1. عَنْ ثَوْبَانَ في روایۃ طویلۃ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: وَإِنَّهُ سَیَکُونُ فِي أُمَّتِي کَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ کُلُّهُمْ یَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَابْنُ مَاجَہ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ.
أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلھا، 4: 97، الرقم: 4252، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذّابون، 4: 499، الرقم: 2219، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب ما یکون من الفتن، 2: 1304، الرقم: 3952، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7: 503، الرقم: 37565، والحاکم في المستدرک، 4: 496، الرقم: 8390، والطبراني في المعجم الأوسط، 8: 200، الرقم: 8397، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 1: 332، الرقم: 456
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی طویل روایت میں ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری اُمت میں تیس جھوٹے (مدعی) پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ (سن لو!) میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اِسے امام ابو داود، ترمذی نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عنہ رضی اللہ عنہ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: سَیَخْرُجُ فِي أُمَّتِي کَذَّابُوْنَ ثَـلَاثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 4: 496، الرقم: 8390، وابن حبان في الصحیح، 15: 110، الرقم: 6714
ایک روایت میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری اُمت میں تیس جھوٹے (مدعی) پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ (سن لو!) میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اِسے امام حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّهٗ نَبِيٌّ وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجہ ابن حبان في الصحیح، 16: 221، الرقم: 7238، والبیہقي في السنن الکبری، 9: 181، الرقم: 18398
ایک اور روایت میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری اُمت میں تیس جھوٹے (مدعی) پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ (سن لو!) میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اِسے امام ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ حُذَیْفَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ قَالَ: فِي أُمَّتِي کَذَّابُوْنَ وَدَجَّالُوْنَ سَبْعَۃٌ وَعِشْرُوْنَ، مِنْھُمْ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ وَإِنِّيْ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ وَالدَّیْلَمِيُّ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5: 396، الرقم: 23406، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیائ، 4: 179، وذکرہ الدیلمي في مسند الفردوس، 5: 454، الرقم: 8724، والہیثمي في مجمع الزوائد، 7: 332، والعسقلاني في فتح الباري، 13: 87
ایک روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری اُمت میں ستائیس جھوٹے اور دجال پیدا ہوں گے، ان میں سے چار عورتیں ہوں گی سن لو !میں نبیوں (کے سلسلہ) کو ختم کرنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اِسے امام احمد اور ابو نعیم اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِیْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
أخرجہ الدارمي في السنن، المقدمۃ، باب ما أعطي النبي ﷺ من الفضل، 1: 40، الرقم: 49، والطبراني في المعجم الأوسط، 1: 61، الرقم: 170، والبخاري في التاریخ الکبیر، 4: 286، الرقم: 2837، والبیہقي في کتاب الاعتقاد، 1: 192
حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں رسولوں کا قائد ہوں اور (مجھے اس بات پر) فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اس بات پر) کوئی فخر نہیںہے۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہوگی ہے اور (مجھے اس بات پر) کوئی فخر نہیں ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لِعَمِّهِ الْعَبَّاسِ: أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَهُ وَقَالَ: اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَأَبْنَاءِ الْعَبَّاسِ وَأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْعَبَّاسِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 6: 205، الرقم: 6020، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 9: 269
ایک روایت میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میں خاتم النبیین ہوں پھر آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی اے الله! تو عباس، عباس کے بیٹوں اور عباس کے پوتوں کی مغفرت فرما۔‘‘
اِسے امام طبرانی نے روایت کیاہے۔
3. عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِي، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَأَحْسَنَهٗ وَأَجْمَلَهٗ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِنْ زَاوِیَۃٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِهٖ وَیَعْجَبُوْنَ لَهٗ وَیَقُوْلُوْنَ: ھَـلَّا وُضِعَتْ ھٰذِهِ اللَّبِنَۃُ، قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَۃُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب خَاتَم النّبیِّین ﷺ، 3: 1300، الرقم: 3341-3342، ومسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ ﷺ خاتمِ النَّبِیِّین، 4: 1791، الرقم: 2286-2287، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 398، الرقم: 9156، وأیضًا، 3: 361، وأیضًا، 5: 136، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ، 5: 586، الرقم: 3613، والنسائي في السنن الکبری، 6: 436، الرقم: 11422، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 324، الرقم: 31770، وابن حبان في الصحیح، 14: 315، الرقم: 6405، والبیہقي في السنن الکبری، 9: 5، وأیضًا في شعب الإیمان، 2: 178، الرقم: 1484
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاءِ کرام کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جس نے ایک مکان بنایا اور اُسے خوب آراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آکر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے: یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں وہی (آخری) اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے بعد محلِ نبوت کی تکمیل ہوگئی اور بابِ نبوت ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے)۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَثَلِي وَمَثَلُ الأَنْبِیَاءِ کَمَثَلِ قَصْرٍ أَحْسَنَ بُنْیَانَهٗ وَتَرَکَ مِنْهُ مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ فَطَافَ بِهٖ نُظَّارٌ فَتَعَجَّبُوْا مِنْ حُسْنِ بُنْیَانِهٖ إِلَّا مَوْضِعَ تِلْکَ اللَّبِنَۃِ لَا یَعِیْبُوْنَ غَیْرَھَا، فَکُنْتُ أَنَا مَوْضِعُ تِلْکَ اللَّبِنَۃِ خُتِمَ بِيَ الرُّسُلُ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ ابن حبان في الصحیح، 14: 316، الرقم: 6406
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایک محل کی سی ہے جسے کسی نے خوب آراستہ و پیراستہ کیا، لیکن ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ آکر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس کی خوبصورت تعمیر سے خوش ہونے لگے سوائے اس ایک اینٹ کی جگہ کے کہ وہ اس کے علاوہ اس محل میںکوئی کمی نہ دیکھتے پس میں ہی وہ آخری اینٹ رکھنے کی جگہ تھا، میری بعثت کے ساتھ انبیاء ختم کر دیئے گئے۔
اِسے امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
4. عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَثَلِي وَمَثَلُ النَّبِیِّیْنَ مِنْ قَبْلِيْکَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی دَارًا، فَأَتَمَّھَا إِلاَّ لَبِنَۃً وَاحِدَۃً، فَجِئْتُ أَنَا فَأَتَمَمْتُ تِلْکَ اللَّبِنَۃَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهٗ.
أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ ﷺ خاتم النبیین، 4: 1791، الرقم: 2286، وأحمد بن حنبل في المسند، 3: 9، الرقم: 11082، وابن أبي شیبۃ فيالمصنف، 6: 323، الرقم: 31769
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے کوئی گھر تعمیر کیا اور اسے ہر طرح سے مکمل کیا مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ میں نے اپنی بعثت کے ساتھ اس اینٹ کو مکمل کر دیا۔
اسے امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔مذکورہ الفاظ امام احمد کے ہیں۔
وَفِي رِوَایَۃِ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَأَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَۃِ، جِئْتُ فَخَتَمْتُ الْأَنْبِیَاءَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ ﷺ خاتم النبیین، 4: 1791، الرقم: 2287، وأحمد بن حنبل في المسند، 3: 361، الرقم: 14931، وابن أبي شیبۃ فيالمصنف، 6: 324، الرقم: 31770
ایک اور روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میں اس اینٹ کی جگہ ہوں، میری آمد سے انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
اسے امام مسلم اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِیَاءِ، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی دَارًا فَأَکْمَلَھَا وَأَحْسَنَھَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ، فَکَانَ مَنْ دَخَلَھَا وَأَنْظَرَ إِلَیْھَا قَالَ: مَا أَحْسَنَھَا إِلاَّ مَوْضِعَ ھٰذِهِ اللَّبِنَۃِ فَأَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَۃِ خُتِمَ بِيَ الْأَنْبِیَاءُ.
رَوَاهُ الطَّیَالِسِيُّ.
أخرجہ الطیالسي في المسند، 1: 247، الرقم: 1785
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے کوئی گھر تعمیر کیا اور اسے ہر طرح سے مکمل کیا مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ جو کوئی بھی اس مکان کو دیکھنے کے لیے آتا کہتا: اس ایک اینٹ کی جگہ کے علاوہ یہ مکان کتنا خوبصورت مکان ہے۔ پس میں ہی وہ آخری اینٹ رکھنے کی جگہ ہوں، میری بعثت کے ساتھ انبیاء ختم کر دیئے گئے۔
اِسے امام طیالسی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أُبَيِّ ابْنِ کَعْبٍ رضی اللہ عنہ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: وَأَنَا فِي النَّبِیِّیْنَ بِمَوْضِعِ تِلْکَ اللَّبِنَۃِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ، 5: 586، الرقم: 3613
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اور میں نبیوں میں (عمارت کو مکمل کرنے والی) اُس اینٹ کی جگہ ہوں۔
اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
5. عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَھُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِیُّوْنَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ یَعْلٰی وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، 1: 371، الرقم: 523، والترمذي في السنن، کتاب السیر، باب ما جاء في الغنیمۃ، 4: 123، الرقم: 1553، وأبو یعلی في المسند، 11: 377، الرقم: 6491، وابن حبان في الصحیح، 6: 87، الرقم: 2313، وأیضًا، 14: 311، الرقم: 6401، وأیضًا، 14: 312، الرقم: 6403، وأبو عوانۃ في المسند، 1: 330، الرقم: 1169، والبیہقي في السنن الکبری، 2: 433، الرقم: 4063
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: مجھے دیگر انبیاء پر چھ چیزوں کے باعث فضیلت دی گئی ہے۔ میں جوامع الکلم سے نوازا گیا ہوں، رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے، میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گئے ہیں، میرے لیے (ساری) زمین پاک کر دی گئی ہے اور سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے، میں تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے انبیاء کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔
اِسے امام مسلم، ترمذی، ابو یعلی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ : (قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ): فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ، مَسْجِدًا وَّطَھُوْرًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً، وَخُتِمَ بِيَ النُّبُوَّۃُ.
ذَکَرَهُ الدَّیْلَمِيُّ.
ذکرہ الدیلمی في مسند الفردوس، 3: 123، الرقم: 4334
ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے دیگر انبیاء پر چھ چیزوں کے باعث فضیلت دی گئی ہے۔ میں جوامع الکلم سے نوازا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور میرے لیے اموال غنیمت حلال کیے گئے ہیں اور میرے لیے (ساری) زمین پاک کر دی گئی اور سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے اور میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے سلسلہ نبوت ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘
اسے امام دیلمی نے بیان کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلٰی سَائِرِ الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَھُوْرًا، وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً، وَخُتِمَ بِيَ الْأَنْبِیَاءُ.
رَوَاهُ الْأَصْبَهَانِيُّ وَالْقَزْوِیْنِيُّ.
ذکرہ الأصبھاني في دلائل النبوۃ، 1: 193، الرقم: 256، والقزویني في التدوین في أخبار قزوین، 1: 178
ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے دیگر انبیاء پر چھ چیزوں کے باعث فضیلت دی گئی ہے۔ میں جوامع الکلم سے نوازا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور میرے لیے اموال غنیمت حلال کیے گئے ہیں اور میرے لیے (ساری) زمین پاک کر دی گئی اور سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے اور میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘
اِسے امام اصبہانی اور قزوینی نے روایت کیا ہے
وَفِي رِوَایَۃٍ طَوِیْلَۃٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ الْمَکِّيِّ الْهِلَالِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: … یَا فَاطِمَۃُ، وَنَحْنُ أَھْلَ بَیْتٍ قَدْ أَعْطَانَا اللهُ سَبْعَ خِصَالٍ لَمْ یُعْطَ أَحَدٌ قَبْلَنَا، وَلَا یُعْطَی أَحَدٌ بَعْدَنَا أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَأَکْرَمُ النَّبِیِّیْنَ عَلَی اللهِ وَأَحَبُّ الْمَخْلُوْقِیْنَ إِلَی اللهِ تعالیٰ۔ (1)
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 3: 57، الرقم: 2675، والطبراني في المعجم الأوسط، 6: 327، الرقم: 6540، وذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 8: 253، 9: 65۔
حضرت علی المکی الھلالی سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنی لخت جگر سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام الله علیھا سے) فرمایا:ہم اہل بیت کو الله تعالیٰ نے سات ایسے امتیازات عطا فرمائے ہیں جو ہم سے پہلے کسی کو عطا نہیں فرمائے گئے اور نہ ہمارے بعد کسی کو عطا کیے جائیں گے میں انبیاء کا سلسلہ ختم فرمانے والا ہوں اور انبیاء میں سے سب سے زیادہ معزز ہوں اور تمام مخلوقات میں سے اللهل کو سب سے زیادہ محبوب ہوں۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیاہے۔
أَسْمَاءُ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَعْنٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
{بعض اَسماء النبی ﷺ کی ختم نبوت پر دلالت }
6۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِیْهِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لِيْ خَمْسَۃُ أَسْمَائٍ أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِيْ یَمْحُوْ اللهُ بِيَ الْکُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ۔
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ۔
6: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب ما جاء في أسماء رسول الله ﷺ، 3: 1299، الرقم: 3339، وأیضًا في کتاب التفسیر، باب تفسیر سورۃ الصف، 4: 1858، الرقم: 4614۔
حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد اور اَحمد ہوں اور میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعے سے کفر کو (بالآخر) محو کر دے گا اور میںحاشر ہوں۔ سب لوگ میری پیروی میں ہی (حشر کے دن) جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب (یعنی سب سے آخر میں آنے والا) ہوں۔
اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي یُمْحَی بِيَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقِبِيْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَیْسَ بَعْدَهٗ نَبِيٌّ۔(1)
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُو یَعْلٰی وَابْنُ حِبَّانَ۔
أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في أسمائہ ﷺ، 4: 1828، الرقم: 2354، وأحمد بن حنبل في المسند، 4: 80، 84، الرقم: 16780، 16817، وأبو یعلي في المسند، 13: 320، الرقم: 7395، وابن حبان في الصحیح، 14: 219، الرقم: 6313، وعبد الرزاق في المصنف، 10: 446، الرقم: 1957، والطبراني في المعجم الکبیر، 2: 120، الرقم: 1520، وأبو عوانۃ في المسند، 4: 409، الرقم: 7126، والبیہقي في شعب الإیمان، 2: 141، الرقم: 1397، والحمیدي في المسند، 1: 253، الرقم: 555۔
ایک اور روایت میں حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں یعنی میرے ذریعے کفر کو مٹا دیا جائے گا اور میں حاشر ہوں، سب لوگ میری پیروی میں ہی (حشر کے دن) جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد اور کوئی نبی نہ ہو۔
اسے امام مسلم، احمد، ابو یعلی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ لِي أَسْمَائً أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي یَمْحُو اللهُ بِيَ الْکُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَیْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ۔(1)
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِيْ شَیْبَۃَ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء فی أسماء النبی ﷺ، 5: 135، الرقم: 2840، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 311، الرقم: 31691، والطبراني في المعجم الکبیر، 2: 120، الرقم: 1520۔
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے کئی نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں یعنی میرے ذریعے الله تعالیٰ کفر کو مٹا دے گا۔ میں حاشر ہوں، سب لوگ میری پیروی میں ہی (حشر کے دن) جمع کیے جائیں گے، اور میں عاقب ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اسے امام ترمذی، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَالْمُقَفَّی وَالْحَاشِرُ وَالْخَاتِمُ وَالْعَاقِبُ۔(1)
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4: 81، الرقم: 16794، والحاکم في المستدرک، 2: 660، الرقم: 4186، والطبراني في المعجم الکبیر، 2: 133، الرقم: 1563، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1: 104۔
حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:میں محمد ہوں اور احمد ہوں اورمقفی (آخری نبی) ہوں اور حاشر ہوں اور خاتم ہوں اور عاقب ہوں۔
اسے امام احمد، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ:إِنَّ لِي أَسْمَائً أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي یَمْحُو اللهُ بِيَ الْکُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَیْسَ بَعْدَهٗ أَحَدٌ۔(1)
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
أخرجہ الدارمي في السنن، کتاب الرقاق، باب في أسماء النبي ﷺ، 2: 409، الرقم: 2775، والطبراني في المعجم الکبیر، 2: 121، الرقم: 1525، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1: 4، وأزدي في الجامع، 10: 446، الرقم: 19657، وابن عبد البر في الاستذکار، 8: 621۔
حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے کئی نام ہیں، میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی (مٹانے والا) ہوں یعنی میرے ذریعے الله تعالیٰ کفر کو مٹا دے گا اورمیں حاشر ہوں، سب لوگ میری پیروی میں ہی (حشر کے دن) جمع کیے جائیں گے۔ میں عاقب ہوں اور عاقب اسے کہا جاتا ہے جس کے بعد کوئی (نبی) نہ ہو۔
اِسے امام دارمی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ لِي أَسْمَائً أَنَا مُحَمَّدٌ، وأَحْمَدُ، وَالْعَاقِبُ وَالْمَاحِي وَالْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقِبِي، وَالْعَاقِبُ آخِرُ الْأَنْبِیَاءِ۔(1)
رَوَاهُ الْبَزَّارُ۔
أخرجہ البزار في المسند، 8: 339-340، الرقم: 3413۔
ایک اور روایت میں حضرت نافع بن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہما اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے کئی نام ہیںمیں محمد ہوں اور احمد ہوں اور عاقب ہوں اور ماحی ہوں اور حاشر ہوں جس کے پیچھے لوگ اُٹھائے جائیں گے اور عاقب سے مراد آخرِ انبیاء ہے۔
اسے امام بزار نے روایت کیا ہے۔
7۔ عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُسَمِّي لَنَا نَفْسَهٗ أَسْمَائً۔ فَقَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِيُّ التَّوْبَۃِ، وَنَبِيُّ الرَّحْمَۃِ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ۔
7: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب في أسمائہ ﷺ، 4: 1828، الرقم: 2355، وأحمد بن حنبل في المسند، 4: 395، 404، 407، الرقم: 19543، 19637، 19668، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 311، الرقم: 31693، والحاکم في المستدرک، 2: 659، الرقم: 4185، والطبراني في المعجم الأوسط، 4: 327، الرقم: 4338۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے ہمارے لیے اپنے کئی اسماء گرامی بیان فرمائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور میں اَحمد ہوں اور مقفی (تمام انبیاء سے بعد میں آنے والا) اور حاشر ہوں (یعنی میری پیروی میں حشر کے دن سب جمع کیے جائیں گے) اور میں نبی التوبہ (جن کی بارگاہ میں توبہ قبول ہوتی ہے) اور نبی الرحمۃ ہوں۔
امام نووی المقفّی کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَأَمَّا الْمُقَفَّی فَقَالَ شِمْرٌ: ھُوَ بِمَعْنَی الْعَاقِبِ۔(1)
ذکرہ النووی في شرحہ علی صحیح مسلم، 15: 106۔
مقفی کا معنی شمر نے العاقب بیان کیا ہے۔
امام ابن عبد البر المقفی کا معنی بیان کرتے ہیں:
قِیْلَ لِنَبِیِّنَا: الْمُقَفّٰی، لِأَنَّهٗ آخِرُ الْأَنْبِیَاءِ۔(1)
ذکرہ ابن عبد البر في التمہید، 19: 45۔
ہمارے نبی مکرم ﷺ کو المقفّٰی کہا گیا کیونکہ آپ ﷺ سلسلہ ٔ انبیاء کے آخری فرد ہیں۔
قِیْلَ فِي أَسْمَاءِ النَّبِيِّ ﷺ: الْمُقَفّٰی، لِأَنَّهُ آخِرُ الْأَنْبِیَاءِ۔(1)
ذکرہ ابن عبد البرِ في الاستذکار، 2: 375۔
المقفّی حضور نبی اکرم کے اسماے گرامی میں سے ہے کیونکہ آپ ﷺ تمام انبیاء کے آخر پر ہیں۔
اِسے امام مسلم، اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنہما یَقُوْلُ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَوْمًا کَالْمُوَدِّعِ، فَقَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ، قَالَهٗ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ، وَلَا نَبِيَّ بَعْدِيْ، أُوْتِیْتُ فَوَاتِحَ الْکَلِمِ وَخَوَاتِمَهٗ وَجَوَامِعَهٗ، وَعَلِمْتُ کَمْ خَزَنَۃُ النَّارِ وَحَمَلَۃُ الْعَرْشِ وَتُجَوَّزُ بِي وَعُوْفِیَتْ أُمَّتِي، فَاسْمَعُوا وَأَطِیْعُوْا مَا دُمْتُ فِیْکُمْ، فَإِذَا ذُهِبَ بِي فَعَلَیْکُمْ بِکِتَابِ اللهِ، أَحِلُّوا حَلَالَهٗ وَحَرِّمُوْا حَرَامَهٗ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
8: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2: 172، الرقم: 6606۔
حضرت عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک دن حضورنبی اکرم ﷺ ہمارے پاس اس طرح تشریف لائے جیسے کوئی الوداع ہونے والا لاتا ہے۔ پس آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں محمد نبی امّی ہوں۔ آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ مجھے کلمات کا آغاز و اختتام اوران کی جامعیت عطا کی گئی ہے اور میں جانتا ہوں کہ دوزخ کے فرشتے کتنے ہیں اور عرش اُٹھانے والے فرشتے کتنے ہیں اور میری اُمت سے میری وجہ سے درگزر کیا گیا اور معافی دے دی گئی ہے۔ پس میرے ارشادات سنو اور اطاعت کرو جب تک میں تمہارے درمیان موجود ہوں پس جب مجھے اس دنیا سے لے جایا جائے تو تم کتاب الله کو اپنے اوپر لازم کرلو اور اس کے حلال کو حلال جانو اور اس کے حرام کو حرام جانو۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ أَبِي شَیْبَۃَ: وَأَنَا الْعَاقِبُ۔ قَالَ لَهٗ إِنْسَانٌ: مَا الْعَاقِبُ؟ قَالَ: لَا نَبِيَّ بَعْدَهٗ۔(1)
رَوَاهُ ابْنُ أَبِيْ شَیْبَۃَ۔
أخرجہ ابن أبي شیبۃ فيالمصنف، 6: 311، الرقم: 31691۔
اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے: اور میں عاقب ہوں۔ ایک شخص نے عرض کیا: عاقب سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ مَرْفُوْعًا فَوَاللهِ، إِنِّي لَأَنَا الْحَاشِرُ وَأَنَا الْعَاقِبُ وَأَنَا الْمُقَفَّی۔(1)
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ۔
(1) أخرجہ الحاکم في المستدرک، 3: 469، الرقم: 5756، وابن حبان في الصحیح، 16: 119، الرقم: 7162، والطبراني في المعجم الکبیر، 18: 46، الرقم: 83، وذکرہ الہندي في کنز العمال، 2: 608۔
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے (حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا): الله کی قسم! بے شک میں ہی حاشر ہوں اور میں ہی عاقب ہوں اور میں ہی مقفی ہوں
اسے امام حاکم، ابن حبان، طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَنَا أَحْمَدُ وَمُحَمَّدٌ وَالْحَاشِرُ وَالْمُقَفَّی وَالْخَاتِمُ۔(1)
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
(1) أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 2: 378، الرقم: 2280، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 8: 284، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 5: 99، الرقم: 2501۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں احمد ہوںاور محمد ہوں اور حاشر ہوںاور مقفی ہوں اور خاتم ہوں۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیاہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي الطُّفَیْلِ عَامِرِ بْنِ وَائِلَۃَ (قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ) أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَحْمَدُ وَالْفَاتِحُ وَالْخَاتِمُ وَأَبُوْ الْقَاسِمِ وَالْحَاشِرُ وَالْعَاقِبُ وَالْمَاحِي وَطٰہ وَیٰس۔(1)
رَوَاهُ الدَّیْلَمِيُّ۔
أخرجہ الدیلمی في مسند الفردوس،، 1: 42، الرقم: 97، وذکرہ السیوطي فيتنویر الحوالک، 1: 263۔
ایک روایت میں حضرت ابو الطفیل عامر بن وائلہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوںاور احمد ہوں اور فاتح ہوں اور خاتم ہوں اور ابو القاسم ہوں اور حاشر ہوں اور عاقب ہوں اور ماحی ہوں اور طٰہ اور یٰس ہوں۔‘‘
اِسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ غَنَمٍ قَالَ: نَزَلَ جِبْرِیْلُ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَشَقَّ بَطْنَهٗ ثُمَّ قَالَ جِبْرِیْلُ: قَلْبٌ وَکِیْعٌ فِیْهِ أُذُنَانِ سَمِیْعَتَانِ وَعَیْنَانِ بَصِیْرَتَانِ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ الْمُقَفّٰی الْحَاشِرُ۔(1)
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ۔
أخرجہ الدارمي في السنن، باب ما أعطي النبي ﷺ من الفضل، 1: 42، الرقم: 53۔
حضرت ابن غنم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کا شکم مبارک چاک کیا پھر کہا: حفا ظت کرنے والا دل ہے جس میں دو سننے والے کان ہیں اور دو دیکھنے والی آنکھیں ہیں، محمد ﷺ الله کے وہ رسول ہیں جو سب سے آخر پر ہیں ان کے بعد انعقادِ محشر ہو گا۔
اِسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
وَأَخْرَجَ أَبُوْ نُعَیْمٍ عَنْ یُوْنُسَ بْنِ مَیْسَرَۃَ بْنِ حَلْبَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَتَانِي مَلَکٌ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فَشَقَّ بَطْنِي فَاسْتَخْرَجَ حُشْوَۃً فِي جَوْفِيْ فَغَسَلَهَا ثُمَّ ذَرَّ عَلَیْهِ ذَرُوْرًا ثُمّ قَالَ: قَلْبٌ وَکِیْعٌ یَعِيْ مَا وَقَعَ فِیْهِ عَیْنَاکَ بَصِیْرَتَانِ، وَأُذُنَاکَ تَسْمَعَانِ وَأَنْتَ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ الْمُقَفّٰی وَالْحَاشِرُ۔(1)
ذَکَرَهُ السُّیُوطِيُّ فِي الْخَصَائِصِ۔
ذکرہ السیوطي في الخصائص الکبری، 1: 111۔
حضرت یونس بن میسرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میرے پاس ایک فرشتہ سونے کا ایک طشت لے کر آیا پس اس نے میرا شکم چاک کیا اور اس میں سے ایک لوتھڑا نکالا پھر اس کو دھویا اور اس پر کسی سفوف نما چیز کا خوب چھڑکاؤ کیا، پھرکہا: حفاظت کرنے والا دل ہے جس میں دو سننے والے کان ہیں اور دو دیکھنے والی آنکھیںہیں، آپ محمد الله کے وہ رسول ہیں جو سب سے آخر پر ہیں آپ کے بعد انعقاد محشر ہو گا۔
اِسے امام سیوطی نے الخصائص الکبریٰ میں بیان کیا ہے۔
9. عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: لَمْ یَبْقَ مِنَ النُّبُوَّۃِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ. قَالُوْا: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: اَلرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب التعبیر، باب المبشرات، 6: 2564، الرقم: 6589
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: نبوت کا کوئی جزو سوائے مبشرات کے باقی نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول الله! مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیک خواب۔
اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: لَمْ یَبْقَ مِنَ النُّبُوَّۃِ إِلَّا رُؤْیَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ وَهُوَ جُزْئٌ مِنْ سِتَّۃٍ وَأَرْبَعِیْنَ جُزْئًا مِنَ النُّبُوَّۃِ.
رَوَاهُ إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَیْهِ.
أخرجہ إسحاق بن راھویہ في المسند، 1: 276، الرقم: 249
ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (میرے بعد) نبوت میں سے صرف نیک شخص کے خواب بچیں گے اور وہ نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک ہوں گے۔
اِسے امام اسحاق بن راہویہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ذَهَبَتِ النُّبُوَّۃُ فَـلَا نُبُوَّۃَ بَعْدِي إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ الرُّؤْیَا یَرَاھَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَی لَهٗ.
رَوَاهُ الدَّیْلَمِيُّ.
ذکرہ الدیلمی في مسند الفردوس، 2: 247، الرقم: 3162
ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نبوت چلی گئی، پس میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے مگر مبشرات، وہ خواب جنہیں مسلمان دیکھتا ہے یا اُسے دکھائی جاتی ہیں۔
اِسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
10. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَـلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ. قَالَ: فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَی النَّاسِ۔ فَقَالَ: لٰـکِنِ الْمُبَشِّرَاتُ. قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: رُؤْیَا الْمُسْلِمِ وَهِيَ جُزْئٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّۃِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3: 267، الرقم: 13851، والترمذي في السنن، کتاب الرؤیا، باب ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات، 4: 533، الرقم: 2272، والحاکم في المستدرک، 4: 433، الرقم: 8178، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 7: 206، الرقم: 2645
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: نبوت و رسالت ختم ہو گئی ہے اس لیے میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی کوئی نبی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ بات لوگوں پر گراں گزری (کہ اب سلسلۂ نبوت ختم ہو گیا ہے) تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لیکن مبشرات (باقی ہیں)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: (یا رسول الله!) مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کے (نیک) خواب، اور یہ نبوت کی خصوصیات کا ایک جزو ہے۔
اِسے امام اَحمد، ترمذی نے مذکورہ الفاظ میں اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ النُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ وَالرِّسَالَۃَ فَخَرَجَ النَّاسُ فَقَالَ: مُبَشِّرَاتٌ وَهِيَ جُزْئٌ مِنَ النُّبُوَّۃِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ.
أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 173، الرقم: 30457
ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ پس لوگ (پریشانی کے عالم میں) باہر نکل آئے تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مبشرات باقی ہیں اور یہ نبوت کا حصہ ہیں۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ النُّبُوَّۃَ وَالرِّسَالَۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَجَزَعَ النَّاسُ قَالَ: قَدْ بَقِیَتِ الْمُبَشِّرَاتُ وَهِيَ جُزْئٌ مِنَ النُّبُوَّۃِ.
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی.
أخرجہ أبو یعلی في المسند، 7: 38، الرقم: 3947، وابن حزم في المحلی، 1: 9
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک نبوت و رسالت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ پس لوگ خوفزدہ ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: مبشرات (خوش خبریاں) باقی ہیں اور یہ نبوت کا حصہ ہیں۔
اِسے امام ابو یعلی نے بیان کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أُمِّ کُرْزٍ الْکَعْبِیَّۃِ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: ذَھَبَتِ النُّبُوَّۃُ وَبَقِیَتِ الْمُبَشِّرَاتُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6: 381، الرقم: 27185، وابن ماجہ في السنن، کتاب تعبیر الرّؤیا، باب رؤیۃ النبي ﷺ في المنام، 2: 1283، الرقم: 3896، والدارمي في السنن، 2: 166، الرقم: 2138، وابن حبان في الصحیح، 13: 411، الرقم: 6024، وحمیدي في المسند، 1: 168، الرقم: 348
حضرت اُم کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: نبوت ختم ہوگئی اور صرف مبشرات باقی رہ گئے۔
اسے امام احمد، ابن ماجہ، دارمی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي الطُّفَیْلِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا نُبُوَّۃَ بَعْدِي إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ، قَالَ: قِیْلَ: وَمَا المُبَشِّرَاتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: الرُّؤْیَا الْحَسَنَۃُ أَوْ قَالَ: الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَنْصُوْرٍ وَالْمَقْدِسِيُّ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5: 454، الرقم: 23846، وسعید بن منصور في السنن، 5: 321، الرقم: 1068، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 8: 223، الرقم: 264، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 7: 173
حضرت ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی مگر مبشرات۔ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا: یا رسول الله! مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھے خواب؛ یا فرمایا: نیک خواب۔
اِسے امام اَحمد، ابن منصور اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ذَھَبَتِ النُّبُوَّۃُ فَـلَا نُبُوَّۃَ بَعْدِي وَبَقِیَتِ الْمُبَشِّرَاتُ رُؤْیَا الْمُؤْمِنِ یَرَاھَا أَوْ تُرَی لَهٗ.
رَوَاهُ الْمَقْدِسِيُّ.
أخرجہ المقدسي في الأحادیث المختارۃ، 8: 222-223، الرقم: 262-263
ایک اور روایت میں حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نبوت ختم ہو گئی، اب میرے بعد نبوت باقی نہیں رہی مگر مبشرات یعنی مومن کے (اچھے) خواب جو وہ دیکھتا ہے یا اسے دکھائے جاتے ہیں۔
اِسے امام مقدسی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: لَا یَبْقَی بَعْدِي مِنَ النُّبُوَّۃِ شَيْئٌ إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ، قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ یَرَاھَا الرَّجُلُ أَوْ تُرَی لَهٗ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6: 129، الرقم: 25021، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 7: 172، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 11: 140، وأیضًا في 14: 188
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے بعد نبوت کی کوئی چیز باقی نہیں بچے گی سوائے مبشرات کے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیک خواب، جنہیں انسان دیکھتا ہے یا اُسے دکھائے جاتے ہیں۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما، قَالَ: کَشَفَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ السِّتْرَ وَالنَّاسُ صُفُوْفٌ خَلْفَ أَبِيْ بَکْرٍ، فَقَالَ: إِنَّهٗ لَمْ یَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّۃِ إِلاَّ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ یَرَاھَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَی لَهٗ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ.
أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 173، الرقم: 30456
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے پردہ ہٹایا درآنحالیکہ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں بنا کر کھڑے تھے، پس آپ ﷺ نے فرمایا: نبوت کی خوشخبریوں میں سے سوائے نیک خوابوں کے کوئی چیز نہیں بچی، وہ نیک خواب جنہیں مسلمان دیکھتا ہے یا اُسے دکھائے جاتے ہیں۔
اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ رَفَعَ السِّتْرَ وَأَبُوْ بَکْرٍ یَؤُمُّ النَّاسَ فَقَالَ: اللّٰهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟ اللّٰهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟ أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّهٗ لَمْ یَبْقَ بَعْدِي مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّۃِ.
رَوَاهُ أَبُوْ عَوَانَۃَ.
أخرجہ أبو عوانۃ في المسند، 1: 490-491، الرقم: 1824
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے پردہ اٹھایا درآنحالیکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ لوگوں کو امامت کروا رہے تھے، پس آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! کیا میں نے (تیرا دین لوگوں تک) پہنچا دیا؟ اے اللہ! کیا میں نے (تیرا پیغام) پہنچا دیا؟ اے لوگو! میرے بعد نبوت کی خوش خبریوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی۔
اِسے امام ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لَنْ یَبْقَی بَعْدِي مِنَ النُّبُوَّۃِ إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ، فَقَالُوْا: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ یَرَاھَا الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوْ تُرَی لَهٗ جُزْئٌ مِنْ سِتَّۃٍ وَأَرْبَعِیْنَ جُزْئًا مِنَ النُّبُوَّۃِ.
رَوَاهُ مَالِکٌ.
أخرجہ مالک في الموطأ، کتاب الجامع، باب ما جاء في الرؤیا، 2: 957، الرقم: 1715، وابن عبد البر في التمھید، 5: 55
حضرت عطا بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے بعد نبوت میں سے کوئی چیز نہیں بچے گی سوائے مبشرات کے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیک خواب جنہیں نیک شخص دیکھتا ہے یا اسے دکھائے جاتے ہیں اور وہ نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک ہوں گے۔
اِسے امام مالک نے روایت کیا ہے۔
11۔ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ یَقُوْلُ: هَلْ رَأَی أَحَدٌ مِنْکُمُ اللَّیْلَۃَ رُؤْیَا وَیَقُوْلُ: إِنَّهٗ لَیْسَ یَبْقَی بَعْدِي مِنَ النُّبُوَّۃِ إِلاَّ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَمَالِکٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء فی الرؤیا، 4: 304، الرقم: 5017، ومالک في الموطأ، 2: 956، الرقم: 1714، والنسائي في السنن الکبری، 4: 382، الرقم: 7621، وابن حبان في الصحیح، 13: 412، الرقم: 6048، والربیع في المسند، 1: 39، الرقم: 50
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب صبح کی نماز ادا فرما لیتے تو آپ ﷺ (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے) دریافت فرماتے: کیا تم میں سے رات کو کسی نے خواب دیکھا ہے؟ اور فرماتے: بے شک میرے بعد نبوت میں سے سوائے نیک خواب کے کچھ نہیں بچا۔
اِسے امام ابو د، مالک، نسائی اور ابن حبان نے روایت کیاہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ یَقُوْلُ: هَلْ رَأَی أَحَدٌ مِّنْکُمُ اللَّیْلَۃَ رُؤْیَا؟ أَلَا إِنَّهٗ لَا یَبْقَی بَعْدِي مِنَ النُّبُوَّۃِ إِلاَّ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 4: 432، الرقم: 8176
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو فرماتے: کیا تم میں سے کسی نے آج رات خواب دیکھا ہے؟ خبردار! میرے بعد نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں بچے گی مگر نیک خواب۔
اِسے امام حاکم نے روایت کیا۔
وَفِي رِوَایَۃِ حُذَیْفَۃَ بْنِ أُسَیْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ذَهَبَتِ النُّبُوَّۃُ فَـلَا نُبُوَّۃَ بَعْدِيِ إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ۔ قِیْلَ: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ یَرَاهَا الرَّجُلُ أَوْ تُرَی لَهٗ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 3: 179، الرقم: 3051، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 7: 173
حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نبوت ختم ہو گئی، پس میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے مگر مبشرات۔ عرض کیا گیا: مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیک خواب جنہیں بندہ دیکھتا ہے یا اُسے دکھائے جاتے ہیں۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیاہے۔
12. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ لَهٗ خَلَّفَهٗ فِي بَعْضِ مَغَازِیْهِ فَقَالَ لَهٗ عَلِيٌّ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ لَهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی إِلَّا أَنَّهٗ لَا نُبُوَّۃَ بَعْدِي.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ.
أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ، 4: 1871، الرقم: 2404، وأحمد بن حنبل في المسند، 1: 185، الرقم: 1608، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ، 5: 638، الرقم: 3724
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جب آپ ﷺ نے ایک غزوہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑ دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
اِسے امام مسلم، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہما قَالَ: لَمَّا أَرَادَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ یُخَلِّفَ عَلِیًّا رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ لَهٗ عَلِیٌّ: مَا یَقُوْلُ النَّاسُ فِيَّ إِذَا خَلَّفْتَنِي قَالَ: فَقَالَ: أَمَّا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهٗ لَیْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ أَوْ لَا یَکُوْنُ بَعْدِيْ نَبِيٌّ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3: 338، الرقم: 14679
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو (غزوہ کے موقع پر) پیچھے چھوڑنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) اگر آپ مجھے پیچھے چھوڑ گئے تو لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ یا فرمایا: میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عنہ رضی اللہ عنہ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلاَّ أَنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ، 2: 640، الرقم: 3730، والطبراني في المعجم الکبیر، 2: 247، الرقم: 2035
ایک روایت میں حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہو جوہارون علیہ السلام کی موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک تھی۔ (فرق یہ ہے کہ وہ دونوں نبی تھے) مگر میرے بعدکوئی نبی نہیں۔
اِسے امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ رضی اللہ عنہ مِثْلَهٗ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب رضی اللہ عنہ، 5: 641، الرقم: 3731
حضرت سعید بن مسیب سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
اِسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أُمِّ سَلَمَۃَ رضی اللہ عنہا مِثْلَهٗ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ ابن حبان في الصحیح، 15: 15، الرقم: 6643
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے اِسی کی مثل حدیث مروی ہے۔
اسے امام ابن حبان نے بیان کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَیْسٍ رضی اللہ عنہا، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهٗ لَیْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6: 438، الرقم: 7507، وأیضا في فضائل الصحابۃ، 2: 598، الرقم: 1020، والنسائي في السنن الکبری، 5: 125، الرقم: 8448، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 9: 109، 110(عن جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ )، والمزي في تہذیب الکمال، 35: 263، والذہبي في سیر أعلام النبلائ، 7: 362
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اسے امام احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا عَنْ أَبِیْهَا: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ فِي غَزْوَۃِ تَبُوْکَ: أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلَّا أَنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ.
أخرجہ البزار في المسند، 4: 38، الرقم: 1200
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والد گرامی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک کے موقع پر فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
اِسے امام بزار نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي أَیُّوْبَ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
ذَکَرَهُ الْهَیْثَمِيُّ.
ذکرہ الہیثميفي مجمع الزوائد، 9: 111
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا: تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
اسے امام ہیثمی نے بیان کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیْهِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلَّا أَنَّهٗ لَیْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ.
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی وَأَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ.
أخرجہ أبو یعلی في المسند، 2: 99، الرقم: 755، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابۃ، 2: 633، الرقم: 1079
حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہما اپنے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
اِسے امام ابو یعلی نے اور امام احمد نے ’فضائل الصحابۃ‘ میں روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أُمِّ سَلَمَۃَ رضی اللہ عنہا، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي کَمَا هَارُوْنُ مِنْ مُوْسَی غَیْرَ أَنَّهُ لَیْسَ بَعْدِيْ نَبِيٌّ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 23: 377، الرقم: 892
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما : وَخَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي غَزْوَۃِ تَبُوْکَ وَخَرَجَ بِالنَّاسِ مَعَهٗ قَالَ: فَقَالَ لَهٗ عَلِيٌّ: أَخْرُجُ مَعَکَ؟ قَالَ: فَقَالَ النَّبِيٌّ ﷺ: لَا۔ فَبَکَی عَلِيٌّ، فَقَالَ لَهٗ: أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهٗ لَیْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 3: 143، الرقم: 4652
ایک روایت میں حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے جانے لگے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) میں بھی آپ کے ساتھ چلوں؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ رو پڑے، حضور نبی اکرم ﷺ نے اُنہیں فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَعَلِيٍّ: أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَیْرَ أَنَّهُ لَا نُبُوَّۃَ بَعْدِي وَلَا وَرَاثَۃَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 2: 126، الرقم: 1465، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 9: 110
ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تیرا مقام و مرتبہ میرے ساتھ وہی ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھا مگر یہ کہ میرے بعد نہ تو نبوت ہے اور نہ ہی میرا کوئی وارث ہے۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ … أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 2: 367، الرقم: 3294
ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ : أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: خَلَّفْتُکَ أَنْ َتکُوْنَ خَلِیْفَتِي قَالَ: أَتُخَلِّفُ عَنْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: أَلَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
ذَکَرَهُ الْهَیْثَمِيُّ.
ذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 9: 110
ایک اور روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے تمہیں پیچھے اِس لیے چھوڑا تاکہ تو میرا نائب ہو جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے اپنے پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اسے امام ہیثمی نے بیان کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: وُجِعْتُ وَجْعًا، فَأَتَیْتُ النّبِيَّ ﷺ فَأَقَامَنِي فِي مکَانِهٖ، وَقَامَ یُصَلِّي وَأَلْقٰی عَلَيَّ طَرَفَ ثَوْبِهٖ ثُمَّ قَالَ: بَرأْتَ، یَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ، لَا بَأْسَ عَلَیْکَ مَا سَأَلْتُ اللهَ شَیْئًا إِلَّا سَأَلْتُ لَکَ مِثْلَهٗ، وَلَا سَأَلْتُ اللهَ شَیْئًا إِلَّا أَعْطَانِیْهِ غَیْرَ أَنَّهٗ قِیْلَ لِي: إِنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدَکَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 8: 47، الرقم: 7917، والنسائي في السنن الکبری، 5: 151، الرقم: 8533، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2: 596، الرقم: 1313، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 9: 110
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: میں شدتِ درد میں مبتلا تھا، پس میں حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نے مجھے اپنی جگہ کھڑا کیا اور خود نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے جبکہ میرے اُوپر اپنے کپڑے کا ایک کنارہ ڈال دیا پھر فرمایا: اے ابن ابی طالب! تو تندرست ہوگیا، اب تجھے کچھ بھی نہیں ہے۔ (اے علی!) میں نے اللہ تعالیٰ سے (اپنے لیے) کوئی چیز نہیں مانگی مگر یہ کہ وہی چیز تمہارے لیے بھی مانگی ہے، اور میں نے جب بھی اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگی ہے اس نے مجھے عطا کی ہے، سوائے اس کے کہ مجھے کہا گیا: آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
اِسے امام طبرانی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ وَزَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی اللہ عنہما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لَعِلِيٍّ حِیْنَ أَرَادَ أَنْ یَغْزُوَ: إِنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ أَنْ أُقِیْمَ أَوْ تُقِیْمَ فَخَلَّفَهُ فَقَالَ نَاسٌ: مَا خَلَّفَهُ إِلَّا شَيْئٌ کَرِهَهُ فَبَلَغَ ذٰلِکَ عَلِیًّا فَأَتَی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَأَخْبَرَهُ فَتَضَاحَکَ ثُمَّ قَالَ: یَا عَلِيُّ، أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهٗ لَیْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي.
ذَکَرَهُ الْهَیْثَمِيُّ.
ذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 9: 111
ایک روایت میں حضرت براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے جب غزوہ پر جانے کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ضروری ہے کہ میں رکوں یا تم رکو، پس آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑا، لوگوں نے کہا: حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی ناخوشگوار چیز کی وجہ سے پیچھے چھوڑا ہے۔ پس جب یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور انہیں واقعہ سے آگاہ کیا، یہ سن کر حضور نبی اکرم ﷺ مسکرا پڑے اور فرمایا: اے علی! کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مقام و مرتبہ میرے لیے وہی ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
اسے امام ہیثمی نے بیان کیا ہے۔
13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما قَالَ: لَمَّا آخَی النَّبِيُّ ﷺ بَیْنَ أَصْحَابِهٖ مِنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ فَلَمْ یُؤَاخِ بَیْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہ وَبَیْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ، خَرَجَ عَلِيٌّ مُغْضَبًا حَتَّی أَتَی جَدْوَلًا فَتَوَسَّدَ ذِرَاعَهٗ فَسَفَتْ عَلَیْهِ الرِّیْحُ فَطَلَبَهُ النَّبِيُّ ﷺ حَتّٰی وَجَدَهٗ فَوَکَزَهٗ بِرِجْلِهٖ فَقَالَ لَهٗ: قُمْ فَمَا صَلَحْتَ أَنْ تَکُوْنَ إِلَّا أَبَا تُرَابٍ، أَغَضِبْتَ عَلَيَّ حِیْنَ أَخَیْتُ بَیْنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَلَمْ أُوَاخِ بَیْنَکَ وَبَیْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ، أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهٗ لَیْسَ بَعْدِيْ نَبِيٌّ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 11: 75، الرقم: 11092، وأیضًا في المعجم الأوسط، 8: 40، الرقم: 7894، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 9: 111
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے مہاجر و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کے درمیان بھائی چارہ قائم نہ کیا۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ پریشانی کے عالم میں باہر نکلے اور ایک چھوٹی نہر کے کنارے اپنے بازو کا تکیہ بنا کر لیٹ گئے۔ ایسے میں ہوا نے آپ پر گرد و غبار ڈال دیا، حضور نبی اکرم ﷺ نے آپ ﷺ کو تلاش فرمایا یہاں تک کہ انہیں پالیا۔ آپ نے ان کو اپنے پاؤں مبارک سے ہلا کر فرمایا: کھڑے ہوجاؤ، تو ابو تراب ہونے کے ہی لائق ہے، کیا تو مجھ سے ناراض ہوگیا جس وقت میں نے مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا، اور تیرے اور کسی اور کے درمیان بھائی چارہ قائم نہیں کیا۔ کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مقام و مرتبہ میرے لیے وہی ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لِأُمِّ سَلَمَۃَ: هٰذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ لَحْمُهٗ لَحْمِي وَدَمُهٗ دَمِي فَهُوَ مِنِّي بِمَنْزِلَۃِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
ذَکَرَهُ الْهَیْثَمِيُّ.
ذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 9: 111
ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا: یہ علی بن ابی طالب ہے، اس کا گوشت میرا گوشت، اور اس کا خون میرا خون ہے، اور یہ میرے ساتھ ایسے ہی ہے جیسا کہ ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
اسے امام ہیثمی نے بیان کیا ہے۔
14. عَنْ إِبْرَاهِیْمَ بْنِ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ فِي حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ: کَانَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ إِذَا وَصَفَ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ … بَیْنَ کَتِفَیْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّۃِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ.
أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب المناقب، 5: 599، الرقم: 3638، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 328، الرقم: 31804، وابن عبد البر في التمہید، 3: 30، الرقم: 1353
حضرت ابراہیم بن محمد جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں، فرماتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے… آپ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی اور آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔
اِسے امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ طَوِیْلَۃٍ عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی اللہ عنہ، قَالَ: خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ … فَخَرَجَ إِلَیْھِمُ الرَّاھِبُ فَقَالَ: … وَإِنِّي أَعْرِفُهٗ بِخَاتَمِ النُّبُوَّۃِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهٖ مِثْلَ التُّفَاحَۃِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في نبوۃ النبي ﷺ، 5: 590، الرقم: 3620، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 317، الرقم: 31733، 36541، وابن حبان في الثقات، 1: 42، والأصبہاني في دلائل النبوۃ، 1: 45، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 1: 519
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان فرماتے ہیں: … حضرت ابو طالب رؤسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم ﷺ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ راہب ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: … میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔
اِسے امام ترمذی، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ وَھْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ: وَلَمْ یَبْعَثِ اللهُ نَبِیًّا إِلَّا وَقَدْ کَانَتْ عَلَیْهِ شَامَۃُ النُّبُوَّۃِ فِيْ یَدِهِ الْیُمْنٰی إِلَّا أَنْ یَکُوْنَ نَبِیُّنَا مُحَمَّدٌ ﷺ فَإِنَّ شَامَۃَ النُّبُوَّۃِ کَانَتْ بَیْنَ کَتِفَیْهِ وَقَدْ سُئِلَ نَبِیُّنَا ﷺ عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ: هٰذِهِ الشَّامَۃُ الَّتِيْ بَیْنَ کَتِفِيْ شَامَۃُ الْأَنْبِیَاءِ قَبْلِي، لِأَنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 2: 631، الرقم: 4105
ایک روایت میں حضرت وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں: اور الله تعالیٰ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ ان کے دائیں ہاتھ پر مہر نبوت ہوتی تھی مگر ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کے کہ آپ کی مہرِ نبوت آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان تھی۔ ہمارے نبی مکرم ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ میرے کندھوں کے درمیان وہ مہر نبوت ہے جو مجھ سے پہلے انبیاء کرام ( علیہم السلام ) کے جسم پر ہوتی تھی، اور (یہ اس لیے ہے کہ) میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں۔
اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
15. عَنْ إِسْمَاعِیْلَ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ أَبِي أَوْفٰی رضی اللہ عنہ : رَأَیْتَ إِبْرَاهِیْمَ ابْنَ النَّبِيِّ ﷺ ؟ قَالَ: مَاتَ صَغِیْرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ ﷺ نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهٗ، وَلٰـکِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهٗ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَہ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب من سمي بأسماء الأنبیائ، 5: 2289، الرقم: 5841، وابن ماجہ في السنن، کتاب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في الصلاۃ علی ابن رسول الله ﷺ وذکر وفاتہ، 1: 484، الرقم: 1510، والطبراني في المعجم الأوسط، 6: 368، الرقم: 6638، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 3: 135
امام اسماعیل کا بیان ہے: میں نے حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: کیا آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا: وہ چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئے تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے تو آپ ﷺ کے صاحبزادے زندہ رہتے۔ لیکن آپ ﷺ کے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں (لهٰذا اُن کی بچپن میں ہی وفات ہو گئی)۔
اِسے امام بخاری اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
16. عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَوْ کَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4: 154، الرقم: 17441، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، 5: 619، الرقم: 3686، والحاکم في المستدرک، 3: 92، الرقم: 4495، والطبراني في المعجم الکبیر، 17: 298، الرقم: 822، والرویاني في المسند، 1: 174، الرقم: 223، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 9: 68 (عن أبي سعیدٍ الخدري رضی اللہ عنہ)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا (لیکن جان لو میں آخری نبی ہوں)۔
اسے امام اَحمد، ترمذی نے مذکورہ الفاظ میں اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ امام حاکم نے بھی فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَوْ کَانَ اللهُ بَاعِثًا رَسُوْلًا بَعْدِي لَبَعَثَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ کَمَا قَالَ الْهَیْثَمِيُّ.
ذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 9: 68
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ میرے بعد کسی کو نبی بنا کر بھیجنے والا ہوتا تو یقینا عمر بن خطاب کو نبی بنا کر بھیجتا۔
امام ہیثمی نے بیان کیا اور فرمایا: اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
17. عَنِ الْعِرْباَضِ بْنِ سَارِیَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنِّي عَبْدُ اللهِ وَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4: 128، الرقم: 17151
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں الله تعالیٰ کا بندہ اور نبیوں (کے سلسلہ) کو ختم کرنے والا ہوں۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنِّي عَبْدُ اللهِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَإِنَّ آدَمَ علیہ السلام لَمُنْجَدِلٌ فِي طِیْنَتِهٖ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4: 127، 128، وابن حبان في الصحیح، 14: 313، الرقم: 6404، والطبراني في المعجم الکبیر، 18: 252-253، الرقم: 629-630، والحاکم في المستدرک، 2: 656، الرقم: 4175، والبیہقي في شعب الإیمان، 2: 134، الرقم: 1385، وابن أبي عاصم في کتاب السنۃ، 1: 179، الرقم: 409، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6: 68، الرقم: 1736
ایک روایت میں حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں اللهکا بندہ اس وقت خاتم النبیین لکھا جا چکا تھا جب کہ آدم علیہ السلام ابھی خمیر سے پہلے اپنی مٹی میں تھے۔
اِسے امام احمد، ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنِّي عِنْدَ اللهِ مَکْتُوْبٌ بِخَاتِمِ النَّبِیِّیْنَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِیْنَتِهٖ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالدَّیْلَمِيُّ.
أخرجہ ابن حبان في الصحیح، 14: 313، الرقم: 6404، والدیلمي في مسند الفردوس، 1: 76، الرقم: 230، وذکرہ الہیثمي في موارد الظمآن، 1: 512، الرقم: 2093
ایک روایت میں حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میں الله تعالیٰ کے ہاں خاتم النبیین لکھا جا چکا تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کا پیکر خاکی ابھی تیار کیا جا رہا تھا۔
اِسے امام ابن حبان اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
18. عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: نَزَلَ آدَمُ بِالْھِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِیْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ: اللهُ أَکْبَرُ، اللهُ أَکْبَرُ، أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مَرَّتَیْنِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ مَرَّتَیْنِ، قَالَ آدَمُ: مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ وَالدَّیْلَمِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
أخرجہ أبو نعیم في حلیۃ الأولیائ، 5: 107، والدیلمي في مسند الفردوس، 4: 271، الرقم: 6798، وابن عساکر في تاریخ دمشق الکبیر، 7: 437
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) آپ نے وحشت محسوس کی تو (ان کی وحشت دور کرنے کے لیے) جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی: اللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دو مرتبہ کہا، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ دو مرتبہ کہا تو حضرت آدم علیہ السلام نے دریافت کیا: محمد (ﷺ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا: آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ﷺ۔
اِسے امام ابو نعیم، دیلمی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
19. عَنْ قَتَادَۃَ کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا قَرَأَ {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ…(الأحزب، 33: 7)} یَقُوْلُ بُدِیَٔ بِي فِي الْخَیْرِ وَکُنْتُ آخِرَھُمْ فِي الْبَعْثِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ.
أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 322، الرقم: 31762، وأیضًا في 7: 80، الرقم: 34342، وذکرہ السیوطي في الدر المنثور، 6: 570
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب یہ آیت - {اور اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور خصوصاً آپ سے اور نوح سے …} - پڑھتے تو فرماتے کہ نبوت کی مجھ سے ابتداء کی گئی اور بعثت میں، میں تمام انبیاء کے آخر پر ہوں۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللهِ تعالیٰ : {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ (الأحزب، 33: 7)} قَالَ: کُنْتُ أَوَّلَ النَّبِیِّیْنَ فِي الْخَلْقِ وَآخِرَهُمْ فِي الْبَعْثِ.
رَوَاهُ الدَّیْلَمِيُّ وَالطَّبَرِيُّ.
أخرجہ الدیلمي في مسند الفردوس، 4: 411، والطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 21: 125، وذکرہ ابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3: 470، والسیوطي في الدر المنثور، 6: 57
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے اللہ تعالی کے اس فرمان - {(اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے ان (کی تبلیغِ رسالت کا عہد لیا خصوصًا آپ سے اور نوح سے…} - کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میں خلقت کے لحاظ سے سب سے پہلا اور بعثت کے لحاظ سے سب سے آخری نبی ہوں۔
اِسے امام دیلمی اور طبری نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ قَتَادَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ ﷺ: کُنْتُ أَوَّلَ النَّاسِ فِي الْخَلْقِ وَآخِرَهُمْ فِي الْبَعْثِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ الطبرانی في مسند الشامیین، 4: 34، الرقم: 2662، وابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 1: 149، وذکرہ الہندي فيکنز العمال، 11: 612، الرقم: 32126
ایک روایت میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں لوگوں میں تخلیق کے اعتبار سے سب سے اول اوربعثت کے اعتبار سے سب سے آخر پر ہوں۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیاہے۔
20. عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِنْ ثَـلَاثِیْنَ کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّهٗ رَسُوْلُ اللهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام، 3: 1320، الرقم: 3413، وأیضًا في کتاب الفتن، باب خروج النار، 6: 2605، الرقم: 6704، ومسلم في الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعہ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی أن یکون المیت من البلائ، 4: 2239، الرقم: 157، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 236، الرقم: 7227، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، 4: 498، الرقم: 2218، وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب في خبر ابن صائد، 4: 121، الرقم: 4333، وأبو یعلی في المسند، 11: 394، الرقم: 6511، وابن حبان في الصحیح، 15: 27، 28، الرقم: 6651
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک وقوع پذیر نہیں ہو گی جب تک تیس کے قریب دجال کذاب نہ پیدا ہو جائیں، ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَکُوْنُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ یَأْتُوْنَکُمْ مِنَ الْأَحَادِیْثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوْا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُکُمْ، فَإِیَّاکُمْ وَإِیَّاھُمْ، لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
أخرجہ مسلم في الصحیح، المقدمۃ، باب النھي عن الروایۃ عن الضعفائ، 1: 12، الرقم: 7
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: آخری زمانہ میں دجال، کذاب پیدا ہوں گے جو تمہیں اس قسم کی باتیں بیان کریں گے جو نہ تم نے پہلے کبھی سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آبا واجداد نے ہی سنی ہوں گی، لهٰذا میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ اُن سے ہوشیار رہنا! مبادا وہ تمہیں گمراہ کر دیں یا فتنے میں مبتلا کر دیں۔
اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ حُذَیْفَۃَ رضی اللہ عنہ، أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ قَالَ: فِي أُمَّتِيکَذَّابُوْنَ وَدَجَّالُوْنَ سَبْعَۃٌ وَعِشْرُوْنَ، مِنْھُمْ أَرْبَعُ نِسْوَۃٍ وَإِنِّيْ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ وَالدَّیْلَمِيُّ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5: 396، الرقم: 23406
ایک روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری اُمت میں ستائیس جھوٹے اور دجال پیدا ہوں گے، ان میں سے چار عورتیں ہوں گی سن لو !میں نبیوں (کے سلسلہ) کو ختم کرنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
وَعَنْ ثَوْبَانَ في روایۃ طویلۃ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: وَإِنَّهٗ سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي کَذَّابُوْنَ ثَـلَاثُوْنَ کُلُّهُمْ یَزْعُمُ أَنَّهٗ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَابْنُ مَاجَہ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ.
أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلھا، 4: 97، الرقم: 4252، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذّابون، 4: 499، الرقم: 2219، وابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، باب ما یکون من الفتن، 2: 1304، الرقم: 3952
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی طویل روایت میں ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری اُمت میں تیس جھوٹے (مدعی) پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ (سن لو!) میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اِسے امام ابو داود، ترمذی نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي بَکْرَۃَ قَالَ: أَکْثَرُ النَّاسِ فِي شَأْنِ مُسَیْلِمَۃَ الکَذَّابِ قَبْلَ أَنْ یَقُوْلَ فِیْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، ثُمَّ قَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَأَثْنَی عَلَی اللهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهٗ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَقَدْ أَکْثَرْتُمْ فِي شَأْنِ هٰذَا الرَّجُلِ، وَأَنَّهٗ کَذَّابٌ مِّنْ ثَـلَاثِیْنَ کَذَّابًا یَخْرُجُوْنَ قَبْلَ الدَّجَّالِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّحَاوِيُّ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 4: 583-584، الرقم: 8624، 8625، والطحاوی في مشکل الآثار، 4: 104
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تک حضور نبی اکرم ﷺ نے مسیلمہ کذّاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار نہیں فرمایا تھا، لوگوں نے اس کے بارے میں بہت کچھ کہا، پھر ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں کے درمیان خطاب کے لیے تشریف فرما ہوئے اور الله گ کی شان کے لائق اس کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: یہ شخص جس کے متعلق تم بہت زیادہ گفتگو کر رہے ہو، بے شک یہ دجال اکبر سے پہلے نکلنے والے تیس کذّابوں میں سے ایک ہے۔
اسے امام حاکم اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَیْرِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَخْرُجَ ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابًا دَجَّالًا مِّنْهُمْ مُسَیْلَمَۃُ وَالْعَنْسِيُّ وَالْمُخْتَارُ وَشَرُّ قَبَائِلِ الْعَرَبِ بَنُوْ أُمَیَّۃَ وَبَنُوْ حَنِیْفَۃَ وَثَقِیْفٌ.
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی.
أخرجہ أبو یعلی في المسند، 12: 197، الرقم: 6820
ایک روایت میں حضرت عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تیس کذاب دجال نہ نکل آئیں، انہی میں سے مسیلمہ، عنسی، مختار، عرب کے شرپسند قبائل، بنو اُمیہ، بنو حنیفہ اور ثقیف ہیں۔
اِسے امام ابو یعلی نے روایت کیاہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: سَیَخْرُجُ فِي أُمَّتِي کَذَّابُوْنَ ثَـلَاثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 4: 496، الرقم: 8390، وابن حبان في الصحیح، 15: 110، الرقم: 6714
ایک روایت میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری اُمت میں تیس جھوٹے (مدعی) پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ (سن لو!) میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اِسے امام حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّهٗ نَبِيٌّ وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجہ ابن حبان في الصحیح، 16: 221، الرقم: 7238، والبیہقي في السنن الکبری، 9: 181، الرقم: 18398
ایک اور روایت میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: میری اُمت میں تیس جھوٹے (مدعی) پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ (سن لو!) میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اِسے امام ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرِ اللَّیْثِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَخْرُجَ ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابًا کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّهٗ نَبِيٌّ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ.
أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 7: 503، الرقم: 37565
ایک روایت میں حضرت عبید بن عمیر اللیثي رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ قیامت سے پہلے تیس جھوٹے پیدا نہ ہو جائیں، ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي قَلاَبَۃَ یَرْفَعُهٗ، قَالَ: إِنَّهٗ سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي کَذَّابُوْنَ ثَـلَاثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّهٗ نَبِيُّ وَأَنَا خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ الدَّانِي.
أخرجہ الداني في السنن الواردۃ فی الفتن، 4: 861، الرقم: 442
ایک روایت میں حضرت ابو قلابہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عنقریب میری اُمت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ سن لو! میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اِسے امام دانی نے روایت کیاہے۔
21. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ علیہ السلام الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَهٗ، رَفَعَ رَأْسَهٗ إِلَی الْعَرْشِ فَقَالَ: أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ ﷺ إِلَّا غَفَرْتَ لِي، فَأَوْحَی اللهُ إِلَیْهِ: وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: تَبَارَکَ اسْمُکَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي، رَفَعْتُ رَأْسِي إِلٰی عَرْشِکَ، فَرَأَیْتُ فِیْهِ مَکْتُوْبًا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهٗ لَیْسَ أَحَدٌ أَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهٗ مَعَ اسْمِکَ، فَأَوْحَی اللهُ تعالیٰ إِلَیْهِ: یَا آدَمُ، إِنَّهٗ آخِرُ النَّبِیِّیْنَ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ، وَإِنَّ أُمَّتَهٗ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ، وَلَوْلَاهُ، یَا آدَمُ، مَا خَلَقْتُکَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الصغیر، 2: 182، الرقم: 992، وأیضًا في المعجم الأوسط، 6: 313، الرقم: 6502، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 8: 253، والسیوطي في جامع الأحادیث، 11: 94
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جب آدم علیہ السلام سے (غیر اِرادی) لغزش سرزد ہوئی تو اُنہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض کیا: (یا الله!) میں (تجھ سے، تیرے محبوب) محمد (مصطفی ﷺ ) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: (اے آدم!) محمد کون ہیں؟ حضرت آدم نے عرض کیا: (اے مولا!) تیرا نام بابرکت ہے، جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا؛ وہاں میں نے {لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ} لکھا ہوا دیکھا، لهٰذا میں جان گیا کہ تیرے ہاں اِس ہستی سے بڑھ کر کوئی قدر و منزلت والا نہیں، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہوا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: اے آدم! وہ (محمد ﷺ ) تمہاری نسل میں سے آخری نبی ہیں، اور ان کی اُمت بھی تمہاری نسل کی آخری اُمت ہو گی، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
ذَکَرَ الْعَـلَّامَۃُ ابْنُ تَیْمِیَّۃَ: عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَلَمَّا أَصَابَ آدَمَ الْخَطِیْئَۃُ، رَفَعَ رَأْسَهٗ فَقَالَ: یَا رَبِّ، بِحَقِّ مُحَمَّدٍ إِلَّا غَفَرْتَ لِي، فَأَوْحٰی إِلَیْهِ: وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: یَا رَبِّ، إِنَّکَ لَمَّا أَتْمَمْتَ خَلْقِي، رَفَعْتُ رَأْسِي إِلٰی عَرْشِکَ، فَإِذَا عَلَیْهِ مَکْتُوْبٌ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهٗ أَکْرَمُ خَلْقِکَ عَلَیْکَ، إِذْ قَرَنْتَ اسْمَهٗ مَعَ اسْمِکَ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ غَفَرْتُ لَکَ، وَھُوَ آخِرُ الأَنْبِیَاءِ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ، وَلَوْلَاهُ مَا خَلَقْتُکَ.
ذکرہ ابن تیمیۃ في مجموع الفتاوی، 2: 151
علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہو گئی، تو انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور عرض کیا: اے میرے ربّ! میں آپ سے محمد (ﷺ) کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میری خطاء معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی طرف وحی کی (اور استفسار فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو): محمد (ﷺ) کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ اور محمد (ﷺ) کون ہستی ہیں؟ آدم علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! جب تو نے میری تخلیق مکمل فرمائی تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تو اس پر لکھا ہوا دیکھا: {لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ} تو میں جان گیا کہ یقینا وہ تیرے نزدیک تیری تمام مخلوق میں سب سے بڑھ کر مقام و مرتبہ والے ہیں۔ تبھی تو، تو نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں (ایسا ہی ہے) اور (ان کا وسیلہ اختیار کرنے کی بنا پر) میں نے تیری مغفرت فرما دی اور وہ تیری نسل سے آخری نبی ہوں گے، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔
22. عَنْ مَیْسَرَۃَ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتٰی کُنْتَ نَبِیًّا؟ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْأَرْضَ وَاسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَخَلَقَ الْعَرْشَ کَتَبَ عَلٰی سَاقِ الْعَرْشِ: مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ وَخَلَقَ اللهُ الْجَنَّۃَ الَّتِي أَسْکَنَهَا آدَمَ وَحَوَّاءَ، وَکَتَبَ اسْمِي أَيْ مَوْصُوْفًا بِالنُّبُوَّۃِ أَوْ بِمَا هُوَ أَخَصُّ مِنْهَا وَهُوَ الرِّسَالَۃُ عَلٰی مَا هُوَ الْمَشْهُوْرُ عَلَی الْأَبْوَابِ وَالْأَوْرَاقِ وَالْقِبَابِ وَالْخِیَامِ، وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ أَي قَبْلَ أَنْ تَدْخُلَ الرُّوْحُ جَسَدَهٗ، فَلَمَّا أَحْیَاهُ اللهُ نَظَرَ إِلَی الْعَرْشِ فَرَأَی اسْمِي، فَأَخْبَرَهُ اللهُ تَعَالٰی: أَنَّهٗ سَیِّدُ وَلَدِکَ فَلَمَّا غَرَّهُمَا الشَّیْطَانُ تَابَا وَاسْتَشْفَعَا بِاسْمِي إِلَیْهِ، أَي فَقَدْ وُصِفَ ﷺ بِالنُّبُوَّۃِ قَبْلَ وُجُوْدِ آدَمَ.
ذَکَرَهُ الْحَلَبِيُّ.
الحلبي فيالسیرۃ الحلیۃ، 1: 355
حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسول الله! آپ کب نبی بنے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ نے زمین کو تخلیق فرمایا پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور سات آسمانوں کو خوبصورتی سے تخلیق فرمایا، پھر عرش تخلیق فرمایا اور عرش کے پائے پر ’’محمد رسول الله خاتم الأنبیائ‘‘ لکھا۔ پھر الله تعالیٰ نے جنت کو تخلیق فرمایا جس میں حضرت آدم اور حضرت حواء dکو ٹھہرایا۔ میرا نام جنت کے دروازوں، پتوں اور گنبدوں پر لکھا۔ وصفِ نبوت کے ساتھ متصف لکھا یا اس سے زیادہ خاص یعنی رسالت کے ساتھ لکھا۔ مصنف نے لکھا: جس طرح کہ مشہور ہے اور حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے یعنی روح کے جسم میں داخل ہونے سے پہلے۔ پھر جب الله تعالیٰ نے ان کو حیات بخشی تو اُنہوں نے عرش کی طرف دیکھا تو میرا نام لکھا پایا؛ الله تعالیٰ نے ان کو خبر دی: یہ تیری اولاد کے سردار ہیں۔ پھر جب حضرت آدم و حواء dکو شیطان نے بہکایا تو انہوں نے توبہ کی اور میرے نام سے الله تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت طلب کی۔ پس حضرت آدم علیہ السلام کے وجود میں آنے سے قبل حضورنبی اکرم ﷺ کو نبوت کے ساتھ متصف کیا گیا۔
اِسے امام حلبی نے بیان کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَمَّا خَلَقَ اللهُ تعالیٰ اٰدَمَ علیہ السلام أَخْبَرَهٗ بَِنَبِیِّهٖ فَجَعَلَ یَرَی فَضَائِلَ بَعْضِهِمْ عَلٰی بَعْضٍ فَرَاٰی نُوْرًا سَاطِعًا فِي أَسْفَلِهِمْ، قَالَ: یَا رَبِّ، مَنْ هٰذَا؟ قَالَ: هٰذَا ابْنُکَ أَحْمَدُ هُوَ الْأَوَّلُ وَهُوَ الْآخِرُ وَهُوَ أَوَّلُ مُشَفَّعٍ وَفِي رَوَایَۃٍ أَوَّلُ شَافِعٍ.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَذَکَرَهُ الْهِنْدِيُّ.
أخرجہ ابن عساکر في مختصر تاریخ دمشق، 1: 162، وذکرہ الہندی في کنز العمال، 11: 588، الرقم: 32056
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو انہیں اپنے حبیب مکرم ﷺ کی خبر دی پھر وہ انبیاء علیہم السلام کی بعض پر بعض کی فضیلتوں کا مشاہدہ کرتے رہے پھر انہوں نے اپنے نیچے ایک نور پھیلا ہوا دیکھا توعرض کیا: مولا! یہ کون ہے؟ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: یہ آپ کا بیٹا احمد ہے یہ اول بھی ہے اور آخر بھی اور سب سے پہلے اس کی شفاعت قبول کی جائے گی اور ایک روایت میں ہے سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہے۔
اسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور ہندی نے بھی بیان کیا ہے۔
23. عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: بَیْنَ کَتِفَي آدَمَ مَکْتُوْبٌ: مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.
ذَکَرَهُ الْحَلَبِيُّ وَالسُّیُوْطِيُّ.
الحلبي في السیرۃ الحلبیۃ، 1: 360، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1: 14
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام کے شانوں کے درمیان لکھا ہوا تھا: مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ۔
اِسے امام حلبی او رسیوطی نے بیان کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ مِنْ حَدِیْثٍ طَوِیلٍ عَنْ وَھْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ:… وَتَعْمَرُهٗ یَا آدَمُ، مَا کُنْتَ حَیًّا تَعْمَرُهٗ مِنْ بَعْدِکَ الْأُمَمُ وَالْقُرُوْنُ وَالْأَنْبِیَاءُ مِنْ وَلَدِکَ أُمَّۃً بَعْدَ أُمَّۃٍ، وَقَرْنًا بَعْدَ قَرْنٍ، وَنَبِیًّا بَعْدَ نَبِيٍّ، حَتّٰی یَنْتَهِيَ ذٰلِکَ إِلٰی نَبِيٍّ مِنْ وَلَدِکَ یُقَالُ لَهٗ مُحَمَّدٌ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 7: 264، الرقم: 7455، والبیہقي في شعب الإیمان، 3: 433، الرقم: 3985، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 3: 288
(حضرت وہب بن منبہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما سے مروی ایک طویل حدیث قدسی میں ہے:)… اے آدم! جب تک آپ زندہ رہیں گے میرے اس گھر ( خانہ کعبہ) کو آباد کریں گے اور آپ کے بعد آپ کی اولاد میں سے مختلف گروہ، طبقات اور انبیاء ایک گروہ کے بعد دوسرا گروہ اور ایک طبقے کے بعد دوسرا طبقہ اور ایک نبی کے بعد دوسرا نبی اسے آباد کریں گے۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ آپ کی اولاد میں سے حضرت محمد ﷺ تک پہنچے گا اور (ان کی شان یہ ہے کہ ) وہ تمام نبیوں کے خاتم ہیں۔
اِسے امام طبرانی اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
24. عَنْ تَمِیْمٍ الدَّارِيِّ رضی اللہ عنہ فِي حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ فِي سُؤَالِ الْقَبْرِ فَیَقُوْلُ (أَيْ الْمَیِّتُ): الْإِسْلَامُ دِیْنِي وَمُحَمّدٌ نَبِیِّي وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَهُ: صَدَقْتَ.
ذَکَرَهُ السُّیُوطِيُّ فِي الدُّرِّ الْمَنْثُوْرِ.
السیوطی في الدر المنثور، 8: 34
تمیم داری، قبر میں سوال کے حوالے سے ایک طویل حدیث بیان کرتے ہیں: پس میت کہے گی: اسلام میرا دین ہے اور محمد ﷺ ہمارے نبی ہیں اور آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ فرشتے اسے کہتے ہیں: تو نے درست کہا۔
اِسے امام سیوطی نے ’الدر المنثور‘ میں بیان کیا ہے۔
25. عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَإِنِّي آخِرُ الْأَنْبِیَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الحج، باب فضل الصّلاۃ بمسجدي مکۃ و المدینۃ، 2: 1012، الرقم: 1394، والنسائي في السنن، کتاب المساجد، 2: 35، الرقم: 694، وأیضًا في السنن الکبری، کتاب المساجد، فضل مسجد النبي ﷺ والصّلاۃ فیۃ 1: 257، الرقم: 773، وابن حبان في الصحیح، 4: 500، الرقم: 1621
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک میں نبیوں میں سب سے آخری نبی ہوں اور میری مسجد (انبیاء کی مساجد میں) سب سے آخری مسجد ہے۔
اِسے امام مسلم، نسائی، ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَا خَاتِمُ الْأَنْبِیَاءِ وَمَسْجِدِي خَاتِمُ مَسَاجِدِ الأَنْبِیَاءِ.
رَوَاهُ الدَّیْلَمِيُّ.
أخرجہ الدیلمي في مسند الفردوس، 1: 45، الرقم: 112، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 2: 139، الرقم: 1831
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد انبیاء کرام کی مساجد کی خاتم ہے۔
اِسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهَا رضی اللہ عنہا قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَا خَاتِمُ الأَنْبِیَاءِ وَمَسْجِدِي خَاتِمُ مَسَاجِدِ الأَنْبِیَاءِ۔ أَحَقُّ الْمَسَاجِدِ أَنْ یُزَارَ وَتُشَدَّ إِلَیْهِ الرَّوَاحِلُ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدِي صَـلَاۃٌ فِي مَسْجِدِي أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ إِلَّا الْمَسْجِدِ الْحَرَامَ.
ذَکَرَهُ الْهَیْثَمِيُّ.
الہیثمي في مجمع الزوائد، 4: 4
ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد انبیاء کی مساجد کی خاتم ہے۔ اور مساجد میں سے سب سے زیادہ زیارت کیے جانے کی حقدار اور اس چیز کی حقدار کہ ان کی طرف رخت سفر باندھا جائے۔ دو مساجد ہیں مسجد حرام اور میری مسجد(مسجد نبوی)۔ میری مسجد میں نماز دوسری مساجد میں پڑھی جانے والی ہزار نماز سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے۔
اسے امام ہیثمی نے بیان کیا ہے۔
26. عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ الْبَاھَلِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَنَا آخِرُ الْأَنْبِیَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالرُّویَانِيُّ.
أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الفتن، 2: 1359، الرقم: 4077، والحاکم في المستدرک، 4: 580، الرقم: 8620، والطبراني في المعجم الکبیر، 8: 146، الرقم: 7644، وأیضاً في مسند الشامیین، 2: 28، الرقم: 861، والرویاني في المسند، 2: 295، الرقم: 1239، وابن أبي عاصم، السنۃ، 1: 171، الرقم: 391
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمام انبیاء میں سے آخر میں ہوں اور تم بھی آخری اُمت ہو۔
اسے امام ابن ماجہ، حاکم، طبرانی اور رویانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: أَیُّھَا النَّاسُ إِنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ وَلَا أُمَّۃَ بَعْدَکُمْ، فَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ، وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ، وَصُوْمُوْا شَهْرَکُمْ، وَأَدُّوْا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ طَیِّبَۃً بِھَا أَنْفُسُکُمْ وَأَطِیْعُوْا وُلَاۃَ أَمْرِکُمْ تَدْخُلُوْا جَنَّۃَ رَبِّکُمْ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 8: 115، الرقم: 7535، وأیضًا في 22: 316، الرقم: 797، وأیضاً في مسند الشامیین، 2: 193، الرقم: 1173، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 5: 252، الرقم: 2779، وابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 24: 60، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 3: 273
ایک روایت میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اُمت ہے۔ لهٰذا اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کرو، پانچ نمازیں پڑھو، رمضان کے روزے رکھو، اور اپنی رضامندی کے ساتھ اپنے اَموال کی زکوٰۃ ادا کرو۔ اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو، (نتیجتاً) تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو گے۔
اِسے امام طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَۃَ بِنْتَ قَیْسٍ تَقُوْلُ: صَعِدَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنٰی عَلَیْهِ ثُمَّ قَالَ: أُنْذِرُکُمُ الدَّجَّالَ فَإِنَّهٗ لَمْ یَکُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهٗ أُمَّتَهٗ وَهُوَ کَائِنٌ فِیْکُمْ أَیَّتُھَا الْأُمَّۃُ إِنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ وَلَا أُمَّۃَ بَعْدَکُمْ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ ابن حبان في الصحیح، 15: 195-196، الرقم: 6788
ایک روایت میں حضرت شعبی بیان کرتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے، پس اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں، پس مجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا مگر یہ کہ اس نے اپنی اُمت کو اس سے ڈرایا، اور اے اُمت محمدیہ! وہ تجھ میں پایا جائے گا۔ بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمت نہیں۔
اسے امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما (قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي حَجَّۃِ الْوَدَاعِ): أَیُّهَا النَّاسُ، أَيُّ یَوْمٍ هٰذَا؟ قَالُوْا: یَوْمٌ حَرَامٌ۔ قَالَ: فَأَيُّ بَلَدٍ هٰذَا؟ قَالُوْا: بَلَدٌ حَرَامٌ۔ قَالَ: فَأَيُّ شَهْرٍ هٰذَا؟ قَالُوْا: شَهْرٌ حَرَامٌ۔ قَالَ: فَإِنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی حَرَّمَ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ کَحُرْمَۃِ هٰذَا الْیَوْمِ وَهٰذَا الشَّهْرِ وَهٰذَا الْبَلَدِ أَلَا لِیُبَلِّغْ شَاهِدُکُمْ غَائِبَکُمْ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا أُمَّۃَ بَعْدَکُمْ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْهِ فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ.
رَوَاهُ الرُّویَانِيُّ وَذَکَرَهُ الْهَیْثَمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ.
أخرجہ الرویاني في المسند، 2: 412، وذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 3: 268
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: اے لوگو! یہ کون سا دن ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: حج کا دن۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یہ بلد حرام (مکہ مکرمہ) ہے۔ پھر حضور ﷺ نے دریافت فرمایا: یہ مہینہ کون سا ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: حرمت والا مہینہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتوں کو اس دن، اس ماہ اور اس شہر کی حرمت کی طرح حرام کیا ہے، آگاہ ہو جاؤ، تم میں سے جو حاضر ہے وہ غائب کو پہنچا دے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ تمہارے بعد کوئی اُمت ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔
اسے امام رویانی اور ہیثمی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ امام ہیثمی کے ہیں۔
27. فَمِنْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ فِي الْإِسْرَاءِ عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ : حَتّٰی أَتَی بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَنَزَلَ فَرَبَطَ فَرَسَهٗ إِلٰی صَخْرَۃٍ فَصَلّٰی مَعَ الْمَلَائِکَۃِ فَلَمَّا قُضِیَتِ الصَّلاۃُ قَالُوْا: یَا جِبْرِیْلُ، مَنْ هٰذَا مَعَکَ؟ قَالَ: هٰذَا مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ (إِلٰی أَنْ قَالَ:) فَقَالَ لَهٗ رَبُّهٗ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: قَدِ اتَّخَذْتُکَ حَبِیْبًا وَمَکْتُوْبٌ فِي التَّوْرَاۃِ مُحَمَّدٌ حَبِیْبُ الرَّحْمٰنِ وَأَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ کَافَّۃً وَجَعَلْتُ أُمَّتَکَ ھُمُ الْأَوَّلُوْنَ وَھُمُ الْآخِرُوْنَ وَجَعَلْتُ أُمَّتَکَ لَا تَجُوْزُ لَھُمْ خُطْبَۃٌ حَتّٰی یَشْھَدُوْا إِنَّکَ عَبْدِي وَرَسُوْلِي وَجَعَلْتُکَ أَوَّلَ النَّبِیِّیْنَ خَلْقًا وَآخِرَھُمْ بَعْثًا وَأَعْطَیْتُکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَلَمْ أُعْطِھَا نَبِیًّا قَبْلَکَ وَأَعْطَیْتُکَ خَوَاتِیْمَ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ مِنْ کَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ أُعْطِھَا قَبْلَکَ وَجَعَلْتُکَ فَاتِحًا وَخَاتِمًا.
ذَکَرَهُ الْهَیْثَمِيُّ.
الہیثمي في مجمع الزوائد، 1: 68۔72
اِسراء کے باب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں سے ہے… یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ بیت المقدس تشریف لائے۔ آپ ﷺ نیچے اُترے اور اپنے گھوڑے کو ایک چٹان کے ساتھ باندھ دیا، پھر ملائکہ کے ساتھ نماز ادا فرمائی، جب نماز ادا کر لی گئی تو ملائکہ نے سوال کیا، اے جبریل! آپ کے ساتھ یہ کون ہیں؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے جواب دیا: یہ الله کے رسول، نبیوں کے خاتم حضرت محمد ﷺ ہیں۔ (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:) اللہ تعالیٰ کی جانب سے اُنہیں ارشاد ہوا ہے کہ میں تمہیں اپنا محبو ب بناؤں۔ اور توریت میں بھی لکھا ہوا ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے محبوب ہیں۔ ہم نے تمہیں تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا ہے اور آپ کی اُمت کو اولین و آخرین بنایا، اور میں نے آپ کی اُمت کو اس طرح رکھا کہ ان کے لیے کوئی خطبہ جائز نہیں جب تک کہ وہ خالص دل سے گواہی نہ دیں کہ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں، اور میں نے آپ کو باعتبار اصلِ خلقت کے سب سے اول اور باعتبار بعثت کے سب سے آخر بنایا ہے۔ آپ کو سبع مثانی (سورہ فاتحہ ) دی ہے جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی، اور آپ کو سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں دی ہیں اس خزانہ سے جو عرش سے نیچے ہے اور آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیں، اور آپ کو فاتح اور خاتم بنایا ہے۔
اسے امام ہیثمی نے بیان کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ فِي حَدِیْثِ الْإِسْرَاءِ بَیْنَمَا هُوَ یَسِیْرُ إِذْ لَقِیَهُ خَلْقُ اللهِ فَسَلَّمُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا: السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَوَّلُ، السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا آخِرُ، السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَاشِرُ، وَفِي آخِرِهٖ قَالَ جِبْرِیْلُ: وَأَمَّا الَّذِیْنَ سَلَّمُوْا عَلَیْکَ فَذَاکَ إِبْرَاهِیْمُ علیہ السلام وَمُوْسَی علیہ السلام وَعِیْسٰی علیہ السلام.
رَوَاهُ الْمَقْدِسِيُّ وَالطَّبَرِيُّ.
أخرجہ المقدسي في الأحادیث المختارۃ، 6: 259، الرقم: 2277، والطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 15: 6، وذکرہ ابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3: 5
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (شبِ معراج) جب حضور ﷺ آسمانوں کی سیر فرما رہے تھے کہ آپ ﷺ سے ایک جماعت نے ملاقات کی۔ انہوں نے آپ ﷺ کو سلام کیا اور کہا: اے اول! آپ پر سلامتی ہو، اے آخر! آپ پر سلامتی ہو، اے حاشر ! آپ پر سلامتی ہو۔ اور اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے حضور نبی اکرم ﷺ کو بتایا کہ جن لوگوں نے آپ کو سلام کیا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے۔
اِسے امام مقدسی اور اور طبری نے روایت کیا ہے۔
28. عَنْ أَبِي ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْأَنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَهٗ نَبِيٌّ، وَإِنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي۔ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ … الحدیث.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب أحادیث الأنبیائ، باب ما ذکر عن بني إسرائیل، 3: 1273، الرقم: 3268، ومسلم في الصحیح، کتاب الإمارۃ، باب وجوب الوفاء ببیعۃ الخلفاء الأول فالأول، 3: 1471، الرقم: 1842، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 297، الرقم: 7947، وابن ماجہ في السنن، کتاب الجہاد، باب الوفاء بالبیعۃ، 2: 958، الرقم: 2871، وابن حبان في الصحیح، 10: 418، الرقم: 4555، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7: 464، الرقم: 37260، وأبو یعلی في المسند، 11: 75، الرقم: 6211
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل پر حکمران انبیاء کرام ہوا کرتے تھے۔ ایک نبی کا وصال ہوتا تو اس کے بعد دوسرا نبی تشریف لے آتا لیکن (یاد رکھو) میرے بعد ہرگز کوئی نبی نہیں ہے۔ (چونکہ میں آخری نبی ہوں لهٰذا میرے بعد) اب (میرے) خلفاء ہوں گے جو بکثرت ہوں گے…الحدیث۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: کَانَتْ بَنُو إِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِیَاءُ کُلَّمَا هَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَهٗ نَبِيٌّ، وَإِنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَتَکُوْنُ خُلَفَاءُ تَکْثُرُ قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: أَوْفُوْا بِبَیْعَۃِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ وَأَعْطُوْهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللهَ سَائِلَهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب ما ذکر عن إسرائیل، 3: 1273، الرقم: 3268، ومسلم في الصحیح، کتاب الإمارۃ، باب وجوب الوفاء ببیعۃ الخلفائ، 3: 1471، الرقم: 1842.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پہلے بنی اسرائیل کے انبیاء لوگوںپر حکمران ہوا کرتے تھے۔ ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ہوتا۔ لیکن یاد رکھو میرے بعد ہرگز کوئی نبی نہیں ہے، ہاں عنقریب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔ لوگ عرض گزار ہوئے، آپ ہمیں ان کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ فرمایا: یکے بعد دیگرے ہر ایک سے بیعت کرتے رہنا اور ان کی اطاعت کا حق ادا کرتے رہنا پس اللہ تعالیٰ جو انہیں حکمران بنائے گا وہی حقوق کے بارے میں ان سے بازپرس کرے گا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ بَنِي إِسْرَائِیْلَ کَانَتْ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِیَاءُ کُلَّمَا مَاتَ نَبِيٌّ قَامَ نَبِيٌّ وَأَنَّهٗ لَیْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ عَوَانَۃَ.
أخرجہ ابن حبان في الصحیح، 10: 418، الرقم: 4555، وأیضًا في 14: 142، الرقم: 6249، وأبو عوانۃ في المسند، 4: 409، الرقم: 7128
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: انبیاء کرام بنو اسرائیل پر حکمران ہوا کرتے تھے۔ ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ہوتا لیکن (یاد رکھو) میرے بعد ہرگز کوئی نبی نہیں ہے۔
اِسے امام ابن حبان اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: خَرَجْتُ تَاجِرًا إِلَی الشَّامِ فِي الْجَاهِلِیَّۃِ فَلَمَّا کُنْتُ بِأَدْنَی الشَّامِ لَقِیَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ فَقَالَ: هَلْ عِنْدَکُمْ رَجُلٌ تَنَبَّأَ قُلْتُ: نَعَمْ۔ قَالَ: هَلْ تَعْرِفُ صُوْرَتَهٗ إِذَا رَأَیْتَهَا قُلْتُ: نَعَمْ فَأَدْخَلَنِي بَیْتًا فِیْهِ صُوَرٌ فَلَمْ أَرَ صُوْرَۃَ النَّبِيِّ ﷺ فَبَیْنَا أَنَا کَذٰلِکَ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْهُمْ عَلَیْنَا فَقَالَ: فِیْمَ أَنْتُمْ؟ فَأَخَبَرْنَا فَذَهَبَ بِنَا إِلٰی مَنْزِلِهٖ فَسَاعَۃَ مَا دَخَلْتُ نَظَرْتُ إِلٰی صَوْرَۃِ النَّبِيِّ ﷺ، وَإِذَا رَجُلٌ آخِذٌ بِعَقِبِ النَّبِيِّ ﷺ قُلْتُ: مَنْ هٰذَا عَلٰی عَقِبِهٖ؟ قَالَ: إِنَّهٗ لَمْ یَکُنْ نَبِيٌّ إِلَّا کَانَ بَعْدَهٗ نَبِيٌّ إِلَّا هٰذَا فَإِنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدَهٗ وَهٰذَا الْخَلِیْفَۃُ بَعْدَهٗ وَإِذَا صِفَۃُ أَبِي بَکْرٍ رضی اللہ عنہ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ الطبرانی في المعجم الکبیر، 2: 125، الرقم: 1537
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں، میں تجارت کی غرض سے شام کی طرف گیا۔ جب شام کے انتہائی قریب پہنچا تو اہل کتاب میں سے ایک شخص مجھے ملا اور کہا: کیا تمہارے ہاں کوئی ایسا شخص ہے جو نبوت کا دعویدار ہے، میں نے کہا: ہاں! اس نے کہا: اگر تم ان کی تصویر دیکھو تو انہیں پہچان لوگے؟ میں نے کہا: ہاں! پھر اس نے مجھے ایسے کمرے میں داخل کردیا، جس میں تصویریں تھیں، اسی دوران ان میں سے ایک آدمی اس کمرے میں داخل ہوا اور کہا: تم کس چیز میں مشغول ہو؟ ہم نے اسے بتایا، پس وہ ہمیں اپنے گھر لے گیا۔ جونہی میں اس کے گھر میں داخل ہوا میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی تصویر دیکھی، جس میں ایک آدمی آپ ﷺ کی ایڑھی کو تھامے ہوئے ہے۔ میں نے کہا یہ شخص کون ہے جو آپ ﷺ کی ایڑھی کو تھامے ہوئے ہے؟ اس نے کہا: اس سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا مگر یہ کہ اس کے بعد کوئی اور نبی آجاتا سوائے حضور نبی اکرم ﷺ کے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اور یہ آپ ﷺ کے بعد خلیفہ ہیں اوراس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حلیہ بیان کیا۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
29. عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ فِي حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: فَیَأْتُوْنَ مُحَمَّدًا ﷺ فَیَقُولُونَ: یَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ وَخَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ وَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب التفسیر، باب ذریۃ من حملنا مع نوح إنہ کان عبدا شکورا، 4: 1745-1746، الرقم: 4435، ومسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب أدنی أھل الجنۃ منزلۃ فیھا، 1: 185، الرقم: 194، والترمذي في السنن، کتاب صفۃ القیامۃ والورع، باب ما جاء في الشفاعۃ، 4: 622، الرقم: 2434، والنسائي في السنن الکبری، 6: 378، الرقم: 11286، وأبو عوانۃ في المسند، 1: 148، الرقم: 437، وابن راھویہ في المسند، 1: 228، الرقم: 184.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ حضور نبی اکر م ﷺ نے فرمایا: چنانچہ لوگ محمد(ﷺ)کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوں گے، اے محمد!آپ اللہ کے رسول اور انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے آخری ہیں! اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں۔ لهٰذا اپنے رب کے حضور !ہماری شفاعت فرمائیے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ سَلْمَانَ رضی اللہ عنہ فِي حَدِیْثِ الشَّفَاعَۃِ: فَیَأْتُوْنَ مُحَمَّدًا فَیَقُوْلُوْنَ: یَا نَبِيَّ اللهِ، فَتَحَ اللهُ بِکَ وَخَتَمَ وَغُفِرَ لَکَ مَا تَقَدَّمَ وَمَا تَأَخَّرَ۔(1)
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ۔
أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 308، الرقم: 31675، والطبراني في المعجم الکبیر، 6: 247، الرقم: 6117، وابن أبي عاصم في السنۃ، 2: 384، الرقم: 813۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے حدیثِ شفاعت میں روایت ہے کہ لوگ حضرت محمد ﷺ کی بارگاہ میں آئیں گے اور پھر عرض کریں گے: اے اللهکے نبی! الله تعالیٰ نے آپ کے ذریعے (سلسلۂ نبوت) کھولا اور بند کیا اور آپ کے صدقے تمام اگلوں پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے۔
اِسے امام ابن ابی شیبہ، طبرانی اور ابنِ ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِيْ نَضْرَۃَ قَالَ: خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ عَلٰی مِنْبَرِ الْبَصْرَۃِ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ … فَیَأْتُوْنَ عِیْسَی فَیَقُوْلُوْنَ: یَا عِیْسَی، اشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا فَیَقُوْلُ: إِنِّي لَسْتُ ھُنَاکُمْ إِنِّي اتُّخِذْتُ إِلٰھًا مِنْ دُوْنِِ اللهِ وَإِنَّهٗ لَا یَھُمُّنِِيَ الْیَوْمَ إِلَّا نَفْسِي، وَلٰـکِنْ أَرَأَیْتُمْ لَوْ کَانَ مَتَاعٌ فِي وِعَائٍ مَخْتُومٍ عَلَیْهِ، أَکَانَ یُقْدَرُ عَلٰی مَا فِي جَوْفِهٖ حَتّٰی یُفَضَّ الْخَاتَمُ قَالَ: فَیَقُوْلُوْنَ: لَا قَالَ: فَیَقُوْلُ: إِنَّ مُحَمَّدًا ﷺ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَقَدْ حَضَرَ الْیَوْمَ وَقَدْ غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَیَأْتُوْنِيفَیَقُوْلُوْنَ: یَا مُحَمَّدُ، اشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ فَلْیَقْضِ بَیْنَنَا فَأَقُوْلُ: أَنَا لَھَا حَتّٰی یَأْذَنَ اللهُ تعالیٰ لِمَنْ یَشَاءُ وَیَرْضَی فَإِذَا أَرَادَ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَنْ یَصْدَعَ بَیْنَ خَلْقِهٖ نَادَی مُنَادٍ: أَیْنَ أَحْمَدُ وَأُمَّتُهٗ، فَنَحْنُ الْآخِرُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ نَحْنُ آخِرُ الْأُمَمِ وَأَوَّلُ مَنْ یُحَاسَبُ۔(1)
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلٰی۔
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1: 281، الرقم: 2546، وأبویعلی في المسند، 4: 216، الرقم: 2328، والمروزي في تعظیم قدر الصّلاۃ، 1: 274، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 10: 372۔
ایک روایت میں حضرت ابو نضرہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ کے منبر پر ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: … پس لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے عیسیٰ! اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کر دیجئے کہ ہمارا فیصلہ فرمائے۔ اس پر وہ کہیںگے: میں اس کام کے لیے نہیں ہوں کیونکہ (دنیا میں) الله تعالیٰ کو چھوڑ کر مجھے معبود بنا یا گیا لیکن کیا تم جانتے ہو کہ اگر کسی برتن کو بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو کیا اس برتن کی چیز کو اس وقت تک لے سکتے ہیں جب تک کہ اس کی مہر نہ توڑی جائے۔ لوگ کہیں گے کہ ایسا تو نہیں ہو سکتا۔ پھر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) فرمائیں گے کہ محمد ﷺ جو انبیاء کے خاتمہ پر بمنزلہ مہر کے ہیں، آج تشریف فرما ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے تھے (تم ان کے پاس جائو)۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں: لوگ یہ سن کر میرے پاس آئیں اور کہیں گے: اے محمد! آپ ہی ہماری شفاعت فرمائیے، تاکہ ہمارا حساب ہو جائے۔ میں کہوں گا: ہاں میں ہوں شفاعت کے لیے۔ پھر جب الله تعالیٰ فیصلہ کرنا چاہے گا تو ایک منادی پکارے گا: کہاں ہیں احمد (ﷺ) اور اُن کی امت؟ ہم ہی سب سے آخری اور سب سے پہلے ہیں، ہم سب اُمتوں سے پیچھے آئے اور سب سے سے پہلے حساب ہمارا ہوگا۔
اِسے امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
30. عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوتِینَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الوضوئ، باب البول في الماء الدائم، 1: 94، الرقم: 236، وأیضًا في کتاب الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ، 1: 299، الرقم: 836، وأیضًا في کتاب الجمعۃ، باب ھل علی من لم یشھد الجمعۃ غسل من النساء والصبیان، 1: 305، الرقم: 856، ومسلم في الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب ھدایۃ ھذہ الأمۃ لیوم الجمعۃ 2: 586، الرقم: 855، والنسائي في السنن، کتاب الجمعۃ، باب إیجاب الجمعۃ، 3: 85، الرقم: 1367، والبیہقي في السنن الصغری، 1: 367، الرقم: 267
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم آخری ہیں اور قیامت کے روز سب سے پہلے ہوں گے۔ بات صرف اتنی ہے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں ان کے بعد دی گئی۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ وَعَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ حُذَیْفَۃَ رضوان اللہ علیہم اجمعین قَالَا: قَالَ: رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ وَمِنْهُ: نَحْنُ الْآخِرُوْنَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْیَا وَالْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمَقْضِيُّ لَهُمْ قَبْلَ الْخَـلَائِقِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَہ وَأَبُوْ عَوَانَۃَ.
أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب إیجاب الجمعۃ، 2: 586، الرقم: 856، وابن ماجہ في السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب في فرض الجمعۃ، 1: 344، الرقم: 1083، وأبو عوانۃ في المسند، 1: 150، والبیہقي في شعب الإیمان، 3: 89، الرقم: 2967، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 1: 282، الرقم: 1044، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 2: 592.
ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ربعی بن خراش رضی اللہ عنہما حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم دنیا والوں کے اعتبار سے آخر ہیں اور قیامت کے دن سب سے اوّل ہوں گے جن کا فیصلہ قیامت کے دن سب سے پہلے ہو گا۔
اِسے امام مسلم، ابن ماجہ اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: نَحْنُ آخِرُ الْأُمَمِ وَأَوَّلُ مَنْ یُّحَاسَبُ یُقَالُ: أَیْنَ الْأُمَّۃُ الْأُمِّیَّۃُ وَنَبِیُّهَا فَنَحْنُ اْلآخِرُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالدَّیْلَمِيُّ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1: 281، الرقم: 2546، وابن ماجہ في السنن، کتاب الزھد، باب صفۃ أمۃ محمد ﷺ، 2: 1434، الرقم: 4290، والدیلمي في مسند الفردوس، 4: 282، الرقم: 6833، وذکرہ العسقلاني في فتح الباري، 11: 452
ایک روایت میں حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم سب اُمتوں کے آخر پرہیں اور سب سے پہلے حساب اس اُمت کا کیا جائے گا۔ کہا جائے گا: اُمی اُمت اور اس کے نبی کہاں ہیں؟سو ہم اول بھی ہیں اور آخر بھی۔
اسے امام احمد، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ میں، اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: نَحْنُ اْلآخِرُوْنَ وَالْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ.
أخرجہ ابن حبان في الصّحیح، 8: 11، الرقم: 3217
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم زمانہ کے اعتبار سے آخری اور روزِ قیامت (حساب کے اعتبار سے) سب سے پہلے ہوں گے۔
اِسے امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ مَکْحُوْلٍ: قَالَ فِي حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: بَلْ یَا یَهُوْدِيُّ، أَنْتُمُ الْأَوَّلُوْنَ وَنَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ.
أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 327، الرقم: 31803
حضرت عبد اللہ بن مالک، حضرت مکحول سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بلکہ اے یہودی! تم زمانہ کے اعتبار سے پہلے ہو اور ہم آخری لیکن روزِ قیامت سبقت لے جانے والے ہم ہیں۔
اسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ الْعَسْقَـلَانِيُّ فِي الْفَتْحِ: أَي الآخِرُوْنَ زَمَانًا الْأَوَّلُوْنَ مَنْزِلَۃً، وَالْمُرَادُ أَنَّ هٰذِهِ الْأُمَّۃَ وَإِنْ تَأَخَّرَ وُجُوْدُھَا فِي الْأُمَمِ الْمَاضِیَّۃِ فَھِيَ سَابِقَۃٌ لَھُمْ فِي الْآخِرَۃِ.
ذکرہ العسقلاني في فتح الباري، 2: 354
اس حدیث مبارکہ کے تحت حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباري میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا: یعنی زمانے کے اعتبار سے آخری، درجہ کے اعتبار سے اوّل اور اس سے مراد یہ ہے کہ اُمت محمدی کا وجود اگرچہ سب اُمتوں کے آخر پر ہے مگر یہ ان سے آخرت میں درجہ میں سبقت لے جانے والی ہے۔
31. عَنْ بَھْزِ بْنِ حَکِیْمٍ، عَنْ أَبِیْهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهٗ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ یَقُوْلُ فِي قَوْلِهٖ تَعَالٰی: {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران، 3: 110)} قَالَ: إِنَّکُمْ تُتِمُّوْنَ سَبْعِیْنَ أُمَّۃً، أَنْتُمْ خَیْرُھَا وَأَکْرَمُھَا عَلَی اللهِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ، وَابْنُ مَاجَہ وَالْحَاکِمُ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3: 61، الرقم: 11604، والترمذي في السنن، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ آلِ عمران، 5: 226، الرقم: 3001، وابن ماجہ في السنن، کتاب الزھد، باب صفۃ أمۃ محمد ﷺ، 2: 1433، الرقم: 4287، 4288، والحاکم في المستدرک، 4: 94، الرقم: 6987، والبیھقي في السنن الکبری، 9: 5، والطبراني في المعجم الکبیر، 19: 419، الرقم: 1012، 1023، وعبد بن حمید في المسند، 1: 156، الرقم: 411، والرویاني في المسند، 2: 115، الرقم: 924، وابن المبارک في الزھد، 1: 114، الرقم: 382
بہز بن حکیم بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمان الهٰی-{تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے} - کے بارے میں فرمایا: تم ستر اُمتوں کو مکمل کرنے والے ہو اور الله تعالیٰ کے نزدیک ان سب سے بہتر اور معزز ہو۔
اِسے امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ سے، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: نُکَمِّلُ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، سَبْعِیْنَ أُمَّۃً. نَحْنُ آخِرُھَا، وَخَیْرُھَا.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ.
أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب الزھد، باب صفۃ أمۃ محمد ﷺ، 2: 1433، الرقم: 4287
ایک اور روایت میں حضرت بہز بن حکیم اسی واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم قیامت کے دن ستر اُمتوں کی تکمیل کریں گے اور ہم ان سب سے آخری اور سب سے بہتر ہیں۔
اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِ رضی اللہ عنہ مِثْلَهٗ وَفِیْهِ: إِنَّکُمْ تُتِمُّوْنَ سَبْعِیْنَ أُمَّۃً.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3: 61، الرقم: 11604
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی ایک حدیث مروی ہے جس میں: تم ستر اُمتوں کو مکمل کرو گے کے الفاظ ہیں۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما مِثْلَهٗ.
رَوَاهُ الطَّرَسُوْسِيُّ.
أخرجہ الطرسوسي في مسند عبد الله بن عمر، 1: 27، رقم: 24
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی مضمون کی حدیث مروی ہے۔
اِسے امام طرسوسی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ قَتَادَۃَ مِثْلَهٗ.
رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَذَکَرَهُ السُّیُوْطِيُّ وَالْھِنْدِيُّ.
أخرجہ الطبري في جامع البیان في تفسیر القرآن، 3: 389، وذکرہ السیوطي في الدر المنثور، 2: 294، والہندي فيکنز العمال، 12: 314، الرقم: 34518
حضرت قتادہ سے اسی مضمون کی حدیث مروی ہے۔
اسے امام طبری نے روایت کیا ہے اور سیوطی اور ہندی نے بھی اسے بیان کیا ہے۔
32. عَنْ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ رضی اللہ عنہ فِي قِصَّۃٍ طَوِیْلَۃٍ لَّهٗ حِیْنَ جَائَتْ عَشِیْرَتُهٗ یَطْلُبُوْنَهٗ مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ، فَقَالُوْا لَهٗ: إِمْضِ مَعَنَا یَا زَیْدُ، فَقَالَ: مَا أُرِیْدُ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ بَدَلًا وَلَا غَیْرِهٖ أَحَدًا، فَقَالُوْا: یَا مُحَمَّدُ، إِنَّا مُعْطُوْکَ بِهٰذَا الْغُـلَامِ دِیَاتٍ فَسَمِّ مَا شِئْتَ، فَإِنَّا حَامِلُوْهُ إِلَیْکَ فَقَالَ: أَسْأَلُکُمْ أَنْ تَشْهَدُوْا أَنْ لَّا إِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَأَنِّي خَاتَمُ أَنْبِیَائِهٖ وَرُسُلِهٖ وَأُرْسِلُهٗ مَعَکُمْ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 3: 235، الرقم: 4946
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل واقعہ میں ہے: اُن کے قبول اسلام کے بعد اُن کا خاندان انہیں واپس لے جانے کے لیے رسول الله ﷺ کے پاس آیا۔ اُنہوں نے حضرت زید سے کہا: اے زید! ہمارے ساتھ چلو تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں نہ تو رسول الله ﷺ کے بدلہ میں کچھ لیناچاہتا ہوں اور نہ ہی آپ ﷺ کے سوا کسی کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ان کے خاندان والوں نے کہا: اے محمد! ہم اس لڑکے کے بدلے آپ کو ہر طرح کا معاوضہ دیں گے۔ آپ جس چیز کا نام لیں گے ہم آپ کی خدمت میں حاضر کر دیں گے۔ اِس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تم سے صرف اس بات کا مطالبہ کرتا ہوں کہ تم اس بات کی گواہی دو: الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں الله تعالیٰ کے انبیاء و رسل کا خاتم ہوں۔ اس گواہی پر میں اس لڑکے کو تمہارے ساتھ روانہ کر دوں گا۔
اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
33. عَنْ إِبْرَاهِیْمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَۃَ قَالَ: قَالَ لِيْ طَلْحَۃُ بْنُ عَبْدِ اللهِ حَضَرْتُ سُوْقَ بُصْرَی فَإِذَا رَاهِبٌ فِي صَوْمَعَتِهٖ یَقُوْلُ: سَلُوْا أَهْلَ هٰذَا الْمَوْسَمِ أَفِیْهِمْ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْحَرَمِ؟ قَالَ طَلْحَۃُ: قُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا. فَقَالَ: هَلْ ظَهَرَ أَحْمَدُ بَعْدُ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَمَنْ أَحْمَدُ؟ قَالَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ هٰذَا شَهْرُهُ الَّذِيْ یَخْرُجُ فِیْهِ وَهُوَ آخِرُ الْأَنْبِیَاءِ مَخْرِجُهٗ مِنَ الْحَرَمِ وَمُهَاجِرُهٗ إِلٰی نَخْلٍ وَحَرَّۃَ وَسِبَاحٍ فَإِیَّاکَ أَنْ تَسْبِقَ إِلَیْهٖ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 3: 416، الرقم: 5586، وذکرہ المزي في تہذیب الکمال، 13: 414، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3: 215، والأصبہاني في الدلائل النبوۃ، 1: 50
ابراہیم بن محمد بن طلحہ کہتے ہیں کہ مجھے طلحہ بن عبد الله نے کہا: میں بصریٰ کے بازار میں تھا تو وہاں ایک راہب اپنے گرجے میں کہہ رہا تھا: اس اجتماع والوں سے پوچھو کیا ان لوگوں میں کوئی اہل حرم میں سے ہے؟ طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ہاں میں ہوں تو اس نے کہا: کیا احمد ظاہر ہو گئے ہیں؟ طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یہ احمد کون ہیں؟ اس راہب نے کہا: یہ احمد بن عبد الله بن عبد المطلب ہیں۔ یہ ان کا مہینہ ہے جس میں دنیا میں تشریف لائیں گے اور وہ آخری نبی ہیں۔ آپ کی جائے ولادت حرم ہے اور آپ کی ہجرت گاہ کھجوروں والی سرزمین ہے اور حرہ اور سباح والی زمین ہے۔ ان کے ساتھ مقابلہ سے گریز کرنا۔
اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
34. عَنْ خَلِیْفَۃَ بْنِ عَبْدَۃَ بْنِ جَرْوَلٍ قَالَ: سَأَلْتَ مُحَمَّدَ بْنَ عَدِيِّ بْنِ رَبِیْعَۃَ بْنِ سُوَائَۃَ بْنِ جُشْمٍ کَیْفَ سَمَّاکَ أَبُوْکَ مُحَمَّدٌ فِي الْجَاھِلِیَّۃِ؟ قَالَ: أَمَا إنِّيْ قَدْ سَأَلْتُ أَبِيْ عَمَّا سَأَلْتَنِي عَنْهُ، فَقَالَ: خَرَجْتُ رَابِعَ أَرْبَعَۃٍ مِنْ بَنِيْ تَمِیْمٍ أَنَا أَحَدُھُمْ وَسُفْیَانُ بْنُ مُجَاشِعِ بْنِ دَارِمٍ وَأُسَامَۃُ بْنُ مَالِکِ بْنِ جُنْدُبِ بْنِ الْعَنْبَرِ وَیَزِیْدُ بْنُ رَبِیْعَۃَ بْنِ کَنَابِیَّۃَ بْنِ حَرْقُوْصِ بْنِ مَازِنٍ بِزَیْدِ بْنِ جِفْنَۃَ بْنِ مَالِکِ بْنِ غَسَّانَ بِالشَّامِ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الشَّامَ نَزَلْنَا عَلٰی غَدِیْرٍ عَلَیْهِ شَجَرَاتٌ لِدَیْرَانِيِّ یَعْنِيْ صَاحِبَ صَوْمَعَۃٍ، فَقُلْنَا: لَوِ اغْتَسَلْنَا مِنْ هٰذَا الْمَاءِ وَادَّھَنَّا وَلَبِسْنَا ثِیَابَنَا، ثُمَّ أَتَیْنَا صَاحِبَنَا فَأَشْرَفَ عَلَیْنَا الدَّیْرَانِيُّ فَقَالَ: إِنَّ هٰذِهٖ لُغَۃٌ، مَا هِيَ بِلُغَۃِ أَهْلِ الْبَلَدِ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ، نَحْنُ قَوْمٌ مِنْ مُضَرَ، قَالَ: مِنْ أَيِّ مُضَرَ؟ قُلْنَا: مِنْ خِنْدِفٍ، قَالَ: أَمَا إِنَّهٗ سَیُبْعَثُ مِنْکُمْ وَشِیْکًا نَبِيٌّ، فَسَارِعُوْا وَخُذُوْا بِحَظِّکُمْ مِنْهُ، تَرْشُدُوْا، فَإِنَّهٗ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، فَقُلْنَا: مَا اسْمُهٗ؟ فَقَالَ: مُحَمَّدٌ۔ فَلَمَّا انْصَرَفْنَا مِنْ عِنْدِ ابْنِ جِفْنَۃَ وُلِدَ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنَّا غُلَامٌ، فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا، قَالَ الْعَلَاءُ: قَالَ قَیْسُ بْنُ عَاصِمٍ لِلنَّبِيِّ ﷺ: تَدْرِيْ مَنْ أَوَّلُ مَنْ عَلِمَ بِکَ مِنَ الْعَرَبِ قَبْلَ أَنْ تُبْعَثَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: بَنُوْ تَمِیْمٍ وَقَصَّ عَلَیْهِ هٰذِهِ الْقِصَّۃَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 17: 111، الرقم: 273، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 8: 423، الرقم: 13888، وابن کثیر في البدایۃ والنھایۃ، 2: 331، والعسقلاني في الإصابۃ في تمییز الصحابۃ، 6: 25، 338، والسیوطي في الخصائص الکبري، 1: 40، والحلبي في السیرۃ الحلبیۃ، 1: 133
خلیفہ بن عبدہ بن جرول کہتے ہیں میں نے محمد بن عدی بن ربیعہ بن سوائۃ بن جشم سے پوچھا: تمہارے باپ نے جاہلیت میں تمہارا نام محمد کیسے رکھا؟ انہوں نے کہا: میں نے اپنے باپ سے یہی سوال پوچھا جو تم مجھ سے پوچھا ہے تو انہوں نے کہا: ہم بنو تمیم سے چار افراد نکلے، میں ان میں چوتھا تھا۔ دیگر افراد میں سفیان بن مجاشع بن دارم اور اسامہ بن مالک بن جندب بن العنبر اور یزید بن ربیعہ بن کنابیہ بن حرقوص بن مازن، ہم زید بن جفنہ بن مالک بن غسان کے ساتھ شام کی طرف سفر کے لیے گئے۔ پس جب ہم شام پہنچ گئے تو ہم ایک تالاب کے پاس اترے جس پرایک راہب کے درخت تھے۔ ہم نے کہا: پہلے ہم اس پانی سے غسل کرتے ہیں، تیل لگاتے ہیں اور کپڑے پہنتے ہیں، پھر اپنے صاحب کے پاس آئیں گے۔ ہمیں راہب نے دیکھا تو کہا: تمہاری زبان اس ملک والوں کی زبان نہیں ہم نے کہا: ہاں ہم مضر قبیلے سے ہیں اس نے کہا کہ کس مضر سے ہم نے کہا خندف سے۔ اس نے کہا: تو سنو! عنقریب تمہاری قوم میں سے ایک نبی مبعوث ہوں گے۔ پس جلدی کرو اور (اس خوش بختی میں سے) اپنا حصہ لے لو۔ تم ان سے ہدایت پاؤ گے وہ خاتم النبیین ہیں۔ ہم نے کہا: ان کا نام کیا ہو گا؟ اس نے کہا: محمد (ﷺ)۔ پس جب ہم ابن جفنہ سے لوٹے تو ہم میں سے ہر ایک کے گھر بیٹا پیدا ہوا، سو ہر ایک نے اس کا نام محمد رکھا۔ علاء کہتے ہیں، قیس نے عاصم نے حضور نبی اکرم ﷺ سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی بعثت سے پہلے عربوں میں سب سے پہلے آپ کو کون جانتا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں اس نے کہا: بنو تمیم اور پھر آپ ﷺ کو یہ قصہ سنایا۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
35۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَأَحْسِنُوْا الصَّلَاۃَ عَلَیْهِ فَإِنَّکُمْ لَا تَدْرُوْنَ لَعَلَّ ذٰلِکَ یُعْرَضُ عَلَیْهِ۔ قَالَ: فَقَالُوْا لَهٗ: فَعَلِّمْنَا قَالَ: قُوْلُوْا: اَللّٰھُمَّ، اجْعَلْ صَلَاتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَإِمَامِ الْمُتَّقِیْنَ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ، مُحَمَّدٍ، عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ وَإِمَامِ الْخَیْرِ وَقَائِدِ الْخَیْرِ وَرَسُوْلِ الرَّحْمَۃِ، اَللّٰھُمَّ ابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا یَغْبِطُهٗ بِهِ الْأَوَّلُوْنَ وَالآخِرُوْنَ، اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ۔ اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَہ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْ یَعْلٰی.
أخرجہ ابن ماجہ في السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب الصلاۃ علی النبي ﷺ، 1: 293، الرقم: 906، وعبد الرزاق في المصنف، 2: 213، الرقم: 3109، وأبو یعلی في المسند، 9: 175، الرقم: 5267، والشاشي في المسند، 2: 89، الرقم: 611، والبیہقي في شعب الإیمان، 2: 208، الرقم: 1550
حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا: جب تم حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں درود بھیجو تو بڑے احسن انداز میں آپ ﷺ پر درود بھیجو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ یہ درود آپ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: آپ ہمیں سکھائیں کہ ہم حضور ﷺ پر درود کیسے بھیجیں؟ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم یوں کہا کرو: اے میرے الله! تو اپنا درود و رحمت اور برکتیں تمام رسولوں کے سردار، اہلِ تقویٰ کے امام اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ اپنے بندے اور رسول کے لیے خاص فرما جو کہ بھلائی اور خیر کے امام اور قائد ہیں اور رسول رحمت ہیں۔ اے میرے الله! آپ ﷺ کو اس مقام محمود پر پہنچا جس پر اولین اور آخرین کے لوگ رشک کرتے ہیں۔ اے میرے الله! حضرت محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر درود بھیج جس طرح کہ تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر درود بھیجا بے شک تو تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے۔ اے میرے الله! تو حضرت محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کو برکت عطاء فرما جس طرح تونے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل کو برکت عطاء فرمائی بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اوربزرگی والا ہے۔
اسے امام ابن ماجہ، عبد الرزاق اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃِ سَـلَامَۃَ بْنِ الْکِنْدِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: کَانَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ یُعَلِّمُ النَّاسَ الصَّـلَاۃَ عَلٰی نَبِيِّ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ، دَاحِيَ الْمَدْحُوَّاتِ، وَبَارِیَٔ الْمَسْمُوْکَاتِ، وَجَبَّارَ الْقُلُوْبِ عَلٰی فِطْرَاتِھَا شَقِیِّھَا وَسَعِیْدِھَا، اجْعَلْ شَرَائِفَ صَلَوَاتِکَ وَنَوَامِي بَرَکَاتِکَ، وَرَافِعَ تَحِیَّتِکَ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ الْخَاتِمِ لِمَا سُبِقَ، وَالْفَاتِحِ لِمَا أُغْلِقَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 9: 43، الرقم: 9089، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 6: 66، الرقم: 29520، وذکرہ القاضي عیاض في الشفائ، 1: 561، الرقم: 2392، والہیثمي في مجمع الزوائد، 10: 163
حضرت سلامہ بن کندی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو حضور نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ یوں سکھاتے تھے، آپ رضی اللہ عنہ فرماتے: اے اللہ! اے زمینوں کو پھیلانے والے! اے ساتوں آسمانوں کو پیدا فرمانے والے! اور اے خوش بخت اور بدبخت فطرت کے حامل دلوں کے جوڑنے والے! تو اپنی عظیم رحمتوں اور بڑھنے والی برکات اور اپنے بلند پایہ تحیات کو اپنے (کامل) بندے اور رسول پر بصورتِ درود بھیج جو سابقہ شریعتوں کے خاتم اور (حکمت و اسرار کے) بند خزانوں کے کھولنے والے۔
اِسے امام طبرانی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
36. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْهِجْرَۃِ فَقَالَ لَهٗ: یَا عَمِّ، أَقِمْ مَکَانَکَ الَّذِيْ أَنْتَ بِهٖ، فَإِنَّ اللهَ تعالیٰ یَخْتِمُ بِکَ الْهِجْرَۃَ کَمَا خُتِمَ بِي النُّبُوَّۃُ.
رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ وَالرُّوْیَانِيُّ.
أخرجہ أبو یعلی في المسند، 5: 55، الرقم: 26246، والطبراني في المعجم الکبیر، 6: 154، الرقم: 5828، والرویاني في المسند، 2: 214، الرقم: 1061، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 9: 269، والذہبي في سیر أعلام النبلائ، 2: 99
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں حضرت عباس بن عبد المطلب نے حضور نبی اکرم ﷺ سے ہجرت کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: اے چچا! آپ جہاں ہیں وہیں رہیں۔ بے شک الله تعالیٰ آپ پر ہجرت کو ختم فرمائے گا جیسے کہ مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔
اِسے امام ابو یعلی نے، طبرانی اور رویانی نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی اللہ عنہ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِنْ بَدْرٍ وَمَعَهٗ عَمُّهُ الْعَبَّاسُ قَالَ لَهٗ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، لَوْ أَذِنْتَ لِي فَخَرَجْتُ إِلٰی مَکَّۃَ فَهَاجَرْتُ مِنْهَا أَوْ قَالَ: فَأُهَاجِرُ مِنْهَا؟ فَقَال رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا عَمِّ، اطْمَئِنْ فَإِنَّکَ خَاتَمُ الْمُهَاجِرِیْنَ فِي الْهِجْرَۃِ کَمَا أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ فِي النُّبُوَّۃِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ.
أخرجہ أحمد بن حنبل، فضائل الصحابۃ، 2: 941، الرقم: 1812، وذکرہ الہندي في کنز العمال، 13: 483، الرقم: 7340
ایک اور روایت میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے: جب حضور نبی اکرم ﷺ بدر سے واپس تشریف لائے اور آپ کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول الله! کاش آپ مجھے مکہ کی طرف کوچ کرنے اور وہاں سے ہجرت کرنے کی اجازت عطا فرمائیں تو حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے چچا جان! مطمئن ہو جائیں، آپ ہجرت میں سب سے آخری مہاجر ہیں، جس طرح میں نبوت میں سب سے آخری نبی ہوں۔
اِسے امام احمد نے فضائل الصحابۃ میں روایت کیا ہے۔
37. عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ رضی اللہ عنہ فِی رِوَایَۃٍ طَوِیْلَۃٍ، فَأَتَانِي آتٍ وَأَنَا أُسَبِّحُ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، إِنَّ زَیْدًا (1) قَدْ تَکَلَّمَ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، فَجِئْتُ مُسْرِعًا فَأَتَیْتُهٗ وَقَدْ حَضَرَهٗ رَهْطٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَهُوَ یَقُوْلُ: أَوْ یُقَالُ: عَلٰی لِسَانِهِ الأَوْسَطِ (وَمِنْ کَـلَامِهٖ) أَحْمَدُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ وَبَرَکَاتُهٗ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
(1) قَالَ الْبُخَارِيُّ فِي التَّارِیْخِ الْکَبِیْر، 3: 283، الرقم: 1281: زید بن خارجۃ ابن أبي زھیر الخزرجي الأنصاری شھد بدرا توفي زمان عثمان ھو الّذي تکلّم بعد الموت
امام بخاری ’التاریخ الکبیرمیں لکھتے ہیں: ’زید بن خارجہ بن ابی زہیر الخزرجی الانصاری غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں وفات پائی۔ یہی وہ صحابی ہیں جنہوں نے بعد ازوفات کلام کیا۔‘
أخرجہ ابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 1: 74، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 5: 180
حضرت نعمان بن بشیر سے طویل روایت میں ہے کہ پس میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا کہ بے شک زید نے بعد از وفات کلام کیا ہے۔ میں تیزی سے ان کے پاس آیا تو ان کے پاس انصار کی ایک جماعت موجود تھی اور وہ کہہ رہے تھے یا ان کی زبان پر جاری تھا: (ان کے کلام میں سے یہ ہے) احمد (یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ ) اللہ کے رسول سب سے آخری نبی ہیں۔ یا رسول اللہ! آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی برکتیں نازل ہوں۔
اِسے امام ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
38. عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ قَالَ: ذَکَرَ الْحَسَنُ بْنُ أَبِي الْحَسَنِ عَنْ سَبْعَۃِ رَهْطٍ شَهِدُوْا بَدْرًا قَالَ وَهْبٌ: وَقَدْ حَدَّثَنِيْ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہما کُلُّهُمْ رَفَعُوا الْحَدِیْثَ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ (ومن ھذ الحدیث) فَیَقُوْلُ نُوْحٌ لِمُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهٖ: ھَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّي بَلَّغْتُ قَوْمِي الرِّسَالَۃَ وَاجْتَھَدْتُ لَھُمْ بِالنَّصِیْحَۃِ وَجَھَدْتُ أَنِ اسْتَنْقِذَھُمْ مِنَ النَّارِ سِرًّا وَجِھَارًا، فَلَمْ یَزِدْھُمْ دُعَائِي إِلَّا فَرَارًا فَیَقُوْلُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَأُمَّتُهٗ: فَإِنَّا نَشْھَدُ بِمَا نَشَدْتَنَا بِهٖ إِنَّکَ فِي جَمِیْعِ مَا قُلْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ فَیَقُوْلُ: قَوْمُ نُوْحٍ وَأَنِّي عَلِمْتَ هٰذَا یَا أَحْمَدُ، اَنْتَ وَأُمَّتُکَ وَنَحْنُ أَوَّلُ الْأُمَمِ وَأَنْتَ وَأُمَّتُکَ اٰخِرُ الْأُمَمِ؟
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 2: 597، الرقم: 4012، وذکرہ الہندی في کنز العمال، 2: 641، الرقم: 4680
حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں حضرت حسن بن ابی الحسن نے سات بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت کیا، اور حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے بیان کیا اور اس حدیث کو تمام لوگوں نے رسول الله ﷺ سے مرفوعًا روایت کیا ہے۔ (اس حدیث میں یہ ہے ) کہ حضرت نوح علیہ السلام حضرت محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی اُمت سے کہیں گے: کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے اپنی قوم کو (اُلوہی) پیغام پہنچا دیا تھا اور ان کی خیر خواہی کے لیے انتھک محنت کی اور انہیں دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے پوشیدہ اور اعلانیہ جدوجہد کی، مگر انہوں نے میری پکار کے جواب میں راهِ فرار اختیار کی۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اُمت جواب دیں گے: جو کچھ آپ نے فرمایا ہے سچ ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کہے گی: یا احمد(ﷺ)! آپ نے اور آپ کی اُمت نے (ہمارے بارے میں) کہاں سے جانا حالانکہ ہم پہلی اُمت ہیں جبکہ آپ آخری رسول اور آپ کی اُمت آخری اُمت ہے۔
اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
39. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ فِيْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ (الْأَعْرَابِيُّ) عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: وَاللاَّتِ وَالْعُزَّی، لَا آمَنْتُ بِکَ. وَقَدْ قَالَ لَهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا أَعْرَابِيُّ، مَا حَمَلَکَ عَلٰی أَنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ، وَقُلْتَ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَمْ تُکْرِمْ مَجْلِسِي؟ فَقَالَ: وَتُکَلِّمُنِي أَیْضًا؟ اِسْتِخْفَافًا بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَاللاَّتِ وَالْعُزَّی، لَا آمَنْتُ بِکَ أَوْ یُؤْمِنُ بِکَ ھٰذَا الضَّبُّ. فَأَخْرَجَ ضَبًّا مِنْ کُمِّهٖ وَطَرَحَهٗ بَیْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: إِنْ آمَنَ بِکَ ھٰذَا الضَّبُ آمَنْتُ بِکَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا ضَبُّ، فَتَکَلَّمَ الضَّبُّ بِکَلاَمٍ عَرَبِيٍّ مُبِیْنٍ فَھِمَهُ الْقَوْمُ جَمِیْعًا: لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، یَا رَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ تَعْبُدُ؟ قَالَ: الَّذِي فِي السَّمَاءِ عَرْشُهٗ وَفِي الْأَرْضِ سُلْطَانُهٗ وَفِي الْبَحْرِ سَبِیْلُهٗ وَفِي الْجَنَّۃِ رَحْمَتُهٗ وَفِي النَّارِ عَذَابُهٗ. قَالَ: فَمَنْ أَنَا، یَا ضَبُّ؟ قَالَ: أَنْتَ رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَکَ، وَقَدْ خَابَ مَنْ کَذَّبَکَ. فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ حَقًّا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ..
أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، 6: 126-129، الرقم: 5996، وأیضًا في المعجم الصغیر، 2: 153-155، الرقم: 948، وذکرہ أبو نعیم في دلائل النبوۃ: 377-379، والبیہقي في الدلائل النبوۃ، 6: 36-38، والہیثمي في مجمع الزوائد، 8: 292-294، وابن کثیر في شمائل الرسول، 351-353، والسیوطي في الخصائص الکبری، 2: 65
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں: پھر وہ اعرابی حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں تم پر ایمان نہیں رکھتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا: اے اعرابی! کس چیز نے تمہیں اس بات پر اُبھارا ہے کہ تم میری مجلس کی تکریم کو بالائے طاق رکھ کر ناحق گفتگو کرو؟ اس نے بے ادبی سے رسول الله ﷺ سے کہا: کیا آپ بھی میرے ساتھ ایسے ہی گفتگو کریں گے؟ اور کہا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ آپ پر ایمان نہیں لاتی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی آستین سے گوہ نکال کر حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پھینک دی اور کہا: اگر یہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو میں بھی ایمان لے آؤں گا۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے گوہ! پس گوہ نے ایسی واضح اور شستہ عربی میں کلام کیا کہ جسے تمام لوگوں نے سمجھا۔ اس نے عرض کیا: اے دوجہانوں کے رب کے رسول! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا: تم کس کی عبادت کرتی ہو؟ اس نے عرض کیا: میں اس کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمانوں میں ہے، زمین پر جس کی حکمرانی ہے اور سمندر پر جس کا قبضہ ہے، جنت میں جس کی رحمت ہے اور دوزخ میں جس کا عذاب ہے۔ آپ ﷺ نے پھر پوچھا: اے گوہ! میں کون ہوں؟ اس نے عرض کیا: آپ دو جہانوں کے رب کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ جس نے آپ کی تصدیق کی وہ فلاح پاگیا اور جس نے آپ کی تکذیب کی وہ ذلیل و خوار ہوگیا۔ اعرابی یہ دیکھ کر بول اُٹھا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ..
أخرجہ ابن سعد فيالطبقات الکبری، 1: 163
محمد بن کعب القرُظی سے روایت ہے کہ الله تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میں تمہاری اولاد میں سے بادشاہ اور انبیاء کرام مبعوث فرماؤں گا یہاں تک کہ پھر آخری حرمت والے نبی کو مبعوث فرماؤں گا جن کی اُمت بیت المقدس کا ہیکل تعمیر کرے گی اور وہ خاتم الانبیاء ہیں اور ان کا نام احمد ہے۔
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
41۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ الْجُهَنِيِّ قَالَ: خَرَجْتُ حَاجًّا فِي جَمَاعَۃٍ مِنْ قَوْمِي فِي الْجَاهِلِیَّۃِ، فَرَأَیْتُ فِي الْمَنَامِ وَأَنَا بِمَکَّۃَ نُوْرًا سَاطِعًا مِنَ الْکَعْبَۃِ، حَتّٰی وَصَلَ إِلٰی جِبَالِ یَثْرِبَ بَأَسْعَرَ جُهَیْنَۃَ فَسَمِعْتُ صَوْتًا فِي النُّوْرِ، وَهُوَ یَقُوْلُ:
انْقَشَعَتِ الظَّلْمَاءُ
وَسَطَعَ الضِّیَاءُ
وَبُعِثَ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ
ظَهَرَ الإِسْلَامُُ
وَکُسِرَتِ الْأَصْنَامُ
وَوُصِلَتِ الْأَرْحَامُ
ذَکَرَهُ الْهَیْثَمِيُّ وَالْهِنْدِيُّ.
الہیثمي في مجمع الزوائد، 8: 244، والہندي في کنز العمال، 13: 468، الرقم: 37293، وابن ھشام في السیرۃ النبویۃ، 1: 314، وابن کثیر في البدایۃ والنھایۃ، 2: 319
عمرو بن مرہ جہنی کہتے ہیں کہ میں زمانۂ جاہلیت میں اپنی قوم کی ایک جماعت کے ساتھ حج کرنے کے لیے نکلا، میں نے مکہ میں خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت روشن نور کعبہ سے نکلا اور یثرب کے پہاڑوں تک پہنچ گیا۔ میں نے اس نور میں ایک آواز سنی اور کہنے والا کہہ رہا تھا: تاریکیاں چھٹ گئیں۔ روشنی نمودار ہو گئی اور خاتم الانبیاء مبعوث کر دیئے گئے۔ پھر روشنی کو اور زیادہ چمکدار کر دیا گیا یہاں تک کہ میں نے حیرہ کے محلات دیکھے اور مدائن کو بھی اس نے روشن کر دیا۔ میں نے نور میں سے ایک آواز سنی اور کہنے والا کہہ رہا تھا: اسلام ظاہر ہو گیا، بت ٹوٹ گئے اور صلہ رحمی کر دی گئی۔
اسے امام ہیثمی اور ہندی نے بیان کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved