اربعین: تفصیل ایمان کا بیان

رسل عظام اور انبیاء علیہ السلام پر ایمان لانا

اَلإِيْمَانُ بِالرُّسُلِ وَالأَنْبِيَاءِ عليهم السلام

{رُسل عظام اور اَنبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لانا}

الْقُرْآن

  1. اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاﷲِ وَمَلٰٓـئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ قف لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ قف وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَيْکَ الْمَصِيْرُo

(البقرة، 2/ 285)

(وہ) رسول اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی، سب ہی (دل سے) اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، (نیز کہتے ہیں: ) ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان بھی (ایمان لانے میں) فرق نہیں کرتے، اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے ہیں: ہم نے (تیرا حکم) سنا اور اطاعت (قبول) کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور (ہم سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔

  1. اِنَّ اﷲَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰـلَمِيْنَo ذُرِّيَّةًم بَعْضُهَا مِنْم بَعْضٍ ط وَاﷲُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌo

(آل عمران، 3/ 33-34)

بے شک اﷲ نے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیاoیہ ایک ہی نسل ہے ان میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

  1. وَ اِذْ اَخَذَ اﷲُ مِيْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ ط قَالَ ئَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِيْ ط قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ط قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَo

(آل عمران، 3/ 81)

اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔

  1. فَـاٰمِنُوْا بِاﷲِ وَرُسُلِهِ ج وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌo

(آل عمران، 3/ 179)

سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لے آؤ، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہے۔

  1. يٰٓـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهِ وَالْکِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِهِ وَالْکِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط وَمَنْ يَّکْفُرْ بِاﷲِ وَمَلٰٓئِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاًم بَعِيْدًاo

(النساء، 4/ 136)

اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جواس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بے شک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیا۔

  1. وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ج فَمَنْ اٰمَنَ وَاَصْلَحَ فَـلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُوْنَo

(الأنعام، 6/ 48)

اور ہم پیغمبروں کو نہیں بھیجتے مگر خوش خبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے بنا کر، سو جو شخص ایمان لے آیا اور (عملاً) درست ہوگیا تو ان پرنہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔

  1. وَتِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَيْنٰهَآ اِبْرٰهِيْمَ عَلٰی قَوْمِهِ ط نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ ط اِنَّ رَبَّکَ حَکِيْمٌ عَلِيْمٌo وَوَهَبْنَا لَهُٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ط کُلاًّ هَدَيْنَاج وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاؤدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَهٰرُوْنَ ط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِيْنَo وَزَکَرِيَّا وَيَحْيٰی وَعِيْسٰی وَاِلْيَاسَ ط کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَo وَاِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَيُوْنُسَ وَلُوْطًا ط وَکُلاًّ فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰـلَمِيْنَo وَمِنْ اٰبَآئِهِمْ وَذُرِّيّٰتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ ج وَاجْتَبَيْنٰهُمْ وَهَدَيْنٰهُمْ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo ذٰلِکَ هُدَی اﷲِ يَهْدِيْ بِهِ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ ط وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَo اُولٰٓـئِکَ الَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَج فَاِنْ يَّکْفُرْ بِهَا ہٰٓؤُلَآءِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوْا بِهَا بِکٰـفِرِيْنَo اُولٰٓئِکَ الَّذِيْنَ هَدَی اﷲُ فَبِهُدٰهُمُ اقْتَدِهْ ط قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا ط اِنْ هُوَ اِلاَّ ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِيْنَo

(الأنعام، 6/ 83-90)

اور یہی ہماری (توحید کی) دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی (مخالف) قوم کے مقابلہ میں دی تھی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں۔ بے شک آپ کا رب بڑی حکمت والا خوب جاننے والا ہے۔ اور ہم نے ان (ابراہیم علیہ السلام) کو اسحاق اور یعقوب (بیٹا اور پوتا d) عطا کیے، ہم نے (ان) سب کو ہدایت سے نوازا اور ہم نے (ان سے) پہلے نوح (علیہ السلام) کو (بھی) ہدایت سے نوازا تھا اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون (f کو بھی ہدایت عطافرمائی تھی)، اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس (f کو بھی ہدایت بخشی)۔ یہ سب نیکو کار (قربت اور حضوری والے) لوگ تھے۔ اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لو ط (f کوبھی ہدایت سے شرف یاب فرمایا)، اور ہم نے ان سب کو (اپنے زمانے کے)تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی۔ اور ان کے آباء (و اجداد) اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی (بعض کو ایسی فضیلت عطا فرمائی) اور ہم نے انہیں (اپنے لطفِ خاص اور بزرگی کے لیے) چن لیا تھا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرمادی تھی۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے، اور اگر (بالفرض) یہ لوگ شرک کرتے تو ان سے وہ سارے اعمالِ (خیر) ضب ط (یعنی نیست و نابود) ہوجاتے جو وہ انجام دیتے تھے۔ (یہی) وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمِ (شریعت) اور نبوّت عطا فرمائی تھی۔ پھر اگر یہ لوگ (یعنی کفّار) ان باتوں سے انکار کردیں تو بے شک ہم نے ان (باتوں) پر (ایمان لانے کے لیے) ایسی قوم کو مقرر کردیا ہے جو ان سے انکار کرنے والے نہیں (ہوں گے)۔ (یہی) وہ لوگ (یعنی پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت فرمائی ہے پس (اے رسولِ آخر الزمان!) آپ ان کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کرکے ان) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں ان تمام انبیاء و رسل کے فضائل و کمالات یکجا ہوجائیں)، آپ فرما دیجیے: (اے لوگو!) میں تم سے اس (ہدایت کی فراہمی) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ یہ توصرف جہان والوں کے لیے نصیحت ہے۔

  1. قَالَ يٰـمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَيْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِکَلَامِيْ صل فَخُذْ مَآ اٰتَيْتُکَ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِيْنَo

(الأعراف، 7/ 144)

ارشاد ہوا: اے موسیٰ! بے شک میں نے تمہیں لوگوں پر اپنے پیغامات اور اپنے کلام کے ذریعے برگزیدہ و منتخب فرما لیا۔ سو میں نے تمہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اسے تھام لو اور شکر گزاروں میں سے ہو جاؤ۔

  1. يٰٓاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهِ يُؤْتِکُمْ کِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ط وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo

(الحديد،57/ 28)

اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اُس کے رسولِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم (دنیا اور آخرت میں) چلا کرو گے اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

الْحَدِيْث

  1. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيْدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ … وفيه:

قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيْمَانِ. قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِ، وَمَـلَائِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ۔ قَالَ: صَدَقْتَ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب سؤال جبريل النبيّ صلی الله عليه وآله وسلم عن الإيمان والإسلام والإحسان وعلم السّاعة، 1/ 27، الرقم/ 50، وأيضًا في کتاب التفسير/ لقمان، باب إنّ اﷲ عنده علم السّاعة، 4/ 1793، الرقم/ 4499، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان، 1/ 36، الرقم/ 8۔9، والترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء في وصف جبريل للنبي صلی الله عليه وآله وسلم الإيمان والإسلام، 5/ 6، الرقم/ 2601، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في القدر، 4/ 222، الرقم/ 4695، والنسائي في السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب نعت الإسلام، 8/ 97، الرقم/ 4990، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في الإيمان، 1/ 24، الرقم/ 63، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 51، الرقم/ 367، وابن خزيمة في الصحيح، 4/ 127، الرقم/ 2504، وابن حبان في الصحيح، 1/ 389، الرقم/ 168.

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے نہایت سفید تھے۔۔۔ اِس حدیث میں ہے کہ:

اس نے عرض کیا: مجھے (حقیقتِ) ایمان کے بارے میں بیان فرمائیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھے۔ وہ (سائل) عرض گزار ہوا: آپ نے سچ فرمایا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي قَـلَابَةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيْهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَسْلِمْ تُسْلَمْ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَمَا الإِسْلَامُ؟ قَالَ: أَنْ تُسْلِمَ ِﷲِ وَيُسْلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِکَ وَيَدِکَ، قَالَ: فَأَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: اَلْإِيْمَانُ قَالَ: وَمَا الْإِيْمَانُ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِ وَمَـلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَبِالْبَعْثِ مِنْ بَعْدَ الْمَوْتِ.

رَوَاهُ اللَّالَکَائِيُّ.

أخرجه اللالکائي في شرح أصول اعتقاد أهل السنة، 5/ 931، الرقم/ 1683.

حضرت ابو قلابہ رضی اللہ عنہ قبیلہ اَسلم کے ایک شخص سے، اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسلام قبول کر لو، تم سلامتی پا جاؤ گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم اﷲ تعالیٰ کے آگے اپنا سرِ تسلیم خم کر دو اور تمام مسلمان تمہاری زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں۔ اس شخص نے پوچھا: کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (دل سے) ایمان (لانا)، اس نے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تم اﷲ تعالیٰ پر، اُس کے فرشتوں، اُس کی کتابوں، اُس کے رسولوں پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ اُٹھائے جانے پر ایمان لاؤ۔

اِسے امام لالکائی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ: قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَمِ الْأَنْبِيَاءُ؟ قَالَ: مِائَةَ أَلْفٍ وَعِشْرُوْنَ أَلْفًا، قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَمِ الرُّسُلُ مِنْ ذٰلِکَ؟ قَالَ: ثَـلَاثَ مِائَةٍ وَثَـلَاثَةَ عَشَرَ جَمًّا غَفِيْرًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اﷲِ، مَنْ کَانَ أَوَّلُهُمْ قَالَ: آدَمُ قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَنَبِيٌّ مُرْسَلٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، خَلَقَهُ اﷲُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُوْحِهِ وَکَلَّمَهُ قَبْـلًا ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ، أَرْبَعَةٌ سَرْيَانِيُوْنَ: آدَمُ، وَشِيْثُ، وَأَخْنُوْخُ. وَهُوَ إِدْرِيْسُ وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ خَطَّ بِالْقَلَمِ. وَنُوْحٌ، وَأَرْبَعَةٌ مِنَ الْعَرَبِ: هُوْدٌ، وَشُعَيْبٌ، وَصَالِحٌ، وَنَبِيُکَ مُحَمَّدٌ ( صلی الله عليه وآله وسلم).

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2/ 76-77، الرقم/ 361، وأيضًا في الثقات، 2/ 119، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1/ 167، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 23/ 275، 277، وذکرہ ابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 586- 587، والهيثمي في موارد الظمآن، 1/ 53.

ایک طویل روایت میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ، انبیاء کرام علیہم السلام کتنے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک لاکھ بیس ہزار۔ میں نے عرض کیا: ان میں سے رسول کتنے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین سو تیرہ (افراد) کا ایک جم غفیر ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ، ان میں سے سب سے پہلے نبی کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کیا وہ نبی مرسل ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا، ان میں اپنی روح پھونکی اور (سب) انسانوں سے پہلے ان سے کلام فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر، چار نبی سریانی تھے، آدم علیہ السلام، شیث علیہ السلام، اخنوخ یعنی ادریس علیہ السلام اور یہ (ادریس علیہ السلام) پہلے نبی تھے جنہوں نے قلم کے ساتھ لکھا اور (چوتھے) نوح علیہ السلام۔ اور چار نبی عربی ہیں: ہود علیہ السلام، شعیب علیہ السلام، صالح علیہ السلام اور تمہارے نبی محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔

اِسے امام ابن حبان، ابو نعیم اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: کَانَ بَيْنَ آدَمَ وَنُوْحٍ عَشْرَةُ قُرُوْنٍ، کُلُّهُمْ عَلٰی شَرِيْعَةٍ مِنَ الْحَقِّ، فَلَمَّا اخْتَلَفُوْا، بَعَثَ اﷲُ النَّبِيِّيْنَ وَالْمُرْسَلِيْنَ وَأَنْزَلَ کِتَابَهُ، فَکَانُوْا أُمَّةً وَاحِدَةً.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 480، الرقم/ 3654، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 6/ 318-319.

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان دس نسلوں کا (ایک طویل) عرصہ ہے۔ (اس دوران) وہ (تمام لوگ) شریعتِ حق پر تھے، جب ان میں اختلافات پیدا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء و مرسلین علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور اپنی کتاب نازل فرمائی، پھر وہ ایک امت ہو گئے۔

اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ عِکْرِمَةَ رضی الله عنه ، قَالَ: کَانَ بَيْنَ آدَمَ وَنُوْحٍ عَشْرَةُ أَقْرُنٍ، کُلُّهَا عَلَی الإِْسْلَامِ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7/ 19، الرقم/ 33928.

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیان دس نسلوں کا وقفہ ہے اور یہ تمام زمانے اسلام پر تھے۔

اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما فِي قَوْلِهِ: {وَاذْ کُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ ط اِنَّهُ کَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّاo} (مریم، 19/ 41)، قَالَ: کَانَ الْأَنْبِيَاءُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ إِلَّا عَشْرَةٌ: نُوْحٌ، وَصَالِحٌ، وَهُوْدٌ، وَلُوْطٌ، وَشُعَيْبٌ، وَإِبْرَهِيْمُ، وَإِسْمَاعِيْلُ، وَإِسْحَاقُ، وَيَعْقُوْبُ وَمُحَمَّدٌ عَلَيْهِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، وَلَمْ يَکُنْ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ مَنْ لَهُ اسْمَانِ إِلَّا إِسْرَائِيْلَ وَعِيْسٰی فَإِسْرَائِيْلُ يَعْقُوْبُ وَعِيْسَی الْمَسِيْحُ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْحاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 405، الرقم/ 3415، والطبراني في المعجم الکبير، 11/ 276، الرقم/ 11723، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 150، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 210، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 188.

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے اس فرمان - {وَاذْ کُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ ط اِنَّهُ کَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّاo} ’اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیجیے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے‘ - کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام بنی اسرائیل میں سے تھے سوائے دس انبیاء کرام علیہم السلام کے اور وہ یہ ہیں: حضرت نوح علیہ السلام، حضرت صالح علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام، حضرت لو ط علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت اِبراہیم علیہ السلام، حضرت اِسماعیل علیہ السلام، حضرت اِسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام اور سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ اَنبیاءِ کرام علیہم السلام میں سے سوائے حضرت اسرائیل علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کسی کے دو نام نہیں تھے۔ اسرائیل علیہ السلام کا دوسرا نام یعقوب تھا اور عیسیٰ علیہ السلام کا دوسرا نام مسیح تھا۔

اِسے امام حاکم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے، امام حاکم کہتے ہیں: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقہ ہیں۔

  1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : صَلُّوْا عَلٰی أَنْبِيَاءِ اﷲِ وَرُسُلِهِ فَإِنَّ اﷲَ بَعَثَهُمْ کَمَا بَعَثَنِي.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْخَطِيْبُ وَالدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 1/ 148-149، الرقم/ 131، وأيضًا في الدعوات الکبير/ 121، الرقم/ 160، والخطيب البغدادي عن أنس رضی الله عنه في تاريخ بغداد، 7/ 380، الرقم/ 3909، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 385، الرقم/ 3710، والعسقلاني في المطالب العالية، 13/ 810، الرقم/ 3334.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں پر درود بھیجا کرو۔ بے شک اﷲ تعالیٰ نے انہیں بھی اسی طرح رسول بنا کر بھیجا تھا جس طرح اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے۔

اسے امام بیہقی، خطیب بغدادی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved