(نزولِ مسیح ابن مریم علیہما السلام کے بارے میں صحابہ کرام اور تابعین عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اَقوال)
32 - عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِنَّهُۥ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ [الزخرف، 43/ 61]، قَالَ: هُوَ خُرُوجُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ علیہ السلام قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاكِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنہما نے ارشادِ خداوندی - ﴿وَإِنَّهُۥ لَعلْمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ ’اور بے شک وہ (عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان سے نزول کریں گے تو قربِ) قیامت کی علامت ہوں گے‘ - کی تفسیر میں فرمایا ہے: اس نشانی سے مرادقیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا ہے۔
یہ قول امام احمد، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 317، الرقم/ 2921، والحاكم في المستدرك، 2/ 278، الرقم/ 3003، والطبراني في المعجم الكبير، 12/ 153، الرقم/ 12740، وابن جرير الطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 3/ 289، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 7/ 786-787.
وَفِي رِوَايَةٍ أَيْضًا عَنْهُ رضی الله عنه فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِنَّهُۥ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ [الزخرف، 43/ 61]، قَالَ: نُزُوْلُ عِيْسَى علیه السلام.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنہما نے ارشادِ خداوندی - ﴿وَإِنَّهُۥ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ - کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہے۔
اسے اما م طبری اور سيوطی نے نقل کیا ہے۔
أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 25/ 91، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 7/ 387.
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْ قَتَادَةَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِنَّهُۥ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ [الزخرف، 43/ 61]، قَالَ: نُزُوْلُ عِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ علیهما السلام عَلَمٌ لِلسَّاعَة.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُ وَالسُّيُوْطِيُّ.
اللہ تعالیٰ کے ارشاد - ﴿وَإِنَّهُۥ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ ’اور بے شک وہ (عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان سے نزول کریں گے تو قربِ) قیامت کی علامت ہوں گے‘ - کی تفسیر میں حضرت قتادہ فرماتے ہیں: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا قیامت کی نشانی ہے۔
اسے اما م طبری اور سيوطی نے نقل کیا ہے۔
أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 25/ 91، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 7/ 387.
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْ أَبِي مَالِكٍ وَعَوْفٍ عَنِ الْحَسَنِ أَنَّهُمَا قَالَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِنَّهُۥ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ [الزخرف، 43/ 61]، قَالَا: نُزُولُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ علیهما السلام وَقَرَأَهَا أَحَدُهُمَا: ﴿وَإِنَّهُۥ لَعَلَمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
ایک روایت میں حضرت ابو مالک اور عوف دونوں نے امام حسن بصری سے ارشاد باری تعالیٰ - ﴿وَإِنَّهُۥ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ ’اور بے شک وہ (عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان سے نزول کریں گے تو قربِ) قیامت کی علامت ہوں گے‘ - کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا (آسمان سے) نازل ہوناہے۔ ان دونوں میں سے ایک نے اس آیت کی قرات ﴿وَإِنَّهُۥ لَعَلَمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ یعنی عین کی فتحہ کے ساتھ کی ہے۔
اسے امام طبری اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 25/ 90، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 7/ 387.
امام طبری لکھتے ہیں:
وَاجْتَمَعَتْ قُرّاءُ الْأَمْصَارِ فِي قِرَاءَةِ قَوْلِهِ: ﴿وَإِنَّهُۥ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ عَلَى كَسْرِ الْعَيْنِ مِنَ الْعِلْمِ. وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَا ذُكِرَتْ عَنْهُ فِي فَتْحِهَا، وَعَنْ قَتَادَةَ، وَالضَّحَّاكِ.
بہت سے شہروں کے قراء حضرات کا اس بات پر اجماع ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ - ﴿وَإِنَّهُۥ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ - میں عین کی کسرہ کے ساتھ قراءت کی گئی ہے، جب کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنہما، قتادہ اور ضحاک سے فتح کے ساتھ بھی اس کی قرات مروی ہے۔
الطبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 25/ 91.
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
﴿وَإِنَّهُۥ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ [الزخرف، 43/ 61]، وَقُرِئَ: ‹‹عَلَمٌ›› بِالتَّحْرِيكِ، أَيْ إِشَارَةٌ وَدَلِيلٌ عَلَى اقْتِرَابِ السَّاعَةِ.
آیت مبارکہ - ﴿وَإِنَّهُۥ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ ’اور بے شک وہ (عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان سے نزول کریں گے تو قربِ) قیامت کی علامت ہوں گے‘ – میں ایک قراءت کے مطابق عین کی فتحہ کے ساتھ لَعَلَمٌ ہے اور اس کا معنی ہے: علامت ا ورقربِ قیامت کی دلیل۔
ابن كثير، تفسير القرآن العظيم، 1/ 584.
علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ، وَأَبُو مَالِكٍ الْغِفَارِيُّ، وَقَتَادَةُ، وَمَالِكُ بْنُ دِينَارٍ، وَالضَّحَّاكُ، وَزَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ بِفَتْحِ الْعَيْنِ وَاللَّامِ، أَيْ: خُرُوجُهُ عَلَمٌ مِنْ أَعْلَامِهَا، وَشَرْطٌ مِنْ شُرُوطِهَا.
حضرت عبد اللہ بن عباس، ابو ہریرہ، ابو مالک الغفاری، قتادہ، مالک بن دینار، ضحاک اور زید بن علی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ’عین اور لام‘ کی فتحہ کے ساتھ اس کی قراءت کی ہے۔ اس کا معنی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول علاماتِ قیامت میں سے ایک علامت اور شروطِ قیامت میں سے ایک شرط ہے۔
ذكره الشوكانى في الفتح القدير، 4/ 562.
33 - عَنِ ابْنِ زَيْدٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَيُكَلِّمُ ٱلنَّاسَ فِي ٱلۡمَهۡدِ وَكَهۡلًا وَمِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ﴾ [آل عمران، 3/ 46]، قَالَ: قَدْ كَلَّمَهُمْ عِيْسَى علیہ السلام فِي الْمَهْدِ، وَسَيُكَلِّمُهُمْ إِذَا قَتَلَ الدَّجَّالَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ كَهْلٌ.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد - ﴿وَيُكَلِّمُ ٱلنَّاسَ فِي ٱلۡمَهۡدِ وَكَهۡلًا وَمِنَ ٱلصَّٰلِحِينَ﴾ ’اور وہ لوگوں سے گہوارے میں اور پختہ عمر میں (یکساں) گفتگو کرے گا اور وہ (اللہ کے) نیکوکار بندوں میں سے ہو گا۔‘ - کی تفسیر میں حضرت ابن زید فرماتے ہیں: حضرت عیسیٰ علیہ السلام لوگوں سے گہوارے میں تو (بطور معجزہ) باتیں کر چکے ہیں۔ اور جب (نازل ہو کر) دجال کو قتل کریں گے تو اس وقت بھی لوگوں سے گفتگو کریں گے اور اس وقت آپ علیہ السلام پختہ عمر کے ہوں گے۔
اسے امام طبری اور سيوطی نے نقل کیا ہے۔
أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 3/ 272-273، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 2/ 199.
34 - عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ [النساء، 4/ 159]، قَالَ: قَبْلَ مَوْتِ عِيسَى علیہ السلام . وَاللَّهِ، إِنَّهُ الْآنَ لَحَيٌّ عِنْدَ اللَّهِ، وَلَكِنْ إِذَا نَزَلَ آمَنُوا بِهِ أَجْمَعُونَ.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ (مشہور تابعی) ارشادِ باری تعالیٰ ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ ’اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسیٰ ( علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئے گا‘ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ ﴿قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ کا مطلب ہے کہ اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وصال سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔ اللہ کی قسم! وہ اس وقت اللہ کے پاس زندہ ہیں، اور جب وہ اُتریں گے تو تمام لوگ ان پر ایمان لے آئیں گے۔
اس روایت کو امام طبری اور ابن کثیر نے روایت کیا ہے۔
أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 6/ 18، وذكره ابن كثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 577.
وَفِي رِوَايَةٍ أَيْضًا عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ [النساء، 4/ 159]، قَالَ: قَبْلَ مَوْتِ عِيسَى. إِنَّ اللَّهَ رَفَعَ إِلَيْهِ عِيسَى، وَهُوَ بَاعِثُهُ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَقَامًا يُؤْمِنُ بِهِ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت حسن بصری سے ایک آدمی نے ارشادِ باری تعالیٰ - ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ ’اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسیٰ ( علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئے گا‘ - کا مطلب دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: (﴿قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ کا مطلب ہے کہ) اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وصال سے پہلے آپ علیہ السلام پر ایمان لائیں گے۔ بے شک اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے پاس (زندہ) اٹھا لیا تھا، اور وہی ان کو قیامت سے پہلے (دنیا میں) ایسے مقام پر مبعوث فرمائے گا کہ ان پر ہر نیک اور بد ایمان لے آئے گا۔
اس قول کو امام ابن ابی حاتم رازی اور سيوطی نے بیان کیا ہے۔
أخرجه ابن أبي حاتم في تفسير القرآن العظيم، 4/ 1113، الرقم/ 6251، وذكره ابن كثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 577، والسيوطي في الدر المنثور، 2/ 735.
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ هُوَ ابْنُ الْحَنَفِيَّةِ رضی الله عنه فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ [النساء، 4/ 159]، قَالَ: إِنَّ عِيسَى لَمْ يَمُتْ وَإِنَّهُ رُفِعَ إِلَى السَّمَاء وَهُوَ نَازِلٌ قَبْلَ أَنْ تَقُوْمَ السَّاعَةُ. فَلَا يَبْقَى يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ إِلَّا آمَنَ بِهِ.
رَوَاهُ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَابْنُ الْمُنْذِرِ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ كَمَا فِي الدُّرِّ الْمَنْثُوْرِ.
ایک روایت میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت محمد بن حنفیہ آیت مبارکہ - ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ ’اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسیٰ ( علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئے گا‘ - کی تفسیر میں فرماتے ہیں: حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے بلکہ انہیں (زندہ) آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا ۔ قیامت کے قائم ہونے سے پہلے آپ دوبارہ تشریف لائیں گے اور یہود و نصاریٰ میں سے کوئی فرد ایسا نہیں رہے گا جو ان پر ایمان نہیں لائے گا۔
اسے امام عبد بن حمید اور ابن المنذر نے شہر بن حوشب کے طریق سے محمد بن علی سے روایت کیا ہے جیسا کہ ’’الدر المنثور‘‘ میں ہے۔
ذكره السيوطي في الدر المنثور، 2/ 734.
وَفِي رِوَايَةِ قَتَادَةَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ [النساء، 4/ 159]، قَالَ: إِذَا نَزَلَ آمَنَتْ بِهِ الْأَدْيَانُ كُلُّهَا، ﴿وَيَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ يَكُونُ عَلَيۡهِمۡ شَهِيدًا﴾ [النساء، 4/ 159]، أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ رِسَالَةَ رَبِّهِ، وَأَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ بِالْعُبُودِيَّةِ.
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
حضرت قتادہ سے اِس آیت مبارکہ - ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ ’اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسیٰ ( علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئے گا‘ - کی تفسیر میں مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو تمام ادیان و مذاہب کے لوگ ان پر کامل ایمان لے آئیں گے۔ آیت کے اگلے حصے - ﴿وَيَوۡمَ ٱلۡقِيَٰمَةِ يَكُونُ عَلَيۡهِمۡ شَهِيدًا﴾ ’اور قیامت کے دن عیسیٰ ( علیہ السلام) ان پر گواہ ہوں گے‘ - کا مفہوم یہ ہے کہ روزِ قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام گواہی دیں گے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچا دیا تھا (مگر انہوں نے ان کی تکذیب کی) اور میں نے ان کے سامنے اپنے بارے میں اللہ کا بندہ ہونے کا اقرار کیا تھا (مگر یہ لوگ مجھے خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے رہے)۔
اِسے امام عبد الرزاق نے امام طبری اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه عبد الرزاق في تفسير الصنعاني، 1/ 177، وابن جرير الطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 6/ 19، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 2/ 734.
35 - عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ زَيْدِ (بْنِ الْمُهَاجِرِ الْمَدَنِيِّ التَّابِعِيِّ الْجَلِيْلِ) فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ [النساء، 4/ 159]، قَالَ: إِذَا نَزَلَ عِيْسَى علیه السلام فَقَتَلَ الدَّجَّالَ لَمْ يَبْقَ يَهُوْدِيٌّ فِي الْأَرْضِ إِلَّا آمَنَ بِهِ.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
حضرت محمد بن زید (جو جلیل القدر تابعی اور امام مالک و امام زہری کے شیخ ہیں)، اللہ تعالیٰ کے ارشاد - ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ ’اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسیٰ ( علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئے گا‘ - کی تفسیر میں فرماتے ہیں: جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اترنے کے بعد دجال کو قتل کر دیں گے تو تمام یہودی ضرور ان پر (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئیں گے۔
اِسے امام طبری اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 6/ 19، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 2/ 734.
36 - عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْغِفَارِيِّ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ [النساء، 4/ 159]، قَالَ: ذَلِكَ عِنْدَ نُزُوْلِ عِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ علیهما السلام، لَا يَبْقَى أَحَدٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا آمَنَ بِهِ.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
جلیل القدر تابعی حضرت ابو مالک نے ارشاد باری تعالیٰ - ﴿وَإِن مِّنۡ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤۡمِنَنَّ بِهِۦ قَبۡلَ مَوۡتِهِۦۖ﴾ ’اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسیٰ ( علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئے گا‘ - کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اہل کتاب کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کے وقت ہوگا۔ اَہلِ کتاب کے تمام افراد آپ علیہ السلام پر ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئیں گے۔
اسے کو امام طبری اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 6/ 19، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 2/ 734-735.
37 - عَنْ قَتَادَةَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَقَوۡلِهِمۡ إِنَّا قَتَلۡنَا ٱلۡمَسِيحَ عِيسَى ٱبۡنَ مَرۡيَمَ رَسُولَ ٱللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمۡۚ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكّٖ مِّنۡهُۚ مَا لَهُم بِهِۦ مِنۡ عِلۡمٍ إِلَّا ٱتِّبَاعَ ٱلظَّنِّۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَۢا157 بَل رَّفَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيۡهِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا﴾ [النساء، 4/ 157-158]، قَالَ: ... ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ قَالَ لِأَصْحَابِهِ: أَيُّكُمْ يُقْذَفُ عَلَيْهِ شَبَهِي فَإِنَّهُ مَقْتُولٌ؟ قَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: أَنَا يَا نَبِيَّ اللهِ. فَقُتِلَ ذَلِك الرَّجُلُ وَمَنَعَ اللهُ نَبِيَّهُ وَرَفَعَهُ إِلَيْهِ.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
ارشاد باری تعالیٰ - ﴿وَقَوۡلِهِمۡ إِنَّا قَتَلۡنَا ٱلۡمَسِيحَ عِيسَى ٱبۡنَ مَرۡيَمَ رَسُولَ ٱللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمۡۚ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِ لَفِي شَكّٖ مِّنۡهُۚ مَا لَهُم بِهِۦ مِنۡ عِلۡمٍ إِلَّا ٱتِّبَاعَ ٱلظَّنِّۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينَۢاً بَل رَّفَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيۡهِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا﴾ ’اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعوٰی) کی وجہ سے (بھی) کہ ہم نے اللہ کے رسول، مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو قتل کر ڈالا ہے، حالاں کہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لیے (کسی کو عیسیٰ علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بے شک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ یقیناً اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں (حقیقتِ حال کا) کچھ بھی علم نہیں مگر یہ کہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں)، اور انہوں نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو یقیناً قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھا لیا، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘ - کی تفسیر میں حضرت قتادہ فرماتے ہیں: ۔۔۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سےفرمایا تھا: تم میں سے کون اس بات کے لیے تیار ہے کہ اسے میرا ہم شکل بنادیا جائے، پھر وہی قتل ہو؟ آپ علیہ السلام کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھی نے کہا: اے اللہ کے نبی !میں اس کام کے لیے حاضر ہوں۔ پس وہ شخص (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے شبہ میں) قتل کر دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو محفوظ رکھااور انہیں آسمان کی طرف اٹھا لیا۔
اسے امام طبری اور سیوطی نے بیان کیا ہے۔
أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان، 6/ 14، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 2/ 728.
وَفِي رِوَايَةٍ عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جُبَيْرٍ الْمَكِّيِّ التَّابِعِيِّ الْجَلِيْلِ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمۡ﴾ [النساء، 4/ 157]، قَالَ: صَلَبُوا رَجُلًا غَيْرَ عِيسَى، شَبَّهُوْهُ بِعِيْسَى يَحْسَبُونَهُ إِيَّاهُ، وَرَفَعَ اللَّهُ إِلَيْهِ عِيسَى حَيًّا.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالطَّبَرِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
ارشادِ باری تعالیٰ - ﴿وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمۡۚ﴾ ’ مگر (ہوا یہ کہ) ان کے لیے (کسی کو عیسیٰ علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا‘ - کی تفسیر میں (جلیل القدر تابعی) حضرت مجاہدفرماتےہیں: یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بجائے ایک ایسے آدمی کو قتل کیا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاہم شکل تھا۔ يہودیوں نے اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمجھا حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔
اسے امام ابن ابی حاتم رازی، ابن جریر طبری اور سیوطی نے نقل کیا ہے۔
أخرجه ابن أبي حاتم في تفسير القرآن العظيم، 4/ 1110، الرقم/ 6234. وابن جرير الطبري في جامع البيان، 6/ 15، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 2/ 728.
38 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنه قَالَ: تَخْرُجُ الْحَبَشَةُ بَعْدَ نُزُوْلِ عِيْسَى علیه السلام، فَيَبْعَثُ عِيْسَى علیه السلام طَائِفَةً، فَيُهْزَمُوْنَ.
رَوَاهُ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ فِي الْفِتَنِ وَالْعَيْنِيُّ.
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد حبشی حملہ کرنے کے لیے نکلیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنا ایک گروہ ان کے مقابلہ کے لیے بھیجیں گے اور اس جنگ میں حبشیوں کو شکست ہو جائے گی۔
اسے نعیم بن حماد نے ’’فتن‘‘ میں اور عینی نے بیان کیاہے۔
أخرجه نعيم بن حماد في الفتن، 2/ 670، الرقم/ 1879، والعيني في عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 9/ 233.
39 - عَنْ أَبِي رَافِعٍ نُفَيْعِ بْنِ رَافِعِ الصَّائِغِ الْمَدَنِيِّ، قَالَ: رُفِعَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَعَلَيْهِ مِدْرَعَةٌ وخُفَّا رَاعٍ وَحَذَّافَةٌ يَحْذِفُ بِهَا الطَّيْرَ.
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ عَسَاكِرَ مِنْ طَرِيْقِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ وَالسُّيُوْطِيُّ.
(نام وَر تابعی) حضرت ابو رافع نفیع بن رافع الصائغ المدنی فرماتے ہیں: جب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو (آسمان پر) اٹھایا گیا تو آپ علیہ السلام نے ایک جبہ پہنا ہوا تھا، (پاؤں میں) دو چمڑے کے موزے تھے جو چرواہے پہنتے ہیں اور ایک غلیل تھی جس سے وہ پرندوں کا شکار کیا کرتے تھے۔
اسے امام عبد الرزاق اور ابن عساکر نے ثابت البنانی کے واسطے سے اور امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه في تفسیر الصنعاني، 1/ 122، وابن عساكر في تاریخ مدینة دمشق، 47/ 421، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 2/ 728.
40 - عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ (رُفَيْعِ بْنِ مِهْرَانَ الرِّيَاحِيِّ)، قَالَ: «مَا تَرَكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ علیهما السلام حِينَ رُفِعَ إِلَّا مِدْرَعَةَ صُوفٍ وَخُفَّيْ رَاعٍ وَقَذَّافَةً يُقْذَفُ بِهَا الطَّيْرُ».
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.
حضرت ابو العالیہ (رُفیع بن مہران الریاحی) فرماتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو (آسمان) پر اٹھایا گیا تو اُنہوں نے اپنے پیچھے یہ تین چیزیں چھوڑیں: ایک جبہ، دو چمڑے کے موزے جو چرواہے پہنتے ہیں، ایک غليل جس سے پرندوں کا شکار کیا جاتا ہے۔
أخرجه أبو نعیم في حلية الأولیاء، 2/ 221، وذكره السيوطي في الدر المنثور، 2/ 728.
41 - عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ فِي أَثَرٍ طَوِيْلٍ جَاءَ فِيْهِ: وَظَنُّوْا -أَي الْيَهُوْدُ- أَنَّهُمْ قَدْ قَتَلُوْا عِيْسَى وَظَنَّتِ النَّصَارَى مِثْلَ ذَلِكَ أَنَّهُ عِيْسَى وَرَفَعَ اللهُ عِيْسَى مِنْ يَوْمِهِ ذَلِكَ.
حضرت وہب بن منبہ کا ایک طویل ارشاد مروی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ یہودیوں کو گمان ہوگیا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا ہے۔ نصاریٰ کو بھی یہی گمان ہو گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اُسی روز (آسمان پر) اٹھا لیا تھا۔
أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان، 6/ 13، وذكره ابن كثیر في تفسير القرآن العظيم، 1/ 576، و السيوطي في الدر المنثور، 2/ 730.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved