(حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام اور دجّال ایک ہی وقت میں ظاہر ہوں گے)
16 - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: «يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ» -لَا أَدْرِي: أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا، أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا(1) «فَيَبْعَثُ اللهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ علیهما السلام كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، فَيَطْلُبُهُ فَيُهْلِكُهُ. ثُمَّ يَمْكُثُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِينَ، لَيْسَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَدَاوَةٌ».
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: دجال میری امت میں نکلے گا، پس وہ چالیس – راوی بیان کرتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چالیس دن فرمایا، یا چالیس مہینے یا چالیس سال – ٹھہرے گا۔ پھر اللہ تعالی عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو بھیج دے گا۔ ان کا حليہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہوگا۔ وہ عیسیٰ علیہ السلام دجال کوتلاش کر کے ہلاک کر ڈالیں گے۔ پھر لوگ سات سال تک اِس طرح اَمن سے رہیں گے کہ کوئی سے بھی دو افراد کے درمیان عداوت نہیں ہو گی۔
اسے امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
(1) قَالَ الْعَلاَّمَةُ التُّورْبَشْتِيُّ: قَوْلُهُ: (لَا أَدْرِي: أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا، أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا) مِنْ قَوْلِ الصَّحَابِيِّ، أَيْ: لَمْ يَزِدْنِي النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَلَى (أَرْبَعِينَ) شَيْئًا يُبَيِّنُ الْمُرَادَ مِنْهَا، فَلَا أَدْرِي أَيًّا أَرَادَ بِهَذِهِ الثَّلَاثَةِ؟ وقَالَ الْقَاضِي عِيَاضٌ: وَيَرْفَعُ هَذَا الشَّكُّ مَا فِي حَدِيْثِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، مِنْ أَنَّهَا أَرْبَعُوْنَ يَوْمًا. [الملا علي القاري، المرقاة شرح المشكاة، 10/175]
فَقَدْ أَخْرَجَهُ الطَّبَرَانِيُّ هَذَا الْحَدِيْثَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو -نَفْسِهِ- بِلَفْظِ: يَخْرُجُ -يَعْنِي الدَّجَّالُ- فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا يَرِدُ فِيهَا كُلَّ مَنْهَلٍ إِلَّا الْكَعْبَةَ وَالْمَدِينَةَ وَبَيْتَ الْمَقْدِسِ ... الْحَدِيثَ. وَوَقَعَ فِي حَدِيثِ سَمُرَةَ الْمُشَارِ إِلَيْهِ قَبْلُ: يَظْهَرُ عَلَى الْأَرْضِ كُلِّهَا إِلَّا الْحَرَمَيْنِ وَبَيْتَ الْمَقْدِسِ فَيَحْصُرُ الْمُؤْمِنِينَ فِيهِ، ثُمَّ يُهْلِكُهُ اللَّهُ. وَفِي حَدِيثِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ: أَتَيْنَا رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ مِنَ الصَّحَابَةِ، قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فَقَالَ: أُنْذِرُكُمُ الْمَسِيحَ ... الْحَدِيثَ. وَفِيهِ يَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا يَبْلُغُ سُلْطَانُهُ كُلَّ مَنْهَلٍ لَا يَأْتِي أَرْبَعَةَ مَسَاجِدَ: الْكَعْبَةَ، وَمَسْجِدَ الرَّسُولِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وَمَسْجِدَ الْأَقْصَى، وَالطُّورَ. أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. [ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، 13/105]
علامہ التوربشتی کہتے ہیں: (میں نہیں جانتا کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال) یہ صحابی کا قول ہے یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مراد کو واضح کرنے کے لیے اربعین (چالیس) پر کسی شے کا اضافہ نہیں فرمایا۔ سو مجھے نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تینوں میں سے کون سا لفظ مراد لیا ہے۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں: یہ شک حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دور ہو جاتا ہے کہ اس میں چالیس سال کی صراحت موجود ہے۔
امام طبرانی نے یہ حدیث حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہی سے ایک اور طریق سے بیان کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: وہ یعنی دجال نکلے گا اور زمین پر چالیس صبح (دن) تک ٹھہرے گا۔ جن میں وہ کعبۃ اللہ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس کے علاوہ ہر جگہ وارد ہوگا۔ اور حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اسی دجال کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ساری زمین پر ظاہر ہو گا سوائے حرمین اور بیت المقدس کے۔ تمام مومنین اس مقام پر محصور ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دے گا۔ اور جنادہ بن ابی امیہ کی حدیث میں ہے کہ ہم انصار صحابہ میں سے ایک شخص کے پاس گئے جس نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: میں تمہیں مسیح (دجال) کے حوالے سے ڈر سناتا ہوں۔ اس حدیث میں ہے کہ وہ زمین میں چالیس صبح (تک) قیام کرے گا۔ اس کی حکومت ہر جگہ ہو گی مگر چار مساجد میں وہ داخل نہیں ہو سکے گا: کعبۃ اللہ، مسجد نبوی، مسجد اَقصیٰ اور طور۔ اسے امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
(2) أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الفتن وأشراط الساعة، باب في خروج الدجال ومكثه في الأرض ونزول عيسى وقتله إياه وذهاب أهل الخير والإيمان وبقاء شرار الناس وعبادتهم الأوثان والنفخ في الصور وبعث من في القبور، 4/2258-2259، الرقم/2940، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/166، الرقم/6555، وابن حبان في الصحيح، 16/349-351، الرقم/7353.
17 - عَنْ سَفِينَةَ -مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: «أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا حَذَّرَ الدَّجَّالَ أُمَّتَهُ، وَهُوَ أَعْوَرُ عَيْنِهِ الْيُسْرَى، بِعَيْنِهِ الْيُمْنَى ظُفْرَةٌ غَلِيظَةٌ، مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ. ... ثُمَّ يَسِيرُ حَتَّى يَأْتِيَ الْمَدِينَةَ فَلَا يُؤْذَنُ لَهُ فِيهَا، فَيَقُولُ: هَذِهِ قَرْيَةُ ذَلِكَ الرَّجُلِ (أَيْ بَلْدَةُ ذَلِكَ النَّبِيِّ الْعَظِیْمِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم)، ثُمَّ يَسِيرُ حَتَّى يَأْتِيَ الشَّامَ فَيُهْلِكُهُ اللهُ عِنْدَ عَقَبَةِ أَفِيقَ».
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: سنو! مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں آیا جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔ یاد رکھو! وہ بائیں آنکھ سے کانا ہو گا، اس کی دائیں آنکھ پر ایک موٹی پھلی ہو گی، اس کی دو آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ’’کافر‘‘ لکھا ہو گا ۔۔۔۔ پھر وہ روانہ ہو گا اور مدینہ (طیبہ کے قریب) پہنچے گا، مگر اس کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت (قدرت) نہ ہو گی۔ چنانچہ وہ کہے گا کہ یہ اُس آدمی کا شہر ہے۔ (مراد یہ کہ ہمارے نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شہر ہو گا، اِس لیے وہ اس میں داخل نہ ہو سکے گا۔) پھر وہ یہاں سے چل کر شام پہنچے گا تو اللہ تعالی اسے ’’اَفیق‘‘ نامی گھاٹی کے پاس (عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں) ہلاک کروا دے گا۔
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/221، الرقم/21979، وابن أبي شيبة في المصنف، 7/491، الرقم/37479، والطبراني في المعجم الكبير، 7/84، الرقم/6445.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved