(حضرت مسیح ابن مریم علیہما السلام عادل حکمران کے طور پر آسمان سے اتريں گے)
11 - عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَكَانَ أَكْثَرُ خُطْبَتِهِ حَدِيثًا، حَدَّثَنَاهُ عَنِ الدَّجَّالِ، وَحَذَّرَنَاهُ، فَكَانَ مِنْ قَوْلِهِ أَنْ قَالَ: «إِنَّهُ لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ، مُنْذُ ذَرَأَ اللَّهُ ذُرِّيَّةَ آدَمَ، أَعْظَمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا إِلَّا حَذَّرَ أُمَّتَهُ الدَّجَّالَ، وَأَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ، وَهُوَ خَارِجٌ فِيكُمْ لَا مَحَالَةَ. ... وَإِنَّهُ لَا يَبْقَى شَيْءٌ مِنَ الْأَرْضِ إِلَّا وَطِئَهُ، وَظَهَرَ عَلَيْهِ، إِلَّا مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةَ، لَا يَأْتِيهِمَا مِنْ نَقْبٍ مِنْ نِقَابِهِمَا إِلَّا لَقِيَتْهُ الْمَلَائِكَةُ بِالسُّيُوفِ صَلْتَةً، حَتَّى يَنْزِلَ عِنْدَ الظُّرَيْبِ الْأَحْمَرِ، عِنْدَ مُنْقَطَعِ السَّبَخَةِ، فَتَرْجُفُ الْمَدِينَةُ بِأَهْلِهَا ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ، فَلَا يَبْقَى مُنَافِقٌ، وَلَا مُنَافِقَةٌ إِلَّا خَرَجَ إِلَيْهِ، فَتَنْفِي الْخَبَثَ مِنْهَا كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ، وَيُدْعَى ذَلِكَ الْيَوْمُ يَوْمَ الْخَلَاصِ». فَقَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ بِنْتُ أَبِي الْعَكَرِ رضی اللہ عنہما : يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: «هُمْ يَوْمَئِذٍ قَلِيلٌ، وَجُلُّهُمْ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ، وَإِمَامُهُمْ رَجُلٌ صَالِحٌ، فَبَيْنَمَا إِمَامُهُمْ قَدْ تَقَدَّمَ يُصَلِّي بِهِمُ الصُّبْحَ، إِذْ نَزَلَ عَلَيْهِمْ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ الصُّبْحَ، فَرَجَعَ ذَلِكَ الْإِمَامُ يَنْكُصُ، يَمْشِي الْقَهْقَرَى، لِيَتَقَدَّمَ عِيسَى يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَيَضَعُ عِيسَى يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، ثُمَّ يَقُولُ لَهُ: تَقَدَّمْ فَصَلِّ، فَإِنَّهَا لَكَ أُقِيمَتْ، فَيُصَلِّي بِهِمْ إِمَامُهُمْ».
فَإِذَا انْصَرَفَ، قَالَ عِيسَى علیه السلام: افْتَحُوا الْبَابَ. فَيُفْتَحُ،...فَإِذَا نَظَرَ إِلَيْهِ الدَّجَّالُ ذَابَ، كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، وَيَنْطَلِقُ هَارِبًا، وَيَقُولُ عِيسَى علیه السلام: إِنَّ لِي فِيكَ ضَرْبَةً، لَنْ تَسْبِقَنِي بِهَا، فَيُدْرِكُهُ عِنْدَ بَابِ اللُّدِّ الشَّرْقِيِّ، فَيَقْتُلُهُ. ...
«فَيَكُونُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ علیه السلام فِي أُمَّتِي حَكَمًا عَدْلًا، وَإِمَامًا مُقْسِطًا، يَدُقُّ الصَّلِيبَ، وَيَذْبَحُ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ، وَيَتْرُكُ الصَّدَقَةَ، فَلَا يُسْعَى عَلَى شَاةٍ، وَلَا بَعِيرٍ، وَتُرْفَعُ الشَّحْنَاءُ، وَالتَّبَاغُضُ، وَتُنْزَعُ حُمَةُ كُلِّ ذَاتِ حُمَةٍ، حَتَّى يُدْخِلَ الْوَلِيدُ يَدَهُ فِي فِي الْحَيَّةِ، فَلَا تَضُرَّهُ، وَتُفِرَّ الْوَلِيدَةُ الْأَسَدَ، فَلَا يَضُرُّهَا، وَيَكُونَ الذِّئْبُ فِي الْغَنَمِ كَأَنَّهُ كَلْبُهَا، وَتُمْلَأُ الْأَرْضُ مِنَ السِّلْمِ كَمَا يُمْلَأُ الْإِنَاءُ مِنَ الْمَاءِ، وَتَكُونُ الْكَلِمَةُ وَاحِدَةً، فَلَا يُعْبَدُ إِلَّا اللَّهُ» ... الحديث.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالْحَاكِمُ وَقَالَ: صَحِيْحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَأَوْرَدَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ جُمَلًا مِنْهُ فِي ‹‹فَتْحِ الْبَارِي›› مُسْتَشْهِدًا بِهَا، فَهُوَ عِنْدَهُ حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ أَوْ حَسَنٌ.
حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا جس کا اکثر حصہ اُس حدیث پرمشتمل تھا جو آپ رضی اللہ عنہ نے ہمیں دجال سے متعلق بیان فرمائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس سے خبردار کیا۔ اسی سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جب سے اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو پیدا کیا ہے اس وقت سے دنیا میں کوئی فتنہ دجال کے فتنہ سے بڑا نہیں ہوا، اور اللہ تعالی نے کوئی نبی ایسا مبعوث نہیں فرمایا جس نے اپنی امت کو (فتنۂ) دجال سے نہ ڈرایا ہو۔ میں چونکہ آخری نبی ہوں اور تم بہترین امت ہو، (اس لیے) وہ لا محالہ تمہارے درمیان ہی نمودار ہوگا۔‘‘ ۔۔۔ مکہ اور مدینہ کو چھوڑ کر زمین کا کوئی خطہ ایسا باقی نہ رہے گا جہاں دجال نہ جائے اور جس پر اس کا ظہور نہ ہو، البتہ جس درہ سے بھی وہ مکہ یا مدینہ آنا چاہے گا فرشتے ننگی تلواریں لیے اس کے سامنے آ جائیں گے (اور وہ آگے بڑھنے کی جرات نہ کر سکے گا)۔ چنانچہ وہ کھاری زمین کے کنارے سرخ ٹیلے کے پاس پڑاؤ ڈال دے گا۔ اس وقت مدینہ طیبہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا جس کی وجہ سے ہر منافق مرد و عورت مدینہ (طیبہ) سے نکل کر دجال سے جا ملیں گے۔ (ان زلزلوں کے ذریعے) مدینہ طیبہ گندگی (منافقوں) کو اپنے سے اسی طرح دور کر دے گا جس طرح بھٹی لوہے کا زنگ دور کر دیتی ہے۔ (اس لیے) اس دن کو ’’یوم الخلاص‘‘ (یعنی چھٹکارے کا دن) کہا جائے گا۔
(یہ حالات سن کر) اُمّ شریک بنت ابی العکر رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: یا رسول اللہ! عرب اُس زمانے میں کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عرب اُس زمانہ میں تھوڑے ہوں گے اور ان میں سے اکثر بیت المقدس میں ایک صالح امام (پیشوا) کے ماتحت ہوں گے۔ (ایک دن یہ واقعہ ہو گا کہ) ان کا امام صبح کی نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھا ہی ہو گا کہ ان میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نازل ہو جائیں گے۔ چنانچہ امام پیچھے ہٹے گا تاکہ نماز پڑھانے کے لیے عیسیٰ علیہ السلام کو آگے کرے مگر عیسیٰ علیہ السلام اس کے کاندھوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے: آگے بڑھو اور نماز پڑھاؤ کیونکہ نماز کی اقامت تمہارے ہی لیے ہوئی ہے۔ لہٰذا (اس وقت) مسلمانوں کو انہی کا امام نماز پڑھائے گا۔
جب امام نماز پڑھا کر فارغ ہو گا تو عیسیٰ علیہ السلام (قلعہ والوں سے) فرمائیں گے: دروازہ کھولو۔ دروازہ کھول دیا جائے گا، اس (دروازے) کے پیچھے دجال ہوگا۔ ۔۔۔ جب دجال، عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا تو اس طرح گھُلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھُلتا ہے۔ پھر وہ بھاگ کھڑا ہوگا۔ عیسیٰ علیہ السلام اس سے فرمائیں گے کہ میری ایک ایسی ضرب تیرے لیے مقدر ہو چکی ہے جس سے تو بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ وہ اسے ’’لد‘‘ کے مشرقی دروازے پر پکڑ لیں گے اور قتل کر ڈالیں گے ۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےمزید فرمایا: اور عیسیٰ علیہ السلام میری امت میں ایک عادل حاکم اور منصف امام ہوں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور (بطور اِحسان غیر مسلم شہریوں سے) ریاستی حفاظت کا ٹیکس (جو عسکری خدمات سے اِستثناء کی صورت میں وصول کیا جاتا ہے) معاف کر دیں گے۔ نیز زکوٰۃ کی وصولی بھی بند کر دیں گے، پس نہ بکری کی زکوٰۃ وصول کی جائے گی نہ اونٹ کی (کیونکہ سب مال دار ہوں گےاور زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ رہے گا)۔ لوگوں کے دلوں سے بغض و عداوت ختم ہو جائے گی اور ہر زہریلے جانور کا زہر نکال دیا جائے گا، حتیٰ کہ چھوٹا بچہ اپنا ہاتھ سانپ کے منہ میں دے دے گا تو سانپ اسے کوئی گزند نہ پہنچائے گا۔ چھوٹی بچی شیر کو بھگائے گی تو وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ بکریوں کے ریوڑ میں بھیڑیا اس طرح رہے گا جیسے ان کی حفاظت کرنے والا کتا۔ زمین اَمن امان سے ایسے بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جاتا ہے اور (سب لوگوں کا) کلمہ ایک ہو جائے گا۔ پس اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے گی۔
اس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا: یہ حدیث صحیحین کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کو ’’فتح الباری‘‘ میں بطور استشہاد ذکر کیا ہے اور ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح یا حسن ہے۔
أخرجه ابن ماجه في السنن، كتاب الفتن، باب باب فتنة الدجال وخروج عيسى بن مريم علیهما السلام وخروج يأجوج ومأجوج، 2/1359-1362، الرقم/4077، وأبو داود في السنن، كتاب الملاحم، باب خروج الدجال، 4/117، الرقم/4321-4322، والحاكم في المستدرك، 4/580، الرقم/8620، وذكره ابن حجر في الفتح الباري، 6/610، الرقم/3398.
12 - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم يَقُولُ: «وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ، لَيَنْزِلَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِمَامًا مُقْسِطًا وَحَكَمًا عَدْلًا، فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ، وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ، وَلَيُصْلِحَنَّ ذَاتَ الْبَيْنِ، وَلَيُذْهِبَنَّ الشَّحْنَاءَ، وَلَيُعْرَضَنَّ عَلَيْهِ الْمَالُ فَلَا يَقْبَلُهُ، ثُمَّ لَئِنْ قَامَ عَلَى قَبْرِي فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، لَأُجِيبَنَّهُ».
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَى وَالْهَيْثَمِيُّ، وَقَالَ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں (میری) ابو القاسم کی جان ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام ضرور ایک عادل امام اور مُنصف حکمران کے طور پر نازل ہوں گے۔ وہ ضرور بالضرور صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے، آپس کی دشمنیاں ختم کرائیں گے اور حسد اور بغض کو ختم کریں گے۔ یقیناً ان پر مال پیش کیا جائے گا مگر وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔ (حدیث کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ) پھر اگر وہ میری قبر کے پاس کھڑے ہو کر ’’یا محمد‘‘ کہہ کر ندا دیں گے تو میں ضرور انہیں جواب دوں گا۔
اس حدیث کو امام ابو يعلیٰ اور ہیثمی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے: اس کی سند کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں۔
أخرجه أبو يعلى في المسند، 11/462، الرقم/6584، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 8/211.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved