13. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِإِنَاءٍ، وَهُوَ بِالزَّوْرَاءِ، فَوَضَعَ یَدَهٗ فِي الإِنَاءِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ یَنْبُعُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِهٖ، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ۔ قَالَ قَتَادَۃُ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: ثَـلَاثَ مِائَةٍ، أَوْ زُھَاءَ ثَـلَاثِ مِائَةٍ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں پانی کا ایک برتن پیش کیا گیا اور آپ ﷺ زوراء کے مقام پر تھے۔ آپ ﷺ نے برتن کے اندر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ ﷺ کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے بہہ نکلے اور تمام لوگوں نے وضو کر لیا۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: آپ کتنے افراد تھے؟ انہوں نے جواب دیا: تین سو یا تین سو کے لگ بھگ۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
14. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنهما قَالَ: عَطِشَ النَّاسُ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَةِ، وَالنَّبِيُّ ﷺ بَیْنَ یَدَیْهِ رِکْوَةٌ فَتَوَضَّأَ، فَجَھِشَ النَّاسُ نَحْوَهٗ، فَقَالَ: مَا لَکُمْ؟ قَالُوْا: لَیْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَیْنَ یَدَیْکَ، فَوَضَعَ یَدَهٗ فِي الرِّکْوَةِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ یَثُوْرُ بَیْنَ أَصَابِعِهٖ کَأَمْثَالِ الْعُیُوْنِ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: لَوْکُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا‘ کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ خُزَیْمَةَ.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنهما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی آپ ﷺ نے اس سے وضو فرمایا: لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں (پانی کے لیے) فریادی ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام l نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لیے پانی ہے نہ پینے کے لیے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا چنانچہ ہم سب نے (خوب سیر ہو کر پانی) پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لیے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔
اِسے امام بخاری، اَحمد، دارمی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
15. عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ رضی اللہ عنهما عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ یُصَدِّقُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا حَدِیْثَ صَاحِبِهٖ، قَالَا: خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَةِ فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ حَتّٰی نَزَلَ بِأَقْصَی الْحُدَیْبِیَةِ عَلٰی ثَمَدٍ قَلِیْلِ الْمَاءِ، یَتَبَرَّضُهُ النَّاسُ تَبَرُّضًا، فَلَمْ یُلَبِّثْهُ النَّاسُ حَتّٰی نَزَحُوْهُ، وَشُکِيَ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ الْعَطَشُ، فَانْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ کِنَانَتِهٖ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ یَجْعَلُوْهُ فِیْهِ، فَوَاللهِ، مَا زَالَ یَجِیْشُ لَهُمْ بِالرِّيِّ حَتّٰی صَدَرُوْا عَنْهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ.
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنهما، حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اللہ عنهما بیان کرتے ہیں، ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کی حدیث کی تصدیق کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ (صلح) حدیبیہ کے زمانہ میں (مدینہ منورہ سے) روانہ ہوئے۔ آگے راوی نے طویل حدیث ذکر کی جس میں ہے کہ یہاں تک کہ آپ ﷺ حدیبیہ کے بالکل قریب ایک ایسے گڑھے کے کنارے بیٹھ گئے جس میں تھوڑا سا پانی تھا، لوگوں نے اس میں سے تھوڑا تھوڑا کر کے پانی لے لیا حتیٰ کہ وہ ختم ہو گیا۔ لوگوں نے بارگاهِ رسالت میں پیاس کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا پھر (انہیں دیتے ہوئے) فرمایا: اسے اس گڑھے میں ڈال دو۔ (یعنی گاڑھ دو)۔ خدا کی قسم! پانی فوراً ابلنے لگا اور تمام لوگ پانی سے سیراب ہو گئے۔
اِسے امام بخاری، اَحمد، ابو داود، اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةِ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ نَسِیْرُ فِي الْجَیْشِ لَیْـلًا، فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ وَقَالَ فِیْهِ: فَعَرَّسْنَا وَنَحْنُ خَمْسَةٌ بِرَسُوْلِ اللهِ، ﷺ وَمَعِي إِدَاوَةٌ فِیْهَا مَاءٌ وَرِکْوَةٌ لِي أَشْرَبُ فِیْهَا؛ فَنِمْنَا، فَمَا انْتَبَهْنَا إِلَّا بِحَرِّ الشّمْسِ، فَقُلْنَا: إِنَّا ِﷲِ فَاتَنَا الصُّبْحُ، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَنُغِیْظَنَّ الشَّیْطَانَ کَمَا أَغَاظَنَا۔ فَتَوَضَّأَ مِنْ مَاءِ الإِدَاوَةِ فَفَضَلَ فَضْلَةٌ، فَقَالَ: یَا أَبَا قَتَادَةَ، احْتَفِظْ بِمَا فِي الْإِدَاوَةِ وَالرِّکْوَةِ، فَإِنَّ لَهَا شَأْنًا، ثُمَّ صَلّٰی بِنَا الْفَجْرَ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ، فَقَرَأَ بِالْمَائِدَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُمْ لَوْ أَطَاعُوْا أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ لَرَشَدُوْا.
وَذٰلِکَ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ أَرَادَا أَنْ یَنْزِلَا بِالْجَیْشِ عَلَی الْمَاءِ، فَأَبَوْا ذٰلِکَ عَلَیْهِمَا، فَنَزَلُوْا عَلٰی غَیْرِ مَاءٍ بِفَـلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَرَکِبَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَلَحِقَ الْجَیْشَ عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ وَنَحْنُ مَعَهٗ وَقَدْ کَادَتْ تُقْطَعُ أَعْنَاقُ الرِّجَالِ وَالْخَیْلِ عَطَشًا، فَدَعَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالرِّکْوَةِ فَأَفْرَغَ مَا فِي الْإِدَاوَةِ فِیْهَا، فَوَضَعَ أَصَابِعَهٗ عَلَیْهَا، فَنَبَعَ الْمَاءُ مِنْ بَیْنِ أَصَابِعِهٖ، وَأَقْبَلَ النَّاسُ فَاسْتَقَوْا، وَفَاضَ الْمَاءُ حَتّٰی تَرَوَّوْا، وَأَرْوَوْا خَیْلَهُمْ وَرِکَابَهُمْ، فَإِنْ کَانَ فِي الْعَسْکَرِ اثْنَا عَشَرَ أَلْفَ بَعِیرٍ - وَیُقَالُ: خَمْسَةَ عَشَرَ أَلْفَ بَعِیرٍ - وَالنَّاسُ ثَـلَاثُوْنَ أَلْفًا، وَالْخَیْلُ عَشْرَۃُ آلَافٍ۔ وَذٰلِکَ قَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ لِأَبِي قَتَادَةَ: احْتَفِظْ بِالرِّکْوَةِ وَالإِدَاوَةِ.
رَوَاهُ الْوَاقِدِيُّ۔ وَقَالَ السُّیُوْطِيُّ وَالصَّالِحِيُّ: رَوَاهُ أَبُوْنُعَیْمٍ.
حضرت ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ رات کے وقت جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک لشکر میں چل رہے تھے، پھر راوی نے طویل حدیث ذکر کی جس میں بیان کیا کہ ہم نے آخر شب آرام کیا، اور ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پانچ ساتھی تھے، اور میرے پاس وضو کا ایک برتن تھا جس میں کچھ پانی تھا، اور ایک چمڑے کا ڈول تھا جس سے پانی پیتا تھا؛ پھر ہم سوگئے اور پھر سورج کی تپش نے ہی ہمیں جگایا، ہم نے اِنَّا ِﷲِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجْعُوْن پڑھا کیونکہ ہماری صبح کی نماز قضاء ہوگئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم ضرور بالضرور شیطان کو غضب ناک کریں گے جیسے اس نے ہمیں غضب ناک کیا ہے۔ آپ ﷺ نے وضو والے برتن کے پانی سے وضو فرمایا تو اس میں سے کچھ پانی بچ گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو قتادہ! وضو کے برتن اور چمڑے کے ڈول میں جو پانی ہے اسے بچا کے رکھو کیونکہ اس کے لیے ایک خاص بات ہے۔ پھر آپ ﷺ نے سورج کے طلوع ہونے کے بعد ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور اس میں سورۃ المائدۃ کی تلاوت فرمائی۔ پھر جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر لوگ ابوبکر اور عمر کی اطاعت کرتے تو یقینا صحیح منزل پا لیتے۔
(آپ ﷺ نے یہ اس لیے فرمایا کہ) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنهما نے ارادہ فرمایا تھا کہ وہ لشکر کو پانی والی زمین پر اتاریں، لیکن لوگوں نے ان کی بات نہ مانی اور ایک بے آب و ویران زمین پر پڑاؤ ڈالا، رسول اللہ ﷺ سوار ہوئے اور سورج کے زوال کے وقت لشکر کو جاملے۔ ہم بھی آپ ﷺ کی معیت میں تھے اور قریب تھا کہ لوگوں اور گھوڑوں کی گردنیں مارے پیاس کے ٹوٹ جائیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے چمڑے کا ڈول منگوایا اور جو پانی وضو کے برتن میں تھا وہ چمڑے کے برتن میں ڈال دیا اور اپنی مبارک انگلیاں اس برتن پر رکھیں تو پانی آپ ﷺ کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ پڑا۔ لوگ آئے اور پانی سے سیراب ہوئے۔ وہ پانی بہہ نکلا یہاں تک کہ وہ سب سیراب ہوگئے اور انہوں نے اپنے گھوڑوں اور سواریوں کو بھی سیراب کیا اگرچہ لشکر میں بارہ ہزار اونٹ تھے - اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پندرہ ہزار اونٹ تھے - اور تیس ہزار لوگ تھے، اور دس ہزار گھوڑے تھے، حضرت ابو قتادہ کو حضور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان: ’اس چمڑے کے ڈول اور وضو کے برتن میں موجود پانی کو سنبھال کر رکھو۔‘ (کی یہی حکمت تھی جو بطورِ معجزہ ظاہر ہوئی، اور اس واقعہ سے آپ ﷺ کا مستقبل کا حال جاننے کا بھی اظہار ہوتا ہے)۔
اِسے امام واقدی نے روایت کیا ہے۔ امام سیوطی اور صالحی نے کہا ہے: اس کو ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved