تیزی سے جاری تھی۔ جونہی آپ ﷺ نے کفار کی طرف کنکریاں پھینکیں۔ بخدا! میں نے دیکھا کہ کفار کا زور ٹوٹ گیا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔ (جنگ کا سارا سماں یکسر بدل گیا۔ چنانچہ مسلمانوں کی شکست فتح میں بدل گئی)۔
اِسے امام مسلم، احمد، نسائی، ابن حبان اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
31. عَنْ إِیَاسَ بْنِ سَلَمَةَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حُنَیْنًا. فَلَمَّا وَاجَهْنَا الْعَدُوَّ تَقَدَّمْتُ. فَأَعْلُوْ ثَنِیَّةً. فَاسْتَقْبَلَنِي رَجُلٌ مِنَ الْعَدُوِّ. فَأَرْمِیْهِ بِسَهْمٍ. فَتَوَارٰی عَنِّي. فَمَا دَرَیْتُ مَا صَنَعَ. وَنَظَرْتُ إِلَی الْقَوْمِ فَإِذَا هُمْ قَدْ طَلَعُوْا مِنْ ثَنِیَّةٍ أُخْرٰی. فَالْتَقَوْا هُمْ وَصَحَابَۃُ النَّبِيِّ ﷺ. فَوَلّٰی صَحَابَۃُ النَّبِيِّ ﷺ . وَأَرْجِعُ مُنْهَزِمًا. وَعَلَيَّ بُرْدَتَانِ. مُتَّزِرًا بِإِحْدَاهُمَا. مُرْتَدِیًا بِالْأُخْرٰی. فَاسْتَطْلَقَ إِزَارِي. فَجَمَعْتُهُمَا جَمِیْعًا. وَمَرَرْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مُنْهَزِمًا. وَهُوَ عَلٰی بَغْلَتِهِ الشَّهْبَاءِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَقَدْ رَأَی ابْنُ الْأَکْوَعِ فَزَعًا، فَلَمَّا غَشُوْا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ نَزَلَ عَنِ الْبَغْلَةِ، ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ مِنَ الْأَرْضِ. ثُمَّ اسْتَقْبَلَ بِهٖ وُجُوْهَهُمْ. فَقَالَ: شَاهَتِ الْوُجُوْهُ. فَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْهُمْ إِنْسَانًا إِلَّا مَلَأَ عَیْنَیْهِ تُرَابًا، بِتِلْکَ الْقَبْضَةِ. فَوَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ. فَهَزَمَهُمُ اللهُ تعالیٰ. وَقَسَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ غَنَائِمَهُمْ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَالرَّوْیَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.
ایاس بن سلمہ کہتے ہیں: میرے والد نے مجھے یہ حدیث بیان کی، انہوںنے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوۂ حنین میں گئے، جب ہمارا دشمن کے ساتھ مقابلہ ہوا تو میں آگے بڑھ کر ایک گھاٹی پر چڑھ گیا، دشمن کا ایک شخص سامنے سے آیا، میں نے اسے تیر مارا، وہ چھپ گیا اور مجھے پتا نہ چل سکا اس نے کیا کیا، میں نے قوم کی طرف دیکھا تو وہ دوسری گھاٹی سے چڑھ رہے تھے، ان کا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کا مقابلہ ہوا، حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ پشت پھیر کر بھاگے، میں بھی شکست خوردہ لوٹا درآنحالیکہ مجھ پر دو چادریں تھیں، ایک میں نے باندھی ہوئی تھی اور دوسری اوڑھی ہوئی تھی، میرا تہبند کھل گیا تو میں نے دونوں چادروں کو (جسم پر) اکٹھا کر لیا اور میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے شکست خوردہ لوٹا۔ آپ ﷺ اس وقت اپنے خچر شہباء پر سوار تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابن الاکوع خوف زدہ ہو کر دیکھ رہا ہے، جب دشمنوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو گھیر لیا تو آپ ﷺ خچر سے اُترے، زمین سے خاک کی ایک مٹھی اٹھا کر دشمن کے چہروں کی طرف پھینکی اور فرمایا: ان کے چہرے قبیح ہو گئے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹھی کی مٹی سے ان (جنگجو کفار) کے ہر فرد کی آنکھ بھر دی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے، سو اللہ تعالیٰ ل نے ان کو شکست دی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کا مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔
اِسے امام مسلم، ابن حبان، رویانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
32. عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْفِهْرِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فِي غَزْوَةِ حُنَیْنٍ فَسِرْنَا فِي یَوْمٍ قَائِظٍ شَدِیْدِ الْحَرِّ، فَنَزَلْنَا تَحْتَ ظِـلَالِ الشَّجَرِ، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ لَبِسْتُ لَأْمَتِي وَرَکِبْتُ فَرَسِي، فَانْطَلَقْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَهُوَ فِي فُسْطَاطِهٖ، فَقُلْتُ: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَرَحْمَۃُ اللهِ، حَانَ الرَّوَاحُ؟ فَقَالَ: أَجَلْ. فَقَالَ: یَا بِـلَالُ، فَثَارَ مِنْ تَحْتِ سَمُرَةٍ کَأَنَّ ظِلَّهٗ ظِلُّ طَائِرٍ، فَقَالَ: لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، وَأَنَا فِدَاؤُکَ، فَقَالَ: أَسْرِجْ لِي فَرَسِي، فَأَخْرَجَ سَرْجًا دَفَّتَاهُ مِنْ لِیْفٍ لَیْسَ فِیْهِمَا أَشَرٌ وَلَا بَطَرٌ، قَالَ: فَأَسْرَجَ قَالَ: فَرَکِبَ وَرَکِبْنَا، فَصَافَفْنَاهُمْ عَشِیَّتَنَا وَلَیْلَتَنَا فَتَشَامَّتِ الْخَیْـلَانِ، فَوَلَّی الْمُسْلِمُوْنَ مُدْبِرِیْنَ کَمَا قَالَ اللهُ تعالیٰ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا عِبَادَ اللهِ، أَنَا عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهٗ، ثُمَّ قَالَ: یَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِیْنَ، أَنَا عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهٗ. قَالَ: ثُمَّ اقْتَحَمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ فَرَسِهٖ فَأَخَذَ کَفًّا مِنْ تُرَابٍ فَأَخْبَرَنِيَ الَّذِي کَانَ أَدْنٰی إِلَیْهِ مِنِّي، ضَرَبَ بِهٖ وُجُوْهَهُمْ، وَقَالَ: شَاهَتِ الْوُجُوْهُ فَهَزَمَهُمُ اللهُ تعالیٰ.
قَالَ یَعْلَی بْنُ عَطَاءٍ: فَحَدَّثَنِي أَبْنَاؤُهُمْ، عَنْ آبَائِهِمْ، أَنَّهُمْ قَالُوْا: لَمْ یَبْقَ مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا امْتَـلَأَتْ عَیْنَاهُ وَفَمُهٗ تُرَابًا، وَسَمِعْنَا صَلْصَلَةً بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ کَإِمْرَارِ الْحَدِیْدِ عَلَی الطَّسْتِ الْحَدِیْدِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ مُخْتَصَرًا وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رِجَالُهٗ ثِقَاتٌ.
حضرت ابو عبد الرحمن الفہری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں:ـ میں غزوۂ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا، ہم شدید گرمی کے ایک گرم ترین دن میں روانہ ہوئے، راستے میں ہم نے ایک جگہ سایہ دار درختوں کے نیچے پڑاؤ کیا، جب سورج ڈھل گیا تو میں نے اپنا اسلحہ زیب تن کیا، اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا، اس وقت آپ ﷺ اپنے خیمہ میں تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پر سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔ کوچ کا وقت ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! پھر فرمایا: اے بلال! (حضور ﷺ کے بلانے پر) وہ ببول کے درخت سے اس طرح نیچے کودے جیسے کسی پرندے کا سایہ ہو اور عرض کیا: لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، میں آپ پر قربان! آپ ﷺ نے فرمایا: میرے گھوڑے پر زین کس دو، چنانچہ انہوں نے ایک زین نکالی جس کے دونوں کنارے کھجور کی چھال سے بھرے ہوئے تھے اور جس میں کوئی فخر و غرور کا سامان نہ تھا (راوی کہتے ہیں: حضرت بلال نے) اسے کس دیا۔ پھر آپ ﷺ سوار ہوئے اور ہم بھی سوار ہوگئے۔ میدان جنگ میں عشاء کے وقت سے ساری رات ہم لوگ صف بندی کرتے رہے، جب دونوں جماعتوں کے گھوڑے ایک دوسرے میں گھسے تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ اٹھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اِس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ کے بندو! میں خدا کا بندہ اور رسول ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اے گروہ مہاجرین! میں خدا کا بندہ اور رسول ہوں، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اپنے گھوڑے سے تیزی سے اُترے، مٹھی بھر مٹی اٹھائی اور آپ ﷺ کے سب سے قریبی آدمی کی اطلاع کے مطابق آپ ﷺ نے وہ مٹی دشمنوں کے چہروں کی طرف پھینک دی۔ پھر فرمایا: یہ چہرے بگڑ گئے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست سے دوچار کر دیا۔
یعلی بن عطاء بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے ان کے بیٹوں نے اپنے بزرگوں سے بیان کیا: ہم میں سے ایک بھی آدمی ایسا نہ بچا جس کی آنکھیں اور منہ مٹی سے نہ بھر گیا ہو، ہم نے زمین و آسمان کے درمیان ایسی گونج سنی جیسے لوہے کو لوہے کی پلیٹ پر رگڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔
اِسے امام احمد نے، ابو داود نے مختصراً اور ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقہ ہیں۔
33. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنهما، قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَوْمَ حُنَیْنٍ قَالَ: فَوَلّٰی عَنْهُ النَّاسُ وَثَبَتَ مَعَهٗ ثَمَانُوْنَ رَجُـلًا مِنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ، فَنَکَصْنَا عَلٰی أَقْدَامِنَا نَحْوًا مِنْ ثَمَانِیْنَ قَدَمًا، وَلَمْ نُوَلِّهِمُ الدُّبُرَ، وَهُمُ الَّذِینَ أَنْزَلَ اللهُ تعالیٰ عَلَیْهِمُ السَّکِیْنَةَ، قَالَ: وَرَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلٰی بَغْلَتِهٖ یَمْضِي قُدُمًا فَحَادَتْ بِهٖ بَغْلَتُهٗ، فَمَالَ عَنِ السَّرْجِ فَقُلْتُ لَهُ: ارْتَفِعْ رَفَعَکَ اللهُ. فَقَالَ: نَاوِلْنِي کَفًّا مِنْ تُرَابٍ. فَضَرَبَ بِهٖ وُجُوْهَهُمْ، فَامْتَـلَأَتْ أَعْیُنُهُمْ تُرَابًا، ثُمَّ قَالَ: أَیْنَ الْمُهَاجِرُوْنَ وَالْأَنْصَارُ؟ قُلْتُ: هُمْ أُوْلَاءِ، قَالَ: اهْتِفْ بِهِمْ فَهَتَفْتُ بِهِمْ فَجَائُوا وَسُیُوْفُهُمْ بِأَیْمَانِهِمْ کَأَنَّهَا الشُّهُبُ وَوَلَّی الْمُشْرِکُونَ أَدْبَارَهُمْ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ، وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رِجَالُ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِیْحِ غَیْرَ الْحَارِثِ بْنِ حَصِیْرَةَ، وَهُوَ ثِقَةٌ.
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنهما فرماتے ہیں کہ غزوۂ حنین کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، لوگ ابتدائی طور پر پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے اور آپ ﷺ کے ساتھ مہاجرین و انصار میں سے صرف اسّی (80) آدمی ثابت قدم رہے۔ ہم لوگ تقریباً اسّی (80) قدم پیچھے آ گئے، ہم نے پیٹھ نہیں پھیری تھی، یہ وہی لوگ تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے سکینہ نازل فرمایا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت اپنے خچر پر سوار تھے، اور آگے بڑھ رہے تھے، خچر کی رفتار تیز ہوئی تو آپ ﷺ زین سے ایک طرف جھک گئے، میں نے عرض کیا: اوپر ہوں (یا رسول اللہ!) اللہ تعالیٰ آپ کو رفعتیں عطا فرمائے۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: مجھے ایک مٹھی مٹی اُٹھا کر دو، پھر آپ ﷺ نے وہ مٹی ان کے چہروں کی طرف پھینکی۔ سو مشرکین کی آنکھیں اس مٹی سے بھر گئیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: مہاجرین و انصار کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا: وہ یہ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں آواز دو، میں نے آواز دی تو وہ ہاتھوں میں ستاروں کی طرح چمکتی تلواریں لیے حاضر ہوگئے اور مشرکین پشت پھیر کر بھاگ گئے۔
اِسے امام احمد، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی اسناد صحیح ہے، اور امام ہیثمی نے فرمایا: امام احمد کے رجال صحیح (مسلم) کے رجال ہیں، سوائے حارث بن حصیرہ کے اور وہ بھی ثقہ ہے۔
34. عَنِ الْحَارِثِ بْنِ بَدَلٍ النَّصْرِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهٖ: شَهِدَ دَالٌّ یَوْمَ حُنَیْنٍ، وَعَمْرِو بْنِ سُفْیَانَ الثَّقَفِيِّ، قَالَا: انْهَزَمَ الْمُسْلِمُوْنَ یَوْمَ حُنَیْنٍ، وَلَمْ یَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا الْعَبَّاسُ وَأَبُوْ سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ، فَقَبَضَ (رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ) قَبْضَةً مِنَ التُّرَابِ فَرَمٰی بِهَا فِي وُجُوْهِهِمْ فَانْهَزَمْنَا، فَمَا خُیِّلَ إِلَیْنَا إِلَّا أَنَّ کُلَّ شَجَرَةٍ وَحَجَرٍ فَارِسٌ یَطْلُبُنَا. قَالَ الثَّقَفِيُّ: فَأَعْجَرْتُ عَلٰی فَرَسِي حَتّٰی دَخَلْتُ الطَّائِفَ.
وَفِي رِوَایَةٍ: قَالَ: فَقَبَضَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ قَبْضَةً مِنَ الْحَصَا فَرَمٰی بِهَا فِي وُجُوهِهِمْ قَالَ: فَانْهَزَمْنَا، فَمَا خُیِّلَ إِلَیْنَا إِلَّا أَنَّ کُلَّ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ فَارِسٌ یَطْلُبُنَا.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِیْرِ وَالْبَیْهَقِيُّ وَالْفَسَوِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
حارث بن بدل النصری سے مروی ہے وہ اپنی قوم کے اس شخص سے روایت کرتے ہیں جو کہ حنین کے دن (کفار کی طرف سے) جنگ میں شریک تھا، اس شخص نے اور عمرو بن سفیان الثقفی دونوں نے بیان کیا کہ مسلمان غزوہ حنین والے دن شکست کھاگئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضرت عباس اور ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنهما کے سوا کوئی نہ رہا۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے کنکریوں سے مٹھی بھری اور اس کو ان کے چہروں کی طرف پھینکا۔ بیان کرتے ہیں کہ (اس تصرف نبوی ﷺ کے نتیجہ میں) ہم شکست کھا گئے ہمیں ایسے لگا کہ ہر پتھر کنکری، اور ہر درخت (کا خشک ٹکڑا) ایک گھڑ سوار ہے جو ہمیں تلاش کر رہا ہے۔ ثقفی نے کہا: میں نے خوفزدہ ہو کر گھوڑے کو تیز دوڑایا حتیٰ کہ میں طائف پہنچ گیا (لیکن وہ کنکریاں ہمارے گھروں تک ہمارا تعاقب کرتی رہیں)۔
ایک اور روایت میں ہے: (ثقفی) نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کنکریوں کی مٹھی بھری اور اسے کفار کے چہروں کی طرف پھینکا۔ لہٰذا ہم شکست کھا گئے، ہمیں ایسے لگا گویا ہر پتھر اور ہر درخت ایک گھڑ سوار ہے جو ہمیں تلاش کر کے ہمارا تعاقب کر رہا ہے۔
اسے امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں، اور بیہقی، فسوی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ یَزِیْدَ بْنِ عَامِرٍ السُّوَائِيِّ، أَنَّهٗ قَالَ: عِنْدَ انْکِشَافِهِ انْکَشَفَ الْمُسْلِمُوْنَ یَوْمَ حُنَیْنٍ، فَتَبِعَهُمُ الْکُفَّارُ أَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ قَبْضَةً مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ فَرَمٰی بِهَا فِي وُجُوهِهِمْ، وَقَالَ: ارْجِعُوْا شَاهَتِ الْوُجُوْهُ، قَالَ: فَمَا أَحَدٌ یَلْقَاهُ أَخُوْهُ، إِلَّا وَهُوَ یَشْکُوْ قَذًی فِي عَیْنَیْهِ وَیَمْحُوْ عَیْنَیْهِ.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ حُمَیْدٍ وَابْنُ قَانِعٍ، وَأَیَّدَهُ ابْنُ کَثِیْرٍ وَالسُّیُوْطِيُّ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهٗ ثِقَاتٌ.
ایک روایت میں یزید بن عامر ُسوائی سے مروی ہے: انہوں نے بیان کیا کہ حنین کے دن حملہ کے وقت مسلمان منتشر ہو گئے تھے۔ چنانچہ کفار نے ان کا پیچھا کیا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی اُٹھائی اور اُسے مشرکین کی طرف منہ کر کے اُن کے چہروں کی طرف پھینک دیا پھر فرمایا: رسوا چہروں کے ساتھ لوٹ جاؤ۔ کہتے ہیں کہ ان میں سے ہر کوئی اپنے بھائی سے مل کر یہی شکایت کرتا کہ میری آنکھوںمیں کچھ پڑ گیا ہے اور وہ آنکھیں مسلتا جاتا تھا۔
اسے امام بیہقی، طبرانی، ابن حمید اور ابن قانع نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر اور سیوطی نے اس کی تائید کی ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں۔
وَفِي رِوَایَةِ یَزِیْدَ بْنِ عَامِرٍ، وَکَان شَهِدَ حُنَیْنًا مَع الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ أَسْلَمَ، قَالَ: سَأَلْنَاهُ عَنِ الرُّعْبِ الَّذِي أَلْقَاهُ اللهُ فِي قُلُوْبِهِمْ یَوْمَ حُنَیْنٍ کَیْفَ کَانَ؟ فَأَخَذَ حَصَاةً فَرَمٰی بِهَا طَشْتًا فَطَنَّ، فَقَالَ: کُنَّا نَجِدُ فِي أَجْوَافِنَا مِثْلَ ذٰلِکَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ وَابْنُ حُمَیْدٍ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ۔ وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رِجَالُهٗ ثِقَاتٌ.
ایک روایت میں یزید بن عامر سے مروی ہے جوکہ غزوۂ حنین میں مشرکین کی طرف سے شریک تھے، پھر انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ (راوی نے) کہا کہ ہم نے ان سے اس رعب کے بارے میں سوال کیا جو اللہ تعالیٰ نے حنین کے دن ان کے دل میں ڈال دیا تھا، وہ رعب کیسا تھا؟ انہوں نے ایک کنکری اٹھائی اور اُسے ایک تھال پر مارا تو ٹن کی آواز آئی۔ انہوں نے کہا: (غزوۂ حنین میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہماری طرف کنکریاں پھینکنے پر) ہم لوگ اپنے پیٹوں میں ایسی ہی (خوفناک) آواز محسوس کرتے تھے۔
اِسے امام طبرانی، بیہقی، ابن حمید اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقات ہیں۔
وَفِي رِوَایَةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عِیَاضٍ، عَنْ أَبِیْهِ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَتٰی هَوَازِنَ فِي اثْنَي عَشَرَ أَلْفًا، فَقُتِلَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ یَوْمَ حُنَیْنٍ مِثْلُ مَا قُتِلَ مِنْ قُرَیْشٍ یَوْمَ بَدْرٍ، وَأَخَذَ النَّبِيُّ ﷺ کَفًّا مِنْ بَطْحَاءَ، فَرَمَاهُ فِي وُجُوْهِنَا فَهُزِمْنَا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: وَفِیْهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ عِیَاضٍ ذَکَرَهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَلَمْ یَجْرَحْهُ، وَبَقِیَّۃُ رِجَالِهٖ ثِقَاتٌ.
ایک روایت میں عبد اللہ بن عیاض سے مروی ہے، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ بنو ہوازن کے جنگجو قبیلے کی طرف غزوہ میں بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ تشریف لے گئے اور غزوۂ حنین کے دن ہم اہل طائف کے اتنے ہی لوگ قتل ہوئے جتنے غزوۂ بدر کے دن قریش کے جوان قتل ہوئے تھے، حضور نبی اکرم ﷺ نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھری پھر اسے ہمارے چہروں کی طرف دے مارا تو ہم شکست کھا گئے۔
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کی سند میں عبد اللہ بن عیاض ہے جسے ابن ابی حاتم نے ذکر کیا مگر اس پر کوئی جرح نہیں کی، اور اس کے باقی رجال ثقہ ہیں۔
وَفِي رِوَایَةِ أَبِي عُفَیْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ سَهْلِ بْنِ أَبِي خَیْثَمَةَ، قَالَ: لَمَّا تَحَوَّلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی الشَّقِّ وَبِهٖ حُصُوْنٌ ذَوَاتُ عَدَدٍ… زَحَفَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَیْهِمْ فِي أَصْحَابِهٖ فَقَاتَلَهُمْ، فَکَانُوْا أَشَدَّ أَهْلِ الشَّقِّ رَمْیًا لِلْمُسْلِمِیْنَ بِالنَّبْلِ وَالْحِجَارَةِ، وَرَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَعَهُمْ حَتّٰی أَصَابَ النَّبْلُ ثِیَابَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَعَلَقَتْ بِهٖ، فَأَخَذَ النَّبْلَ فَجَمَعَهَا، ثُمَّ أَخَذَ لَهُمْ کَفًّا مِنْ حَصْبَاءَ فَحَصَبَ بِهٖ حِصْنَهُمْ، فَرَجَفَ الْحِصْنُ بِهِمْ، ثُمَّ سَاخَ فِي الْأَرْضِ حَتّٰی جَاءَ الْمُسْلِمُوْنَ فَأَخَذُوْا أَهْلَهٗ أَخْذًا.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَالْوَاقِدِيُّ.
ایک روایت میں ابو عفیر محمد بن سہل بن ابی خیثمہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے شق کی طرف رخ موڑا تو وہاں بھی متعدد قلعے تھے۔ … رسول اللہ ﷺ نے پیش قدمی کی اور ان سے قتال کیا۔ اہل شق میں سے ماہر لوگ انتہائی سختی سے مسلمانوں پر تیر اندازی اور سنگ زنی کرتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ تھے کہ ایک تیر آکر رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں میں اُلجھ گیا، آپ ﷺ نے سب تیر اٹھا کر ایک جگہ جمع فرما لیے، پھر آپ ﷺ نے کنکریوں کی مٹھی اٹھا کر ان کی طرف پھینکی جو ان کے قلعے سے جا لگی جس سے یہود کا قلعہ سخت لرزنے لگا۔ اس کے بعد لوگوں سمیت زمین میں دھنسنے لگا یہاں تک کہ مسلمانوں نے آ کر قلعہ والوں کو کھینچ کر بچایا۔
اسے امام بیہقی اور واقدی نے بیان کیا ہے۔
وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ فِي الْفَتْحِ: وَیُجْمَعُ بَیْنَ هٰذِهِ الْأَحَادِیْثِ أَنَّهٗ ﷺ أَوَّلًا قَالَ لِصَاحِبِهٖ: نَاوِلْنِي فَنَاوَلَهٗ فَرَمَاهُمْ، ثُمَّ نَزَلَ عَنِ الْبَغْلَةِ فَأَخَذَ بِیَدِهٖ فَرَمَاهُمْ أَیْضًا۔ فَیُحْتَمَلُ أَنَّ الْحَصٰی فِي إِحْدَی الْمَرَّتَیْنِ وَفِي الْأُخْرَی التُّرَابُ، وَاللهُ أَعْلَمُ.
حافظ عسقلانی نے ’فتح الباری‘ میں فرمایا: ان احادیث میں اس طرح تطبیق کی جا سکتی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے پہلے اپنے صحابی سے فرمایا: مجھے کنکریاں دو۔ اس صحابی نے کنکریاں پیش کیں اور آپ ﷺ نے وہ کنکریاں کفار کو مار دیں۔ پھر (دوسری مرتبہ) آپ ﷺ بذات خود خچر سے نیچے تشریف لائے ہوں اور آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے کنکریاں لے کر ان پر پھینکی ہوں۔ یہ احتمال (بھی) ہے کہ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ کنکریاں ماری ہوں اور دوسری مرتبہ مٹی کی مٹھی پھینکی ہو۔ اور اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، قَالَا: لَمَّا دَنَا الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ، أَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ فَرَمٰی بِهَا فِي وُجُوْهِ الْقَوْمِ، وَقَالَ: شَاهَتِ الْوُجُوْهُ۔ فَدَخَلَتْ فِي أَعْیُنِهِمْ کُلِّهِمْ، وَأَقْبَلَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَقْتُلُوْنَهُمْ وَیَأْسِرُوْنَهُمْ، وَکَانَتْ هَزِیْمَتُهُمْ فِي رَمْیَةِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ. وَأَنْزَلَ اللهُ: {وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی} [الأنفال، 8:17] الْآیَةَ، إِلٰی: {اِنَّ اللهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo} [البقرۃ، 2:181].
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَذَکَرَهُ ابْنُ کَثِیْرٍ وَالسُّیُوْطِيُّ.
ایک روایت میں محمد بن قیس اور محمد بن کعب قرظی دونوں بیان کرتے ہیں: جب لوگ (جنگ کے لیے ایک دوسرے کے آمنے سامنے) قریب ہوئے، تو رسول اللہ ﷺ نے مٹی کی مٹھی لی اور اسے اُن (مشرکین) کے چہروں کی طرف پھینکا اور فرمایا: رسوا چہروں کے ساتھ( لوٹ جاؤ) تو وہ مٹی ان سب کی آنکھوں میں گھس گئی، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام آگے بڑھ کے انہیں قتل کرنے لگے اور قیدی بنانے لگے۔ رسول اللہ ﷺ کے مٹی پھینکنے سے ان کی شکست ہوئی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی} ’اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے‘۔ {اِنَّ اللهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo} ’بے شک اللہ بڑا سننے والا خوب جاننے والا ہےo‘۔
اسے امام طبری نے روایت کیا ہے اور ابن کثیر اور سیوطی نے بھی اسے بیان کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ السُّدِّيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حِیْنَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ یَوْمَ بَدْرٍ لِعَلِيٍّ رضی الله عنه: أَعْطِنِي حَصًا مِنَ الْأَرْضِ فَنَاوَلَهٗ حَصًی عَلَیْهِ تُرَابٌ فَرَمٰی بِهٖ وُجُوْهَ الْقَوْمِ، فَلَمْ یَبْقَ مُشْرِکٌ إِلَّا دَخَلَ فِي عَیْنَیْهِ مِنْ ذٰلِکَ التُّرَابِ شَيئٌ، ثُمَّ رَدَفَهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ یَقْتُلُوْنَهُمْ وَیَأْسِرُوْنَهُمْ، فَذَکَرَ رَمْیَةَ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: {فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰـکِنَّ اللهَ قَتَلَهُمْص وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی} [الأنفال، 8:17].
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ.
ایک روایت میں امام سدی سے مروی ہے: رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن جب دو لشکر ایک دوسرے سے ملے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: مجھے زمین سے کنکریاں اُتھا کر دو، اُنہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں کنکریاں پیش کیں جن پر مٹی تھی۔ آپ ﷺ نے وہ خاک آلودہ کنکریاں کفار کے چہرے کی طرف پھینکیں۔ کوئی مشرک ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں وہ مٹی داخل نہ ہوئی ہو۔ اس کے فوراً بعد مسلمان ان پر حملہ آور ہوگئے اور انہیں قتل اور گرفتار کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے کنکریاں پھینکنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: {فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰـکِنَّ اللهَ قَتَلَهُمْ ص وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی} ’(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان (جارِح) کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے‘۔
اسے امام طبری نے بیان کیا ہے۔
35. عَنْ إِسْمَاعِیْلَ بْنِ إِبْرَاهِیمَ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَمِّهٖ مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ، قَالَا: وَهٰذَا لَفْظُ حَدِیْثِ مُوْسٰی، فَذَکَرَ قِصَّةَ خُرُوْجِ النَّبِيِّ ﷺ إِلٰی خَیْبَرَ، … قَالَ: وَجَاءَ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ أَسْوَدُ مِنْ أَهْلِ خَیْبَرَ کَانَ فِي غَنَمٍ لِسَیِّدِهٖ فَلَمَّا رَأٰی أَهْلَ خَیْبَرَ قَدْ أَخَذُوا السِّـلَاحَ سَأَلَهُمْ مَا تُرِیْدُوْنَ؟ قَالُوْا: نُقَاتِلُ هٰذَا الرَّجُلَ الَّذِي یَزْعُمُ أَنَّهٗ نَبِيٌّ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِهٖ ذِکْرُ النَّبِيِّ ﷺ، فَأَقْبَلَ بِغَنَمِهٖ حَتّٰی عَهِدَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَلَمَّا جَائَهٗ قَالَ: مَاذَا تَقُوْلُ، وَمَاذَا تَدْعُوْ إِلَیْهِ؟ قَالَ: أَدْعُوْ إِلَی الإِسْـلَامِ وَأَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، وَأَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ، قَالَ الْعَبْدُ: فَمَاذَا إِلَيَّ إِنْ أَنَا شَهِدْتُ وَآمَنْتُ بِاللهِ؟ قَالَ: لَکَ الْجَنَّۃُ إِنْ مُتَّ عَلٰی ذٰلِکَ. فَأَسْلَمَ، قَالَ: یَا نَبِيَّ اللهِ، إِنَّ هٰذِهِ الْغَنَمَ عِنْدِي أَمَانَةٌ، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَخْرِجْهَا مِنْ عَسْکَرِنَا وَارْمِهَا بِالْحَصْبَاءِ فَإِنَّ اللهَ سَیُؤَدِّي عَنْکَ أَمَانَتَکَ فَفَعَلَ فَرَجَعَتِ الْغَنَمُ إِلٰی سَیِّدِهَا، فَعَرَفَ الْیَهُودِيُّ أَنَّ غُـلَامَهٗ قَدْ أَسْلَمَ.
رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَالْوَاقِدِيُّ وَأَیَّدَهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ وَالذَّهَبِيُّ وَابْنُ الْقَیِّمِ وَابْنُ کَثِیْرٍ. وَقَالَ الذَّهَبِيُّ: وَهٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ أَوْ صَحِیحٌ.
اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ سے مروی ہے، انہوں نے اپنے چچا موسیٰ بن عقبہ سے روایت کیا، ان دونوں نے بیان کیا، اور یہ الفاظ موسیٰ (بن عقبہ) کی حدیث کے ہیں۔ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کے خیبر کی طرف روانگی کا قصہ بیان کیا۔ … وہ بیان کرتے ہیں کہ (حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں) اہل خیبر میں سے ایک سیاہ فام حبشی غلام آیا تھا جو اپنے سردار کی بکریاں چرا رہا تھا۔ اس نے جب اہل خیبر کو اسلحہ اٹھائے دیکھا تو پوچھا: تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ انہوں نے بتایا: ہم اس آدمی سے لڑنا چاہتے ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ اُس کے دل میں حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ ذکر بیٹھ گیا وہ اپنی بکریوں کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ کیا کہتے ہیں اور کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اسلام کی دعوت دیتا ہوں، وہ یہ کہ تم یہ شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بے شک میں محمد اللہ کا رسول ہوں۔ اور یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ غلام نے پوچھا: اگر میں یہ شہادت دے دوں اور اللہ پر ایمان بھی لے آؤں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو اسی حالت پر مر گیا تو تیرے لیے جنت ہوگی چنانچہ وہ مسلمان ہوگیا۔ پھر اس غلام نے عرض کیا: یا نبی اللہ! یہ بکریاں میرے پاس امانت ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کو تم ہمارے لشکر سے نکال کر لے جاؤ اور ان کو (یہ) کنکریاں مار کر چھوڑ دو، اللہ تعالیٰ تیری یطرف سے یہ امانت (اِن کے مالک تک) پہنچا دے گا۔ اس غلام نے ایسا ہی کیا، چنانچہ ساری بکریاں (ان کنکریوں کی رہنمائی میں) اپنے مالک کے پاس پہنچ گئیں۔ وہ یہودی جان گیا کہ اس کا غلام مسلمان ہو گیا ہے۔
اسے امام بیہقی اور واقدی نے روایت کیا ہے۔ ابن جوزی، ذہبی، ابن القیم اور ابن کثیر نے ان کی تائید کی ہے۔ اور امام ذہبی نے فرمایا: یہ حدیث حسن یا صحیح ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنهما، قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ الْیَمَنِ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ… فَقَالَ لَهٗ أَحَدُهُمْ: فَمَنْ یَشْھَدُ لَکَ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ؟ قَالَ: فَضَرَبَ بِیَدِهٖ إِلٰی حَفْنَةِ حَصْبَاءَ فَأَخَذَھَا فَقَالَ: ھٰذَا یَشْھَدُ أَنِّي رَسُوْلُ اللهِ۔ قَالَ: فَسَبَّحْنَ فِي یَدِهٖ وَقُلْنَ: نَشْھَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ.
رَوَاهُ الْحَکِیْمُ التِّرْمِذِيُّ.
حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنهما بیان کرتے ہیں: یمن سے ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا … اور اُن میں سے کسی نے کہا: اس بات کی کون گواہی دیتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مٹھی بھر کنکریاں اپنے دست مبارک میں لے کر فرمایا: یہ (کنکریاں) گواہی دیں گی کہ میں رسول اللہ ہوں۔ راوی بیان کرتے ہیں: کنکریوں نے تسبیح پڑھی اور پکار اُٹھیں: ہم گواہی دیتی ہیں کہ بلا شبہ آپ اللہ u کے رسول ہیں۔
اسے حکیم ترمذی نے بیان کیا ہے۔
36. عَنِ ابْنِ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْ أَثِقُ بِهٖ مِنْ أَهْلِ الرِّوَایَةِ فِي إِسْنَادٍ لَهٗ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَیْدِ اللهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنهما، قَالَ: دَخَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَکَّةَ یَوْمَ الْفَتْحِ عَلٰی رَاحِلَتِهٖ، فَطَافَ عَلَیْهَا وَحَوْلَ الْبَیْتِ أَصْنَامٌ مَشْدُوْدَةٌ بِالرَّصَاصِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ یُشِیْرُ بِقَضِیْبٍ فِي یَدِهٖ إِلَی الْأَصْنَامِ وَیَقُوْلُ: {جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًاo} [الإسراء، 17:81]، فَمَا أَشَارَ إِلٰی صَنَمٍ مِنْهَا فِي وَجْهِهٖ إِلَّا وَقَعَ لِقَفَاهُ، وَلَا أَشَارَ إِلٰی قَفَاهُ إِلاَّ وَقَعَ لِوَجْهِهٖ، حَتّٰی مَا بَقِيَ مِنْهَا صَنَمٌ إِلَّا وَقَعَ، فَقَالَ تَمِیْمُ بْنُ أَسَدٍ الْخُزَاعِيُّ فِي ذٰلِکَ:
وَفِي الْأَصْنَامِ مُعْتَبَرٌ وَعِلْمٌ
لِمَنْ یَرْجُو الثَّوَابَ أَوِ الْعِقَابَا
رَوَاهُ ابْنُ هِشَامٍ وَالْکَلَاعِيُّ وَأَیَّدَهُ ابْنُ کَثِیْرٍ وَابْنُ خَلْدُوْنَ وَالسُّهَیْلِيُّ.
امام ابن ہشام سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے اہلِ روایت میںسے اُس شخص نے اپنی اسناد کے ساتھ بیان کیا جس پر میں اعتماد کرتا ہوں، وہ ابن شہاب زہری سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے عبید اللہ بن عبد اللہ سے روایت کی، وہ حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنهما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان فرمایا: فتح مکہ کے روز رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے کعبہ کا طواف فرمایا۔ خانہ کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے جن کے پاؤں زمین کے اندر گہرائی تک سیسے سے بڑی مضبوطی سے جمائے گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک میں اس وقت ایک چھڑی تھی جس سے آپ ﷺ قرآن مجید کی یہ آیت پڑھتے ہوئے بتوں کی طرف اشارہ فرمانے لگے: {جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًاo} ’اور فرما دیجیے: حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہے۔ آپ جس بت کے چہرے کی طرف اشارہ فرماتے وہ پشت کے بل زمین پر آگرتا، اور جس بت کی طرف اس کی پشت کی جانب سے اشارہ فرماتے وہ منہ کے بل گر جاتا، یہاں تک کہ ان بتوں میں سے کوئی ایک بھی باقی نہ رہا۔ تمیم بن اسد خزاعی نے (اسی واقعہ کے تناظر میں) یہ شعر کہا ہے:
بتوں کے اِس اَنجام میں عبرت اور علم ہے،
اُس شخص کے لیے جو ثواب یا عقاب کی اُمید رکھتا ہے۔
اسے امام ابن ہشام اور کلاعی نے روایت کیا ہے جبکہ حافظ ابن کثیر، ابن خلدون اور سہیلی نے اس کی تائید کی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved