(البقرة، 2/ 4)
اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں۔
(البقرة، 2/ 28)
تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالاں کہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
(البقرة، 2/ 62)
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور (جو) نصاریٰ اور صابی (تھے ان میں سے) جو (بھی) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کیے، تو ان کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
(البقرة، 2/ 123)
اور اس دن سے ڈرو جب کوئی جان کسی دوسری جان کی جگہ کوئی بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے (اپنے آپ کو چھڑانے کے لیے) کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا او رنہ اس کو (اذنِ الٰہی کے بغیر) کوئی سفارش ہی فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ (امرِ الٰہی کے خلاف) انہیں کوئی مدد دی جا سکے گی۔
(آل عمران، 3/ 145)
اور کوئی شخص اللہ کے حکم کے بغیر نہیں مر سکتا (اس کا) وقت لکھا ہوا ہے، اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں، اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں، اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو (خوب) صلہ دیں گے۔
(النساء، 4/ 39)
اور ان کا کیا نقصان تھا اگر وہ اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لے آتے اور جو کچھ اللہ نے انہیں دیا تھا اس میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرتے اور اللہ ان (کے حال) سے خوب وقف ہے۔
(المائدة، 5/ 69)
بے شک (خود کو) مسلمان (کہنے والے) اور یہودی اور صابی (یعنی ستارہ پرست) اور نصرانی جو بھی (سچے دل سے تعلیماتِ محمدی کے مطابق) اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
(الأعراف، 7/ 187)
یہ (کفار) آپ سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ فرمادیں کہ اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے، اسے اپنے (مقررہ) وقت پر اس (اللہ) کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین (کے رہنے والوں) پر (شدائد و مصائب کے خوف کے باعث) بوجھل (لگ رہی) ہے۔ وہ تم پر اچانک (حادثاتی طور پر) آجائے گی، یہ لوگ آپ سے (اس طرح) سوال کرتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، فرمادیں کہ اس کا علم تو محض اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے۔
(بني إسرائيل، 17/ 10)
اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
(بني إسرائيل، 17/ 19-21)
اور جو شخص آخرت کا خواہش مند ہوا اور اس نے اس کے لیے اس کے لائق کوشش کی اور وہ مومن (بھی) ہے تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش مقبولیت پائے گی۔ ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان (طالبانِ دنیا) کی بھی اور ان (طالبانِ آخرت) کی بھی (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ) آپ کے رب کی عطا سے ہے، اور آپ کے رب کی عطا (کسی کے لیے) ممنوع اور بند نہیں ہے۔ دیکھئے ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر کس طرح فضیلت دے رکھی ہے، اور یقینًا آخرت (دنیا کے مقابلہ میں) درجات کے لحاظ سے (بھی) بہت بڑی ہے اور فضیلت کے لحاظ سے (بھی) بہت بڑی ہے۔
(بني إسرائيل، 17/ 49-52)
اور کہتے ہیں: جب ہم (مر کر بوسیدہ) ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہمیں ازسرِنو پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟۔ فرما دیجیے: تم پتھر ہو جاؤ یا لوہا۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے خیال میں (ان چیزوں سے بھی) زیادہ سخت ہو (کہ اس میں زندگی پانے کی بالکل صلاحیت ہی نہ ہو)، پھر وہ (اس حال میں) کہیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا؟ فرما دیجیے: وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا فرمایا تھا، پھر وہ (تعجب اور تمسخر کے طور پر) آپ کے سامنے اپنے سر ہلا دیں گے اور کہیں گے: یہ کب ہوگا؟ فرما دیجیے: امید ہے جلد ہی ہو جائے گا۔ جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کے ساتھ جواب دو گے اور خیال کرتے ہو گے کہ تم (دنیا میں) بہت تھوڑا عرصہ ٹھہرے ہو۔
(الأنبياء، 21/ 47)
اور ہم قیامت کے دن عدل و انصاف کے ترازو رکھ دیں گے سو کسی جان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے گا، اور اگر (کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا (تو) ہم اسے (بھی) حاضر کر دیں گے، اور ہم حساب کرنے کو کافی ہیں۔
(الأنبياء، 21/ 104)
اس دن ہم (ساری) سماوی کائنات کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ دیا جاتا ہے، جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اسی عملِ تخلیق کو دہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اعادہ) ضرور کرنے والے ہیں۔
(المؤمنون، 23/ 74)
اور بے شک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (وہ) ضرور (سیدھی) راہ سے کترائے رہتے ہیں۔
(المؤمنون، 23/ 115-116)
سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (وبے مقصد) پیدا کیا ہے او ریہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ پس اللہ جو بادشاهِ حقیقی ہے بلند و برتر ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں بزرگی اور عزت والے عرش (اقتدار) کا (وہی) مالک ہے۔
(النور، 24/ 24)
جس دن (خود) ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں انہی کے خلاف گواہی دیں گے کہ جو کچھ وہ کرتے رہے تھے۔
(النمل، 27/ 3-5)
جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہی ہیں جو آخرت پر (بھی) یقین رکھتے ہیں۔ بے شک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمالِ (بد ان کی نگاہوں میں) خوشنما کر دیے ہیں سو وہ (گمراہی میں) سرگرداں رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے بُرا عذاب ہے اور یہی لوگ آخرت میں(سب سے) زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
(الأحزاب، 33/ 63)
لوگ آپ سے قیامت کے (وقت کے) بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ فرمادیجیے: اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، اور آپ کو کِس نے آگاہ کیا شاید قیامت قریب ہی آچکی ہو۔
(مؤمن، 40/ 39)
اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگی بس (چند روزہ) فائدہ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں اور بے شک آخرت ہی ہمیشہ رہنے کا گھر ہے۔
(الجاثية، 45/ 32)
اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت (کے آنے) میں کوئی شک نہیں ہے تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہے، ہم اُسے وہم و گمان کے سوا کچھ نہیں سمجھتے اور ہم (اِس پر) یقین کرنے والے نہیں ہیں۔
(الملک، 67/ 1-2)
وہ ذات نہایت بابرکت ہے جس کے دستِ (قدرت) میں (تمام جہانوں کی) سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔
(القيامة، 75/ 36-40)
کیا اِنسان یہ خیال کرتا ہے کہ اُسے بے کار (بغیر حساب و کتاب کے) چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا وہ (اپنی اِبتداء میں) منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو (عورت کے رحم میں) ٹپکا دیا جاتا ہے۔ پھر وہ (رحم میں جال کی طرح جما ہوا) ایک معلق وجود بن گیا، پھر اُس نے (تمام جسمانی اَعضاء کی اِبتدائی شکل کو اس وجود میں) پیدا فرمایا، پھر اس نے (انہیں) درست کیا۔ پھر یہ کہ اس نے اسی نطفہ ہی کے ذریعہ دو قسمیں بنائیں: مرد اور عورت۔ تو کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ مُردوں کو پھر سے زندہ کر دے۔
(الأعلٰی، 87/ 14-19)
بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔ اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔ بلکہ تم (اﷲ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے) دنیاوی زندگی (کی لذتوں) کو اختیار کرتے ہو۔ حالاں کہ آخرت (کی لذت و راحت) بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ بے شک یہ (تعلیم) اگلے صحیفوں میں (بھی مذکور) ہے۔ (جو) ابراہیم اور موسیٰ (علیہا السلام) کے صحائف ہیں۔
(الانفطار، 82/ 1-5)
جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے۔ اور جب سیارے گر کر بکھر جائیں گے۔ اور جب سمندر (اور دریا) ابھر کر بہہ جائیں گے۔ اور جب قبریں زیر و زبر کر دی جائیں گی۔ تو ہر شخص جان لے گا کہ کیا عمل اس نے آگے بھیجا اور (کیا) پیچھے چھوڑ آیا تھا۔
(الانشقاق، 84/ 7-12)
پس جس شخص کا نامۂِ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ تو عنقریب اس سے آسان سا حساب لیا جائے گا۔ اور وہ اپنے اہلِ خانہ کی طرف مسرور و شاداں پلٹے گا۔ اور البتہ وہ شخص جس کا نامۂِ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔ تو وہ عنقریب موت کو پکارے گا۔ اور وہ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالی: وإلی مدين أخاهم شعيبا، 3/ 254، الرقم/ 3233، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسٰی عليه السلام، 4/ 1843، الرقم/ 2373، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 448، الرقم/ 11458، وابن حبان في الصحيح، 16/ 301، الرقم/ 7311.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صور پھونکا جائے گا تو آسمان و زمین میں جتنی مخلوق ہے سب بے ہوش ہو جائے گی مگر (وہ نہیں) جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے میں ہی اُٹھایا جاؤں گا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُوْنَ. قَالَ: أَرْبَعُوْنَ يَوْمًا؟ قَالَ: أَبَيْتُ. قَالَ: أَرْبَعُوْنَ شَهْرًا؟ قَالَ: أَبَيْتُ. قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً؟ قَالَ: أَبَيْتُ، قَالَ: ثُمَّ يُنْزِلُ اﷲُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيَنْبُتُوْنَ کَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنَ الْإِنْسَانِ شَيئٌ إِلَّا يَبْلٰی، إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا، وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
وَفِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ: کُلُّ ابْنِ آدَمَ يَأْکُلُهُ التُّرَابُ إِلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْهُ خُلِقَ وَفِيْهِ يُرَکَّبُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التفسیر، باب يوم ينفخ في الصور فتأتون أفواجا، 4/ 1881، الرقم/ 4651، ومسلم في الصحيح، کتاب الفتن وأشرا ط الساعة، باب ما بين نفختين، 4/ 2270، الرقم/ 2955، ونعيم بن حماد في کتاب الفتن، 2/ 649، الرقم/ 1829، وابن أبي عاصم في السنة، 2/ 433، الرقم/ 891.
ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دونوں دفعہ صور پھونکنے کا درمیانی وقفہ چالیس کا ہے۔ کسی نے (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے) پوچھا: کیا چالیس دن کا؟ انہوں نے فرمایا: میں نہیں کہہ سکتا۔ اس نے دوبارہ پوچھا: کیا چالیس مہینے کا؟ فرمایا: کہہ نہیں سکتا۔ اس نے پھر پوچھا: کیا چالیس سال کا؟ فرمایا: کہہ نہیں سکتا۔ فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے ایسی بارش برسائے گا کہ انسان یوں زمین سے نکل آئیں گے جیسے سبزہ اُگتا ہے، (قبر میں) انسان کے تمام اعضاء بوسیدہ ہو جائیں گے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ ریڑھ کے سِرے کی ہڈی ہے کہ قیامت کے روز اُسی پر انسان کی (دوبارہ) تخلیق کی جائے گی۔
’صحیح مسلم‘ کی روایت میں ہے: ابن آدم کے تمام اعضاء مٹی کھا جاتی ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے، جس سے اُسے پیدا کیا گیا اور اُسی سے اُسے دوبارہ ترتیب دیا جائے گا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : {وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اﷲُ ط ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰی فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَo} (الزمر، 39/ 68)، فَأَکُوْنُ أَوَّلُ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة الزمر، 5/ 373، الرقم/ 3245، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب ذکر البعث، 2/ 1428، الرقم/ 4274، وابن حبان في الصحيح، 16/ 301، الرقم/ 7311، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 310، الرقم/ 31686.
ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: {وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اﷲُ ط ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰی فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَo} ’اور صور پھونکا جائے گا اور جو بھی زمین و آسمان میں ہوں گے بے ہوش ہو جائیں گے مگر وہ نہیں جسے اللہ چاہے گا، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پھر وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔‘۔ اور میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو (سجدہ سے) سر اُٹھائے گا۔
اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
24: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب إذا أنزل اﷲ بقوم عذابا، 6/ 2602، الرقم/ 6691، ومسلم في الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب الأمر بحسن الظن باﷲ تعالی عند الموت، 4/ 2206، الرقم/ 2879، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 40، الرقم/ 4985، وابن حبان في الصحيح، 16/ 306، الرقم/ 7315، وأبو يعلی في المسند، 9/ 430، الرقم/ 5582.
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اﷲ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو قوم کے تمام افراد اس عذاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ پھر (روزِ قیامت) لوگ اپنے (اچھے یا بُرے) اعمال کے مطابق اُٹھائے جائیں گے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: يُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَا مَاتَ عَلَيْهِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب الأمر بحسن الظن باﷲ تعالٰی عند الموت، 4/ 2206، الرقم/ 2878، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 331، الرقم/ 14583، وأبو يعلی في المسند، 3/ 415، الرقم/ 1901، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 312، الرقم/ 1013.
ایک روایت میں حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (روزِ قیامت) ہر شخص اسی (حالت) پر اٹھایا جائے گا جس پر اس کی موت واقع ہوئی ہوگی۔
اِسے امام مسلم، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يُبْعَثُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاءُ تَطِشُّ عَلَيْهِمْ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 266، الرقم/ 13841، وأبويعلی في المسند، 7/ 99، الرقم/ 4041، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 314، الرقم/ 355، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 439.
ایک روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کو اِس حال میں اُٹھایا جائے گا کہ آسمان سے اُن پر بوندا باندی ہو رہی ہوگی۔
اِسے امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَکِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 11، الرقم/ 16239، والطبراني في مسند الشاميين، 1/ 346، الرقم/ 602، وابن المبارک في کتاب الزهد/ 31، الرقم/ 121، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 53.
حضرت ابی رزین عقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! اﷲ تعالی مُردوں کو کس طرح زندہ فرمائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ایسی وادی سے گزرے ہو جو ویران اور بنجر تھی، پھر تم دوبارہ اس طرف سے گزرے تو وہ سرسبز و شاداب ہوچکی تھی؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں (یا رسول اﷲ)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسی طرح اﷲ تعالیٰ مُردوں کو زندہ فرمائے گا۔
اِسے امام احمد، طبرانی اور ابن المبارک نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يُبْعَثُ الْمُؤْمِنُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُرْدًا مُرْدًا مُکَحَّلِيْنَ بَنِي ثَـلَاثِيْنَ سَنَةً.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 232، الرقم/ 22077، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 336.
ایک روایت میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز مومن داڑھی مونچھوں کے بغیر سرمگیں آنکھوں والے تیس سالہ نوجوانوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْمَقْدِسِيُّ وَاللَّالَکَائِيُّ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب القدر، باب ما جاء في الإيمان بالقدر خيره وشره، 4/ 452، الرقم/ 2145، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في القدر، 1/ 32، الرقم/ 81، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2/ 66، الرقم/ 443، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 620، الرقم/ 1105.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب تک چار باتوں پر ایمان نہ لائے مومن نہیں ہو سکتا۔ وہ اِس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک میں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں مجھے اس نے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، وہ موت پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لائے اور تقدیر پر ایمان لائے۔
اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ، مقدسی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 1/ 235.
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اﷲ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں پر، اُس کی کتب پر، اُس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور تقدیر کے اچھا یا بُرا ہونے پر ایمان لاؤ۔
اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 5/ 466، الرقم/ 8779.
حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ (روزِ قیامت) ہر شخص (قبر سے) اُسی دین پر اُٹھایا جائے گا جس پر اُس کی وفات ہوئی ہوگی۔ مومن اپنے ایمان کی حالت پر اور کافر اپنے کفر کی حالت پر اٹھایا جائے گا۔
اِسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّمَا يُبْعَثُ الْمُسْلِمُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَی النِّيَّاتِ.
ذَکَرَهُ الْهَيْثَمِيُّ.
ذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 436، والمناوي في فيض القدير، 3/ 7.
ایک روایت میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: روزِ قیامت مسلمانوں کو (اُن کی) نیتوں کے مطابق اُٹھایا جائے گا۔
اسے امام ہیثمی نے بیان کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved