(حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی زمین میں قیام كى مدت كتنى ہو گى؟)
24 - عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہما، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ لِي: «مَا يُبْكِيكِ»؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، ذَكَرْتُ الدَّجَّالَ فَبَكَيْتُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: «إِنَّهُ يَخْرُجُ فِي يَهُودِيَّةِ أَصْبَهَانَ، حَتَّى يَأْتِيَ الْمَدِينَةَ فَيَنْزِلَ نَاحِيَتَهَا، وَلَهَا يَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَكَانِ، فَيَخْرُجَ إِلَيْهِ شِرَارُ أَهْلِهَا ... حَتَّى يَأْتِيَ فِلَسْطِينَ بَابَ لُدٍّ، فَيَنْزِلَ عِيسَى علیه السلام فَيَقْتُلَهُ، ثُمَّ يَمْكُثُ عِيسَى علیه السلام فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً إِمَامًا عَدْلًا، وَحَكَمًا مُقْسِطًا».
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْهَيْثَمِيُّ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ غَیْرَ الْخَضْرَمِيِّ بْنِ لَاحِقٍ، وَهُوَ ثِقَةٌ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے (فتنۂ) دجال کا خیال آ گیا تھا، (اس کے خوف سے) رو پڑی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ اصفہان کے (ایک مقام) ’’یہودیہ‘‘ میں نکلے گا اور سفر کرتا ہوا مدینہ منورہ بھی آئے گا۔ وہ مدینہ کے (باہر) ایک جانب پڑاؤ کرے گا، اس زمانے میں مدینہ منورہ کے سات دروازے (یا راستے ہوں گے) جن میں سے ہر دروازے پر دو فرشتے ہوں گے (جو اسے مدینہ طیبہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے)۔ مدینہ منورہ کے بُرے لوگ نکل کر اس کے پاس چلے جائیں گے۔ ۔۔۔ جب وہ (یہاں سے روانہ ہوکر) فلسطین کے مقامِ لُد پر پہنچے گا تو عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو جائے گا اور وہ اسے قتل کر دیں گے۔ اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک دنیا میں مُنصف حکمران اور انصاف کرنے والے قاضی کی حیثیت سے رہیں گے۔
اسے امام احمد، ابن ابی شيبہ اور ہیثمی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے: اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام رجال صحیح ہیں سوائے خضرمی بن لاحق کے، وہ ثقہ ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6/75، الرقم/24511، وابن أبي شيبة في المصنف، 7/490، الرقم/37474، وابن حبان في الصحيح، 15/234-235، الرقم/6822، وذكره الهيثمي في المجمع الزوائد، 7/338.
25 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم: «يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ علیهما السلام فَيَقْتُلُ الدَّجَّالَ، وَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ عَامًا يَعْمَلُ فِيهِمْ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَسُنَّتِي، وَيَمُوتُ، وَيَسْتَخْلِفُونَ بِأَمْرِ عِيسَى رَجُلًا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، يُقَالُ لَهُ: الْمُقْعَدُ، فَإِذَا مَاتَ الْمُقْعَدُ لَمْ يَأْتِ عَلَى النَّاسِ ثَلَاثُ سِنِينَ حَتَّى يُرْفَعَ الْقُرْآنُ مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ وَمَصَاحِفِهِمْ».
رَوَاهُ أَبُو الشَّيْخِ ابْنُ حَيَّانَ فِي ‹‹كِتَابِ الْفِتَنِ›› كَمَا فِي ‹‹الْحَاوِي لِلْفَتَاوِي›› لِلسُّیُوْطِيِّ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نازل ہو کر دجال کو قتل کریں گے اور چالیس سال (دنیا میں) رہیں گے۔ اپنے قیام کے دوران وہ کتاب اللہ اور میری سنت کے مطابق عمل کریں گے۔ ان کی وفات کے بعد لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی وصیت کے مطابق (قبیلہ) بنو تمیم کے ایک شخص مُقْعَدْ کو آپ کا جانشین بنائیں گے۔ مُقْعَدْ کی وفات کے بعد لوگوں پر تین سال گزرنے نہ پائیں گے کہ قرآن مجید لوگوں کے سینوں اور ان کے مصاحف سے اٹھا لیا جائے گا۔
اسے ابو الشیخ ابن حیان نے ’’کتاب الفتن‘‘ میں روایت کیا ہے جیسا کہ امام سیوطی نے ’’الحاوی للفتاوی‘‘ میں ان کےحوالے سے ذکر کیا ہے۔
ذكره السيوطي في الحاوي للفتاوي، 2/108.
26 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم: «يَنْزِلُ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ علیهما السلام إِلَى الْأَرْضِ، فَيَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ وَيَمْكُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِينَ سَنَةً (وَفِي رَوَايَةٍ: أَنَّهُ بَيْقَى في الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً). ثُمَّ يَمُوتُ فَيُدْفَنُ مَعِي فِي قَبْرِي، فَأَقُوْمُ أَناَ وَعِيسَى بْنُ مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ».
رَوَاهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ وَالتَّبْرِيزِيُّ.
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام زمین پر نازل ہونے کے بعد نکاح کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہو گی۔ وہ پینتالیس سال تک دنیا میں رہیں گے (جب کہ ایک روایت میں چالیس سال کا عرصہ بیان ہوا ہے)۔ پھر ان کی وفات ہو جائے گی اور انہیں میرے پاس میرے روضہ میں دفن کیا جائے گا۔ (روزِ قیامت) میں اور عیسیٰ ابن مریم، ابو بکر اور عمر کے درمیان ایک ہی قبر سے کھڑے ہوں گے۔
اسے علامہ ابن الجوزی اور خطیب تبریزی نے بیان کیا ہے۔
ذكره ابن الجوزي في الوفاء بأحوال المصطفى صلی اللہ علیه وآله وسلم، أبواب بعثه وحشره وما يجري له صلی الله علیه وآله وسلم، الباب الثاني في حشر عيسى بن مريم علیهما السلام مع نبينا صلی الله علیه وآله وسلم /832، وأيضًا في المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، 2/39، والخطيب التبرىزي في مشكاة المصابيح، 3/1524، الرقم/5508.
27 - عَنْ كَعْبِ الْأَحْبَارِ، قَالَ: لَمَّا رَأَی عِيسَى قِلَّةَ مَنِ اتَّبَعَهُ وَكَثْرَةَ مَنْ كَذَّبَهُ، شَكَا ذَلِكَ إِلَى اللهِ، فَأَوْحَى اللهُ إِلَيْهِ: ﴿إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ﴾ [آل عمران، 3/55]، وَلَيْسَ مَنْ رَفَعْتُهُ عِنْدِي مَيِّتًا، وَإِنِّي سَأَبْعَثُكَ عَلَى الْأَعْوَرِ الدَّجَّالِ فَتَقْتُلُهُ. ثُمَّ تَعِيْشُ بَعْدَ ذَلِكَ أَرْبَعًا وَعِشْرِيْنَ سَنَةً، ثُمَّ أُمِيْتُكَ مِيْتَةَ الْحَيِّ.
قَالَ كَعْبٌ: وَذَلِكَ يُصَدِّقُ حَدِيْثُ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم حَيْثُ قَالَ: «كَيفَ تَهْلِكُ أُمَّةٌ أَنَا فِي أَوَّلِهَا وَعِيسَى فِي آخِرِهَا؟».
رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ فِي تَفْسِيْرِهِ بِسَنَدٍ صَحِيْحٍ.
حضرت کعب احبار فرماتے ہیں: جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کے پیرو کار کم اور جھٹلانے والے زیادہ ہیں تو انہوں نے بارگاہِ اِلٰہی میں اس کا شکوہ کیا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا ہوں۔ جس کو میں اپنے پاس اٹھاؤں وہ مردہ نہیں، اور میں اس کے بعد تمہیں کانے دجال کی طرف بھیجوں گا۔ تم اسے قتل کرو گے۔ پھر تم چوبیس سال مزید زندہ رہو گے۔ اس کے بعد میں تمہیں (اپنےمقررہ وقت پر طبعی موت سے) وفات دوں گا۔ (پس جب تمہارے لیے طبعی موت مقرر ہے تو ظاہر ہے کہ ان دشمنوں کے ہاتھوں پھانسی وغیرہ پر جان دینے سے محفوظ رہو گے۔ آگے حضرت کعب احبار فرماتے ہیں:) یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی تصدیق کرتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: ایسی امت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں مَیں ہوں اور آخر میں عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے؟
اسے امام ابن جریر طبری نے اپنی ’’تفسير‘‘ میں صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
أخرجه ابن جرير الطبري في جامع البيان في تفسير القرآن، 3/290.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved