اربعین: تفصیل ایمان کا بیان

وحی الٰہی اور آسمانی کتب پر ایمان لانا

اَلإِيْمَانُ بِالْوَحْيِ وَبِالْکُتُبِ السَّمَاوِيَّةِ

{وحیِ اِلٰہی اور آسمانی کتب پر اِیمان لانا}

الْقُرْآن

  1. وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَo

(البقرة، 2/ 4)

اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں۔

  1. قُوْلُوْآ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰهيمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰی وَعِيْسٰی وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْج لَانُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُوْنَo

(البقرة، 2/ 136)

(اے مسلمانو!) تم کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیہا السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرمانبردار ہیں۔

  1. الٓمَّo اَﷲُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْحَيُ الْقَيُوْمُo نَزَّلَ عَلَيْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِيْلَo مِنْ قَبْلُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ط اِنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اﷲِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ط وَاﷲُ عَزِيْزٌ ذُوْانْتِقَامٍo

(آل عمران، 3/ 1-4)

الف لام میم (حقیقی معنٰی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)۔ اﷲ، اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں (وہ) ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے۔ (اے حبیب!) اسی نے (یہ) کتاب آپ پر حق کے ساتھ نازل فرمائی ہے (یہ) ان (سب کتابوں) کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے اتری ہیں اور اسی نے تورات اور انجیل نازل فرمائی ہے۔(جیسے) اس سے قبل لوگوں کی رہنمائی کے لیے (کتابیں اتاری گئیں) اور (اب اسی طرح) اس نے حق اور باطل میں امتیاز کرنے والا (قرآن) نازل فرمایا ہے، بے شک جو لوگ اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے سنگین عذاب ہے، اور اﷲ بڑا غالب انتقام لینے والا ہے۔

  1. قُلْ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰی وَعِيْسٰی وَالنَّبِيُوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْص لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْز وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُوْنَo

(آل عمران، 3/ 84)

آپ فرمائیں: ہم اﷲ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ موسیٰ اور عیسیٰ اور جملہ انبیاء (علیہم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا ہے (سب پر ایمان لائے ہیں)، ہم ان میں سے کسی پر بھی ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے تابع فرمان ہیں۔

  1. ہٰٓاَنْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَهُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْکِتٰبِ کُلِّهِ.

(آل عمران، 3/ 119)

آگاہ ہو جاؤ! تم وہ لوگ ہو کہ ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تمہیں پسند (تک) نہیں کرتے حالاں کہ تم سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہو۔

  1. اَفَـلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا کَثِيْرًاo

(النساء، 4/ 82)

تو کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے اور اگر یہ (قرآن) غیرِ خدا کی طرف سے (آیا) ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔

  1. قُلْ يٰٓـاَهْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَئٍ حَتّٰی تُقِيْمُوا التَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَيَزِيْدَنَّ کَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّـآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْيَاناً وَّکُفْرًا ط فَـلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِيْنَo

(المائدة، 5/ 68)

فرما دیجیے: اے اہلِ کتاب! تم (دین میں سے) کسی شے پر بھی نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (نافذ اور) قائم کر دو، اور (اے حبیب!) جو (کتاب) آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقینا ان میں سے اکثر لوگوں کو (حسداً) سرکشی اور کفر میں بڑھا دے گی، سو آپ گروہِ کفار (کی حالت) پر افسوس نہ کیا کریں۔

  1. یٰٓـايُهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِيْ الصُّدُوْرِ وَهُدًی وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَo

(یونس، 10/ 57)

اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لیے رحمت (بھی)۔

  1. الٓرٰ قف تِلْکَ اٰيٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِيْنِo اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْئٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَo

(يوسف، 12/ 1-2)

الف لام را (حقیقی معنٰی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔ بے شک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو۔

  1. وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَo

(الأنبياء، 21/ 105)

اور بلا شبہ ہم نے زبور میں نصیحت کے (بیان کے) بعد یہ لکھ دیا تھا کہ (عالمِ آخرت کی) زمین کے وارث صرف میرے نیکو کار بندے ہوں گے۔

  1. وَاِنَّهُ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُo عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَo بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِيْنٍo وَاِنَّهُ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَo

(الشعراء، 26/ 192-196)

اور بے شک یہ (قرآن) سارے جہانوں کے رب کا نازل کردہ ہے۔ اسے روح الامین (جبرائیل علیہ السلام) لے کر اترا ہے۔ آپ کے قلبِ (انور) پر تاکہ آپ (نافرمانوں کو) ڈر سنانے والوں میں سے ہو جائیں۔ (اس کا نزول) فصیح عربی زبان میں (ہوا) ہے۔ اوربے شک یہ پہلی امتوں کے صحیفوں میں (بھی مذکور) ہے۔

  1. اِنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَآءَهُمْ ج وَاِنَّهُ لَـکِتٰبٌ عَزِيْزٌo لاَّ يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْم بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ط تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَکِيْمٍ حَمِيْدٍo

(حم السجدة، 41/ 41-42)

بے شک جنہوں نے قرآن کے ساتھ کفر کیا جب کہ وہ اُن کے پاس آچکا تھا (تویہ اُن کی بد نصیبی ہے) اور بے شک وہ (قرآن) بڑی باعزت کتاب ہے۔ باطل اِس (قرآن) کے پاس نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے، (یہ) بڑی حکمت والے، بڑی حمد والے (رب) کی طرف سے اتارا ہوا ہے۔

  1. قَالُوْا يٰـقَوْمَنَآ اِنَّا سَمِعْنَا کِتٰـبًا اُنْزِلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِيْٓ اِلَی الْحَقِّ وَاِلٰی طَرِيْقٍ مُّسْتَقِيْمٍo

(الأحقاف، 46/ 30)

انہوں نے کہا: اے ہماری قوم! (یعنی اے قومِ جنّات) بے شک ہم نے ایک (ایسی) کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام کی تورات) کے بعد اتاری گئی ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والی ہے (وہ) سچّے (دین) اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتی ہے۔

  1. وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ کَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَاَصْلَحَ بَالَهُمْo

(محمد، 47/ 2)

اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اس (کتاب) پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے اﷲ نے ان کے گناہ ان (کے نامۂِ اعمال) سے مٹا دیے اور ان کا حال سنوار دیا۔

  1. اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوْسٰیo وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰیo اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰیo

(النجم، 53/ 36-38)

کیا اُسے اُن (باتوں) کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں میں (مذکور) تھیں؟ اور ابراہیم (علیہ السلام) کے (صحیفوں میں تھیں) جنہوں نے (اﷲ کے ہر امر کو) بتمام و کمال پورا کیا۔ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

  1. قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰo وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلّٰیo بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْيَاo وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰیo اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰیo صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰیo

(الأعلی، 87/ 14-19)

بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔ اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔ بلکہ تم (اﷲ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے) دنیاوی زندگی (کی لذتوں) کو اختیار کرتے ہو۔ حالاں کہ آخرت (کی لذت و راحت) بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ بے شک یہ (تعلیم) اگلے صحیفوں میں (بھی مذکور) ہے۔(جو) ابراہیم اور موسیٰ (d) کے صحائف ہیں۔

  1. رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَرَةًo فِيْهَا کُتُبٌ قَيِّمَةٌo

(البينة، 98/ 2-3)

(وہ دلیل) اﷲ کی طرف سے رسول (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہیں جو (ان پر) پاکیزہ اوراقِ (قرآن) کی تلاوت فرماتے ہیں۔ جن میں درست اور مستحکم احکام (درج) ہیں۔

الْحَدِيْث

  1. عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: أَنْ يُسْلِمَ قَلْبُکَ ِﷲِ وَأَنْ يَسْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِکَ وَيَدِکَ. قَالَ: فَأَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الإيمان. قَالَ: وَمَا الإيمان؟ قَالَ: تُؤْمِنُ بِاﷲِ وَمَـلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ۔ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 114، الرقم/ 17068، وعبد الرزاق في المصنف، 11/ 127، الرقم/ 20107، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 124، الرقم/ 301، والأزدي في الجامع، 11/ 127، الرقم/ 20107، وذکره العسقلاني في المطالب العالية، 12/ 294، الرقم/ 2874، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3/ 207.

حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اسلام یہ ہے کہ) تمہارا دل اﷲ تعالیٰ کے لیے سراپا تسلیم ہو جائے اور تمام مسلمان تمہاری زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں۔ اُس نے عرض کیا: کون سا اِسلام افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (جس میں) ایمان کامل ہو۔ اُس نے عرض کیا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ایمان یہ ہے کہ) تم اﷲ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں، اُس کی کتب، اُس کے رسولوں پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان رکھو۔

اِسے امام احمد اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما أَنَّ جِبْرِيْلَ عليه السلام قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا الْإِيْمَانُ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِ وَمَـلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيْلُ عليه السلام: صَدَقْتَ، قَالَ: فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : ذَاکَ جِبْرِيْلُ أَتَاکُمْ يُعَلِّمُکُمْ مَعَالِمَ دِيْنِکُمْ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 28، الرقم/ 191، وأبو يعلی في المسند، 1/ 208، الرقم/ 242، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 235.

ایک روایت میں حضرت (عبد اﷲ) بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ایمان) یہ ہے کہ تم اﷲ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں پر، اُس کی کتابوں پر، اُس کے رسولوں پر، یومِ آخرت اور تقدیر کے اچھا بُرا ہونے پر ایمان رکھو۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا: آپ نے سچ فرمایا۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم اُس کے خود ہی سوال کرنے اور پھر تصدیق کرنے پر حیران ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ان کے جانے کے بعد) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارے دین کے نمایاں پہلو سکھانے آئے تھے۔

اِسے امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

  1. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَلدِّيْنُ خَمْسٌ لَا يَقْبَلُ اﷲُ مِنْهُنَّ شَيْئًا دُوْنَ شَيئٍ، شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، وَالْإِيْمَانُ بِاﷲِ، وَمَـلَائِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5/ 201، وذکره ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم، 1/ 45، والهندي في کنز العمال، 1/ 151، الرقم/ 1380.

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ـ دین پانچ باتوں پر مشتمل ہے۔ اﷲ تعالیٰ اِن میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑنے پر ایمان قبول نہیں کرتا۔ (وہ پانچ باتیں یہ ہیں: ) اِس بات کی شہادت دینا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اﷲ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا۔

اِسے امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے اور ابن رجب حنبلی نے بیان کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved